A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
وحیدڈار ، پاکستان کی فلمی تاریخ کے شاید واحد ہدایتکار تھے کہ جنھوں نے 42 فلمیں بنائیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی اردو فلم نہ تھی حالانکہ بطور معاون ہدایتکار ان کی پہلی فلم زرینہ (1962) ایک اردو فلم تھی۔۔!
وحیدڈار کے کریڈٹ پر متعدد بڑی بڑی کامیاب اور نغمہ بار پنجابی فلمیں تھیں۔ بطور ہدایتکار ان کی پہلی فلم خلیفہ (1966) تھی جس کا ٹائٹل رول اس وقت کے مقبول ولن اداکار مظہرشاہ نے کیا تھا جو ایک منفرد کامیڈی ٹائپ رول تھا۔
اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ نغمہ اور حبیب کی یہ پہلی فلم تھی جس میں ان کی فلمی جوڑی بنی تھی۔ سلطان راہی اور اقبال حسن ، معاون اداکار تھے۔ صفدرحسین کی موسیقی میں احمدراہی کا یہ خوبصورت گیت احمدرشدی نے گایا تھا
حبیب پر فلمایا گیا رشدی صاحب کا یہ اکلوتا سولو پنجابی گیت تھا۔
احمدرشدی ، پاکستانی اردو فلموں کے ایک مایہ ناز گلوکار تھے۔ انھوں نے پنجابی فلموں میں بھی سو کے قریب گیت گائے تھے لیکن کامیابی سے محروم رہے۔ ان کے بہت کم گیت فلمی ہیروز پر فلمائے گئے تھے ، زیادہ تر گیت ، مزاحیہ اداکاروں کے لیے ہوتے تھے۔ وہ ، مسعودرانا کی طرح ایک آل راؤنڈ گلوکار نہیں تھے اور صرف ہلہ گلہ ٹائپ اردو گیت ہی گا سکتے تھے۔ پنجابی فلموں میں ان کے سولو گیتوں کی تعداد دو درجن تک ہے جن میں سے فلمی ہیروز پر فلمائے ہوئے گیتوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق ، حبیب ، اعجاز اور کیفی پر ایک ایک جبکہ وحیدمراد اور سدھیر پر احمدرشدی کے دو دو سولو گیت فلمائے گئے تھے ، باقی کسی فلمی ہیرو کا ذکر نہیں ملتا۔ رشدی صاحب کے سب سے زیادہ پنجابی سولو گیت منورظریف پر فلمائے گئے تھے جو ظاہر ہے کہ مزاحیہ گیت ہی ہوتے تھے۔
وحیدڈار کی ہدایتکار کے طور پر پہلی بڑی فلم چاچاجی (1967) تھی جس کا ٹائٹل رول وقت کے مقبول ترین اداکار علاؤالدین نے کیا تھا۔ طلعت صدیقی کا کردار بھی بڑا یادگار تھا جبکہ سلطان راہی کو اولڈ رول میں پیش کیا گیا تھا۔
موسیقار بابا جی اے چشتی اور گیت نگار حزیں قادری کے اشتراک سے مسعودرانا اور نسیم بیگم کے الگ الگ گائے ہوئے گیت
سپرہٹ ہوئے تھے جو فلم کی روایتی جوڑی اکمل اور فردوس پر فلمائے گئے تھے۔
اس فلم میں منورظریف کے ساتھ گایا ہوا احمدرشدی کا یہ مزاحیہ گیت بھی بڑا دلچسپ تھا "اے پیاں نے ریوڑیاں تے اے پیا ای حلوہ۔۔"
وحیدڈار کی کسی فلم میں رشدی صاحب کا یہ آخری گیت تھا کیونکہ اس کے بعد دیگر پنجابی فلموں کی طرح ، ڈار صاحب کی فلموں میں بھی زیادہ تر مسعودرانا ہی کے گیت ہوتے تھے۔
مبینہ طور پر فلم چاچاجی (1967) کے فلمساز شیخ نذیرحسین سے اداکارہ فردوس نے اکمل کی موت کے بعد شادی کی تھی۔
ہدایتکار وحیدڈار کی تیسری فلم دومٹیاراں (1968) میں پہلی بار مسعودرانا کو فلمی ہیرو کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ فلم کا آغاز اور اختتام بھی مسعودرانا پر ہی ہوتا ہے جنھوں نے اس فلم میں سلونی کے مقابل سائیڈ ہیرو کا رول کیا تھا اور دو گیت بھی گائے تھے۔
اس فلم میں مسعودرانا سے متعدد اشعار بھی کہلوائے گئے تھے جو اگر گوائے جاتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔
فلم کی روایتی جوڑی فردوس اور حبیب کی تھی۔ فلمساز ، گلوکارہ مالا کے خاوند عاشق بھٹی تھے اور موسیقی وزیرافضل صاحبان نے مرتب کی تھی۔ گیت اور کہانی حزیں قادری کی تھی۔
اس فلم نے اپنے دوسرے رن میں 1986ء میں لاہور میں سلورجوبلی کی تھی جو بہت بڑی بات تھی کیونکہ یہ پرانی بلیک اینڈ فلم ، ایکشن فلموں کے سیلاب میں ایک چٹان ثابت ہوئی تھی۔
ہدایتکار وحیدڈار کے فلمی کیرئر کی ایک بہت بڑی فلم مکھڑا چن ورگا (1969) بھی تھی۔ نغمہ اور حبیب کی روایتی جوڑی کے علاوہ اس فلم میں رانی اور یوسف خان کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ رانی کا تکیہ کلام "غریب جو ہوئے۔۔" بڑا مشہور ہوا تھا۔
اس دور میں رانی واحد اداکارہ تھی جو بیک وقت اردو اور پنجابی فلموں میں مقبول ہوتی تھی ، بڑی نیچرل اداکاری کرتی تھی۔ پنجابی فلموں میں نغمہ اور فردوس کے بعد تیسری مقبول ترین ہیروئن ہوتی تھی۔
بابا چشتی نے اس فلم میں بھی متعدد ہٹ گیت دیے تھے جن میں خاص طور پر میڈم نورجہاں کا گیت
کے علاوہ مسعودرانا اور نسیم بیگم کا یہ دوگانا بڑا مقبول ہوا تھا
رونا لیلیٰ کا یہ گیت بھی بڑا پسند کیا گیا تھا
اس فلم میں مرکزی کہانی کے متوازی چلنے والی منورظریف ، شاہدہ ، چن چن اور خلیفہ نذیر کی مزاحیہ کہانی بھی بڑی مقبول ہوئی تھی۔
فلم مکھڑا چن ورگا (1969) سے میری چند یادیں وابستہ ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ یہ فلم ، عیدالفطر 11 دسمبر 1969ء کو میرے آبائی شہر کھاریاں کے قیصر سینما میں ریلیز ہوئی تھی۔ اسوقت میں ، دوسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ اپنی پہلی فلم لچھی (1969) دیکھ چکا تھا اور سینما کے بورڈز کے علاوہ اخبارات میں فلمی اشتہارات بھی بڑے غور سے دیکھنا شروع کر دیے تھے۔
کھاریاں شہر کے مین بازار میں ایک کنواں ہوتا تھا جسے ہم 'رڑی والا کھوہ' کہتے تھے ، وہاں سے ہم عام طور پر گرمیوں میں سکول کے راستے میں پانی پیتے تھے۔ شہر میں میٹھے پانی کی شدید قلت ہوتی تھی اور زیرزمین جو پانی ہوتا تھا ، وہ بھی کھارا یعنی میٹھا نہیں ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے شہر کا نام 'کھاریاں' پڑا تھا۔
اس کنویں پر ہر وقت رش رہتا تھا اور ایسے پرہجوم مقامات آئیڈیل ہوتے تھے جہاں سینما والے فلموں کی پبلسٹی کیا کرتے تھے۔ ایک پیلی دیوار پر نیلے رنگ کا بڑا سا لکھا ہوا 'مکھڑا چن ورگا ' آج بھی ذہن پر نقش ہے۔
اتفاق سے اپنے پاکستان کے قیام کے دوران یہ فلم نہیں دیکھ سکا تھا لیکن اس کی بڑی شہرت سنی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب یہ فلم ویڈیو پر آئی تو اپنی پہلی فرصت میں لے آیا تھا حالانکہ اس دن میرا وی سی آر سیٹ مرمت کے لیے گیا ہوا تھا۔ کسی کا ادھار لیا اور تب تک چین نہیں آیا تھا جب تک یہ فلم دیکھ نہیں لی تھی۔
وحیدڈار کی بطور ہدایتکار ، ایک اور یادگار اور نغماتی فلم جنٹرمین (1969) تھی۔ فردوس اور حبیب مرکزی کرداروں میں تھے جبکہ ٹائٹل رول اسدبخاری کا تھا۔ اس
فلم کی موسیقی بڑی پاورفل تھی۔ نذیرعلی نے کمال کردیا تھا۔
میڈم نورجہاں کے گائے ہوئے یہ دونوں گیت حزیں قادری کے لکھے ہوئے تھے۔ اس فلم کا سب سے مقبول ترین اور بے مثل گیت مسعودرانا کا گایا ہوا تھا
اسی گیت کو نسیم بیگم نے بھی شوخ انداز میں گایا تھا جبکہ مالا کے ساتھ مسعودرانا کا یہ دلکش رومانٹک گیت بھی کیا غضب کا گیت تھا
یہ تینوں گیت خواجہ پرویز کے لکھے ہوئے تھے۔
یہ فلم ، ان ابتدائی دو فلموں میں سے ایک ہے کہ جن کے سازین سینما کے بورڈز میرے سکول کے سامنے ایک ہوٹل پر رکھے ہوئے یاد ہیں ، دوسری فلم جناب عالی (1968) تھی۔
ہدایتکار وحیدڈار کی پنجابی فلم ماں پتر (1970) ایک سپرہٹ فلم تھی جس نے کراچی میں پلاٹینم جوبلی یعنی 75 سے زائد ہفتے چلنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ مزے کی بات ہے کہ لاہور میں یہ فلم صرف سلورجوبلی کر سکی تھی لیکن لاہور کی سلورجوبلی ، کراچی کی کم از کم گولڈن جوبلی کے برابر ہوتی تھی۔ اس سے قبل پنجابی فلم انورا (1970) بھی کراچی میں پلاٹینم جوبلی کر چکی تھی۔
فردوس اور سدھیر کی اس فلم کی خاص بات اداکارہ رخسانہ کی سنجیدہ اداکاری تھی جو اپنے بیمار باپ کی جگہ گاؤں کے اوباش چوہدری کی چاکری کرتی ہے جو اس کی غربت و افلاس ، مجبوری اور کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔
اس فلم کا وہ سین کتنا لاجواب ہوتا ہے کہ جب ایک چائلڈ سٹار مراد اپنی جواں سال بہن فردوس کو سدھیر کے ساتھ دیکھ لیتا ہے تو اس کی غیرت جوش مارتی ہے اور وہ بڑے جذباتی انداز میں سدھیر ہی سے پوچھتا ہے کہ ایک غیرت مند شخص کو ایسی صورتحال میں کیا کرنا چاہیئے۔۔؟
اس فلم میں رنگیلا ، شاہدہ اور خلیفہ نذیر کا مزاحیہ حصہ بھی بڑا مشہور ہوا تھا۔
بابا چشتی نے فلم کی موسیقی بڑی اچھی دی تھی اور یوں تو سبھی گیت مقبول ہوئے تھے لیکن
ایک لوک گیت کا درجہ اختیار کر گیا تھا۔
فلم ماں پتر (1970) ، کھاریاں کے سازین سینما میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہ سینما کھاریاں کینٹ کے صدر کے علاقہ میں ہوتا تھا اور شہر سے خاصا دور ہوتا تھا۔
کھاریاں ، ایک چھوٹا سا شہر یا قصبہ ہوتا تھا جہاں فلمیں لاہور میں ریلیز کے کئی ہفتے بعد آتی تھیں۔ جس ہفتے یہ فلم لگی ، اسی ہفتے قیصر سینما پر ریاض شاہد کی مشہورزمانہ فلم زرقا (1969) چلی تھی جو میں نے گھر بتائے بغیر دیکھی تھی۔ قیصرسینما بھی کینٹ کی حدود میں گیمن کالونی میں ہوتا تھا جو شہر کے قریب تر تھا۔
1970ء میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا اور یہ میرا 'خودی' کا پہلا مکمل سال تھا۔ اسی سال سے پاکستان کی سیاسی ، صحافتی اور فلمی تاریخ کا عینی شاہد ہوں۔ اس تایخ کو اس ویب سائٹ کی صورت میں محفوظ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
وحیدڈار کی دیگر فلموں میں سے فلم دل دیاں لگیاں (1970) کی موسیقی بھی بڑی لاجواب تھی۔ ماسٹرعنایت حسین کی دھنوں پر حزیں قادری کا لکھا ہوا اور مسعودرانا اور میڈم نورجہاں کا الگ الگ گایا ہوا یہ گیت
ایک شاہکار گیت تھا۔ اس فلم کے دو اور گیت بھی بڑے لاجواب تھے
یہ آخری گیت میڈم کے ساتھ سلیم رضا کا آخری گیت تھا۔ فلم دل دیاں لگیاں (1970) کے کیلنڈر پر رانی کے کندھے پر ایک بندر کی تصویر آج بھی یاد ہے۔
فلم چن سجناں (1970) میں بھی مسعودرانا کا یہ رومانٹک گیت دل کے تار چھیڑ دیتا ہے
وجاہت عطرے کی دھن میں حزیں قادری کا لکھا ہوا یہ گیت اقبال حسن پر فلمایا گیا تھا۔
اس فلم کا ایک سین ، ایک میلے میں ایک چھوٹے سے خیمہ نما منی سینما میں دیکھا تھا۔ اگر ہماری پرانی فلموں کے پرنٹ نامکمل اور کٹے پھٹے ملتے ہیں تو اس کی بڑی وجہ یہ ہوتی تھی کہ فلم آپریٹرز ، فلموں کی ریلوں سے کئی ایک سین کاٹ کر بیچا کرتے تھے جن سے ان کا اور وہ ٹوٹے دکھانے والوں کا دال دلیہ چلتا رہتا تھا۔ زیادہ تر فلمی گیتوں کی مانگ ہوتی تھی ، یہی وجہ ہے بہت سی فلموں میں کئی ایک گیت غائب ہوتے ہیں۔
فلم دولت تے غیرت (1973) میں نذیرعلی نے مسعودرانا سے یہ بڑی مشہور دھمال گوائی تھی
فلم ماں تے قانون 1973ء میں عرصہ پانچ سال بعد اداکارہ بہار کی واپسی ہوئی تھی۔
فلم اصلی تے نقلی (1975) میں مسعودرانا کا یہ مزاحیہ گیت بھی بڑا زبردست تھا
فلم سلطان تے وریام (1983) میں مسعودرانا کا یہ گیت بھی قابل ذکر ہے
فلم کالیا (1984) بھی ایک لاجواب فلم تھی جس میں سلطان راہی نے نیم پاگل شخص کا کردار بخوبی کیا تھا۔
فلم دلا بھٹی (1984) کامیاب نہ ہو سکی تھی کیونکہ یوسف خان شکل ہی سے بوڑھے لگتے تھے اور رومانٹک فلموں کے لیے موزوں نہیں تھے۔
وحیدڈار کی 1980 کے عشرہ کے بعد زیادہ تر فلمیں سلطان راہی کے ساتھ تھیں۔ آخری فلم کے طور پر جیو جٹا (2002) کا ذکر ملتا ہے۔
یہ کیسا عجب اتفاق ہے کہ انھوں نے پنجابی فلموں کے تین بڑے اداکاروں یعنی سلطان راہی ، یوسف خان اور مصطفیٰ قریشی سے یکساں طور پر پندرہ پندرہ فلموں میں کام لیا تھا۔ بطور فلمساز ان کے کریڈٹ پر دو فلمیں تھیں ، اے پگ میرے ویر دی (1975) اور آخری مقابلہ (1983)۔
ہدایتکار وحیدڈار ، مشہور ہدایتکار اسلم ڈار کے بھائی اور پاکستان کی پہلی بلاک باسٹرفلم دلابھٹی (1956) کے ہدایتکار ایم ایس ڈار کے بیٹے تھے۔
1 | فلم ... چاچا جی ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: اکمل |
2 | فلم ... دو مٹیاراں ... پنجابی ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: وزیر افضل ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: مسعود رانا |
3 | فلم ... دو مٹیاراں ... پنجابی ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: وزیر افضل ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: مسعود رانا |
4 | فلم ... اک سی ماں ... پنجابی ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: وزیر افضل ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: حبیب |
5 | فلم ... مکھڑا چن ورگا ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ، نسیم بیگم ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: ؟ ... اداکار: نغمہ، حبیب |
6 | فلم ... مکھڑا چن ورگا ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: ؟ ... اداکار: (پس پردہ ، ٹائٹل سانگ ) |
7 | فلم ... جنٹر مین ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: حبیب |
8 | فلم ... جنٹر مین ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: فردوس ، حبیب |
9 | فلم ... دل دیاں لگیاں ... پنجابی ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عنایت حسین ... شاعر: احمد راہی ... اداکار: اعجاز |
10 | فلم ... چن سجناں ... پنجابی ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: اقبال حسن |
11 | فلم ... دولت تے غیرت ... پنجابی ... (1972) ... گلوکار: مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: ؟ |
12 | فلم ... اصلی تے نقلی ... پنجابی ... (1975) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: رنگیلا |
13 | فلم ... اے پگ میرے ویر دی ... پنجابی ... (1975) ... گلوکار: مسعودرانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: (پس پردہ) |
14 | فلم ... خونی ... پنجابی ... (1975) ... گلوکار: ناہید اختر ، مسعود رانا ... موسیقی: کمال احمد ... شاعر: ؟ ... اداکار: یوسف خان |
15 | فلم ... انجام ... پنجابی ... (1976) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: شاہد |
16 | فلم ... انجام ... اردو ... (1976) ... گلوکار: نورجہاں ، مسعود رانا ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: ؟ |
17 | فلم ... جبرو ... پنجابی ... (1977) ... گلوکار: مسعود رانا ، رجب علی مع ساتھی ... موسیقی: ماسٹر عنایت حسین ... شاعر: ؟ ... اداکار: رنگیلا ، امداد حسین ، یوسف خان مع ساتھی |
18 | فلم ... سلطان تے وریام ... پنجابی ... (1981) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: یوسف خان |
19 | فلم ... جرات ... پنجابی ... (1990) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: کمال احمد ... شاعر: ؟ ... اداکار: ؟ |
20 | فلم ... لشکر ... پنجابی ... (1991) ... گلوکار: ثمر اقبال ، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: ؟ ... اداکار: غلام محی الدین ، نیلی مع ساتھی |
21 | فلم ... دہشت گرد ... پنجابی ... (1992) ... گلوکار: حمیرا چنا ، مسعودرانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: ؟ ... اداکار: ریما ، اظہار قاضی |
1. | 1967: Chacha Ji(Punjabi) |
2. | 1968: 2 Mutiyaran(Punjabi) |
3. | 1968: Ik Si Maa(Punjabi) |
4. | 1969: Mukhra Chann Varga(Punjabi) |
5. | 1969: Genterman(Punjabi) |
6. | 1970: Dil Dian Lagian(Punjabi) |
7. | 1970: Chann Sajna(Punjabi) |
8. | 1972: Doulat Tay Ghairat(Punjabi) |
9. | 1975: Asli Tay Naqli(Punjabi) |
10. | 1975: A Pagg Meray Veer Di(Punjabi) |
11. | 1975: Khooni(Punjabi) |
12. | 1976: Anjaam(Punjabi) |
13. | 1977: Jabroo(Punjabi) |
14. | 1981: Sultan Tay Veryam(Punjabi) |
15. | 1990: Jurrat(Punjabi) |
16. | 1991: Lashkar(Punjabi) |
17. | 1992: Dehsht Gard(Punjabi/Urdu double version) |
1. | Punjabi filmChacha Jifrom Friday, 10 March 1967Singer(s): Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Akmal |
2. | Punjabi film2 Mutiyaranfrom Sunday, 10 March 1968Singer(s): Masood Rana, Music: Wazir Afzal, Poet: , Actor(s): Masood Rana |
3. | Punjabi film2 Mutiyaranfrom Sunday, 10 March 1968Singer(s): Masood Rana, Music: Wazir Afzal, Poet: , Actor(s): Masood Rana |
4. | Punjabi filmIk Si Maafrom Friday, 7 June 1968Singer(s): Masood Rana, Music: Wazir Afzal, Poet: , Actor(s): Habib |
5. | Punjabi filmMukhra Chann Vargafrom Friday, 12 September 1969Singer(s): Masood Rana, Naseem Begum, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Naghma, Habib |
6. | Punjabi filmMukhra Chann Vargafrom Friday, 12 September 1969Singer(s): Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): (Title song, playback) |
7. | Punjabi filmGentermanfrom Friday, 7 November 1969Singer(s): Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Habib |
8. | Punjabi filmGentermanfrom Friday, 7 November 1969Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Firdous, Habib |
9. | Punjabi filmDil Dian Lagianfrom Friday, 17 April 1970Singer(s): Masood Rana, Music: Master Inayat Hussain, Poet: , Actor(s): Ejaz |
10. | Punjabi filmChann Sajnafrom Friday, 1 May 1970Singer(s): Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): Iqbal Hassan |
11. | Punjabi filmDoulat Tay Ghairatfrom Friday, 8 September 1972Singer(s): Masood Rana & Co., Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): ? |
12. | Punjabi filmAsli Tay Naqlifrom Friday, 28 February 1975Singer(s): Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): Rangeela |
13. | Punjabi filmA Pagg Meray Veer Difrom Friday, 2 May 1975Singer(s): Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): (Playback) |
14. | Punjabi filmKhoonifrom Friday, 21 November 1975Singer(s): Naheed Akhtar, Masood Rana, Music: Kemal Ahmad, Poet: , Actor(s): Yousuf Khan |
15. | Urdu filmAnjaamfrom Friday, 30 April 1976Singer(s): Noorjahan, Masood Rana, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): ? |
16. | Punjabi filmAnjaamfrom Friday, 30 April 1976Singer(s): Masood Rana, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): Shahid |
17. | Punjabi filmJabroofrom Friday, 16 September 1977Singer(s): Masood Rana, Rajab Ali & Co., Music: Master Inayat Hussain, Poet: , Actor(s): Yousuf Khan, Rangeela, Imdad Hussain &Co. |
18. | Punjabi filmSultan Tay Veryamfrom Friday, 25 December 1981Singer(s): Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Yousuf Khan |
19. | Punjabi filmJurratfrom Friday, 26 January 1990Singer(s): Masood Rana, Music: Kemal Ahmad, Poet: , Actor(s): ? |
20. | Punjabi filmLashkarfrom Friday, 22 November 1991Singer(s): Masood Rana, Samar Iqbal & Co., Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): Ghulam Mohayuddin, Neeli & Co. |
21. | Punjabi filmDehsht Gardfrom Friday, 7 February 1992Singer(s): Humaira Channa, Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): Reema, Izhar Qazi |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.