A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
فیروز نظامی ، ایک روایتی فلمی موسیقار ہی نہیں بلکہ فن موسیقی پر متعدد کتب کے مصنف بھی تھے۔ انھوں نے اس موضوع پر کئی ایک مضامین بھی تحریر کیے تھے اور پاکستان آرٹس کونسل لاہور کی میوزک اکیڈمی میں لیکچرار بھی رہے ہیں۔
دیگر موسیقاروں کی نسبت انھوں نے کم کام کیا لیکن ستھرا کیا اور خاص طور پر اپنی تین نغماتی فلموں جگنو (1947) ، چن وے (1951) اور دوپٹہ (1952) کی وجہ سے یاد رکھے جاتے ہیں۔
فیروز نظامی نے تقسیم سے قبل اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کیاتھا اور جگنو (1947) سب سے بڑی میوزیکل فلم تھی۔ یہ ایک تاریخ ساز فلم تھی جس میں ملکہ ترنم نورجہاں نے بطور گلوکارہ ، محمدرفیع کے ساتھ اپنا اکلوتا اور سدابہار دوگانا
گایا تھا اور بطور اداکارہ ، دلیپ کمار کے ساتھ پہلی اور آخری بار ہیروئن بھی آئی تھیں۔ اس فلم کے فلمساز اور ہدایتکار ان کے شوہر سید شوکت حسین رضوی تھے جن کی تقسیم سے قبل یہ آخری فلم تھی۔
اس فلم میں ایک اور اہم کردار اداکارہ سلوچنا کا تھا جو برصغیر پاک و ہند کی فلمی تاریخ کی پہلی سپر سٹار اداکارہ تھی جس نے بیس کے عشرہ میں خاموش فلموں کے دور سے تیس کے عشرہ کی ٹاکی فلموں کے دور تک مقبول ترین اداکارہ ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
اس کے علاوہ تیس اور چالیس کے عشروں کے مقبول ترین ولن اور پاکستان کے پچاس کے عشرہ کے ممتاز کیریکٹرایکٹر اداکار غلام محمد نے دلیپ کمار کے باپ کا کردار کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اسی فلم سے محمدرفیع اور دلیپ کمار کو بریک تھرو ملا تھا۔
موسیقار فیروز نظامی نے فلم جگنو (1947) میں مندرجہ بالا دوگانے کے علاوہ اس وقت کے متعدد مقبول ترین گیت تخلیق کیے تھے جن میں ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں
قابل ذکر تھے۔ شمشاد بیگم سے
گوایا تھا جبکہ محمدرفیع اور ساتھیوں کی آواز میں ایک شوخ گیت
وہ اپنی یاد دلانے کو اک عشق کی دنیا چھوڑ گئے۔۔
بھی گوایا تھا۔ اس کورس گیت میں خود محمدرفیع بھی دوستوں کے ساتھ تاش کھیلتے ہوئے اپنا یہ گیت گاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس کے علاوہ فیروز نظامی نے پہلی بار ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم سے بھی ایک گیت گوایا تھا
ان گیتوں کے علاوہ ایک اور مقبول گیت
بھی تھا جس کی دھن بابا جی اے چشتی نے بنائی تھی۔ اس فلم کے گیت نگاروں میں تنویر نقوی اور نخشب بڑے نام تھے۔
قیام پاکستان کے بعد فیروز نظامی کی پہلی فلم ہماری بستی (1950) تھی جس میں کوئی قابل ذکر گیت نہیں ملتا۔ یقیناً کئی ایک میعاری گیت ہوں گے لیکن ان پر وقت کی دھول پڑھ چکی ہے۔
نغمات کے لحاظ سے ان کی یادگار فلم چن وے (1951) تھی جس کے بیشتر گیت بے حد مقبول ہوئے تھے۔ خاص طور پر
تو ایک ضرب المثل بن گیا تھا۔
ملکہ ترنم نورجہاں کی بطور ادکارہ اور گلوکارہ ، پاکستان میں یہ پہلی فلم تھی۔ اس فلم کے ہدایتکار کے طور پر بھی میڈم کا نام ملتا ہے ، اس طرح سے وہ پاکستان کی پہلی خاتون ہدایتکارہ بھی بن گئی تھیں۔
یہ فلم ریجنٹ سینما لاہور میں مسلسل 18 ہفتے چلی تھی لیکن فلم پھیرے (1949) کا ریکارڈ نہیں توڑ سکی تھی۔
اس فلم کی کہانی بھی بڑی عجیب تھی کہ فلم کی مرکزی جوڑی نورجہاں اور سنتوش ، بہن بھائی ہوتے ہیں اور روایتی ہیرو جہانگیر ہیں جو 2000ء کے عشرہ کے معروف اداکار شامل خان کے والد تھے۔ غلام محمد نے ولن کا مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
اس فلم میں میڈم نورجہاں کے گائے ہوئے تقریباً ایک درجن گیتوں میں سے بیشتر مقبول ہوئے تھے جن میں سے مندرجہ بالا گیت کے علاوہ دیگر مقبول گیتوں کی فہرست کچھ اس طرح سے تھی:
فلم چن وے (1951) کے گیتوں کی اس فہرست میں آخری گیت استاد دامن نے لکھا تھا جبکہ "منڈیا سیالکوٹیا۔۔" سمیت باقی سبھی گیت ایف ڈی شرف کے لکھے ہوئے تھے۔
فیروز نظامی کے فلمی کیرئر کی ایک اور بڑی نغماتی فلم دوپٹہ (1952) تھی۔ اس فلم میں بھی ملکہ ترنم نورجہاں کے گائے ہوئے متعدد گیت سپر ہٹ ہوئے تھے۔
ہدایتکار سبطین فضلی کی اس شاہکار فلم کو پڑوسی ملک بھارت میں بھی بے حد پسند کیا گیا تھا۔ اس فلم میں میڈم کی جوڑی اجے کمار نامی اداکار کے ساتھ تھی جس کی یہ اکلوتی فلم تھی لیکن پوری فلم پر سدھیر چھائے ہوئے تھے جنھیں اسی فلم سے بریک تھرو ملا تھا۔ اس فلم کے مقبول گیتوں کی ایک فہرست کچھ اس طرح سے تھی:
فلم دوپٹہ (1952) کے گیتوں کی اس فہرست کے پہلے دونوں گیت عرش لکھنوی نے لکھے تھے جبکہ آخری تینوں گیت مشیر کاظمی کے زورقلم کا نتیجہ تھے جن سے ایک گیت کے ساتھ یہ یادگار واقعہ منسلک ہے کہ گیت نگار مشیر کاظمی فاقے سے تھے اور بھوک کی وجہ سے نیند نہیں آرہی تھی کہ ایسے میں انھیں آمد ہوئی "چاندنی راتیں ، سب جگ سوئے ، ہم جاگیں ، تاروں سے کریں باتیں۔۔" قدرت نے ان کی سن لی تھی اور یہ گیت سپرہٹ ہوا تھا اور انھیں بھی فلموں میں گیت نگاری کا کام ملنا شروع ہوگیا تھا۔
حیرت کی بات ہے کہ اگلی ایک درجن فلموں میں ان کا صرف فلم سولہ آنے (1959) میں زبیدہ خانم کا گایا ہوا ایک ہی گیت سپر ہٹ ہوا تھا
لیکن کوئی گیت ہٹ نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ گیت میعاری نہیں ہوتا ، پسند اپنی اپنی اور خیال اپنا اپنا ہوتا ہے۔ بہت سی فلموں میں گمنام سے گیت بھی بڑے میعاری ہوتے تھے جس کی ایک مثال فلم سوکن (1965) میں مالا اور منیر حسین کا گایا ہوا اور وارث لدھیانوی کا لکھا ہوا اور فیروز نظامی کا کمپوز کیا ہوا یہ دلکش رومانٹک گیت ہے:
اسی فلم میں فیروز نظامی نے پہلی بار مسعودرانا سے کوئی گیت گوایا تھا جو ایک بے اولاد عورت کے موضوع پر تھا:
یہ ایک تھیم سانگ تھا جو فلم کی ہیروئن یاسمین کے پس منظر میں کسی ایکسٹرا اداکار پر فلمایا گیا تھا۔
یہ ایک بڑی اعلیٰ پائے کی معاشرتی اور اصلاحی فلم تھی جو سوتن اور بے اولاد عورت کے موضوع پر بنائی گئی تھی۔
اس وقت کی مقبول فلمی ہیروئن شیریں نے فلم کا ٹائٹل رول کیا تھا اور اکمل ہیرو تھے۔ لیکن فلم کا سب سے اہم کردار اداکارہ یاسمین تھی جو ایک انتہائی اعلیٰ پائے کی پرفارمر تھی ، خاص طور پر جذباتی اداکاری میں وہ بہت بڑی اداکارہ تھی۔ آدمی (1958) ، فرشتہ (161) اور نظام لوہار (1966) وغیرہ یاسمین کے کریڈٹ پر بہت بڑی فلمیں تھیں۔ یاسمین کی سکرین بیوٹی بھی بڑے کمال کی تھی اور فلم جبرو (1956) میں اس کا گلیمر ہی فلم کی کامیابی کی ضمانت تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ یاسمین خود میڈم نورجہاں کی سوتن بنی تھی۔
اس بامقصد فلم کے ہدایتکار عارف نظامی تھے جو شاید فیروز نظامی کے کوئی عزیز تھے کیونکہ نظامی صاحب کی آخری فلم زن زر تے زمین (1974) کے ہدایتکار بھی وہی تھے۔ ویسے تو اسی نام کے ایک سینئر صحافی بھی ہیں۔ اس فلم کا تھیم سانگ بھی مسعودرانا کی آواز میں تھا:
فلمی تاریخ بتاتی ہے کہ مسعودرانا جیسے عہد ساز گلوکار نے ٹائٹل اور تھیم سانگز کا جو سٹائل دیا تھا ، بڑے سے بڑا موسیقار بھی اس سے ہٹ کر کام نہیں کر سکا تھا اور جب بھی ایسے بامقصد گیتوں کی ضرورت پڑتی تھی ، ہر موسیقار کا پہلا انتخاب مسعودرانا ہی ہوتے تھے۔
فیروز نظامی نے پاکستان میں صرف 16 فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی جس میں سوا سو کے قریب گیت ہیں۔ ان کے سب سے زیادہ گیت میڈم نورجہاں اور سلیم رضا نے گائے تھے جبکہ حیرت کی بات ہے کہ انھوں نے کبھی کوئی گیت خانصاحب مہدی حسن سے نہیں گوایا تھا۔ وہ موسیقار سلیم اقبال کے استاد بھی بتائے جاتے ہیں۔
فیروز نظامی ، 15 نومبر 1910ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ پاکستان کی طرف سے پہلی ٹیسٹ سنچری بنانے والے نذرمحمد ان کے چھوٹے بھائی تھے جن کے بیٹے آل راؤنڈ کرکٹر مدثرنذر تھے۔ نظامی صاحب کا 1975ء میں اپنی سالگرہ کے دن انتقال ہو گیا تھا۔
1 | بیریاں نوں بیر لگ گئے ، تینوں کجھ نہ لگا مٹیارے ، کنکاں نوں بور پے گیا ، پھل ٹہنیاں تے لین ہلارے..فلم ... سوکن ... پنجابی ... (1965) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: فیروز نظامی ... شاعر: وارث لدھیانوی ... اداکار: ؟ (تھیم سانگ ، یاسمین) |
2 | زن زر تے زمین دا جھگڑا دنیا تے رہنا اے..فلم ... زن زر تے زمین ... پنجابی ... (1974) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: فیروز نظامی ... شاعر: جہانگیر چودھری ... اداکار: (ٹائٹل سانگ ، تھیم سانگ ) |
1 | بیریاں نوں بیر لگ گئے ، تینوں کجھ نہ لگا مٹیارے ، کنکاں نوں بور پے گیا ، پھل ٹہنیاں تے لین ہلارے ...(فلم ... سوکن ... 1965) |
2 | زن زر تے زمین دا جھگڑا دنیا تے رہنا اے ...(فلم ... زن زر تے زمین ... 1974) |
1 | بیریاں نوں بیر لگ گئے ، تینوں کجھ نہ لگا مٹیارے ، کنکاں نوں بور پے گیا ، پھل ٹہنیاں تے لین ہلارے ...(فلم ... سوکن ... 1965) |
2 | زن زر تے زمین دا جھگڑا دنیا تے رہنا اے ...(فلم ... زن زر تے زمین ... 1974) |
1. | 1965: Soukan(Punjabi) |
2. | 1974: Zan, Zar Tay Zamin(Punjabi) |
1. | Punjabi filmSoukanfrom Friday, 27 August 1965Singer(s): Masood Rana, Music: Feroz Nizami, Poet: , Actor(s): ? (Theme song - Yasmin) |
2. | Punjabi filmZan, Zar Tay Zaminfrom Friday, 15 March 1974Singer(s): Masood Rana, Music: Feroz Nizami, Poet: , Actor(s): ? |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.