Pakistan Film History
An Urdu/Punjabi article on the timeline of Pakistani films.
1948 | پاکستان کی پہلی فلم
کشمیر ہمارا ہے23 جولائی 1948ء کو لاہور کے قیصر (مون لائٹ سینما) میں ہدایتکار رفیق چمن کی بنائی ہوئی پاکستان کی پہلی ڈاکومنٹری فلم "کشمیر ہمارا ہے" ریلیز ہوئی تھی۔پاکستان کا پہلا فلم سٹوڈیو16 فروری 1948ء کو پاکستان کے پہلے فلمی سٹوڈیو "پنچولی فلم سٹوڈیوز" کا افتتاح ہوا (یا بحالی ہوئی تھی) جس سے فلمسازی کا آغاز ممکن ہوا تھا۔ |
1949 | پاکستان کی پہلی سپرہٹ فلم
پاکستان کا پہلا فلمی مکالمہ18 مارچ 1949 کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار لقمان کی فلم شاہدہ (1949) کا مکالمہ "اللہ ، میری عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔۔" کسی بھی پاکستانی فلم کے لیے ریکارڈ ہونے والا پہلا مکالمہ تھا جو اداکارہ شمیم پر فلمایا گیا تھا۔ روایت ہے کہ اس اردو فلم نے دہلی اور لکھنو میں سلورجوبلیاں منائیں لیکن پاکستان میں ناکام رہی تھی۔ایورنیو پکچرز کی پہلی فلم18 نومبر 1949ء کو پاکستان کی سب سے بڑی فلم کمپنی ، ایورنیو پکچرز کی ریلیز ہونے والی پہلی فلم مندری (1949) تھی جس کے ہدایتکار داؤد چاند تھے۔ تقسیم سے قبل کی لاہور کی سپرسٹار ہیروئن راگنی کی بھی یہ پہلی پاکستانی فلم تھی جس کے ہیرو الیاس کاشمیری تھے۔ |
1950 | پاکستان کی پہلی سلور جوبلی اردو فلم
پہلی تاریخی فلمیں6 جنوری 1950ء کو کشمیر کے موضوع پر ہدایتکار ظہور راجہ کی فیچر فلم جہاد (1950) اور 3 فروری 1950ء کو تقسیم ہند کے موضوع پر ہدایتکار مسعود پرویز کی فیچر فلم بیلی (1950) ریلیز ہوئی تھیں۔ |
1951 | پہلی خاتون ہدایتکارہ
بلو میراثی7 دسمبر 1951ء کو ریلیز ہونے والی پنجابی فلم بلو (1951) کا اصل نام "میراثی" تھا جو میراثیوں کے احتجاج کے باعث بدلنا پڑا۔ یاد رہے کہ نصف صدی بعد بننے والی فلم مجاجن (2006) کا اصل نام بھی "میراثن" تھا لیکن ایک بار پھر احتجاج اپنا کام دکھا گیا تھا۔ |
1952 | بھارتی فلموں کے لیے کوٹہ سسٹم
پاکستان کی پہلی سپرہٹ نغماتی اردو فلم29 مارچ 1952ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار سبطین فضلی کی نغماتی فلم دوپٹہ (1952) پہلی فلم تھی جس نے بھارت کے فلمی سرکٹ میں بھی دھوم مچا دی تھی۔ اسی فلم سے پاکستان کے پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر کو بریک تھرو ملا تھا۔ |
1954 | بھارت سے فلم کے بدلے فلم کا معاہدہ
پہلی گولڈن جوبلی اردو فلم3 جون 1954ء کو پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی اردو فلم سسی (1954ء) ریلیز ہوئی جس نے کراچی میں سولو سلور جوبلی منائی تھی۔ ہدایتکار داؤد چاند کی اس فلم میں صبیحہ اور سدھیر مرکزی کردار تھے۔پہلی فلم پر پابندی11 اگست 1954ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار ڈبلیو زیڈ احمد کی اردو فلم روحی (1954) پہلی فلم تھی جس پر فحاشی اور عریانی کے الزامات لگا کر نمائش پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ شمی اور سنتوش مرکزی کردار تھے۔ |
1955 | کراچی کی پہلی فلم
کراچی کی پہلی پنجابی فلم28 اکتوبر 1955ء کو ریلیز ہونے والی کراچی کی کسی فلم کمپنی کی پہلی پنجابی فلم ہیر (1955) تھی جس کی شوٹنگ لاہور میں بھی ہوئی تھی۔ ہدایتکار نذیر کی اس نغماتی فلم میں سورن لتا اور عنایت حسین بھٹی مرکزی کردار تھے۔ |
1956 | پاکستان کی پہلی بلاک باسٹر فلم
پاکستان کی پہلی سندھی فلم16 مارچ 1956ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار شیخ حسن کی فلم عمر ماروی (1956) ، پاکستان کی پہلی سندھی فلم تھی جس میں نگہت سلطانہ اور فاضلانی نے مرکزی کردار کیے تھے۔پاکستان کی پہلی بنگالی فلم3 اگست 1956ء کو پاکستان کی پہلی بنگالی فلم مکھ و موکھوش (1956) بھی ریلیز ہوئی تھی۔ فلمساز جبار خان نے اس فلم میں اداکاری بھی کی تھی۔اکلوتی پنجابی/بنگالی ڈبل ورژن فلم6 جولائی 1956ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار مظفر طاہر کی فلم جبرو (1956) ، واحد پنجابی فلم تھی جس کو بنگالی زبان میں ڈب کر کے مشرقی پاکستان میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ اکمل کی بطور ہیرو یہ پہلی فلم تھی جس میں یاسمین ، ہیروئن تھی۔پاکستان کی پہلی ایکشن فلم14 ستمبر 1956ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار اشفاق ملک کی فلم باغی (1956) ، پاکستان کی پہلی سپرہٹ گولڈن جوبلی ایکشن اردو فلم تھی جس میں اداکار سدھیر کو پاکستان کے پہلے "ایکشن ہیرو" کا خطاب ملا تھا۔ مسرت نذیر ، ہیروئن تھی۔ یہی پہلی پاکستانی فلم تھی جو چین میں بھی ریلیز ہوئی اور بے حد پسند کی گئی تھی۔ہندو فنکاروں کی پاکستان آمد20 جنوری 1956ء کو ریلیز ہونے والی فلم انوکھی (1956) کے لیے بھارت سے متعدد ہندو فنکار بلائے گئے جن میں ہیروئن شیلا رومانی ، موسیقار تمرن برن اور ان کے معاون دیبو بھٹاچاریہ شامل تھے۔9 نومبر 1956ء کو ریلیز ہونے والی فلمساز جے سی انند کی فلم مس 56 (1956) کے لیے بھی تقسیم سے قبل لاہور کے معروف فنکاروں کو بلایا گیا تھا۔ مصنف آئی ایس جوہر ، گیت نگار مدھوک اور موسیقار ونود کے علاوہ ہدایتکار روپ کے شوری بھی تھے جو اپنی اداکارہ بیوی مینا شوری کے ساتھ آئے تھے لیکن پہلے اپنا شوری فلم سٹوڈیو (شاہ نور فلم سٹوڈیو) چھوڑ کر جانا پڑا ، اس بار اپنی پتنی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ بڑے بڑے فنکاروں کی آمد1956ء وہ یادگار سال تھا جب پاکستان کی فلمی تاریخ کے بہت بڑے بڑے نام سامنے آئے جن میں نیلو ، شمیم آرا ، بہار ، دیبا ، اعجاز ، حبیب ، لہری ، رضیہ ، سلطان راہی ، ساون ، احمدرشدی ، مہدی حسن ، نسیم بیگم ، اسلم ڈار ، خلیل قیصر اور خواجہ خورشید انور وغیرہ شامل تھے۔ |
1957 | فلم یکے والی کا ریکارڈ بزنس
ڈھاکہ کی فلموں کو سرکاری سرپرستی19 جون 1957ء کو مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی نے وزیر صنعت (اور بانی بنگلہ دیش) شیخ مجیب الرحمان کا پیش کردہ بل East Pakistan Film Development Corporation Bill, 1957 (EPFDC) متفقہ طور پر منظور کرلیا تھا جس سے سرکاری خرچہ پر ڈھاکہ کی فلم انڈسٹری کو فروغ دیا گیا۔ یہ سہولت مغربی پاکستان کے فلمسازوں کے پاس نہیں تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1973ء میں بھٹو دور حکومت میں پہلی بار پاکستانی فلموں کو بھی سرکاری سرپرستی دینے کی ایک ناکام کوشش کی گئی تھی۔ |
1958 | ایک اسلامی اور اصلاحی فلم
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل طالش ایک اور فلم دربار حبیب (1956) میں یاسمین کے ساتھ ہیرو تھے۔ وہ بھی ایک مذہبی فلم تھی جس میں اسلامی تاریخ کے علاوہ ایک اصلاحی ڈرامہ بھی تھا۔ جٹی سے چٹی تک20 جون 1958ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار ایم جے رانا کی پنجابی فلم جٹی (1958) کا نام جٹ برداری کے احتجاج پر "چٹی" Chatti رکھ دیا گیا تھا لیکن ریکارڈز بکس میں یہ فلم اپنے اصل نام کے ساتھ موجود رہی۔ مسرت نذیر اور سدھیر مرکزی کردار تھے۔نگار ایوارڈز17 جولائی 1958ء کو پاکستان کے پہلے نجی فلم ایوارڈز "نگار ایوارڈز" کی پہلی تقریب ہوئی جس میں بہترین فلم سات لاکھ (1957) لیکن بہترین ہدایتکار فلم وعدہ (1957) کے ڈبلیو زیڈ احمد تھے۔ اس طرح سے ایک تیر سے دو شکار کیے گئے تھے۔ یہ ایوارڈز لسانی بنیادوں پر صرف اردو فلموں کو دیے گئے تھے۔ |
1959 | تقسیم ہند پر سب سے بڑی فلم
مشرقی پاکستان کی پہلی اردو فلم29 مئی 1959ء کو ریلیز ہونے والی جاگو ہوا سویرا (1959) پہلی اردو فلم تھی جو مشرقی پاکستان میں بنائی گئی تھی۔ اس فلم کو بنانے والی ٹیم لاہور کی تھی۔ ہدایتکار اےجے کاردار کی آرٹ فلم میں مقامی اداکاروں سے کام لیا گیا تھا۔ پاکستان کی یہی پہلی فیچر فلم تھی جس کو روس کے ایک فلمی میلے میں گولڈ میڈل ملا تھا۔ |
1960 | پہلی جواں سال موت
ظریف ، پاکستان کی فلمی تاریخ کی پہلی جواں سال موت تھے جو عین عروج کے دور میں دار فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انھیں بعد از مرگ پنجابی فلم بہروپیا (1960) میں بہترین اداکار کا صدارتی ایوارڈ دیا گیا حالانکہ وہ صرف ایک مزاحیہ اداکار تھے۔ یاد رہے کہ 27 مئی 1961ء کو ایوب دور حکومت میں "صدارتی ایوارڈز" کی اکلوتی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ فلم ہمسفر8 اپریل 1960ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار شوکت ہاشمی کی اردو فلم ہمسفر (1960) مکمل طور پر مشرقی پاکستان میں فلمائی گئی تھی۔ مغربی پاکستان کی اس فلم کے سبھی فنکار لاہور سے تھے جن میں یاسمین اور اسلم پرویز ، مرکزی کرداروں میں تھے۔ |
1961 | مرکزی فلم سنسر بورڈ کا قیام
رنگین فلموں کا دور27 اکتوبر 1961ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار منشی دل کی اردو فلم گل بکاؤلی (1961) ، پاکستان کی پہلی فلم تھی جس کے سبھی گیت رنگین فلمائے گئے تھے۔ جمیلہ رزاق اور سدھیر مرکزی کردار تھے۔پہلی جنگل فلم28 اپریل 1961ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار رحیم گل کی اردو فلم ہابو (1961) ، پاکستان کی پہلی جنگل فلم تھی جس میں حسنہ اور حبیب ، روایتی جوڑی تھی۔ |
1962 | نئی بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی
جزوی رنگین فلم13 اپریل 1962ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار منشی دل کی اردو نغماتی فلم عذرا (1962) کا پہلا ہاف رنگین فلمایا گیا تھا۔ نیلو اور اعجاز مرکزی کردار تھے۔فنکاروں کی کہکشاں1962ء کا سال پاکستان کی فلمی تاریخ میں اس لحاظ سے یادگار تھا کہ اس سال بڑے بڑے فنکاروں کی ایک کہکشاں دریافت ہوئی تھی جن میں زیبا ، محمدعلی ، وحیدمراد ، شبنم ، روبن گھوش ، شبانہ ، رحمان ، رانی ، ادیب ، زلفی ، خلیفہ نذیر ، مسعودرانا ، ماسٹر عبداللہ ، خلیل احمد اور مسرور انور وغیرہ شامل تھے۔ |
1964 | اداکار رحمان کو حادثہ
پہلی مکمل رنگین فلم23 اپریل 1964ء کو پاکستان کی پہلی مکمل رنگین فلم سنگم (1964) ریلیز ہوئی جو ڈھاکہ کے فلمساز اور ہدایتکار ظہیر ریحان نے بنائی تھی۔ روزی اور ہارون مرکزی کردار تھے۔مغربی پاکستان کی پہلی مکمل رنگین فلماسی سال یعنی 20 نومبر 1964ء کو مغربی پاکستان کی پہلی مکمل رنگین فلم ایک دل دو دیوانے (1964) بھی ریلیز ہوئی تھی۔ ہدایتکار وزیرعلی کی اس فلم میں رانی ، کمال اور زینت مرکزی کردار تھے۔بیرون ملک بننے والی پہلی فلم4 دسمبر 1964ء کو سامنے آنے والی ڈھاکہ کی ایک اور فلم کاروان (1964) کی شوٹنگ پہلی بار بیرون ملک یعنی نیپال میں ہوئی تھی۔ شبنم اور ہارون مرکزی کردار تھے۔فلمسازی کے رحجان میں اضافہنئی بھارتی فلموں کی ریلیز پر پابندی کے بعد 1964ء میں پہلی بار ایک کیلنڈر ائیر میں پاکستانی فلموں کی ریلیز کی تعداد پچاس سے بڑھ گئی تھی اور ریکارڈ 73 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ |
1965 | بھارتی فلموں پر مکمل پابندی
پہلی پلاٹینم جوبلی پنجابی فلم19 نومبر 1965ء کو ریلیز ہونے والی پہلی پلاٹینم جوبلی پنجابی فلم جی دار (1965ء) تھی۔ ہدایتکار ایم جے رانا کی اس فلم کا ٹائٹل رول اداکار سدھیر نے کیا تھا۔ اسی فلم کی نمائش کے دوران رٹز سینما لاہور کی گیلری گر گئی تھی جس سے متعدد افراد ہلاک و زخمی ہو گئے تھے۔ڈبل گولڈن جوبلی کا منفرد ریکارڈ5 نومبر 1965ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار رشید اختر کی فلم ملنگی (1965) کے بارے میں روایت ہے کہ اس فلم نے ایک ہی سینما (اوڈین) پر دو بار گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ اکمل کے فلمی کیرئر کی یہ سب سے بڑی فلم تھی جس میں وہ ٹائٹل رول میں تھے۔پہلی سینما سکوپ فلم3 دسمبر 1965ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار مستفیض کی فلم مالا (1965) ، پاکستان کی پہلی سینما سکوپ رنگین فلم تھی جو ڈھاکہ میں بنائی گئی تھی۔ سلطانہ زمان اور عظیم ، فلمی جوڑی تھے۔اس سے قبل 12 اپریل 1965ء کو ہدایتکار ظہیر ریحان کی فلم بہانہ (1965) ، پاکستان کی پہلی بلیک اینڈ وہائٹ سینما سکوپ فلم تھی۔ یہ فلم کراچی میں شوٹ ہوئی تھی۔ کابوری اور رحمان مرکزی کردار تھے۔ پہلے سینچری میکر اداکارعلاؤالدین ، پاکستان کے پہلے اداکار تھے جنھوں نے سو فلموں میں کام کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ |
1966 | پہلا بڑا فلمی قتل
خلیل قیصر کے کریڈٹ پر بین الاقوامی معیار کی شاہکار فلم شہید (1962) کے علاوہ سپرہٹ فلم فرنگی (1964) بھی تھی۔ انھوں نے ایک آرٹ فلم کلرک (1960) میں انتہائی متاثر کن اداکاری بھی کی تھی ، مسرت نذیر ، ہیروئن تھی۔ پہلی پلاٹینم جوبلی اردو فلم18 مارچ 1966ء کو کراچی میں ہدایتکار پرویز ملک کی سپرہٹ نغماتی اور رومانوی اردو فلم ارمان (1966ء) نے مسلسل 34 ہفتے چل کر پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی اردو فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ وحیدمراد کو اسی فلم سے سپرسٹار کا درجہ ملا تھا۔ زیبا ہیروئن تھی۔روس میں پاکستانی فلم کی مقبولیت2 ستمبر 1966ء کو فلمساز اور ہدایتکار اقبال شہزاد کی شاہکار فلم بدنام (1966) ریلیز ہوئی جس کو سترہ مختلف زبانوں میں ڈب کر کے روس کے سینماؤں میں ریلیز کیا گیا تھا۔ اس فلم کی کمائی سے بھی ایک فلم سٹوڈیو بنا تھا۔سن آف پاکستان12 اگست 1966ء کو ریلیز ہونے والی بنگالی فلم سن آف پاکستان (1966) ، پہلی فلم تھی جس میں لفظ "پاکستان" آیا تھا۔۔! |
1967 | اکمل کی اچانک موت
پنجابی فلموں میں سدھیر کے بعد دوسرے سپرسٹار ہیرو ، اکمل ، اپنے فلمی کیرئر کے انتہائی عروج پر جوانی ہی میں زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ البتہ ان کی بے وقت موت سے فلمی سرگرمیوں پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا کیونکہ متبادل کے طور پر پنجابی فلموں میں اعجاز اور حبیب جیسے خوبرو ہیروز کی آمد ہوئی تھی۔ مشرقی پاکستان کی کامیاب ترین اردو فلم22 مارچ 1967ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار احتشام کی مشرقی پاکستان کی سب سے کامیاب ڈبل ورژن بنگالی/اردو فلم چکوری (1967) میں کراچی کے نوجوان گلوکار ندیم نے ہیرو کے طور پر زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔ اس فلم نے کراچی میں 20 ہفتوں میں پلاٹینم جوبلی منائی تھی۔ شبانہ نے ٹائٹل رول کیا تھا۔یورپ میں بنی پہلی پاکستانی فلم6 اکتوبر 1967ء کو ریلیز ہونے والی رنگین اردو فلم رشتہ ہے پیار کا (1967) پہلی پاکستانی فلم تھی جس کی شوٹنگ ایران، لبنان، شام، مصر اور برطانیہ میں ہوئی تھی۔ زیبا اور وحید مراد کی اس فلم کے ہدایتکار قمرزیدی تھے۔ |
1968 | پہلی بار سو فلمیں ریلیز ہوئیں
پہلی رنگین پنجابی فلم22 دسمبر 1968ء کو ریلیز ہونے والی پنجابی فلم 5 دریا (1968) ، پاکستان کی پہلی پنجابی فلم تھی۔ اکمل کی یہ اکلوتی رنگین فلم ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی تھی۔ فردوس ہیروئن جبکہ ہدایتکار جعفر ملک تھے۔ |
1969 | پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم
کراچی میں پہلی گولڈن جوبلی پنجابی فلم13 جون 1969ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار ایس اے بخاری کی فلم دلاں دے سودے (1969) پہلی پنجابی فلم تھی جس نے کراچی میں بھی گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی پہلی فلم تھی جس نے لاہور اور کراچی میں بیک وقت گولڈن جوبلیاں منائی تھیں۔ نغمہ ، فردوس اور اعجاز مرکزی کردار تھے۔ائر فورس پر بنائی گئی فلم11 دسمبر 1969ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار اے جے کاردار کی فلم قسم اس وقت کی (1969) ، پاکستان ایر فورس پر بنائی جانے والی پہلی فلم تھی جس میں شبنم اور طارق عزیز نے مرکزی کردار کیے تھے۔پہلی خاتون موسیقارممتاز گلوکارہ مالا کی بہن شمیم نازلی کو پاکستان کی پہلی خاتون موسیقار ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جب اس نے فلم بہاریں پھر بھی آئیں گی (1969) کی موسیقی ترتیب دی تھی۔پہلے سینچری میکر ہیروحبیب ، پاکستان کے پہلے فلمی ہیرو تھے جنھوں نے سو سے زائد فلموں میں کام کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ |
1970 | پاکستان کی پہلی ہزار فلمیں
لاہور اور کراچی میں سنسر بورڈ کی شاخیں28 اگست 1970ء کو فلم اور سینما انڈسٹری نے سابق ایوب حکومت کی ناجائز پابندیوں اور بے جا ٹیکسوں کے خلاف ہڑتال کر دی تھی۔ جنرل یحییٰ خان کی مارشل لاء حکومت نے مطالبات مانتے ہوئے لاہور اور کراچی میں بھی سنسربورڈ کی شاخیں قائم کر دی تھیں۔پہلی پشتو فلم26 جون 1970ء کو کراچی میں بنائی گئی پاکستان کی پہلی پشتو فلم یوسف خان شیر بانو (1970) ریلیز ہوئی تھی۔ ہدایتکار عزیز تبسم کی اس سپرہٹ فلم میں یاسمین خان ، بدرمنیر اور نعمت سرحدی ، مرکزی کرداروں میں تھے۔پہلی گجراتی فلمیکم دسمبر 1970ء کو عیدالفطر کے دن کراچی میں میمن برادری کے لیے بنائی گئی پہلی گجراتی فلم ماں تے ماں (1970) کی نمائش ہوئی تھی۔ ہدایتکار اقبال اختر کی اس فلم میں شائستہ قیصر اور آغا سجاد نے لیڈنگ رولز کیے تھے۔کراچی میں پلاٹینم جوبلی پنجابی فلمیںاسی سال کراچی میں دو پنجابی فلموں نے پہلی بار پلاٹینم جوبلی کی تھی۔ پہلی فلم ہدایتکار خلیفہ سعید کی انورا (1970ء) تھی۔ نغمہ ، اعجاز اور ساون مرکزی کردار تھے۔ دوسری فلم ہدایتکار وحید ڈار کی ماں پتر (1970) تھی جس میں فردوس ، سدھیر ، نبیلہ اور مظہرشاہ مرکزی کردار تھے۔ایک فلم بغیر ہیرو ہیروئن کے7 اگست 1970ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار وزیرعلی کی فلم ہم لوگ (1970) میں کوئی روایتی ہیرو ہیروئن نہیں تھے بلکہ دو بچے ، جگنو اور مراد ، مرکزی کردار تھے۔ایک فلم کی دو کہانیاں25 دسمبر 1970ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار شورلکھنوی کی اردو فلم چاند سورج (1970) دو مختلف کہانیوں پر مشتمل تھی۔ پہلے ہاف کے مرکزی کردار روزینہ اور وحیدمراد تھے جبکہ دوسرے ہاف کے شبانہ اور ندیم۔پہلے سینچری میکر موسیقارجی اے چشتی ، پاکستان کے پہلے موسیقار تھے جنھوں نے فلموں کی سینچری مکمل کی تھی۔ |
1971 | مشرقی پاکستان کی علیحدگی
ڈھاکہ میں آخری اردو فلم ہدایتکار مستفیض کی پائل (1970) بنائی گئی لیکن موجودہ پاکستان میں ڈھاکہ کی آخری فلم ، ہدایتکار ظہیر ریحان کی مہربان (1971) ریلیز ہوئی تھی۔ جاپان میں بنی ہوئی پہلی فلم4 جون 1971ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار جمیل اختر کی اردو فلم خاموش نگاہیں (1971) ، پاکستان کی پہلی فلم تھی جس کی شوٹنگ جاپان میں کی گئی تھی۔ روزینہ ، وحیدمراد اور منورظریف مرکزی کردار تھے۔لندن میں بنی پہلی پنجابی فلم20 نومبر 1971ء کو "متحدہ پاکستان" کی آخری عیدالفطر تھی جس پر ریلیز ہونے والی ہدایتکار حیدر چوہدری کی رنگین فلم پہلوان جی ان لندن (1971) پہلی پنجابی فلم تھی جس کی شوٹنگ لندن میں ہوئی تھی۔ ساون نے مرکزی کردار کیا تھا جبکہ نغمہ اور حبیب دیگر اہم کردار تھے۔ |
1972 | پہلی ڈائمنڈ جوبلی پنجابی فلم
پہلی پنجابی/پشتو ڈبل ورژن فلم30 جون 1972ء کو ریلیز ہونے والی پتر دا پیار (1972) پہلی پنجابی فلم تھی، جسے پشتو زبان میں بھی ڈب کیا گیا تھا۔ فردوس ، سدھیر اور سلمیٰ ممتاز اہم کردار تھے۔پہلی رنگین پشتو فلم15 دسمبر 1972ء کو ریلیز ہونے والی پاکستان کی پہلی رنگین پشتو فلم علاقہ غیر (1972) تھی۔ ہدایتکار عنایت اللہ خان کی اس فلم کے مرکزی کردار ثریا خان اور بدرمنیر تھے۔رقاصہ نگو کا قتل5 جنوری 1972ء کو فلموں کی معروف رقاصہ نگو کو اس کے خاوند نے ذاتی وجوہات کی بنا پر قتل کر دیا تھا۔ |
1973 | پہلی سرائیکی فلم
پہلی گولڈن جوبلی پشتو فلم28 دسمبر 1973ء کو ریلیز ہونے والی گولڈن جوبلی پشتو فلم اوربل (1973ء) ، پشاور میں گولڈن جوبلی کرنے والی پہلی فلم تھی۔ ہدایتکار ممتاز علی خان کی اس یادگار فلم میں بدرمنیر ، یاسمین خان ، آصف خان اور نعمت سرحدی مرکزی کرداروں میں تھے۔ایک فلم کے تین ہدایتکار23 نومبر 1973ء کو ریلیز ہونے والی اردو فلم ایک تھی لڑکی (1973) میں رانی اور شاہد تھے لیکن اس فلم کے تین ہدایتکار تھے ، حسن طارق ، احتشام اور شریف نیر ، پھر بھی یہ ایک ناکام فلم تھی۔ |
1974 | پاکستان کی پہلی فلم پالیسی
پاکستان کی پہلی بین الاقوامی فلم29 مارچ 1974ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار اقبال شہزاد کی فلم ٹائیگر گینگ (1974) ، پاکستان کی پہلی فلم تھی جو جرمنی اور اٹلی کے تعاون سے بنائی گئی تھی جس میں زیبا اور محمدعلی کے علاوہ بہت سے بین الاقوامی اداکار بھی تھے۔کراچی میں پہلی ڈائمنڈ جوبلی پنجابی فلم23 اگست 1974ء کو ریلیز ہونے والی خطرناک (1974ء) ، پہلی پنجابی فلم تھی جس نے کراچی میں ڈائمنڈ جوبلی کی تھی۔ ہدایتکار رحمت علی کی اس بدنام زمانہ فلم میں یوسف خان ہیرو تھے جبکہ نیلو کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ وہ واحد اداکارہ ہے کہ جس کی اردو اور پنجابی فلموں نے ڈائمنڈ جوبلیاں منائی تھیں۔پہلی سندھی/پنجابی ڈبل ورژن فلم18 اکتوبر 1974ء کو نمائش کے لیے پیش کی جانے والی سندھی فلم غیرت جو سوال (1974) پہلی ڈبل ورژن سندھی/پنجابی فلم تھی جس کا پنجابی ورژن شہ زور (1976) کی صورت میں 19 نومبر 1976ء کو پیش کیا گیا تھا۔ عشرت چوہدری اور کیفی مرکزی کردار تھے۔ 1974ء میں ایک بار پھر سو سے زائد فلمیں ریلیز ہوئیں۔ |
1975 | پرتشدد پنجابی فلموں کا دور
اردو فلموں کا سنہرا دنیکم اگست 1975ء کو کراچی میں ایک ہی دن میں دو ڈائمنڈ جوبلی فلمیں ، ہدایتکار ایس سلیمان کی اناڑی اور ہدایتکار پرویز ملک کی پہچان (1975) ریلیز ہوئیں۔ ان دونوں فلموں میں اردو فلموں کی مقبول ترین جوڑی شبنم اور ندیم موجود تھے۔پہلی اردو/پشتو ڈبل ورژن فلم12 دسمبر 1975ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار ممتاز علی خان کی فلم دلہن ایک رات کی (1975) پہلی اردو/پشتو ڈبل ورژن فلم تھی۔ بدرمنیر کی یہ اکلوتی اردو فلم ہے جس نے ڈائمنڈ جوبلی منائی تھی۔فلم اللہ اکبر31 اکتوبر 1975ء کو ایک ڈاکومنٹری فلم اللہ اکبر (1975) ریلیز ہوئی۔ ہدایتکار رفیق چمن کی اس فلم میں اداکار محمدعلی کی آواز میں متبرک مقامات پر کمنٹری کے علاوہ مختلف قاری حضرات کی تلاوت قرآن پاک بھی سننے کو ملتی ہے۔ |
1976 | منور ظریف کا انتقال
ایک ایکسٹرا اداکار سے ایک لیجنڈری کامیڈین بنے اور پھر فلموں میں ہیرو بھی آئے۔ موت کے بعد سب سے زیادہ یاد کیے گئے۔ پہلے اداکار تھے جن کو ایسے فلمی پوسٹروں پر بھی نمایاں کیا جاتا تھا جن میں معمولی کرداروں میں ہوتے لیکن باقی کاسٹ پر بھاری ہوتے تھے۔ پاکستان کی پہلی انگلش فلم17 دسمبر 1976ء کو پاکستان میں پہلی انگریزی فلم Beyond The Last Mountain (1976) ریلیز ہوئی جس کا اردو ورژن مسافر (1976) تھا۔ فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف اور سینٹ کے ایک ممبر جاوید جبار کی سرکاری خرچہ پر بنائی گئی اس فلم میں عثمان پیرزادہ اور شمیم احمد نامی اداکارہ ، مرکزی کرداروں میں تھے۔پاکستان اور سری لنکا کی پہلی مشترکہ فلم13 اگست 1976ء کو پاکستان اور سری لنکا کی پہلی مشترکہ پروڈکشن فلم سازش (1976) ریلیز ہوئی جس میں سری لنکا سے مالنی اور پاکستان سے عثمان پیرزادہ ، مرکزی کرداروں میں تھے۔پاکستان کی پہلی بلوچی فلمپاکستان کی پہلی بلوچی فلم ہمل و ماگنج ، 1976ء میں بن چکی تھی لیکن بلوچوں کے احتجاج کے باعث ریلیز نہ ہوسکی تھی۔ 2017ء میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی اس فلم کے ہدایتکار انور اقبال ، انیتا گل نامی اداکارہ کے ساتھ ہیرو تھے۔ |
1977 | فلم آئینہ کے 401 ہفتے
ایک فلم کے نو موسیقار21 اکتوبر 1977ء کو ہدایتکار مسعود پرویز کی ریلیز ہونے والی اردو فلم انسان (1977) میں کچھ کم نہیں ، 9 موسیقار تھے جن میں سے 7 موسیقاروں نے ایک ایک گیت کمپوز کیا تھا جبکہ دو موسیقاروں نے بیک گراؤند موسیقی دی تھی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس فلم کے ساتوں گیت مہناز نے گائے تھے جو اس وقت اردو فلموں کی مقبول ترین گلوکارہ تھی۔ بابرہ شریف اور شاہد کی جوڑی تھی۔سیاسی عدم استحکاممسلسل تین سال تک سو سے زائد فلموں کی ریلیز کے بعد اس سال صرف 80 فلمیں ریلیز ہو سکیں جس کی وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام تھا۔ اگلے سال پھر سو فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ |
1978 | اعجاز سمگلنگ اور شبنم ریپ کیس
|
1979 | مولا جٹ کی کامیابی کا راز
موشن پکچرز آرڈیننس مجریہ 1979ء3 ستمبر 1979ء کو حکومت پاکستان نے ایک غیرمعمولی گزٹ جاری کیا جس میں "سنسر شپ آف فلمز ایکٹ مجریہ 1963ء" میں ترامیم کرتے ہوئے "موشن پکچرز آرڈیننس مجریہ 1979ء" نافذ کیا جس میں فلمسازوں کو رجسٹریشن کا پابند کرنے کے علاوہ سنسر پالیسی کو مزید سخت کر دیا گیا تھا۔ اس ایکٹ میں بطور خاص فلم مولا جٹ (1979) کا ذکر بھی تھا جس کا فلمساز ، فلم پر پابندی کے خلاف حکم امتناعی حاصل کرتا رہا جس کو ایک مارشل لاء آرڈر کے تحت ختم کر کے اس پرتشدد فلم پر پابندی لگائی گئی تھی۔متبادل تفریح3 نومبر 1979ء کو ریلیز ہونے والی ہدایتکار حیدرچوہدری کی فلم دبئی چلو (1979) نے ننھا اور علی اعجاز کی کامیڈی جوڑی کو بطور ہیرو متعارف کروایا تھا جو ایکشن پنجابی فلموں کے مقابلے میں ہلکی پھلکی فلموں کی متبادل تفریح ثابت ہوئی تھی۔سرکاری فلم کی ناکامی23 مارچ 1979ء کو قیام پاکستان کے موضوع پر سرکاری خرچ پر بنائی گئی ہدایتکار مسعود پرویز کی فلم خاک و خون (1979) بری طرح سے ناکام رہی تھی۔ نوین تاجک اور شجاعت ہاشمی مرکزی کردار تھے۔ |
1980 | جنرل ضیاع کی ذلالت
پاکستان پر قابض وقت کا ذلیل ترین حکمران جنرل ضیاع مردود خود بھی بھارتی فلموں کا بہت بڑا رسیا تھا اور اس کا زیادہ تر وقت وی سی آر پر بھارتی فلمیں دیکھنے میں گزرتا تھا۔ ایک تھرڈ کلاس بھارتی اداکار اس کے گھر کا فرد بنا ہوا تھا جو ایک انتہا پسند ہندو جماعت کا رکن بھی تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی اداکار نے اپنی پہلی ہی فلم میں ایک شرابی پاکستانی فوجی افسر کا رول کیا تھا۔ شاید اس کی یہی ادا ، آمرمردود کو پسند آگئی تھی؟ پاکستان کی پہلی ہندکو فلم20 اکتوبر 1980ء کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے صوبہ پنجاب سے ملحق ہزارہ ڈویژن میں بولی جانے والے پنجابی زبان کی ایک شاخ ، ہندکو میں پہلی فلم قصہ خوانی (1980) بنائی گئی جس میں سلطان راہی اور یاسمین خان مرکزی کرداروں میں تھے۔ قتیل شفائی فلمساز اور ان کے بیٹے ہدایتکار تھے۔ |
1981 | فلمی کاروبار کے انتہائی عروج کا دور
محمدعلی اور پنجابی فلمیںروایت ہے کہ فلم شیر خان (1981) کا ٹائٹل رول پہلے اردو فلموں کے عظیم اداکار محمدعلی صاحب کو آفر ہوا تھا لیکن انھوں نے انکار کردیا تھا۔ انھیں مزید مواقع ملے۔ فلم وڈا خان (1983) اور ہیبت خان (1984) میں ٹائٹل رولز کیے لیکن اپنی مایوس کن کارکردگی سے پنجابی فلم بینوں کو متاثر نہیں کر سکے تھے۔پاکستان کی دو ہزار فلمیں1981ء میں 33 سال بعد پاکستان میں بننے والی فلموں کی کل تعداد دو ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ پہلی ہزار فلمیں 22 برسوں میں بنیں لیکن دوسری ہزار فلمیں صرف 11 برسوں میں بن گئی تھیں جس سے فلمی کاروبار کے انتہائی عروج کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ |
1983 | شبنم اور ندیم کی آخری ڈائمنڈ جوبلی فلم
پشتو فلموں کی برتریپاکستان کی فلمی تاریخ میں پہلی بار پشتو فلموں کی تعداد ، اردو فلموں سے زیادہ ہوگئی تھی۔کو پروڈکشن فلموں کا آغازاردو فلموں کے زوال کی وجہ سے دیگر ممالک سے مشترکہ فلمیں بنانے کا رحجان شروع ہوا۔ اس سال فلم لو سٹوری (1983) میں کینیا اور کبھی الوداع نہ کہنا (1983) میں سری لنکا کے تعاون سے اردو فلمیں بنائی گئیں۔وحید مراد کا حسرتناک انجام23 نومبر 1983ء کو رومانٹک اردو فلموں کے سپرسٹار ہیرو ، وحیدمراد کی اچانک موت نے انھیں فلمی میڈیا کی حد تک نئی حیات بخش دی تھی۔ اپنے آخری وقت میں اپنے پرائے سبھی چھوڑ چکے تھے اور وہ ایک بھولی ہوئی داستان اور گزرا ہوا خیال بن چکے تھے۔۔! |
1984 | اقبال حسن ، جان بحق
پاکستان اور بنگلہ دیش کی مشترکہ فلمسازی30 جون 1984ء کو پاکستان اور بنگلہ دیش کی پہلی مشترکہ فلم بسیرا (1984) ریلیز ہوئی۔ بنگالی ہدایتکار احتشام کی اس فلم میں ان کے داماد ، اداکار ندیم کی ہیروئن شبانہ تھی جو اب مشرقی پاکستان کی نہیں ، بنگلہ دیش کی اداکارہ تھی۔۔!پہلے قومی فلم ایوارڈز28 دسمبر 1984ء کو پاکستان میں پہلی بار "قومی فلم ایوارڈز" کی تقریب منعقد ہوئی جس میں 1983ء کی فلموں کو ایوارڈز دیے گئے تھے۔ |
1986 | ننھا کی خودکشی
سلطان راہی کی ایکشن فلموں کی اجارہ داری کے دور میں ننھا اور علی اعجاز کی جوڑی کی ہلکی پھلکی سوشل کامیڈی فلموں نے مثالی کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ منشیات پر بنی ہوئی ایک فلم11 اپریل 1986ء کو ہدایتکار حیدر چوہدری کی پنجابی فلم جورا (1986) ریلیز ہوئی جس کا موضوع پاکستانی معاشرے میں منشیات کا بے دریغ استعمال تھا۔ ایک ٹی وی ڈرامے "رگوں میں اندھیرا" سے ماخوذ اس فلم میں اس وقت کے سب سے بڑے مسئلے کو اجاگر کیا گیا جب ہیروئن اور کلاشنکوف کے سمگلر بلا خوف و خطر ہر طرف دندناتے پھرتے تھے۔ 1978ء کے بعد 1986ء میں ایک بار پھر سو فلمیں ریلیز ہوئیں۔ |
1987 | شبنم کی پہلی پنجابی فلم
سدھیر کی آخری فلماتفاق سے اسی دن پاکستان کے پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر کی آخری فلم سن آف ان داتا (1987) بھی ریلیز ہوئی تھی۔ وہ ، پاکستان کی فلمی تاریخ کے واحد فنکار ہیں جو اپنے چالیس سالہ فلمی کیرئر میں ہمیشہ مرکزی کرداروں میں کاسٹ ہوئے تھے۔ |
1988 | ندیم کی پہلی پنجابی فلم
VCR پر بھارتی فلموں اور ایکشن پنجابی فلموں نے مڈل کلاس اور اردو فلم بینوں کو سینما گھروں سے دور کر دیا تھا۔ ایسے میں پاکستانی اردو فلموں کے زوال کے دور میں شبنم کے بعد ندیم نے بھی پنجابی فلموں میں قسمت آزمائی کی لیکن دونوں ناکام رہے۔ |
1989 | ڈبل ورژن پنجابی/اردو فلمیں
پہلی سائنس فکشن فلم10 مارچ 1989ء کو ہدایتکار سعید رضوی کی فلم شانی (1989) ، پاکستان کی پہلی سائنس فکشن فلم تھی جس میں بابرہ شریف اور شیری ملک مرکزی کردار تھے۔آخری بار ایک سال میں سو فلمیں1989ء میں آخری بار ایک کیلنڈر ائر میں سو فلمیں ریلیز ہوئیں۔ پاکستان کی 75 سالہ فلمی تاریخ میں 9 بار ایک سال میں سو سے زائد فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں سے دو بار کی ہٹ ٹرکس بھی شامل ہیں۔ |
1990 | انٹرنیشنل گوریلے
آخری بڑے فلمی فنکاروں کی آمداسی سال اگلی دو دھائیوں کے ممتاز فنکاروں ، صائمہ (فلم خطرناک 1990ء) ، شان اور ریما (فلم بلندی ، 1990ء) کی آمد ہوئی جو روایتی فلمی فنکاروں کی آخری بڑی کھیپ تھے۔ |
1991 | پشتو فلموں کی اجارہ داری
|
1992 | تین ہزار فلمیں مکمل
|
1995 | لاہور میں پہلی ڈائمنڈ جوبلی اردو فلم
اداکارہ نادرہ کا قتل6 اگست 1995ء کو پنجابی فلموں کی ایک نامور ہیروئن نادرہ کو قتل کر دیا گیا تھا۔ مبینہ طور پر یہ اس کے کسی عاشق کی کارستانی تھی۔ |
1996 | سلطان راہی کا قتل
اردو فلموں کی واپسیاسی سال متعدد اردو فلموں کو خاصی کامیابی ملی لیکن ایک وقتی بلبلہ ثابت ہوئی تھیں۔ |
1998 | پنجابی فلموں کا نیا دور
صائمہ اور شان کی جوڑیاسی سال کی پنجابی فلم پردیسی (1998) سے صائمہ اور شان کی کامیاب جوڑی کا آغاز ہوا۔ ان دونوں نے سو سے زائد فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔فلم جناح کی ناکامیاسی سال پاکستانی سرمائے سے ہالی وڈ میں بنائی گئی فلم "جناح" (1998) بری طرح سے ناکام ہوئی تھی۔ کرسٹوفرلی نے ٹائٹل رول کیا تھا۔ |
1999 | پچاس سے کم سالانہ فلمیں
|
2003 | ڈیجیٹل سینماؤں کی آمد
|
2005 | سینماؤں کی بندش
پاکستان کا پہلا فلمی ٹی وی چینلیکم فروری 2005ء کو پاکستان کے پہلے فلمی سیٹلائٹ ٹی وی چینل Filmazia کا آغاز ہوا تھا۔ |
2006 | بھارتی فلموں کی ایک بار پھر نمائش23 اپریل 2006ء کو گلستان سینما لاہور میں ریلیز ہونے والی کلاسک فلم مغل اعظم (1960) پہلی فلم تھی جو بری طرح سے ناکام ہوئی تھی۔ پلازا سینما لاہور میں ریلیز ہونے والی میڈم نور جہاں کی پوتی سونیا جہاں کی بھارتی فلم تاج محل (2005) بھی بری طرح سے فلاپ ہوئی تھی۔ بھارتی فلموں کی نمائش کا یہ سلسلہ اگلے تیرہ سال تک یعنی 2019ء تک جاری رہا جب بھارت نے یکطرفہ کاروائی کرتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ مستقل طور پر حل کر دیا تھا۔ تب سے اب تک راوی سکون ہی سکون لکھتا ہے۔ فلم مجاجن کی مثالی کامیابی 24 مارچ 2006ء کو ریلیز ہونے والی اس دھائی کی سب سے بڑی فلم مجاجن (2006) نے لاہور میں 300 ہفتے چلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ پاکستان کی یہ اکلوتی فلم ہے جس نے بھارتی فلموں کے مقابلے میں خالص ڈائمنڈ جوبلی منائی تھی۔ ہدایتکار سیدنور کی اس رومانٹک اور نغماتی فلم میں صائمہ اور شان مرکزی کردار تھے۔ |
2007 | ڈیجیٹل فلموں کا دور
|
2010 | صوبائی سنسر بورڈز
|
2011 | چار ہزار فلمیں مکمل
|
2012 | سینما گھروں کی تباہیصرف 11 فیصد فلم بین 2012ء کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 11 فیصد لوگ فلمیں دیکھتے تھے جن میں سے صرف 34 لاکھ یا 17 فیصد ہر ہفتے فلم دیکھا کرتے تھے۔ |
2019 | بھارتی فلموں کی نمائش پر ایک بار پھر پابندی
2006ء سے 2019ء تک بھارتی فلمیں مسلسل 13 برسوں تک پاکستانی سینماؤں میں چلتی رہیں۔ مجموعی طور پر پاکستان میں بھارتی فلمیں 32 سال تک دکھائی جاتی رہیں۔ |
2022 | مولا جٹ کی واپسی
مصنف ناصر ادیب کی لکھی ہوئی پرانی فلم مولا جٹ (1979) کی کہانی اور کرداروں پر مشتمل اس فلم میں فواد خان ، حمزہ علی عباسی ، مائرہ خان اور حمائما ملک نے بالترتیب "سلطان راہی/مولا جٹ" ، "مصطفیٰ قریشی/نوری نت" ، "آسیہ/مکھو جٹی" اور "چکوری/دارو نتنی" کے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ تین ارب روپے (یا تقریباً سوا کروڑ ڈالرز) کما کر پاکستان کی فلمی تاریخ کی یہ سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلم ہے۔ فلم دی لیجنڈ آف مولا جٹ پر پچاس کروڑ روپے (یا بیس لاکھ ڈالرز) سے زائد لاگت آئی لیکن اس نے اپنی لاگت سے "صرف چھ سات گنا" کمائی کی جس سے کسی طور بھی مشہور زمانہ فلم یکے والی (1957) کے بزنس کا ریکارڈ نہیں ٹوٹتا جس نے اپنی لاگت سے 45 گنا کمائی کی تھی۔ ویسے بھی آج کا روپیہ ، اس دور کے پیسہ تو دور کہ بات ہے پائی کے برابر بھی نہیں رہا۔ موٹی عقل والوں کے لیے ایک پھکی ہے کہ آج ڈالر تین سو روپے کے قریب ہے لیکن 1950 کی دھائی میں ڈالر صرف چار روپے کا ہوتا تھا ، حساب خود لگا لیں۔۔! |
2023 | ایک فلم ، تین کہانیاں
|
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.