موسیقار رحمان ورما ، موسیقار جی اے چشتی کے شاگرد اور موسیقار کمال احمد کے استاد تھے۔ تین نسلوں کے ان تینوں نامور موسیقاروں میں ایک بات مشترک تھی کہ ان کے سب سے زیادہ مردانہ گیت مسعودرانا نے گائے تھے۔۔!
رحمان ورما کی پہلی ہی سپرہٹ فلم
رحمان ورما کی پہلی فلم باغی (1956) تھی جو پاکستان کی پہلی ایکشن فلم شمار کی جاتی ہے۔ اس فلم نے پاکستان کے پہلے سپرسٹار اور ابتدائی دور کے سب سے کامیاب فلمی ہیرو سدھیر کو ایکشن فلموں کا بے تاج بادشاہ بنا دیا تھا۔ سدھیر ، اس قدر مقبول فلمی ہیرو تھے کہ ان کی مقبولیت کا ریکارڈ صرف سلطان راہی ہی توڑ سکے تھے جو اتفاق سے اسی فلم میں پہلی بار ایک سین میں ایکسٹرا کے طور پر نظر آئے تھے۔
رحمان ورما کی یہ پہلی فلم ایک سپرہٹ گولڈن جوبلی فلم تھی اور اس کی کمائی سے اس فلم کے فلمساز اور ہدایتکار اشفاق ملک نے لاہور میں اپنا ذاتی نگارخانہ ، اے ایم سٹوڈیو بنا لیا تھا۔ یہی پہلی فلم تھی جو چین میں بھی ریلیز کی گئی تھی اور وہاں بھی بے حد پسند کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ پچاس کے عشرہ کی گولڈن جوبلی فلمیں ، ستر اور اسی کے عشروں کی ڈائمنڈ جوبلی فلموں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب ہوتی تھیں اور ان کا بزنس بھی مثالی ہوتا تھا۔ اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ فلم دلابھٹی (1956) کی کمائی سے ایورنیو سٹوڈیو ، فلم یکے والی (1957) کی کمائی سے باری سٹوڈیو اور فلم مہتاب (1962) کی کمائی سے شباب سٹوڈیو بنے تھے۔
فلم باغی (1956) میں وقت کی مقبول ترین گلوکارہ زبیدہ خانم کے گائے ہوئے یہ دو گیت پسند کیے گئے تھے
- بالم تم ہار گئے ، جیتا میرا پیار بھئی۔۔
- کیسے کہوں میں الوداع۔۔
اسی سال پاکستان کی پہلی مکمل مذہبی فلم دربارحبیب (1956) میں بھی انھوں نے بیشتر روحانی گیت کمپوز کیے تھے اور یہ بھی ایک کامیاب فلم تھی۔
ایکشن اور کاسٹیوم فلموں کے موسیقار
اپنی پہلی دونوں فلموں کی کامیابی کے بعد رحمان ورما کو ایکشن اور کاسٹیوم فلموں کے لیے بہترین موسیقار سمجھا جانے لگا تھا ۔ ایک اور کاسٹیوم فلم دربار (1958) کے بعد ہدایتکار اشفاق ملک کی ایک اور گولڈن جوبلی سپرہٹ ایکشن فلم آخری نشان (1958) بھی ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کا کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا۔ اس فلم کے ہیرو بھی سدھیر ہی تھے جو پچاس کے عشرہ کی کل پانچ میں سے چار گولڈن جوبلی اردو فلموں کے ہیرو تھے۔ ان سپرہٹ فلموں میں سے دو فلمیں رحمان ورما کی ، دو ہی بابا چشتی کی اور ایک ماسٹر تصدق حسین کی تھی۔ ان میں پنجابی فلمیں شامل نہیں ہیں۔
اتنے زبردست آغاز کے باوجود رحمان ورما کی بیشتر فلمیں ناکام رہیں اور ان کے ترتیب دیے ہوئے بہت کم گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔ فلم کالا پانی (1963) میں آئرن پروین ، روشن اور ساتھیوں کا گایا ہوا یہ کورس گیت اپنے وقت میں بڑا پسند کیا گیا تھا
- ساتھی رہنا ساتھ رے ، ہاتھ میں پکڑ لو ہاتھ رے۔۔
فلم خاندان (1964) میں مالا ، آئرن پروین اور باتش کا یہ گیت بھی بڑا پسند کیا گیا تھا
- حال کیسا ہے جناب کا ، جواب دیجیے سوال کا۔۔
فلم قبیلہ (1966) میں احمدرشدی اور مالا کا یہ مزاحیہ گیت
کے علاوہ مالا کا گیت بھی بڑا مقبول ہوا تھا
- ایک ہمیں آوارہ کہنا ، کوئی بڑا الزام نہیں۔۔
اس گیت کو سلیم رضا نے رشید عطرے کی دھن میں بعد میں فلم انسان (1966) میں گایا تھا۔
رحمان ورما اور مسعودرانا کا ساتھ
رحمان ورما نے فلم تابعدار (1966) میں مسعودرانا کے لیے پہلا گیت
- پنجرہ رہ جاؤ خالی ، پنچھی اڈ جانا ، اےرنگ برنگا ویلا مڑ کے نئیں آنا۔۔
ایک تھیم سانگ کے طور پر گوایا تھا۔ کیا کمال کا گیت تھا۔ اگلی فلم نادرہ (1967) میں رحمان ورما اپنے شاگرد کمال احمد کے ساتھ موجود تھے۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ دونوں استاد شاگردوں نے چار چار گیت کمپوز کیے تھے اور دونوں نے مسعودرانا سے الگ الگ گیت گوائے تھے۔ رحمان ورما کی دھن میں مسعودرانا اور مالا کا یہ دوگانا تھا
- نادان ہو ، ناسمجھ ہو ، معصوم ہو ، حسیں ہو ، آجائے پیار تم پر ، ایسی مگر نہیں ہو۔۔
رانا صاحب کے باقی دونوں گیت کمال احمد نے کمپوز کیے تھے۔
رحمان ورما کی فلم یاراں نال بہاراں (1967) کے جملہ گیتوں میں سے مسعودرانا کا گایا ہوا یہ گیت
- لگدا نئیں پتہ اے جہاں کہیڑے رنگ دا۔۔
بڑا مقبول ہوا تھا جبکہ
- یاراں نال بہاراں ، سجناں ، جس دھرتی تے یار نئیں وسدے ، کھڑدیاں نئیں گلزاراں۔۔
ایک سدابہار سپرہٹ گیت تھا جو ایک ضرب المثل بن گیا تھا۔ اس گیت میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ مسعودرانا ، انتروں میں جو لمبی تان لگاتے ہیں تو سانس کہاں لیتے ہیں۔ یہ دونوں گیت معروف لوک شاعر منظورجھلا نے لکھے تھے۔ اسی گیت کے بولوں پر محمدرفیع نے بھی بعد میں ایک بھارتی پنجابی فلم میں یہ گیت گایا تھا "یاراں نال بہاراں ، یار دی جندڑی توں ، سو سو جندڑیاں واراں۔۔"
اسی سال کی فلم بے رحم (1967) میں رحمان ورما نے دوسری بار اپنے شاگرد کمال احمد کے ساتھ مل کر موسیقی ترتیب دی تھی۔ اس فلم کے بیشتر گیتوں کی دھنیں انھوں نے خود بنائی تھیں جن میں سے تین گیت مسعودرانا کی آواز میں تھے۔ فلم کا سب سے یادگار گیت فلم کا تھیم سانگ تھا
- تجھ کو ملی ہے جرم ضعیفی کی یہ سزا۔۔
اس فلم میں ایک بڑی بہترین قوالی بھی تھی
- یوں چلے تیر نظر ، حسن بدنام نہ ہو ، عشق ناکام نہ ہو۔۔
مالا ، مسعودرانا اور ساتھیوں کی گائی ہوئی یہ خوبصورت فلمی قوالی ، رانی ، ڈانس ماسٹر صدیق اور ساتھیوں پر فلمائی گئی تھی اور حبیب جالب کی لکھی ہوئی تھی۔
رحمان ورما کی شاہکار فلم سسی پنوں (1968)
رحمان ورما کی فلم سسی پنوں (1968) ، ملکہ ترنم نورجہاں اور مہدی حسن کے گائے ہوئے سپرہٹ گیت
- جدوں تیری دنیا توں پیار ٹر جائے گا ، دس فیر دنیا چہ کی رہ جائے گا۔۔
کی وجہ سے یاد رکھی جاتی ہے۔ یہ اب تک ان کا سب سے سپرہٹ رومانٹک گیت تھا۔ اسی فلم میں مسعودرانا کا تھیم سانگ
- ماپے کدی ایس طراں تے ڈولی نئیں سی ٹوردے ، دھیاں نوں ویاندے سی اور اینج نئیں سی روڑدے۔۔
درددل رکھنے والوں کو تڑپا دیتا ہے۔ خاص طور پر احمدراہی صاحب نے یہ جو بول لکھے تھے
- نکی جئی جان نوں ، طوفاناں آن گھیریا ، کہیڑا منگے خیراں مکھ ماپیاں نے پھیریا ، اپنے بنے نہ جدوں ، مان کس ہور دے۔۔
رحمان ورما کے چند مشہور گیت
فلم چور نالے چتر (1970) میں ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں یہ سپرہٹ گیت
- وے لگیاں دی لج رکھ لئیں ، کدے بھل نہ جاویں انجانا۔۔
بھی ورما صاحب کا کمال فن تھا۔ فلم العاصفہ (1971) میں مہدی حسن کی آواز میں یہ گیت بھی بڑا پسند کیا گیا تھا
- یہ رات مختصر ہے ، میری جان غم نہ کر۔۔
لیکن فلم دارا (1976) کے تھیم سانگ
- دس ، جگ دیا ربا ، کی ہوئی اے خطا۔۔
میں مہدی حسن کی مکھڑا گانے کی ناکام کوشش بھی ناقابل فراموش ہے۔
رحمان ورما کی آخری فلم پاگل تے پیار (1978) تھی جس میں ان کا کمپوز کیا ہوا ایک ہی گیت تھا جو ان کا آخری گیت بھی تھا
- تو مان جوانی ، میرے دلبر ، میرے جانی۔۔
مسعودرانا اور آئرن پروین کا گایا ہوا یہ دوگانا پشتو دھن میں تھا ۔ یہ ایک سی کلاس فلم تھی جس میں عشرت چوہدری ، فرسٹ ہیروئن تھی۔ نوید نامی ایک گمنام اداکار ہیرو تھا۔
میری زندگی کی یہ واحد فلم ہے جس کی شوٹنگ دیکھی تھی۔ میرے آبائی شہر کھاریاں کے شمال میں پہاڑیوں اور جنگلات کا ایک سلسلہ ہے جنھیں ہم 'پبی کی پہاڑیاں' کہتے تھے۔ وہاں قدرے بلندی پر ایک پر فضا مقام پر ایک 'بنی بنگلہ' تھا جہاں انگریزوں کے دور کا ایک ریسٹ ہاؤس اور اس کے سامنے ایک پرانا تالاب تھا۔
بتایا جاتا تھا کہ سابق فوجی آمر جنرل یحییٰ خان کو سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد لوگوں کے غیض و غضب سے بچانے کے لیے کچھ عرصہ کے لیے یہاں چھپا کر رکھا گیا تھا۔
یہاں کئی فلموں کی آؤٹ ڈور شوٹنگ بھی ہوتی تھی جن میں سے ایک فلم یہ بھی تھی۔ میں نے جو واحد فلمی شارٹ دیکھا تھا ، اس میں فلم کے ہیرو نوید کو یہ خبر دی جارہی ہوتی ہے کہ اس کی ماں مر گئی ہے۔
فلم کی ہیروئن عشرت چوہدری بڑے ٹائٹ لباس میں پاس ہی ایک کرسی پر بیٹھی ہوئی آج بھی یاد ہے۔ رحمان ورما کی ایک نامکمل فلم اڈیکاں بھی تھی جس میں مسعودرانا اور آئرن پروین کا یہ گیت بھی بڑے کمال کا تھا
- رب روپ جنہاں نوں دیندا ، اوہ ایڈھا نئیں غرور کردے۔۔
رحمان ورما کا پس منظر
موسیقار رحمان ورما ، لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنے ابتدائی دور میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ بابا چشتی کے معاون رہے تھے۔ پھر ان دونوں دوستوں نے "ورما جی ، شرما جی" کے نام سے چند بھارتی فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ شرما جی تو بھارت ہی میں رہ گئے تھے اور موسیقار خیام کے نام سے مشہور ہوئے جبکہ رحمان ورما نے پاکستان واپس آنے کو ترجیح دی تھی۔
انھوں نے تین درجن فلموں میں دو سو کے لگ بھگ گیت کمپوز کیے تھے جن میں سے زیادہ تر گیت مالا ، آئرن پروین اور مسعودرانا نے گائے تھے۔ وہ 1927ء میں پیدا ہوئے اور 2007ء میں انتقال ہوا تھا۔
5 اردو گیت ... 9 پنجابی گیت