Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


منظور جھلا

منظورجھلا ، پنجابی لوک موسیقی کا ایک بہت بڑا نام تھے۔۔!

Manzoor Jhalla
منظور جھلا
نے متعدد سپرہٹ فلمی
اور غیر فلمی گیت لکھے تھے

پاکستان میں ستر کی دھائی تک فلمی گائیکی کو اجارہ داری حاصل رہی ہے۔ فلموں ، فلمی فنکاروں اور فلمی موسیقی کو شہری آبادی اور مڈل کلاس میں بڑی مقبولیت حاصل ہوتی تھی جو سینماؤں ، ریڈیو ، ٹی وی اور میڈیا پر نمایاں ہوتی تھی۔

اس کے متوازی ایک عوامی تفریح بھی ہوتی تھی جہاں لوک فنکاروں کا راج ہوتا تھا۔ پنجاب بھر کے میلے ٹھیلوں میں انھی عوامی فنکاروں ، خصوصاً گلوکاروں کا راج ہوتا تھا جن کی لائیو پرفارمنس ، عام طور پر دیہاتی شائقین کے لیے ناقابل فراموش ہوتی تھی۔ ایسے فنکارں میں عالم لوہار ، طفیل نیازی ، بالی جٹی ، عاشق جٹ ، سائیں اختر اور عنایت حسین بھٹی وغیرہ کے علاوہ منظورجھلا بھی شامل تھے جو بنیادی طور پر ایک شاعر تھے۔

منظور جھلا کے سپرہٹ لوک گیت

اہل پنجاب کے لیے یہ غیرفلمی گیت غیر مانوس نہیں تھے:

  • ہائے او ربا ، نئیں اوں لگدا دل میرا ، سجناں دے باجھ ہویا انھیرا۔۔
  • نہ دل دیندی بے دردی نوں ، نہ کونج وانگوں کرلاندی ، کدی نہ پچھتاندی میں۔۔
  • گوریئے ، میں جانا پردیس ، میں جانا تیرے نال۔۔
  • کِتے نین نہ جوڑی ، تینوں واسطہ خدا دا ، واگاں وطناں نوں موڑیں۔۔
  • دل والا دکھڑا نئیں کسے نوں سنائی دا ، اپنیاں سوچاں وچ ، آپے مک جائی دا۔۔
  • وے میں چوری چوری تیرے نال لائیاں وے اکھاں وے۔۔
  • لگی والیاں نوں نیندر نہ آندی ، تیری کیویں اکھ لگ گئی۔۔
  • ویکھیں پیار نہ کریں ، نئیں تے رُل جائیں گا ، ایتھے رل گئے لکھاں ، تو وی رُل جائیں گا۔۔

یہ سبھی شاہکار عوامی گیت منظورجھلا کے لکھے ہوئے تھے جو ایک مفلوک الحال پنجابی شاعر تھے اور ان کی شاعری میں اپنی تلخ زندگی کی جھلک بھی نظر آتی تھی۔ بہت سے لوک فنکاروں نے ان کے گیت گا کر خوب شہرت حاصل کی تھی۔

منظور جھلا کے فلمی گیت

منظورجھلا نے تقریباً ڈیڑھ درجن پنجابی فلموں میں ستر کے قریب فلمی گیت بھی لکھے تھے۔ پہلافلمی گیت :

  • اے دنیا زوراور دی اے۔۔

تھا جو عنایت حسین بھٹی کی آواز میں فلم سچے موتی (1959) میں گایا گیا تھا۔ اس فلم کے فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف اور اداکار شیخ اقبال تھے۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ سپرسٹار ہیرو اعجاز کی یہ پہلی پنجابی فلم تھی۔

منظورجھلا کی دوسری فلم ہدایتکار انور کمال پاشا کی پنجابی فلم ہڈحرام (1965) تھی جس کے سبھی گیت انھوں نے لکھے تھے۔ اخترحسین اکھیاں ، موسیقار تھے جبکہ حزیں قادری نے صرف فلم کے مکالمے لکھے تھے۔ اس فلم کا سب سے مقبول گیت نسیم بیگم کا گایا ہوا تھا:

  • ویر سوہنیا وے میری ہالی ڈولی ٹورنہ۔۔

فلم کا تھیم سانگ

  • اے ڈیرہ ہڈحراماں دا۔۔

بھی بڑا پسند کیا گیا تھا جسے فضل حسین ، طفیل ، عاشق جٹ اور ساتھیوں نے گایا تھا جو نشے کی لت میں مبتلا افراد کی کیفیت بیان کرتا ہے۔

اس فلم میں ثریا حیدرآبادی کا یہ گیت بھی بڑا پسند کیا گیا تھا:

  • ہنجو نذرانے تیرے ، اکھیاں نیں میریاں ، دسدا نہ تارا کوئی ، راتاں نیں انھیریاں۔۔

اس کے علاوہ عنایت حسین بھٹی کا یہ گیت:

  • تینوں ستیاں جاگ نہ آئی تے چڑیاں بول پیاں۔۔

کے علاوہ آئرن پروین کا یہ گیت:

  • امبیاں نوں پک لین دے ، ہالی منڈیا ، ڈھیم نہ ماریں۔۔

بھی قابل ذکر تھے۔

منظور جھلا کی یادگار نغماتی فلم لاڈو (1966)

منظورجھلا کی تیسری فلم ، ہدایتکار شریف نیر کی پنجابی فلم لاڈو (1966) تھی جو ان کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی فلم تھی۔ اس فلم کے تین شاہکار گیت امر سنگیت میں شامل ہیں۔ موسیقار ماسٹرعبداللہ کی دھنوں پر ملکہ ترنم نورجہاں نے گائیکی کا انمول مظاہرہ کیا تھا

  • ڈنگ پیار دا سینے تے کھا کے ، ہنجو پلکاں دے وچ چھپا کے ، چپ رہیئے ، کسے نوں سنایئے نہ۔۔
  • تیرے دوارے آئی ، سائیں سنگا والا۔۔

کے علاوہ وہ لازوال گیت جو میرے بچپن کے ان گیتوں میں شامل ہے جو ہر طرف گونجا کرتے تھے

  • شکر دوپہر پپلی دے تھلے ، میں چھنکایاں ونگاں۔۔

میڈم نورجہاں کو جب عروج ملا

اعدادوشمار سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ 1966ء پہلا سال تھا جب ایک کیلنڈر ائیر میں ملکہ ترنم نورجہاں نے 3 فلموں میں 9 پنجابی گیت گائے تھے۔ اس سے قبل 1960ء سے لے کر 1965ء تک کے چھ برسوں میں میڈم کے کل 7 فلموں میں صرف 11 پنجابی گیت ملتے ہیں۔ گویا سات برسوں میں میڈم نورجہاں نے دس فلموں میں کل بیس پنجابی گیت گائے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب پنجابی فلمی گائیکی پر نسیم بیگم ، مالا ، نذیربیگم اور آئرن پروین کا راج ہوتا تھا۔

نہ دل دیندی بے دردی نوں

فلمساز اور ہدایتکار انور کمال پاشا کی پنجابی فلم پروہنا (1966) میں منظورجھلا کا لکھا ہوا ایک لوک گیت:

  • نہ دل دیندی بے دردی نوں ، نہ کونج وانگوں کرلاندی۔۔

شامل کیا گیا تھا۔ اس گیت کو پہلے ریڈیو گلوکارہ خورشید بیگم نے گایا تھا لیکن میڈم نورجہاں کی آواز میں اسے لافانی شہرت ملی تھی۔ یہ ایک ایسا گیت ہے کہ جسے گنگناتے چلے جائیں ، تھکیں گے نہیں۔ سیف چغتائی کی بنائی ہوئی دھن بے مثل تھی۔ اسی گیت کو بعد میں گلوکارہ ریشماں نے بھی گایا تھا اور بڑا پسند کیا گیا تھا۔

منظور جھلا اور مسعودرانا کا ساتھ

منظورجھلا کی مسعودرانا کے ساتھ پہلی فلم یاراں نال بہاراں (1967) تھی جس کے سبھی گیت انھوں نے لکھے تھے۔ ہدایتکار مشتاق زیدی کی اس فلم کی موسیقی رحمان ورما نے ترتیب دی تھی۔

باغ بہاراں تے گلزاراں ، بن یاراں کس کاری
یار ملن دکھ کٹے جاون ، فضل کرے رب باری
یاراں نال بہاراں ، سجناں۔۔
جس دھرتی تے یار نئیں وسدے ، کھڑدیاں نئیں گلزاراں
یاریاں والے سخت کسالے ، سب توں اوکھیاں منزلاں نیں
مان تران تے عذر وسیلہ ، جیویں سروں دیاں گندلاں نیں
یاراں نال کرن جو ٹھگیاں ، رب توں پیندیاں ماراں
یاراں نال بہاراں ، سجناں۔۔
مشکل ویلے ، پند کویلے ، یار ، یاراں نال مردے نیں
دکھڑے جرھدے ، اف نئیں کردے ، دم سجناں دا بھردے نیں
جان جاوے پر آن نہ جاوے ، چلن پاویں تلواراں
یاراں نال بہاراں ، سجناں۔۔
کلا رکھ بھئی اجاڑاں دے وچ ، سک دا ، سڑدا ، جھڑدا اے
بانہہ بیلی نے یار جنہاں دے ، کون انہاں نال لڑدا اے
وچھڑ جاندے یار جنہاں دے ، رو رو کرن پکاراں
یاراں نال بہاراں ، سجناں۔۔
جس دھرتی تے یار نئیں وسدے ، کھڑدیاں نئیں گلزاراں
شاعر: منظورجھلا ، موسیقار: رحمان ورما
گلوکار: مسعودرانا ، فلم یاراں نال بہاراں (1967)

اس فلم میں جہاں نسیم بیگم کا یہ گیت پسند کیا گیا تھا

:اے مٹھیاں سولاں پیار دیاں۔۔

  • تھا وہاں مسعودرانا کے گائے ہوئے دو گیت بڑے مقبول ہوئے تھے۔ ان میں
  • لگدا نئیں پتہ اے جہاں کہیڑے رنگ دا۔۔

کے یہ بول ایک تاریخی حقیقت بیان کرتے ہیں کہ ہر دور میں جھوٹ اور فریب کا راج رہا ہے۔ ظالم اور ظلم کی چاندی رہی ہے اور مظلوم اور سچ زیر عتاب رہے ہیں:

  • چوراں ، ٹھگاں ، یاراں ہتھ آئیاں سرداریاں
    جھوٹ تے فریب دیاں ، اُچیاں نیں باریاں
    سچ کہن والیاں نوں سولی اُتے ٹنگدا
    لگدا نئیں پتہ اے جہاں کہیڑے رنگ دا
    کسے ویلے ٹٹ پیناں معافی وی نئیں منگدا۔۔

اسی فلم کا ایک شاہکار گیت ان گیتوں میں شامل ہے جو میں نے بچپن میں بہت سنا تھا۔ بدقسمتی سے یوٹیوب پر مسعودرانا کے بہت کم گیت ایسے ہیں جن میں ان کی اصل آواز سننے کو ملتی ہے۔ پاکستانی گلوکاروں میں سب سے دلکش اور پراثر آواز کے مالک تھے جن کے گیت روح کی گہرائیوں تک اتر جاتے تھے۔

ایسے ہی گیتوں میں فلم یاراں نال بہاراں (1967) کا یہ تھیم سانگ:

  • یاراں نال بہاراں ، سجناں۔۔

بھی ہے جسے تحت اللفظ میں پورا لکھا گیا ہے ، کیا کمال کی شاعری تھی۔ منظورجھلا نے کتنے مشکل الفاظ استعمال کیے تھے کہ جنھیں پنجابی بولنے والے عام لوگ شاید ہی پوراسمجھ پائیں۔ یہ کتنی بڑی بدنصیبی رہی ہے کہ اہل پنجاب کو ان کی مادری زبان کی تعلیم سے محروم رکھا گیا ہے اور وہ ، گود سے گور تک جاہل ہی رہتے ہیں۔۔!

منظور جھلا کے دیگر یادگار گیت

ہدایتکار سیف الدین سیف کی اشارتی فلم لُٹ دا مال (1967) میں منظورجھلا کا لکھا ہوا ایک ہی گیت تھا جو فلم کا سب سے ہٹ گیت تھا:

  • دلا میریا ، کسے دے نال پیار نہ کریں ، بیٹھا روویں گا ، کسے دا اعتبار نہ کریں۔۔

سلیم اقبال کی موسیقی میں یہ گیت مالا اور سلیم رضا نے گایا تھا۔

فلم ڈھول جانی (1968) میں مہدی حسن کا گایا ہوا اکلوتا گیت جو منظورجھلا نے لکھا تھا:

  • میری واری چھیتی کیوں نئیں بولدا۔۔

شامل کیا گیا تھا۔ اس گیت کی دھن وزیرافضل صاحبان نے بنائی تھی۔

منظورجھلا کے فلمی کیرئر کی ایک اور بہت بڑی فلم ہدایتکار ریاض احمد کی پنجابی فلم چور نالے چتر (1970) تھی جس میں رحمان ورما کی دھن میں میڈم نورجہاں کے یہ دو گیت سپرہٹ ہوئے تھے:

  • وے لگیاں دی لج رکھ لئیں ، کتے بھل نہ جاویں انجانا۔۔
  • مینوں تیرے پین بھلیکھے ، ہائے وے جند اللہ دے لیکھے ، آجا میرے ہانیا ، تیریاں اڈیکاں سانوں ماریا۔۔

منظورجھلا کا اصل نام 'منظورحسین' تھا۔ وہ 1912ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے اور 27 جنوری 1973ء کو لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔

مسعودرانا اور منظور جھلا کے 3 فلمی گیت

0 اردو گیت ... 3 پنجابی گیت
1

یاراں نال بہاراں سجناں ، جس دھرتی دے یار نئیں وسدے..

فلم ... یاراں نال بہاراں ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: رحمان ورما ... شاعر: منظور جھلا ... اداکار: منور ظریف ، اکمل
2

لگدا نئیں پتہ اے جہاں کہیڑے رنگ دا ، کس ویلے ٹٹ پہنا ، معافی وی نئیں منگدا..

فلم ... یاراں نال بہاراں ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: رحمان ورما ... شاعر: منظور جھلا ... اداکار: اکمل
3

ہن میرے کولوں ڈر کے نس نی..

فلم ... سہرہ ... پنجابی ... (1971) ... گلوکار: نورجہاں ، مسعود رانا ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: منظور جھلا ... اداکار: ؟


Masood Rana & Manzoor Jhalla: Latest Online film

Masood Rana & Manzoor Jhalla: Film posters
LadoProhnaYaaran Naal BaharanLut Da Maal
Masood Rana & Manzoor Jhalla:

0 joint Online films

(0 Urdu and 0 Punjabi films)
Masood Rana & Manzoor Jhalla:

Total 7 joint films

(0 Urdu, 7 Punjabi films)
1.1966: Lado
(Punjabi)
2.1966: Prohna
(Punjabi)
3.1967: Yaaran Naal Baharan
(Punjabi)
4.1967: Lut Da Maal
(Punjabi)
5.1968: Kurmai
(Punjabi)
6.1971: Sehra
(Punjabi)
7.1971: Des Mera Jeedaran Da
(Punjabi)


Masood Rana & Manzoor Jhalla: 3 songs

(0 Urdu and 3 Punjabi songs)

1.
Punjabi film
Yaaran Naal Baharan
from Friday, 10 February 1967
Singer(s): Masood Rana, Music: Rehman Verma, Poet: , Actor(s): Akmal
2.
Punjabi film
Yaaran Naal Baharan
from Friday, 10 February 1967
Singer(s): Masood Rana, Music: Rehman Verma, Poet: , Actor(s): Munawar Zarif, Akmal
3.
Punjabi film
Sehra
from Friday, 22 January 1971
Singer(s): Masood Rana, Noorjahan, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): Ejaz, Naghma


Arsi
Arsi
(1947)
Tansen
Tansen
(1943)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.