Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


سلیم رضا

سلیم رضا
سلیم رضا
پاکستان کی اردو فلموں کے
پہلے عظیم گلوکار تھے
سلیم رضا

سلیم رضا ، پاکستان کی اردو فلموں کے پہلے عظیم گلوکار تھے جنھیں ایک ایسے وقت میں فلمی گائیکی پر اجارہ داری حاصل تھی جب پاکستان میں عنایت حسین بھٹی ، مہدی حسن ، احمدرشدی اور منیر حسین جیسے بڑے بڑے نام موجود تھے۔ ایک دھائی تک عروج پر رہنے والے سلیم رضا کے لیے مسعودرانا کا عروج ، زوال کا باعث بن گیا تھا۔۔!

سلیم رضا کے زوال کی وجہ ، مسعودرانا تھے!

سلیم رضا اور مسعودرانا کا ساتھ اکلوتی فلم معجزہ (1966) میں ہوا تھا جس میں ان کے تین مشترکہ گیت تھے۔ ان میں ایک ملی ترانہ "اے وطن ، اسلام کی امید گاہ آخری ، تجھ پر سلام۔۔" ، ایک رزمیہ ترانہ "توحید کے متوالو ، باطل کو مٹا دیں گے، یہ آج قسم کھا لو۔۔" اور ایک قوالی تھی "داتا میرے ، جھولی بھر دے ، میں سوالی تیرے در کا۔۔"

فلمی گیتوں پر تحقیق کرتے ہوئے یہ قوالی اکثر بڑی توجہ اور انہماک سے سنا کرتا تھا۔ خاص طور پر جب ایک ہی جملے کو دونوں گلوکار باری باری گاتے تھے تو ان کی گائیکی اور آواز کے فرق ، میعار اور اتار چڑھاؤ کو بڑی شدت سے محسوس کیا کرتا تھا۔

سلیم رضا جن الفاظ کو بڑے سپاٹ لہجے میں گاتے ہیں ، مسعودرانا انھیں بڑا ڈوب کر گاتے ہیں۔ آواز کی گہرائی اور گیرائی ، میعار اور دلکشی ، الفاظ کی ادائیگی اور جذبات و تاثرات کے اظہار کی جو خوبی قدرت نے مسعودرانا کو دی تھی ، وہ سلیم رضا سمیت کسی اور گلوکار کے پاس نہیں تھی۔ ان کی یہی خوبی انھیں پاکستانی فلموں کا بلا شرکت غیرے سب سے بہترین آل راؤنڈ یا ہرفن مولا گلوکار ثابت کرتی تھی۔

جب سلیم رضا ، فلموں کی ضرورت ہوتے تھے

موسیقاروں نے سلیم رضا سے ہر طرح کے گیت گوانے کی کوشش کی تھی حالانکہ وہ ایک مخصوص آواز کے مالک تھے جو اردو فلموں میں سنجیدہ اور نیم کلاسیکل گیتوں کے لیے تو ایک بہترین آواز تھی لیکن ٹائٹل اور تھیم سانگز ، پنجابی فلموں ، اونچی سروں یا شوخ اور مزاحیہ گیتوں کے لیے موزوں نہ تھی۔

اس وقت موسیقاروں کی مجبوری ہوتی تھی کہ کوئی اور انتخاب تھا بھی نہیں۔ پچاس کے عشرہ میں عظیم گلوکار محمدرفیع کا طوطی بول رہا تھا اور ان کی آواز ایک سٹینڈرڈ مردانہ فلمی آواز کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ پاکستان کے پاس جس کا کوئی نعم البدل نہیں تھا۔ پاکستان کے سب سے سینئر گلوکار عنایت حسین بھٹی کبھی بھی ایک آئیڈیل فلمی گلوکار نہیں رہے۔ منیر حسین کی آواز ، فلمی گائیکی کے اس میعار پر پورا نہیں اترتی تھی۔ مہدی حسن ، صرف غزل اور دھیمی سروں کے گلوکار تھے جبکہ احمدرشدی شوخ اور مزاحیہ گیت ہی گا سکتے تھے۔ ایسے میں مسعودرانا جیسا ہرفن مولا گلوکار ، پاکستانی رفیع کے طور پر سامنے آیا تو موسیقاروں کا دیرینہ مسئلہ حل ہوگیا تھا اور سلیم رضا کا زوال شروع ہو گیا تھا۔

سلیم رضا کا فلمی کیرئر

سلیم رضا نے 1955ء سے 1971ء تک کے سترہ سالہ فلمی کیرئر میں کل 165 فلموں میں 299 گیت گائے تھے جن میں 144 اردوفلموں میں 269 اور 20 پنجابی فلموں میں 30 گیت تھے۔ یہ اعدادوشمار تقریباً حتمی ہیں اور کمی بیشی کی گنجائش کم ہی ہے۔

سلیم رضا کی پہلی فلم قاتل (1955) اور آخری فلم یاردیس پنجاب دے (1971) تھی۔ انھوں نے سب سے زیادہ گیت ماسٹرعنایت حسین ، رشید عطرے اور بابا چشتی کی دھنوں میں گائے تھے۔ سب سے زیادہ گیت تنویر نقوی اور قتیل شفائی نے لکھے تھے جب کہ سب سے زیادہ دوگانے زبیدہ خانم اور کوثرپروین کے ساتھ تھے۔ سلیم رضا کے سب سے زیادہ گیت سنتوش اور درپن پر فلمائے گئے تھے۔

سلیم رضا کی پہلی فلم

1954ء میں سلیم رضا ، ایک نجی محفل میں گا رہے تھے کہ ایک ریڈیو آفیسر کی نظر ان پر پڑ گئی تھی۔ ریڈیو پاکستان لاہور پر انھیں چھ ماہ تک گانے کا موقع ملا تو فلمی موسیقاروں کی نظر میں آگئے تھے۔ روایت ہے کہ بابا چشتی نے ان سے پہلا گیت فلم نوکر (1955) میں ریکارڈ کیا تھا "تقدیر کے مالک ، دیکھ ذرا ، کیا دنیا ظلم کرتی ہے۔۔" لیکن ریلیز کے اعتبار سے ان کی پہلی فلم قاتل (1955) تھی جس میں ماسٹر عنایت حسین کی دھن میں یہ گیت تھا "آتے ہو یاد بار بار ، کیسے بھلائیں تمہیں۔۔" یہ گیت سنتوش کمار پر فلمایا گیا تھا۔ اپنے پہلے ہی سال میں انھوں نے چار فلموں میں پانچ گیت گائے تھے لیکن کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا۔

سلیم رضا کا پہلا ہٹ گیت

1956ء میں سلیم رضا کی 10 فلموں میں 20 گیت تھے جن میں ان کی پہلی پنجابی فلم چن ماہی (1956) بھی تھی۔ اس فلم میں رشید عطرے کی موسیقی میں زبیدہ خانم کے ساتھ گایا ہوا یہ دوگانا بڑا پسند کیا گیا تھا "ساڈے انگ انگ چہ پیار نے پینگاں پایاں نیں۔۔" یہ گیت بہار اور اسلم پرویز پر فلمایا گیا تھا۔

اسی سال کی فلم حاتم (1956) میں ان کا پہلا سولو ہٹ گیت "تیرے محلوں کی چھاؤں میں۔۔" پسند کیا گیا تھا۔ فلم چھوٹی بیگم (1956) میں کوثرپروین کے ساتھ یہ مزاحیہ دوگانا بھی بڑا مقبول ہوا تھا "ہم بھی راضی تم بھی راضی ، کرلے جو کرتا ہے قاضی۔۔"

اسی سال کراچی میں بننے والی فلم انوکھی (1956) میں احمدرشدی اور فلم کنواری بیوہ (1956) سے مہدی حسن نے اپنے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔

سلیم رضا کے عروج کا دور

1957ء کا سال سلیم رضا کے لیے انتہائی عروج کا سال تھا جب ان کی گائی ہوئی یہ سدا بہار نعت "شاہ مدینہ ﷺ۔۔" پاکستان کی تاریخ کی سب سے مقبول ترین فلمی نعت ثابت ہوئی جسے جتنا بھی سنیں ، اتنا ہی لطف آتا ہے اور انسان وجد کی کیفیت میں آجاتا ہے۔ موسیقار حسن لطیف نے فلم نوراسلام (1957) کے لیے ایک باکمال اور لازوال دھن ترتیب دی تھی۔

اسی سال فلم سات لاکھ (1957) میں اس گیت نے سلیم رضا کی شہرت کو چار چاند لگا دیے تھے "یارو ، مجھے معاف رکھو ، میں نشے میں ہوں۔۔"

فلم بیداری (1957) کے ترانے "آؤ بچو سیر کرائیں ، تم کو پاکستان کی۔۔" اور "ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے۔۔" گا کر انھوں نے اپنے آل راؤنڈ ہونے کا ثبوت دیا تھا۔

13 فلموں میں گائے ہوئے 21 گیتوں میں سے "کر ساری خطائیں معاف میری۔۔" (داتا) ، "بے درد زمانے والوں نے کب درد کسی کا جانا ہے۔۔" (آس پاس) ، "اداس ہے دل ، نظر پریشان ، چلے بھی آؤ۔۔" ، "چاند تکے چھپ چھپ کے اونچی کھجور سے۔۔" (عشق لیلیٰ) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

اسی سال فلم یکے والی (1957) سے منیر حسین کی آمد ہوئی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے مقبول ترین گلوکار بن گئے تھے۔ اسی سال عنایت حسین بھٹی کی سب سے بڑی اردو فلم عشق لیلیٰٰ (1956) میں ان کے متعدد گیت سپر ہٹ ہوئے تھے جن میں "محبت کا جنازہ جا رہا ہے۔۔" ایک امر سنگیت میں شامل ہے۔

1958ء میں سلیم رضا کی 10فلموں میں کل 20 گیت تھے لیکن کامیابی کا تناسب حیرت انگیز طور پر بہت کم رہا۔ صرف ایک گیت "باغوں میں بہار آئی۔۔" (حسرت) ہی مقبول ہوا تھا۔

اس سال منیر حسین کی کارکردگی زیادہ بہتر تھی اور انھوں نے اپنا سپرہٹ گیت "دلا ٹھہر جا یار دا نظارا لین دے۔۔" (مکھڑا) گایا تھا۔ پارٹ ٹائم گلوکار ظریف کا گایا ہوا گیت "برے نصیب میرے۔۔" سال کا سب سے سپرہٹ گیت تھا۔

1959ء میں سلیم رضا کے حصے میں 13 فلمیں آئی تھیں جن میں ان کے کل 34 گیت تھے جو ایک سال میں سب سے زیادہ گیتوں کا ریکارڈ تھا۔ اس سال کی فلم آج کل (1959) میں انھوں نے سات گیت گائے تھے لیکن کوئی ایک بھی مقبول نہیں تھا۔ فلم شمع (1959) میں بھی ان کے پانچ گیت تھے جن میں سے یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا "اے نازنین ، تجھ سا حسین ، ہم نے کہیں دیکھا نہیں۔۔" فلم نغمہ دل (1959) کا گیت "تیر پہ تیر چلاؤ ، تمہیں ڈر کس کا ہے۔۔" اور فلم ناگن (1959) کا گیت "پل پل رنگ بدلتا میلہ۔۔" بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔

جب سلیم رضا کا گیت عنایت حسین بھٹی پر فلمایا گیا۔۔!

اس سال کی خاص بات یہ تھی کہ فلم کرتار سنگھ (1959) میں سلیم رضا نے عنایت حسین بھٹی کے لیے پلے بیک دیا تھا جو ایک عجیب سی بات تھی۔ اس فلم میں ان دونوں نے ایک دوگانا بھی گایا تھا "اج مک گئی اے غماں والی شام ، تینوں ساڈا پہلا سلام۔۔"

1960ء کا سال سلیم رضا کے لیے 16 فلموں میں 30 گیت لایا تھا۔ ان میں فلم ہمسفر (1960) کا یہ گیت "زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ۔۔" سال کا سب سے مقبول ترین گیت تھا۔ اس کے علاوہ فلم رہگذر (1960) میں "تجھے پیار آئے کسی پہ کب۔۔" ، فلم سہیلی (1960) میں "کہیں دو دل جو مل جاتے ، بگڑتا کیا زمانے کیا۔۔" ، فلم سلمیٰ (1960) میں "گھڑی گھڑی ، یوں کھڑی کھڑی کیا دیکھ رہی ہے تو۔۔" جیسے گیت بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔

1961ء میں 13 فلموں میں 26 گیت ، سلیم رضا کے کریڈٹ پر تھے جن میں فلم دوراستے (1961) کا گیت "بنا کے میرا نشیمن ، جلا دیا تو نے۔۔" ، فلم فرشتہ (1961) کے گیت "زمانہ کس قدر نامہربان ہے۔۔" اور "وہ زمانہ بھی ضرور آئے گا۔۔" ، فلم گلفام (1961) میں "یہ ناز ، یہ انداز ، یہ جادو ، یہ ادائیں۔۔" فلم ہابو (1961) میں "جھٹک کے دامن ، چلی ہو تن کے۔۔" اور فلم آنچل (1961) میں "تجھ کو معلوم نہیں ، تجھ کو بھلا کیا معلوم۔۔" بڑے مقبول گیت تھے۔

اسی سال احمدرشدی نے کئی برسوں کی جدوجہد کے بعد فلم سپیرن (1961) میں اپنا پہلا ہٹ گیت "چاند سا مکھڑا ، گورا بدن۔۔" گایا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ گیت پہلے سلیم رضا کی آواز میں ریکارڈ ہوا تھا لیکن موسیقار خلیل احمد مطمئن نہیں تھے اور پھر انھوں نے یہ گیت احمدرشدی سے گوایا تھا۔

سلیم رضا کے انتہائی عروج کا دور

1962ء کا سال سلیم رضا کے انتہائی عروج کا سال تھا جب ان کی 18 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں انھوں نے 31 گیت گائے تھے۔ اس سال انھوں نے منیر حسین اور ساتھیوں کے ساتھ اے حمید کی دھن میں فلم اولاد (1962) کی یہ مشہور زمانہ قوالی گائی تھی "لا الہ الا اللہ ، فرما دیا کملی والے ﷺ نے۔۔" یہ اسوقت تک کی سب سے مشہور فلمی قوالی تھی۔

اس سال فلم عذرا (1962) میں یہ شاہکار گیت "جان بہاراں ، رشک چمن ، غنچہ دہن ، سیمیں بدن۔۔" ماسٹر عنایت حسین نے کمپوز کیا تھا۔ فلم برسات میں (1962) میں سلیم رضا نے "زندگی ، مجبور ہے لاچار ہے ، سانس بھی لینا یہاں دشوار ہے۔۔" جیسے لاجواب گیت کے علاوہ پہلی بار احمدرشدی کے ساتھ ایک کورس گیت گایا تھا "دما دم دھوم مچانا۔۔" جس میں سلیم رضا نے سنجیدہ اور احمدرشدی نے مزاحیہ حصہ گایا تھا۔ فلم دروازہ (1962) میں "جواب دے ، غریب دل کی محبت پکارتی ہے تجھے۔۔" ، فلم موسیقار (1962) میں "تم جگ جگ جیو مہاراج رے۔۔" اور "اس شہر خرابی میں ، غم عشق کے مارے۔۔" ، فلم قیدی (1962) میں "میرے دل کی انجمن میں ، تیرے غم سے روشنی ہے۔۔" بڑے مقبول گیت تھے۔

اسی سال احمدرشدی کو فلم مہتاب (1962) کے گیت "گول گپے والا آیا۔۔" سے بریک تھرو ملا تھا۔ مہدی حسن کو فلم سسرال (1962) کے گیت "جس نے میرے دل کو درد دیا۔۔" نے پہچان دی تھی جبکہ فلم انقلاب (1962) میں مسعودرانا متعارف ہوئے تھے جن کا پہلا گیت تھا "مشرق کی تاریک فضا سے نیا سویرا پھوٹا ہے۔۔"

1963ء میں سلیم رضا کی فلموں کی تعداد 15 تھی جن میں کل 32 گیت گائے تھے۔ اس سال کا سب سے سپرہٹ گیت "اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں۔۔" تھا جو فلم اک تیرا سہارا (1963) میں تھا۔ اسی فلم میں یہ دوگانا "بادلوں میں چھپ رہا ہے چاند کیوں۔۔" بھی سپرہٹ تھا۔ دیگر گیتوں میں "صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں۔۔" (باجی) ، "آجا ، دل گبھرائے۔۔" (فانوس) ، "جب سے دیکھا ہے تمہیں۔۔" (جب سے دیکھا ہے تمہیں) ، "اے میری جان غزل ، کیوں نہ تیری چاہت کروں۔۔" ، "بھول جاؤ گے تم ، کر کے وعدہ صنم۔۔" اور "شام غم پھر آگئی ، پھر اداسی چھا گئی۔۔" (سیما) وغیرہ قابل ذکر تھے۔

اسی سال کی فلم موج میلہ (1963) میں سلیم رضا نے احمدرشدی کے ساتھ ایک مزاحیہ گیت "ہٹے رو ، ڈٹے رو۔۔" گایا تھا جو یہ ثابت کرتا تھا کہ وہ سنجیدہ گیتوں کے تو لاجواب گلوکار تھے لیکن ان کی آواز مزاحیہ گیتوں کے لیے موزوں نہیں تھی۔ اسی فلم کا تھیم سانگ "ربا کی سوچ کے بنایا ای دل ماں دا۔۔" سن کر مسعودرانا کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ ٹائٹل اور تھیم سانگ گانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی تھی۔

1964ء میں سلیم رضا نے 16 فلموں میں نغمہ سرائی کی تھی اور گیتوں کی کل تعداد 24 تھی جن میں فلم توبہ (1964) کی قوالی "نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا ، ہم کہاں جاتے۔۔" پاکستان کی فلمی تاریخ کی مقبول ترین فلمی قوالی تھی جسے اے حمید کی موسیقی میں سلیم رضا کے ساتھ منیر حسین اور ساتھیوں نے گایا تھا۔

جب سلیم رضا کا گیت احمدرشدی پر فلمایا گیا۔۔!

اس سال کا ایک بڑا دلچسپ واقعہ فلم جھلک (1964) میں سامنے آیا تھا جب سلیم رضا کا گایا ہوا ایک کلاسیکل گیت "من مندر میں لے انگڑائی۔۔" کسی اور پر نہیں ، گلوکار احمدرشدی پر فلمایا گیا تھا جو اس فلم میں اداکاری کررہے تھے۔ رشدی صاحب چونکہ صرف ہلکے پھلکے گیت ہی گا سکتے تھے ، اس لیے موسیقار خلیل احمد کی مجبوری تھی کہ ایک مشکل گیت سلیم رضا سے گوائیں جو اس وقت تک سب سے مقبول اور مستند فلمی گلوکار تھے۔

اس سال انھوں نے فلم آزاد (1964) میں رشید عطرے کی موسیقی میں ایک گیت "تم پوچھتے ہو ، کیا تم سے کہوں ، میں کس لیے پیتا ہوں۔۔" اسی گیت کو اسی دھن میں چند بول بدل کر مہدی حسن سے فلم بہشت (1974) میں گوایا گیا تھا جو بلا شبہ سلیم رضا کے گائے ہوئے گیت سے بدرجہا بہتر تھا۔ مہدی حسن کو اسی سال کی فلم فرنگی (1964) کی مشہور زمانہ غزل "گلوں میں رنگ بھرے۔۔" سے بریک تھرو ملا تھا۔

اس سال سلیم رضا کا فلم مہ خانہ (1964) کے دو گیتوں میں سے "آنکھوں کا ایک جام نظر سے پلا مجھے۔۔" کے علاوہ "جان کہہ کر جو بلایا تو برا مان گئے۔۔" محمدرفیع کی آواز میں بھی ہے۔ اسی سال مسعودرانا کو فلم ڈاچی (1964) کے سپرہٹ گیت "ٹانگے والا خیر منگدا۔۔" سے بریک تھرو ملا تھا۔

سلیم رضا نے پہلا جنگی ترانہ گایا تھا

1965ء کا سال سلیم رضا کے لیے 11 فلمیں لے کر آیا تھا جس میں انھوں نے کل 26 گیت گائے تھے۔ ان کے مقبول عام گیتوں کا تناسب بہت کم ہوگیا تھا۔ فلم شبنم (1965) کا یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا "جو کسی کے قریب ہوتے ہیں ، وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں۔۔" فلم دیوداس (165) کا یہ گیت بھی بڑا پیارا تھا "تسکین تو دے جاتے ، آرام تو مل جاتا۔۔" اسی سال کی فلم عظمت اسلام (1965) میں سلیم رضا کے آٹھ گیت تھے لیکن کوئی ایک بھی گیت مقبول نہ ہو سکا تھا اور جو گیت مقبول ہوا "حرم کی عظمت کے پاسبانوں ، خدا نگہبان ہے تمہارا۔۔" وہ ، مسعودرانا کا گایا ہوا تھا۔

اس سال پاک بھارت جنگ کی وجہ سے سلیم رضا نے بھی بڑی تعداد میں جنگی ترانے بھی گائے تھے۔ ریڈیو پاکستان لاہور سے جو پہلا ترانہ گونجا تھا وہ سلیم رضا اور ساتھیوں کا گایا ہوا تھا "ہمارے پاک وطن کی شان ، ہمارے شیر دلیر جوان۔۔"

سلیم رضا کے آخری ہٹ گیت

1966ء میں سلیم رضا زوال پذیر ہو رہے تھے۔ اس سال ان کی 8 فلموں میں صرف 15 گیت تھے۔ فلم پائل کی جھنکار (1966) میں سلیم رضا کے یہ دو آخری سپرہٹ گیت تھے "حسن کو چاند ، جوانی کو کنول کہتے ہیں۔۔" اور "ہم نے تو تمہیں دل دے ہی دیا ، اب تم یہ بتاؤ کیا دو گے۔۔" فلم انسان (1966) میں رشید عطرے کی موسیقی میں یہ گیت بھی بڑا مقبول تھا "ایک ہمیں آوارہ کہنا ، کوئی بڑا الزام نہیں۔۔" لیکن اس گیت کو رحمان ورما کی موسیقی میں مالا ، فلم قبیلہ (1966) کے لیے گا چکی تھی۔ ان کے علاوہ فلم معجزہ (1966) میں آخری بار سلیم رضا نے پانچ گیت گائے تھے جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔

پاکستانی فلموں میں انقلابی تبدیلی

1967ء میں پاکستانی اردو فلموں میں ایک بہت بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی تھی جب ماضی کے بڑے فلمی ہیروز سدھیر ، سنتوش ، درپن ، اعجاز اور حبیب کی جگہ محمدعلی ، وحیدمراد اور ندیم نے لے لی تھی اور ان پر احمدرشدی اور مہدی حسن کے گیتوں کو زیادہ مقبولیت ملتی تھی۔ مسعودرانا سے اردو فلموں میں وہ گیت گوایا جاتا تھا جو کوئی دوسرا نہیں گا سکتا تھا اور جو عام طور پر ٹائٹل اور تھیم سانگ ہوتا تھا۔ ایسے گیتوں کی اردو فلم بینوں میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی جو صرف رومانٹک گیتوں کے رسیا تھے۔ سلیم رضا کو بھی نظر انداز کیا جانے لگا تھا جن کی آواز ان فلمی ہیروز پر سوٹ نہیں کرتی تھی۔ پنجابی فلموں میں مردانہ گیتوں کا تناسب کم ہوتا تھا اور جو گیت ہوتے تھے ، ان کے لیے موسیقاروں کا پہلا انتخاب ، مسعودرانا ہوتے تھے جو میڈم نورجہاں کی طرح ایک سٹینڈرڈ آواز بن چکے تھے۔

اس سال سلیم رضا کی 11 گیتوں سے مزین 9 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ ان میں پنجابی فلم لٹ دا مال (1967) کا یہ دوگانا بڑے کمال کا تھا "دلا میریا ، کسے دے نال پیار نہ کریں ، بیٹھا روویں گا ، کسے دا اعتبار نہ کریں۔۔" فلم دیوربھابھی (1967) کا یہ دوگانا بھی بڑے کمال کا تھا "نہ آیا آج بھی تو ، کیا یہ بے رخی کم ہے۔۔" یہ دونوں دوگانے مالا کے ساتھ تھے۔

سلیم رضا کا پہلا اور آخری گیت بابا چشتی نے کمپوز کیا تھا

1968ء کا سال ، سلیم رضا کے مکمل زوال کا سال تھا جب ان کے صرف 3 فلموں میں 3 ہی گیت تھے اور کوئی ایک بھی مقبول نہیں تھا۔ 1969ء میں وہ ایک بھولی بسری یاد بن گئے تھے اور صرف ایک فلم میں ایک ہی گیت تھا۔ 1970ء میں 2 فلموں کے 2 گیتوں میں سے پنجابی فلم دل دیاں لگیاں (1970) میں میڈم نورجہاں کے ساتھ یہ ماہیا بڑا دلکش تھا "سوہنے پیار دا چن چڑھیا۔۔" سلیم رضا کی آخری فلم یاردیس پنجاب دے (1971) تھی جس میں ان کی ایک قوالی تھی "عاشق عاشق ہر کوئی بن دا ، عشق کمانا سوکھا نئیں۔۔" اس میں ان کے ساتھ منیر حسین ، آئرن پروین اور ساتھی تھے۔ کیسا عجب اتفاق ہے کہ ان کے پہلے گیت کی طرح ان کا آخری فلمی گیت بھی بابا جی اے چشتی نے کمپوز کیا تھا۔۔!

سلیم رضا ، زوال کے بعد

بطور گلوکار فلموں میں زوال کے بعد سلیم رضا صاحب کچھ عرصہ تک ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہے تھے۔ اس دوران انھوں نے ایک فلم انداز کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی لیکن وہ فلم مکمل ہونے کے باوجود کبھی ریلیز نہ ہو سکی۔ انھوں نے مشہور مزاحیہ اداکار اے شاہ شکارپوری کی ایک غیر ریلیز شدہ فلم منشی سب رنگ میں انھی کی شاعری اور بخشی وزیر صاحبان کی زبردست دھن میں ایک انتہائی دلگداز پنجابی غزل گائی تھی "محبت وچ خوشی ہووے ، نہ ہووے غم تے کی ہووے۔۔" پہلی بار جب میں نے یہ غزل سنی تھی تو بس سنتا ہی چلا گیا تھا۔۔!

سلیم رضا کا اصل نام نوئیل ڈیاس تھا اور وہ 1932ء میں امرتسر میں ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ستر کے عشرہ کے وسط میں وہ ہمیشہ کے لیے پاکستان کو خیرآباد کہہ کر کینیڈا چلے گئے تھے جہاں 1983ء میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں دفن ہیں۔

مسعودرانا اور سلیم رضا کے 3 فلمی گیت

3 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت
1

داتا میرے ، جھولی بھر دے ، میں سوالی تیرے در کا..

فلم ... معجزہ ... اردو ... (1966) ... گلوکار: سلیم رضا ، مسعود رانا ،؟ ، سائیں اختر مع ساتھی ... موسیقی: اختر حسین اکھیاں ... شاعر: ساحل فارانی ... اداکار: سائیں اختر مع ساتھی
2

اے وطن ، اسلام کی امید گاہ آخری ، تجھ پر سلام..

فلم ... معجزہ ... اردو ... (1966) ... گلوکار: سلیم رضا ، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: اختر حسین اکھیاں ... شاعر: منیر نیازی ... اداکار: (پس پردہ)
3

توحید کے متوالو ، باطل کو مٹا دیں گے، یہ آج قسم کھا لو..

فلم ... معجزہ ... اردو ... (1966) ... گلوکار: سلیم رضا ، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: اختر حسین اکھیاں ... شاعر: ساحل فارانی ... اداکار: ؟؟

مسعودرانا اور سلیم رضا کے 3 اردو گیت

1

داتا میرے ، جھولی بھر دے ، میں سوالی تیرے در کا ...

(فلم ... معجزہ ... 1966)
2

اے وطن ، اسلام کی امید گاہ آخری ، تجھ پر سلام ...

(فلم ... معجزہ ... 1966)
3

توحید کے متوالو ، باطل کو مٹا دیں گے، یہ آج قسم کھا لو ...

(فلم ... معجزہ ... 1966)

مسعودرانا اور سلیم رضا کے 0 پنجابی گیت


Masood Rana & Saleem Raza: Latest Online film

Masood Rana & Saleem Raza: Film posters
Jab Say Dekha Hay TumhenShikvaDachiAzadAzmat-e-IslamMoajzaAag Ka DaryaYaaran Naal BaharanLut Da MaalNeeli BarLahu Pukaray GaSharik-e-Hayyat
Masood Rana & Saleem Raza:

0 joint Online films

(0 Urdu and 0 Punjabi films)

Masood Rana & Saleem Raza:

Total 14 joint films

(8 Urdu, 6 Punjabi, 0 Pashto, 0 Sindhi films)

1.1963: Jab Say Dekha Hay Tumhen
(Urdu)
2.1963: Shikva
(Urdu)
3.1964: Dachi
(Punjabi)
4.1964: Azad
(Urdu)
5.1965: Azmat-e-Islam
(Urdu)
6.1966: Moajza
(Urdu)
7.1966: Aag Ka Darya
(Urdu)
8.1967: Yaaran Naal Baharan
(Punjabi)
9.1967: Lut Da Maal
(Punjabi)
10.1967: Neeli Bar
(Punjabi)
11.1967: Lahu Pukaray Ga
(Urdu)
12.1968: Sharik-e-Hayyat
(Urdu)
13.1970: Dil Dian Lagian
(Punjabi)
14.Unreleased: Munshi Sabrang
(Punjabi)


Masood Rana & Saleem Raza: 3 songs

(3 Urdu and 0 Punjabi songs)

1.
Urdu film
Moajza
from Friday, 25 February 1966
Singer(s): Saleem Raza, Masood Rana & Co., Music: Akhtar Hussain Akhian, Poet: Munir Niazi, Actor(s): (Playback)
2.
Urdu film
Moajza
from Friday, 25 February 1966
Singer(s): Saleem Raza, Masood Rana, ?, Sain Akhtar & Co., Music: Akhtar Hussain Akhian, Poet: Sahil Farani, Actor(s): Sain Akhtar & Co.
3.
Urdu film
Moajza
from Friday, 25 February 1966
Singer(s): Saleem Raza, Masood Rana & Co., Music: Akhtar Hussain Akhian, Poet: Sahil Farani, Actor(s): ??


Jeb Kutra
Jeb Kutra
(1973)
Pardesan
Pardesan
(1959)
Dosti
Dosti
(1971)
Lottery
Lottery
(1974)
Dehleez
Dehleez
(1983)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.