Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


رخسانہ

رخسانہ
اداکارہ رخسانہ
کی پہلی فلم
کراچی میں بننے والی پہلی فلم تھی
کراچی میں بننے والی پہلی فلم ہماری زبان (1955)
کراچی میں بننے والی پہلی فلم ہماری زبان (1955)

کراچی میں جب پہلی فیچر فلم ہماری زبان (1955) بنی تو ہدایتکار شیخ حسن نے اس فلم میں 'رشیدہ بیگم' نامی ایک نوعمر اور پرکشش اداکارہ کو موقع دیا جو اس سے قبل سٹیج پر ایک چائلڈ سٹار کے طور پر 'چیکو' کے نام سے کام کررہی تھی۔ بعد میں وہ باصلاحیت اداکارہ 'رخسانہ' کے نام سے مشہور ہوئی اور فلم بینوں کے حافظے میں ایک حسین و جمیل اداکارہ کے طور پر محفوظ ہوگئی تھی۔

کراچی کی پہلی فلم

فلم ہماری زبان (1955) ، ایک انتہائی متنازعہ فلم تھی جو صرف ایک ہفتہ ہی چل سکی تھی اور وہ بھی صرف کراچی میں۔

اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں "بابائے اردو" مولوی عبدالحق نے بھی کردار نگاری کی تھی جو 22 اپریل 1954ء کو کراچی میں ایک لاکھ سے زائد مظاہرین کی قیادت کرچکے تھے۔ یہ احتجاج ، بنگالی کو پاکستان کی دوسری سرکاری زبان بنانے کے متوقع فیصلے کے خلاف ہوا تھا۔

اس سے قبل 21 فروری 1952ء کو مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ میں پولیس کی فائرنگ سے بنگالی زبان کی تحریک میں چند طالب علم ہلاک ہوگئے تھے جن کی یاد میں دنیا بھر میں "مادری زبان کا عالمی دن" منایا جاتا ہے لیکن اس دن پورے پاکستان میں ایک پراسرار سی خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔

اردو بنگالی جھگڑا

زبان کا مسئلہ یا "اردو بنگالی جھگڑا" ، متحدہ پاکستان کا پہلا بڑا قومی تنازعہ تھا جس پر بڑی سخت تلخی پیدا ہوئی تھی اور اردو بولنے والوں اور بنگالیوں میں گھمسان کا رن پڑا تھا۔ معروف دانشور اور شاعر ، رئیس امرہوی نے اس موقع پر

"اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔۔"

جیسی تاریخی نظم بھی لکھی تھی۔

7 مئی 1954ء کو اس وقت کی محمدعلی بوگرا حکومت نے تمام تر مخالفت کے باوجود بنگالی کو دوسری سرکاری زبان قرار دے دیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف کراچی کے میڈیا میں جو طوفان بدتمیزی برپا کیاگیا تھا اس نے پاکستان کی وحدت میں پہلی دراڑ ڈال دی تھی۔ بنگالیوں کو غدار قرار دینے کے علاوہ حسین شہید سہروردی جیسے مقبول بنگالی لیڈروں کا کراچی میں داخلہ تک ناممکن بنا دیا گیا تھا۔ کراچی سے دارالحکومت منتقل کرنے کی ایک بڑی وجہ وہاں حد درجہ سیاسی غنڈہ گردی بھی تھی جو بعد میں ایم کیو ایم جیسی فاشسٹ لسانی جماعت کی شکل میں ایک شرمناک حقیقت بن کر سامنے آگئی تھی۔

فلم ہماری زبان (1955) کا ایک گیت

  • پیاری زبان اردو ، قومی زبان اردو ، اُونچا رہے گا ہر دم نام ونشان اردو۔۔

فلم کا خلاصہ بیان کرتا ہے۔ ستر اور اسی کی دھائی میں ٹی وی پر موسیقار سہیل رعنا کا کمپوز کیا ہوا بچوں کا ایک مشہور کورس گیت بھی کچھ ایسا ہی تھا

  • اپنی زبان اردو ، قومی زبان اردو ، ہم سب کا مان ہے یہ پیاری زبان اردو۔۔

رخسانہ بطور فرسٹ ہیروئن

اداکارہ رخسانہ نے سو کے قریب فلموں میں کام کیا تھا اور زیادہ تر معاون اداکارہ کے طور پر نظر آئی تھی۔ فرسٹ ہیروئن کے طور پر اس کی ساتوں اردو فلمیں ناکام رہیں جن میں پہلی فلم غریب (1960) تھی جس کے ہیرو سلیم نگار نامی اداکار تھے۔ دیگر فلموں میں فلم تیرانداز (1963) میں سلطان ، فلم نیلم (1963) میں سدھیر ، فلم ماں کا پیار (1964) میں حبیب ، فلم ہونہار (1966) میں وحیدمراد ، فلم میں وہ نہیں (1967) میں کمال ، فلم ناخدا (1968) میں شکیل اور فلم کئی سال پہلے (1974) میں سدھیر کے ساتھ فرسٹ ہیروئن کے طور پر نظر آئی۔

ان کے علاوہ دو پشتو فلموں ،بہادرخان (1971) اور ہیبت خان (1976) میں بھی فرسٹ ہیروئن تھی لیکن کبھی کسی پنجابی فلم میں فرسٹ ہیروئن نہیں آئی اور ہمیشہ معاون اداکارہ ہی رہی۔ رانی خان (1960) ، پہلی پنجابی فلم تھی۔ رخسانہ نے ایک سندھی فلم پرائی زمین (1958) میں بھی کام کیا تھا۔

رخسانہ کو بریک تھرو سماجی موضوع پر بنی ہوئی سپرہٹ فلم مہتاب (1962) سے ملا تھا۔ یہ فلم منظور اشرف کی موسیقی میں احمدرشدی کے گائے ہوئے اور حزیں قادری کے لکھے ہوئے لازوال گیت "گول گپے والا آیا۔۔" کی وجہ سے یاد کی جاتی ہے۔ اس فلم میں احمدرشدی اور نذیربیگم کا ایک مشہور گیت

  • نہیں خبر ، کب ملی نظر اور دل دیوانہ ہوگیا۔۔

اسدبخاری اور رخسانہ پر فلمایا گیا تھا۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا ری میک شباب کیرانوی کے بیٹے نذرشباب نے ایک بھاری بھر کم رومانٹک اور نغماتی فلم شمع (1974) کی صورت میں بنایا تھا۔ فلم مہتاب (1962) میں نیرسلطانہ اور حبیب ، رخسانہ اور اسدبخاری اور نغمہ اور علاؤالدین کی جوڑیوں کے مقابلے میں فلم شمع (1974) میں بالترتیب دیبا اور وحیدمراد ، بابرہ شریف اور ندیم اور زیبا اور محمدعلی کو کاسٹ کیا گیا تھا۔

رخسانہ بطور معاون اداکارہ

ساٹھ کے عشرہ کی بیشتر فلموں میں رخسانہ کو معاون اداکارہ کے طور پر بھر پور کردار ملتے تھے۔ فلم پیغام (1964) میں میڈم نورجہاں کا مقبول عام گیت

  • تیری خاطر جل رہے ہیں ، کب سے پروانے۔۔

کے علاوہ فلم آشیانہ (1964) میں مالا کا گایا ہوا یہ سپرہٹ گیت

  • جا رے بیدردی تو نے ، کہیں کا ہمیں نہ چھوڑا ، جس دل میں تو ہی تو تھا ، اس دل کو تو نے توڑا۔۔

بھی رخسانہ پر فلمایا گیا تھا جبکہ فلم عید مبارک (1965) میں یہ مشہورزمانہ فلمی میلاد شریف

  • رحم کرو ، شاہ دو عالم ، صلی اللہ علیہ وسلم۔۔

جن اداکاراؤں پر فلمائی گئی تھی ، ان میں رخسانہ بھی موجود تھی۔ یہ تینوں گیت فیاض ہاشمی نے لکھے تھے اور ان کی دھنیں اے حمید نے بنائی تھیں۔

فلم جلوہ (1966) وہ پہلی فلم ہے جس میں مجھے رخسانہ اپنے لکھنوی اور نوابی انداز میں کبھی نہیں بھول پائی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو حسن ایک سادہ سے ململ کے کرتے میں ہے ، وہ کسی زرق برق لباس میں نہیں۔ اس بلیک اینڈ وہائٹ ، نغماتی اور رومانوی فلم میں چاروں اداکارائیں ، شمیم آرا ، سلونی ، رخسانہ اور تصویر ، بے حد حسین عکس بند کی گئی تھیں۔ پنجاب سرکٹ میں عام طور پر اردو فلمیں کم ہی چلتی تھیں لیکن اس فلم کا ٹریلر میرے ذہن پر ہمیشہ حاوی رہا اور جب وی سی آر پر یہ فلم آئی تو اپنی پہلی ہی فرصت میں اسے کاپی کر لیا تھا۔

رخسانہ اور مسعودرانا کا ساتھ

مسعودرانا کا اکلوتا دوگانا جو رخسانہ پرفلمایا گیا تھا وہ فلم پاک دامن (1969) میں تھا

  • ہار دینا نہ ہمت کہیں ، ایک سا وقت رہتا نہیں۔۔

اس دلکش گیت کی دھن ماسٹرعنایت حسین نے بنائی تھی اوراسے قتیل شفائی نے لکھا تھا۔ مسعودرانا اور مالا کی آوازیں ، علاؤالدین اور رخسانہ پر فلمائی گئی تھیں۔

اسی سال رخسانہ نے تین پنجابی فلموں لچھی ، قول قرار اور عشق نہ پچھے ذات (1969) میں سائید ہیروئن کے طور پر کام کیا تھا۔ ترتیب کے لحاظ سے سینما پر دیکھی ہوئی یہ میری پہلی تین فلمیں تھیں۔

رخسانہ کی متاثر کن کارکردگی

اپنے دور کی ایک بہت بڑی نغماتی پنجابی فلم جنٹرمین (1969) میں رخسانہ کی جذباتی اداکاری اپنے عروج پر تھی جو اپنی گمراہ بہن عالیہ کو راہ راست پر لانے کی ناکام کوشش کرتی تھی۔

پرفارمنس کے لحاظ سے رخسانہ کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی فلم ماں پتر (1970) تھی۔ ایک مظلوم مزارے کی مجبور بیٹی کے طور پر اپنے بیمار باپ کی جگہ گاؤں کے اوباش چوہدری کی خدمت پر مامور ہے جو اس پر بری نظر رکھتا ہے اور حیلوں بہانوں سے اس پر ڈورے ڈالنے اور اپنے جال میں پھانسنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہی کشمکش اس فلم کی ہائی لائٹ ہوتی ہے جس میں رخسانہ کی کارکردگی کی جتنی بھی تعریف کی جائے ، کم ہے۔

اگر مجھے صحیح یاد ہے تو فلم ماں پتر (1970) کا سب سے ہٹ گیت

  • ساڈے گھر آئی بھرجائی ، لکھاں خوشیاں نال سجائی ، دو ودائی۔۔

رخسانہ پر ہی فلمایا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ شاہکار نغماتی اور اصلاحی پنجابی فلم کراچی میں 88 ہفتے اور لاہور میں صرف 29 ہفتے چلی تھی۔۔!

رخسانہ کی فلموں کی بات کی جائے اور فلم خون پسینہ (1972) کا ذکر نہ ہو ، بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔۔؟

ہدایتکار حسن عسکری کی یہ ایک بہترین سماجی اور اصلاحی فلم تھی جس میں سدھیر کے علاوہ اس کی فلمی بہن رخسانہ کی کارکردگی ناقابل فراموش تھی۔ رونالیلیٰ نے اس فلم میں رخسانہ کے لیے یہ گیت گایا تھا

  • اک بہن دی دعا ، شالا سن لے خدا۔۔

اس فلم کا پوسٹر بڑا منفرد تھا جس میں سدھیر پنجالی میں بیلوں کی جگہ جتے ہوئے ہیں اور رخسانہ ہتھی پکڑے کھیت میں ہل چلا رہی ہے۔

اسی سال کی ایک سپرہٹ اردو فلم بہارو پھول برساؤ (1972) میں رخسانہ ، منورظریف اور ساتھیوں پر یہ شوخ قوالی فلمائی گئی تھی

  • اے محبت ، تیرا جواب نہیں۔۔

ناشاد کی موسیقی میں یہ خوبصورت قوالی شوکت علی ، آئرن پروین ،تصورخانم اور ساتھیوں نے گائی تھی۔ ​​

رخسانہ کی آخری فلم ہیبت خان (1976) تھی۔ ستر کی دھائی میں رخسانہ نے شادی کے بعد فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ دیا تھا۔

رخسانہ سے رشتہ داری؟

​یہ مضمون لکھتے وقت سوچ رہا تھا کہ کاش ، اداکارہ رخسانہ کی بیٹی یا داماد سے ملاقات ہوجائے اور شاید مزید کارآمد معلومات مل سکیں۔

وہ ، میرے محلہ دار ہیں لیکن میرا ان کے ہاں آنا جانا نہیں البتہ میرے بیوی بچوں سے کافی میل جول ہے۔ صرف ایک بار رخسانہ کی بیٹی کے سسر کے انتقال پر تعزیت کے لیے ان کے گھر گیا تھا۔ ہماری ملاقات کبھی کبھار پارکنگ ایریا میں ہوجاتی ہے۔

میں نے ایک بار اپنی بیگم کی معرفت پوچھا تو معلوم ہوا تھا کہ رخسانہ ، اپنے فلمی کیرئر کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتیں۔

صرف ایک بار رخسانہ کو اپنی بیٹی کے ساتھ گاڑی میں دیکھا تھا۔ پیرانہ سالی اور آنکھوں پر چشمے کے باوجود پہچانی جاتی ہیں۔

اتفاق سے آج ، رخسانہ کے داماد سے ملاقات ہو ہی گئی۔ میری درخواست پر وہ میرے گھر آیا حالانکہ اس کے پاس وقت بہت کم تھا اور وہ کہیں جارہے تھے۔

اسے ، اپنا نامکمل مضمون اور ویب سائٹ دکھائی اور اس کی خوشدامن کے بارے میں چند سوالات کیے۔ اس نے بھی یہی بتایا کہ وہ اپنے فلمی کیرئر پر بات کرنا پسند نہیں کرتیں اور زیادہ علم اسے بھی نہیں ہے لیکن اب وہ بھی بڑا متجسس ہے کہ اس کی ساس کا فلمی کیرئر کیسا تھا۔

اس نے وعدہ کیاتھا کہ میرا پیغام ، رخسانہ صاحبہ تک پہنچا دے گا جو لندن میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہتی ہیں اور اکثر یہاں ڈنمارک ، اپنی بیٹی کے پاس آنا جانا لگا رہتا ہے۔

رخسانہ کے صرف دو ہی بچے ہیں۔ خاوند ذوالفقارعلی عرف زلفی تھے جو ایک فلمساز تھے اور مرحوم ہوچکے ہیں۔ ستر کی دھائی میں ان کی شادی ہوئی تھی۔ رخسانہ کی بیٹی کی پیدائش 1977ء میں اور شادی 1995ء میں ہوئی تھی۔

مزے کی بات ہے کہ اداکارہ رخسانہ سے میری دور کی رشتہ داری بھی نکل آئی ہے۔ یہ رشتہ کچھ اس طرح سےہے کہ رخسانہ کی بیٹی ، میری ایک بھابھی کے ایک بہنوئی کے ایک چچا زاد بھائی کی بیوی ہے۔ ماشاءاللہ ، بڑی نیک سیرت اور انتہائی مخلص عورت ہے جس نے گھر ، جاب اور بچوں کے علاوہ اپنے ساس سسر کو بھی خود ہی سنبھالا اور انھیں اولڈہوم نہیں جانے دیا تھا۔ مغربی ماحول میں پیدا ہونے والے بچے عام طور پر ایسے نہیں ہوتے۔

اس کا وہ حسن سلوک بھی کبھی نہیں بھلا سکا جب ایک بار میری بیٹی اور بیگم کے کار ایکسیڈنٹ کے بعد وہ ، ہمارے لیے شام کا کھانا بنا کرلے آئی تھی۔ وہ ، مجھے انکل کہہ کر بلاتی ہے حالانکہ ہمارے والدین ، ہم عمر تھے۔

والدصاحب مرحوم و مغفور اکثر بتایا کرتے تھے کہ انھوں نے 1957ء میں میٹرک پاس کی تھی اور اسی خوشی میں پہلی فلم پاٹے خان (1955) دیکھی تھی۔ یہی وہ سال تھا جب رخسانہ کی پہلی فلم ہماری زبان (1955) بھی ریلیز ہوئی تھی۔۔!

مسعودرانا اور رخسانہ کا 1 فلمی گیت

(1 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت )
1

ہار دینا نہ ہمت کہیں ، ایک سا وقت رہتا نہیں..

فلم ... پاک دامن ... اردو ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا ... موسیقی: ماسٹر عنایت حسین ... شاعر: قتیل شفائی ... اداکار: علاؤالدین ، ​​رخسانہ

مسعودرانا اور رخسانہ کا 1 اردو گیت

1

ہار دینا نہ ہمت کہیں ، ایک سا وقت رہتا نہیں ...

(فلم ... پاک دامن ... 1969)

مسعودرانا اور رخسانہ کا 0 پنجابی گیت


مسعودرانا اور رخسانہ کا 0سولو گیت


مسعودرانا اور رخسانہ کا 1دوگانے

1

ہار دینا نہ ہمت کہیں ، ایک سا وقت رہتا نہیں ...

(فلم ... پاک دامن ... 1969)

مسعودرانا اور رخسانہ کا 0کورس گیت



Masood Rana & Rukhsana: Latest Online film

Masood Rana & Rukhsana: Film posters
BetiMaa Ka PyarAisa Bhi Hota HayFaishonMoajzaHatim TaiShola Aur ShabnamSitamgarShehanshah-e-JahangirTumhi Ho Mehboob MerayLachhiIshq Na Puchhay ZaatPak DaamanGentermanSajjan BeliSayyanRangu JattSohna PuttarMain AkelaBaharo Phool BarsaoKhoon Da Badla KhoonSayyo Ni Mera MahiRano
Masood Rana & Rukhsana:

0 joint Online films

(0 Urdu and 0 Punjabi films)

Masood Rana & Rukhsana:

Total 25 joint films

(14 Urdu and 11 Punjabi films)

1.1964: Beti
(Urdu)
2.1964: Maa Ka Pyar
(Urdu)
3.1965: Aisa Bhi Hota Hay
(Urdu)
4.1965: Faishon
(Urdu)
5.1966: Moajza
(Urdu)
6.1967: Hatim Tai
(Urdu)
7.1967: Shola Aur Shabnam
(Urdu)
8.1967: Sitamgar
(Urdu)
9.1968: NaKhuda
(Urdu)
10.1968: Shehanshah-e-Jahangir
(Urdu)
11.1969: Tumhi Ho Mehboob Meray
(Urdu)
12.1969: Lachhi
(Punjabi)
13.1969: Ishq Na Puchhay Zaat
(Punjabi)
14.1969: Pak Daaman
(Urdu)
15.1969: Genterman
(Punjabi)
16.1970: Sajjan Beli
(Punjabi)
17.1970: Sayyan
(Punjabi)
18.1970: Rangu Jatt
(Punjabi)
19.1971: Sohna Puttar
(Punjabi)
20.1972: Main Akela
(Urdu)
21.1972: Baharo Phool Barsao
(Urdu)
22.1972: Yaar Nibhanday Yaarian
(Punjabi)
23.1973: Khoon Da Badla Khoon
(Punjabi)
24.1974: Sayyo Ni Mera Mahi
(Punjabi)
25.1974: Rano
(Punjabi)


Masood Rana & Rukhsana: 1 song

(1 Urdu and 0 Punjabi songs)

1.
Urdu film
Pak Daaman
from Friday, 10 October 1969
Singer(s): Masood Rana, Mala, Music: Master Inayat Hussain, Poet: Qateel Shafai, Actor(s): Allauddin, Rukhsana




241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.