بابا عالم سیاہ پوش
کے فلمی گیتوں اور مکالموں میں
پنجاب کی زرخیز مٹی کی مہک
رچی بسی ہوتی تھی
بابا عالم سیاہ پوش ، پنجابی سینما کا فخر تھے۔۔!
- بھاگاں والیو ، نام جپھو مولا نام۔۔
- نمبوآں دا جوڑا ، اساں باگے وچوں توڑیا۔۔
- میرے سجرے پھلاں دے گجرے ، کنڈیاں دے وس پے گئے۔۔
- جدا دل ٹٹ جائے ، جدی کل مک جائے ، جنھوں چوٹ لگے ، اوہ جانے۔۔
- جہیڑے توڑدے نیں دل برباد ہون گے ، اج کسے نوں روایا ، کل آپ رون گے۔۔
ایک بے مثل مکالمہ نگار
ایسے لازوال گیت لکھنے والے فلمی شاعر ، بابا عالم سیاہ پوش ، بنیادی طور پر ایک مکالمہ نگار تھے۔ لیکن ایک کہانی نویس یا مکالمہ نگار سے زیادہ شہرت نغمہ نگاروں کو ملتی رہی ہے کیونکہ عام طور پر فلمیں ، یادوں اور ڈبوں میں بند ہو جاتی ہیں لیکن گیت ، زندگی بھر لبوں پر مچلتے رہتے ہیں اور زندہ رہتے ہیں۔
مجھے ذاتی طور پر پنجابی فلموں میں مکالمہ نگاری میں سب سے زیادہ بابا عالم سیاہ پوش نے متاثر کیا تھا۔ ان کے فلمی ڈائیلاگ اور گیتوں میں پنجابی ادب کی چاشنی اور پنجاب کی زرخیز مٹی کی مہک ہوتی تھی۔ وہ فلمی مکالموں میں ایسے ایسے پرمغز جملے ، محاورے اور ضرب الامثال پیش کرتے تھے کہ سننے والا پنجابی زبان کی مٹھاس ، وسعت اور گہرائی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایسی فلموں میں چن ماہی (1956) ، چوڑیاں اور تیس مار خان (1963) جیسی یادگار فلمیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں کہ جنھیں کبھی انھی خوبیوں کی وجہ سے میں نے اتنی بار دیکھا تھا کہ ان فلموں کا ایک ایک سین اور مکالمے زبانی یاد ہو گئے تھے۔
بابا عالم سیاہ پوش کا فلمی کیرئر
بابا عالم سیاہ پوش
بطور اداکار فلم لارے (1950) میں
پاکستان فلم ڈیٹابیس کے غیر حتمی اعداوشمار کے مطابق بابا عالم سیاہ پوش ، 43 فلموں کے مصنف تھے جن میں سے بیشتر فلموں کے مکالمہ نگار تھے جبکہ 37 فلموں میں ڈیڑھ سو کے قریب گیت لکھے تھے۔ وہ دس فلموں کے مکمل مصنف تھے ، یعنی ان فلموں کی کہانیاں ، مکالمے اور منظرنامے بھی لکھے تھے۔ ان فلموں میں پاکستان کی پہلی بلاک باسٹر فلم دلابھٹی (1956) بھی شامل تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دس ہی فلموں کے مکمل گیت بھی انھوں نے لکھے تھے جن میں سب سے بڑی نغماتی فلم تیس مارخان (1963) تھی۔ تین فلموں پھیرے (1949) ، لارے (1950) اور جمیلہ (1964) میں اداکاری بھی کی تھی۔
بابا عالم ، سیاہ پوش کیسے ہوئے؟
1916ء میں پیدا ہونے والے محمد حسین کو جوانی ہی میں "بابا" اور "سیاہ پوش" اس لیے کہتے تھے کہ انھوں نے کسی ناکام عشق میں دنیاداری چھوڑ کر بزرگی اور سیاہ پوشی اختیار کر لی تھی۔
تقسیم سے قبل فلم بھنور (1947) میں گیت اور مکالمہ نگار کے طور پر فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ تقسیم کے بعد ان کی پہلی فلم پھیرے (1949) تھی جو پاکستان کی پہلی سپر ہٹ سلورجوبلی فلم تھی جو لاہور کے پیلس سینما میں مسلسل چھ ماہ تک چلتی رہی تھی۔ یہی فلم پاکستان کی پہلی پنجابی اور نغماتی فلم بھی تھی جس میں ان کا لکھا ہوا اور عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا پہلا پنجابی گیت "جے نئیں سی پیار نبھانا ، سانوں دس جا کوئی ٹھکانا۔۔" بڑا مقبول ہوا تھا۔ بابا عالم نے اس فلم کے مکالمے بھی لکھے تھے اور اداکاری بھی کی تھی۔
ان کی دیگر یادگار فلموں میں لارے (1950) ، شہری بابو (1953) ، ہیر ، پتن (1955) ، دلابھٹی ، چن ماہی (1956) ، زلفاں (1957) ، جٹی ، مکھڑا (1958) ، ناجی (1959) ، چوڑیاں ، تیس مارخان (1963) ، ماماجی ، پانی ، بھرجائی (1964) ، ہیر سیال (1965) ، راوی پار ، میرا ویر ، جانی دشمن (1967) ، پنج دریا (1968) اور ناجو (1969) تھیں۔ ان کی آخری فلم مان جوانی دا (1976) تھی جو ان کے انتقال کے چھ سال بعد ریلیز ہوئی تھی۔
بابا عالم سیاہ پوش اور مسعودرانا کا ساتھ
بابا عالم سیاہ پوش کا مسعودرانا کے ساتھ پہلا سنگم فلم بھرجائی (1964) میں ہوا تھا جس میں انھوں نے پہلا تھیم سانگ لکھا تھا:
یہ گیت اپنی دھن اور گائیکی میں جہاں لاجواب ہے وہاں اس کی شاعری بھی بڑے کمال کی تھی جو فلم کی صورتحال کی بھر پور عکاسی کرتی تھی۔ اس گیت کے ہر انترے کے بعد "گل مک گئی۔۔" کی تکرار سننے والوں پر بڑا گہرا اثر کرتی تھی۔ اسی گیت کی استھائی سے پہلے جو چند الفاظ کا مکھڑا تھا ، وہ بھی کیا کمال کا تھا:
- اُڈ گئے ہنس نمانے ہو کے ، کانواں ملیا ڈیرا ، سنجھی نگری ، سنجھیاں گلیاں ، سنجھا ہو گیا ویہڑا۔۔
یہ ایک شعر جو فلم کی کہانی کے لیے لکھا گیا تھا ، پاکستان کی پوری تاریخ بھی بیان کرتا ہے۔
ایسا ہی ایک بامقصد تھیم سانگ فلم تابعدار (1966) میں بابا عالم سیاہ پوش نے مسعودرانا کے لیے لکھا تھا جس کی دھن رحمان ورما نے بنائی تھی جو بابا چشتی کے شاگرد تھے:
ایسے بامقصد اور پر اثر گیت سن کر ہی مجھے ، بچپن ہی سے مسعودرانا کے گیتوں سے گہری عقیدت پیدا ہو گئی تھی جو اس فقید المثل خراج تحسین کی بنیادی وجہ بھی ہے۔
فلم راوی پار (1967) میں ایک بار پھر بابا عالم نے مسعودرانا کے لیے تین گیت لکھے تھے جن میں مالا کے ساتھ گایا ہوا یہ رومانٹک گیت دل کے تار چھیڑ دیتا ہے اور اسے بار بار سننے کو جی چاہتا ہے ، کچھ گیت کے بول ، اوپر سے بابا چشتی کی لاجواب دھن اور پھر دلکش آوازیں ، سونے پہ سہاگہ۔!
فلم جانی دشمن (1967) میں بابا عالم سیاہ پوش کا لکھا ہوا اوربابا چشتی کی دھن میں گایا ہوا ایک ماہیا جو مالا المیہ موڈ میں اور مسعودرانا طربیہ موڈ میں گاتے ہیں اور فلم میں نغمہ اور سدھیر پر فلمایا جاتا ہے ، کیا کمال کا گیت تھا:
اسی فلم میں اس وقت کا ایک سپر ڈپر ہٹ گیت بھی تھا جسے میڈم نورجہاں نے گایا تھا "میں چھج پتاسے ونڈاں ، اج قیدی کر لیا ماہی نوں۔۔" اس گیت کے ایک انترے میں یہ بول سننے والے کو انتہائی محظوظ کرتے ہیں " میں آں محرم ، تو ایں مجرم ، دفعہ میں کہیڑی لاواں ، جی کردا اے عمر قید دا ، تینوں حکم سناواں۔۔"
پتاسوں سے یاد آیا کہ کبھی یہ شادی و بیاہ یا خوشی کے موقع کی سب سے بڑی سوغات ہوتی تھی اور اس کے ساتھ دیگر دیسی سویٹس بھی یاد آنے لگتی ہیں جن میں پھلیاں ، نغدیاں ، مخانے ، دال سویاں ، مرونڈا ، سونف ، چھولے اور نجانے کیا کیا ہوتا تھا۔۔!
بطور نغمہ نگار بابا عالم سیاہ پوش کے کریڈٹ پر بدلہ (1968) جیسی بہت بڑی نغماتی فلم بھی تھی جس کا تھیم سانگ:
مسعودرانا کے ٹاپ ٹین سپر ڈپر فلمی گیتوں میں سے ایک تھا جو اکثر ریڈیو پر گونجتا تھا اور جس پر مسعودرانا کی خاص طور پر انتہائی جاندار اور خبردار قسم کی آواز کی بے حد تعریف ہو تی تھی۔ اسی فلم میں بابا عالم کے میڈم نورجہاں کے لیے یہ دو سدابہار سپر ہٹ گیت بھی تھے "چٹی گھوڑی تے کاٹھی تلے دار نی سیو۔۔" اور "مٹھی پے گئی چن تاریاں دی لوہ ، تو اجے وی نہ آیوں سجناں۔۔"
بابا عالم سیاہ پوش ، پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل
بابا عالم سیاہ پوش ، پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے اور پنجابی زبان پر مکمل عبور رکھتے تھے ، اسی لیے ان کے گیتوں میں کئی ایسی باتیں ہوتی تھیں جو مجھ جیسے تاریخ کے طالبعلم کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتی تھیں ، جیسا کہ فلم میلہ (1968) میں مسعودرانا اور آئرن پروین کا یہ گیت:
دھیلے کا سکہ
اس گیت میں پیسوں کے ساتھ دھیلوں کا ذکر بھی ہوا ہے حالانکہ دھیلے کا سکہ ، قیام پاکستان سے کافی پہلے ختم ہو چکا تھا۔ پاکستان میں یکم جنوری 1961ء تک ایک روپیہ ، آدھا روپیہ یا اٹھنی یا آٹھ آنہ ، پاؤ روپیہ یا چونی یا چار آنہ ، دو آنہ یا دونی ، ایک آنہ یا اکنی ، آدھا آنہ یا دو پیسے (جسے ٹکا بھی کہتے تھے) ، ایک پیسہ اور ایک پائی کے سکے ہوتے تھے لیکن دھیلہ ، دمڑی ، کوڑی اور پھوٹی کوڑی جیسے متروک سکوں کا ذکر ہماری روزمرہ بول چال اور زبان و ادب کا حصہ رہا ہے۔
0 اردو گیت ... 12 پنجابی گیت