Pakistan Film History
Pakistan Film Magazine presents detailed Urdu/Punjabi article on famous actor Himalayawala.
ہمالیہ والا ، پاکستانی فلموں کے پہلے ممتاز ولن اداکار تھے۔۔!
پاکستان کی دوسری فلم ، شاہدہ (1949) میں ایک مغرور اور عیاش دولت مند کے منفی کردار میں بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور خوب داد سمیٹی۔
ہدایتکار لقمان کی اس مسلم سوشل فلم میں ٹائٹل رول اداکارہ شمیم نے کیا اور ہیرو ناصرخان تھے جو دلیپ کمار کے بھائی تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس اردو فلم نے دہلی اور لکھنو میں سلورجوبلیاں منائیں لیکن پاکستان میں ناکام رہی تھی۔
ہمالیہ والا کی پاکستان میں دو درجن سے زائد جبکہ تقسیم سے قبل متحدہ ہندوستان میں ایک درجن سے زائد فلموں کا حوالہ ملتا ہے۔ پہلی فلم کس کی بیوی (1942) بتائی جاتی ہے۔ ابتدائی چھ سات فلموں میں چھوٹے موٹے کرداروں میں نظر آئے۔ قیام پاکستان سے قبل کی متعدد خاص خاص فلموں کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:
قیام پاکستان سے قبل ، ہمالیہ والا کی پہلی قابل ذکر فلم زینت (1945) تھی جو سید شوکت حسین رضوی کی بطور فلمساز اور ہدایتکار سب سے کامیاب جبکہ میڈم نورجہاں کی انمول گھڑی (1946) کے بعد دوسری سب سے کامیاب ترین فلم تھی۔ 1940کی دھائی میں برصغیر میں ایک ہزار سے زائد ریلیز شدہ فلموں میں سے اس مسلم سوشل اور نغماتی فلم کا بزنس 9ویں نمبر پر تھا۔ لاہور کے نشاط سینما پر اس سپرہٹ فلم نے سلور جوبلی منائی تھی۔
فلم زینت (1945) میں ٹائٹل رول کرنے والی اداکارہ نورجہاں نے صرف اٹھارہ انیس سال کی عمر میں ینگ ٹو اولڈ رول کیا لیکن ضرورت سے زیادہ بوڑھی دکھائی گئی۔ آغا سلیم رضا نے نورجہاں کے شوہر اور نسیم جونیئر نامی اداکارہ نے بیٹی کا رول کیا تھا جس کے ہیرو کرن دیوان اور ولن ہمالیہ والا تھے۔ مزاحیہ اداکار یعقوب کا یہ جملہ زبان زدعام ہوا تھا "رہے نام اللہ کا۔۔!"
فلم زینت (1945) میں ملکہ ترنم نورجہاں کے علاوہ ہمالیہ والا ، آغا سلیم رضا ، مجید اور شاہ نواز، تقسیم کے بعد پاکستانی فلموں کے معروف فنکار شمار ہوئے۔ اس فلم کا سکرین پلے خادم محی الدین نے لکھا تھا جن کے کریڈٹ پر پہلی پاکستانی فلم تیری یاد (1948) کی کہانی بھی ہے۔
فلم زینت (1945) میں پہلی بار ایک زنانہ قوالی "آہیں نہ بھریں ، شکوے نہ کیے ، کچھ بھی نہ زبان سے کام لیا۔۔" فلمائی گئی تھی جو نغمہ نگار نخشب نے لکھی تھی۔ میرصاحب کی دھن میں امیر بائی کرناٹکی ، کلیانی اور ساتھیوں کے علاوہ اس قوالی میں میڈم نورجہاں کی آواز بھی بتائی جاتی ہے۔
اسی فلم میں محمد رفیع کا گایا ہوا ایک گیت "ہائے ری دنیا ، کتنی دل آزار ہے دنیا۔۔" ، میڈم نورجہاں کے پس منظر میں فلمایا گیا تھا جن کے اپنے گائے ہوئے دو گیت سپرہٹ ہوئے تھے جنھیں شیون رضوی نے لکھا تھا:
اسی سال ریلیز ہونے والی ہدایتکار محبوب خان کی تاریخی فلم ہمایوں (1945) میں ہمالیہ والا کو قدرے بہتر رول ملا جو بادشاہ وقت کے معتمد خاص ہوتے ہیں۔ ٹائٹل رول اشوک کمار نے کیا اور ان کے باپ یعنی مغلیہ سلطنت (1526ء تا 1857ء) کے بانی ظہیرالدین بابر کا رول اداکار شاہ نوازنے کیا جن کا اس فلم میں ایک جملہ بڑا دلچسپ تھا کہ "بابر ، ہندوستان کو برباد کرنے یا لوٹنے نہیں بلکہ اپنا وطن بنانے کے لیے آیا ہے۔۔"
یاد رہے کہ اشوک کمار اور شاہ نواز، 1940ء کی دھائی میں سب سے زیادہ بزنس کرنے والی برصغیر کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم قسمت (1943) کے مرکزی کردار تھے۔ یہ فلم 24 ستمبر 1943ء کو کلکتہ کے راکسی سینما میں نمائش کے لیے پیش ہوئی اور مسلسل 187 ہفتے چلنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔
قسمت (1943) جیسی تاریخ ساز بلاک باسٹر فلم کی ہیروئن ، اداکارہ ممتاز شانتی تھی جو لاہور میں بننے والی پہلی گولڈن جوبلی پنجابی فلم منگتی (1942) کی ہیروئن اور ممتاز فلمی مصنف ولی صاحب کی بیوی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ بھی واپس پاکستان چلی آئی لیکن کسی مزید فلم میں کام نہیں کیا۔ برصغیر کی اس تاریخ ساز فلم کی ہیروئن ممتاز شانتی ، 1924ء میں ڈنگہ ، تحصیل کھاریاں ، ضلع گجرات میں پیدا ہوئی اور 1994ء میں لاہور میں انتقال ہوا تھا۔
سلطنت مغلیہ کے دوسرے بادشاہ ہمایوں کو 1539ء میں اقتدار کی جنگ میں اپنے ایک سپہ سالا شیر شاہ سوری سے شکست فاش ہوئی اور وہ جان بچا کر ایران بھاگ نکلا تھا۔ شیر شاہ سوری کا کردار اداکار مجید نے کیا جو پچاس کی دھائی کی متعدد پاکستانی فلموں میں نظر آئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تاریخی حقیقت کو ایک افسانوی رنگ میں پیش کیا گیا تھا کہ ہمایوں نے اپنی ایک مونہہ بولی ہندو راج کماری بہن کی وجہ سے اپنے تخت کا دفاع نہیں کیا۔ ہندوستان کی اکثریتی ہندو آبادی کو خوش کرنے کے لیے ایسی تاریخی کہانی میں ڈنڈی مارنا فلمساز کی مجبوری تھی۔
فلم ہمایوں (1945) کے لیے ہدایتکار محبوب خان نے بطور خاص لاہور کے عظیم موسیقار ماسٹر غلام حیدر کو بھاری معاوضے پر بمبئی بلایا تھا۔ فلم کے کئی گیت کانوں کو بھلے لگتے ہیں لیکن سپرہٹ گیت کوئی نہیں تھا۔ سبھی گیت شمشاد بیگم نے گائے تھے جسے ماسٹر صاحب لاہور سے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
ہمالیہ والا کو ہدایتکار اے آر کاردار کی ایک اور تاریخی فلم شاہ جہاں (1946) میں بادشاہ کے معتبر کارندے "جوالا سنگھ" کا اہم کردار ملا جو ایک "روحی" نام کی لڑکی کے باپ ہوتے ہیں۔ فلم کا ہیرو کندن لال سہگل ، اس لڑکی کے حسن کے قصیدے گاتا ہے جو گلی گلی گونجتے ہیں "میرے سپنوں کی رانی ، روحی ، روحی۔۔"
1930/40 کی دھائیوں کے عظیم گلوکار سہگل اور 1950/60 کی دھائیوں کے عظیم ترین گلوکار محمد رفیع کا گایا ہوا یہ واحد مشترکہ فلمی گیت تھا۔ یاد رہے کہ اس گیت کی دھن بنانے والے عظیم موسیقار نوشاد علی ، سہگل کو رفیع سے بڑا گلوکار سمجھتے تھے۔ ایک عام آدمی ایسی بات کہے تو نظرانداز کی جا سکتی ہے لیکن جب ایک استاد موسیقار ایسا کہے تو بات قابل غور ہوتی ہے۔۔!
"روحی" کا کردار بھارتی فلموں کے "پاکیزہ فیم" اور اداکارہ مینا کماری کے شوہر ممتاز مصنف کمال امروہی کی تخلیق تھا جو اداکارہ نسرین نے پرفارم کیا تھا۔ واجبی شکل و صورت اور کمزور اداکاری کرنے والی یہ اداکارہ ، 1980ء کی دھائی کی مشہور گلوکارہ اور اداکارہ سلمیٰ آغا کی والدہ تھی۔
فلم شاہ جہاں (1946) کا ٹائٹل رول کنور نامی اداکار نے کیا تھا جس کی ملکہ ، ممتاز محل کے کردار کے لیے ہدایتکار اے آر کاردار نے لاہور کی ممتاز اداکارہ راگنی کو بھاری معاوضے پر کاسٹ کیا تھا۔
فلم شاہ جہاں (1946) کے گیتوں کا ذکر نہ کیا جائے تو عین زیادتی ہوگی۔ عظیم موسیقار نوشاد علی نے بڑے کمال کی دھنیں بنائی تھیں۔ مجروح سلطان پوری کے لکھے ہوئے اور کندن لال سہگل کے گائے ہوئے یہ دو گیت امر سنگیت کا درجہ رکھتے ہیں:
ہدایتکار محبوب خان کی فلم اعلان (1947) میں ہمالیہ والا ، ولن کے کردار میں پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے۔ فلم کی ہیروئن منور سلطانہ کی شادی ہیرو ، سریندر کی بجائے ولن ہمالیہ والا سے ہو جاتی ہے جو جوئے کی لت میں گھر بار پھونک دیتا ہے۔
فلم اعلان (1947) کے اختتامی مناظر حیرت انگیز ہوتے ہیں جب ایک سیدھی سادھی مسلم سوشل فلم کو ایک سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے اور ایک مسلم ترانے "انسان کی تہذیب پہ احسان ہمارا۔۔" کی صورت میں ایک طرح سے آل انڈیا مسلم لیگ کے موقف کا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور چاند ستاروں کے پرچموں کی جھنڈیاں تک لہرائی جاتی ہیں۔
روایت ہے کہ محبوب خان ،تقسیم کے بعد پاکستان آئے لیکن یہاں کی زبوں حالی دیکھ کر واپس بمبئی چلے گئے تھے۔ ان کے کریڈٹ پر جہاں بہت بڑی بڑی فلمیں تھیں وہاں ان کی بطور فلمساز اور ہدایتکار شاہکار فلم ، مدر انڈیا (1957) ، بھارت کی پہلی فلم تھی جو دنیا کے سب سے بڑے فلمی ایوارڈ "آسکر ایوارڈ" کے لیے نامزد ہوئی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ آج تک کسی بھارتی فلم نے کوئی آسکر ایوارڈ نہیں جیتا۔
فلم اعلان (1947) میں شاہ نوازکا ایک نیم کامیڈی کردار بڑا جاندار تھا جو پاکستان میں فلم ایاز (1960) میں سلطان محمود غزنوی کے کردار میں بڑے مشہور ہوئے تھے۔ اس فلم میں ان کے بیٹے کے کردار میں اداکار ریحان بھی تھے جو پاکستانی فلم زندہ لاش (1967) کی وجہ سے مشہور تھے۔
ہمالیہ والا کا تعلق ان مسلم فنکاروں سے تھا جن کا موجودہ پاکستان کی سرزمین سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن تقسیم کے بعد بہت سے دیگر مسلمان فنکاروں کی طرح انھوں نے بھی پاکستان آنے کو ترجیح دی تھی۔
تحریک پاکستان میں ایسی کوئی شرط یا مطالبہ نہیں تھا کہ تقسیم کے بعد تمام مسلمان ، پاکستان اور تمام ہندو اور سکھ ، بھارت چلے جائیں گے۔
یہ ایک تاریخی غلط بیانی ہے کہ پاکستان ، صرف مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ حقیقت میں قرارداد لاہور 1940ء میں ہندوستان کی آئینی حدود میں رہتے ہوئے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل خودمختار ریاستوں کا مطالبہ کیا گیا تھا جہاں اقلیتوں کو رہنے کا پورا پورا حق حاصل تھا۔
تقسیم ہند کے بعد تمام فنکار اپنی رضا و رغبت سے ان دونوں ممالک میں تقسیم ہوئے۔ ہدایتکار اے آر کاردار کا تعلق لاہور سے تھا لیکن انھوں نے بھارت میں رہنا پسند کیا جبکہ سید شوکت حسین رضوی ، اترپردیش میں پیدا ہوئے لیکن پاکستان آنے کو ترجیح دی۔
پاکستان میں فلم شاہدہ (1949) کے بعد ہمالیہ والا کی دوسری فلم دو آنسو (1950) تھی جو پاکستان کی دوسری جبکہ پہلی اردو سلورجوبلی فلم ثابت ہوئی۔ حکیم احمد شجاع کے ناول "باپ کا گناہ" پر بنائی گئی اس کامیاب فلم میں روایتی جوڑی تو صبیحہ اور سنتوش کی تھی لیکن کہانی شمیم ، ہمالیہ والا اور شاہ نوازکے گرد گھومتی تھی۔ انور کمال پاشا کی بطور ہدایتکار یہ پہلی فلم تھی جن کی بیشتر فلموں میں ہمالیہ والا ایک لازمی کردار ہوتے تھے۔
پاشا صاحب کی فلم غلام (1953) ، ایک بڑی متاثرکن فلم تھی جس میں بھی ہمالیہ والا کا مرکزی کردار تھا جو دولت کے حصول کے لیے ہر کام کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ اس فلم میں ان کی جوڑی تقسیم سے قبل کی دو مشہور اداکاراؤں ، شمیم اور راگنی کے ساتھ تھی۔
ہدایتکار انور کمال پاشا کی اپنی پسندیدہ ترین تخلیق ایک اور شاہکار فلم گمنام (1954) میں ایک ہوٹل کے خودغرض مالک کے طور پر ہمالیہ والا پوری فلم پر چھائے ہوئے تھے۔ صبیحہ نے پگلی کا کردار کیا جبکہ سیما نامی اداکارہ کی جوڑی سدھیر کے ساتھ تھی جن کی ٹائٹل رول میں کارکردگی لاجواب تھی۔ ایم اسماعیل کی اداکاری بھی کمال کی تھی۔ اکمل نے صرف ایک سین میں جج کا رول کیا تھا۔ اس فلم میں ماسٹر عنایت حسین کی دھن میں قتیل شفائی کی لکھی ہوئی اور اقبال بانو کی گائی ہوئی یہ لازوال غزل بھی تھی:
پچاس کی دھائی کی دیگر فلموں کی طرح ایک اور شاہکار فلم سات لاکھ (1957) میں بھی ہمالیہ والا ایک بھرپور ولن کے طور نظر آئے۔ فلم کا وہ سین بڑا یادگار تھا جب اس دور کی بھاری رقم یعنی سات لاکھ کے بنگلے ، سات لاکھ کی نقدی وغیرہ کے حصول میں ہمالیہ والا کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔
ہمالیہ والا کی آخری فلموں میں سے ہدایتکار خلیل قیصر کی شاہکار فلم شہید (1962) بہت بڑی فلم تھی جس میں ایک عرب شیخ سے دولت کی ہوس میں غداری کر کے قبیلے کے سربراہ بن جاتے ہیں۔ فلم یہودی کی لڑکی (1962) ، ریلیز ہونے والی آخری فلم تھی جو آغا حشر کاشمیری کی مشہور زمانہ کہانی پر بنائی گئی تھی۔
پاکستانی فلموں میں ہمالیہ والا کے یادگار کرداروں میں ہدایتکار انور کمال پاشا کی تاریخی اور نغماتی فلم انار کلی (1958) ناقابل فراموش ہے۔
سید امتیاز علی تاج کی لکھی ہوئی مشہور زمانہ کہانی پر بننے والی اس فلم کا ٹائٹل رول میڈم نورجہاں نے کیا تھا۔ شہزادہ سلیم کا کردار سدھیر نے کیا تھا۔ راگنی نے دل آرام کا ویمپ کا رول کیا تھا لیکن ان سب پر بھاری ہمالیہ والا کا اکبر اعظم کا کردار تھا جو اس رول میں واقعی شہنشاہ اکبر نظر آئے تھے۔ گو عام لوگوں کو بھارتی فلم مغل اعظم (1960) میں پرتھوی راج کپور کا رول زیادہ یاد رہا۔ ویسے بھی جو بولے وہ نہال اور اونچی دکان کا پھیکا پکوان بھی چل جاتا ہے۔
فلم انار کلی (1958) ایک فلم کم اور گیت مالا زیادہ تھی جس کا ایک سے بڑھ کر ایک گیت لاجواب تھا۔ ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں یہ دو گیت ملکہ ترنم نور جہاں نے ہمالیہ والا یا دربار اکبری میں گائے تھے:
ایک دراز قد ، باوقار شخصیت اور بارعب آواز کے مالک ہمالیہ والا ، محمد افضل الدین کے نام سے 1919ء میں ایک پنجابی نژاد خاندان میں بھارتی شمالی ریاست اترکھنڈ کے دارالحکومت دہرہ دون میں پیدا ہوئے۔ ان کے بھائیوں کی "ہمالیہ ڈرگ کمپنی" تھی جس کی نسبت سے انھیں فلموں میں "ہمالیہ والا" کا نام ملا۔ فلموں سے فراغت کے بعد واپڈا ہاؤس لاہور میں ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کھولا اور بعد میں پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک رہے۔ زندگی بھر رئیسانہ ٹھاٹھ باٹھ سے رہے۔
ہمالیہ والا نے تقسیم سے قبل کی ایک معروف گلوکارہ امیر بائی کرناٹکی اور بعد میں اداکارہ بیگم پروین سے شادیاں کی تھیں۔ یکم جنوری 1984ء کو انتقال کر گئے تھے۔
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.