فلمساز اور ہدایتکار اسلم ڈار
اسلم ڈار ، ایک جدت پسند ہدایتکار تھے جنھوں نے کئی ایک کامیاب اور ناکام تجربات کئے تھے۔۔!
1936ء میں لاہور میں ایک فلمی صحافی اور ہدایتکار ایم ایس ڈار کے ہاں پیدا ہونے والے اسلم ڈار ، ہدایتکار انور کمال پاشا کی مشہورزمانہ فلم گمنام (1954) میں عکاس جعفرشاہ بخاری کے اسسٹنٹ تھے۔ قاتل (1955) اور دلابھٹی (1956) جیسی شاہکار فلموں میں بھی معاون عکاس تھے۔ اپنے والد کی فلم سردار (1957) پہلی فلم تھی جس کی عکاسی انھوں نے اکیلےکی تھی۔ میڈم نورجہاں کی یادگار فلم چھومنتر (1958) بھی ان کے کریڈٹ پر تھی جبکہ عکاس کے طور پر ڈیڑھ درجن فلموں میں مجھے جینے دو (1968) ، آخری فلم تھی۔
اسلم ڈار کی پہلی فلم دارا (1968)
نصراللہ بٹ
نصراللہ بٹ ، بنیادی طور پر ایک باڈی بلڈر تھے جنھوں نے 'مسٹرلاہور' اور 'مسٹرپاکستان' کے اعزازات بھی جیتے تھے۔ اپنی ابتدائی پانچ فلموں میں ہیرو کے طور پر کام کیا اور ان میں سے چار کے ہدایتکار
اسلم ڈار تھے۔ ان کی پانچوں فلموں کی ہیروئن اداکارہ
رانی تھی۔ اچھی اداکاری کے باوجود بٹ صاحب کو بطور ہیرو کامیابی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ ابتدائی پانچ فلموں کے بعد کچھ عرصہ تک غائب رہے۔فلموں میں دوبارہ آمد کے بعد زیادہ تر ایکسٹرا اور غیر اہم کرداروں تک محدود رہے اور عام طور پر ولن پارٹی میں نظر آتے تھے۔ آخری دور میں مذہبی رحجان پیدا ہوا اور تبلیغی جماعت میں شامل ہوگئے تھے۔ 2009ء میں انتقال ہوگیا تھا۔
اپنے ہدایتکار والد ایم ایس ڈار (فلم دلابھٹی (1956) فیم اور ہدایتکار بھائی وحیدڈار (فلم ماں پتر 1970) فیم کی تقلید میں اسلم ڈار نے بھی ہدایتکاری کے میدان میں قدم رکھا اور پہلی فلم دارا (1968) بنائی جو کامیاب رہی تھی۔ ابتدائی پانچوں فلمیں اردو زبان میں تھیں اور ان میں سے چار کے ہیرو ایک 'باڈی بلڈر' نصراللہ بٹ تھے جنھیں ڈار صاحب ہی نے اداکار اور ہیرو کے طور پر متعارف کروایا تھا۔
دارا (1968) ایک منفرد فلم تھی جو ایک مشہورزمانہ بین الاقوامی افسانوی کردار ، 'ٹارزن' کی کہانی پر بنائی گئی پہلی پاکستانی فلم تھی۔ اس فلم کا نام تو کچھ اور ہونا چاہیے تھا لیکن 'دارا' رکھنے کی وجہ وہی روایتی شرمناک پاکستانی احساس کمتری تھی جو بھارتی فلموں اور فنکاروں کے سلسلے میں ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔
پڑوسی ملک بھارت میں ایک فلم ' ٹارزن کمز ٹو دہلی' (Tarzan Comes To Delhi - 1965) بنائی گئی تھی جس میں مرکزی کردار بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک تنومند ، درازقد پہلوان اور اداکار "دارا سنگھ" (2012-1928) نے کیا تھا۔ وہ ، بنیادی طور پر ایک عالمی شہرت یافتہ پیشہ ور ریسلر تھے لیکن اداکار بننے کے بعد بے شمار فلموں میں کام کیا تھا۔
اسلم ڈار کی پہلی فلم دارا (1968) کے نام کی وجہ وہی صاحب بنے تھے ۔ نہ صرف فلم کا نام ایک بھارتی اداکار کے نام پر رکھا گیا بلکہ نقل کو اصل ثابت کرنے کے لیے ویسا ہی زندہ جاوید کردار بھی ڈھونڈا گیا اور ایک سینڈو یا باڈی بلڈر ، نصراللہ بٹ کو ڈھونڈ کر ہیرو کے طور پر کاسٹ کیا گیا تھا۔ رانی جیسی معصوم اور نازک و اندام اداکارہ کو ہیروئن بنایا گیا تھا۔ عالیہ ، ترانہ ، ادیب ، نذر اور ساقی دیگر اہم کردار تھے۔ فلمساز میاں مشتاق تھے جبکہ کہانی طاہرہ سروش اور مکالمے ہارون پاشا کے تھے۔ اس کامیاب فلم کے عکاس اسلم ڈار کے ایک اور بھائی سعیدڈار تھے۔ آئرن پروین اور منیر حسین گلوکار تھے لیکن ماسٹررفیق علی کی دھنوں میں کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا۔
'ٹارزن' میرے بچپن کا ہیرو تھا۔ اس افسانوی ہیرو اور ایک حقیقی ہیرو کے بارے میں مضمون کے آخر میں کچھ بھولی بسری یادیں تازہ کی گئیں ہیں۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ اداکار ، پاکستانی فلم میں ناکام۔۔!
ضیاء محی الدین
ضیاء محی الدین ، ایک عالمی شہرت یافتہ اداکار ہیں جنھوں نے بہت سی امریکی اور برطانوی فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں کام کیا تھا۔ ان کی یادگار فلم
لارنس آف عریبیہ (1962) تھی۔ 1931ء میں فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ 1953ء میں رائل اکیڈمی آف ڈراماٹک آرٹس لندن سے اداکاری میں ڈگری لی تھی۔ 1969ء میں پاکستان ٹیلیویژن پر اپنی نوعیت کا پہلا 'ضیاء محی الدین شو' پیش کیا جو 1973ء تک کامیابی سے چلتا رہا۔ کراچی میں پی آئی اے آرٹس اینڈ ڈانس اکیڈمی بھی قائم کی جہاں ایک معروف ڈانسر
ناہید صدیقی سے قربت شادی میں بدل گئی تھی۔ اردو ادب کی ترویج کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان کے والدگرامی ،
خادم محی الدین ، پاکستان کی پہلی فلم
تیری یاد (1948) کے کہانی نویس تھے۔
اسلم ڈارنے اپنی دوسری فلم مجرم کون (1970) میں ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ اداکار ضیاء محی الدین کو ہیرو کے طور پر کاسٹ کیا تھا۔ اسوقت وہ پاکستان میں، اپنے مقبول عام ٹی وی ٹاک شو 'ضیاء محی الدین شو' کی وجہ سے ایک معروف شخصیت بن چکے تھے لیکن فلمی ہیرو کے طور پر ناکام رہے تھے۔ پاکستان میں ان کی یہ اکلوتی فلم تھی جس میں ضیاء صاحب اور ان کی ہیروئن روزینہ پر احمدرشدی اور مالا کا یہ مشہور گیت فلمایا گیا تھا "ہونٹوں پہ تبسم ، نظر سہمی سہمی ، ہوگئی رے مجھے کیوں غلط فہمی۔۔"
اسلم ڈار نے اپنی تیسری فلم آخری چٹان (1970) میں ایک اور تجربہ کیا تھا۔ رانی اور نصراللہ بٹ کی مرکزی جوڑی کے ساتھ ایک سیکنڈ جوڑی بھی بنائی جس میں پہلی بار سلطان راہی کو سیکنڈ ہیرو کے طور پر اداکارہ ترانہ کے ساتھ کاسٹ کیا تھا۔ اسی ایکشن فلم میں انھوں نے ایک بونے اداکار رفیق کو مرکزی کامیڈین کے طور پر پیش کیا تھا اور اس پر باتش اور ساتھیوں کی گائی ہوئی یہ قوالی بھی فلمائی گئی تھی "مرنا ہے اگر ہم کو تو تیرے در پر مریں گے۔۔" اس فلم میں مالا کا گایا ہوا یہ کورس گیت سپرہٹ ہوا تھا "ہم ہیں دیوانے تیرے ، عاشق پروانے تیرے ، ہم سے نگاہیں نہ چرا۔۔" یہ بھی ایک کامیاب فلم تھی۔
اپنی اگلی جاسوسی ٹائپ فلم مسٹر 303 (1971) میں انھوں نے پہلی بار خود بھی اداکاری کی تھی۔ ٹائٹل رول نصراللہ بٹ ہی کا تھا جن کی ڈار صاحب کے ساتھ اگلی فلم سخی لٹیرا (1971) ، بطور ہیرو آخری فلم ثابت ہوئی تھی۔ اس فلم میں بھی ڈارصاحب نے اداکاری کی تھی۔ مالا کا اس فلم میں یہ کورس گیت سپرہٹ ہوا تھا "پھول بکھیرو ، نغمے چھیڑو ، پیارلٹاؤ ، آیا ہے جان بہاراں۔۔"
ستر کی دھائی میں فلمی شوق بڑے شہروں سے ہوتا ہوا چھوٹے شہروں اور قصبوں تک بھی پہنچ گیا تھا۔ ملک بھر میں سینماؤں کی بہتات ہوگئی تھی جس کی وجہ سے فلمی بزنس اپنے انتہائی عروج پر پہنچ گیا تھا۔ پاکستان کے ساٹھ فیصد سینما گھر صرف صوبہ پنجاب میں ہوتے تھے جہاں پنجابی فلموں کا راج ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس دور میں پنجابی فلموں کا بزنس اردو فلموں کی نسبت بہت زیادہ ہوتا تھا کیونکہ پنجابی فلموں کا سرکٹ ، اردو فلموں کے سرکٹ سے چار سے پانچ گنا بڑا ہوتا تھا۔ زیادہ تر فلمسازوں کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ پنجابی فلمیں بنائیں۔ اسلم ڈار نے بھی مسلسل پانچ اردو فلمیں بنانے کے بعد اپنی پہلی پنجابی فلم بشیرا (1972) بنائی جو ایک ٹرینڈ میکر فلم ثابت ہوئی تھی۔
اسلم ڈار اور سلطان راہی
اسلم ڈار کی پہلی سپرہٹ فلم بشیرا (1972)
اسلم ڈار کی ہدایتکار کے طور پر پہلی ہی پنجابی فلم بشیرا (1972) نے ایک تاریخ رقم کردی تھی۔ سلطان راہی ، جو ایک درجہ دوئم کے ولن اورمعاون اداکار تھے ، وہ اس فلم کی کامیابی سے صف اول کے اداکار بن گئے تھے۔
اسلم ڈار بتاتے تھے کہ اصل میں فلم بشیرا (1972) کےٹائٹل رول کے لیے وقت کے مقبول اداکار ساون کو کاسٹ کیا گیا تھا جو فلم خان چاچا (1972) کی شاندار کامیابی کے بعد وہ بڑی اونچی ہواؤں میں اڑ رہے تھے۔ ڈار صاحب نے ساون کے معاوضے کے دسویں حصے میں سلطان راہی سے یہ کردار کروا لیا تھا لیکن فلم بننے کے بعد کوئی ڈسٹری بیوٹر فلم اٹھانے کو تیار نہیں تھا۔ لیکن جب فلم چلی تو پھر چلتی ہی چلی گئی اور سلطان راہی ، فلموں کی ضرورت بنتے چلے گئے۔
فلم بشیرا (1972) ہر لحاظ سے ایک شاہکار فلم تھی جس میں اسلم ڈار نے پہلی بار مسعودرانا سے یہ قوالی گوائی تھی "کاہنوں کڈھنا ایں نک نال لکیراں ، تو دل دی لکیر کڈھ لے۔۔" یہ لاجواب قوالی فلم کی ہائی لائٹ اور ایک ٹرننگ پوائنٹ تھی جس کے دوران سلطان راہی کی اداکاری اورخصوصاً چہرے کے تاثرات مثالی تھے۔ مجھے وہ فلم بین کبھی نہیں بھول سکا جو اپنے ایک ساتھی کو بتارہا تھا کہ سلطان راہی ، پہلے بڑے بُرے کام کیا کرتا تھا لیکن یہ قوالی سن کر اس نے دل سے توبہ کی اور بڑا نیک ہوگیا تھا اور پھر زندگی بھر اچھے کام کرتا رہا۔۔!
اسلم ڈار ، سلطان راہی کی کارکردگی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنی اگلی اردو فلم زرق خان (1973) کا ٹائٹل رول بھی انھی سے کروایا تھا۔ اس فلم کی خاص بات مسعودرانا کا ایک کلاسیکل گیت تھا "یاد میں تیرے صدیاں بیتیں ، ایک جھلک دکھلا جا۔۔" یہ گیت اداکارہ رنگیلا پر فلمایا گیا تھا جو اس وقت مقبولیت کے سوا نیزے پر تھے۔
اسلم ڈار کی فلم بابل صدقے تیرے (1974) بھی ایک بہترین معاشرتی فلم تھی جس میں سلطان راہی کا ٹائٹل رول تھا اور بڑی عمدہ پرفارمنس تھی۔ اس فلم میں ڈارصاحب نے پہلی بار شاہد کو عالیہ کے مقابل ہیرو لیا تھا۔ سلطان راہی پر فلمایا ہوا مہدی حسن کا تھیم سانگ "تیرابابل صدقے تیرے ، نی بھاگاں والیے۔۔" بڑا پسند کیا گیا تھا۔
فلم انوکھا داج (1981) ، ایک اور بہترین سماجی فلم تھی جو جہیز کے موضوع پر بنائی گئی تھی۔ چھوٹے موٹے کردار کرنے والی اداکارہ تانی کی کارکردگی بڑی زبردست تھی۔
اس فلم کے مرکزی ہیرو تو سلطان راہی تھے لیکن سیکنڈ پئر کے طور پر وحیدمراد کی جوڑی دردانہ رحمان کے ساتھ بنائی گئی تھی جسے انھوں نے پہلی بار سلطان راہی ہی کے مقابل فلم باغی شیر (1983ء میں فرسٹ ہیروئن کے طور پر کاسٹ کیا تھا اور شاید اسی احسان کے بدلے میں بعد میں اس سے بڑھاپے میں شادی بھی کرلی تھی جو کچھ عرصہ بعد علیحدگی پر منتج ہوئی تھی۔
اسلم ڈار اور ندیم
اسلم ڈار کی پہلی سپرہٹ اردو فلم دل لگی (1974)
اسلم ڈار کے فلمی کیرئر کی سب سے کامیاب اردو فلم دل لگی (1974) تھی جس میں انھوں نے پہلی بار شبنم اور ندیم کی جوڑی کو کاسٹ کیا تھا۔ عام طور پران دونوں اداکاروں کی زیادہ تر فلمیں کراچی سرکٹ میں کامیاب ہوتی تھیں لیکن یہ ان اردو فلموں میں سے ایک فلم تھی کہ جس نے لاہور سرکٹ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔
موسیقار ماسٹررفیق علی نے اسلم ڈار کی گیارہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ نغمات کی مقبولیت کے لحاظ سے یہ سب سے بڑی فلم تھی۔ بیشتر گیت مقبول ہوئے تھے اور سبھی گیتوں پر مسعودرانا کے گائے ہوئے دونوں گیت بھاری ثابت ہوئے تھے۔ "آگ لگا کر چھپنے والے ، سن میرا افسانہ ، میں گیتوں میں تجھے پکاروں ، لوگ کہیں دیوانہ۔۔" اور "مرجھائے ہوئے پھولوں کی قسم ، اس دیس میں پھر نہ آؤںگا ، مالک نے اگر بھیجا بھی مجھے ، میں راہوں میں کھو جاؤں گا۔۔"
اسلم ڈار کی ندیم کے ساتھ ایک فلم سیاں اناڑی (1976) بھی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان فلم ڈیٹابیس کے مطابق ، پاکستان میں لفظ 'اناڑی' پر اب تک چار فلمیں بنی ہیں جن میں سے تین فلموں کے ہیرو ندیم تھے۔ ایسی ہی ایک کامیڈی فلم بڑے میاں دیوانے (1977) بھی تھی جس کے روایتی ہیرو تو ندیم تھے لیکن فلم کا مرکزی کردار طالش کا تھا جنھوں نے ایک کامیڈی رول کرکے اپنی عظمت کی دھاک بٹھا دی تھی۔ ان پر احمدرشدی کا یہ شوخ گیت فلمایا گیا تھا "آج ملا ہے مجھ کو آخری چانس ، لیٹ می ڈانس ۔۔"
اسلم ڈار صاحب کی ندیم کے ساتھ کل چھ فلمیں تھیں جو اردو فلموں کے کسی بھی ہیرو کے ساتھ ان کی زیادہ سے زیادہ فلموں کا ریکارڈ ہے۔ دیگر فلموں میں پہلی نظر (1977) ، پھول اور مالی (1994) اور ہم تمہارے ہیں (1997) تھیں۔
اسلم ڈار کی دیگر فلمیں
اپنی اگلی دونوں فلموں میں اسلم ڈار نے وحیدمراد کو کاسٹ کیا تھا جو اس وقت تک اپنی مارکیٹ ویلیو کھو چکے تھے۔ فلم زبیدہ (1976) میں اخلاق احمد کا یہ گیت کبھی میرے لبوں پر مچلتا رہتا تھا "ساتھی میرے ، بن تیرے ، کیسے بیتے گی عمریا بن تیرے۔۔" اس گیت کو میڈم نے بھی گایا تھا لیکن مجھے مردانہ ورژن زیادہ پسند تھا۔
اسلم ڈار کی نغماتی فلم وعدہ (1976)
فلم وعدہ (1976) ایک اور نغماتی فلم تھی جس میں میڈم نورجہاں کے اس گیت "اک لڑکا دیوانہ ، بن کے میرا پروانہ ، خود بھی جلے اور مجھے بھی جلائے ، جہاں جہاں جاؤں میرے پیچھے پیچھے آئے۔۔" کے علاوہ مہدی حسن کے یہ تین گیت بڑے مقبول ہوئے تھے "میرے دل سے زندگی بھر ، تیرا پیار کم نہ ہوگا ، تجھے بھول جاؤ مجھ سے ، کبھی یہ ستم نہ ہوگا۔۔" ، " بھیگی بھیگی رات میں ، یونہی برسات میں ، جھیل والی آنکھوں والی لڑکی سے ملاقات ہوگئی۔۔" اور "پیار کیا ہے ، پیار کریں گے ، زندگی بھر تیرا ، انتظار کریں گے۔۔" یہ وہ دور تھا جب احمدرشدی زوال پذیر ہوچکے تھے اور وحیدمراد اور دیگر اردو فلمی ہیروز پر زیادہ تر مہدی حسن کے گیت فلمائے جاتے تھے ۔
فلم پہلی نظر (1977) ، اسلم ڈار کی محمدعلی کے ساتھ اکلوتی فلم تھی۔ اس فلم میں میڈم نورجہاں کے یہ گیت بڑے مقبول ہوئے تھے "دنیا کب چپ رہتی ہے ، کہنے دے جو کہتی ہے ، مت کر دنیا کی بات سجن ، کہیں بیت نہ جائے رات سجن۔۔" اور "سجناں رے ، کیوں بھیگے تورے نین۔۔" مہدی حسن کا یہ گیت بھی دل کے تار چھیڑ دیتا ہے "اے جان تمنا ، تیرا چرچا نہ کریں گے ، مرجائیں گے لیکن تجھے رسوا نہ کریں گے۔۔"
فلم گوگا (1978) ، یوسف خان کے ساتھ اسلم ڈار کی اکلوتی فلم تھی۔ اس فلم میں آسیہ کی اداکاری بڑی مثالی تھی جس نے ڈارصاحب کی سب سے زیادہ فلموں میں ہیروئن کے طور پر کام کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلم ڈار نے اپنے عہد کے دیگر نامور فنکاروں میں سے سدھیر ، فردوس ، اعجاز ، زیبا ، کمال اور صائمہ وغیرہ کو کبھی کسی فلم میں کاسٹ نہیں کیا تھا۔ ان کی زیادہ تر فلمیں سلطان راہی ہی کے ساتھ تھیں۔
فلم دو دل (1981) میں اسلم ڈار نے بابرہ شریف کے ساتھ آصف رضا میر اور غلام محی الدین کو کاسٹ کیا تھا۔ اس فلم کا ایک سین ناقابل فراموش تھا جب بابرہ اور آصف کی ایک کمرے میں ملاقات ہوتی ہے اور اچانک بجلی چلی جاتی ہے۔ برتن گرنےکے شور پر ماں (صبیحہ) پوچھتی ہے کہ اندرکیا ہورہا ہے؟ جواب ملتا ہے کہ کوئی چوہا یا چمگادڑ ہے جو تنگ کررہا ہے۔بجلی آجاتی ہے تو بابرہ ہانپتی کانپتی اپنے گھر جانے کی جلدی میں ہوتی ہے تو پوچھنے پر سرسری سا جواب دیتی ہے کہ"میں چلتی ہوں ، بہت ہوچکی۔۔!" اس منظر سے دل والوں کو بہت کچھ یاد آجاتا ہے۔ کیا غضب کی پرفارمنس تھی بابرہ شریف کی اور کیا منظر تخلیق کیا تھا اسلم ڈار صاحب نے۔۔!
فلم سلسلہ (1987) میں اسلم ڈار نے پہلی بار انجمن کو کاسٹ کیا تھا۔ فلم داغ (1988) ، جاوید شیخ اور سلمیٰ آغا کے ساتھ اکلوتی فلم تھی۔ آخری فلم ڈولی سجا کے رکھنا (1998) تھی۔ اگلے سولہ سال تک انھوں نے کوئی فلم نہیں بنائی تھی اور 2014ء میں انتقال ہوگیا تھا۔
اسلم ڈار اور مسعودرانا کی چند یادگار فلمیں
عشق نچاوے گلی گلی
بشیرا (1972) اور دل لگی (1974) کے بعد اسلم ڈار کے فلمی کیرئر کی تیسری بڑی فلم عشق نچاوے گلی گلی (1984) تھی۔ اس شاہکار نغماتی اور رومانوی فلم میں انھوں نے ایک نیا تجربہ کیا تھا جب ایک نوجوان اداکار ایاز کو دردرانہ رحمان کے مقابل ہیرو کے طور پر پیش کیا تھا۔ ایاز نے بہت اچھی اداکاری کی تھی لیکن زیادہ فلموں میں کام نہیں کیا تھا۔ اپنی پہلی ہی سپرہٹ پنجابی فلم کا ہیرو ہونے کے باوجود اس نے فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ دیا تھا۔ اس فلم میں دردانہ رحمان ، صبیحہ اور طالش کی اداکاری بھی بہت اچھی تھی۔
فلم عشق نچاوے گلی گلی (1984) میں موسیقار کمال احمد نے مسعودرانا کےچار گیت گوائے تھے جن میں سے "یار منگیا سی ربا تیتھوں رو کے ، کہیڑی میں خدائی منگ لئی۔۔" ایک سٹریٹ سانگ ثابت ہوا تھا۔ یہ اکلوتی فلم تھی جس میں مسعودرانا کے ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ تین دوگانےتھے۔ فلم کے ٹائٹل سانگ کے علاوہ "دو نین تیرے نال لڑ گئے نیں۔۔" کیا غضب کا گیت تھا۔ گو ہمارے ہاں سرکاری یا نجی ایوارڈز یا اعزازات قابل ذکر نہیں ہوتے لیکن ریکارڈز پر یہ بات موجود ہے کہ اسی فلم کے گیتوں پر مسعودرانا کو پاکستان کا پہلا قومی ایوارڈ یافتہ گلوکار ہونے کا ناقابل شکست اعزاز حاصل ہوا تھا۔ اگر ایکشن فلموں کی بھرمار نہ ہوتی اور ایسی رومانٹک پنجابی فلمیں بنتی رہتیں تو مسعودرانا کے فلمی گیتوں کی تعداد ایک ہزار سے کہیں زیادہ ہوتی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ اردو فلموں کے برعکس پنجابی فلموں کے شائقین کے لیے مردانہ گیتوں میں کشش کم ہوتی تھی۔ اس کے باوجودسب سے زیادہ فلموں میں سب سے زیادہ گیت گانا مسعودرانا کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھا۔
اسلم ڈار نے اپنی ایک فلم شاہ زمان (1986) میں ظہورعلی نامی اداکار کو ٹائٹل رول میں پیش کیا تھا ، دردانہ رحمان ہیروئن تھی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں مہدی حسن کا ایک گیت تھا جو افضال احمد پر فلمایا گیا تھا "دل میرا ہر ویلے ایخو ہی پکاردا، نئیں ٹٹنا اے ناطہ تیرے میرے پیار دا۔۔" یہی گیت فلم کے اختتام پر بھی تھا لیکن مسعودرانا اور ساتھیوں کی آوازوں میں تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مہدی حسن ، اونچی سروں میں نہیں گا سکتے تھے۔ یہ اکلوتا گیت ہے جو ایک ہی دھن میں مہدی حسن اور مسعودرانا نے الگ الگ گایا تھا۔ ، ان دونوں عظیم گلوکاروں کا کوئی مشترکہ دوگانا نہیں ملتا۔
پیار کرن توں نئیں ڈرنا
اسلم ڈار کی ایک اور یادگار فلم پیار کرن توں نئیں ڈرنا (1991) بھی تھی جسے اردو زبان میں ڈب کر کے کراچی سرکٹ میں 'پیار کیا تو ڈرنا کیا' کے نام سے ریلیز کیا گیا تھا۔ شان کے ساتھ ان کی یہ پہلی فلم تھی جو انتہائی اعلیٰ پائے کی ایک رومانٹک اور میوزیکل فلم تھی۔ ایک ایک فریم قابل تعریف تھا اور پتہ چلتا تھا کہ ایک ماہر ہدایتکار نے یہ فلم بنائی ہے۔ دردانہ رحمان نے اچھی اداکاری کی تھی لیکن اسے شان کی ہیروئن کے طور پر قبول نہیں کیا گیا تھا حالانکہ اس نے اچھی اداکاری کی تھی۔ شان کے فلمی کیرئر کا یہ دوسرا سال تھا اور وہ ایک پیدائشی فنکار ہے جبکہ صبیحہ خانم نے ایک ایک فریم میں یہ ثابت کیا تھا کہ وہ کیوں ایک عظیم اداکارہ تھی۔ مصطفیٰ قریشی اور بہار بھی اپنے کرداروں میں خوب رہے تھے۔
فلم پیار کرن توں نئیں ڈرنا (1991) کی خاص بات اس کی موسیقی تھی۔ موسیقار کمال احمد نے پنجابی اور اردو ورژن کو ملا کر کل 19 گیت کمپوز کیے تھے جن میں سے 12 گیتوں میں مسعودرانا کی آواز تھی۔ یہ سبھی گیت اداکار شان پر فلمائے گئے تھے جن کی آمد سے رانا صاحب کی مصروفیت میں خاصا اضافہ ہوگیا تھا حالانکہ ایکشن فلموں کے اس دور میں مردانہ گیتوں کی ضرورت ختم ہوگئی تھی۔
اس فلم کا ایک گیت "دو ہنساں دا جوڑا ، اڈدا ہی جائے۔۔" آئیڈیو کیسٹ میں مسعودرانا کی آواز میں تھا لیکن فلم میں موسیقار کمال احمد نے خود گایا تھا۔ دیگر گیتوں میں مسعودرانا کا یہ گیت سب سے اعلیٰ پائے کا تھا "رب نیں اے دنیا پیار لئی بنائی اے ، مٹی دیے کھڈونیاں نوں سمجھ نہ آئی اے۔۔" جبکہ دیگر دونوں سولو گیت بھی ان کے مخصوص سٹائل میں تھے "تیری گلی وچ جینا سجناں ، تیری گلی وچ مرنا ، پیار کرن توں نئیں ڈرنا۔۔" اور "پیار وی جھوٹا ، یار وی جھوٹا ، ویکھ لئی ساری خدائی ، دنیا والے ، کول بلا لے۔۔" ان گیتوں کا اردو ترجمہ چوں چوں کا مربہ تھا۔
اس فلم کا یہ گیت "دو ہنسوں کا جوڑا ، اڑتا ہی جائے۔۔" سن کر مجھے ایک واقعہ یاد آجاتا ہے جب اس گیت کے شاعر خواجہ پرویز نے ایک تقریب میں ایک بھارتی شاعر کا مذاق اڑا دیا تھا جس نے لتا منگیشکر کے لیے یہ گیت لکھا تھا "دو ہنسوں کا جوڑا ، بچھڑ گئیو رے۔۔" اعتراض یہ تھا کہ جوڑا تو ہوتا ہی دو کا ہے ، پھر 'دو' اور 'جوڑا' ایک ساتھ کہنے کا کیا جواز بنتا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ خواجہ صاحب نے دانستہ وہی غلطی دھرائی جس پر کبھی خود معترض تھے۔
اس فلم کے اردو گیتوں کی شاعری بھی انتہائی بے تکی اور بے جان تھی۔ پنجابی گیتوں کو حرف بہ حرف اردو ترجمہ کرکے گوایا گیا تھا جو کسی طور پر مناسب نہیں تھا۔ دونوں زبانوں کا مزاج الگ الگ ہے اور اسی کےمطابق اگر اردو گیتوں کی شاعری الگ سے کروائی جاتی اور انھیں کراچی کے کسی گلوکار سے گوایا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ مسعودرانا ، اپنے کیرئر کے انجام کی طرف بڑھ رہے تھے اور ان کی آواز میں وہ کشش یا خوبی نہیں رہی تھی جو عروج کے دور میں انھیں دیگر سبھی گلوکاروں میں ممتاز کرتی تھی۔ یہ اور بات تھی کہ موسیقاروں کے پاس مسعودرانا سے بہتر کوئی چوائس نہیں ہوتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ انھیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ اپنی پہلی فلم سے لے کر اپنی موت تک فلمی گائیکی کی ضرورت بنے رہے تھے۔
مسعودرانا
نے ایک فلم کے 12 گیت گا کر
ایک ریکارڈ قائم کردیا تھا
پاکستان میں کسی بھی پلے بیک سنگر کا کسی بھی فلم کے لیے زیادہ سے زیادہ یعنی 12 گیت گیت گانے کا یہ ایک منفرد ریکارڈ تھا۔ موسیقار کمال احمد ، مسعودرانا کے فن کے بہت بڑے مداح تھے اور انھوں نے زیادہ تر گیت مسعودرانا ہی سے گوائے تھے۔ ایک فلم مستانہ (1973) میں بھی انھوں نے مسعودرانا سے سات گیت گوائے تھے اور ایک سین میں آکر ان کی گائیکی کی تعریف بھی کی تھی۔ فلم پیار کرن توں نئیں ڈرنا (1991) کے گیت اگرچہ چھ چھ کر کے پنجابی اور اردو ورژن میں گائے گئے تھے لیکن فلم ایک ہی تھی اور اعدادوشمار میں یہ 12 گیت ہی شمار ہوں گے۔ پاکستان فلم میگزین پر بھی سبھی ڈبل ورژن فلموں کو ایک ہی فلم شمار کیا گیا ہے حالانکہ ان فلموں کے مکالمے اور گیت الگ الگ ہوتے تھے ، یہاں تک کہ بعض فلموں کے نام بھی الگ الگ ہوتے تھے۔
ریکارڈز کے لیے یاد رہے کہ عدنان سمیع خان نے اپنی اکلوتی فلم سرگم (1995) میں گیارہ گیت گائے تھے جو خود انھی پر فلمائے گئے تھے۔ ان گیتوں کے موسیقار بھی وہ خود تھے ، لیکن وہ ایک مستند پس پردہ گلوکار نہیں تھے اور نہ ہی وہ گیت کسی دوسرے اداکار کے لیے گائے گئے تھے۔
اسلم ڈار کی مسعودرانا کے ساتھ آخری فلم سلسلہ پیار دا (1992) تھی۔ اس فلم میں شان کے ساتھ نادیہ نامی اداکارہ فرسٹ ہیروئن تھی۔ کمال احمد کی موسیقی میں مسعودرانا کے دو گیت تھے جن میں سے یہ گیت بڑا منفرد تھا "مصور دی سوچ اے ، نہ شاعر دی غزل ، میری آئیڈیل۔۔" گیت بہت اچھا تھا لیکن مجھے اس گیت سے یہ اختلاف رہا ہے کہ اس میں اونچی سروں کی گنجائش نہیں تھی لیکن نجانے ہمارے موسیقار حضرات ، اونچی سروں میں گائے ہوئے گیتوں کو زیادہ اہمیت کیوں دیتے تھے۔ مسعودرانا نے اپنے کیرئر کے آخر میں اونچی سروں میں زیادہ گیت گائے تھے جن میں سےبہت سے گیت سماعت پر گراں گزرتے تھے کیونکہ ان کی آواز میں وہ کشش اور دلکشی نہیں رہی تھی جو کبھی ان کا طرہ امتیاز ہوتا تھا۔
افسانوی اور حقیقی ٹارزن
اسلم ڈار کی پہلی فلم دارا (1968) کا مرکزی کردار Tarzan ، میری عمر کے لوگوں کے لیے ایک ناقابل فراموش کردار رہا ہے۔ ایک امریکی ادیب (1950-1875) Edgar Rice Burroughs نے 1912ء میں ایک ناول لکھا تھا جس میں ایک ایسے سفید فام نوجوان کو مرکزی کردار میں پیش کیا تھا جس کےوالدین، ایک افریقی جنگل میں بن مانسوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں اور وہ ، انھی کے پاس پل کر جوان ہوتا ہے۔
یہ کردار اپنی بہادری ، رحمدلی اور انسانی دوستی کی وجہ سے خاص طور پر بچوں میں بڑا مقبول ہوا تھا۔ بین الاقوامی شہرت کی حامل یہ کہانی اس قدر عام ہوئی تھی کہ اس پر بے شمار ناول اور کتابیں لکھی گئیں ، بے شمار فلمیں ، ریڈیو اور ٹی وی ڈرامے بنے، دنیا بھر کے اخبارات و جرائد میں باقاعدگی سے کومک سٹرپس Comic strips چھپتے تھے جبکہ بڑی تعداد میں کومک کتابیں اور رسالے بھی شائع ہوتے تھے۔
ٹارزن کی واپسی
مجھے اپنے انتہائی بچپن سے اخبارات پڑھنے سے دلچسپی کی پہلی بڑی وجہ بھی ٹارزن کے کومک سٹرپس ہوتے تھے جو روزنامہ جنگ میں باقاعدگی سے شائع ہوتے تھے۔ ہاتھوں کی ڈرائنگ سے بنے ہوئے کرداروں کےمکالمے مختلف سائز کے بکس اور باقی عبارت انگلش میں لکھی ہوئی ہو تی تھی جبکہ کیپشن میں اردو ترجمہ ہوتا تھا۔ میں نے زندگی میں جو پہلا ناول پڑھا تھا وہ پرائمری سکول کے زمانے میں 'ٹارزن کی واپسی' تھا۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس ناول کی قیمت پچاس پیسے تھے جو اس وقت میرے پانچ دنوں کا جیب خرچ ہوتا تھا ، روزانہ دس پیسے ملتے تھے جو پورا ہفتہ بچت کرنے کے بعد خریدنے کا موقع ملا تھا۔
بچپن میں جب پہلی بار ڈنمارک آیا تھا تو یہاں بھی ٹارزن کو پایا۔ ہر ہفتے Tarzan اور اس کے بیٹے Korakکے کومک رسالے چھپتے تھے۔ اخبارات میں دیگر کومک سٹرپس کے علاوہ ٹارزن کا سلسلہ بھی چھپتا تھا۔ لائبریری میں بڑی بڑی کتابیں بھی ملتی تھیں جن میں بڑی خوبصورت تصاویر کے ساتھ ساری کہانی بیان کی گئی تھی۔ ٹارزن پر بے شمار فلمیں بھی بنی تھیں۔ مجھے کبھی نہیں بھولتا کہ جب میں نے ٹارزن کی پہلی بلیک اینڈ وہائٹ فلم ٹی وی پر دیکھی تھی تو میری بے تابی کا کیا عالم تھا ، ظاہر ہےکہ ٹارزن میرے بچپن کا آئیڈیل ہیرو جوتھا۔
وہ منظر کبھی نہیں بھلا سکا جب فروری 1976ء کی ایک اتوار کو چار بجنے کا بڑے بے چینی سے انتظارکررہا تھا کیونکہ اس وقت سویڈش ٹی وی پر ٹارزن کی ایک اور فلم آرہی تھی۔ فلم سے کچھ دیر پہلے والدصاحب مرحوم و مغفور گھر آئے اور مجھے پوچھا کہ "تمھیں معلوم ہے کہ ائیرپورٹ پر کون آرہا ہے۔۔؟"
مجھے نہیں معلوم تھا لیکن جب انھوں نے بتایا کہ وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقارعلی بھٹو ، دورہ کینیڈا کے سلسلے میں ڈنمارک تشریف لارہے ہیں تو میں ٹارزن کو بھول گیا تھا اور اس افسانوی ہیرو کے بجائے حقیقی زندگی کے عظیم اور بے مثل ہیرو کو دیکھنے کے لیے دیگر بے شمار پاکستانیوں کی طرح کوپن ہیگن ایئرپورٹ پر موجود تھا۔
ذوالفقار علی بھٹوؒ پر ایک ویب سائٹ
ستر کی دھائی میں کوپن ہیگن ائیرپورٹ صرف ایک عمارت پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس کے گرد جنگلے سے جہاز اترتے ، چڑھتے اور ان میں مسافروں کے نکلنے اور داخل ہونے کے مناظر صاف دکھائی دیتے تھے۔
میں نے زندگی میں پہلی بار شام کے وقت پی آئی اے کے طیارے کو لینڈ کرتے ہوئے دیکھا تھا جس میں سے بھٹو صاحب اپنے وفد کے ہمراہ برآمد ہوئے تھے۔ پروٹوکول کے بعد وہ سیدھے ہماری طرف چلے آئے تھے جہاں بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے اور فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے ان سے ہاتھ بھی ملائے لیکن میں اس سعادت سے محروم رہا تھا۔ میرے لیے یہی اعزاز کیا کم تھا کہ ایک تاریخ ساز اور عظیم المرتبت ہستی کو اپنے سامنے جیتے جاگتے ، دیکھنے اور سننے کا نادر موقع مل رہا تھا۔
بھٹو صاحب نے ایک مختصر سا خطاب فرمایا تھا اور ان کا یہ جملہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ "بیرون ملک مقیم ہر پاکستانی ، اپنے ملک کا سفیر ہے اور آپ ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے آپ کے ملک و قوم کی بدنامی ہوتی ہو۔۔" لوگوں نے دو مطالبات پیش کیے تھے کہ ایک تو سفارتخانہ نہیں تھا اور دوسرا پاکستان اور ڈنمارک کے مابین براہ راست فضائی رابطہ نہیں تھا۔ بھٹو صاحب نے نہ صرف یہ دونوں مطالبات پورے کرنے کا وعدہ کیا تھا بلکہ چند ماہ تک اپنا وعدہ وفا بھی کردیا تھا۔۔!
(9 اردو گیت ... 14 پنجابی گیت )