اداکارہ سیما
نے تین سو سے زائد فلموں
میں معاون اداکارہ کے طور پر کام کیا تھا
ہماری فلموں میں عام طور پر ہیرو اور ہیروئن کے کردار زیادہ نمایاں ہوتے تھے لیکن کئی ایک معاون اداکار ایسے بھی ہوتے تھے کہ جو پوری فلم پر بھاری ہوتے تھے۔
ان کے علاوہ ایسے معاون فنکار بھی تھے کہ جو زندگی بھر چھوٹے موٹے کرداروں میں نظر آئے اور شاذونادر ہی انھیں کسی بڑے رول میں دیکھا گیا تھا۔
اداکارہ سیما کا شمار بھی ایسی ہی معاون اداکاراؤں میں ہوتا ہے کہ جنھوں نے سینکڑوں فلموں میں کام کیا لیکن کبھی کسی فلم میں ہیروئن یا مرکزی کردار میں نہیں آئی۔۔!
اداکارہ سیما کا فلمی کیرئر
فلمساز اور ہدایتکار شباب کیرانوی نے لاہور میں پیدا ہونے والی اداکارہ سیما کو پنجابی فلم لاڈلی (1964) میں ایک ثانوی کردار میں موقع دیا تھا۔
خوبصورت نقش و نگار کی مالک یہ اداکارہ کبھی ہیروئن نہ بن سکی لیکن معاون اداکارہ کے طور پر کبھی ماں ، بہن ، بھابھی ، سہیلی یا ایسے ہی دیگر رشتوں ناطوں میں نظر آتی تھی۔
بہت سے گیتوں میں معاون اداکارہ کے طور پر پرفارم کیا۔ ہدایتکار ایس ایم یوسف کی فلم عید مبارک (1965) میں ایک روح پرور محفل میلاد دکھائی گئی تھی۔ مالا ، نذیربیگم اور ساتھیوں کے اس یادگار نعتیہ کلام
- رحم کرو یا شاہ دو عالم ، صلی اللہ علیہ وسلم۔۔
میں زیبا ، رخسانہ اور ساتھیوں کے ساتھ سیما بھی تھی۔ ایک بلیک اینڈ فلم میں یہ نعتیہ کلام رنگین فلمایا گیا تھا۔ اے حمید کی دھن میں اس پرعقیدت نعت کے بول فیاض ہاشمی نے لکھے تھے۔
فلم الہلال (1966) میں ملکہ ترنم نورجہاں کا یہ سولو گیت
- اے خدا ، سن لے میری دعا ، دکھ بھری التجا۔۔
دستیاب معلومات کی حد تک واحد گیت ہے ، جو اکیلی سیما پر فلمایا گیا تھا۔ طفیل ہوشیارپوری کے لکھے ہوئے اس گیت کی دھن رشیدعطرے نے بنائی تھی۔
ان کے علاوہ چند گیت ایسے بھی تھے جن میں سیما نے کورس گیتوں میں شرکت کی تھی۔
فلم نادرہ (1967) شاید واحد فلم تھی جس میں سیما ، رانی اور سلونی کے ساتھ تین کورس گیتوں میں نظر آئی۔ تیسرا ایک کامیڈی گیت تھا
- اری او لیلیٰ کی خالہ ، میرا نکل گیا دیوالا۔۔
جو سیما اور زلفی پر فلمایا گیا تھا۔ یہ دوگانا مسعودرانا نے مالا کے ساتھ گایا تھا۔ مشیرکاظمی کے لکھے ہوئے اس گیت کی دھن کمال احمد نے بنائی تھی جن کی یہ پہلی فلم تھی۔ زلفی ہی کے ساتھ سیما نے فلم محلے دار (1970) میں بھی اہم رول کیا تھا۔
مسعودرانا کے صرف دو ہی گیت سیما کے لیے گائے گئے تھے جن میں یادگار ترین گیت فلم بے رحم (1967) میں تھا
- تجھ کو ملی ہے جرم ضعیفی کی یہ سزا۔۔
انقلابی شاعر حبیب جالب کا لکھا ہوا یہ تھیم سانگ رحمان ورما کی دھن میں سیما کے پس منظر میں گایا گیا تھا اور بڑے کمال کا گیت تھا۔ جب اونچی سروں میں گائے ہوئے تھیم سانگ کی بات ہوتی تھی تو مسعودرانا کا دور دور تک کوئی ثانی نہیں ہوتا تھا۔۔!
اداکارہ سیما نے تین سو سے زائد فلموں میں کام کیا تھا اور تقریباً نصف صدی تک فلموں میں کام کرتی رہی تھی۔
فلم مولا جٹ (1979) میں سلطان راہی کی بھابھی کا رول بڑا مشہور ہوا تھا جو "مولیا۔۔" پکارتی ہے تو مولا کسی جن کی طرح فوراً حاضر ہوجاتا ہے۔
سیما نے بطور ہدایتکار ایک فلم آگ (1992) بھی بنائی تھی۔
اپنے دور شباب میں سیما کا ذکر ان حسیناؤں میں بھی ہوتا ہے کہ جن کا نام نامی اداکار شاہد کے ساتھ آتا تھا۔ سیما کی شادی کسی عدنان نامی شخص سے چند سال تک رہی ، کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ وہ 2009ء تک فلموں میں کام کرتی رہی۔ پھر ایک کار ایکسیڈنٹ میں اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی جو کبھی درست نہ ہو پائی اور اسی بیماری میں کئی سال تک مبتلا رہنے کے بعد بالآخر 21 اپریل 2019ء کو بڑی کسمپرسی کی حالت میں کراچی میں انتقال کر گئی تھی۔
اداکارہ سیما کے علاوہ پاکستانی اردو/پنجابی فلموں میں ایسی معاون اداکاراؤں کے بارے میں مختصراً معلومات دی جارہی ہیں جو اکثر سلورسکرین پر نظر آتی تھیں۔ ان اداکاراؤں کے انفرادی فلم ریکارڈز اپ ڈیٹ کیے جا چکے ہیں۔
آشا پوسلے
پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کی ہیروئن آشا پوسلے کو مرکزی کرداروں میں کامیابی نہیں ملی تھی۔ وہ چند فلموں میں ہیروئن آئی لیکن ناکامی کے بعد معاون اداکارہ کے طور پر سائیڈ ہیروئن ، ویمپ اور کامیڈی رول کئے۔ اس کی فلموں کی تعداد سو سے بھی زائد ہے۔ آشا پوسلے ، پچاس کے عشرہ کی معروف گلوکارہ کوثر پروین ، دو اداکاراؤں رانی کرن اور نجمہ بیگم کی بہن اور پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے موسیقارعنایت علی ناتھ کی بیٹی تھی۔
زینت
معاون اداکاراؤں کی سپرسٹار اداکارہ زینت نے فلم کیرئر کا آغاز پاکستان کی پہلی سپرہٹ نغماتی فلم پھیرے (1949) سے کیا تھا۔
زینت کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون لکھا جا چکا ہے۔
مایا دیوی
پاکستان کی پہلی نغماتی اور سپر ہٹ پنجابی فلم پھیرے (1949) سے معاون اداکارہ کے طور پر نظر آنے والی اداکارہ مایا دیوی نے پچاس سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔
وہ زیادہ تر ماں کے کرداروں میں نظر آئی۔ فلم بھریا میلہ (1966) میں اس کا زلفی جیسے کمزور اور بزدل شخص کی مجبور اور بے بس ماں کا رول یاد ہے۔
تقسیم سے قبل مایا دیوی نے چند فلموں میں ہیروئن کے طور پر کام کیا تھا لیکن کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ مایا دیوی کی ایک پہچان یہ بھی تھی کہ اس نے معروف نغمہ نگار تنویرنقوی سے شادی کی تھی جو طلاق پر منتج ہوئی تھی۔ 1967ء میں انتقال ہوا تھا۔
راگنی
تقسیم سے قبل کی ایک ممتاز اداکارہ راگنی کی پاکستان میں پہلی فلم مندری (1949) تھی لیکن اسے ہیروئن کے طور پر کامیابی نہ مل سکی تھی۔ وہ زیادہ تر کیریکٹرایکٹر رولز میں پسند کی گئی تھی اور کئی فلموں میں اس کے بڑے اہم کردار ہیں۔
فلم نائیلہ (1965) اس کی ایک بہت بڑی فلم تھی۔ اپنے دور میں آہو چشم کہلانے والی اداکارہ بڑی کسمپرسی کی حالت میں 2007ء میں انتقال کر گئی تھی۔
ببو
اداکارہ ببو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے برصغیر کی پہلی متکلم فلم عالم آرا (1931) میں اداکاری کی تھی۔ وہ تیس اور چالیس کے عشروں کی ایک سپرسٹار اداکارہ تھی۔
پاکستان میں اس کی پہلی فلم شمی (1950) تھی۔ اس کی پہچان صرف ایک معاون اداکارہ کے طور پر تھی جو عام طور پر ماں کے کرداروں میں نظر آتی تھی۔ وحیدمراد کی فلم ارمان (1966) اس کی پچاس کے قریب فلموں میں سے ایک یادگار فلم تھی۔ 1972ء میں اس کا انتقال ہوا۔
ریکھا
فلم ہماری بستی (1950) سے آغاز کرنے والی اداکارہ ریکھا ، تقسیم سے قبل تیس اور چالیس کے عشروں کی ایک اداکارہ تھی۔ پاکستانی فلموں میں اس نے ستر کے قریب فلموں میں کام کیا تھا اور ممتاز اداکار ، کہانی نویس شیخ اقبال کے لیے اپنا عیسائی مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوئی تھی۔ بڑی نیچرل اداکاری کرتی تھی اور بہت سی یادگار فلمیں تھیں ۔ 1989ء میں انتقال ہوا تھا۔
ساحرہ
فلم ہموطن (1951) سے فلموں میں اداکاری کرنے والی ساحرہ کے کریڈٹ پر دو درجن کے قریب فلمیں ہیں۔ ساحرہ کو بڑے بھر پور معاون اداکارہ کے کردار ملتے تھے۔ فلم کوئل (1959) اور خان چاچا (1972) جیسی یادگار فلموں میں اس کے کردار ناقابل فراموش تھے۔
صبا
اداکارہ صبا کی پہلی فلم انتخاب (1955) تھی۔ وہ زیادہ تر پنجابی فلموں میں نظر آتی تھی اور خاص طور پر ہدایتکار ایم اکرم کی فلموں کا لازمی حصہ ہوتی تھی۔ غالباً ان کی کوئی قریبی عزیزہ تھی۔
چند فلموں میں سائیڈ ہیروئن کے طور پر نظر آئی اور متعدد گیت بھی فلمائے گئے تھے لیکن پہچان ایک معاون اداکارہ کی رہی۔
فلم سلطان (1972) میں وہ منظر کیسے بھلایا جا سکتا ہے جب جاگیردار کی بیٹی صبا اپنے مزارعہ سلطان راہی کو یہ مشورہ دیتی ہے کہ 'سلطان' جیسا نام اس جیسے غریب آدمی کے لیے مناسب نہیں ، اسے بدل لے۔ وہ مزارعہ پھر فلم میں اس کا سرتاج اور حقیقی زندگی میں 'پاکستانی فلموں کا سلطان' بن جاتا ہے۔
رجنی
پچاس سے زائد فلموں میں کام کرنے والی اداکارہ رجنی نے فلم چن ماہی (1956) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ ابتدائی دور میں وہ رقص بھی کرتی تھی اور اس پر متعدد گیت بھی فلمائے گئے تھے۔ بعد میں وہ زیادہ تر کیریکٹرایکٹر رولز میں نظر آتی تھی۔
ناصرہ
فلم توحید (1959) سے فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والی اداکارہ ناصرہ کو دو فلموں مسٹر ایکس (1963) اور لاڈلی (1964) میں فرسٹ ہیروئن کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا تھا جبکہ متعدد فلموں میں وہ سائیڈ ہیروئن اور ڈانسر بھی تھی۔
ناصرہ ، ساٹھ کے عشرہ کی سب سے کامیاب ویمپ اداکارہ تھی جس نے دو سو کے قریب فلموں میں کام کیا تھا۔
ناصرہ کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون لکھا جا چکا ہے۔
سلمیٰ ممتاز
خاص طور پر ساٹھ کے عشرہ کی پنجابی فلموں میں ماں کے رول میں جس اداکارہ کو سب سے زیادہ پسند کیا گیا تھا ، وہ اداکارہ سلمیٰ ممتاز تھی جس پر ایک تفصیلی مضمون لکھا جا چکا ہے۔
نصرت آرا
ڈیڑھ درجن فلموں میں کام کرنے والی نصرت آرا کی پہلی فلم چنگاری (1964) تھی۔ چھوٹے سے قد کی اس اداکارہ نے فلم ہمراہی (1966) میں ایک بڑا خوبصورت کامیڈی ٹائپ رول کیا تھا۔
نینا
فلم کلرک (1960) سے آغاز کرنے والی اداکارہ نینا کا تعلق کراچی سے تھا۔ وہ بعد میں بہت سی ڈھاکہ کی فلموں سمیت پچاس سے زائد فلموں میں نظر آئی تھی۔
فلم قلی (1968) میں احمدرشدی اور مسعودرانا کا ماں کے موضوع پر گایا ہوا یہ زبردست گیت
- قدموں میں تیرے جنت میری ، میں تجھ پر قربان ، اے ماں ، پیاری ماں۔۔
نینا ہی کے لیے گایا گیا تھا جو ندیم اور عظیم پر فلمایا گیا تھا۔ اس گیت میں مسعودرانا کی لفظ 'ماں' کی ادائیگی لاجواب تھی۔
طلعت صدیقی
فلم ہمیں بھی جینے دو (1963) سے فلمی سفر کا آغاز کرنے والی اداکارہ طلعت صدیقی کو اپنی جذباتی اداکاری کی وجہ سے بڑی مقبولیت ملی تھی۔ اس معروف اداکارہ پر ایک تفصیلی مضمون لکھا جا چکا ہے۔
تمنا
بلا شبہ تمنا ، اردو فلموں کی سب سے کامیاب ترین معاون اداکارہ تھی جو زیادہ تر ویمپ کرداروں میں مشہور ہوئی۔
اس کی پہلی فلم دامن (1963) تھی اور خاص طور پر ستر کے عشرہ کی فلموں سے اس کے عروج کے دور شروع ہوا تھا۔
بے شمار فلموں میں اس نے ایک سنگدل یا سازشی ساس وغیرہ کے کردار کیے تھے۔ فلم سسرال (1977) سے اس کی جوڑی ننھا کے ساتھ بڑی مقبول ہوئی تھی اور ایک فلم 'ننھا کی تمنا' بھی بن رہی تھی جو نامکمل رہی تھی۔ تمنا کا انتقال 2012ء میں ہوا تھا۔
نبیلہ
معاون اداکاراؤں کی ایک سپرسٹار ، اداکارہ نبیلہ بھی تھی جس نے فلم دلہن (1963) سے فلمی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ اس کے اثرات فلموں پر اتنے گہرے تھے کہ اس پر ایک الگ سے مضمون لکھا گیا ہے۔
سنتوش رسل
پاکستان کی اردو فلموں میں نظر آنے والی ایک معاون اداکارہ سنتوش رسل بھی تھی جس نے متعدد فلموں میں کام کیا تھا جن میں فلم سالگرہ (1968) خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس اداکارہ کا تعلق یہودی مذہب سے تھا۔ پہلی فلم بیس دن (1964) تھی۔
سلطانہ اقبال
پانچ درجن سے زائد فلموں میں کام کرنے والی معاون اداکارہ سلطانہ اقبال کی پہلی فلم ولائت پاس (1965) تھی۔
عام طور پر وہ ایک مظلوم ماں کے کرداروں میں نظر آتی تھی۔ فلم جگ بیتی (1968) میں اس کا کردار ناقابل فراموش تھا جس میں اس کا رن مرید بیٹا رنگیلا ، اپنی خودسر بیوی ناصرہ کے لیے اپنی ماں کو ذلیل و رسوا کرتا رہتا ہے اور ماں پھر بھی اس کی خوشنودی کے لیے ہاں میں ہاں ملاتی رہتی ہے۔
تانی
سو سے زائد فلموں میں نظر آنے والی اداکارہ تانی کی پہلی فلم ملنگی (1965) تھی۔ وہ اداکاری کے علاوہ گلوکاری بھی کرتی تھی اور ایک درجن سے زائد گیت گائے تھے جن میں متعدد گیت مسعودرانا کے ساتھ تھے جن کا ذکر الگ مضمون میں کیا گیا ہے۔
عطیہ شرف
عام طور پر ٹریجڈی کرداروں میں نظر آنے والی اداکارہ عطیہ شرف کی پہلی فلم وقت کی پکار (1967) تھی۔ بہت سی اردو اور پنجابی فلموں میں نظر آنے والی یہ اداکارہ ٹی وی اداکار خیام سرحدی کی زوجیت میں بھی رہی۔
نجمہ محبوب
ماں کے کرداروں میں نظر آنے والی نجمہ محبوب ستر کے عشرہ کی مقبول ترین اداکارہ تھی۔ جیو ڈھولا (1969) پہلی فلم تھی۔
فلم نوکر ووہٹی دا (1974) میں منورظریف اور فلم قدرت (1983) میں علی اعجاز کی ماں کو کون بھلا سکتا ہے۔
نجمہ محبوب معروف ٹی وی پروڈیوسر محمدحسین نثار کی بیوی تھیں اور ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران ایک ٹرین حادثے میں جان بحق ہو گئی تھیں۔
مینا داؤد
ایک بڑی مہذب اور پروقار نظر آنے والی اداکارہ میناداؤد نے فلم یاربادشاہ (1971) سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔
اس کی فلموں کی تعداد ستر سے زائد ہے لیکن شاید ہی کسی فلم میں اس نے چند شارٹس سے زیادہ کام کیا ہو۔ لگتا ہے کہ جیسے وہ ایک شوقیہ اداکارہ تھی جو کسی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور گاہے بگاہے فلموں میں نظر آجاتی تھی۔
افشاں قریشی
اداکارہ افشاں قریشی کی پہلی فلم جانور (1972) تھی لیکن فلم انمول محبت (1978) میں اسے جتنا پرکشش دکھایا گیا تھا ، وہ فلم بینوں کو شاید ہی کبھی بھول سکے۔
ٹی وی ڈراموں میں بھی کام کرنے والی یہ اداکارہ ، معروف ٹی وی اداکار فیصل قریشی کی والدہ ہیں اور اداکارہ روزینہ کی نند ، یعنی فلم پیار کی جیت (1969) کے ہیرو عابد قریشی کی بیگم ہیں۔
راحیلہ آغا
نوے کے عشرہ سے ایک کامیاب معاون اداکارہ کے طور پر نظر آنے والی راحیلہ آغا بھی ایک انتہائی پرکشش خاتون ہے۔ وہ اب بھی فلموں میں کام کررہی ہے۔
مندرجہ بالا سبھی معاون اداکاراؤں کے علاوہ اپنے وقت کی کئی سپرسٹار ہیروئنیں بھی تھیں جنھوں نے بعد میں کیریکٹرایکٹر کرداروں میں بڑا کام کیا تھا ان میں صبیحہ خانم ، بہار ، نیرسلطانہ ، مینا شوری ، دیبا اور نغمہ قابل ذکر تھیں۔
(2 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت )