A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
حمیدچوہدری ، ایک معروف کوریوگرافر یا ڈانس ماسٹر تھے جنھوں نے بے شمار فلموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔۔!
کوریوگرافر کے طور پر حمیدچوہدری کی پہلی فلم ، ہدایتکار امین ملک کی سپرہٹ پنجابی فلم چوڑیاں (1963) تھی جس کی ہیروئن لیلیٰ تھی لیکن اسی سال ریلیز ہونے والی اردو فلم کالا پانی(1963) میں انھوں نے پہلی بار شمیم آراکو رقص کروایا تھا۔
انھوں نے ماسٹرفیروزعزیز، ماسٹرعاشق سمراٹ اور ان کے بھائی ماسٹرصدیق سمراٹسے رقص کے فن کے رموز و اسرار سیکھے تھے۔ ان کے اپنے شاگردوں میں پشتو اداکارہ یاسمین خان کے علاوہ بے بی پروین ، لیاقت چوہدری ، اشرف شیرازیوغیرہ شامل ہیں۔ ذاتی طور پر وہ ، رانی اور عالیہ کی صلاحیتوں سے متاثر تھے۔
ڈانس ماسٹر کے طور پر ان کی دیگر فلموں میں ہیررانجھا (1970) ، مہندی (1985) اور قیدی (1986) وغیرہ جیسی مشہور زمانہ فلمیں شامل ہیں۔ آخری فلم لاڈو (2010) تھی جو ان کے انتقال کے ایک سال بعد ریلیز ہوئی تھی۔
حمیدچوہدری نے ڈانس ماسٹر کے علاوہ ڈیڑھ درجن کے قریب فلموں میں اداکاری بھی کی تھی۔ پاکستان فلم ڈیٹا بیس میں کوریوگرافر کے طور پر معلومات تو موجود نہیں لیکن بطور اداکار جو ریکارڈ دستیاب ہے ، اس کے مطابق ان کی پہلی فلم چنگیزخان (1958) تھی۔ اردو فلم زندگی کے میلے(1972) میں زمرد کے مقابل ہیرو تھے۔ سلطان راہی اور عالیہ سیکنڈ پیئر تھے۔ اس فلم کے فلمساز بھی وہ خود تھے لیکن یہ فلم بری طرح سے ناکام ہوئی تھی۔
دیگر فلموں میں وہ معاون اداکار کے طور پر چھوٹے موٹے کرداروں میں عام طور پر کورس گیتوں میں رقص کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔
فلمساز اور ہدایتکار کی حیثیت سے حمیدچوہدری نے دو فلمیں بنائی تھیں۔ پہلی فلم شرابی (1973) تھی جس کا ٹائٹل رول سنتوش کمارنے کیا تھا۔ نغمہ اور حبیب کی روایتی جوڑی تھی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ موسیقار بخشی وزیرنے ایک گیت "سوہنیا اوئے ، مکھ تیرا سجری سویر اے۔۔" صبیحہ خانم اور غلام علی کی آوازوں میں الگ الگ گوایا تھا جو بڑا مقبول ہوا تھا۔
دوسری فلم عبرت (1978) تھی جس میں آسیہ اور سلطان راہی کی جوڑی تھی۔ یہ بھی ایک ناکام فلم تھی۔ ایک اردوفلم پیاس بھی بنا رہے تھے جو نامکمل رہی ، شبنم اور شاہد مرکزی کرداروں میں تھے۔
حمیدچوہدری پر متعدد گیت بھی فلمائے گئے تھے۔ پہلا گیت فلم کالاپانی (183) کا یہ کورس گیت تھا "ساتھی رہنا ساتھ رے ، ہاتھ میں پکڑ لو ہاتھ رے۔۔" اس گیت میں ساتھی اداکارہ یاسمین تھی اور آوازیں آئرن پروین، روشن اور ساتھیوں کی تھیں۔
فلم میری بھابھی(1969) میں احمدرشدی اور آئرن پروینکے گائے ہوئے کورس گیت "لے کے خوشی کا پیام ، یہ عید کا دن آیا سہانا رے۔۔" میں حمیدچوہدری نے جو رقص کیا ، عملی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا اور نہ کوئی چاند رات کو اس طرح ناچ کود کر غل غپاڑا مچاتا ہے۔
فلم بے قصور(1970) میں رونالیلیٰ اور مجیب عالم کا یہ مشہور دوگانا "تو چندا ہے میرا ، میں تیرا اجیارا۔۔" بھی نگو اور حمیدچوہدری پر فلمایا گیا تھا۔
مسعودرانا کے حمیدچوہدری پر چار گیت فلمائے گئے تھے جن میں سے پہلا ایک مزاحیہ گیت اردو فلم لہو پکارے گا(1967) میں تھا۔ ساتھی گلوکار احمدرشدی اور ساتھی اداکار رنگیلا تھے:
اس فلم کے ہدایتکار ، اظہربرکی تھے جو بنیادی طور پر ایک عکاس تھے۔ انھوں نے ایک فلم دوڈاکو (1978) بھی بنائی تھی۔
مسعودرانا کا دوسرا گیت ہدایتکار امین ملک کی پنجابی فلم "تہاڈی عزت دا سوال اے(1969) میں تھا:
اس کورس گیت میں ساتھی گلوکارہ تصورخانم تھی۔ فلم میں حمیدچوہدری کے ساتھ فردوس اور ساتھی تھے۔
اس کورس گیت کی فلمبندی بھی انتہائی قابل اعتراض تھی۔ یہ تو سنا تھا فصلوں کی کٹائی پر کسان بڑے خوش ہوتے تھے اور بھنگڑے اور لڈیاں ڈالتے تھے جسے پنجاب میں وساکھی کہتے ہیں لیکن اس موقع پر جس طرح حمیدچوہدری رقص کرتے ہیں ، وہ کبھی دیکھا نہ سنا۔
ہدایتکار حسن طارق کی اردو فلم نوابزادی (1979) میں بھی ایک کورس گیت تھا:
مسعودرانا کے افشاں اور مہناز کے ساتھ گائے ہوئے اس گیت کو کویتا ، رانی ، حمیدچوہدری اور ساتھیوں پر فلمایا گیا تھا۔ آخری گیت ہدایتکار الطاف حسین کی پنجابی فلم جانباز (1987) میں ملتا ہے:
میڈم نورجہاں اور مسعودرانا کا گایا ہوا یہ دوگانا ، اداکارہ افشاں قریشی، حمیدچوہدری اور انجمن پر فلمایا گیا تھا۔ اس گیت کی خاص بات یہ تھی کہ اس گیت کے ایک ایک جملے کو دونوں گلوکار آدھا آدھا گاتے ہیں ، موسیقار وجاہت عطرےتھے۔
مسعودرانا کے ساتھی فنکاروں کے بارے میں معلوماتی مضامین کے اس عظیم الشان اور بے مثل سلسلے میں کئی ایک فنکار ایسے بھی سامنے آ رہے ہیں کہ جو اپنے اپنے فن کے بڑے بڑے نام ہیں لیکن ان کے بارے میں کبھی سوچا نہیں تھا کہ ان پر بھی کچھ لکھوں گا۔
ان فنکاروں کے بارے میں ڈیٹابیس میں بھی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ ایسے فنکاروں میں ایک نام حمید چوہدری کا بھی تھا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ مجھے ان فنکاروں سے کوئی ذاتی بغض یا دشمنی ہے بلکہ بات صرف اتنی سی ہے کہ مجھے زندگی بھر کبھی کسی ناچتی گاتی عورت کو دیکھنے کی خواہش پیدا نہیں ہوئی۔
فلمی گیتوں سے گہری دلچسپی کے باوجود ایسا دعویٰ کرنا یقیناً تضاد بیانی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مجھے اگر ناچتی عورت کو دیکھنا بھی پڑے تو میری آنکھیں جو کچھ دیکھ رہی ہوتی ہیں ، دماغ وہ کچھ نہیں دیکھتا۔
اس کی بہت بڑی مثال حال ہی میں یہ سامنے آئی کہ جب یہ علم ہوا کہ فلم ہیررانجھا (1970) کے کوریوگرافر حمیدچوہدری تھے تو بڑی سخت حیرت ہوئی کیونکہ پنجابی فلموں میں جیسا رقص ہوتا تھا ، یہ فلم ان سے بالکل مختلف تھی۔ اس فلم میں مجھے رقص تو یاد نہیں البتہ فردوس صرف ہیر کے طور پر نظر آئی تھی۔
میری دلچسپی کے برعکس ، ہماری پنجابی فلموں میں خاص طور ہیروئن کا رقص اور ہیرو کا ایکشن ہی بیشتر فلم بینوں کی دلچسپی اور فلموں کی کامیابی کا ضامن ہوتا تھا۔
حمیدچوہدری ، بڑے مصروف و معروف ڈانس ماسٹر تھے اور انھوں نے بے شمار فلموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔
حال ہی میں ان کا ایک انٹرویو سماعت سے گزرا جس میں وہ اپنے 'لاحاصل' فلمی کیرئر پر 'شرمندگی' محسوس کرتے ہوئے اپنی بے قدری کا شکوہ کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔
یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں فنکاروں کو وہ عزت و تکریم حاصل نہیں جو ہمارے پڑوسی ملک میں ہے۔
بدقسمتی سے آزادی کے بعد ہم نے اپنی فلموں کو پاکستانی رنگ نہیں دیا بلکہ لکیر کے فقیر رہتے ہوئے اسی ہندوآنہ طرز پر فلمیں بناتے رہے جس میں ناچ گانا لازمی ہوتا تھا۔ برصغیر کی فلموں کی ساخت ہندو مذہب اور تہذیب و تمدن کے عین مطابق تھی لیکن ہمارے مسلم معاشرے میں اس کی گنجائش نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انتہائی عروج کے دور میں بھی پندرہ بیس فیصد سے زائد پاکستانی عوام فلمیں نہیں دیکھتے تھے اور فلم بینی کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ جو لوگ فلمیں دیکھتے تھے وہ تفریح کے علاوہ اپنی اپنی پسند کے فنکارؤں کے لیے دیکھتے تھے لیکن عملی زندگی میں ناچنے گانے والوں کی عزت نہیں ہوتی تھی۔
ہمارے ہاں اس بازار کے ناچنے والوں کو 'کنجر' اور گانے والوں کو 'میراثی' کہا جاتا تھا جو بڑے توہین آمیز الفاظ ہیں۔ ہماری بیشتر اداکارائیں اور گلوکارائیں اسی بازار سے آتی تھیں جو فلم میں آکر سپرسٹار اور مالدار بن جاتی تھیں اور میڈیا میں ان کی بڑی پذیرائی ہوتی تھی جس سے بظاہر لوگ متاثر ہوتے تھے لیکن ان کا پس منظر جان کر ایک عام شخص کو بھی بڑی کراہت محسوس ہوتی تھی۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایک بار اپنے ایک کزن کے ہمراہ لاہور کسی کام کے سلسلے میں گیا۔ ہمیں ماڈل ٹاؤن جانا تھا جو اس وقت شہر سے باہر ہوتا تھا۔ بادشاہی مسجد میں نمازظہر ادا کرنے کے بعد مسجد کے طرز تعمیر اور تاریخی پس منظر نے کچھ وقت لیا۔ علامہ اقبالؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد ہم شہر کی طرف چل دیئے۔
تھوڑی دور تک چلے تو محسوس ہوا کہ دروازوں ، کھڑکیوں اور بالکانیوں میں نوجوان لڑکیاں کھڑی دعوت نظارا دے رہی ہیں۔ میرا ماتھا ٹھنکا ، سنا تھا کہ شاہی محلہ ، شاہی مسجد کے پڑوس میں واقع ہے۔ ایک خوانچہ فروش سے پوچھا تو اس نے خالص لاہوری لہجے میں بتایا کہ اس وقت ہم ہیرا منڈی میں گھوم رہے ہیں۔ ہمارے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔
یا اللہ ، ہم تیرے گھر سے نکلے اور کہاں پہنچ گئے۔۔؟
وہاں سے ہم الٹے پاؤں بھاگے۔ یہ خوف بھی دامن گیر تھا کہ کوئی جاننے والا ہمیں دیکھ نہ لے اور ہمارے کردار پر کوئی داغ نہ لگ جائے۔
اس خوف کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارا ایک عزیز رشتہ دار ایک طوائف کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ اپنے وقت کا ایک آوارہ اور اوباش شخص تھا لیکن مالدار اور اثرورسوخ والا تھا ، اس لیے لوگ اس کی عزت کرتے تھے۔
اس کا بیٹا بڑا نیک سیرت نوجوان تھا لیکن پوری برادری میں کوئی اسے منہ تک نہیں لگاتا تھا کیونکہ وہ ایک 'کنجری کا بیٹا' تھا۔ باپ کے کرتوتوں کی سزا زندگی بھر اس کے معصوم بیٹے کو ملتی رہی۔ بھلا اس میں اس بے چارے کا کیا قصور تھا۔۔؟
میرے پاس کسی ویڈیو کیسٹ میں BBC کا ایک ڈاکومینٹری پروگرام 'The Dancing Girls From Lahore' موجود ہے جس میں لاہور کی کئی لاکھ افراد پر مشتمل کنجر کمیونٹی کے حالات کو محفوظ کیا گیا ہے اور جس میں کئی ایک دردناک کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔
لاہور کی ہیرا منڈی جسے 'بازارحُسن' بھی کہتے تھے ، مغلوں کے دور سے اپنی رقص و سرود کی محفلوں کی وجہ سے بڑی مشہور تھی۔ انگریزوں کے دور میں یہاں جسم فروشی کا غلیظ کاروبار بھی شروع ہوا۔ چمکتے دھمکتے حسین و جمیل چہروں کی خریدوفروخت کی وجہ سے اسے 'ہیرا منڈی' کا نام ملا۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے تازہ چہروں کی فراہمی بھی یہیں سے ہوتی تھی۔
آج کل یہاں ناچ گانے کا کام اتنا نہیں ہو رہا لیکن جسم فروشی کا مکروہ دھندہ پورے شہر میں پھیل چکا ہے۔ یہ نامراد پیشہ ، دنیا کا قدیم ترین دھندہ رہا ہے جو ہر دور میں رہا ہے اور جسے کبھی ختم نہیں کیا جاسکا۔ بیشتر لوگ (جن میں مذکر ، مونث اور مخنث سبھی شامل ہیں) مجبوراً اس دھندے سے وابستہ ہیں لیکن بعض لوگ شوقیہ اور نسبتاً آسان اور فوری کمائی کے لیے یہ ناپسندیدہ عمل کرتے ہیں۔
مغربی ممالک میں بھی اس مکروہ پیشے کو اچھے نام سے یاد نہیں کیا جاتا اور ایسے مقامات کو 'ریڈ لائٹ ایریا' کا نام دیا جاتا ہے۔
لاہور میں ہیرامنڈی یا بازار حسن کا یہ مشہور زمانہ علاقہ آج کل جفت سازی یا جوتے بنانے کا مرکز بن چکا ہے۔
1 | ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل سٹار ، اک دوونی دونی ، دو دونی چار..فلم ... لہوپکارے گا ... اردو ... (1967) ... گلوکار: احمد رشدی ، مسعود رانا ... موسیقی: الیاس ... شاعر: ؟ ... اداکار: رنگیلا ، حمید چوہدری |
2 | ہسدیاں فصلاں تے جٹ پاوے لڈیاں..فلم ... تہاڈی عزت دا سوال اے ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: تصورخانم ، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: فردوس ، حمید چوہدری مع ساتھی |
3 | کیسا گجب ہوا کالی کالی رات میں..فلم ... نوابزادی ... اردو ... (1979) ... گلوکار: افشاں ،مہناز، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: ؟ ... اداکار: کویتا ، رانی ، حمید چوہدری مع ساتھی |
4 | بھن سٹیاں سہاگ دیاں چوڑیاں ، جنہاں دے کدی یار وچھڑے..فلم ... جانباز ... پنجابی ... (1987) ... گلوکار: نورجہاں ، مسعود رانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: افشاں قریشی ، حمید چوہدری ، انجمن |
1 | ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل سٹار ، اک دوونی دونی ، دو دونی چار ...(فلم ... لہوپکارے گا ... 1967) |
2 | کیسا گجب ہوا کالی کالی رات میں ...(فلم ... نوابزادی ... 1979) |
1 | ہسدیاں فصلاں تے جٹ پاوے لڈیاں ...(فلم ... تہاڈی عزت دا سوال اے ... 1969) |
2 | بھن سٹیاں سہاگ دیاں چوڑیاں ، جنہاں دے کدی یار وچھڑے ...(فلم ... جانباز ... 1987) |
1 | ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل سٹار ، اک دوونی دونی ، دو دونی چار ...(فلم ... لہوپکارے گا ... 1967) |
2 | بھن سٹیاں سہاگ دیاں چوڑیاں ، جنہاں دے کدی یار وچھڑے ...(فلم ... جانباز ... 1987) |
1 | ہسدیاں فصلاں تے جٹ پاوے لڈیاں ... (فلم ... تہاڈی عزت دا سوال اے ... 1969) |
2 | کیسا گجب ہوا کالی کالی رات میں ... (فلم ... نوابزادی ... 1979) |
1. | 1965: Malangi(Punjabi) |
2. | 1967: Sajda(Urdu) |
3. | 1967: Lahu Pukaray Ga(Urdu) |
4. | 1969: Meri Bhabhi(Urdu) |
5. | 1969: Tahadi Izzat Da Savaal A(Punjabi) |
6. | 1970: BeQasoor(Urdu) |
7. | 1971: Des Mera Jeedaran Da(Punjabi) |
8. | 1971: Pehlvan Jee in London(Punjabi) |
9. | 1974: Noukar Wohti Da(Punjabi) |
10. | 1974: Imandar(Urdu) |
11. | 1978: Mera Naam Raja(Urdu) |
12. | 1987: Janbaz(Punjabi) |
1. | Urdu filmLahu Pukaray Gafrom Friday, 15 December 1967Singer(s): Ahmad Rushdi, Masood Rana, Music: Ilyas, Poet: ?, Actor(s): Rangeela, Hameed Chodhary |
2. | Punjabi filmTahadi Izzat Da Savaal Afrom Thursday, 11 December 1969Singer(s): Tasawur Khanum, Masood Rana & Co., Music: Nazir Ali, Poet: Khawaja Parvez, Actor(s): Firdous, Hameed Chodhary & Co. |
3. | Urdu filmNavabzadifrom Saturday, 3 November 1979Singer(s): Afshan, Mehnaz, Masood Rana & Co., Music: Wajahat Attray, Poet: ?, Actor(s): Kaveeta, Rani, Hameed Chodhary & Co. |
4. | Punjabi filmJanbazfrom Friday, 17 July 1987Singer(s): Noorjahan, Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: Khawaja Parvez, Actor(s): Afshan Qureshi, Hameed Chodhary, Anjuman |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.