A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
کہا جاتا ہے کہ سٹیج ، اداکار ، ریڈیو ، صداکار ، ٹی وی قلم کار اور فلم ، ہدایتکار کا میڈیم ہوتا ہے جہاں ان کی قابلیت اور صلاحیتوں کا اصل امتحان ہوتا ہے۔۔!
پاکستان کی فلمی تاریخ میں جن فنکاروں نے بطور ہدایتکار بڑا نام کمایا ان میں ایک عظیم ہدایتکار ایم جے رانا بھی تھے۔
چالیس کے قریب فلمیں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ وہ سماجی موضوعات پر اصلاحی اور سبق آموز فلمیں بنانے کے ماہر تھے۔ گو ان کی اردو فلموں کی تعداد صرف پانچ ہے جن میں کوئی ایک بھی قابل ذکر فلم نہیں ہے لیکن وہ پنجابی فلموں کے پہلے عظیم ہدایتکار تھے۔
انھوں نے متعدد بڑی بڑی فلمیں بنائی تھیں جن میں فلم یکے والی (1957) ایک ایسی بلاک باسٹر فلم تھی کہ جس کے بزنس کا ریکارڈ آج تک نہیں ٹوٹ سکا۔ اس فلم نے اپنی لاگت سے 45 گنا زیادہ کمائی کی تھی یعنی آج اگر ایک فلم دس کروڑ روپے کی لاگت سے بنے اور ساڑھے چار ارب روپے سے زائد کا بزنس کرے تو پھر وہ اس فلم کا ریکارڈ توڑتی ہے۔
اس فلم کی کمائی سے ملتان روڈ لاہور پر 92 کنال اراضی پر مشتمل پاکستان کا سب سے بڑا نگار خانہ ، باری سٹوڈیو بنا تھا۔ کسی ایک فلم کی کمائی سے اتنی بڑی سرمایہ کاری کبھی نہیں ہوئی۔۔!
ایم جے رانا کے فلمی کیرئر کا آغاز فلم مندری (1949) سے ہوا تھا جس میں وہ فلم ڈائریکٹر داؤد چاند کے معاون تھے۔ اس فلم میں انھوں نے اداکاری بھی کی تھی۔ پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی سپر ہٹ اردو فلم سسی (1954) میں بھی وہ اپنے استاد کے معاون تھے۔
1955ء کی فلم سوہنی ان کی بطور ہدایتکار پہلی فلم تھی لیکن کامیابی اگلے سال کی فلم ماہی منڈا (1956) سے ملی تھی جس کا ٹائٹل رول مسرت نذیر نے کیا تھا۔ اسی ٹیم کے ساتھ انھوں نے لازوال فلم یکے والی (1957) بھی بنائی تھی جو ایک تاریخ بن گئی تھی۔ فلم جٹی (1958) بھی انھی فلموں کا تسلسل تھا۔ ایم جے رانا ہی کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ وہ پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم جی دار (1965) کے فلم ڈائریکٹر بھی تھے۔
ایم جے رانا کی پہلی فلم میرا ماہی (1964) تھی جس میں مسعودرانا کا مالا کے ساتھ گایا ہوا یہ سپر ہٹ گیت تھا
بابا چشتی کی دھن پر دل میں اتر جانے والے حزیں قادری کے بول تھے جو نیلو اور اکمل پر فلمائے گئے تھے۔
اسی فلم کا ایک دلچسپ مزاحیہ گیت
بھی مسعودرانا اور آئرن پروین نے گایا تھا جو نذر اور رضیہ پر فلمایا گیا تھا۔
اس رومانٹک پنجابی فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا کامیڈی سیکوئنس جو نذر ، رضیہ اور زینت پر مشتمل تھا ، وہ ہو بہو اس وقت کی مغربی پاکستان کی پہلی رنگین فلم ایک دل دو دیوانے (1964) کا مرکزی خیال بھی تھا جس میں کمال اور رانی کے علاوہ زینت بھی تھی جس نے اس فلم میں وہی کردار کیا تھا جو وہ فلم میرا ماہی (1964) میں کر چکی تھی۔ دونوں فلمیں چونکہ آگے پیچھے ریلیز ہوئی تھیں ، اس لیے یقیناً کسی بدیسی فلم سے متاثر ہوں گی۔
مسعودرانا کا ایک شوخ گیت ایم جے رانا کی فلم من موجی (1965) میں بھی تھا
جو فلم کامیڈین آصف جاہ پر فلمایا گیا تھا۔
اس فلم سے فلم بینوں کو جو توقعات وابستہ تھیں وہ پوری نہیں ہوئی تھیں جس کی وجہ یہ تھی اس میں اس وقت کی پنجابی فلموں کے دو دیو قامت ہیرو سدھیر اور اکمل ایک ساتھ نظر آئے تھے۔ یہ ان کے انتہائی عروج کا دور تھا اور فلم بین ایک بھاری بھر کم فلم کی توقع رکھتے تھے لیکن فلم بڑی کمزور ثابت ہوئی تھی۔
فلم ابا جی (1966) البتہ ایک اچھی سوشل فلم تھی جس کے تھیم سانگ
میں مسعودرانا کی دلسوز آواز میں یتیم بچوں کے دکھ درد کا اظہار بڑی خوبی سے ہوا۔ خاص طور پر یہ الفاظ کہ باپ کتنا بھی اچھا ہو ، ماں کی کمی پوری نہیں کر سکتا۔
فلم یارمار (1967) بھی ایک بہترین فلم تھی اور اس میں مسعودرانا اور مالا کا یہ گیت بڑا دلکش تھا
فلم راوی پار (1967) میں بھی اسی جوڑی کے دونوں رومانٹک گیت دل کے تار چھیڑ دینے والے ہیں
اتفاق سے یہ تینوں گیت نیلو اور حبیب پر فلمائے گئے تھے اور جب کوئی گیت نیلو پر فلمایا جاتا تھا تو یقین ہوتا تھا کہ وہ فلم بینوں کو متاثر کرے گا۔
نیلو عام طور پر اپنی فلموں کی کوریوگرافر خود ہوتی تھی لیکن مجھے اس کے رقص سے زیادہ اس کی اداکاری اور ادائیں پسند تھیں ، اور وہ بھی صرف اس کے پہلے دور میں۔۔ ستر کے عشرہ میں جب وہ دوبارہ فلموں میں آئی تھی تو اداکاری سے زیادہ کاری گری کرتی تھی جو صرف پیسہ کمانے کا ایک بہانہ ہوتا تھا ورنہ اداکاری میں کوئی خاص بات نہ تھی۔
ایم جے رانا کی فلم جگ بیتی (1968) ان شاہکار فلموں میں سے ایک ہے جنھیں میں نے بار بار دیکھا ہے اور ہر بار نیا لطف آیا تھا۔
وی سی آر پر یہ فلم دیکھنے سے قبل تک اس کا نام تک نہیں سنا تھا لیکن جب یہ فلم دیکھی تو بڑا فخر ہوا کہ ہمارے ملک میں ایسی بامقصد اور اصلاحی فلمیں بھی بنی ہیں۔ اس کا سارا کریڈٹ تو جناب ایم جے رانا صاحب کو جاتا ہے کہ جو اپنی بیشتر فلموں کا سکرین پلے یا منظر نامہ بھی خود لکھتے تھے۔
اس فلم میں انھوں نے ایک مثالی گاؤں کا ایک ایسا نقشہ کھینچا تھا کہ جس میں بناوٹ کم اور حقیقت زیادہ ہے۔
سدھیر ایک روشن خیال کسان ہے جو روایتی کھیتی باڑی کے سامان کی بجائے جدید مشینوں پر کام کرتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتا ہے۔ بہت کم پنجابی فلمیں ایسی ہیں کہ جن میں سدھیر پینٹ شرٹ میں نظر آتے ہیں۔
سدھیر کی نیک سیرت اور وفا شعار بہن نبیلہ گاؤں کے ایک مہذب اور شریف آدمی علاؤالدین سے بیاہی ہوئی ہے لیکن اس کی ساس سلمیٰ ممتاز ایک انتہائی جھگڑالو عورت ہے جو لگائی بجھائی کے علاوہ ہر وقت اپنا سر باندھے اپنی بہو کو کوستی رہتی ہے کہ اس نے اس پر تعویز کر رکھے ہیں۔
جب معصوم بچی کھیلتے ہوئے اپنی دادی کی نقل اتارتی ہے تو وہ اپنے تکیہ کلام
"نی ککھ نہ روے نی پیکیاں دا۔۔"
کے ساتھ مزید فساد پیدا کرتی ہے۔
اس کی بیٹی ناصرہ بھی اپنی ماں کی کاپی ہوتی ہے جو اپنے نکھٹو خاوند رنگیلا اور اپنی ساس سلطانہ اقبال کا ناک میں دم کیے ہوئے ہوتی ہے۔
گاؤں کا نمبردار فضل حق ایک ایماندار اور مخلص آدمی ہے لیکن اس کا بھتیجا مظہرشاہ ایک منفی کردار ہے جو نیلو کے حصول میں سدھیر سے عداوت رکھتا ہے اور اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے دوسروں کے لیے اذیت رسانی کا باعث ہوتا ہے۔
نیلو ، سدھیر کو چاہتی ہے اور منورظریف کی بہن ہے جو ایک سائیکل پر "چھان ، بورا ، ٹکر" کا کام کرنے والا ایک عوامی کردار ہے۔ اس کی ولن کے چمچے خلیفہ نذیر سے رضیہ کی وجہ سے مخاصمت ہوتی ہے۔ اسی سلسلے میں ان کے سائیکل اور ٹریکٹر کا مقابلہ ہوتا ہے جو احمدرشدی ، مسعودرانا اور آئرن پروین کے ایک دلچسپ مزاحیہ گیت کی صورت میں سامنے آتاہے
منورظریف ، محبت کی یہ بازی جیت جاتا ہے اور رضیہ کو بیاہ کر اپنے گھر لے جاتا ہے جہاں اس کی بہن نیلو شادی بیاہ کا یہ یادگار گیت گاتی ہے
بابا چشتی اور حزیں قادری کے سنگم کا نتیجہ اس فلم میں ایک اور سپر ہٹ گیت بھی تھا
رونالیلیٰ کا گایا ہوا پہلا پنجابی گیت تھا اور فلم میں نیلو پر فلمایا گیا تھا جو اپنے ہونے والے شوہر سدھیر کو اپنے مطالبات کی فہرست پیش کر رہی ہوتی ہے۔
فلم کا اختتام حق و سچ کی فتح پر ہوتا ہے اور ایک بہترین سبق آموز ، تفریحی اور نغماتی فلم کا کریڈٹ ، ایم جے رانا کے کھاتے میں جمع ہو جاتا ہے۔
ایسی ہی ایک اور انتہائی بامقصد اور اصلاحی فلم باؤجی (1968) بھی تھی جس میں طبقاتی کشمکش ، اونچ نیچ اور ذات پات کی تقسیم کو ایم جے رانا نے بڑی مہارت سے سلور سکرین پر پیش کیا تھا۔
یہ ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی جس کے بیشتر گیت سپر ہٹ ہوئے تھے۔ خاص طور پر مسعودرانا اور میڈم نورجہاں کا الگ الگ گایا ہوا یہ گیت سدا بہار رہا
فلم جوانی مستانی (1968) میں مسعودرانا کا دلکش گیت
کی فلم بندی بڑے کمال کی تھی۔ فردوس ، سفید لباس میں کوئی آسمانی حور نظر آتی تھی اور اعجاز اپنے دیہاتی انداز میں بہت متاثر کرتے تھے۔
فلم بھائی چارہ (1970) کے ہدایتکار کے طور پر نور کا نام دیا گیا تھا لیکن اس کے سپر وائزر ایم جے رانا تھے۔ اس فلم میں بھی مسعودرانا کا ایک سپر ہٹ گیت تھا
حبیب پر فلمایا ہوا یہ مقبول عام گیت بھی بابا چشتی اور حزیں قادری کا مشترکہ ورثہ ہے۔
ایم جے رانا کی فلم وچھڑے رب میلے (1970) کے ٹائٹل سانگ کے طور پر مسعودرانا کے فلم میرا ویر (1967) میں گائے ہوئے گیت
کو دوبارہ استعمال کیا گیا تھا جو اپنی نوعیت کا شاید پہلا واقعہ تھا۔ اسی سال کی ایک فلم ہم لوگ (1970) میں بھی مسعودرانا کے گائے ہوئے فلم بھائی جان (1966) کے ایک گیت
کو تھیم سانگ کے طور پر من و عن شامل کیا گیا تھا۔
ایم جے رانا کا اصل نام محمد جمیل تھا۔ انھوں نے فلم دو رنگیلے (1972) میں اداکاری بھی کی تھی جس میں وہ ایک ہدایتکار کے رول میں تھے جو رنگیلا کو فلموں میں چانس دیتا ہے۔
رنگیلا نے اپنی زندگی کے اس حقیقی واقعہ کو اس فلم میں عکس بند کیا تھا۔ رانا صاحب نے رنگیلا کو پہلی بار فلم جٹی (1958) میں ایک سین کا رول دیا تھا جس میں وہ ایک "اپنا ہوٹل" کا بیرا ہوتا ہے جو چند دیہاتی گاہکوں ، ایم اسمٰعیل ، ظریف اور مسرت نذیر کو یہ کہتا ہے کہ یہ آپکا اپنا ہوٹل ہے جتنا چاہیں ، کھائیں ، پئیں۔
وہ سیر ہو کر کھاتے پیتے ہیں لیکن جب بل آتا ہے تو جھگڑا شروع ہو جاتا ہے کہ جب یہ ان کا اپنا ہوٹل ہے تو پھر بل کس بات کا دیں۔۔؟
رنگیلا ، ایم جے رانا کو اپنا محسن کہتے تھے اور اس فلم میں بھی انھیں بڑے احترام سے یاد کرتے ہیں۔
ایم جے رانا نے اپنے آخری دور میں اپنی شاہکار فلم یکے والی (1967) کا ری میک فلم تانگے والی (1981) کی صورت میں بنایا تھا لیکن اس فلم کا کوئی ایک بھی شعبہ فلم یکے والی (1957) کے کسی ایک شعبہ کی گرد کو بھی نہ چھو سکا تھا۔
رانا صاحب نے فلموں کے بعد لاہور سٹیج کے مشہور زمانہ ڈرامہ "شرطیہ مٹھے" کو بھی ڈائریکٹ کیا تھا جس نے سٹیج فنکاروں امان اللہ خان ، ببو برال ، مستانہ اور سہیل احمد کو لازوال شہرت دی تھی۔
ایم جے رانا کا انتقال 1995ء میں ہوا تھا۔
1 | فلم ... میرا ماہی ... پنجابی ... (1964) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: اکمل ، نیلو |
2 | فلم ... میرا ماہی ... پنجابی ... (1964) ... گلوکار: مسعود رانا ، آئرن پروین ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: نذر ، رضیہ |
3 | فلم ... من موجی ... پنجابی ... (1965) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: طفیل فاروقی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: آصف جاہ |
4 | فلم ... ابا جی ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: نیلو ، سدھیر |
5 | فلم ... ابا جی ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: (پس پردہ) |
6 | فلم ... یار مار ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: حبیب ، نیلو |
7 | فلم ... راوی پار ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: بابا عالم سیاہ پوش ... اداکار: نیلو ، حبیب |
8 | فلم ... راوی پار ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: بابا عالم سیاہ پوش ... اداکار: نیلو ، حبیب |
9 | فلم ... راوی پار ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: احمد رشدی ، نسیم بیگم ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: بابا عالم سیاہ پوش ... اداکار: رنگیلا ، رضیہ ، نذر |
10 | فلم ... جانی دشمن ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: بابا عالم سیاہ پوش ... اداکار: نغمہ، سدھیر |
11 | فلم ... جانی دشمن ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: بھلے شاہ ... اداکار: (پس پردہ ، ٹائٹل سانگ ) |
12 | فلم ... جگ بیٹی ... پنجابی ... (1968) ... گلوکار: احمد رشدی ، مسعود رانا ، آئرن پروین ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: خلیفہ نذیر ، منور ظریف ، رضیہ |
13 | فلم ... باؤ جی ... پنجابی ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: رشید عطرے ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: اعجاز |
14 | فلم ... باؤ جی ... پنجابی ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: رشید عطرے ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: (پس پردہ ، ٹائٹل سانگ ) |
15 | فلم ... جوانی مستانی ... پنجابی ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: اعجاز |
16 | فلم ... جگو ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: طفیل فاروقی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: (پس پردہ ، نبیلہ) |
17 | فلم ... بھائی چارہ ... پنجابی ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: حبیب |
18 | فلم ... خون دا بدلہ خون ... پنجابی ... (1973) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: نذیر علی ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: یوسف خان |
19 | فلم ... دکی تکی ... پنجابی ... (1976) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: وارث لدھیانوی ... اداکار: شاہد |
20 | فلم ... دکی تکی ... پنجابی ... (1976) ... گلوکار: مسعود رانا ، ناہید اختر ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: شاہد |
1. | 1964: Mera Mahi(Punjabi) |
2. | 1965: Mann Mouji(Punjabi) |
3. | 1966: Abba Ji(Punjabi) |
4. | 1967: Yaar Maar(Punjabi) |
5. | 1967: Ravi Par(Punjabi) |
6. | 1967: Jani Dushman(Punjabi) |
7. | 1968: Jagg Beeti(Punjabi) |
8. | 1968: Bau Ji(Punjabi) |
9. | 1968: Javani Mastani(Punjabi) |
10. | 1969: Jaggu(Punjabi) |
11. | 1970: Bhai Chara(Punjabi) |
12. | 1973: Khoon Da Badla Khoon(Punjabi) |
13. | 1976: Dukki Tikki(Punjabi) |
1. | Punjabi filmMera Mahifrom Friday, 28 August 1964Singer(s): Masood Rana, Irene Parveen, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Nazar, Razia |
2. | Punjabi filmMera Mahifrom Friday, 28 August 1964Singer(s): Masood Rana, Mala, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Akmal, Neelo |
3. | Punjabi filmMann Moujifrom Friday, 12 November 1965Singer(s): Masood Rana, Music: Tufail Farooqi, Poet: , Actor(s): Asif Jah |
4. | Punjabi filmAbba Jifrom Friday, 16 December 1966Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Neelo, Sudhir |
5. | Punjabi filmAbba Jifrom Friday, 16 December 1966Singer(s): Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): (Playback) |
6. | Punjabi filmYaar Maarfrom Thursday, 12 January 1967Singer(s): Masood Rana, Mala, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Habib, Neelo |
7. | Punjabi filmRavi Parfrom Friday, 9 June 1967Singer(s): Ahmad Rushdi, Naseem Begum, Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Nazar, Rangeela, Razia |
8. | Punjabi filmRavi Parfrom Friday, 9 June 1967Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Neelo, Habib |
9. | Punjabi filmRavi Parfrom Friday, 9 June 1967Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Neelo, Habib |
10. | Punjabi filmJani Dushmanfrom Friday, 29 September 1967Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Naghma, Sudhir |
11. | Punjabi filmJani Dushmanfrom Friday, 29 September 1967Singer(s): Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): (Playback) |
12. | Punjabi filmJagg Beetifrom Friday, 22 March 1968Singer(s): Ahmad Rushdi, Masood Rana, Irene Parveen, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Khalifa Nazir, Munawar Zarif, Razia |
13. | Punjabi filmBau Jifrom Friday, 6 September 1968Singer(s): Masood Rana, Music: Rasheed Attray, Poet: , Actor(s): (Playback) |
14. | Punjabi filmBau Jifrom Friday, 6 September 1968Singer(s): Masood Rana, Music: Rasheed Attray, Poet: , Actor(s): Ejaz |
15. | Punjabi filmJavani Mastanifrom Friday, 27 September 1968Singer(s): Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Ejaz |
16. | Punjabi filmJaggufrom Friday, 26 December 1969Singer(s): Masood Rana, Music: Tufail Farooqi, Poet: , Actor(s): (Playback, Nabeela) |
17. | Punjabi filmBhai Charafrom Friday, 27 March 1970Singer(s): Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Habib |
18. | Punjabi filmKhoon Da Badla Khoonfrom Friday, 20 April 1973Singer(s): Masood Rana, Music: Nazir Ali, Poet: , Actor(s): Yousuf Khan |
19. | Punjabi filmDukki Tikkifrom Friday, 21 May 1976Singer(s): Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Shahid |
20. | Punjabi filmDukki Tikkifrom Friday, 21 May 1976Singer(s): Masood Rana, Naheed Akhtar, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): ? |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.