چالیس سال سے زائد عرصہ فلمی دنیا میں گزرانے کے باوجود ریاض الرحمان ساغر نے بہت کم کام کیا تھا۔۔!
ریاض الرحمان ساغر کی پہلی فلم ، ہدایتکار اور مصنف عزیز میرٹھی کی اردو فلم عالیہ (1967) تھی۔ موسیقار ماسٹرعنایت حسین کی دھن میں پہلا گیت تھا:
- کہو ، وعدہ ہوا ، رسم وفا ، ہر دم نبھانے کا۔۔
یہ ایک دوگانا تھا جسے احمدرشدی اور مالا نے گایا تھا اور فلم میں کمال اور شمیم آرا پر فلمایا گیا تھا۔
پہلا ہٹ گیت فلم شریک حیات (1968) میں تھا:
- میرے دل کے صنم خانے میں اک تصویر ایسی ہے ، جو بالکل آپ جیسی ہے۔۔
مسعودرانا کے گائے ہوئے اس گیت کی دھن اے حمید نے بنائی تھی۔
فلم شریک حیات (1968) کی یاد
اپنے ایک انٹرویو میں ساغرصاحب اس گیت کا پس منظر بیان کرتے ہیں کہ جب انھوں نے یہ گیت لکھا تو اس وقت تک فلم کا نام نہیں رکھا گیا تھا لیکن جب اس گیت کی ریکارڈنگ سے فلم کی افتتاحی تقریب ہوئی تو ان کے لکھے ہوئے مکھڑے "سنیئے ، بُرا نہ مانئیے ، سننے کی بات ہے ، درکار مجھ کو ایک 'شریکِ حیات' ہے۔۔" سے فلم کا نام منتخب کیا گیا تھا۔
اسی سال عزیز میرٹھی کی ایک اور فلم لالہ رخ (1968) میں ساغر صاحب نے ایک مزاحیہ گیت بھی لکھا تھا "دنیا تو جھکی ہے آج میرے یار کے آگے۔۔" مسعودرانا اور آئرن پروین کی آوازیں تھیں اور موسیقار سلیم اقبال صاحبان تھے۔
شباب کیرانوی کے ساتھ ریاض الرحمان ساغر کی جوڑی
ریاض الرحمان ساغر کے فلمی کیرئر میں ایک خوشگوار موڑ اس وقت آیا جب ان کا ساتھ معروف فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف اور نغمہ نگار شباب کیرانوی کے ساتھ ہوا تھا۔ انھوں نے شباب صاحب اور ان کے دونوں صاحبزادوں ، ظفرشباب اور نذرشباب کی فلموں میں نہ صرف گیت لکھے بلکہ بیشتر فلموں کے مکالمے اور سکرین پلے وغیرہ بھی لکھے تھے۔ شمع (1974) ، نوکر (1975) ، شبانہ (1976) ، سسرال (1977) ، آواز (1978) وغیرہ چند بڑی بڑی فلمیں اس اشتراک میں بنی تھیں۔
فلم میری دوستی میرا پیار (1968) پہلی فلم تھی جس کے مکالموں کے علاوہ بیشتر گیت ساغرصاحب نے لکھے تھے۔
شباب صاحب ، فلمسازی میں بڑے دلیرانہ فیصلے کیا کرتے تھے۔ اس فلم میں انھوں نے ایک نیا تجربہ کیا تھا۔ دو ہیروئنوں میں سے ایک روزی نامی اداکارہ غالباً مشرقی پاکستان سے تعلق رکھتی تھی جو پاکستان کی پہلی رنگین فلم سنگم (1964) کی ہیروئن تھی جبکہ انارکلی ایک نیا چہرہ تھا جو پھر کبھی نظر نہیں آیا۔
اداکار مسعود اختر
فرسٹ ہیرو کے طور پر مسعوداختر کا نام تھا جو سٹیج کے ایک نامور اداکار تھے جو اسی سال کی فلم سنگدل (1968) میں ولن کے طور پر متعارف ہوئے تھے۔
سو سے زائد فلموں میں کام کرنے کے باوجود ہیرو کے طور پر کبھی کامیاب نہیں ہوئے اور زیادہ تر سیکنڈ ہیرو ، معاون اداکار یا ولن کے کرداروں میں نظر آتے تھے۔
اداکار زاہد خان
دوسرے ہیرو زاہدخان تھے جو فلم زمین (1965) میں پہلی بار نظر آئے تھے اور عام طور پر ایک معاون اداکار کے طور پر تین درجن سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔ انھیں اس فلم میں فرسٹ ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا تھا لیکن ناکام رہے۔
زاہدخان کی واحد پہچان فلم آنسو (1971) میں فردوس کے شوہر اور خانصاحب مہدی حسن کے مشہور زمانہ گیت "جان جان ، تو جو کہے ، گاؤں میں گیت نئے۔۔" کی وجہ سے تھی۔
موسیقار تصدق حسین کی دھنوں میں فلم میری دوستی میرا پیار (1968) میں ریاض الرحمان ساغر کے لکھے ہوئے دو کورس گیتوں میں مسعودرانا کی آواز شامل تھی اور ساتھی گلوکاران احمدرشدی ، مالا اور تانی تھے۔ گیتوں کے بول تھے:
- جوانی کے دن ہیں ، امنگوں کی راتیں۔۔
- ساتھ ہے میرا ہمسفر اور دنیا جوان ہے۔۔
یہ دونوں کورس گیت روزی ، انارکلی ، مسعوداختر ، زاہدخان اور ساتھیوں پر فلمائے گئے تھے۔
ریاض الرحمان ساغر کے چند مشہور گیت
اس دور میں ریاض الرحمان ساغر کے چند مقبول عام گیت کچھ اس طرح سے تھے:
ریاض الرحمان ساغر کی یادگار فلم سرگم (1995)
ریاض الرحمان ساغر نے 1980 کی دھائی میں ایکشن پنجابی فلموں کے طوفان میں کنارہ کشی کو غنیمت جانا۔
معروف فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف سیدنور نے بطور ہدایتکار اپنی پہلی فلم قسم (1993) بنائی تو ساغرصاحب کو مجبور کیا کہ وہ ان کی فلم کے گیت لکھیں۔ اس دوران ان کی سب سے بڑی نغماتی فلم سرگم (1995) تھی۔
مجھے ذاتی طور پر سیدنور کی سبھی فلموں میں سے یہ فلم بہت پسند آئی تھی حالانکہ اس دور کی فلموں سے میری دلچسپی بڑی محدود ہوتی تھی۔
عدنان سمیع خان نے گلوکاری اور موسیقاری کے علاوہ اداکاری بھی کی تھی۔ یہ اس کی اکلوتی پاکستانی فلم تھی اور بلاشبہ ایک کمال کی فلم تھی جس کی کہانی ، مکالمے ، سکرین پلے ، گیت ، سیٹ اور ڈائریکشن اعلیٰ پائے کی تھی۔
ایک بھارتی فلم سے شہرت حاصل کرنے والی پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کی بیٹی زیبا بختیار کی پہلی پاکستانی فلم تھی جبکہ ایک موسیقار مہاراج حسین کتھک نے اپنی اس اکلوتی فلم میں بڑی نیچرل اداکاری کی تھی۔
واحد بوریت ندیم صاحب کا کردار تھا جو انتہائی غیرضروری اور طویل تھا اور فلم پر بوجھ تھا لیکن کراچی میں فلم چلانے کے لیے کاروباری مجبوری بھی تھی۔
فلم سرگم (1995) کے سبھی گیت بڑے زبردست تھے۔ خاص طور پر
- ذرا ڈھولکی بجاؤ گوریو۔۔
- پیار ہے ، یہی تو پیار ہے۔۔
وغیرہ دل میں اتر جانے والے گیت تھے۔ اس فلم کے گیارہ میں سے دس گیت ریاض الرحمان ساغر نے لکھے تھے جبکہ ایک گیت "اے خدا ، جس نے کی جستجو۔۔" مظفروارثی کا لکھا ہوا تھا۔
ایک فلم میں زیادہ سے زیادہ گیت گانے کا ریکارڈ
عدنان سمیع خان نے اس فلم میں دس گیت گا کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ میری معلومات کے مطابق آج تک پاکستان کے کسی گلوکار نے کسی ایک فلم کے لیے اتنے گیت نہیں گائے۔
فلم عشق لیلیٰ (1957) میں عنایت حسین بھٹی کے نو گیت تھے۔ فلم عظمت اسلام (1965) میں سلیم رضا اور فلم درشن (1967) میں بشیراحمد نے آٹھ آٹھ گیت گائے تھے۔ فلم پیارکرن توں نئیں ڈرنا (1991) میں مسعودرانا کے کل گیارہ گیت تھے جبکہ ان کا گایا ہوا بارہواں گیت فلم میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ یہ ایک ڈبل ورژن پنجابی/اردو فلم تھی جس کے چھ پنجابی گیتوں کو اردو میں بھی گایا گیا تھا ، اس لیے ایک فلم کے لیے زیادہ سے زیادہ گیت گانے کا ریکارڈ بدستور عدنان سمیع خان کے نام برقرار رہتا ہے۔
ہو سکے تو میرا ایک کام کرو
نوے کی دھائی میں بھی ریاض الرحمان ساغر نے کئی ایک فلموں کے لیے سپرہٹ گیت لکھے تھے۔ سیدنور ہی کی فلم دوپٹہ جل رہا ہے (1998) میں گلوکار ارشدمحمود کا گایا ہوا ایک خوبصورت گیت
- ہو سکے تو میرا ایک کام کرو۔۔
اس دور میں بڑا مقبول ہوا تھا۔ ستر کی دھائی کے بعد کی فلموں ، فنکاروں اور فلمی موسیقی کے متعلق اپنے محدود علم اور جہالت کا اعتراف ہے ، اس لیے مزید تفصیلات پیش کرنے سے قاصر ہوں۔
موجودہ صدی کے آغاز میں ایک بار پھر ایکشن پنجابی فلموں کے سیلاب میں ساغرصاحب نے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ زندگی کے آخری برسوں میں پھر سرگرم ہوگئے تھے اور کئی ایک فلموں کے گیت لکھے تھے۔ ان کی آخری فلم عشق خدا (2013) کا ذکر ملتا ہے۔
ریاض الرحمان ساغر کا پس منظر
یکم دسمبر1941ء کو بھارتی پنجاب کی ایک ریاست پٹیالہ کے شہر بھٹنڈہ میں پیدا ہونے والے 'ریاض الرحمان' کو 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرنا پڑی۔ دوران سفر انھوں نے اپنے باپ کو سکھ بلوائیوں کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھا اور ایک بے گوروکفن لاش چھوڑ کر بچپن کی انتہائی تلخ یادیں لیے ملتان پہنچے۔ دوران تعلیم ، شاعری کا شوق پیدا ہوا اور ایک مقابلہ جیتنے پر اپنے استاد کے نام 'ساغر' کو اپنے نام کا لاحقہ بنا لیا تھا۔
پنجابی زبان میں فاضل اور بی اے بھی کیا۔ زندگی کا بیشتر حصہ روزنامہ نوائے وقت لاہور سے بطور کالم نویس منسلک رہے۔ یکم جون 2013ء کو انتقال ہوا۔
7 اردو گیت ... 1 پنجابی گیت