وحیدڈار ، پاکستان کی فلمی تاریخ کے شاید واحد ہدایتکار تھے کہ جنہوں نے 42 فلمیں بنائیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی اردو فلم نہ تھی حالانکہ بطور معاون ہدایتکار ان کی پہلی فلم
زرینہ (1962) ایک اردو فلم تھی۔۔!
ہدایتکار وحید ڈار کی پنجابی فلم
ماں پتر (1970) نے کراچی میں
75 ہفتے چلنے کا اعزاز حاصل کیا تھا
وحیدڈار کے کریڈٹ پر متعدد بڑی بڑی کامیاب اور نغمہ بار پنجابی فلمیں تھیں۔ بطور ہدایتکار ان کی پہلی فلم خلیفہ (1966) تھی جس کا ٹائٹل رول اس وقت کے مقبول ولن اداکار مظہرشاہ نے کیا تھا جو ایک منفرد کامیڈی ٹائپ رول تھا۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ نغمہ اور حبیب کی یہ پہلی فلم تھی جس میں ان کی فلمی جوڑی بنی تھی۔ سلطان راہی اور اقبال حسن ، معاون اداکار تھے۔ صفدرحسین کی موسیقی میں احمدراہی کا یہ خوبصورت گیت احمدرشدی نے گایا تھا "سانوں بڑی سوہنی لگنی ایں ، سونہہ رب دی۔۔" حبیب پر فلمایا گیا رشدی صاحب کا یہ اکلوتا سولو پنجابی گیت تھا۔ احمدرشدی ، پاکستانی اردو فلموں کے ایک مایہ ناز گلوکار تھے۔ انھوں نے پنجابی فلموں میں بھی سو کے قریب گیت گائے تھے لیکن کامیابی سے محروم رہے تھے۔ ان کے بہت کم گیت فلمی ہیروز پر فلمائے گئے تھے ، زیادہ تر گیت ، مزاحیہ اداکاروں کے لیے ہوتے تھے۔ احمدرشدی ، مسعودرانا کی طرح ایک آل راؤنڈ گلوکار نہیں تھے اور صرف ہلہ گلہ ٹائپ اردو گیت ہی گا سکتے تھے۔ پنجابی فلموں میں ان کے سولو گیتوں کی تعداد دو درجن تک ہے جن میں سے فلمی ہیروز پر فلمائے ہوئے گیتوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ دستیاب معلومات کے مطابق ، حبیب ، اعجاز اور کیفی پر ایک ایک جبکہ وحیدمراد اور سدھیر پر احمدرشدی کے دو دو سولو گیت فلمائے گئے تھے ، باقی کسی فلمی ہیرو کا ذکر نہیں ملتا۔ رشدی صاحب کے سب سے زیادہ پنجابی سولو گیت منورظریف پر فلمائے گئے تھے جو ظاہر ہے کہ مزاحیہ گیت ہی ہوتے تھے۔
وحیدڈار کی ہدایتکار کے طور پر پہلی بڑی فلم
چاچاجی (1967) تھی جس کا ٹائٹل رول وقت کے مقبول ترین اداکار
علاؤالدین نے کیا تھا۔
طلعت صدیقی کا کردار بھی بڑا یادگار تھا جبکہ
سلطان راہی کو اولڈ رول میں پیش کیا گیا تھا۔ موسیقار بابا جی اے
چشتی اور گیت نگار
حزیں قادری کے اشتراک سے
مسعودرانا اور
نسیم بیگم کے الگ الگ گائے ہوئے گیت "کلا بندہ ہووے پاویں کلا رکھ نی ، دوویں کلیاں نوں ہندا بڑا دکھ نی ، تو کلی کلی کتھے چلی ایں۔۔" سپرہٹ ہوئے تھے جو فلم کی روایتی جوڑی
اکمل اور
فردوس پر فلمائے گئے تھے۔ اس فلم میں
منورظریف کے ساتھ گایا ہوا
احمدرشدی کا یہ مزاحیہ گیت بھی بڑا دلچسپ تھا "اے پیاں نے ریوڑیاں تے اے پیا ای حلوہ۔۔"
وحیدڈار کی کسی فلم میں رشدی صاحب کا یہ آخری گیت تھا کیونکہ اس کے بعد دیگر پنجابی فلموں کی طرح ، ڈار صاحب کی فلموں میں بھی زیادہ تر
مسعودرانا ہی کے گیت ہوتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ فلم
چاچاجی (1967) کے فلمساز
شیخ نذیرحسین سے اداکارہ
فردوس نے
اکمل کی موت کے بعد شادی کی تھی۔
ہدایتکار
وحیدڈار کی تیسری فلم
دومٹیاراں (1968) میں پہلی بار
مسعودرانا کو فلمی ہیرو کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ فلم کا آغاز اور اختتام بھی
مسعودرانا پر ہی ہوتا ہے جنہوں نے اس فلم میں
سلونی کے مقابل سائیڈ ہیرو کا رول کیا تھا اور دو گیت بھی گائے تھے۔ "دل چیر کلیجیوں پار گئیاں ، دو نیویاں نظراں مار گیاں۔۔" اور "ہن گل کر دلا ، پہلاں نئیں سیں من دا ، ویکھ لیا ای مزہ پیار کرن دا۔۔" اس فلم میں
مسعودرانا سے متعدد اشعار بھی کہلوائے گئے تھے جو اگر گوائے جاتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ فلم کی روایتی جوڑی
فردوس اور
حبیب کی تھی۔ فلمساز ، گلوکارہ
مالا کے خاوند
عاشق بھٹی تھے اور موسیقی
وزیرافضل صاحبان نے مرتب کی تھی۔ گیت اور کہانی
حزیں قادری کی تھی۔ اس فلم نے اپنے دوسرے رن میں 1986ء میں لاہور میں سلورجوبلی کی تھی جو بہت بڑی بات تھی کیونکہ یہ پرانی بلیک اینڈ فلم ، ایکشن فلموں کے سیلاب میں ایک چٹان ثابت ہوئی تھی۔
ہدایتکار
وحیدڈار کے فلمی کیرئر کی ایک بہت بڑی فلم
مکھڑا چن ورگا (1969) بھی تھی۔
نغمہ اور
حبیب کی روایتی جوڑی کے علاوہ اس فلم میں
رانی اور
یوسف خان کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ رانی کا تکیہ کلام "غریب جو ہوئے۔۔" بڑا مشہور ہوا تھا۔ اس دور میں
رانی واحد اداکارہ تھی جو بیک وقت اردو اور پنجابی فلموں میں مقبول ہوتی تھی ، بڑی نیچرل اداکاری کرتی تھی۔ پنجابی فلموں میں
نغمہ اور
فردوس کے بعد تیسری مقبول ترین ہیروئن ہوتی تھی۔ بابا
چشتی نے اس فلم میں بھی متعدد ہٹ گیت دیے تھے جن میں خاص طور پر میڈم
نورجہاں کا گیت "بن گئے پھل گلاب دے اج گوریاں بانہواں۔۔" کے علاوہ
مسعودرانا اور
نسیم بیگم کا یہ دوگانا بڑا مقبول ہوا تھا "تیری اکھ دا نئیں جواب ، بلیاں کھڑیا سرخ گلاب ، ٹوہر جیویں وگدا پیا چناب تے مکھڑا چن ورگا۔۔"
رونا لیلیٰ کا یہ گیت بھی بڑا پسند کیا گیا تھا "تیرا جہیڑی کڑی تے دل اے ، او میں تے نئیں۔۔" اس فلم میں مرکزی کہانی کے متوازی چلنے والی
منورظریف ،
شاہدہ ،
چن چن اور
خلیفہ نذیر کی مزاحیہ کہانی بھی بڑی مقبول ہوئی تھی۔
فلم مکھڑا چن ورگا (1969) سے میری چند یادیں وابستہ ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ یہ فلم ، عیدالفطر 11 دسمبر 1969ء کو ہمارے مقامی سینما قیصر میں ریلیز ہوئی تھی۔ اسوقت میں ، دوسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ اپنی پہلی فلم لچھی (1969) دیکھ چکا تھا اور سینما کے بورڈز کے علاوہ اخبارات میں فلمی اشتہارات بھی بڑے غور سے دیکھنا شروع کر دیے تھے۔ کھاریاں شہر کے مین بازار میں ایک کنواں ہوتا تھا جسے ہم 'رڑی والا کھوہ' کہتے تھے ، وہاں سے ہم عام طور پر گرمیوں میں سکول کے راستے میں پانی پیتے تھے۔ شہر میں میٹھے پانی کی شدید قلت ہوتی تھی اور زیرزمین جو پانی ہوتا تھا ، وہ بھی کھارا یعنی میٹھا نہیں ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے شہر کا نام 'کھاریاں' پڑا تھا۔ اس کنویں پر ہر وقت رش رہتا تھا اور ایسے پرہجوم مقامات آئیڈیل ہوتے تھے جہاں سینما والے فلموں کی پبلسٹی کیا کرتے تھے۔ ایک پیلی دیوار پر نیلے رنگ کا بڑا سا لکھا ہوا 'مکھڑا چن ورگا ' آج بھی ذہن پر نقش ہے۔ اتفاق سے اپنے پاکستان کے قیام کے دوران یہ فلم نہیں دیکھ سکا تھا لیکن اس کی بڑی شہرت سنی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب یہ فلم ویڈیو پر آئی تو اپنی پہلی فرصت میں لے آیا تھا حالانکہ اس دن میرا وی سی آر سیٹ مرمت کے لیے گیا ہوا تھا۔ کسی کا ادھار لیا اور تب تک چین نہیں آیا تھا جب تک یہ فلم دیکھ نہیں لی تھی۔

وحیدڈار کی بطور ہدایتکار ، ایک اور یادگار اور نغماتی فلم
جنٹرمین (1969) تھی۔
فردوس اور
حبیب مرکزی کرداروں میں تھے جبکہ ٹائٹل رول
اسد بخاری کا تھا۔ اس فلم کی موسیقی بڑی پاورفل تھی۔
نذیرعلی نے کمال کردیا تھا۔ "ساتھوں کاہنوں پھیریاں نی ، اکھیاں وے بابو آ ، اللہ کرے دونیاں ، ترقیاں وے بابوآ۔۔" اور "تار لکھ دے بابو آ ، لکھ دے ، سجناں دے ناں لکھ دے۔۔" میڈم
نورجہاں کے گائے ہوئے یہ دونوں گیت
حزیں قادری کے لکھے ہوئے تھے۔ اس فلم کا سب سے مقبول ترین اور بے مثل گیت
مسعودرانا کا گایا ہوا تھا "اپنا بنا کے ، دل لاکے ، نس جاویں نہ ، میرے ہانیا۔۔" اسی گیت کو
نسیم بیگم نے بھی شوخ انداز میں گایا تھا جبکہ
مالا کے ساتھ
مسعودرانا کا یہ دلکش رومانٹک گیت بھی کیا غضب کا گیت تھا "دسو میں جواب کی دیاں ، منڈا ہان دا میرا دل منگدا۔۔" یہ تینوں گیت
خواجہ پرویز کے لکھے ہوئے تھے۔ یہ فلم ، ان ابتدائی دو فلموں میں سے ایک ہے کہ جن کے سازین سینما کے بورڈز میرے سکول کے سامنے ایک ہوٹل پر رکھے ہوئے یاد ہیں ، دوسری فلم
جناب عالی (1968) تھی۔
ہدایتکار
وحیدڈار کی پنجابی فلم
ماں پتر (1970) ایک سپرہٹ فلم تھی جس نے کراچی میں پلاٹینم جوبلی یعنی 75 سے زائد ہفتے چلنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ مزے کی بات ہے کہ لاہور میں یہ فلم صرف سلورجوبلی کر سکی تھی لیکن لاہور کی سلورجوبلی ، کراچی کی کم از کم گولڈن جوبلی کے برابر ہوتی تھی۔ اس سے قبل پنجابی فلم
انورا (1970) بھی کراچی میں پلاٹینم جوبلی کر چکی تھی۔
فردوس اور
سدھیر کی اس فلم کی خاص بات اداکارہ
رخسانہ کی سنجیدہ اداکاری تھی جو اپنے بیمار باپ کی جگہ گاؤں کے اوباش چوہدری کی چاکری کرتی ہے جو اس کی غربت و افلاس ، مجبوری اور کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس فلم کا وہ سین کتنا لاجواب ہوتا ہے کہ جب ایک چائلڈ سٹار
مراد اپنی جواں سال بہن
فردوس کو
سدھیر کے ساتھ دیکھ لیتا ہے تو اس کی غیرت جوش مارتی ہے اور وہ بڑے جذباتی انداز میں
سدھیر ہی سے پوچھتا ہے کہ ایک غیرت مند شخص کو ایسی صورتحال میں کیا کرنا چاہیئے۔۔؟ اس فلم میں
رنگیلا ،
شاہدہ اور
خلیفہ نذیر کا مزاحیہ حصہ بھی بڑا مشہور ہوا تھا۔ بابا
چشتی نے فلم کی موسیقی بڑی اچھی دی تھی اور یوں تو سبھی گیت مقبول ہوئے تھے لیکن "ساڈے گھر آئی بھرجائی ، لکھاں خوشیاں نال سجائی۔۔" ایک لوک گیت کا درجہ اختیار کر گیا تھا۔
فلم ماں پتر (1970) ، کھاریاں کے سازین سینما میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہ سینما کھاریاں کینٹ کے صدر کے علاقہ میں ہوتا تھا اور شہر سے خاصا دور ہوتا تھا۔ کھاریاں ، ایک چھوٹا سا شہر یا قصبہ ہوتا تھا جہاں فلمیں لاہور میں ریلیز کے کئی ہفتے بعد آتی تھیں۔ جس ہفتے یہ فلم لگی ، اسی ہفتے قیصر سینما پر ریاض شاہد کی مشہورزمانہ فلم زرقا (1969) چلی تھی جو میں نے گھر بتائے بغیر دیکھی تھی۔ قیصرسینما بھی کینٹ کی حدود میں گیمن کالونی میں ہوتا تھا جو شہر کے قریب تر تھا۔ میں 1970ء میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا اور یہ میرا 'خودی' کا پہلا مکمل سال تھا۔ اسی سال سے پاکستان کی سیاسی ، صحافتی اور فلمی تاریخ کا عینی شاہد ہوں۔ اس تایخ کو اس ویب سائٹ کی صورت میں محفوظ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
وحیدڈار کی دیگر فلموں میں سے فلم دل دیاں لگیاں (1970) کی موسیقی بھی بڑی لاجواب تھی۔ ماسٹرعنایت حسین کی دھنوں پر حزیں قادری کا لکھا ہوا اور مسعودرانا اور میڈم نورجہاں کا الگ الگ گایا ہوا یہ گیت "یا اپنا کسے نوں کر لے ، یا آپ کسے دا ہو بیلیا۔۔" ایک شاہکار گیت تھا۔ اس فلم کے دو اور گیت بھی بڑے لاجواب تھے "اک تارا ، جہیڑا چن ولے تکدا اے۔۔" اور "سوہنے پیار دا چن چڑھیا۔۔" یہ آخری گیت میڈم کے ساتھ سلیم رضا کا آخری گیت تھا۔ فلم دل دیاں لگیاں (1970) کے کیلنڈر پر رانی کے کندھے پر ایک بندر کی تصویر آج بھی یاد ہے۔
فلم
چن سجناں (1970) میں بھی
مسعودرانا کا یہ رومانٹک گیت دل کے تار چھیڑ دیتا ہے "نی ہرنی دے نیناں والیے ، اساں پچھنا اے کجھ تسی لکدے ، نی تیرا میرا کی رشتہ ، مینوں ہان دے جوان منڈے پچھدے۔۔"
وجاہت عطرے کی دھن میں
حزیں قادری کا لکھا ہوا یہ گیت
اقبال حسن پر فلمایا گیا تھا۔ اس فلم کا ایک سین ، ایک میلے میں ایک چھوٹے سے خیمہ نما منی سینما میں دیکھا تھا۔ اگر ہماری پرانی فلموں کے پرنٹ نامکمل اور کٹے پھٹے ملتے ہیں تو اس کی بڑی وجہ یہ ہوتی تھی کہ فلم آپریٹرز ، فلموں کی ریلوں سے کئی ایک سین کاٹ کر بیچا کرتے تھے جن سے ان کا اور وہ ٹوٹے دکھانے والوں کا دال دلیہ چلتا رہتا تھا۔ زیادہ تر فلمی گیتوں کی مانگ ہوتی تھی ، یہی وجہ ہے بہت سی فلموں میں کئی ایک گیت غائب ہوتے ہیں۔
فلم دولت تے غیرت (1973) میں نذیرعلی نے مسعودرانا سے یہ بڑی مشہور دھمال گوائی تھی "جیوے شاہ عبداللہ شاہ غازی ، رب راضی تے جگ راضی۔۔" فلم ماں تے قانون 1973ء میں عرصہ پانچ سال بعد اداکارہ بہار کی واپسی ہوئی تھی۔ فلم اصلی تے نقلی (1975) میں مسعودرانا کا یہ مزاحیہ گیت بھی بڑا زبردست تھا "اک چھڑا ، وجاندا گھڑا ، تڑپدا بڑا۔۔" فلم سلطان تے وریام (1983) میں مسعودرانا کا یہ گیت بھی قابل ذکر ہے "تیرا مکھڑا ویکھ کے سوچنا واں ، کدوں چن وچ اے روشنائی اے ، میں صدقے اوس مصور دے ، جنہیں اے تصویر بنائی اے۔۔" فلم کالیا (1984) بھی ایک لاجواب فلم تھی جس میں سلطان راہی نے نیم پاگل شخص کا کردار بخوبی کیا تھا۔ فلم دلا بھٹی (1984) کامیاب نہ ہو سکی تھی کیونکہ یوسف خان شکل ہی سے بوڑھے لگتے تھے اور رومانٹک فلموں کے لیے موزوں نہیں تھے۔
وحیدڈار کی 1980 کے عشرہ کے بعد زیادہ تر فلمیں سلطان راہی کے ساتھ تھیں۔ آخری فلم کے طور پر جیو جٹا (2002) کا ذکر ملتا ہے۔ یہ کیسا عجب اتفاق ہے کہ انھوں نے پنجابی فلموں کے تین بڑے اداکاروں یعنی سلطان راہی ، یوسف خان اور مصطفیٰ قریشی سے یکساں طور پر پندرہ پندرہ فلموں میں کام لیا تھا۔ بطور فلمساز ان کے کریڈٹ پر دو فلمیں تھیں ، اے پگ میرے ویر دی (1975) اور آخری مقابلہ (1983)۔
ہدایتکار وحیدڈار ، مشہور ہدایتکار اسلم ڈار کے بھائی اور پاکستان کی پہلی بلاک باسٹرفلم دلابھٹی (1956) کے ہدایتکار ایم ایس ڈار کے بیٹے تھے۔
(1 اردو گیت ... 19 پنجابی گیت )