Pakistan Film History
An Urdu/Punjabi article on the jubilee films.
پاکستان کی فلمی تاریخ میں انتہائی متنازعہ ہونے کے باوجود "جوبلی فلموں" کی بڑی اہمیت رہی ہے۔۔!
دنیا بھر میں کسی بھی فلم کی کامیابی کا مستند اور آسان ترین فارمولا تو یہی رہا ہے کہ اس پر اصل سرمایہ کاری سے زیادہ کمائی ہو جائے لیکن پاکستان جیسے عجیب و غریب ملک میں جہاں ہر حساب ، بے حساب ہوتا ہے ، وہاں یہ کلیہ کام نہیں کرتا۔
اصل لاگت اور آمدن سے لاعلمی کے باعث ماضی میں پاکستانی فلموں کی لاہور اور کراچی کے سینماؤں میں نمائش کے دورانیے سے فلم کی کامیابی کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔
ایک تسلسل کے ساتھ طویل عرصہ تک سینماؤں پر چلنے والی فلموں کو "جوبلی فلمیں" کہا جاتا تھا جو ایک مخصوص سنگ میل عبور کیا کرتی تھیں۔
"سلور جوبلی" ، "گولڈن جوبلی" ، "پلاٹینم جوبلی" اور "ڈائمنڈ جوبلی" ، بالترتیب 25 ، 50 ، 75 اور 100 ہفتے چلنے والے سنگ میل ہوتے تھے جو چھ ماہ سے دو سال تک کا دورانیہ بنتا ہے لیکن۔۔!!!
پاکستان کی جوبلی فلموں پر تفصیل سے بات کرنے سے پہلے فلموں کی کامیابیوں کے مروجہ بین الاقوامی اصول و ضوابط پر ایک نظر ڈالتے ہیں جن کو پاکستان فلم میگزین پر بھی فلمی بزنس کے ضمن میں استعمال کیا گیا ہے۔
"باکس آفس پر کامیابی" کا مطلب ، سینما کی "ٹکٹ گیلری" پر فلم بینوں کے رش اور کمائی سے فلم کی کامیابی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ دور حاضر میں فلموں کی بزنس رپورٹیں تو ملتی رہتی ہیں کہ کس فلم نے کتنا کمایا لیکن ماضی میں ایسا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ ملک بھر میں فلموں اور فلم بینوں کی طرح ، فلمی بزنس بھی مختلف ہوتا تھا۔ ایک ہی فلم کہیں سپرہٹ ہوتی تو کہیں ناکام ہو جاتی تھی۔
باکس آفس پر فلموں کے بزنس کو کامیابی اور ناکامی کی صورت میں مندرجہ ذیل درجات میں تقسیم کیا جاتا تھا:
ایک "ہٹ یا کامیاب فلم" ، اپنی لاگت سے کم از کم دگنا کما لیتی تھی یا اتنا منافع دے دیتی تھی کہ پہلی فلم کے جملہ اخراجات نکال کر فلمساز بڑی آسانی کے ساتھ دوسری فلم بھی بنا لیتا تھا۔
ایک "سُپرہٹ فلم" ، اپنی لاگت سے کئی گنا زیادہ کماتی تھی اور عام طور پر اپنے تینوں حصہ داروں یعنی فلمساز ، تقسیم کار اور سینما مالکان کو مالا مال کر دیتی تھی۔ ایسی فلم کی کمائی سے فلمساز مزید کئی فلمیں بنا لیتا تھا۔
ایک "بلاک باسٹر فلم" ، بزنس کے سابقہ سبھی ریکارڈز توڑ دیتی تھی۔ ایسی فلم عرصہ دراز تک اور بار بار سینماؤں پر چلتی تھی اور شائقین کو مدتوں یاد رہتی تھی۔ پاکستان کی ایک فلم یکے والی (1957) نے تو اپنی لاگت سے 45 گنا زیادہ کمائی کی تھی جو شاید آج بھی ایک ریکارڈ ہے؟
ایک "ایوریج یا درمیانی فلم" ، عام طور پر ایک ناکام فلم ہوتی تھی جو بمشکل اپنی لاگت پوری کر پاتی تھی۔ فلمساز کو کوئی خاص فائدہ یا نقصان نہیں پہنچتا تھا۔ فلم پر کی گئی سرمایہ کاری کی واپسی تو ہو جاتی تھی لیکن اگلی فلم بنانے کی گنجائش نہیں رہتی تھی۔
ایک "فلاپ یا ناکام فلم" اپنی لاگت بھی پوری نہیں کرتی تھی اور اپنے بنانے اور چلانے والوں کے لیے نقصان کا باعث بنتی تھی۔ عام طور پر ایسا فلمساز دوبارہ فلم بنانے کے قابل صرف اسی صورت میں ہوتا تھا جب اس کے پاس فضول پیسہ اور کالے دھن کے علاوہ دوسروں سے مال بٹورنے کی مہارت ہوتی تھی۔
ایک "سُپرفلاپ فلم" ، اپنے بنانے اور چلانے والوں کو کنگال اور مقروض کر دیتی تھی۔ نہ لاگت پوری ہوتی تھی ، نہ سینما کا خرچ نکلتا تھا۔ ایسی فلم کسی سینما پر محض ایک دو دن یا چند شو کے بعد ہی فارغ ہو جاتی تھی اور فلم بینوں کے حافظے سے بھی ہمیشہ کے لیے مٹ جاتی تھی۔
باکس آفس کے مقابلے میں پاکستان میں جوبلی فلموں کا بزنس زیادہ معتبر سمجھا جاتا تھا۔ یہ طریقہ کار نہ صرف بے حد استعمال ہوا بلکہ اس کا خاصا استحصال بھی ہوا۔
اخبارات و جرائد میں پبلسٹی کے لیے جوبلی فلموں کا حوالہ بڑے اہتمام سے دیا جاتا تھا اور کوشش کی جاتی تھی کہ فلموں کے ہفتے بڑھا چڑھا کر بتائے جائیں۔ طویل عرصہ تک چلنے والی فلم بلاشبہ ایک کامیاب فلم شمار ہوتی تھی جو بہتر تفریح کی امید پر فلم بینوں کو سینما گھروں تک کھینچ لاتی تھی۔
پرانی فلموں کی دوبارہ نمائش پر ان کی جوبلیوں کا حوالہ بھی لازمی ہوتا تھا۔ نہ صرف فلمیں بلکہ ہدایتکار اور اداکار بھی اپنی جوبلیوں کے حوالے سے یاد رکھے جاتے تھے۔ فلمی میڈیا میں ان کا خوب پرچار ہوتا تھا جس کا فلمی شائقین پر بڑا گہرا اثر ہوتا تھا۔
اہل مغرب کے ہاں اہم ترین واقعات کی یاد میں ہر سال جوبلیاں منانے کا رواج رہا ہے۔ مثلاً شادیوں اور شاہوں کی تاجپوشی کی سالگرہ کے ضمن میں 25ویں سال کو "سلور جوبلی" ، 50ویں سال کو "گولڈن جوبلی" ، 60ویں سال کو "ڈائمنڈ جوبلی" اور 70ویں سال کو "پلاٹینم جوبلی" کہا جاتا ہے۔
برصغیر پاک و ہند کا فلمی جوبلیوں کا فارمولا ، انھی مغربی جوبلیوں سے متاثر تھا۔
برصغیر پاک و ہند کی پہلی فلم راجہ ہریش چند ، 1913ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اگلی دو دھائیوں تک بہت سی فلمیں کامیاب ہوئیں لیکن کبھی کوئی فلم مسلسل چھ ماہ تک نہیں چل سکی تھی۔
ہندی فلم امرت منتھن (1934) ، پہلی فلم تھی جو آدھ سال یا 25 ہفتے تک ممبئی کے ایک سینما میں مسلسل چلتی رہی۔ اس فلم کے تقسیم کار بابو راؤ پاؤ نے اس فلم کی غیر معمولی کامیابی پر "سلور جوبلی" کی اصطلاح پہلی بار استعمال کی تھی۔
تقسیم سے قبل عام طور پر ایک فلم کسی ایک شہر کے ایک ہی سینما میں ریلیز ہوتی تھی اور اس کا چھ ماہ تک مسلسل چلنا یا "سلور جوبلی" کرنا بہت بڑی کامیابی ہوتی تھی۔
میڈم نورجہاں کی مشہور زمانہ سپرہٹ فلم خاندان (1942) کا ایک اشتہار یہ بتا رہا ہے مختلف شہروں میں اس فلم کے ہفتوں کی تعداد کتنے بڑے فخر کی بات تھی۔
چند سال بعد ایک مراٹھی فلم سنت تکا رام (1936) نے مسلسل پچاس ہفتے یا ایک سال تک ایک ہی سینما پر چلنے کا اعزاز حاصل کیا تو اس سنگ میل کو "گولڈن جوبلی فلم" کا نام دیا گیا۔
جب ایک ہندی/اردو فلم قسمت (1943) نے مسلسل پچاس ہفتوں کو کراس کرتے ہوئے پہلے سو ہفتے اور پھر ساڑھے تین سال تک چلنے کا ریکارڈ قائم کیا تو اس کو بھی "گولڈن جوبلی" فلم ہی قرار دیا گیا تھا۔
پڑوسی ملک بھارت میں تقسیم کے بعد بھی 25 ہفتوں کی "سلورجوبلی" ، 50 ہفتوں کی "گولڈن جوبلی" اور 75 ہفتوں کی "پلاٹینم جوبلی" فلموں کا ذکر تو ملتا ہے لیکن 100 ہفتوں کی "ڈائمنڈ جوبلی" صرف 60 ہفتوں پر مشتمل ہوتی ہے جو درست بھی ہے۔ پاکستان میں نجانے کس احمق نے 100 ہفتوں کو ڈائمنڈ جوبلی قرار دیا تھا۔
بھارت کی ایک بلاک باسٹر فلم شعلے (1975) نے بمبئی کے ایک ہی سینما میں مسلسل 286 ہفتوں اور پانچ سال سے زائد عرصہ تک چلنے کا ریکارڈ قائم کیا لیکن اس فلم کو کوئی بھی "ڈائمنڈ جوبلی" فلم نہیں کہتا۔
روایت ہے کہ اس ریکارڈ توڑ فلم نے 100 سینماؤں میں جوبلیاں منائیں جن میں سے 60 گولڈن جوبلیاں اور 40 سلور جوبلیاں تھیں۔ اتنی غیر معمولی کامیابی کے باوجود اس فلم کو صرف ایک "گولڈن جوبلی" فلم ہی کہا جاتا ہے۔
بھارت ہی کی ایک اور مشہور زمانہ فلم ، امر اکبر انتھونی (1977) نے صرف ممبئی شہر کے 9 سینماؤں میں سلور جوبلیاں منائیں یعنی ان نو سینماؤں میں الگ الگ اور مسلسل پچیس پچیس ہفتے یا چھ چھ ماہ تک چلنے کا اعزاز حاصل کیا لیکن پھر بھی ایک "سلور جوبلی" فلم ہی کہلائی۔
ممبئی کا یہ فلمی ریکارڈ اگر لاہور یا کراچی میں قائم ہوتا تو 9 سینماؤں کو 25 ہفتوں سے ضرب دے کر کل 225 ہفتے بنا کر ایک "ڈائمنڈ جوبلی" فلم بنا لی جاتی۔۔!
تقسیم کے بعد جوبلیوں کا پاکستانی فارمولا سامنے آیا جس میں جوبلی فلموں کا مفہوم ہی بدل دیا گیا اور روایتی جوبلیوں کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے شارٹ کٹ سے صرف ایک ہی ہفتہ میں "سلور جوبلی" ، 6 ہفتوں میں "گولڈن جوبلی" ، 7 ہفتوں میں "پلاٹینم جوبلی" اور 17 ہفتوں میں "ڈائمنڈ جوبلی" کر کے دکھا دی گئی تھی۔۔!
پاکستان میں جوبلی فلموں کی بے توقیری کرتے ہوئے فلموں کی مدت نمائش کی بجائے سینماؤں کی تعداد کو بنیاد بنا کر فلموں کی جوبلیاں شمار کی جانے لگیں، اور وہ بھی صرف لاہور اور کراچی کے سینما گھروں کی ، حالانکہ فلمیں پورے ملک کے سینماؤں میں چلتی تھیں۔
مثال کے طور پر ایک نام نہاد سلور جوبلی فلم کی بات کریں تو لاہور یا کراچی میں اگر کوئی فلم 15 سینماؤں میں ایک ساتھ ریلیز ہوتی تھی تو پہلے ہی ہفتے میں اس فلم کے 15 ہفتے شمار کر لیے جاتے تھے۔
دوسرے ہفتے میں اگر وہی فلم دس سینماؤں میں چلتی تھی تو پہلے ہفتے کے 15 (سینما) اور دوسرے ہفتے کے 10 (سینما) یا ہفتے ملا کر کل 25 ہفتے بنا کر "سلور جوبلی" بنا لی جاتی تھی جو 25 ہفتوں یا چھ مہینوں کا سفر محض چند ہفتوں میں طے کر لیتی تھی۔۔!
یہی طریقہ کار دیگر جوبلیوں کے ساتھ بھی کیا جاتا تھا۔ البتہ ایک شہر کے سبھی سینماؤں کو ملا کر جو جوبلی بنتی تھی ، اسے فلم بینوں کو دھوکہ دینے کے لیے "کمبائنڈ جوبلی" کہا جاتا تھا جو اصل میں فلموں کی بجائے سینماؤں کی جوبلی ہوتی تھی۔ کسی ایک ہی سینما پر کسی فلم کے مطلوبہ ہفتے پورے کرنے کو "سولو جوبلی" کہا جاتا تھا جو فلموں کی اصل یا اوریجنل جوبلی ہوتی تھی۔
"کمبائنڈ جوبلیاں" لاہور میں بھی ہوتی تھیں لیکن ان کی وباء کراچی میں زیادہ ہوتی تھی جہاں سینماؤں کی تعداد لاہور سے دگنی ہوتی تھی۔ ایسی نام نہاد جوبلیوں کی ایک بدترین مثال ایک ہی ہفتہ میں بلکہ ریلیز ہوتے ہی سلور جوبلی کرنے والی کراچی کی ایک ناکام ترین فلم تھی۔
کراچی میں زیادہ سینماؤں میں ایک ہی فلم کے ریلیز ہونے کے بعد فلم کی مدت نمائش مختصر ہو جاتی تھی جس سے اصل ، خالص ، اوریجنل یا "سولو سلور جوبلی" کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا اور عام طور پر جعلی ، فیک یا "کمبائنڈ جوبلیاں" بن جاتی تھیں۔
ایک انتہائی مضحکہ خیز ریکارڈ فلم مانگ میری بھر دو (1983) کا ہے جو ایک ہی ہفتے میں ڈبوں میں بند ہوگئی تھی لیکن 25 سینماؤں میں بیک وقت ریلیز ہونے کی وجہ سے ریکارڈز بکس میں ایک کامیاب "سلور جوبلی فلم" قرار پائی تھی۔۔!
ایک سینما پر اگر کوئی فلم ایک ، دو یا زیادہ سے زیادہ تین ہفتے کمزور بزنس کرتی تو اتار لی جاتی تھی لیکن یہ فلم کتنی بڑی ناکامی تھی کہ 25 میں سے کسی ایک بھی سینما پر دوسرے ہفتے کا منہ تک نہ دیکھ سکی تھی۔ یقیناً پہلے ہی ہفتہ میں پٹ چکی تھی اور بیشتر سینماؤں پر بوجھ ثابت ہوئی تھی حالانکہ اردو فلموں کے تین بڑے اداکار اس فلم میں شامل تھے۔ اسی سال وحیدمراد کا اچانک انتقال ہو گیا تھا اور ان کی شبنم اور محمدعلی کے ساتھ یہ آخری فلم ثابت ہوئی تھی۔
دیگر نام نہاد "کمبائنڈ جوبلیوں" کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہوتا تھا جو ریکارڈز اور اعدادوشمار کے لیے تو دلکش تھا لیکن فلم بینوں کے لیے گمراہی اور سینما مالکان اور تقسیم کاروں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہوتا تھا۔
زیر نظر مضمون پر تحقیق کے دوران یہ بہت بڑی حقیقت بھی سامنے آئی کہ "فلمی جوبلیوں کے شہر کراچی" میں کبھی کوئی عام "سلور جوبلی فلم" بھی خالص سلور جوبلی نہیں منا سکی اور نہ ہی کبھی کوئی فلم خالص "گولڈن جوبلی" تک پہنچ سکی تھی۔۔!
عام فلم بینوں کو ویسے بھی ایسی جعلی جوبلیوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔ اکثریت کے لیے فلمیں محض تفریح کا ذریعہ ہوتی تھیں۔ البتہ فنکاروں کے کچھ جنونی پرستار جو خود کو فلمی صحافی بھی سمجھتے تھے ، ایک ایک سینما ، ایک ایک دن ، ایک ایک ہفتہ بلکہ فلم کا ایک ایک شو بھی گنتے تھے اور اسی لیے ان میں سخت اختلاف بھی ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جوبلیوں کے نام نہاد ریکارڈز ہر کسی کے اپنے اپنے ہیں جو کسی طور بھی قابل اعتماد نہیں ہوتے تھے۔
کچھ نادان انھی متنازعہ فلمی ریکارڈز پر اتراتے ہیں اور انھیں بنیاد بنا کر اپنے من پسند فنکاروں کی مدح سرائی اور قصیدہ گوئی میں پہلے اخبارات و جرائد اور اب سوشل میڈیا پر بھی مغز ماری کرتے اور خلق خدا کو گمراہ یا محظوظ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
پاکستانی جوبلی فلموں کے نام نہاد ریکارڈز خون گرم رکھنے کا ایک بہانہ اور وقت کا ضیاع تو ہیں لیکن انھیں سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا ہے۔ ان نام نہاد جعلی جوبلیوں سے فلموں یا فنکاروں کے مقام و مرتبے میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ماضی میں فلمی اشتہارات میں فلموں کے ہفتوں سے فلم بینوں کو کیسے گمراہ کیا جاتا تھا ، اس کی ایک بدترین مثال اس اشتہار میں ملتی ہے جس پر یہ یاددہانی کروانے کے بعد کہ فلم ظلم دا بدلہ (1972) کے 122 ہفتوں کے بعد اس کے دوسرے ورژن ، ملے گا ظلم دا بدلہ (1981) کی "162ویں ہفتے میں پنجاب میں نمائش جاری ہے۔"
اس گمراہ کن اشتہار سے ایک عام شخص یہی سمجھتا تھا کہ یہ بھی ایک ڈائمنڈ جوبلی فلم ہے جو 162ویں ہفتے میں چل رہی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ یہ ہفتے لاہور کے سینماؤں کے نہیں بلکہ پورے پنجاب سرکٹ کے سینماؤں کے تھے۔۔!
اس غلط بیانی اور جعل سازی کی بڑی وجہ شاید یہی تھی کہ بھٹی پکچرز یا ہدایتکار کیفی کو یہ بات ہضم نہیں ہو پا رہی تھی کہ 2 اگست 1981 کو ریلیز ہونے والی تینوں سپرہٹ فلموں ، شیرخان ، سالا صاحب اور چن وریام (1981) کے مقابلے میں ان کی فلم ، ملے گا ظلم دا بدلہ (1981) ، ڈائمنڈ جوبلی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئی تھی۔ کیفی صاحب کو پنجابی فلموں کے پہلے ڈائمنڈ جوبلی فلم ڈائریکٹر ہونے کا اعزاز حاصل تھا مگر وقت وقت کی بات تھی۔
ایسا ہی ایک اخباری اشتہار فلم مولا جٹ (1979) کا بھی مشہور ہوا تھا جس میں جلی حروف میں "956 ہفتے" لکھا ہوا تھا جو اصل میں پورے پنجاب کے سینماؤں کے ہفتے تھے۔
فلموں کے ہفتے بڑھانے کے لیے فلمی اشتہارات میں کئی ایک جعلی اور فرضی سینما بھی شامل کیے جاتے تھے۔ کئی سائیڈز کے سینما بھی متعدد فلموں کے لیے استعمال ہوتے تھے حالانکہ اس وقت ایک سینما پر ایک ہی فلم چل سکتی تھی۔ اس کے علاوہ ایسے ٹورنگ سینماؤں کے نام بھی استعمال ہوتے تھے جو شاید شہر میں موجود ہی نہیں ہوتے تھے۔
لاہور کے فلمی ریکارڈز میں اس بات پر بھی ہمیشہ اختلاف ہوتا تھا کہ ساحل اور سنگیت جیسے سینماؤں کو لاہور کی فلموں کے ریکارڈز میں کیوں شامل کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں سینما گھر ، شاہدرہ میں واقع تھے جو اس وقت لاہور کے پاس ایک الگ قصبہ ہوتا تھا۔
فوجی سینماؤں کو بھی فلمی کاروبار کے حوالے سے ریکارڈز بکس میں شامل کرنے پر اعتراض ہوتا تھا کیونکہ ان سینماؤں کو مفت میں فلمیں پڑتی تھیں جن سے فلمسازوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا تھا اس لیے ان کا فلمی بزنس میں شمار بھی فضول ہوتا تھا لیکن ریکارڈز بکس کی چاندی ہو جاتی تھی۔
پاکستان فلم میگزین پر 2003/04ء میں پاکستان کی تمام ریلیز شدہ فلموں کی فہرستیں مرتب کی گئی تھیں جن میں اس وقت کی دستیاب معلومات کے مطابق فلموں کے بزنس ریکارڈز بھی شامل کیے گئے تھے۔ جوبلی فلموں کا حوالہ بھی تھا جو عام طور پر کراچی کے فلمی اخبارات سے ماخوذ تھا۔ خاص طور پر اردو فلموں کے تینوں سپرسٹارز ، محمدعلی ، وحیدمراد اور ندیم کے مکمل ریکارڈز شامل کیے گئے تھے۔ بعد میں سلطان راہی کے ہوشربا فلمی ریکارڈز بھی اپ ڈیٹ ہوئے جو ان کے پرستاروں نے بھیجے تھے۔
2012ء میں جب پاکستان فلم میگزین کو ڈیٹا بیس پر منتقل کیا تو ان جوبلی فلموں کے ریکارڈز میں بڑے تضادات نظر آئے۔ اب دو دھائیوں بعد اس مضمون کی تکمیل میں مزید تحقیق کی تو انکشاف ہوا کہ جوبلی فلمیں تو محض ایک فراڈ اور دھوکہ ہوتی تھیں کیونکہ کراچی جیسے شہر میں کبھی کوئی فلم خالص گولڈن جوبلی تک نہیں کر سکی لیکن وہاں کی نام نہاد ڈائمنڈ جوبلی فلموں کا شوروغوغا سن سن کان بھی پک گئے تھے۔
ان تمام تر تحفظات کے باوجود پاکستان فلم میگزین پر ایسے ریکارڈز موجود رہیں گے۔ ذیل میں فلمی جوبلیوں کے اہم سنگ میل اور اعدادوشمار کا حوالہ کیا جا رہا ہے تا کہ پاکستان کی فلمی تاریخ کو محفوظ رکھا جا سکے۔
تجربہ کار ہدایتکار اور فلمساز نذیر کی سپرہٹ فلم پھیرے (1949) ، اس دور کی بڑی بڑی بھارتی فلموں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے لاہور کے پیلس سینما میں مسلسل چھ ماہ یا 25 ہفتے تک زیر نمائش رہی اور پاکستان کی پہلی خالص "سولو سلور جوبلی" قرار پائی تھی۔
اس یادگار نغماتی فلم کے مرکزی کردار خود نذیر اور ان کی بیگم سورن لتا کے علاوہ زینت ، نذر ، ایم اسماعیل اور علاؤالدین تھے۔
پاکستان کی پہلی سلور جوبلی اردو فلم ، دو آنسو (1950) تھی۔ یہ پاکستان کی پہلی "کمبائند سلور جوبلی" فلم تھی جس نے کراچی کے سینماؤں میں یہ سنگ میل 13 ہفتوں میں مکمل کیا تھا۔ اس طرح سے کراچی کی دیگر سبھی سلور جوبلی فلموں کی طرح ، پہلی سلور جوبلی فلم بھی ایک خالص سلور جوبلی فلم نہیں تھی۔
انور کمال پاشا کی اس فلم کے مرکزی کردار شمیم ، شاہنواز اور ہمالیہ والا تھے جبکہ صبیحہ اور سنتوش ، روایتی جوڑی کی صورت میں تھے۔
پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم ، ہدایتکار داؤد چاند کی اردو فلم سسی (1954) تھی جس کے مرکزی کردار صبیحہ خانم ، سدھیر اور شاہ نواز نے کیے تھے۔ اس فلم نے اپنے مین تھیٹر ایروز پر مسلسل 34 ہفتے چلنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
1950 کی دھائی میں صرف پانچ اردو فلموں نے گولڈن جوبلی کی تھی جبکہ پنجابی فلموں کا ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ البتہ دو پنجابی فلمیں ، دلا بھٹی (1956) اور یکے والی (1957) ، بلاک باسٹر فلمیں تھیں جن کی کمائی سے دو بڑے اور جدید فلم سٹوڈیوز بنائے گئے تھے۔ بھارتی فلموں کے مقابلے میں یہ بہت بڑی کامیابیاں تھیں۔
پاکستان میں جب کوئی فلم اک شہر کے تمام سینماؤں کو ملا کر 75 ہفتے پورے کر لیتی تھی تو ریکارڈز میں پلاٹینم جوبلی شمار ہوتی تھی۔ ویسے 75 ہفتے ، ڈیڑھ سال کی مدت بنتی ہے لیکن اتنی مدت تک کبھی کوئی پلاٹینم جوبلی فلم نہیں چلی۔
1965ء میں پاک بھارت جنگ کے بعد جب بھارتی فلموں کی پاکستانی سینماؤں میں نمائش پر مکمل پابندی لگا دی گئی تو پاکستانی فلموں کو کھلا میدان مل گیا اور سبھی سینما گھروں کی دستیابی کی وجہ سے فلموں کو بڑی بڑی جوبلیاں منانے کا موقع مل گیا تھا۔
متضاد معلومات کے مطابق پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی ، پنجابی فلم جی دار (1965) تھی لیکن کنفرم معلومات کے مطابق اردو فلم ارمان (1966) پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی شمار کی جاتی ہے۔
ہدایتکار پرویز ملک کی یہ سپرہٹ نغماتی اور رومانٹک فلم ، کراچی کے ناز سینما سمیت 12 سینماؤں میں ریلیز ہوئی تھی۔ مین تھیٹر پر مسلسل 34 اور کل 78 ہفتے کمبائنڈ چلی تھی۔
لاہور میں فلم ارمان (1966) ، نشاط سینما میں ریلیز ہوئی اور کل 29 ہفتے چل کر ایک "کمبائنڈ سلور جوبلی" فلم ثابت ہوئی۔ مین تھیٹر پر 21 ہفتے تک چلتی رہی جو پنجاب سرکٹ میں کسی اردو فلم کے لیے بہت اچھا ریکارڈ تھا۔ اسی سپرہٹ نغماتی فلم نے وحیدمراد کو ایک سپرسٹار رومانٹک ہیرو بنا دیا تھا۔
کسی فلم کے 100 ہفتے مکمل ہونے پر "ڈائمنڈ جوبلی" فلم کی اصطلاح صرف پاکستان میں استعمال ہوتی تھی۔
دنیا بھر میں جب بھی "ڈائمنڈ جوبلی" کی بات ہو گی تو جو ہندسہ سامنے آئے گا وہ 100 کا نہیں ، 60 کا ہوگا۔ عام طور پر جب کوئی بادشاہ یا ملکہ ، مسلسل 60 سال تک حکومت کرتا یا کرتی ہے ، تو اسے "ڈائمنڈ جوبلی سال" کہتے ہیں۔
پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف ریاض شاہد کی فلم زرقا (1969) تھی جس نے کراچی میں 102 ہفتے چل کر پہلی "کمبائنڈ ڈائمنڈ جوبلی" ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
لاہور میں یہ فلم 40 ہفتے چلی جس میں سے 28 ہفتے مین سینما گلستان پر سولو سلور جوبلی کے تھے۔ نیلو ، اعجاز ، طالش اور علاؤالدین مرکزی کرداروں میں تھے۔
پاکستان کی پہلی پنجابی فلم ظلم دا بدلہ (1972) تھی جس نے لاہور میں کل 41 ہفتے چلتے ہوئے 122 ہفتوں کی "کمبائنڈ ڈائمنڈ جوبلی" منائی۔ بھٹی پکچرز کی اس فلم میں کیفی ، عالیہ ، غزالہ ، ناہید ، عنایت حسین بھٹی ، اسد بخاری ، جگی ملک ، رضیہ اور منور ظریف اہم کردار تھے۔
آخر میں کراچی اور لاہور میں سب سے زیادہ عرصہ تک چلنے والی فلموں ، آئینہ (1977) اور مجاجن (2006) کے علاوہ واحد مشترکہ اور متفقہ ڈائمنڈ جوبلی فلم منڈا بگڑا جائے (1995) پر بھی بات ہو جائے۔
ہدایتکار نذرالاسلام کی سپرہٹ ، سوشل ، رومانٹک اور نغماتی اردو فلم آئینہ (1977) نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل عرصہ یعنی تقریباً پانچ سال تک کراچی کے سینماؤں میں 401 ہفتے تک چلنے کا منفرد ریکارڈ قائم کیا تھا۔
شبنم ، ندیم ، شاہ زیب ، بہار اور ریحان مرکزی کردار تھے۔
فلم آئینہ ، 18 مارچ 1977ء کو کراچی کے بمبینو سینما سمیت 18 سینماؤں میں ریلیز ہوئی تھی۔ اتفاق سے کراچی میں ساڑھے تین ماہ میں ریلیز ہونے والی یہ اکلوتی فلم تھی جس کی بڑی وجہ 1977ء کے متنازعہ عام انتخابات کے بعد بالخصوص کراچی میں بھٹو حکومت کے خلاف اپوزیشن کی احتجاجی تحریک زوروں پر تھی۔ ایسے میں اس فلم کو بڑے آرام سے کراچی کے بیشتر سینماؤں میں چلنے کا موقع ملا اور اس نے اپنے مین تھیٹر پر 48 اور کمبائنڈ 195 ہفتے چلنے کا اعزاز حاصل کیا۔
فلم آئینہ (1977) کو پھر سکالا سینما میں شفٹ کیا گیا جہاں 10 فروری 1978ء سے 14 جنوری 1982ء تک چلی اور مزید 206 ہفتے مکمل کیے۔ مجموعی طور پر یہ فلم 4 سال ، 9 ماہ اور 27 دن تک چلنے کے بعد 401 ہفتے کا منفرد ریکارڈ بنا کر اتری تھی۔
پاکستان میں فلموں کی جوبلیاں ہمیشہ سے متنازعہ رہی ہیں۔ جہاں اس فلم کے مرکزی کرداروں شبنم اور ندیم کے پرستاروں کے لیے یہ فلم بہت بڑا فخر تھی وہاں ناقدین کے لیے ایک آسان شکار بھی تھی۔
کراچی میں سینماؤں کی کثرت کی وجہ سے یہاں سب سے زیادہ فلمیں جوبلیاں مناتی تھیں لیکن کتنی عجیب بات تھی کہ سب سے زیادہ چلنے والی فلم آئینہ (1977) ، کراچی کے کسی بھی مین تھیٹر پر سب سے زیادہ یعنی "صرف" 48 ہفتے چلی۔ گویا کراچی میں کبھی کوئی فلم اپنے مین تھیٹر پر سولو گولڈن جوبلی بھی نہیں کر سکی تھی۔
فلم آئینہ (1977) پر دوسرا بڑا اعتراض یہ ہوتا تھا کہ یہ فلم چار سال تک ایک منی سینما سکالا پر چلی جس میں صرف 144 سیٹیں ہوتی تھیں جبکہ عام سینماؤں میں چھ سات سو کے لگ بھگ سیٹیں ہوتی تھیں۔
مثال کے طور پر فلم مولا جٹ (1979) نے لاہور کے شبستان سینما میں مسلسل دو سال کی نمائش کے بعد 104 ہفتے کیے تھے۔ اس سینما میں 715 سیٹیں تھیں۔ اگر فلم آئینہ (1977) یہاں ریلیز ہوتی تو ایک سادہ سی گولڈن جوبلی بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے برعکس اگر فلم مولا جٹ (1979) ، سکالا سینما کے حجم کے سینما میں لگائی جاتی تو کم از کم بیس سال تک چلتی رہتی اور ایک ہزار سے زائد ہفتے بھی کر لیتی۔
ناقدین نے تو یہاں تک نوٹ کیا تھا اس منی سینما پر روزانہ تین شو بھی نہیں ہوتے تھے اور صرف ریکارڈ بنانے کے لیے یہ سب ڈرامہ رچایا گیا تھا۔
یاد رہے کہ سکالا سینما ، بمبینو سینما کی بلڈنگ میں دوسری منزل پر واقع ایک منی سینما تھا جو شاید مٹھی بھر VIP اشرافیہ کی تفریح کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ دونوں سینما گھر (اور شاید پوری بلڈنگ بھی) ، کراچی میں صدر کے علاقہ میں سابق صدر آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زارداری کی ملکیت بتائی جاتی تھی۔
14 اپریل 1995ء کو ہدایتکار شمیم آراء کی کامیڈی فلم منڈا بگڑا جائے (1995) ، پاکستان کی فلمی تاریخ کی اکلوتی اردو فلم تھی جس نے لاہور اور کراچی میں بیک وقت ڈائمنڈ جوبلیاں منائی تھیں۔ یہ فلم لاہور کے پرنس سینما اور کراچی کے بمبینو سینما میں ریلیز ہوئی تھی۔ ریما ، بابرعلی ، جان ریمبو ، صاحبہ ، زیبا شہناز ، اسماعیل تارا اور شفقت چیمہ نمایاں فنکار تھے۔
منڈا بگڑا جائے (1995) ، لاہور کی فلمی تاریخ کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی اردو فلم تھی۔ اس فلم نے ریکارڈ ٹائم میں سو ہفتے مکمل کیے تھے۔
عام طور پر لاہور میں ایک اردو فلم چھ سے سات سینماؤں میں ریلیز ہوتی تھی لیکن یہ فلم 14 سینماؤں کی زینت بنی۔ اس فلم نے صرف سات ماہ یا 34 ہفتوں میں کل 112 ہفتے منا کر کمبائنڈ ڈائمنڈ جوبلی کی جس میں مین تھیٹر پر سولو سلور جوبلی بھی تھی۔ یکم دسمبر 1995ء تک چلنے والی اس فلم کے مختلف سنگ میل کچھ اس طرح سے تھے:
کراچی میں بھی فلم منڈا بگڑا جائے ، 14 اپریل 1995ء کو بمبینو سمیت دیگر 9 سینماؤں میں ریلیز ہوئی اور 15 دسمبر 1995ء تک مسلسل 35 ہفتے چلتے ہوئے کمبائنڈ 122 ہفتے کیے تھے۔ اس فلم نے بھی کراچی کے مین تھیٹر پر سولو سلور جوبلی کی تھی جبکہ دیگر سنگ میل کچھ اس طرح سے تھے:
ہدایتکار سید نور کی شاہکار پنجابی فلم مجاجن (2006) نے لاہور کی فلمی تاریخ میں سب سے طویل عرصہ تک مسلسل زیر نمائش رہنے کا ریکارڈ قائم کیا جو ساڑھے تین سال یعنی 24 مارچ 2006ء سے لے کر 20 ستمبر 2009ء تک تھا۔ صائمہ ، شان اور مدیحہ شاہ ، اس نغماتی اور رومانٹک فلم کے نمایاں کردار تھے۔
فلم مجاجن (2006) کی ریلیز کے دوران ایک بار پھر پاکستانی سینماؤں میں بھارتی فلموں کی نمائش شروع ہو گئی تھی لیکن اس دور کی بڑی بڑی بھارتی فلموں کے مقابلے میں یہ فلم چٹان کی طرح ثابت ہوئی اور بے مثل کامیابی حاصل کی تھی۔
فلم مجاجن ، جمعتہ المبارک 24 مارچ 2006ء کو لاہور کے ایبٹ روڈ کے میٹروپول سینما میں ریلیز ہوئی جہاں سائیڈ کے سینماؤں کو ملا کر 13ویں ہفتے میں سلورجوبلی ، 23ویں ہفتے گولڈن جوبلی ، 31ویں ہفتے میں پلاٹینم جوبلی اور 40ویں ہفتے میں 101 ہفتوں کے ساتھ ڈائمنڈ جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا۔ اپنے پہلے مین تھیٹر پر "سولو سلور جوبلی" بھی کی۔
31 دسمبر 2006ء کو بروز پیر عیدالاضحیٰ کے دن فلم مجاجن (2006) کو لاہور کے ایک سائیڈ کے سینما سوزوگولڈ میں شفٹ کر دیا گیا لیکن جمعہ 12 جنوری 2007ء کو ایک بار پھر ایبٹ روڈ ہی کے ایک اور مین تھیٹر گلستان سینما میں لگایا گیا جہاں اس فلم نے جمعہ 23 مارچ 2007ء کو لاہور میں ریلیز کا ایک سال مکمل کر لیا تھا۔
جمعہ 27 اپریل 2007ء کو فلم مجاجن (2006) اپنے تیسرے مین تھیٹر ایمپائر/صنوبر (میکلوڈروڈ) پر شفٹ ہوئی۔ جمعہ 6 جولائی 2007ء کو ایک بار پھر واپس لاہور کے ایبٹ روڈ پر واقع چوتھے مین تھیٹر اوڈین سینما میں منتقل ہوئی جہاں جمعہ 16 نومبر 2007ء کو 200 ہفتے اور جمعہ 21 مارچ 2008 کو لاہور میں مسلسل نمائش کے دو سال بھی مکمل کیے۔
اوڈین سینما پر فلم مجاجن (2006) نے ریکارڈ بزنس کرتے ہوئے جمعہ 20 مارچ 2009ء کو اپنی ریلیز کے نہ صرف تین سال مکمل کیے بلکہ جمعہ 3 جولائی 2009ء کو ایک ہی سینما پر مسلسل دو سال تک چلنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ اس سینما پر یہ فلم کل 115 ہفتے چلی اور "سولو ڈائمنڈ جوبلی" کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
فلم مجاجن (2006) کی مین تھیٹر ، اوڈین سینما لاہور میں نمائش کے مسلسل سو ہفتے ، دو سال یا "سولو ڈائمنڈ جوبلی" مکمل کرنے کا پاکستان کی فلمی تاریخ کا یہ چوتھا واقعہ تھا۔ قبل ازیں ، لاہور ہی کے شبستان سینما میں فلم مولا جٹ (1979) ، نغمہ سینما میں فلم شیرخان اور میٹروپول سینما میں فلم سالا صاحب (1981) بھی یہ عظیم کارنامہ سر انجام دے چکی تھیں۔
جمعہ 10 جولائی 2009ء کو فلم مجاجن (2006) نے لاہور میں 300 ہفتے چلنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ یہ فلم 20 ستمبر 2009ء (یا عیدالفطر) تک چلتی رہی اور کل 182 ہفتے یا ساڑھے تین سال تک چلتے ہوئے کمپائنڈ 310 ہفتے مکمل کیے تھے۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ فلم مجاجن (2006) جن چار مین تھیٹروں پر ریلیز ہوئی ، وہ بالکل قریب قریب واقع تھے جن میں میٹرو پول ، گلستان اور اوڈین ، ایبٹ روڈ پر جبکہ ان سے تھوڑے فاصلے پر ایمپائر/صنوبر سینما ، میکلوڈ روڈ پر تھا۔
یہ بھی ایک منفرد ریکارڈ تھا کہ اپنی ریلیز کے سوا سال بعد فلم مجاجن (2006) ، اپنے چوتھے مین تھیٹر ، اوڈین سینما پر مسلسل سوا دو سال اور 115 ہفتوں تک چلتی رہی۔ اور یہ بھی ایک تاریخ ساز کامیابی تھی کہ یہ اکلوتی پاکستانی فلم تھی جس نے بھارتی فلموں کے مقابلے میں "خالص ڈائمنڈ جوبلی" کی تھی۔۔!
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.