Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


نذیر

اداکار ، فلمساز اور ہدایتکار نذیر
پاکستان کے پہلے جوبلی ہیرو تھے
پاکستان کے پہلے جوبلی ہیرو ، نذیر
پاکستان کے پہلے جوبلی ہیرو ، نذیر

نذیر ، پاکستان کی پہلی سپرہٹ نغماتی فلم پھیرے (1949) کے ہیرو ، فلمساز اور ہدایتکار تھے۔

عیدالفطر ، 28 جولائی 1949ء کو ریلیز ہونے والی اس تاریخ ساز اولین پنجابی فلم نے دل لگی ، دلاری ، برسات ، انداز اور لچھی (1949) جیسی بڑی بڑی بھارتی فلموں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور مسلسل 25 ہفتے چل کر پہلی سلورجوبلی پاکستانی فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ ایک ماہ کی قلیل مدت میں بنائی گئی اس فلم کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کے سات گیت ایک ہی دن میں لکھے ، گائے اور ریکارڈ کیے گئے تھے۔

اس فلم میں نذیر کی ہیروئن ان کی اپنی اداکارہ بیوی سورن لتا تھی ، زینت ، نذر ، علاؤالدین اور ایم اسماعیل دیگر اہم کردار تھے۔

پاکستان کی پہلی نغماتی فلم پھیرے (1949)

فلم پھیرے (1949) ، وارث شاہؒ کی مشہور زمانہ لوک داستان ، ہیررانجھا کی کہانی پر بنائی گئی تھی لیکن سکرین پر سبھی کردار ہندوآنہ تھے۔ موسیقار اور نغمہ نگار بابا جی اے چشتی کے علاوہ کچھ گیت بابا عالم سیاہ پوش نے بھی لکھے تھے جن میں سے متعدد گیت امر سنگیت میں شامل ہیں:

ان میں آخری گیت "وے اکھیاں لاویں نہ۔۔" سے متاثر ہو کر خواجہ خورشید انور نے فلم ہیررانجھا (1970) کا دوسرا مقبول ترین گیت "او ونجھلی والڑیا۔۔" تخلیق کیا تھا اور اس کے لیے بابا چشتی سے باقاعدہ اجازت لی تھی۔

لارے (1950) ایک لازوال نغماتی فلم

فلم پھیرے (1949) ہی کی طرز پر فلم لارے (1950) بھی بنائی گئی تھی جو اسی ٹیم کی ایک اور بہت بڑی میوزیکل فلم تھی۔ میں نے جب پہلی بار اس فلم کے گیت سنے تو ایسے لگا کہ جیسے سبھی گیت جنم جنم سے سنے ہوئے ہیں:

  • وے میں بول بول تھکی ، تینوں تول تول تھکی ، چن مل وے ، تیرے باجھ نہ لگدا دل وے۔۔ (منور سلطانہ)
  • تیرے لونگ دا پیا لشکارا تے ہالیاں نے ہل ڈھک لیے ، آپے ، تریکاں پگتن کے تیرے ماپے۔۔ (منور سلطانہ ، عنایت حسین بھٹی)
  • نیوں نئیں لانا اوئے ، جے لانا تے توڑ نبھانا۔۔ (منور سلطانہ ، عنایت حسین بھٹی)
  • لکھیاں نہ مڑیاں میرے سڑھ گئے نیں بھاگ اوۓ ، پہلی راتیں ہائے میرا ، لٹیا سہاگ اوئے۔۔ (منور سلطانہ)
  • ہو ، بیڑی بور اوئے پنجن دیاں کڑیاں ، سبب نال ہویاں کٹھیاں۔۔ (پکھراج پپو)

نذیر ، خاموش فلموں کے اداکار

نذیر ایک سینئر فنکار تھے جنھوں نے خاموش فلموں کے دور میں فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ ان کی پہلی فلم ہدایتکار عبدالرشید کاردار کی فلم مسٹریس بینڈیٹ (1930) تھی۔ وہ تیس اور چالیس کے عشروں کے ایک مقبول اور مصروف فلمی ہیرو تھے۔

اس دوران انھوں نے اپنی فلم کمپنی ہند پکچرز بنائی تھی جس کے بینر تلے لیلیٰ مجنوں (1945) اور وامق عذرا (1946) جیسی بہت بڑی فلمیں بنائی گئی تھیں جن میں وہ اپنی اداکارہ بیگم سورن لتا کے ساتھ ہیرو ، فلمساز اور ہدایتکار تھے۔

اسی دور میں انھیں فلم گاؤں کو گوری (1945) میں میڈم نورجہاں کے ساتھ ہیرو آنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔

نذیر کی پاکستان واپسی

پاکستان واپسی پر انھوں نے سب سے پہلے ہیررانجھا کی کہانی پر اردو فلم 'عشق پنجاب' بنائی تھی لیکن بتایا جاتا ہے کہ ایک حادثے میں اس کے نیگٹیو جل گئے تھے۔ اس فلم کے دو گیت عنایت حسین بھٹی کی آواز میں ریکارڈ پر ہیں "بھول نہ جانا دل لا کے۔۔" اور "بھنگ پی کے میاں مجنوں۔۔"

ریلیز کے اعتبار سے ان کی پہلی فلم سچائی (1949) تھی جس میں ان کی بیگم سورن لتا ہیروئن تھی۔

سورن لتا اور نذیر کی فلمیں

اس جوڑی کی دیگر فلموں میں انوکھی داستان (1950) ، بھیگی پلکیں (1952) ، خاتون (1955) اور صابرہ (1956) کے علاوہ پاکستان کی دوسری گولڈن جوبلی فلم نوکر (1955) بھی شامل تھی۔ گو یہ ایک چربہ فلم تھی لیکن نذیر اور سورن لتا کی اداکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ فلم کا تھیم سانگ "راج دلارے ، میری اکھیوں کے تارے ، تیرے واری واری جاؤں۔۔" امرسنگیت کا درجہ رکھتا ہے۔ بابا چشتی نے اس گیت کو منور سلطانہ اور کوثرپروین سے الگ الگ گوایا تھا۔

نذیر بطور اداکار

نذیر صاحب نے پاکستان میں کل 16 فلموں میں کام کیا تھا جن میں حمیدہ (1956) ، فرشتہ (1961) اور حویلی (1964) ہی تین فلمیں ایسی تھیں جو سورن لتا کے بغیر تھیں لیکن ان فلموں میں وہ ہیرو نہیں ، صرف کیریکٹر ایکٹر تھے۔

پاکستان میں وہ ، اپنی بیگم کے سوا کبھی کسی دوسری اداکارہ کے ساتھ ہیرو نہیں آئے۔ ان کی آخری فلم سوال (1966) بھی اپنی بیگم کے ساتھ تھی۔

سورن لتا نے بھی اپنی کل 18 فلموں میں اپنے شوہر نذیر کے بغیر صرف تین فلموں سوتیلی ماں (1956) ، قسم اس وقت کی (1969) اور دنیا نہ مانے (1971) میں کام کیا تھا۔ لیکن نذیر کی ڈائریکشن میں سورن لتا نے سنتوش ، عنایت حسین بھٹی ، مسعود ، درپن اور حبیب کے ساتھ ہیروئن کے طور پر کام کیا تھا۔

زبیدہ خانم کی پہلی فلم

فلم شہری بابو (1953) میں نذیر ہدایتکار تھے اور سورن لتا کی جوڑی سنتوش کے ساتھ تھی۔ اس فلم کی پہچان ، رشیدعطرے کی دھن میں بابا عالم سیاہ پوش کے لکھے ہوئے بول اور عنایت حسین بھٹی کی آواز میں

  • بھاگاں والیو ، نام جبھو مولا نام۔۔

جیسا لافانی گیت ہے۔ اسی فلم میں پچاس کے عشرہ کی سب سے مقبول اور مصروف گلوکارہ زبیدہ خانم نے پہلی بار گائیکی کا آغاز ایک بڑے شریر قسم کے گیت سے کیا تھا

  • گلاں سن کے ماہی دے نال میریاں ، دوپٹہ بے ایمان ہوگیا۔۔

کراچی میں بننے والی پہلی پنجابی فلم

نذیر کی بطور ہدایتکار فلم ہیر (1955) کراچی میں بننے والی پہلی پنجابی فلم تھی جس میں سورن لتا نے ٹائٹل رول کیا تھا اور عنایت حسین بھٹی ، رانجھا کے کردار میں نظر آئے تھے۔ موسیقار صفدرحسین کے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے:

شاہ مدینہ ﷺ

فلم نوراسلام (1957) میں ہدایتکار نذیر نے سورن لتا کے مقابل درپن کو ہیرو لیا تھا۔ یہ فلم اپنی سدابہار اور ایمان افروز نعت

  • شاہ مدینہ ﷺ ، یثرب کے والی ، سارے نبی تیرے در کے سوالی۔۔

کی وجہ سے یاد رکھی جاتی ہے۔ سلیم رضا کی مدھر آواز اور حسن لطیف کی دھن پر تنویرنقوی یا نعیم ہاشمی کے بول تھے۔

فلم شمع (1959) میں بھی سورن لتا کے ہیرو درپن ہی تھے جبکہ فلم بلوجی (1962) میں حبیب تھے۔ نذیر اس فلم کے فلمساز تھے اور ہدایتکار کے طور ایم اعجاز کا نام آتا ہے جو اداکار نعمان اعجاز کے والد تھے۔ ان سبھی فلموں میں نذیر صاحب نے ثانوی رول کیے تھے۔

نذیر کی مسعودرانا کے ساتھ اکلوتی فلم

نذیر صاحب کی بطور فلمساز اور ہدایتکار آخری فلم عظمت اسلام (1965) تھی جو فلم نوراسلام (1957) کی طرز پر بنائی گئی تھی۔ اس میں سورن لتا کے ہیرو حبیب تھے۔

یہ اکلوتی فلم تھی جس میں نذیر صاحب کا ساتھ مسعودرانا کے ساتھ ہوا تھا۔ موسیقار عاشق حسین نے نو گیت کمپوز کیے تھے جن میں سے آٹھ گیتوں میں سلیم رضا کی آواز تھی لیکن نواں گیت جو مقبول ہوا تھا ، وہ مسعودرانا کی آواز میں یہ ترانہ تھا:

  • حرم کی عظمت کے پاسبانو ، خدا نگہبان ہے تمہارا ، غازیو ، مجاہدو ، جوانو ، خدا نگہبان ہے تمہارا۔۔
یہ ترانہ نعیم ہاشمی نے لکھا تھا جو ایک معاون اداکار تھے اور ڈیڑھ درجن کے قریب گیتوں کے شاعر بھی تھے۔

نذیر کی آخری فلم

نذیر کی بطور اداکار آخری فلم سوال (1966) تھی جس میں وہ فلم کی ہیروئن صبیحہ خانم کے باپ ہوتے ہیں جبکہ سورن لتا ، ویمپ سلونی کی ماں ہوتی ہے جو اس کے ناجائز بچے کو صبیحہ کے سر تھوپ کر اپنی بچی کو بدنامی سے بچاتی ہے۔ بڑی زبردست جذباتی اداکاری دیکھنے کو ملی تھی۔

نذیر ، لاہور میں پیدا ہوئے اور وہیں 1983ء میں انتقال ہوا تھا۔

مسعودرانا کے نذیر کی 1 فلموں میں 1 گیت

(1 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت )
1
فلم ... عظمت اسلام ... اردو ... (1965) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عاشق حسین ... شاعر: نعیم ہاشمی ... اداکار: (پس پردہ)

Masood Rana & Nazir: Latest Online film

Masood Rana & Nazir: Film posters
Azmat-e-Islam
Masood Rana & Nazir:

0 joint Online films

(0 Urdu and 0 Punjabi films)

Masood Rana & Nazir:

Total 1 joint films

(1 Urdu, 0 Punjabi films)

1.1965: Azmat-e-Islam
(Urdu)


Masood Rana & Nazir: 1 songs in 1 films

(1 Urdu and 0 Punjabi songs)

1.
Urdu film
Azmat-e-Islam
from Friday, 26 February 1965
Singer(s): Masood Rana & Co., Music: Master Ashiq Hussain, Poet: , Actor(s): (Playback)


Abida
Abida
(1992)
Dachi
Dachi
(1964)
Insan
Insan
(1977)
Heer Syal
Heer Syal
(1965)

Sanjog
Sanjog
(1943)
Badnami
Badnami
(1946)
Musafir
Musafir
(1940)
Pagli
Pagli
(1943)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.