Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


ایس اے بخاری

کسی بھی فلم ڈائریکٹر کی
سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ
اس کی فلم کے مناظر فلم بینوں کے ذہنوں پر نقش ہو جائیں
دلاں دے سودے (1969)
ایس اے بخاری کی سپرہٹ پنجابی فلم ، دلاں دے سودے (1969)

ہدایتکار ایس اے بخاری نے ڈیڑھ درجن سے زائد فلمیں بنائی تھیں جن میں متعدد بہت بڑی اور یادگار فلمیں تھیں۔۔!

ایس اے بخاری کی بطور ہدایتکار پہلی فلم سیما (1963) تھی جس کا ٹائٹل رول شمیم آراء نے کیا تھا جبکہ روایتی ہیرو سنتوش کمار تھے۔ اس فلم میں ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں سلیم رضا کے یہ دو گیت بڑے مقبول ہوئے تھے

  • بھول جاؤ گے تم ، کر کے وعدہ صنم۔۔
  • شام غم پھر آگئی ، پھر اداسی چھا گئی۔۔

ایس اے بخاری اور مسعودرانا کا ساتھ

ان کی دوسری فلم لنڈا بازار (1964) میں پہلی بار مسعودرانا کے ساتھ ایک ٹائٹل اور تھیم سانگ تھا

  • گئے دنوں کی یاد دلائے یہ لنڈا بازار ، اونچا اڑنے کی خاطر یہاں پہنیں لوگ اتار۔۔

یہ فلم اداکار اسدبخاری کی بطور فلمساز پہلی فلم تھی جس کا ری میک انھوں نے فلم اج دی گل (1975) کی صورت میں بنایا تھا۔

پہلی دو فلموں کی ناکامی کے بعد ان کی پہلی کامیاب فلم گناہ گار (1967) تھی جس میں انھوں نے فلم کے ہیرو حبیب کو ولن کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس فلم میں رشید عطرے کی موسیقی میں منیر حسین کے یہ دو گیت بڑے پسند کیے گئے تھے

  • ہم نے تو پیار کیا ہے۔۔
  • مجھے تصویر بنانی ہے۔۔

اس آخری گیت کی فلمبندی بڑے کمال کی تھی جب حبیب ، جو ایک بھارتی جاسوس ہے اور اپنی محبوبہ سلونی کی تصاویر بنانے کے بہانے پاکستان کے حساس علاقوں کی تصاویر اتارتا ہے تو کیمرہ کس طرح اس پر فوکس کرتا ہے ، لاجواب تھا۔۔!

ایک ہدایتکار کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ اس کی فلم کے مناظر فلم بینوں کے ذہنوں پر نقش ہو جائیں۔ ایس اے بخاری کو اس میں کمال حاصل تھا۔

ایس اے بخاری کی ایک یادگار پنجابی فلم

ان کی ایک فلم پگڑی سنبھال جٹا (1968) ایسی ہی ایک فلم تھی۔ سدھیر اس دور کے ایکشن فلموں کے بے تاج بادشاہ ہوتے تھے اور ان کی فلموں کی کامیابی کا تناسب دیگر فلمی ہیروز کے مقابلے میں زیادہ ہوتا تھا۔ میرا اپنا تعلق اس محدود طبقہ سے رہا ہے کہ جسے زندگی بھر کبھی ایکشن فلموں سے دلچسپی نہیں رہی لیکن کئی ایک فلموں سے اہم اور متاثر کن مناظر ہمیشہ یاد رہتے تھے۔

اس فلم میں موسیقار طفیل فاروقی کی دھنوں میں میڈم نورجہاں کا سپر ہٹ گیت

  • ربا ایدے نالوں موت سہالی ، وچھوڑا مکے سجناں دا۔۔

اور نذیر بیگم اور مالا گا دوگانا

  • چن چن دے سامنے آگیا ، میں دوواں توں صدقے جاں ، سوہنیو عید مبارک۔۔

ہمیشہ یاد رہے۔اس فلم کا وہ منظر تو کبھی نہیں بھلا سکا جس میں اداکار کٹھانا ، عید کا چاند دیکھ کر دعا مانگتا ہے کہ "یااللہ ، ایمان دے۔۔" اس کے ساتھ کھڑا رنگیلا بھی دعا مانگتا ہے "یا اللہ ، مال دے۔۔" وہ اسے ٹوکتا ہے کہ اللہ سے مال نہیں ایمان مانگتے ہیں۔ رنگیلا کا برجستہ جواب ہوتا ہے "تیرے پاس ایمان کی کمی ہے ، تو وہ مانگ ، میرے پاس مال کی کمی ہے ، میں وہ مانگتا ہوں۔۔" ایسے جملوں میں بعض اوقات دریا کو کوزے میں بند کردیا جاتا ہے۔

لال میری پت رکھیو بلا جھولے لالن

1969ء کا سال ہدایتکار ایس اے بخاری کے لیے بڑا یادگار تھا جب ان کی دونوں فلمیں دلاں دے سودے اور شیراں دے پتر شیر سپر ہٹ ہوئی تھیں۔

دونوں مختلف المزاج فلمیں تھیں۔ خاص طور پر دلاں دے سودے (1969) ایک شاہکار رومانٹک اور میوزیکل فلم تھی جس میں میڈم نورجہاں کی دھمال

  • لال میری پت رکھیو بلا جھولے لالن۔۔

مقبولیت کی ایک نئی تاریخ رقم کر گئی تھی۔

پنجابی فلموں کی دو بڑی سپرسٹار ہیروئنیں ، نغمہ اور فردوس ، اس فلم میں اعجاز کے ساتھ تھیں ، ایک منگیتر اور دوسری محبوبہ۔۔ پاکستان کی پہلی سلورجوبلی اردو فلم دو آنسو (1950) کی کہانی پر بنائی گئی یہ فلم تھی جسے معمولی تبدیلیوں کے بعد ہدایتکار حسن طارق نے فلم انجمن (1970) بھی بنائی تھی۔

اس فلم میں موسیقار نذیرعلی کی موسیقی میں دیگر گیت بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔ خاص طور پر مسعودرانا اور میڈم نورجہاں کا الگ الگ گایا ہوا گیت

  • بھل جان اے سب غم دنیا دے۔۔

کمال کا گیت تھا۔

ایس اے بخاری کی شاہکار اردو فلم آنسو (1971)

1971ء میں ایس اے بخاری کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی اردو فلم آنسو ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں انھوں نے فردوس کو ینگ ٹو اولڈ کردار میں پیش کیا تھا۔

فردوس ، اردو فلموں کی ناکام اداکارہ تھی اور یہ اس کے فلمی کیرئر کی واحد کامیاب اردو فلم تھی۔

موسیقار نذیرعلی کی بھی یہ سب سے بڑی میوزیکل اردو فلم تھی جس کے بیشتر گیت بڑے مقبول ہوئے تھے۔ اس فلم کا سب سے مقبول ترین گیت

  • تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں۔۔

تھا جو واحد اردو گیت تھا جسے مسعودرانا اور میڈم نورجہاں نے الگ الگ گایا تھا۔

مسعودرانا اور ملکہ ترنم نورجہاں

ان دونوں گلوکاروں کے گائے ہوئے اس گیت کو غور سے سنیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جتنی آسانی اور قدرتی انداز میں مسعودرانا گا رہے ہیں ، اتنی ہی مشکل سے پورا زور لگا کر میڈم نورجہاں گا رہی ہیں۔

اس گیت سے میری بڑی گہری یادیں وابستہ ہیں۔ ریڈیو پر جب یہ گیت بجتا تھا تو میرے دادا جان مرحوم و مغفور دھاڑیں مار مار کر روتے تھے کیونکہ انھی دنوں میرے والدصاحب بیرون ملک چلے گئے تھے۔

اس وقت جدائیاں بڑی طویل ہوتی تھیں اور دو دو ہفتوں بعد خیریت کا ایک خط آتا تھا اور حال احوال کا پتہ چلتا تھا۔ والدصاحب ، دادا جان کے چہیتے تھے اور مجھے یاد ہے کہ وہ ، ان کے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتے تھے۔ انھیں بڑی مشکل سے بیرون ملک جانے کی اجازت ملی تھی۔

جدائی کا یہ گیت نہ صرف دادا جان کو پسند تھا بلکہ جب میں بچپن میں پہلی بار ڈنمارک آیا تھا تو یہی گیت ، والدصاحب کو بھی اسی کیفیت میں سنتے ہوئے دیکھا تھا جس میں دادا جان کو دیکھ کر آیا تھا۔ مسعودرانا کی آواز میں جو سوزوگداز تھا وہ سننے والے ہر شخص کو بڑا متاثر کرتا تھا۔

یاری دوستی پر ایک یادگار فلم

ایس اے بخاری کی ایک یادگار فلم یار نبھاندے یاریاں (1972) بھی تھی جس کا ایک سین کبھی نہیں بھلا سکا۔

سدھیر کا تلخ تجربات کی وجہ سے دوستی پر اعتماد مجروح ہو چکا ہے۔ باپ (اجمل) ڈھارس بندھاتا ہے اور اپنی دوستی کی مثال دینے کے لیے آدھی رات کو اپنے دوست ایم اسماعیل کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔

پتہ چلنے کے باوجود کہ دروازے پر کون ہے ، دروازہ کھلنے میں دیر ہوتی ہے تو سدھیر باپ کو طعنہ دیتا ہے کہ ایسی دوستی پر اسے مان ہے کہ دوست ، دروازہ ہی نہیں کھول رہا۔

وہ مایوس ہو کر جانے لگتے ہیں کہ دروازہ کھلتا ہے اور ایم اسماعیل ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے ہاتھ میں پیسوں کی تھیلی لیے اپنے دوست کو آواز دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ دروازے پر بے وقت دستک کی وجہ سے مجھے تیاری میں ذرا دیر ہوئی۔ اب تم بتاؤ کہ اگر تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے تو میں اپنی ساری جمع پونچی لیے حاضر ہوں ، اگر تمہیں دشمن سے مقابلہ کرنا ہے تو میری بندوق اور بازو حاضر ہیں اور پھر اپنی اوٹ میں چھپی ہوئی اپنی بیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر بیٹے کا رشتہ درکار ہے تو میری بیٹی حاضر ہے۔

سدھیر ، عش عش کر اٹھتا ہے اور اسے دوستی کی اصل شکل نظر آجاتی ہے جو اس فلم کا مرکزی خیال ہوتا ہے۔

فاضل بٹ ، ہیرو کے رول میں

ایس اے بخاری کی فلموں میں سے ایک یادگار فلم ہاشو خان (1974) بھی تھی جس میں اداکار ساون نے ایک غاصب و جابر حکمران کا کردار کیا تھا۔

اس فلم کے فلمساز فاضل بٹ تھے جو عام طور پر پنجابی فلموں میں دوسرے درجہ کے ولن کے طور پر نظر آتے تھے لیکن اپنی اس ذاتی فلم میں انھوں نے خود کو اداکارہ آسیہ کے مقابل ہیرو کے طور پر پیش کیا تھا۔ فلم کی کامیابی کے باوجود فلم بین انھیں ہیرو کے رول میں قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔

جس طرح کے لاؤڈ مکالمے وہ بولتے تھے اس سے نہیں لگتا تھا کہ موصوف اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشے کے وکیل تھے۔ انھوں نے اپنی ڈگریوں کا ذکر اس فلم کے بھاری بھر کم فلم پوسٹر پر بھی کیا تھا۔ اس فلم کا تھیم سانگ بھی مسعودرانا کی امر آواز میں تھا جو آمروں ، غاصبوں اور جابروں کے لیے ایک نصیحت لیے ہوئے تھا:

  • رہے نام اللہ دا۔۔ اللہ ہی اللہ۔۔ ظلم نئیں اوں رہناباقی۔۔ رہنا سدا پیار۔۔ اوۓ۔۔

مسعودرانا کے ایس اے بخاری کی 7 فلموں میں 9 گیت

(5 اردو گیت ... 4 پنجابی گیت )
1
فلم ... لنڈا بازار ... اردو ... (1964) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: تصدق حسین ... شاعر: حبیب جالب ... اداکار: (پس پردہ)
2
فلم ... دلاں دے سودے ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: اعجاز
3
فلم ... آنسو ... اردو ... (1971) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: ندیم
4
فلم ... آنسو ... اردو ... (1971) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: ندیم ، دیبا
5
فلم ... آنسو ... اردو ... (1971) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا ، تصورخانم مع ساتھی ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: شاہد ، دیبا ، مہ پارہ ، ندیم مع ساتھی
6
فلم ... یار نبھاندے یاریاں ... پنجابی ... (1972) ... گلوکار: آئرن پروین ، مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: ؟ ... اداکار: علی اعجاز ، رضیہ
7
فلم ... میں بنی دُلہن ... اردو ... (1974) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: شبنم ، شاہد
8
فلم ... ہاشو خان ... پنجابی ... (1972) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: ایم اشرف ... شاعر: حبیب جالب ... اداکار: ابو شاہ (ساون)
9
فلم ... کمانڈر ... پنجابی ... (1984) ... گلوکار: مسعودرانا ، ناہید اختر ... موسیقی: طفیل فاروقی ... شاعر: ؟ ... اداکار: مصطفی قریشی ، نازلی

Masood Rana & S.A. Bukhari: Latest Online film

Masood Rana & S.A. Bukhari: Film posters
Landa BazarDillan day SoudayAansooMain Bani DulhanHashu Khan
Masood Rana & S.A. Bukhari:

0 joint Online films

(0 Urdu and 0 Punjabi films)

Masood Rana & S.A. Bukhari:

Total 7 joint films

(3 Urdu, 4 Punjabi films)

1.1964: Landa Bazar
(Urdu)
2.1969: Dillan day Souday
(Punjabi)
3.1971: Aansoo
(Urdu)
4.1972: Yaar Nibhanday Yaarian
(Punjabi)
5.1974: Main Bani Dulhan
(Urdu)
6.1974: Hashu Khan
(Punjabi)
7.1984: Commander
(Punjabi)


Masood Rana & S.A. Bukhari: 9 songs in 7 films

(5 Urdu and 4 Punjabi songs)

1.
Urdu film
Landa Bazar
from Friday, 13 November 1964
Singer(s): Masood Rana, Music: Tasadduq Hussain, Poet: , Actor(s): (Playback)
2.
Punjabi film
Dillan day Souday
from Friday, 13 June 1969
Singer(s): Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Ejaz
3.
Urdu film
Aansoo
from Friday, 30 July 1971
Singer(s): Masood Rana, Mala, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Nadeem, Deeba
4.
Urdu film
Aansoo
from Friday, 30 July 1971
Singer(s): Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Nadeem
5.
Urdu film
Aansoo
from Friday, 30 July 1971
Singer(s): Masood Rana, Mala, Tasawur Khanum & Co., Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Shahid, Deeba, Mahpara, Nadeem & Co.
6.
Punjabi film
Yaar Nibhanday Yaarian
from Friday, 18 August 1972
Singer(s): Irene Parveen, Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Ali Ejaz, Razia
7.
Urdu film
Main Bani Dulhan
from Friday, 22 March 1974
Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Shabnam, Shahid
8.
Punjabi film
Hashu Khan
from Friday, October 18, 1974
Singer(s): Masood Rana, Music: M. Ashraf, Poet: , Actor(s): Abbu Shah, (Sawan)
9.
Punjabi film
Commander
from Saturday, 30 June 1984
Singer(s): Naheed Akhtar, Masood Rana, Music: Tufail Farooqi, Poet: , Actor(s): Mustafa Qureshi, Nazli


Haveli
Haveli
(1964)
Dosheeza
Dosheeza
(1962)
Tamasha
Tamasha
(1965)
Prince
Prince
(1978)

Dard
Dard
(1947)
Hatim Tai
Hatim Tai
(1933)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.