ہدایتکار ایس اے بخاری نے ڈیڑھ درجن سے زائد فلمیں بنائی تھیں جن میں متعدد بہت بڑی اور یادگار فلمیں تھیں۔۔!
کسی بھی فلم ڈائریکٹر کی
سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ
اس کی فلم کے مناظر فلم بینوں کے ذہنوں پر نقش ہو جائیں
ایس اے بخاری کی بطور ہدایتکار پہلی فلم سیما (1963) تھی جس کا ٹائٹل رول شمیم آراء نے کیا تھا جبکہ روایتی ہیرو سنتوش کمار تھے۔ اس فلم میں ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں سلیم رضا کے یہ دو گیت بڑے مقبول ہوئے تھے "بھول جاؤ گے تم ، کر کے وعدہ صنم۔۔" اور "شام غم پھر آگئی ، پھر اداسی چھا گئی۔۔" ان کی دوسری فلم لنڈا بازار (1964) میں پہلی بار مسعودرانا کے ساتھ ایک ٹائٹل اور تھیم سانگ تھا "گئے دنوں کی یاد دلائے یہ لنڈا بازار ، اونچا اڑنے کی خاطر یہاں پہنیں لوگ اتار۔۔" یہ فلم اداکار اسد بخاری کی بطور فلمساز پہلی فلم تھی جس کا ری میک انہوں نے فلم اج دی گل (1975) کی صورت میں بنایا تھا۔
پہلی دو فلموں کی ناکامی کے بعد ان کی پہلی کامیاب فلم گناہ گار (1967) تھی جس میں انہوں نے فلم کے ہیرو حبیب کو ولن کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس فلم میں رشید عطرے کی موسیقی میں منیر حسین کے یہ دو گیت بڑے پسند کئے گئے تھے "ہم نے تو پیار کیا ہے۔۔" اور "مجھے تصویر بنانی ہے۔۔" اس آخری گیت کی فلمبندی بڑے کمال کی تھی جب حبیب ، جو ایک بھارتی جاسوس ہے اور اپنی محبوبہ سلونی کی تصاویر بنانے کے بہانے پاکستان کے حساس علاقوں کی تصاویر اتارتا ہے تو کیمرہ کس طرح اس پر فوکس کرتا ہے ، لاجواب تھا۔۔!
ایک ہدایتکار کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ اس کی فلم کے مناظر فلم بینوں کے ذہنوں پر نقش ہو جائیں۔ ایس اے بخاری کو اس میں کمال حاصل تھا۔ ان کی ایک فلم پگڑی سنبھال جٹا (1968) ایسی ہی ایک فلم تھی۔ سدھیر اس دور کے ایکشن فلموں کے بے تاج بادشاہ ہوتے تھے اور ان کی فلموں کی کامیابی کا تناسب دیگر فلمی ہیروز کے مقابلے میں زیادہ ہوتا تھا۔ میرا اپنا تعلق اس محدود طبقہ سے رہا ہے کہ جسے زندگی بھر کبھی ایکشن فلموں سے دلچسپی نہیں رہی لیکن کئی ایک فلموں سے اہم اور متاثر کن مناظر ہمیشہ یاد رہتے تھے۔ اس فلم میں موسیقار طفیل فاروقی کی دھنوں میں میڈم نورجہاں کا سپر ہٹ گیت "ربا ایدے نالوں موت سہالی ، وچھوڑا مکے سجناں دا۔۔" اور نذیر بیگم اور مالا گا دوگانا "چن چن دے سامنے آگیا ، میں دوواں توں صدقے جاں ، سوہنیو عید مبارک۔۔" ہمیشہ یاد رہے۔اس فلم کا وہ منظر تو کبھی نہیں بھلا سکا جس میں اداکار کٹھانا ، عید کا چاند دیکھ کر دعا مانگتا ہے کہ "یااللہ ، ایمان دے۔۔" اس کے ساتھ کھڑا رنگیلا بھی دعا مانگتا ہے "یا اللہ ، مال دے۔۔" وہ اسے ٹوکتا ہے کہ اللہ سے مال نہیں ایمان مانگتے ہیں۔ رنگیلا کا برجستہ جواب ہوتا ہے "تیرے پاس ایمان کی کمی ہے ، تو وہ مانگ ، میرے پاس مال کی کمی ہے ، میں وہ مانگتا ہوں۔۔" ایسے جملوں میں بعض اوقات دریا کو کوزے میں بند کردیا جاتا ہے۔
1969ء کا سال ہدایتکار ایس اے بخاری کے لئے بڑا یادگار تھا جب ان کی دونوں فلمیں دلاں دے سودے اور شیراں دے پتر شیر سپر ہٹ ہوئی تھیں۔ دونوں مختلف المزاج فلمیں تھیں۔ خاص طور پر دلاں دے سودے (1969) ایک شاہکار رومانٹک اور میوزیکل فلم تھی جس میں میڈم نورجہاں کی دھمال "لال میری پت رکھیو بلا جھولے لالن۔۔" مقبولیت کی ایک نئی تاریخ رقم کر گئی تھی۔ پنجابی فلموں کی دو بڑی سپرسٹار ہیروئنیں ، نغمہ اور فردوس ، اس فلم میں اعجاز کے ساتھ تھیں ، ایک منگیتر اور دوسری محبوبہ۔۔ پاکستان کی پہلی سلورجوبلی اردو فلم دو آنسو (1950) کی کہانی پر بنائی گئی یہ فلم تھی جسے معمولی تبدیلیوں کے بعد ہدایتکار حسن طارق نے فلم انجمن (1970) بھی بنائی تھی۔ اس فلم میں موسیقار نذیرعلی کی موسیقی میں دیگر گیت بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔ خاص طور پر مسعودرانا اور میڈم نورجہاں کا الگ الگ گایا ہوا گیت "بھل جان اے سب غم دنیا دے۔۔" کمال کا گیت تھا۔
1971ء میں ایس اے بخاری کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی اردو فلم آنسو ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں انہوں نے فردوس کو ینگ ٹو اولڈ کردار میں پیش کیا تھا۔ فردوس ، اردو فلموں کی ناکام اداکارہ تھی اور یہ اس کے فلمی کیرئر کی واحد کامیاب اردو فلم تھی۔ موسیقار نذیرعلی کی بھی یہ سب سے بڑی میوزیکل اردو فلم تھی جس کے بیشتر گیت بڑے مقبول ہوئے تھے۔ اس فلم کا سب سے مقبول ترین گیت "تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں۔۔" تھا جو واحد اردو گیت تھا جسے مسعودرانا اور میڈم نورجہاں نے الگ الگ گایا تھا۔ ان دونوں گلوکاروں کے گائے ہوئے اس گیت کو غور سے سنیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جتنی آسانی اور قدرتی انداز میں مسعودرانا گا رہے ہیں ، اتنی ہی مشکل سے پورا زور لگا کر میڈم نورجہاں گا رہی ہیں۔ اس گیت سے میری بڑی گہری یادیں وابستہ ہیں۔ ریڈیو پر جب یہ گیت بجتا تھا تو میرے دادا جان مرحوم و مغفور دھاڑیں مار مار کر روتے تھے کیونکہ انہی دنوں میرے والدصاحب بیرون ملک چلے گئے تھے۔ اس وقت جدائیاں بڑی طویل ہوتی تھیں اور دو دو ہفتوں بعد خیریت کا ایک خط آتا تھا اور حال احوال کا پتہ چلتا تھا۔ والدصاحب ، دادا جان کے چہیتے تھے اور مجھے یاد ہے کہ وہ ، ان کے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتے تھے۔ انہیں بڑی مشکل سے بیرون ملک جانے کی اجازت ملی تھی۔ جدائی کا یہ گیت نہ صرف دادا جان کو پسند تھا بلکہ جب میں بچپن میں پہلی بار ڈنمارک آیا تھا تو یہی گیت ، والدصاحب کو بھی اسی کیفیت میں سنتے ہوئے دیکھا تھا جس میں دادا جان کو دیکھ کر آیا تھا۔ مسعودرانا کی آواز میں جو سوزوگداز تھا وہ سننے والے ہر شخص کو بڑا متاثر کرتا تھا۔
ایس اے بخاری کی ایک یادگار فلم یار نبھاندے یاریاں (1972) بھی تھی جس کا ایک سین کبھی نہیں بھلا سکا۔ سدھیر کا تلخ تجربات کی وجہ سے دوستی پر اعتماد مجروح ہو چکا ہے۔ باپ (اجمل) ڈھارس بندھاتا ہے اور اپنی دوستی کی مثال دینے کے لئے آدھی رات کو اپنے دوست ایم اسماعیل کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ پتہ چلنے کے باوجود کہ دروازے پر کون ہے ، دروازہ کھلنے میں دیر ہوتی ہے تو سدھیر باپ کو طعنہ دیتا ہے کہ ایسی دوستی پر اسے مان ہے کہ دوست ، دروازہ ہی نہیں کھول رہا۔ وہ مایوس ہو کر جانے لگتے ہیں کہ دروازہ کھلتا ہے اور ایم اسماعیل ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے ہاتھ میں پیسوں کی تھیلی لئے اپنے دوست کو آواز دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ دروازے پر بے وقت دستک کی وجہ سے مجھے تیاری میں ذرا دیر ہوئی۔ اب تم بتاؤ کہ اگر تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے تو میں اپنی ساری جمع پونچی لئے حاضر ہوں ، اگر تمہیں دشمن سے مقابلہ کرنا ہے تو میری بندوق اور بازو حاضر ہیں اور پھر اپنی اوٹ میں چھپی ہوئی اپنی بیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر بیٹے کا رشتہ درکار ہے تو میری بیٹی حاضر ہے۔ سدھیر ، عش عش کر اٹھتا ہے اور اسے دوستی کی اصل شکل نظر آجاتی ہے جو اس فلم کا مرکزی خیال ہوتا ہے۔
ایس اے بخاری کی فلموں میں سے ایک یادگار فلم ہاشو خان (1974) بھی تھی جس میں اداکار ساون نے ایک غاصب و جابر حکمران کا کردار کیا تھا۔ اس فلم کے فلمساز فاضل بٹ تھے جو عام طور پر پنجابی فلموں میں دوسرے درجہ کے ولن کے طور پر نظر آتے تھے لیکن اپنی اس ذاتی فلم میں انہوں نے خود کو اداکارہ آسیہ کے مقابل ہیرو کے طور پر پیش کیا تھا۔ فلم کی کامیابی کے باوجود فلم بین انہیں ہیرو کے رول میں قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ جس طرح کے لاؤڈ مکالمے وہ بولتے تھے اس سے نہیں لگتا تھا کہ موصوف اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشے کے وکیل تھے۔ انہوں نے اپنی ڈگریوں کا ذکر اس فلم کے بھاری بھر کم فلم پوسٹر پر بھی کیا تھا۔ اس فلم کا تھیم سانگ بھی مسعودرانا کی امر آواز میں تھا جو آمروں ، غاصبوں اور جابروں کے لئے ایک نصیحت لئے ہوئے تھا:
-
رہے نام اللہ دا۔۔ اللہ ہی اللہ۔۔ ظلم نئیں اوں رہناباقی۔۔ رہنا سدا پیار۔۔ اوۓ۔۔
(5 اردو گیت ... 4 پنجابی گیت )