لال محمد اقبال
نے اردو ، بنگالی اور سندھی فلموں کے علاوہ پاکستان کی پہلی پشتو اور گجراتی فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی
موسیقار جوڑی ، لال محمد اقبال
لال محمد اقبال ، پاکستانی فلموں کے موسیقاروں کی ایک جوڑی تھی جن میں سے پہلے لال محمد ، ایک بہترین بانسری نواز تھے جبکہ دوسرے سارنگی نواز بلند اقبال تھے جو نامور موسیقار بندو خان کے بیٹے تھے۔
اس جوڑی کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ اردو ، بنگالی اور سندھی فلموں کے علاوہ انھوں نے 1970ء میں ریلیز ہونے والی پاکستان کی پہلی پشتو فلم یوسف خان شیر بانو اور پہلی گجراتی فلم ماں تے ماں کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔
لال محمد اقبال کی پہلی فلم
لال محمد اقبال نے اپنی پہلی فلم بارہ بجے (1961) میں ایک بھارتی گلوکارہ نشی کماری سے یہ مشہور گیت گوایا تھا
- ہار گئی ، ہار گئی ، تو سے دل لگا کے۔۔
لال محمد اقبال اور مسعودرانا کا ساتھ
اس جوڑی کی دوسری فلم مسٹر ایکس (1963) تھی جس میں انھوں نے پہلی بار مسعودرانا سے تین گیت گوائے تھے۔ ان گیتوں میں دھیمی سروں میں گایا ہوا یہ سریلا گیت فلم کے ہیرو محمدعلی صاحب پر فلمایا گیا تھا:
اسی فلم میں مسعودرانا ، نسیمہ شاہین ، وسیم فاروقی اور ساتھیوں کے ایک شوخ کورس گیت
کے علاوہ ایک اور دلچسپ کورس گیت ایک قوالی کی شکل میں تھا:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
عورتوں اور مردوں کے ایک دوسرے پر روایتی الزامات و شکایات پر مبنی یہ ایک دلکش فلمی قوالی یقیناَ فلم کے ہیرو محمدعلی اور ہیروئن ناصرہ مع ساتھیوں پر فلمائی گئی ہو گی۔ ناصرہ کی مرکزی کردارمیں یہ پہلی فلم تھی کیونکہ عام طور پر وہ فلموں میں معاون یا ویمپ کرداروں میں نظر آتی تھی۔
گیت نگار شور لکھنوی کے لکھے ہوئے اس اکلوتے گیت میں خواتین یہ شکایت کرتے ہوئے سنائی دیتی ہیں کہ یہ مرد حضرات ، ان کے کپڑوں کے ایک ایک تار کو گھورتے ہیں۔۔!
یہ بات نہ صرف سو فیصدی درست ہے کہ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ بلکہ یہ فطرت کے عین مطابق بھی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جب عورتیں سات پردوں میں ہوتی تھیں ، تب بھی دیکھنے والے ان کے برقعہ کے ایک ایک تار کو گن لیتے تھے۔
یہاں یورپ میں عورت آزاد اور بے پردہ ہے اور تصویر کائنات میں رنگ بھرتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن وہ بھی شاکی ہے کیونکہ مرد بیچارہ اپنی فطرت سے مجبور ہے اور کبھی مطمئن نہیں ہو پاتا اور ہمیشہ مشتاق نظروں سے ہر عورت کا سر سے پاؤں تک عکس اتار لیتا ہے۔
میں خود بھی بڑا حسن پرست رہا ہوں اور زندگی میں ایسے دلچسپ اور سبق آموز واقعات بکھرے پڑے ہیں کہ جنھیں سمیٹنا چاہوں بھی تو اس کے لیے کرونا وائرس کی برکت سے ملنے والی یہ جبری چھٹیاں بھی ناکافی ثابت ہوں گی۔ گوعملی زندگی میں میں بڑا شریف آدمی واقع ہوا ہوں اور ناچتی گاتی یا نیم عریاں عورتوں کو دیکھنے سے کبھی دلچسپی نہیں رہی لیکن حسین اور خوش لباس خواتین کو دیکھنا ایک ایسی مجبوری اور ایک فطری کمزوری ہے کہ جس سے کبھی دامن نہیں چھڑا سکا۔
گلوکارہ خورشید بیگم
اس قوالی میں لال محمد اقبال نے مسعودرانا کے ساتھ جن دو گلوکاراؤں کو شامل کیا تھا وہ فلمی تاریخ میں گمنام ہیں۔ ان میں سے ایک تو عشرت جہاں ہے جس نے ایک درجن کے قریب فلمی گیت گائے تھے اور واحد فلم غزالہ (1963) تھی جس میں اس کے دو سولو گیت تھے جبکہ دوسری گلوکارہ خورشید بیگم نے بھی ایک درجن کے قریب فلمی گیت گائے تھے اور واحد فلم انقلاب (1962) تھی جس میں چار گیت گائے تھے لیکن کوئی ایک بھی ہٹ نہیں تھا۔
یاد رہے کہ یہ گلوکارہ خورشید بیگم ، وہ اداکارہ اور گلوکارہ خورشید نہیں ہے جو تقسیم سے قبل کی ایک فنکارہ تھی۔ خورشید بیگم کو میں ریڈیو پاکستان لاہور کی وساطت سے جانتا ہوں جب اس کے پنجابی لوک گیت نذیر بیگم کے ساتھ سنائی دیتے تھے۔
خورشید بیگم کا سب سے مقبول ترین گیت منظور جھلا کا لکھا ہوا تھا
- نہ دل دیندی بے دردی نوں ، نہ کونج وانگوں کرلاندی ، کدی نہ پچھاندی میں۔۔
یہ ایک ریڈیو گیت تھا جسے اسی دھن میں فلم پروہنا (1966) میں میڈم نورجہاں کی آواز میں بھی گوایا گیا تھا۔
لال محمد اقبال کی اگلی فلم چھوٹی بہن (1964) تھی جس میں انھوں نے مسعودرانا سے یہ تین انتہائی اعلیٰ پائے کے گیت گوائے تھے:
مسعودرانا کی آل راؤنڈ کارکردگی
پاکستان کی فلمی تاریخ میں کوئی دوسرا گلوکار اپنی آل راؤنڈ کارکردگی سے اتنا متاثر نہیں کرتا جتنا مسعودرانا صاحب کرتے ہیں اور مندرجہ بالا دھیمی سروں میں گائے ہوئے تینوں گیت اسی صف میں آتے ہیں۔ ان میں پہلا سولو گیت تھا جبکہ باقی دونوں گیتوں میں ان کے ساتھ نگہت سیما نامی گلوکارہ تھی جس نے معروف گلوکار تاج ملتانی کے ساتھ شادی کی تھی۔ اس کا فلم لوری (1966) میں ایک گیت
- تالی بجے بھئی ، تالی بجے۔۔
بڑا مشہور ہوا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نگہت سیما نے مسعودرانا کے ساتھ اپنے پانچوں گیت ، لال محمد اقبال کی موسیقی میں گائے تھے۔
لال محمد اقبال کے دیگر گیت
مسعودرانا کا لال محمد اقبال کے ساتھ اگلا ساتھ فلم جاگ اٹھا انسان (1966) میں تھا جس میں مسرور انور کا لکھا ہوا اور مالا کے ساتھ گایا ہوا یہ سپر ہٹ دوگانا تھا:
دکھی پریم نگری کا لکھا ہوا یہ دلکش گیت وحیدمراد اور زیبا کی جوڑی پر فلمایا گیا تھا۔ اسی فلم میں خانصاحب مہدی حسن کی یہ غزل بھی بڑی پسند کی گئی تھی
- دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں۔۔
جبکہ فلم آزادی یا موت (1966) میں لال محمد اقبال نے معروف لوک فنکار عالم لوہار سے ان کا اکلوتا ہٹ اردو فلمی گیت جو ایک ترانہ تھا ، گوایا تھا
- دنیا جانے ، میرے وطن کی شان۔۔
لال محمد اقبال کی جوڑی نے فلم میرے لال (1967) میں ایکبار پھر مسعودرانا سے تین گیت گوائے تھے اور کیا لاجواب گیت تھے۔ ان میں سے پہلا ایک سولو گیت تھا:
اس فلم کے ہیرو حنیف تھے اور یقیناَ یہ گیت انھی پر فلمایا گیا ہو گا۔ باقی دونوں گیتوں میں مسعودرانا کے ساتھ نگہت سیما تھی اور ان میں سے ایک گیت تھا:
یہ ایک شوخ یا مزاحیہ گیت تھا جو اداکار نرالا پر فلمایا گیا ہو گا جبکہ دوسرا ایک سنجیدہ رومانٹک گیت تھا:
اس فلم کے گیت صہبا اختر نے لکھے تھے جبکہ فلم کی ہیروئن صوفیہ بانو تھی جس نے زیادہ فلموں میں کام نہیں کیا تھا۔
فلم دوسری ماں (1968) میں مسعودرانا نے لال محمد اقبال کی دھن پر صرف ایک شادی بیاہ کا کورس گیت گایا تھا:
اس گیت میں دیگر گلوکاروں میں نگہت سیما اور آئرن پروین کے علاوہ احمدرشدی بھی تھے جو لال محمد اقبال کی پہلی فلم میں بھی تھے۔
اے ابر کرم ، آج اتنا برس
دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی پہلی سات فلموں میں رشدی صاحب کے لیے انھوں نے صرف دو گیت کمپوز کیے تھے لیکن اس فلم کے بعد وہ ، ان کے مستقل گلوکار بن گئے تھے اور ان کے تین درجن کے قریب مشترکہ گیت ملتے ہیں جن میں سب سے سپر ہٹ اور شاہکار گیت
- اے ابر کرم ، آج اتنا برس ، اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں۔۔
تھا۔ لال محمد اقبال نے صرف کراچی کی فلموں میں موسیقی دی تھی اور چونکہ رشدی صاحب کا بنیادی تعلق بھی کراچی ہی سے تھا جہاں انھیں عوامی گلوکار کا درجہ حاصل تھا اور اپنے ہلکے پھلکے ہلہ گلہ ٹائپ گیتوں کی وجہ سے وہ دیگر گلوکاروں کی نسبت زیادہ پسند کیے جاتے تھے ، اسی لیے لال محمد اقبال کے زیادہ تر گیت احمدرشدی کے ساتھ ملتے ہیں جو اردو فلمی بینوں کے مزاج اور پسند کے مطابق ہوتے تھے۔
لال محمد اقبال نے مسعودرانا کے لیے ایک غیرریلیز شدہ فلم گھروندہ میں بھی رونا لیلیٰ کے ساتھ ایک انتہائی دلکش دوگانا ریکارڈ کروایا تھا جو گیت نگار دکھی پریم نگری کا لکھا ہوا تھا:
پہلی پاک بھارت مشترکہ فلم سورج بھی تماشائی
ان کے علاوہ جو آخری گیت ملتا ہے وہ ایک مشترکہ فلمسازی کے تحت بننے والی فلم سورج بھی تماشائی میں ہے:
یہ گیت مسعودرانا اور آئرن پروین کا گایا ہوا تھا اور پاکستان کی طرف سے راحت کاظمی ہیرو اور بھارتی اداکارہ ریحانہ سلطان جو روایتی ہیروئن تھی ، پر فلمایا گیا تھا۔ اس فلم میں ولن کا کردار سریش اوبروئے نامی اداکار نے کیا تھا جبکہ اس فلم کو فلمساز اور ہدایتکار ضیاء الرشید نے بنایا تھا۔
فلم سورج بھی تماشائی ، پاکستان ، بھارت ، سری لنکا ، ایران اور اردن کی مشترکہ فلم تھی اور دبئی میں بنائی گئی تھی لیکن پاکستان کے سینماؤں پر کبھی ریلیز نہیں ہوئی تھی حالانکہ اس دور میں متعدد بھارتی فلموں کو نمائش کی اجازت دی گئی تھی۔
ایک منافق اور ٹھرکی آمر کا قصہ
یہ ، اس دور کی بات ہے کہ جب پاکستان پر ایک بدترین آمر مسلط تھا جس نے کسی غنڈے اور بدمعاش کی طرح طاقت کے بل بوتے پر مروجہ قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اپنے ہی ملک پر غاصبانہ قبضہ کر لیا تھا اور جسے وہ اپنے باپ کی جاگیر سمجھتے ہوئے اس میں بسنے والی خلق خدا کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا۔
بظاہر وہ خود کو بڑا مذہبی ظاہر کرتا تھا اور کچھ گمراہ عناصر کا "مرد مومن" بھی تھا لیکن عملی طور پر وہ ایک پرلے درجے کا منافق اور ٹھرکی شخص تھا جس کا بیشتر وقت وی سی آر پر بھارتی فلمیں دیکھنے میں گزرتا تھا حالانکہ اس وقت پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش خلاف قانون تھی لیکن ایک آمر کے دور میں قانون کی کیا قدرو اہمیت ہو سکتی تھی۔
اس غاصب و جابر اور خود ساختہ صدر نے اپنے دیرینہ شوق سے مجبور ہو کر ایک تھرڈ کلاس انتہا پسند ہندو انڈین ایکٹر کو اپنے گھر کا ایک فرد بھی بنایا ہوا تھا جو کسی طور بھی اس منصب کے شایان شان نہیں تھا۔
مجھے زندگی بھر کبھی بھارتی فلموں یا فنکاروں سے دلچسپی نہیں رہی لیکن اتفاق سے نوے کے عشرہ میں سیٹلائٹ ٹی وی پر ایک بھارتی فلم میں اسے دیکھا تھا اور کبھی نہیں بھول پایا کہ وہ اداکار ، اپنے فلمی کردار میں پاک فوج کی وردی میں ملبوس ایک میدان جنگ میں نشے کی حالت میں پاکستانی فوجیوں کا مذاق اڑا رہا تھا۔ بعد میں وہ بھارت کی ایک انتہا پسند مذہبی جنونی پارٹی کا ممبر بھی بنا تھا۔ ایسے شخص کو گھر کا فرد بنانا ،کسی انتہائی بے غیرت اور ذلیل ترین شخص کا کام ہی ہو سکتا تھا اور وہ ملعون ڈکٹیٹر ، جس کا نام لیتے ہوئے زبان ناپاک ہو جاتی ہے ، بالکل ایسا ہی ایک لعنتی کردار تھا۔۔!
13 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت