ایم اے رشید ، ایک کامیاب اور جدت پسند فلم ہدایتکار تھے جو نصف صدی پر پھیلے ہوئے اپنے فلمی کیرئر میں نت نئے تجربات کیا کرتے تھے۔۔!
ایم اے رشید
نے پہلی بار ایک مزاحیہ اداکار کو
مرکزی کردار میں پیش کیا تھا
ان کی پہلی فلم
پاٹے خان (1955) ایک بڑی یادگار فلم تھی جس میں انھوں نے پاکستان کی فلمی تاریخ میں پہلی بار ایک مزاحیہ اداکار
ظریف کو ٹائٹل رول میں پیش کیا تھا جو ایک کامیاب تجربہ ثابت ہوا تھا۔ اس فلم میں انھوں نے روایتی ہیروئن کے طور پر
میڈم نور جہاں کو لیا تھا جو اس وقت فلموں میں بنیادی طور پر ایک اداکارہ تھیں جو اپنے گیت خود گاتی تھیں۔ لیکن اسی فلم میں میڈم نے بطور پلے بیک سنگر ایک گیت
مسرت نذیر کے لیے بھی گایا تھا۔ ہیرو کے طور پر پہلی بار
اسلم پرویز کو موقع دیا گیا تھا جو اسی سال اپنی پہلی فلم
قاتل (1955) میں ضیاء کے نام سے متعارف ہوئے تھے۔ پچاس کے عشرہ کی سب سے مقبول اور مصروف ترین پس پردہ گلوکارہ
زبیدہ خانم نے بھی پہلی بار بطور اداکارہ ، سیکنڈ ہیروئن کے طور پر کام کیا تھا اور خوب کیا تھا۔ سینئر اداکار
ایم اسماعیل نے اس فلم میں جو رول کیا تھا ، بیس سال بعد اسی فلم کے ری میک
میرا ناں پاٹے خان (1975) میں بھی کیا تھا جس کا ٹائٹل رول ظریف کے چھوٹے بھائی
منور ظریف نے کیا تھا اور اپنے بڑے بھائی سے کہیں بہتر کیا تھا۔
فلم پاٹے خان (1955) میں ولن کا روایتی کردار کرنے والے اداکار علاؤالدین کی کارکردگی سے ایم اے رشید اتنا متاثر ہوئے کہ اپنی اگلی فلم آس پاس (1957) میں انھیں مرکزی کردار دیا تھا جس میں وہ اتنا کامیاب ہوئے کہ ساٹھ کے عشرہ میں جس فلم میں ہوتے ، اس کی کہانی انھیں کے گرد گھومتی تھی۔ اپنی تیسری فلم لکھ پتی (1958) میں انھوں نے ایک معاون اداکار ساقی کو پہلی اور آخری بار ہیرو کے طور پر موقع دیا تھا۔ بطور فلمساز اپنی پہلی فلم صبح کہیں شام کہیں (1961) خانہ بدوشوں پر بنائی تھی جو ایک عجیب و غریب فلم تھی۔

فلم معجزہ کا ایک اخباری اشتہار
ہدایتکار
ایم اے رشید کی
مسعود رانا کے ساتھ پہلی فلم
معجزہ (1966) تھی جس میں ایک قوالی "داتا میرے ، جھولی بھر دے۔۔" جبکہ دو ترانے "اے وطن ، اسلام کی امیدگاہ آخری ، تجھ پر سلام۔۔" اور "توحید کے متوالو ، باطل کو مٹا دیں گے۔۔" گوائے گئے تھے۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد چند ماہ میں تیار ہو کر ریلیز کر دی گئی تھی۔ فلم میں کہانی یا معیار نام کی کوئی چیز نہ تھی ، محض لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ تھا۔ قومی جذبے کو کیش کروانے کے لیے بلند بانگ دعووں ، طویل اور تھکا دینے والے ترانوں اور وقتی شعلہ بیانوں کا سہارا لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان کی فلمی تاریخ میں پہلی بار وقت کے نامور اداکاروں کو چھوٹے چھوٹے کرداروں میں پیش کیا گیا تھا جو ملک کے مختلف صوبوں کی نمائندگی کرتے ہوئے وطن سے محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ یادگار ڈائیلاگ
دیبا اور
حبیب کے درمیان ہوتے ہیں جو سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔
دیبا ، وطن سے وفا کے لیے سسی کے عشق کی مثال دیتی ہے تو
حبیب اسے جواب میں کہتا ہے کہ "سندھ نے جہاں سسی پیدا کی تھی وہاں
ذوالفقار علی بھٹو کو بھی پیدا کیا ہے ،سسی ، ایک شخص کی محبت میں گرفتار تھی لیکن
ذوالفقار علی بھٹو کو پورے وطن سے محبت ہے۔۔" اس میں کوئی شک نہیں کہ 65ء کی جنگ میں بھٹو صاحب نے اپنی کارکردگی سے پوری قوم کے دل جیت لیے تھے اور تاریخ میں امر ہو گئے تھے۔
ہدایتکار
ایم اے رشید کی اگلی فلم
لال بجھکڑ (1967) ایک اشارتی سیاسی فلم تھی۔ فلم کا ٹائٹل رول رنگیلا نے کیا تھا جس کا مطلب ، ایک پرلے درجے کا احمقوں کا احمق ہے لیکن اسے اپنی عقل پر بڑا گھمنڈ ہوتا ہے۔ وہ ، 22 بکریوں کا چرواہا ہے اور اتفاق سے وقت کے بادشاہ کی جان بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ انعام میں اسے 22 دیہاتوں کی جاگیر عطا کر دی جاتی ہے۔ ایک انتہائی نالائق اور نااہل ترین شخص کو جب ایسا منصب عطا ہوتا ہے تو پھر وہی حشر ہوتا ہے جو دور حاضر کے لال بجھکڑ نے محض دو برسوں میں پورے پاکستان کا کر دیا ہے۔ اتفاق دیکھیے کہ 22 سالہ نام نہاد سیاسی جدوجہد کا دعویٰ کرنے کے باوجود بغیر کسی تیاری اور قابلیت کے اس بدقسمت ملک پر مسلط کر دیا گیا ہے اور کیا کیا گل کھلا رہا ہے۔ 22 کا ہندسہ اس وقت کے فوجی آمر جنرل ایوب خان کی بھی چھیڑ تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس دور میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی 60 سے 80 فیصد دولت ، صرف 22 خاندانوں کے تصرف میں ہوتی تھی جن میں سے ایک جنرل صاحب کا اپنا نودولتیا خاندان بھی تھا۔ اسی وجہ سے موصوف کی کرپشن اور اقربا پروری کی داستانیں زبان زدعام تھیں۔
ایم اے رشید کی فلم دل میرا دھڑکن تیری (1968) اپنے وقت کی ایک سپرہٹ میوزیکل اور رومانٹک فلم تھی۔ اس فلم میں مسعود رانا کا یہ سپرہٹ گیت تھا "جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئے گا۔۔" جبکہ مالا اور احمد رشدی کے یہ دو گیت بھی بڑے مقبول ہوئے تھے "کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا۔۔" اور "روٹھ گئی کیوں مجھ سے تیرے پائل کی جھنکار۔۔" فلم آنسو بن گئے موتی (1969) میں انھوں نے پہلی بار مشرقی پاکستان کی اداکارہ نسیمہ خان کو شمیم آرا کے ساتھ کاسٹ کیا تھا۔ فلم سرحد کی گودمیں (1973) ، اداکارہ فردوس کی بطور ہیروئن آخری اردو فلم تھی۔ اس فلم میں مسعود رانا کے گائے ہوئے ایک ترانے "میرے وطن کے غازیو ، تمہیں کسی کا خوف کیا۔۔" کی دھن موسیقار نثار بزمی نے کیا خوب بنائی تھی۔
ہدایتکار
ایم اے رشید کی فلم
تم سلامت رہو (1974) کا فلمی شائقین کو بڑی شدت سے انتظار تھا کیونکہ اس فلم میں اردو فلموں کے دو سب سے بڑے نام
محمد علی اور
وحید مراد عرصہ آٹھ سال بعد ایک ساتھ نظر آرہے تھے۔ ان کی آخری مشترکہ فلم
جاگ اٹھا انسان (1966) تھی ، اس کے بعد ان کے عروج کا دور شروع ہوا اور دونوں مقابلے کے ہیرو بن گئے تھے۔ اس دور کا فلمی میڈیا آج کے سوشل میڈیا کی طرح کا ہوتا تھا جس میں ان دونوں فنکاروں کے پرستاروں کی نوک جھونک اور اپنے من پسند فنکاروں کو ایک دوسرے سے بہتر ثابت کرنے کی کوشش میں بڑی بڑی مضحکہ خیز باتیں پڑھنے کو ملتی تھیں۔ 1973ء کا سال
وحید مراد کے زوال کا سال ثابت ہوا تھا جب ان کی کوئی فلم کسی قابل ذکر کامیابی سے محروم رہی تھی۔ اسی سال
محمد علی اور
وحید مراد جیسے سپرسٹارز کے مقابل
ندیم اور
شاہد جیسے منی سٹارز کی فلمیں بڑی بڑی کامیابیوں سے ہمکنار ہونا شروع ہو گئی تھیں جس سے ان کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ ایسے میں فلمسازوں نے
محمد علی اور
وحید مراد کو ایک ساتھ کاسٹ کرنا شروع کر دیا تھا اور ان کی مارکیٹ ویلیو میں بڑی کمی آگئی تھی۔ ان دونوں عظیم فنکاروں کو ایک ساتھ دیکھ کر فلمی شائقین کے لیے اس بات پر متفق ہونا آسان نہ ہوتا تھا کہ کس نے کس کا سہارا لیا ہے یا کون کس کا سہارا بنا ہے۔۔؟
ایم اے رشید کی فلم مضبوط (1993) میں مسعود رانا نے اپنے فلمی کیرئر کے آخری تین خالص اردو گیت گائے تھے۔ موسیقار کمال احمد کی دھنوں پر قتیل شفائی کے گیتوں میں سب سے شاندار گیت ایک دوگانا تھا جو انھوں نے اے نیر کے ساتھ ہم آواز ہو کر گایا تھا "دوستی ہے زندگی ، زندگی ہے دوستی۔۔" فلم میں ایک سولو گیت تھا "چاندی جیسا رنگ ہے تیرا ، سونے جیسے بال۔۔" یہ گیت کسی اور نے بھی گایا ہوا ہے۔ فلم کا آخری گیت "ہارنے والا جیت بھی جائے ، جیتنے والا ہارے بھی۔۔" اس کورس گیت میں مسعود رانا کے علاوہ غلام عباس اور حمیرا چنا کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ اپنے گائیکی کے آخری دور میں ہونے کے باوجود مسعود رانا کی تانیں غلام عباس سے زیادہ جاندار تھی جو صاف محسوس ہوتی تھی۔ یہ تینوں گیت نیپالی اداکار شیوا پر فلمائے گئے تھے جو اس دور میں مشترکہ فلم سازی کے تحت بننے والی فلموں کے غیر ملکی فنکاروں میں سب سے زیادہ مقبول فنکار تھے۔ ایم اے رشید کی دیگر فلموں میں راستے کا پتھر (1976) ، ملن ، آدمی (1978) ، نصیب (1982) ، قاتل کی تلاش (1986) ، پناہ (1995) اور صاحب جی (1998) اہم فلمیں تھیں۔ ان کی آخری فلم میری توبہ (2000) تھی۔
ایم اے رشید نے دودرجن فلمیں بنائی تھیں جن میں 17 اردو اور پانچ پنجابی فلمیں تھیں۔ دس فلموں کے منظرنامے بھی انھوں نے خود لکھے تھے۔ وہ ، آٹھ فلموں کے فلمساز تھے جن میں سے دو فلموں
جادوگر (1961) اور
داراگجر (1986) کے صرف فلمساز تھے۔ ان کا نام بطور اداکار بھی تین فلموں
ہزار داستاں (1965) ،
صاعقہ اور
شاہی محل (1968) میں آتا ہے۔ ان کا انتقال یکم جون 2011ء کو لندن میں ہوا تھا۔
(9 اردو گیت ... 5 پنجابی گیت )