A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
کیفی ، پاکستان کی فلمی تاریخ کے واحد ہدایتکار تھے جو اداکار کے طور پر بھی کامیاب رہے۔۔!
کیفی نے معاون ہدایتکار کے طور پر اپنے بڑے بھائی ، فلمساز ، اداکار اور گلوکار عنایت حسین بھٹی اور بہنوئی ، ہدایتکار ایس اے اشرفی کی یادگار فلم وارث شاہ (1964) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔
بھٹی پکچرز کی پہلی فلم مونہہ زور (1966) کے مکمل ہدایتکار تھے۔ بریک تھرو، دوسری فلم چن مکھناں (1968) سے ملا تھا۔ اپنے دور کی یہ بہت بڑی پنجابی فلم تھی جس کی عوامی کہانی ، پراثر اداکاری اور لازوال گیتوں نے فلم بینوں کو بے حد متاثرکیا تھا۔ اس فلم میں ایکشن فلموں کے پہلے بڑے ہیرو سدھیر نے جذباتی اداکاری کا ایک نیا معیار مقرر کیا تھا۔
اس فلم کی خاص بات سپرہٹ موسیقی تھی۔ عنایت حسین بھٹی اور مالا کا الگ الگ گایا ہوا گیت
تو ایک روایت بن گیا تھا لیکن دوسرے گیت بھی بے حد مقبول ہوئے تھے جن میں ملکہ ترنم نورجہاں کے یہ دو گیت گلی گلی گونجتے تھے
مالا کا گایا ہوا یہ گیت بھی سپرہٹ ہوا تھا
حزیں قادری کے لکھے ہوئے ان شاہکار گیتوں کی دھنیں بابا جی اے چشتی جیسے نابغہ روزگار موسیقار نے بنائی تھیں۔
اسی سال ریلیز ہونے والی ہدایتکار کیفی کی تیسری فلم سجن پیارا (1968) ایک اور سپرہٹ فلم تھی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ کیفی نے خود کو ایک اداکار کے طور پر متعارف کروایا تھا۔
اس فلم کی کامیابی سے بھٹی برادران ، اپنی ایک الگ فلمی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے جنھیں وقت کےدیگر سپرسٹار فلمی ہیروز کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
کیفی ، اوسط درجہ کے اداکار تھے لیکن اپنی مردانہ وجاہت کی وجہ سے ایک ریڈی میڈ ہیرو تھے ، اس لیے فلم بینوں کے لیے قابل قبول تھے۔ حقیقت میں ہدایتکار کے طور ان کی کارکردگی ، اداکار کے طور پر کارکردگی سے بدرجہا بہتر تھی۔
یہ فلم بھی اپنے گیتوں کی وجہ سے یادگار فلموں میں شمار ہوتی ہے۔ عنایت حسین بھٹی کا ٹائٹل سانگ
کے علاوہ ملکہ ترنم نورجہاں کے گائے ہوئے دوگیت بھی سپرہٹ ہوئے تھے
اس فلم میں کیفی پر پہلا گیت جو فلمایا گیا تھا ، وہ عنایت حسین بھٹی اور ملکہ ترنم نورجہاں کا گایا ہوا پہلا پہلا دوگانا بھی تھا
اس گیت میں کیفی کے ساتھ ان کی پہلی ہیروئن سلونی تھی۔ اس فلم کے گیت بھی حزیں قادری نے لکھے تھے اور دھنیں بابا جی اے چشتی نے بنائی تھیں۔
کیفی کی بطور ہدایتکار چوتھی اور بطور اداکار دوسری فلم جندجان (1969) ، ان کی سابقہ سبھی فلموں سے زیادہ کامیاب ہوئی تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ جیسے ان کا ہاتھ فلم بینوں کی نبض پرآگیا تھا۔ وہ ، عوامی مزاج کو سمجھتے تھے اور عوام ان کی فلموں کو سمجھتی تھی۔
یہ ایک بڑی بامقصد اور تفریحی فلم تھی لیکن نغمات کے لحاظ سے کمزور تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ جیسے بابا چشتی اور حزیں قادری کے ترکش کے تیر چل چکے تھے۔ عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا فلم کا ٹائٹل سانگ
جو میڈم نورجہاں نے بھی گایا تھا ، بڑا مقبول ہوا تھا۔
بھی اچھے گیت تھے۔
اس فلم میں کامیڈی کا معیار بڑے اعلیٰ پائے کا تھا ، منورظریف ، زلفی ، رضیہ اور خلیفہ نذیر کے علاوہ فلم کی ہیروئن رانی نے بھی کمال کی اداکاری اور کامیڈی کی تھی۔ سب سے زیادہ متاثرکن اداکاری شیخ اقبال کی تھی جن کا تکیہ کلام
"میں تے ماراں گا قانون دی مار۔۔"
ناقابل فراموش تھا۔
جب یہ فلم ریلیز ہوئی تب میں اپنی پہلی فلم لچھی (1969) دیکھ چکا تھا لیکن صرف اتنا یاد ہے کہ ہمارے سکول کے سامنے ایک دیوار پر سرخ رنگ سے فلم 'جندجان' لکھا ہوا تھا اور اسے سبز رنگ کی شیڈ دی گئی تھی۔ اس فلم کا کیلنڈر بھی بڑے کمال کا تھا جو ہمارے مقامی ہوٹل میں روزانہ دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملتا تھا۔
اپنی فلم بینی کے پہلے دور میں یہ فلم نہیں دیکھ سکا تھا لیکن دوسرے دور میں دیکھی جو کئی بار ہمارے شہر میں لگی ، اور ہر بار زبردست بزنس کیا تھا۔ وی سی آر کے دور میں یہ فلم میری کولیکشن کا لازمی حصہ ہوتی تھی اور اتنی بار دیکھی تھی کہ اس کا ایک ایک سین اور مکالمہ زبانی یاد ہوگیا تھا۔
کیفی کی بطور اداکار کسی دوسرے ہدایتکار کے لیے پہلی فلم کوچوان (1969) تھی۔ ظفرشباب کی بطور ہدایتکار یہ پہلی پنجابی فلم تھی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ موصوف کے والدگرامی شباب کیرانوی نے کیفی کے بڑے بھائی عنایت حسین بھٹی کو بطور ہیرو فلم جلن (1955) میں پہلی بار موقع دیا تھا۔ شباب فیملی کے تیسرے فرد ، نذرشباب نے بھی اپنی پہلی پنجابی فلم سجن بیلی (1970) میں کیفی کوایک کامیڈی ہیرو کے طور پر کاسٹ کیا تھا۔
1970ء کا سال کیفی کے لیے بطور اداکار چھ فلمیں لے کر آیا تھا لیکن بطور ہدایتکار ، کوئی فلم ریلیز نہیں ہوئی تھی۔ اس سال کیفی کی سولو ہیرو کے طور پر پہلی دونوں فلمیں ، گل بکاؤلی کے علاوہ فلم مترئی ماں (1970) بھی ریلیز ہوئی تھی جس میں مسعودرانا اور مالا کا ایک دوگانا
کیفی کے علاوہ نغمہ پر بھی فلمایا گیا تھا جو ان کی سولو ہیرو کے طور پر پہلی دونوں فلموں کی ہیروئن تھی۔ اسی سال کی فلم قادرا (1970) میں مسعودرانا کا گایا ہوا پہلا گیت کیفی پر فلمایا گیا تھا
اتفاق سے کیفی پر فلمایا جانے والا یہ پہلا سولو سانگ بھی تھا۔
اسی سال کی ایک سپرہٹ فلم سجناں دوردیا (1970) بھی تھی جس میں کیفی کو اعجاز کے مقابل سائیڈ ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور دیبا کے ساتھ جوڑی بنائی گئی تھی جس کی یہ پہلی پنجابی فلم تھی۔ فلمساز کے طور پر لیجنڈری فنکار حزیں قادری کی یہ اکلوتی فلم تھی۔ یہ بھی اپنے وقت کی ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی۔
اس سال کی ایک یادگار فلم دنیا مطلب دی (1970) بھی تھی جس میں کیفی کی جوڑی پہلی بار فردوس کے ساتھ بنائی گئی تھی۔ اس فلم کے ہدایتکار ایس اے اشرفی تھے جبکہ پہلی بار منظرنامہ کیفی نے لکھا تھا۔ عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا ایک دلکش شرابی گیت
کیفی پرفلمایا گیا تھا جو اپنے تصور میں چند سیکنڈ کے لیے فردوس کو اس شرٹ میں ملبوس دیکھتے ہیں جو فلم کے پوسٹر پر دل جلوں کی نیندیں حرام کرتی تھی۔
اس فلم کا ٹائٹل سانگ
ایک سٹریٹ سانگ تھا۔ اس فلم کے موسیقار ایم اشرف تھے۔
بھٹی برداران کی یہ پہلی فلم تھی جو میں نے سینما پر دیکھی تھی۔ اس فلم سمیت ان کی پہلی چاروں فلموں کے ٹائٹل سانگس ، اس وقت زبانی یاد ہوتے تھے جنھیں اکثر گنگنایا کرتا تھا۔
1971ء میں کیفی کی بطور اداکار پانچ فلمیں منظرعام پر آئی تھیں۔ ان میں سے ایک فلم سچاسودا (1971) کے ہدایتکار بھی تھے۔
مجھے یاد ہے کہ اس فلم کے دو الگ الگ پوسٹر بنائے گئے تھے جن پر بھٹی صاحب اور کیفی صاحب کے مختلف پوز دکھائے گئے تھے۔ بابا چشتی اور حزیں قادری کی واپسی ہوئی تھی اور چند گیت بڑے پسند کیے گئے تھے جن میں فلم کا ٹائٹل سانگ
کے علاوہ میڈم نورجہاں کا یہ دلکش گیت بڑی منفرد دھن میں تھا
نغمہ پر اس گیت کی فلمبندی بڑے کمال کی تھی۔
یہ فلم جزوی رنگین تھی یعنی آدھا حصہ بلیک اینڈ وہائٹ اور باقی حصہ رنگین تھا۔
میں اس وقت تیسری جماعت میں پڑھتا تھا جب 23 مارچ 1971ء کو یوم پاکستان کے موقع پر منگل کے دن قیصر سینما کھاریاں میں سہ پہر کو ایک سپیشل میٹنی شو میں ہمارے پرائمری اور ہائی سکول کے طالب علموں کو یہ فلم مفت دکھائی گئی تھی۔ میں حسب معمول اتوار کے میٹنی شو میں یہ فلم دیکھ چکا تھا اور "دوہر" لگانے میں کوئی حرج بھی نہ تھی۔۔!
اسی سال کیفی کی پہلی اردو فلم وحشی (1971) بھی ریلیز ہوئی تھی۔ ہدایتکار حسن طارق کی اس فلم میں وہ محمدعلی کے مقابل ایک غیر اہم رول میں تھے۔ اردو فلموں میں کیفی کو قطعاً پذیرائی نہیں ملی تھی اور وہ صرف تین اردو فلموں میں ہی نظر آئے تھے جبکہ تین ہی اردوفلموں میں صرف مہمان اداکار تھے۔
فلم جی او جٹا (1971) ، بطور سولو ہیرو پہلی کامیاب فلم تھی جس میں کیفی پر عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا
اسی سال بھٹی پکچرز کی ایک اور سپرہٹ فلم عشق دیوانہ (1971) بھی ریلیز ہوئی تھی جس میں کیفی کی جوڑی پہلی بار غزالہ کے ساتھ تھی جس کے ساتھ انھوں نے شادی بھی کرلی تھی۔ فردوس نے پگلی کا بڑا عمدہ رول کیا تھا۔ اس فلم کے ہدایتکار ایس اے اشرفی تھے اور بھٹی صاحب کے ایک اور بھائی ، شجاعت حسین بھٹی کو عالیہ کے ساتھ تھرڈ ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا تھا لیکن یہ ان کی اکلوتی فلم ثابت ہوئی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ میرے آبائی شہر کھاریاں میں یہ فلم 20 نومبر 1971ء کوعیدالفطر کے دن سازین سینما پر ریلیز ہوئی تھی جبکہ اسی دن قیصرسینما پر فلم عشق بنا کی جینا (1971) کی نمائش ہوئی تھی۔ ان دونوں فلموں کے بورڈوں پر لکھا ہوا لفظ 'عشق' میرے ذہن پر نقش ہے اور خاص طور پر کس پینٹر نے کس طرح سے 'ع' لکھا تھا ، وہ کبھی نہیں بھلا سکا۔
اس دن یہ امن اور تہذیب (1971) جیسی نئی فلمیں لاہور میں ریلیز ہوئی تھیں لیکن پھر اگلے ڈیڑھ ماہ تک کوئی فلم ریلیز نہیں ہو سکی تھی کیوں کہ اس دوران 1971ء کی پاک بھارت جنگ ہوئی تھی جس کے نتیجہ میں سقوط ڈھاکہ کا عظیم المیہ رونما ہوا تھا جو میرے ذہن پر آج بھی ایک انمٹ نقش کی طرح مسلط ہے۔
1972ء کا سال کیفی صاحب کے لیے ایک یادگار سال تھا جب پہلی پنجابی ڈائمنڈجوبلی فلم ، ظلم دا بدلہ (1972) ریلیز ہوئی تھی۔ ہدایتکار اور معاون سکرین پلے رائٹر ہونے کے علاوہ فلم کے سولو ہیرو بھی کیفی صاحب ہی تھے ، ہیروئن غزالہ تھی جبکہ عالیہ کا اہم رول تھا۔
بظاہر یہ کوئی اتنی خاص فلم نہیں تھی لیکن سب سے بڑی کشش وہ دو مناظر تھے جن میں عنایت حسین بھٹی ، جگی ملک کے ددنوں بازو ٹوکے سے کاٹتے ہیں۔ ایسے پرتشدد ، ہولناک اور رونگٹے کھڑے کر دینے والے مناظر پہلے کسی پاکستانی فلم میں نہیں دکھائے گئے تھے۔
اسی فلم کی تقلید میں فلم مولاجٹ (1979) جیسی پرتشدد فلم بھی بنائی گئی تھی جس میں یہی نسخہ کیمیا آزمایا گیا تھا بلکہ دو ہاتھ آگے بڑھ کر غیرسنسرشدہ سفاکانہ ٹوٹے دکھا کر فلم کو مقبول بنایا گیا تھا۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریکارڈز بکس میں یہ درج ہوگیا تھا کہ بھٹی بردران کی فلم نے پہلی بار لاہور میں سو ہفتے چلنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ فلم ظلم دا بدلہ (1972) نے لاہور کے ملک تھیٹر میں یہ اعزاز حاصل کیا تھا اور اس دن عنایت حسین بھٹی نے فلم بینوں میں مٹھائی تقسیم کی تھی۔
دیگر فلموں میں کیفی ، فلم بازی جت لئی (1972) میں حبیب کے مقابل سیکنڈہیرو تھے۔ بھٹی بردران ، اپنی تمام تر عوامی مقبولیت اور کامیابیوں کے باوجود فلموں میں وقت کے سپرسٹارز پنجابی ہیروز یعنی سدھیر ، حبیب ، اعجاز اور یوسف خان کے مقابلے میں ثانوی کرداروں میں نظر آتے تھے۔ کیفی نے چالیس فلموں میں اپنے بھائی عنایت حسین بھٹی کے ساتھ کام کیا تھا جو مرکزی کرداروں میں دو سگے بھائیوں کا ایک ساتھ کام کرنے کا ریکارڈ ہے۔
1973ء میں کیفی کی پانچ فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں سے فلم غیرت دا پرچھاواں (1973) میں عنایت حسین بھٹی کے ساتھ سیکنڈہیرو تھے۔ ان دونوں بھائیوں پر ایک دوگانا فلمایا گیا تھا جس میں کیفی پر مسعودرانا کی آواز فلمائی گئی تھی۔ گیت کے بول تھے
بھٹی صاحب کے ساتھ مسعودرانا کا گایا ہوا یہ تیسرا اور آخری گیت تھا جس کے موسیقار ماسٹرعاشق حسین تھے۔
1974ء میں کیفی کی آٹھ فلمیں ریکارڈز پر ہیں جن میں سے پہلی سندھی پنجابی ڈبل ورژن فلم غیرت جو سوال (1974) بھی تھی۔ اس فلم کو شہ زور (1976) کے نام سے پنجابی زبان میں ریلیز کیا گیا تھا۔
فلم بڈھا شیر (1974) واحد فلم تھی جس کے ہدایتکار کے طور پر حزیں قادری کا نام آتا ہے۔ اس فلم میں انھوں نے کیفی کو فرسٹ ہیرو کے طور پر کاسٹ کیا تھا۔
اسی سال کی فلم ہسدے آؤ ہسدے جاؤ (1974) ایک کامیڈی ٹائپ فلم تھی جس میں وقت کے سبھی مزاحیہ اداکاروں کو شامل کیا گیا تھا لیکن یہ ایک بڑی ہی کمزور فلم تھی۔ دھرتی دے لال اور چیلنج (1974) دیگر اہم فلمیں تھیں۔
1975ء میں کیفی کی پانچ فلمیں ریلیز ہوئیں۔ رب دا روپ (1975) پہلی سرائیکی فلم تھی جس میں وہ مہمان اداکار تھے اور ان پر عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا ایک انتہائی متاثرکن کلام فلمایا گیا تھا۔
1976ء میں ایک بہت بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی جب بھٹی برادران کا الگ فلمی تشخص ختم ہوگیا تھا ۔ فلم الٹی میٹم اور جگا گجر (1976) سے انھوں نے بھی سلطان راہی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے اور ان کے مقابلے میں ثانوی کرداروں میں نظر آنے لگے تھے۔
ایکشن فلموں کا دور شروع ہوگیا تھا۔ فلموں میں مرکزی کردار قاتل ، مفرور اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کو ملنے لگے تھے۔ غنڈے ، بدمعاش ، طوائفیں اور غیرمہذب لوگ ، مثبت کرداروں میں دکھائے جانے لگے تھے۔ سنجیدہ فلم بینوں کو ایسی فلموں اور کرداروں سے سخت کراہت ہوتی تھی لیکن باکس آفس کی ڈیمانڈ تھی۔
تیل اور تیل کی دھار کی طرح کیفی صاحب بھی پرتشدد فلموں کی گنگا میں بہنے لگے۔ ہلکی پھلکی سماجی ، اصلاحی اور نغماتی فلموں کی جگہ پرتشدد فلموں نے لے لی تھی۔ 1989ء تک ان کی چالیس سے زائد فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں سے زیادہ تر ایکشن فلمیں تھیں۔ ان تمام فلموں کی فہرست ان کے ذاتی فلمی ریکارڈز کے صفحات پر موجود ہے۔
کیفی صاحب پرفلمائے ہوئے چند مزید گیتوں میں سے فلم الٹی میٹم (1976) میں عنایت حسین بھٹی کا ایک دلکش گیت تھا
فلم ارادہ (1978) میں کیفی پر مہدی حسن کا اکلوتا گیت فلمایا گیا تھا
فلم ڈنکے دی چوٹ جو اعلان (1978) کے نام سے ریلیز ہوئی تھی ، اس فلم میں کیفی پر بھٹی صاحب کا یہ مشہور گیت بھی فلمایا گیا تھا
فلم مولاجٹ (1979) میں بھی کیفی پر اپنے بھائی کا یہ مشہور گیت فلمایا گیا تھا
یہ گیت چکوری کے لیے گاتے ہیں جن کے ساتھ انھوں نے دوسری شادی کی تھی۔
کیفی کی بطور اداکار آخری فلم میری ہتھ جوڑی (1989) تھی۔ اداکاری ترک کرنے کے بعد بھی بطور ہدایتکار سفر جاری رہا اور آخری فلم میدان (2004) تھی۔ ایک فلم میں انھوں نے اپنے بیٹے عامرکیفی کو متعارف کروایا تھا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا تھا۔
کیفی نے بطور اداکار 80 کے لگ بھگ فلموں میں کام کیا تھا ، صرف تین خالص اردو فلمیں تھیں جن میں اتفاق سے محمدعلی مرکزی کرداروں میں تھے۔
31 فلموں کے ہدایتکار تھے جن میں سے صرف دو اردو فلمیں تھیں ، بکھرے موتی (1975) اور روٹی کپڑااورانسان (1977)۔ ان کے علاوہ متعدد فلمیں غیرریلیزشدہ تھیں۔ اصل نام کفایت حسین بھٹی تھا۔ 1943ء میں گجرات میں پیدا ہوئے اور 2009ء میں انتقال ہوا تھا۔
1 | دل عاشقاں دا رس کے نہ توڑ جانی..فلم ... قادرا ... پنجابی ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: سلطان محمود آشفتہ ... اداکار: کیفی |
2 | ایدھر کنڈے میں کھڑی تے اوہدر میرا پیار ، نی ندئیے راہ چھڈ دے..فلم ... مترئی ماں ... پنجابی ... (1970) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: نغمہ، کیفی |
3 | مینوں کنے سوہنے یار دایارانہ ملیا..فلم ... غیرت دا پرچھاواں ... پنجابی ... (1973) ... گلوکار: عنایت حسین بھٹی ، مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عاشق حسین ... شاعر: وارث لدھیانوی ... اداکار: عنایت حسین بھٹی ، کیفی |
1 | دل عاشقاں دا رس کے نہ توڑ جانی ...(فلم ... قادرا ... 1970) |
2 | ایدھر کنڈے میں کھڑی تے اوہدر میرا پیار ، نی ندئیے راہ چھڈ دے ...(فلم ... مترئی ماں ... 1970) |
3 | مینوں کنے سوہنے یار دایارانہ ملیا ...(فلم ... غیرت دا پرچھاواں ... 1973) |
1 | دل عاشقاں دا رس کے نہ توڑ جانی ...(فلم ... قادرا ... 1970) |
1 | ایدھر کنڈے میں کھڑی تے اوہدر میرا پیار ، نی ندئیے راہ چھڈ دے ...(فلم ... مترئی ماں ... 1970) |
2 | مینوں کنے سوہنے یار دایارانہ ملیا ...(فلم ... غیرت دا پرچھاواں ... 1973) |
1. | 1970: Sajjan Beli(Punjabi) |
2. | 1970: Qadra(Punjabi) |
3. | 1970: Matrei Maa(Punjabi) |
4. | 1971: Wehshi(Urdu) |
5. | 1973: Ghairat Da Parchhavan(Punjabi) |
6. | 1973: Khushia(Punjabi) |
7. | 1974: Budha Sher(Punjabi) |
8. | 1977: Himmat(Punjabi) |
9. | 1986: Haq Sach(Punjabi) |
1. | Punjabi filmQadrafrom Friday, 9 October 1970Singer(s): Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: Sultan Mehmood Ashufta, Actor(s): Kaifee |
2. | Punjabi filmMatrei Maafrom Tuesday, 1 December 1970Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: Hazin Qadri, Actor(s): Naghma, Kaifee |
3. | Punjabi filmGhairat Da Parchhavanfrom Friday, 31 August 1973Singer(s): Inayat Hussain Bhatti, Masood Rana, Music: Master Ashiq Hussain, Poet: Waris Ludhyanvi, Actor(s): Inayat Hussain Bhatti, Kaifee |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.