پاکستان کی فلمی تاریخ میں بہت سے فنکار ایسے بھی تھے کہ جنھوں نے بہت کام کیالیکن گمنام رہے۔
ایسے ہی فنکاروں میں ایک موسیقار مشتاق علی تھے جن کے کریڈٹ پر چار درجن کے قریب فلمیں اوراندازاً تین سو کے قریب گیت تھے۔ آج کی نشست میں اسی موسیقار کی خاص خاص فلموں ،گیتوں اور اہم واقعات کا ذکر ہوگا۔
مشتاق علی کی یادگار فلم بارود کا تحفہ (1990)
بارود کا تحفہ (1990)
نام نہاد افغان جہاد پر بننے والی
ایک بھاری بجٹ کی پاکستانی فلم
موسیقار مشتاق علی کے فلمی کیرئر کی سب سے اہم فلم بارود کا تحفہ (1990) تھی جو 80 کی دھائی میں افغانستان کی خانہ جنگی یا نام نہاد "افغان جہاد" پر بنائی جانے والی شاید واحد پاکستانی فلم ہے۔
مصنف اور ہدایتکار سعید رانا کی یہ اردو فلم ، اپنے بے ہنگم ، منتشر اور بوجھل پوسٹر سے مختلف نہ تھی۔ اداکار جہانزیب کا ڈبل رول تھا ، ایک مجاہد کا تو دوسرا ایک روسی فوج کے میجر کا ، دونوں ، نغمہ اور نیراعجاز کے بیٹے ہیں۔
مجاہد بیٹا ، پہلے ایک ڈاکٹر ہوتا ہے لیکن اپنی ماں کے مطالبے پر مسیحائی کا مقدس پیشہ چھوڑ کر 'مجاہدین ' میں شامل ہو جاتا ہے۔ وہ مجاہدین ، جنھیں بعد میں دہشت گرد کہا گیا اور جو آج تک مسلمانوں کے لیے عالمی بدنامی کا باعث ہیں۔
اس فلم کی ہیروئن رانیا نامی ایک مصری اداکارہ تھی لیکن اس کا کوئی زیادہ بڑا رول نہیں تھا ۔ آصف خان ، مصطفیٰ قریشی ، ادیب اور ریحان کے علاوہ چند گمنام اداکار اہم کرداروں میں تھے۔ اداکار راشد محمود نے بیک وقت کئی ایک اداکاروں کے لیے اپنی آواز میں ڈبنگ کروائی تھی۔
بھاری بجٹ کی فلم
یہ ایک ہیوی بجٹ کی فلم تھی کیونکہ اس میں طیارے ، ٹینک ، بکتربند گاڑیاں اور بھاری توپیں وغیرہ استعمال کی گئی تھیں اور اس قدر بارود پھونکا گیا تھا کہ گیتوں کے انتروں کے درمیان کا وقفہ تک بارود کے تعفن سے بھر دیا گیا تھا۔
نسوانی گیتوں کے بغیر واحد فلم؟
فلم بارود کا تحفہ (1990) کی موسیقی مشتاق علی نے ترتیب دی تھی۔ نعیم صدیقی اور مظفروارثی کے لکھے ہوئے گیت یا ترانے تھے۔ یہ پاکستان کی شاید واحد فلم ہے کہ جس میں نسوانی آواز میں کوئی گیت شامل نہیں تھا۔ البتہ ایک گیت
- زمانہ ہے جب تک ، تومیرا رہے گا۔۔
ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں ریکارڈ ضرور ہوا تھا لیکن فلم میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔
مسعودرانا نے ایک فلم کے سو فیصدی گیت گائے
اس فلم کے چاروں گیت مسعودرانا نے گائے تھے جو ایک اور منفرد ریکارڈ تھا کہ جب کسی ایک فلم کے سو فیصدی گیت کسی ایک مردگلوکار نے گائے ہوں۔ یہی آخری خالص اردو فلم تھی جس میں مسعودرانا کو چار گیت گانے کا موقع ملا تھا۔
ہماری فلموں میں عام طور پر چھ سے سات گیت ہوتے تھے جو بیشتر گلوکاراؤں کے گائے ہوئے ہوتے تھے۔ اسی لیے کسی گلوکار کے لیے کسی ایک فلم کے چار یا آدھے گیت گانا بڑے اعزاز کی بات ہوتی تھی۔
پاکستان کی فلمی تاریخ میں یہ اعزاز بھی مسعودرانا کو حاصل ہے کہ انھوں نے سب سے زیادہ فلموں میں چار یا ان سے زائد گیت گائے تھے۔ اردو فلموں کی حد تک یہ اعزاز احمدرشدی کو حاصل تھا لیکن وہ کبھی کسی پنجابی فلم میں چارگیت نہیں گا سکے تھے جبکہ مسعودرانا نے بڑی تعداد میں اردو اور پنجابی فلموں میں چار یا زائد گیت گائے تھے۔
فلم بارود کا تحفہ (1990) کے ترانے
فلم بارود کا تحفہ (1990) کے پہلے ترانے میں مسعودرانا کے ساتھ آصف جاوید نامی گلوکار کی آواز بھی نمایاں تھی۔ بول تھے:
- مسلم کی ہے للکار ، اللہ اکبر ، اے باطلِ خونخوار ، خبردار ، خبردار۔۔
اس فلم کا دوسرا گیت بھی ایک کورس گیت تھاجو مصطفیٰ قریشی اور ساتھیوں پر فلمایا گیا تھا۔ اس گیت میں افغان مسئلہ کو اجاگر کیا گیا تھا اور عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کی گئی تھی :
- افغان جل رہا ہے ، تہذیب کے حواری ، انسانیت سے عاری ، انسان ہی کے ہاتھوں ، انسان جل رہا ہے ۔۔
اس فلم کا تیسرا گیت بھی کورس کی شکل میں ایک رزمیہ ترانہ تھا جو افغان مجاہدین ، میدان جنگ میں جاتے ہوئے گاتے ہیں:
- رکو نہیں ، جھکو نہیں ، یہ معرکے ہیں تیزو تر ، نئے سرے سے چھڑ چکی ، جہاں میں جنگِ خیروشر ۔۔
اس فلم کے چاروں گیتوں میں سے جو گیت سب سے اعلیٰ پائے کا تھا ، وہ مسعودرانا کا یہ سولو گیت تھا۔ یہ خوبصورت گیت ایک گمنام اداکار پر فلمایا گیا تھا جو اصل میں فلم کا سیکنڈ ہیرو بھی تھا اور نام شاید 'مکرم 'تھا:
- میں ذرا وہاں چلا ہوں ، کبھی یاد کرتے رہنا
جہاں کٹ کے گر رہے ہیں ، میرے پیارے پیارے بھائی
وہ جہاں ستم کشوں کی چھڑی جب سے لڑائی
تہہ خاک سو رہے جہاں غزنوی ثنائی ۔۔
تیری پھانسی توں نئیں ڈرنا
مشتاق علی ہی کی موسیقی میں ہدایتکار ارشدمرزا کی پنجابی فلم بکا راٹھ (1979) میں حزیں قادری کا لکھا ہوا یہ گیت بھی ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے:
- تیری پھانسی توں نئیں ڈرنا ، میں تے اللہ ہی اللہ کرنا ، اللہ ہو۔۔
مسعودرانا کی پراثر آواز میں یہ وجد آفرین دھمال ، پاکستان کے عظیم محسن جناب ذوالفقارعلی بھٹوؒ کی پھانسی کے صرف تین ماہ بعد ریلیز ہونے والی فلم میں گائی گئی تھی۔
بھٹو کی پھانسی ، پاکستان کی شرمناک تاریخ میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد دوسرا بڑا سانحہ تھا۔ اقتدار کی ہوس میں ملک کے آئین و قانون کی دھجیاں بکھیر نے ، پاکستان کے پہلے منتخب جمہوری حکمران کا تختہ الٹنے اور اکلوتے عوامی لیڈر کے عدالتی قتل میں ملوث ایک ایک حرامزادہ ، قومی مجرم ہے۔۔!
بے ادب نیں جہیڑے ماواں دے۔۔
مشتاق علی کے فلمی کیرئر کی پہلی فلم محلے دار (1970) تھی جس میں ان کے ساتھی موسیقار گلزار تھے۔ اس فلم کا مشہور ترین گیت ملکہ ترنم نورجہاں نے اداکارہ نبیلہ کے لیے گایا تھا
- سجن رس بہندے نیں ، خورے کی کہندے نیں۔۔
اس فلم میں مزاحیہ اداکار زلفی کو سیما کے ساتھ نیم ہیرو کے رول میں پیش کیا گیا تھا لیکن فلم کی ریلیز سے قبل ہی اس کا انتقال ہوگیا تھا۔
ایک اچھے موضوع پر بنائی گئی یہ ایک بڑی کمزور فلم تھی۔ فلم کی کہانی مسعودرانا کے اس انتہائی متاثرکن تھیم سانگ میں بیان کی گئی تھی جس کی استھائی نغمہ نگار وارث لدھیانوی نے خاصی طویل لکھی تھی:
- بےادب نیں جہیڑے ماواں دے ، او کدی نہ چڑھن جوانی
شالا مرن پُتر نہ ماواں دے ، کدی ویر نہ وچھڑن بہناں دے
ویرو تے پُترو ہوش کرو ، کی بھیڑے کماں چوں لیناں جے۔۔!
موسیقار مشتاق علی کا مسعودرانا کے ساتھ یہ پہلا گیت اداکار زاہدخان کے پس منظر میں فلمایا گیا تھا جو ماں کی نافرمانی کی سزا پاتا ہے۔ اس اداکار کو بہت مواقع ملے لیکن فائدہ نہ اٹھا سکا تھا اور چھوٹے موٹے کرداروں تک ہی محدود رہا تھا۔ زاہدخان کی فلمی زندگی کی سب سے اہم فلم آنسو (1971) تھی جس میں وہ فردوس کا شوہر بنتا ہے اور اس پر مہدی حسن کا یہ شاہکار گیت فلمایا جاتا ہے "جان جان تو جو کہے ، گاؤں میں گیت نئے۔۔"
ہائے ویکھو لوکو ، جوئے نے کر چھڈیا کنگال
موسیقار مشتاق علی کی ایک یادگار فلم بندے دا پتر (1974) بھی تھی جس کے ہیرو منورظریف تھے۔ عام طور پر منورظریف کی بطور ہیرو فلمیں بڑی کمزور ہوتی تھیں اور صرف ان کی ذاتی کارکردگی کی وجہ سے دیکھی جاتی تھیں۔
منورظریف جیسے بے مثل پرفارمر کوپلے بیک کے طور پر مسعودرانا کی آواز بہت سوٹ کرتی تھی۔ جوئے کے موضوع پر بنائی گئی اس فلم میں ایک گیت کچھ ایسی ہی کہانی بیان کررہا تھا
- ہائے ویکھو لوکو ، جوئے نہ کر چھڈیا کنگال ، گھر وچ نہ کوئی لوٹا گڈوی ، نہ کوئی بچیا چھنی تھال ، ہائے مال۔۔
اس فلم کا ایک رومانٹک گیت
- ویکھو ، رہندے مغرور ، بہتا کردے غرور ، ایڈا سوہنیا نوں مان جوانی دا ، سوہنے مکھڑے تے اکھ مستانی دا۔۔
مسعودرانا کا یہ شوخ گیت افضل خان پر فلمایا گیا تھا۔
مشتاق علی کی ایک اور فلم بے اولاد (1975) بھی تھی۔ بطور ہدایتکارہ ، اداکارہ سلمیٰ ممتاز کی یہ پہلی فلم تھی جس کی فلمساز بھی وہ خود تھیں جبکہ ایک گیت بھی لکھا تھا۔ ممتاز کی جوڑی اورنگزیب کے ساتھ تھی جو ایک اور ناکام اداکار تھے۔ فلم کا مرکزی کردار اقبال حسن کا تھا جو ولن رول میں تھے۔ اس فلم کا ایک گیت بڑا مشہور ہوا تھا
- مار گولی سینے چہ کھا لاں گی۔۔
اس گیت کو افشاں نے گایا تھا۔
فلم بے اولاد (1975) کی یاد میں
فلم بے اولاد (1975) سے میری بڑی گہری یاد وابستہ ہے۔ یہ فلم میں نے کوپن ہیگن کے Mercur سینما میں دیکھی تھی۔ میرے علاوہ پانچ چھ افراد اور سینما ہال میں موجود تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دن دو سینماؤں میں بھارتی فلم مغل اعظم (1960) چل رہی تھی اور اکثریت وہ فلم دیکھنے گئی ہوئی تھی۔
میں اس وقت بڑا جنونی اور جذباتی پاکستانی ہوتا تھا۔ بھارتی فلم دیکھنا گناہ کبیرہ سمجھتا تھا۔ زندگی میں کبھی کوئی بھارتی فلم سینما پر یا اپنے خرچ پر نہیں دیکھی۔ بعد میں جو بے شمار بھارتی فلمیں دیکھنے کا موقع ملا ، وہ وی سی آر پر عزیز و اقارب سے مفت میں مل جاتی تھیں۔ رہی سہی کسر سیٹلائٹ ٹی وی اور یوٹیوب نے پوری کردی تھی۔
اس دن یہ فلم دیکھنے سے قبل میرا ایک یادگار واقعہ رونما ہوچکا تھا جب میرے والدصاحب مرحوم و مغفور اپنے دوستوں کے ساتھ مغل اعظم (1960) دیکھنے کی تیاری کررہے تھے اور مجھے بھی ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ میں نے بھارتی فلم دیکھنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ والد صاحب کے دوست میرے قومی جذبے اور جنون سے آگاہ تھے۔ ان میں سے ایک دوست نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا کہ فلم تو فلم ہوتی ہے ، چاہے بھارت کی ہو یا پاکستان کی۔
میں نے برجستہ جواب دیا کہ جب ہم کوئی پاکستانی فلم دیکھتے ہیں تو ہمارے ٹکٹ کی رقم پاکستان جاتی ہے ، ایسے ہی بھارتی فلم کے ٹکٹ کی رقم بھی بھارت جاتی ہے جس سے ریاست ٹیکس بھی لیتی ہے۔ اسی ٹیکس سے ہمارے خلاف اسلحہ و بارود خریدا جاتا ہے۔ کیا یہ اپنے ملک سے غداری نہیں کہ ہم دشمن کے خزانے میں پیسہ دیتے ہیں۔۔؟
ایک ٹین ایج سے ایسا منفرد جواب پاکر سبھی لاجواب ہوگئے تھے۔۔!
موسیقار مشتاق علی کے چند مزید گیت
مشتاق علی کے دیگر چند مشہور گیتوں میں سے فلم عاشق لوک سودائی (1975) میں غلام عباس کا گیت
- سجنو ، جھوٹے جگ دا پیار۔۔
فلم چھڈ برے دی یاری (1975) میں رجب علی کا گایا ہوا گیت
- اپنے ہی پیاریاں دا ، پیار لٹ لیندے نیں ، کدی کدی یاراں نوں وی ، یار لٹ لیندے نیں۔۔
فلم ارادہ (1978) میں مہدی حسن اور ناہیداختر کا الگ الگ گایا ہوا یہ گیت
- گورے مکھڑے تے کالا کالا تل سوہنیے ، میرا آگیا تیرے اتے دل سوہنیے۔۔
فلم غریب دا بال (1978) میں مسعودرانا کا مجیدظریف پر فلمایا ہوا یہ گیت
وغیرہ اہم گیت تھے۔ فلم سرفروش (1989) ایک ڈبل ورژن فلم تھی جس کے پنجابی ورژن میں سبھی گیت پنجابی میں تھے۔فلم کا تھیم سانگ
- چپ چپ کر کے میں سڑھدیاں ویکھاں ، آخر کیوں۔۔؟
مسعودرانا کی آواز میں ریکارڈ ہوا تھا لیکن فلم میں اردو میں غلام عباس کی آواز میں شامل کیا گیا تھا
- اپنے چمن کو جلتا دیکھوں اور خاموش رہوں ، آخر کیوں۔۔؟
مشتاق علی نے فلم بھابھی دیاں چوڑیاں (1986) کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی جس کے سبھی گیت سلمیٰ آغا نے گائے تھے۔ یہ اس کی پہلی پنجابی فلم تھی جس کی وہ معاون فلمساز بھی تھی۔ سلمیٰ آغا ، اپنے وقت کی ایک مشہور اداکارہ تھی جو گلوکاری بھی کرتی تھی لیکن اس شعبے میں کامیابی نہیں ملی تھی۔ ہدایتکار اقبال کاشمیری کے معصوم بیٹے فیصل اقبال نے اس فلم میں بہت اچھی اداکاری کی تھی۔
مشتاق علی نے فلم پترمنورظریف دا (1993) کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی جو اداکار فیصل منورظریف کی پہلی فلم تھی۔ وہ اپنے عظیم باپ جیسی خوبیوں کا مالک نہیں تھا ، اس لیے ناکام رہا اور اپنے خاندان کی روایات کے مطابق جوانی ہی میں انتقال کرگیا تھا۔
موسیقار مشتاق علی کا 1997ء میں انتقال ہوا اور ان کی آخری فلم شیرپتر (2003) تھی جو کافی دیر سے ریلیز ہوئی تھی۔ سلطان راہی ، ہیرو تھے اور اس فلم میں میڈم نورجہاں اور مسعودرانا کے گیت بھی تھے۔
4 اردو گیت ... 12 پنجابی گیت