Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


شبنم

شبنم
اردو فلموں کی کامیاب ترین اداکارہ ، شبنم

سپر سٹار اداکارہ شبنم ، پاکستان کی اردو فلموں کی کامیاب ترین ہیروئن تھی۔ ۔!

ایک سانولی سلونی ، تیکھے نینوں والی ، دلربا نازنین جو لاکھوں دلوں کا خیال ، آرزو اور نگاہ تمنا کی جستجو ہوتی تھی۔ ایک پروقار ، مہذب اور آئیڈیل دوشیزہ جو سماجی ، اصلاحی اور رومانوی موضوعات پر بنائی گئی فلموں کی بہترین اداکارہ تھی۔ اپنی سادہ مگر پراثر اداکاری سے اس نے فلم بینوں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے اور ایک طویل عرصہ تک کامیاب ترین اردو فلموں کی چوٹی کی ہیروئن ہونے کے علاوہ متعدد ناقابل تسخیر ریکارڈز بھی قائم کیے تھے۔

ماضی کی اسی عظیم فنکارہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس کے چار دھائیوں کے قابل رشک فلمی کیرئر کی سال بہ سال کارکردگی کے علاوہ دیگر اہم ترین فلمی واقعات اور یادگار نغمات کا ذکر کیا جارہا ہے۔ یہ تمام اعدادوشمار کراچی فلم سرکٹ کے ہیں اور شبنم کے انفرادی فلم ریکارڈز کے صفحہ پر بھی موجود ہیں۔

شبنم کی پہلی اردو فلم

چندا (1962)
شبنم کی پہلی اردو فلم تلاش (1963)

شبنم کی پہلی اردو فلم چندا (1962) تھی جس میں اس کا ٹائٹل رول تھا۔ بعض لوگ اس فلم کو مشرقی پاکستان کی پہلی اردو فلم بھی کہتے ہیں حالانکہ اس سے قبل جاگو ہوا سویرا (1959) ، ڈھاکہ میں بننے والی پہلی اردو فلم تھی۔ وہ ایک آرٹ فلم تھی لیکن یہ ایک کمرشل یا روایتی فیچر فلم تھی۔

اس فلم کے پوسٹر پر شبنم اور رحمان کی تصاویر نمایاں ہیں اور کاسٹ میں پہلا نام 'مینا' کا لکھا ہواہے لیکن فلمی ریکارڈز کے مطابق اس فلم کی فرسٹ ہیروئن سلطانہ زمان تھی۔ ڈھاکہ میں بننے والی اردو فلموں کے سب سے مقبول بنگالی ہیرو رحمان کی بھی یہ پہلی فلم تھی۔

ہدایتکار احتشام اور موسیقار روبن گھوش بھی پہلی بار کسی اردو فلم میں نظرآئے تھے۔ اسی سال یعنی 1962ء میں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں زیبا ، محمدعلی ، وحیدمراد ، رانی ، نغمہ اور مسعودرانا جیسے بڑے بڑے بھی فنکار سامنے آئے تھے۔

مشرقی پاکستان کی ڈبل ورژن بنگالی/اردو فلمیں

1963ء میں شبنم کی 3 فلمیں سامنے آئیں جن میں صرف فلم تلاش (1963) ہی ایک اوسط درجہ کی فلم تھی ، باقی دونوں فلمیں فلاپ تھیں۔ اس فلم میں گلوکار بشیراحمد ، متعارف ہوئے تھے جو ڈھاکہ کی اردو فلموں کے مقبول ترین گلوکار رہے ہیں۔

یہ فلم نیٹ پر بنگالی ورژن میں دستیاب ہے اور غالب خیال یہی ہے کہ مشرقی پاکستان کی سبھی اردو فلمیں ، اصل میں بنگالی فلمیں ہوتی تھیں جو اردو میں ڈب کر کے موجودہ پاکستان یا اس وقت کے مغربی پاکستان میں ریلیز کی جاتی تھیں۔ چکوری (1967) جیسی ڈبل ورژن بنگالی/اردو فلم ایک بہت بڑی مثال ہے۔ بدقسمتی یہ رہی ہے کہ جن پر ایسی معلومات فراہم کرنا لازم تھا، وہ یا تو خود لاعلم رہے ہیں یا ہمیشہ سے پیشہ وارانہ بددیانتی کا مظاہرہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔

بیرون ملک بننے والی پہلی پاکستانی فلم

1964ء میں بھی شبنم کی 3 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے صرف ایک فلم پیسے (1964) ہی اوسط درجہ کی تھی ، باقی دونوں فلمیں ناکام رہیں۔ ان میں سے فلم کارواں (1964) ، پاکستان کی پہلی فلم تھی جس کی شوٹنگ نیپال میں کی گئی تھی۔ فلم تنہا (1964) میں شبنم اور شبانہ مہمان اداکارائیں تھیں جبکہ شمیم آراء ، فرسٹ ہیروئن تھی جو مغربی پاکستان کی اس وقت کی سپرسٹار فلمی ہیروئن تھی اور ڈھاکہ میں اس کی یہ اکلوتی فلم تھی۔

شبنم اور روبن گھوش کی شادی

شبنم
شبنم اور کمال
شبنم
شبنم ، ڈھاکہ کی فلموں کی مقبول ترین اداکارہ

1965ء میں شبنم کی 4 فلموں میں سے ایک فلم کاجل (1965) ہی اوسط درجہ کی تھی جس میں شبنم نے پہلی بار ڈبل رول کیا تھا۔

فلم کیسے کہوں (1965) میں عظیم فلمی اداکار ندیم نے بطور گلوکار اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ ان کا پہلا گیت گلوکارہ فردوسی بیگم کے ساتھ ایک دوگانا تھا "کیسے کہوں میں جاناں او جاناں۔۔"

اسی سال کی ایک فلم آخری سٹیشن (1965) میں شبنم نے ایک پگلی کا ثانوی رول کیا تھا جبکہ رانی کی ڈھاکہ کی یہ اکلوتی فلم تھی جس میں وہ فرسٹ ہیروئن تھی۔

اسی سال کی ایک فلم ساگر (1965) ، مسعودرانا کی مشرقی پاکستان میں پہلی فلم تھی جس میں انھوں نے شبنم کی کسی فلم کے لیے پہلا رومانٹک دوگانا گایا تھا "تاروں کی چھیاں چھیاں۔۔" آئرن پروین کے ساتھ یہ گیت ایک خوابناک ماحول میں لے جاتا ہے۔ یہ شاندار گیت سن کر جہاں آئرن پروین کے فنی قدکاٹھ کا اندازہ ہوا وہاں مسعودرانا سے گہری عقیدت پیدا ہوگئی تھی اور عہد کرلیاتھا کہ زندگی رہی تو اس عظیم فنکار کو اس کے شایان شان خراج تحسین ضرور پیش کروں گا۔

اسی سال 21 دسمبر 1965ء کو شبنم نے اپنے دیرینہ ساتھی ، موسیقار روبن گھوش کے ساتھ شادی کر لی تھی۔

شبنم اور ندیم کی پہلی فلم

1966ء میں شبنم کی صرف ایک فلم بیگانہ (1966) ریلیز ہوئی اور ناکام رہی تھی۔ اگلے سال کی نغماتی فلم درشن (1967) ، شبنم کی ڈھاکہ کی فلموں میں سب سے کامیاب فلم ثابت ہوئی تھی۔ اس میوزیکل فلم میں گلوکار بشیراحمد نے آٹھ گیت گائے تھے جن میں سے بیشتر ہٹ ہوئے تھے۔

اس کے علاوہ شبنم کی فلم تم میرے ہو (1968) بھی تھی جو اس کے مغربی پاکستان منتقل ہونے کے بعد ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں شبنم اور ندیم کی لیجنڈ جوڑی کو پہلی بار دیکھا گیا تھا لیکن یہ ایک ناکام فلم تھی۔ شبنم کی مشرقی پاکستان میں بنی ہوئی آخری فلم چلو مان گئے (1971) تھی۔

شبنم نے ڈھاکہ کو کیوں خیرآباد کہا؟

اعدادوشمار کے مطابق ڈھاکہ میں بننے والی شبنم کی کل 15 فلمیں تھیں جن میں سے صرف 2 فلمیں کامیاب اور 3 اوسط درجہ کی تھیں۔ یہ کارکردگی ایسی نہ تھی کہ مغربی پاکستان کے فلمساز ،شبنم کو کسی فلم میں کام کرنے کی پیش کش کرتے۔ لیکن مسلسل ناکامیوں سے گبھرا کر شبنم ، اپنے شوہر روبن گھوش کے ساتھ خود ہی بہتر مستقل کی تلاش میں نقل مکانی کرتے ہوئے کراچی چلی آئی تھی۔

مغربی پاکستان میں شبنم کی پہلی فلم

اس دور میں فلمی کاروبار اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا اور سینما ، عوام کی واحد تفریح ہوتی تھی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کی وجہ سے پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگ گئی تھی ، اس لیے بھارتی فلموں کی کمی پوری کرنے کے لیے ملک میں بڑی تعداد میں فلمیں بننا شروع ہوگئی تھیں اور 1968ء میں پہلی بار ریلیز شدہ فلموں کی تعداد نے سینچری مکمل کرلی تھی۔ ایسے مصروف دور میں مغربی پاکستان میں شبنم کوہاتھوں ہاتھ لیا گیا تھا اور پہلے ہی سال 4فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔

شبنم کی کراچی میں بنی ہوئی پہلی فلم سمندر (1968) تھی جس کے فلمساز اور ہیرو وحیدمراد تھے جو اس وقت کی اردو فلموں کے سپرسٹار تھے۔ محمدعلی ، کمال اور ندیم ، اردو فلموں کے دیگر ممتاز ہیروز تھے۔ شمیم آرا ، زیبا ، رانی اور دیبا چوٹی کی ہیروئنیں تھیں جبکہ سلونی ، حسنہ ، روزینہ ، عالیہ اور غزالہ معاون اداکارائیں تھیں۔ پنجابی فلموں کے ہیرو ز ، سدھیر ، حبیب ، اعجاز اور یوسف خان بھی اردو فلموں میں گاہے بگاہے کاسٹ ہوتے تھے لیکن پنجابی فلموں کی سپرسٹارز ، نغمہ اور فردوس کو اردو فلموں میں قطعاً پذیرائی نہیں ملی تھی۔

اس سال کی فلم شریک حیات (1968) میں مسعودرانا کا یہ دلکش گیت "میرے دل کے صنم خانے میں اک تصویر ایسی ہے جو بالکل آپ جیسی ہے۔۔" شبنم ہی کے لیے گایا گیاتھا۔ مالا کا یہ سپرہٹ گیت "کسے آوازدوں ، تیرے سوا۔۔" شبنم پر فلمایا گیا تھا۔

قسم اس وقت کی

عندلیب (1969)
شبنم کی لاہور کی پہلی سپرہٹ فلم ، عندلیب (1969)

1969ء میں شبنم کو 6 فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا اور صرف ایک ہی فلم ناکام ہوئی تھی۔ یہ فلم تھی قسم اس وقت کی (1969) جو پاکستان ائیر فورس کی بنائی ہوئی ایک نیم دستاویزی فلم تھی۔

ہمارے ہاں بدقسمتی یہ رہی ہے کہ سرکاری طور پر حقائق کو اس قدر بھونڈے طریقے سے پیش کیا جاتا رہا ہے کہ عوام الناس کو اس سے قطعاً دلچسپی نہیں رہتی حالانکہ اس طرح کی بامقصد اور تاریخی فلموں کو یادگار ہونا چا ہیے تھا۔

اس سال کی سپرہٹ فلم عندلیب (1969) تھی جس میں ملکہ ترنم نورجہاں اور احمدرشدی کا الگ الگ گایا ہوا گیت "کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے۔۔" ایک سپرہٹ گیت تھا۔ فلم ناز (1969) میں مالا کا یہ سپرہٹ گیت "مجھے آئی نہ جگ سے لاج ، میں اتنے زور سے ناچی آج کہ گھنگھرو ٹوٹ گئے۔۔" جیسا شاہکار گیت بھی شبنم پر فلمایا گیا تھا۔ آسرا اور لاڈلا کے علاوہ نازنین (1969) ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی جس میں مسعودرانا کے گائے ہوئے سبھی گیت "میرا خیال ہو تم۔۔" ، "یہ مانا کہ تم دلربا نازنین ہو۔۔" اور "آجا ، آجا ، دلربا۔۔" شبنم ہی کے لیے گائے گئے تھے جبکہ ایک دوگانا "نہ جھٹکو ہاتھ ، کرو کچھ بات۔۔" شبنم پر بھی فلمایا گیا تھا۔

1970ء میں شبنم کی 5 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے کوئی ایک بھی فلم کسی بڑی کامیابی سے محروم رہی تھی۔ نصیب اپنا اپنا (1970) میں احمدرشدی کا کلاسک گیت "اے ابر کرم ، آج اتنا برس۔۔" میرے پسندیدہ ترین گیتوں میں شامل رہا ہے۔ فلم جلے نہ کیوں پروانہ (1970) میں شبنم کی جوڑی کمال کے ساتھ تھی اور ندیم ، سیکنڈ ہیرو تھے۔ فلم شمع اور پروانہ (1970) میں شبنم نے ایک بار پھر رانی کے مقابل ثانوی رول کیا تھا۔

شبنم کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی اردو فلم

دوستی (1971)
شبنم کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم دوستی (1971)

1971ء میں شبنم کی کل 4 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم دوستی (1971) نے شبنم کو سپرسٹار بنا دیا تھا۔ فلمساز اور ہیرو اعجاز کی اس سپرہٹ نغماتی فلم میں پہلی بار رحمان نے سیکنڈہیرو کا رول کیا تھا ، یہ ان کی مغربی پاکستان میں پہلی فلم تھی۔ شبنم پر فلمایا ہوا میڈم نورجہاں کا سپرہٹ گیت "چٹھی جرا سیاں جی کے نام لکھ دے۔۔" ایک سٹریٹ سانگ ثابت ہوا تھا۔ اسی سال کی فلم چراغ کہاں روشنی کہاں (1971) میں مسعودرانا کے دو سپرہٹ رومانٹک گیت "حال دل آج ہم سنائیں گے۔" اور "میری دعا ہے کہ تو بن کے ماہتاب رہے ، خدا کرے کہ سلامت تیرا شباب رہے۔۔" شبنم ہی کے لیے گائے گئے تھے جبکہ ایک دوگانا "گورے مکھڑے سے زلفیں ہٹا دو۔۔" شبنم اور ندیم پر فلمایا گیا تھا۔

اسی سال دسمبر کے مہینے میں پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ، بنگلہ دیش بن گیا تھا جس سے پاکستانی فلمیں ، اپنے ڈھاکہ فلم سینٹر اور اس کے فنکاروں سے محروم ہوگئی تھیں۔ شبنم اور روبن گھوش نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔

1972ء میں بھی شبنم کی فلموں کی تعداد 4تھی۔ میرے ہمسفر (1972) ایک کامیاب فلم تھی جس کی بیشتر شوٹنگ یورپ میں ہوئی تھی۔ اس سال کی فلم احساس (1972) میں رونالیلیٰ کا یہ دلسوز گیت "ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے۔۔" کے علاوہ مسعودرانا کے ساتھ یہ سدابہار دوگانا بھی شبنم پر فلمایا گیا تھا "بھیگی بھیگی ٹھنڈی ہوا۔۔"

شبنم کے عروج کا دور

1973ء میں شبنم کی 8 فلمیں منظرعام پر آئی تھیں۔ ان میں دوسری ڈائمنڈجوبلی فلم انمول (1973) بھی تھی جس کے ہیرو شاہد تھے۔فلم آس (1973) کے علاوہ فلم گھرانہ (1973) بھی ایک کامیاب فلم تھی جس میں نیرہ نور کا پہلا سپرہٹ گیت "تیرا سایہ جہاں بھی ہوسجناں ، پلکیں بچھادوں۔۔" شبنم پر فلمایا گیا تھا۔ اس سال کی فلم بادل اور بجلی (1973) میں مسعودرانا اور مالا کا یہ دلکش دوگانا ندیم اور شبنم پر فلمایا گیا تھا "دھیرے دھیرے ذرا پاؤں اٹھا۔۔"

شبنم اور ندیم کی جوڑی کا عروج

شبنم اور شاہد
شبنم اور شاہد

1974ء میں پہلی بار شبنم کی فلموں کی تعداد 15 تک جا پہنچی تھی۔ 70 کی دھائی میں فلمی کاروبار اپنے انتہائی عروج پر تھا۔ بڑی تعداد میں فلمیں بن رہی تھیں اور بڑی بڑی کامیابیاں سمیٹ رہی تھیں۔ فلم سب سے بڑی عوامی تفریح ہوتی تھی۔ ملک بھر کے ایک ہزار کے قریب سینماؤں میں سے کراچی میں سوا سو کے لگ بھگ سینما گھر ہوتے تھے جہاں ایک فلم بیس سے پچیس سینماؤں میں بیک وقت ریلیز ہوتی تھی اور بیشترفلمیں پہلے نہیں تو دوسرے ہفتے میں سلورجوبلی کرلیتی تھیں۔ ایسی فلمیں زیادہ سے زیادہ تین چار ہفتوں میں ڈبوں میں بند ہو جاتی تھی ۔ یہی وجہ تھی کراچی میں کسی اردو فلم کی کامیابی کامیعار ، کم از کم ایک گولڈن جوبلی فلم ہوگیا تھا۔
اس سال کی سب سے بڑی فلم دل لگی (1974) تھی جس سے ندیم اور شبنم کی جوڑی کی کامیابیوں کا سفر شروع ہوا تھا۔ اس فلم میں مسعودرانا کے گائے ہوئے دونوں سنجیدہ گیتوں "مرجھائے ہوئے پھولوں کی قسم۔۔" اور "آگ لگا کر چھپنے والے۔۔" کے علاوہ فلم دو تصویریں (1974) کا یہ شاہکار گیت "تہ دل سے کہہ رہے ہیں ، تجھے آج ہم مبارک۔۔" ، شبنم ہی کے لیے گائے گئے تھے۔

فلم چاہت (1974) میں اخلاق احمد کا پہلا سپرہٹ گیت "ساون آئے ، ساون جائے۔۔" اور مہدی حسن کا گیت "پیار بھرے دو شرمیلے نین۔۔" شبنم ہی کے لیے گائے گئے تھے۔ فلم شرافت (1974) میں مہدی حسن کا گیت "تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے لہریں بھی ہوئیں مستانی سی۔۔" بھی شبنم ہی کے لیے گایا گیا تھا۔ ​

فلم انتظار (1974) میں بابرہ شریف نے فلمی کیرئر کا آغاز کیاتھا جو شبنم کے بعد اردو فلموں کی دوسری کامیاب ترین اداکارہ ثابت ہوئی تھی۔ ​

اسی سال کی فلم دھماکہ (1974) میں جاوید شیخ متعارف ہوئے تھے لیکن یہ فلم بری طرح سے ناکام رہی تھی۔ نو سال بعد جاوید نے دوبارہ شبنم ہی کے ساتھ کبھی الوداع نہ کہنا (1983) سے کامیابی حاصل کی تھی اور آج تک فلموں میں کام کر رہے ہیں۔

شبنم کی تین برسوں میں مسلسل دو دو ڈائمنڈجوبلی فلمیں

1975ء کا سال شبنم کے انتہائی عروج کا سال تھا۔ کل 14 فلموں میں سے اس سال ایک ہی دن ریلیز ہونے والی دو فلمیں اناڑی اور پہچان (1975) ، ڈائمنڈجوبلی کرنے والی فلمیں تھیں جو ایک نیا ریکارڈ تھا۔ دونوں فلموں کے ہیرو ندیم تھے۔ فلم زینت (1975) کے ٹائٹل رول میں شبنم نے زبردست پرفارمنس کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس فلم میں مہدی حسن کی مشہور زمانہ غزل "رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے۔۔" شبنم ہی کے لیے گائی گئی تھی۔ ​فلم فرض اور مامتا (1975) میں مسعودرانا کا یہ شکوہ شبنم ہی سے کیا گیا تھا "آج غم دے دیا ، کل خوشی بخش دی ، حسن والوں کا کوئی بھروسہ نہیں۔۔" بھٹی پکچرز کی پہلی اردو فلم بکھرے موتی (1975) کی فرسٹ ہیروئن بھی شبنم ہی تھی۔ ​

1976ء میں شبنم کی 11 فلموں کو دیکھا گیا تھا۔ مسلسل دوسرے سال بھی دو ڈائمنڈجوبلی فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جو ایک نیا ریکارڈ تھا۔ اس سال فلم تلاش اور آج اور کل (1976) کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا۔ پہلی فلم میں ندیم اور دوسری میں راحت کاظمی ہیرو تھے۔ دامن کی آگ (1976) واحد فلم تھی جس میں شبنم کو محمدعلی اور ندیم کے ساتھ ایک ہی فلم میں دیکھا گیا تھا۔

شبنم کی ریکارڈ میکر فلم آئینہ

آئینہ (1977)
شبنم کی ریکارڈ توڑ فلم آئینہ (1977)

1977ء میں 6 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ شبنم کے لیے یہ ایک انتہائی یادگار سال تھا جب اس کی ڈائمنڈ جوبلی فلموں نے ہیٹ ٹرک کی تھی اور وہ بھی سالانہ دو فلموں کی اوسط سے۔۔!

شاہد کے ساتھ فلم اف یہ بیویاں (1977) کے علاوہ ندیم کے ساتھ فلم آئینہ (1977) نے کراچی میں 401 ہفتے چلنے کا منفرد اعزاز حاصل کیاتھا۔یہ فلم اپنے مین تھیٹر بمبینو پر 48 ہفتے چلی تھی۔ اس کے بعد ایک منی سینما سکالا میں تین سال تک چلتی رہی تھی۔ دلچسپ اتفاق ہے کہ ندیم اور شبنم کی فلموں کی غیر معمولی کامیابیوں کے باوجود ان کی کسی فلم نے کبھی اپنے مین تھیٹر پر گولڈن جوبلی نہیں کی تھی۔

1978ء میں شبنم کی 9 فلمیں سامنے آئی تھیں۔ عرصہ پانچ سال بعد شبنم نے وحیدمراد کے ساتھ فلم سہیلی (1978) میں دوبارہ کام کیا تھا۔ قبل ازیں ان کی آخری فلم بندگی (1972) تھی۔ روایت ہے کہ وحیدمراد رومانٹک مناظر کو حقیقت کے کچھ زیادہ ہی قریب کرنے کے عادی تھے جو شادی شدہ اداکاراؤں کے خاوندوں کے لیے ہضم کرنا بڑا مشکل ہوتا تھا۔

​اس سال کی سب سے کامیاب فلم آواز (1978) تھی جو وحیدمراد اور محمدعلی کی جوڑی کی سب سے کامیاب مشترکہ فلم بھی تھی۔ انتخاب (1978) ایک بڑی منفرد فلم تھی جبکہ میری پسندیدہ فلم انمول محبت (1978) تھی۔

شبنم ڈکیتی کیس

شبنم
شبنم

اسی سال 12 مئی 1978ء کی رات ڈکیتی کی ایک سنگین واردات میں مبینہ طور پر پانچ افراد نےشبنم کی آبروریزی کی تھی۔ اس ظلم و زیادتی کے خلاف اس نے آواز بلند کی اور جرم ثابت ہونے پر ایک فوجی عدالت نے 24 اکتوبر 1979ء کو پانچوں مجرموں کو پھانسی کی سزا سنادی تھی۔

اطلاعات کے مطابق بظاہر شبنم نے انھیں معاف کردیا تھا لیکن چونکہ مجرمان انتہائی بااثر افراد تھے ، اس لیے حسب معمول سزا سے بچ نکلے۔ ظاہر ہے کہ یہ دباؤ کا نتیجہ تھا کیونکہ اگر شبنم نے انھیں معاف ہی کرنا تھا تو رپورٹ کیوں کراتی۔۔؟ وہ بھی اداکارہ زمرد کی طرح خاموش ہوکر بیٹھ جاتی ، جس کے ساتھ ایسا ہی ایک واقعہ ہوچکا تھا۔

وقت کے ذلیل ترین غاصب حکمران جنرل ضیاع مردود نے 26 مئی 1980ء کو ان درندوں کی رحم کی اپیلیں منظور کر لی تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہ ناجائز حکمران خود آئین و قانون کی دھجیاں بکھیر کر اقتدار پر قابض ہوا تھا۔ اس ملعون کے دور استبداد میں مظلوم اور بے گناہ افراد کو پھانسی اور کوڑوں کی سزا ملتی تھی جبکہ ظالموں اور مجرموں پر رحم کیا جاتا تھا۔ ویسے بھی پاکستان میں قانون صرف انھی لوگوں کے لیے ہوتا ہے کہ جن کا اوپر سے فون نہیں آتا۔

یہ واقعہ ایک بار پھر میڈیا کی زینت بنا جب اس مکروہ واردات میں ملوث ایک مجرم فاروق بندیال ، 31 مئی 2018ء کو موجودہ حکمران جماعت تحریک انصاف میں شامل ہوگیاتھا لیکن اپنےمجرمانہ ماضی کی وجہ سے عوامی دباؤ پر پارٹی سے بےدخل کردیا گیاتھا۔

شبنم کی ینگ ٹو اولڈ کردار والی پہلی فلم

1979) میں شبنم کی 5 میں سے ایک فلم پاکیزہ (1979) کامیاب ترین فلم تھی جس میں شبنم اور ندیم نے پہلی بار ینگ ٹو اولڈ رولز کیے تھے۔ 1980ء میں شبنم کی فلم ہم دونوں نے ڈائمنڈجوبلی منائی تھی لیکن سال کی یادگار فلم بندش (1980) تھی جو پہلی اردو فلم تھی جس نے لاہور میں پلاٹینم جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ اس فلم میں اخلاق احمد کا سپرہٹ گیت "سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان من۔۔" ایک لازوال گیت تھا۔ اسی سال فلم نہیں ابھی نہیں (1980) ریلیز ہوئی تھی جس میں شبنم نے مرکزی کردار کیا تھا اور ہیرو فیصل تھے جبکہ ایاز کی بھی پہلی فلم تھی۔

شبنم کی ناکام کاپی فلم

1981ء کی 5 فلموں میں سے فلم قربانی (1981) نے ڈائمنڈجوبلی منائی تھی۔ بلاشبہ ، یہ ایک اعلیٰ پائے کی فلم تھی جس میں ندیم اور شبنم نے جذباتی اداکاری کی ایک مثال قائم کی تھی۔ اسی سال کی فلم تانگے والی (1981) میں شبنم نے پرانی فلم یکے والی (1957) کی مسرت نذیر بننے کی ناکام کوشش کی تھی۔
1982ء میں شبنم کی 7 فلمیں دیکھی گئیں۔ ان میں بیوی ہو تو ایسی (1982) بھی ایک ڈائمنڈجوبلی فلم تھی جس کے ہیرو شفیع محمد تھے۔ فلم آہٹ (1982) واحد فلم تھی جس میں شبنم کے ساتھ ندیم اور وحیدمراد ایک ساتھ تھے۔

شبنم کی آخری ڈائمنڈجوبلی اردو فلم

1983ء کی 6 فلموں میں سے دہلیز (1983) ، شبنم اور ندیم کی آخری فلم تھی جس نے ڈائمنڈ جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
1984ء کی 10 فلموں میں سے کامیاب ترین فلم کامیابی (1984) تھی۔ اس سال کی فلم تیرے گھر کے سامنے (1984) میں انوررفیع نے اپنا پہلا فلم گیت گایا تھا "او سلمیٰ ، میری تم سے ایک گزارش ہے۔۔"
1985ء میں شبنم کی صرف2 فلمیں سامنے آئیں۔
1986ء کی 3 فلموں میں سے خاص بات یہ تھی کہ جھومرچور (1986) میں اعجاز نے آخری بار اداکاری کی تھی۔ فیصلہ (1986) غالباً شبنم کی آخری گولڈن جوبلی فلم تھی۔

شبنم کے زوال کا دور

1987ء میں شبنم کی 8 فلمیں ، فلم بینوں کو دیکھنے کو ملیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی فلم کسی بڑی کامیابی سے محروم رہی تھی۔ ویسے بھی وہ اردو فلموں کے زوال کا دور تھا۔

ندیم کی طرح شبنم نے بھی اپنے فلمی کیرئر کے آخر میں پنجابی فلموں کا رخ کیا اور پہلی بار تین پنجابی فلموں ، مالکا ، بازی اور کالو (1987) میں یوسف خان اور سلطان راہی کے مقابل کام کیا تھا۔ اگلے دو برسوں میں صرف ایک ایک فلم ریلیز ہوئی تھی۔

فلم چندا (1962) سے لیڈی کمانڈو (1989) تک 28 سال تک شبنم کی مسلسل فلمیں ریلیز ہوتی رہیں لیکن اگلے چار سال تک کوئی فلم ریلیز نہیں نہ ہو سکی۔ اس دوران غالباً شبنم ، پاکستان چھوڑ کر بنگلہ دیش چلی گئی تھی اور وہاں ایک فلم رنجش (1993) میں کام کیا تھا جو ایک کو پروڈکشن فلم تھی اور پاکستان میں بھی ریلیز ہوئی تھی۔ شبنم ایک بار پھر واپس پاکستان آئی اور فلم رانی بیٹی راج کرے گی (1994) میں سلطان راہی کے مقابل ایک اہم مگر ثانوی کردار میں نظر آئی۔ اگلے تین برسوں میں تین ہی فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں اولاد کی قسم (1997) ریلیز کے اعتبار سے آخری فلم تھی۔ ان فلموں کی ناکامی کے بعد وہ ، واپس بنگلہ دیش چلی گئی تھی۔

شبنم کا فلمی کیرئر

شبنم نے 160 فلموں میں کام کیا تھا جن میں 156 اردو اور 4 پنجابی فلمیں تھیں۔ بنگالی فلمیں ان کے علاوہ تھیں۔ سب سے زیادہ ڈائمنڈ جوبلی اردو فلموں کی ہیروئن ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا اور مسلسل تین سال تک سالانہ دو ڈائمنڈجوبلی فلموں کی اوسط سے ہٹ ٹرک بھی کی تھی۔

شبنم نے ہدایتکار ایس سلیمان کے ساتھ سب سے زیادہ 14 فلموں میں کام کیا تھا۔ ان کے بعد پرویز ملک 13 ، کے خورشید 11 اور ظفرشباب کے ساتھ 10 فلموں میں کام کیاتھا۔

اداکاروں میں ​سب سے زیادہ ندیم کے ساتھ کام کیا اور کل 12 میں سے 7 ڈائمنڈجوبلی فلموں کے علاوہ مشترکہ فلموں کی کل تعداد 50 تھی۔ دیگر ہیروز میں محمدعلی 40 ، وحیدمراد 16 اور شاہد کے ساتھ 20 فلموں میں کام کیاتھا۔ شبنم نے دیگر نامور ہیروز میں سے صرف حبیب کے ساتھ کسی فلم میں ہیروئن کے طور پر کام نہیں کیا تھا۔ زیبا اور شبنم بھی کسی فلم میں ایک ساتھ نہیں آئیں۔ شبنم کا اصل نام جھرنا باسک تھا اور وہ ڈھاکہ کی ایک ہندو فیملی میں 1942ء میں پیدا ہوئی تھی۔

مسعودرانا اور شبنم کے 5 فلمی گیت

(5 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت )
1

نہ جھٹکو ہاتھ ، کرو کچھ بات ، کہ ہم کو نیند نہیں آتی..

فلم ... نازنین ... اردو ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ، رونا لیلیٰ ... موسیقی: ایم اشرف ... شاعر: کلیم عثمانی ... اداکار: ندیم ، شبنم
2

گورے مکھڑے سے زلفیں ہٹا دو ، بدلی سےچاندنکلے..

فلم ... چراغ کہاں روشنی کہاں ... اردو ... (1971) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا ... موسیقی: ایم اشرف ... شاعر: کلیم عثمانی ... اداکار: ندیم ، شبنم
3

بھیگی بھیگی ٹھنڈی ہوا ، جھکی جھکی اڑتی ہوا ، موسم ہے دیوانہ دیوانہ دیوانہ..

فلم ... احساس ... اردو ... (1972) ... گلوکار: رونا لیلیٰ ، مسعود رانا ... موسیقی: روبن گھوش ... شاعر: اختر یوسف ... اداکار: شبنم ، ندیم
4

دھیرے دھیرے ذرا پاؤں اٹھا ، او تیری پائل کی چھم چھم شور کرے گی..

فلم ... بادل اور بجلی ... اردو ... (1973) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا ... موسیقی: سہیل رعنا ... شاعر: صہبا اختر ... اداکار: ندیم ، شبنم
5

اندھیاروں میں تونے پیار کے دیپ جلائے ، بچھڑے ہم تم دونوں ، وہ دن کبھی نہ آئے..

فلم ... میں بنی دُلہن ... اردو ... (1974) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: شبنم ، شاہد

مسعودرانا اور شبنم کے 5 اردو گیت

1

نہ جھٹکو ہاتھ ، کرو کچھ بات ، کہ ہم کو نیند نہیں آتی ...

(فلم ... نازنین ... 1969)
2

گورے مکھڑے سے زلفیں ہٹا دو ، بدلی سےچاندنکلے ...

(فلم ... چراغ کہاں روشنی کہاں ... 1971)
3

بھیگی بھیگی ٹھنڈی ہوا ، جھکی جھکی اڑتی ہوا ، موسم ہے دیوانہ دیوانہ دیوانہ ...

(فلم ... احساس ... 1972)
4

دھیرے دھیرے ذرا پاؤں اٹھا ، او تیری پائل کی چھم چھم شور کرے گی ...

(فلم ... بادل اور بجلی ... 1973)
5

اندھیاروں میں تونے پیار کے دیپ جلائے ، بچھڑے ہم تم دونوں ، وہ دن کبھی نہ آئے ...

(فلم ... میں بنی دُلہن ... 1974)

مسعودرانا اور شبنم کے 0 پنجابی گیت


مسعودرانا اور شبنم کے 0سولو گیت


مسعودرانا اور شبنم کے 5دوگانے

1

نہ جھٹکو ہاتھ ، کرو کچھ بات ، کہ ہم کو نیند نہیں آتی ...

(فلم ... نازنین ... 1969)
2

گورے مکھڑے سے زلفیں ہٹا دو ، بدلی سےچاندنکلے ...

(فلم ... چراغ کہاں روشنی کہاں ... 1971)
3

بھیگی بھیگی ٹھنڈی ہوا ، جھکی جھکی اڑتی ہوا ، موسم ہے دیوانہ دیوانہ دیوانہ ...

(فلم ... احساس ... 1972)
4

دھیرے دھیرے ذرا پاؤں اٹھا ، او تیری پائل کی چھم چھم شور کرے گی ...

(فلم ... بادل اور بجلی ... 1973)
5

اندھیاروں میں تونے پیار کے دیپ جلائے ، بچھڑے ہم تم دونوں ، وہ دن کبھی نہ آئے ...

(فلم ... میں بنی دُلہن ... 1974)

مسعودرانا اور شبنم کے 0کورس گیت



Masood Rana & Shabnam: Latest Online film

Masood Rana & Shabnam: Film posters
SagarSamundarSharik-e-HayyatNazneenCharagh Kahan Roshni KahanBaadal Aur BijliDillagiMain Bani DulhanBhool2 TasvirenFarz Aur MamtaPaisaBadal Geya InsanRaja Jani
Masood Rana & Shabnam:

0 joint Online films

(0 Urdu and 0 Punjabi films)

Masood Rana & Shabnam:

Total 15 joint films

(15 Urdu and 0 Punjabi films)

1.1965: Sagar
(Urdu)
2.1968: Samundar
(Urdu)
3.1968: Sharik-e-Hayyat
(Urdu)
4.1969: Nazneen
(Urdu)
5.1971: Charagh Kahan Roshni Kahan
(Urdu)
6.1972: Ehsas
(Urdu)
7.1973: Baadal Aur Bijli
(Urdu)
8.1974: Dillagi
(Urdu)
9.1974: Main Bani Dulhan
(Urdu)
10.1974: Bhool
(Urdu)
11.1974: 2 Tasviren
(Urdu)
12.1975: Farz Aur Mamta
(Urdu)
13.1975: Paisa
(Urdu)
14.1975: Badal Geya Insan
(Urdu)
15.1976: Raja Jani
(Urdu)


Masood Rana & Shabnam: 5 songs

(5 Urdu and 0 Punjabi songs)

1.
Urdu film
Nazneen
from Friday, 1 August 1969
Singer(s): Masood Rana, Runa Laila, Music: M. Ashraf, Poet: Kaleem Usmani, Actor(s): Nadeemm, Shabnam
2.
Urdu film
Charagh Kahan Roshni Kahan
from Friday, 17 September 1971
Singer(s): Masood Rana, Mala, Music: M. Ashraf, Poet: Kaleem Usmani, Actor(s): Nadeem, Shabnam
3.
Urdu film
Ehsas
from Friday, 22 December 1972
Singer(s): Runa Laila, Masood Rana, Music: Robin Ghosh, Poet: Akhtar Yousuf, Actor(s): Shabnam, Nadeem
4.
Urdu film
Baadal Aur Bijli
from Friday, 4 May 1973
Singer(s): Masood Rana, Mala, Music: Sohail Rana, Poet: Sehba Akhtar, Actor(s): Nadeem, Shabnam
5.
Urdu film
Main Bani Dulhan
from Friday, 22 March 1974
Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: Khawaja Parvez, Actor(s): Shabnam, Shahid




241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.