A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
ہدایتکار جمیل اختر کی پہلی ہی فلم ایک بہت بڑی اور دھماکہ خیز فلم خاموش رہو (1963) تھی جو دنیا کے قدیم ترین لیکن ایک انتہائی حقیر ، غلیظ اور بدنام زمانہ پیشہ یا دھندہ یعنی جسم فروشی جیسے حساس اور ممنوع موضوع پر بننے والی ایک شاہکار فلم تھی جسے دیکھ کر اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ ان کی پہلی کاوش ہے۔
اصل میں جمیل اختر کو اس سے قبل اپنے استاد محترم خلیل قیصر جیسے لی جنڈ کے ساتھ پانچ فلموں ناگن (1959) ، کلرک (1960) ، عجب خان (1961) ، شہید اور دوشیزہ (1962) میں معاونت کرنے کا اعزاز حاصل تھا۔ وہ ایک جوہر شناس جوہری کے تراشے ہوئے ایک ہیرے بن چکے تھے یا یوں کہئے کہ سونار کی بھٹی میں جل کر کندن ہو چکے تھے۔
جسم فروشی جیسے ایک معاشرتی ناسور پر بننے والی فلم خاموش رہو (1963) کے مصنف ریاض شاہد جیسے عظیم فنکار تھے جن کی کہانی اور مکالموں نے فلم کو چار چاند لگا دیے تھے۔
اس فلم میں فاحشہ ، آبرو باختہ اور مجبور و بے بس عورتوں کی دلالی کرنے والی بدنام زمانہ نائیکہ 'خانم' کا کردار اداکارہ مینا شوری کے فلمی کیرئر کا سب سے بڑا کردار تھا۔
تقسیم سے قبل کی یہ نامور اداکارہ اپنے ایک شوخ فلمی کردار 'لارالپا گرل' کی وجہ سے مشہور تھی۔ 1956ء میں اپنے ہندو خاوند کے ساتھ پاکستان آئی اور پھر یہیں کی ہو کر رہ گئی تھی۔ اسے فلم مس 56ء (1956) میں ہیروئن کاسٹ کیا گیا تھا۔ متعدد فلموں میں ہیروئن آئی لیکن کامیابی کیریکٹرایکٹر کرداروں سے ملی تھی۔
مینا شوری ، اپنے معاشقوں اور شادیوں کی وجہ سے بھی جانی جاتی تھی۔ اس کے آخری شوہر اداکار اسدبخاری تھے جو اس تعلق کو شادی نہیں ، متعہ کہتے تھے جو ایک متنازعہ اسلامی قانون ہے اور جسم فروشی کا ایک حلال طریقہ بھی ہے۔
فلم خاموش رہو (1963) کی روایتی فلمی جوڑی تو دیبا اور یوسف خان کی تھی لیکن اس فلم سے عظیم فلمی ہیرو محمدعلی کو بریک تھرو ملا تھا۔ خلیل احمد کی دھن میں حبیب جالب کا لکھا اور ناہیدنیازی کا گایا ہوا یہ تھیم سانگ
ایک پورا مضمون بیان کررہا ہے۔ جالب صاحب ہی کی لکھی ہوئی ایک نظم
بھی احمدرشدی کی آواز میں فلم میں شامل کی گئی تھی جو در اصل وقت کے فوجی آمر جنرل ایوب خان کے جون 1962ء کو نافذ کیے گئے شخصی آئین کے خلاف بطور احتجاج لکھی گئی تھی۔ اس فلم کا سب سے سپر ہٹ گیت مالا کا گایا ہوا تھا
جمیل اختر کی دوسری فلم مجاہد (1965) بھی ایک بھاری بھر کم فلم تھی جو 10 ستمبر 1965ء کو پاک بھارت جنگ کے دوران ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کی ہائی لائٹ جنگی ترانہ
تھا جو اس دور کا سب سے مقبول ترین ترانہ تھا۔ حمایت علی شاعر کے لکھے ہوئے اس ترانے کی دھن خلیل احمد نے بنائی تھی جبکہ مسعودرانا اور شوکت علی کے علاوہ اس گیت میں دیگر معاون گلوکاروں میں گلوکارہ نورجہاں بیگم (ملکہ ترنم نہیں) ، روشن ، نازش ، عطی اور ساتھی تھے۔ یہ کورس گیت اداکار عباس نوشہ (جو ایک کامیڈین تھے اور فلم ایک رات کے فلمساز بھی تھے) ، دیبا ، مینا شوری اور ساتھیوں پر فلمایا گیا تھا۔
فلم مجاہد (1965) کی کہانی اور مکالمے بھی ریاض شاہد نے لکھے تھے اور اس فلم میں سدھیر ، محمدعلی ، صابرہ سلطانہ اور اسلم پرویز دیگر اہم کردار تھے۔
جمیل اختر کی تیسری فلم مسٹر اللہ دتہ (1966) تھی جو ایک معاشرتی موضوع پر بنائی گئی ایک پنجابی فلم تھی جس کے مصنف بھی ریاض شاہد تھے۔ علاؤالدین نے ٹائٹل رول کیا تھا اور ان پر ایک بڑا دلچسپ گیت فلمایا گیا تھا
تنویرنقوی کا لکھا ہوا یہ گیت جو منظور اشرف کی دھن میں مسعودرانا نے گایا تھا ایک طنزیہ گیت تھا جس میں خود سے سوال کیا گیا تھا کہ 65ء کی جنگ کس نے جیتی تھی۔۔؟ اس گیت میں بھارتی فوجیوں کو کتوں سے تشبیع دی گئی تھی۔
جمیل اختر کی چوتھی فلم نظام لوہار (1966) تھی جو ایک اور بہت بڑی بھاری بھر کم فلم تھی۔ مجھے ذاتی طور پر جن پنجابی فلموں نے بے حد متاثر کیا تھا ان میں سے ایک فلم یہ بھی تھی۔ خاص طور پر فلم کا ٹائٹل رول کرنے والے عظیم اداکار علاؤالدین کے دو کرداروں نظام لوہار اور نظام ڈاکو اور گاؤں کی ایک ماچھن ، یاسمین کے عشق کو بڑے منفرد طریقے سے فلمایا گیا تھا۔
اس فلم کے فلمساز فیاض شیخ تھے جو اس فلم کے مصنف ریاض شاہد کے بھائی تھے۔ اس فلم کی سبھی گیت بڑے دلکش تھے جن کی دھنیں بخشی وزیر صاحبان نے بنائی تھیں اور گیت نگار تنویرنقوی تھے۔ اس فلم کا سب سے مقبول ترین گیت مسعودرانا کا گایا ہوا تھا
جو ریاض شاہد پر فلمایا گیا شاید اکلوتا گیت تھا۔
چار بھاری بھر کم فلموں کے بعد جمیل اختر ایک نئے روپ میں سامنے آئے جب انھوں نے ہلکی پھلکی رومانٹک فلمیں بنانا شروع کر دی تھیں۔ فلم کرشمہ اور ایک مسافر ایک حسینہ (1968) کے بعد فلم نیا سویرا (1970) ایک سیاسی موضوع پر بنائی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ حکمرانوں کی ترجیحات اور روزمرہ عوامی مسائل میں کتنا فرق ہوتا ہے۔
لو ان یورپ (1970) یورپ میں فلمائی ہوئی ایک رومانٹک فلم تھی جس میں اٹلی کے مشہور شہر وینس کی قدرتی نہروں میں کشتی کی سیر کے دوران روزینہ اور کمال پر مالا اور مسعودرانا کا فلمایا ہوا یہ دلکش رومانٹک گیت تھا
خاموش نگاہیں (1971) اور جاپانی گڈی (1972) جاپان میں فلمائی گئی تھیں اور دونوں میں منورظریف مشترک تھے جن پر احمدرشدی کے کامیڈی گیت فلمائے گئے تھے
فلم ایک رات (1972) بہت بڑی رومانٹک اور میوزیکل فلم تھی جس میں خانصاحب مہدی حسن کی غزل
اور میڈم نورجہاں کا گیت
بڑے مقبول گیت تھے۔
فلم لاٹری (1974) میں جمیل اختر نے سدھیر کو ایک کامیڈی رول میں پیش کیا تھا اور ان پر احمدرشدی کا گیت
فلمایا گیا تھا جو اصل میں پنجابی شاعر استاد دامن کی ایک سیاسی نظم تھی جو انھوں نے وقت کے حکمران جناب ذوالفقار علی بھٹو کے بیرونی دوروں پر طنز کرتے ہوئے لکھی تھی۔
ان کی اگلی تین فلمیں چور نوں مور (1976) ، شیرا تے ببرا (1978) اور پشتو فلم دوست دشمن (1978) تھی۔
جمیل اختر کی آخری فلم ریشمی رومال (1984) (1984) تھی جو ایک انتہائی غیر میعاری فلم تھی اور لگتا تھا کہ اس فلم کے ہدایتکار کے طور پر ان کا نام استعمال ہوا ہے۔ اس فلم میں مسعودرانا کے دو بول تھے جن میں ایک شاہد کے لیے گایا گیا تھا
جبکہ دوسرا منیر نیازی کے فلم شہید (1962) میں نسیم بیگم کے مشہور زمانہ گیت "اس بے وفا کا شہر ہے۔۔" کا ایک مصرعہ تھا
جمیل اختر نے بطور ہدایتکار کل 16 فلمیں بنائی تھیں جن میں 8 اردو ، 7 پنجابی اور ایک پشتو تھی۔ ان کے علاوہ وہ 5 فلموں میں معاون ہدایتکار بھی تھے۔ ان کی ذاتی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
1 | فلم ... مجاہد ... اردو ... (1965) ... گلوکار: مسعود رانا ، شوکت علی ، نور جہاں بیگم ، روشن ، نازش ، عطی مع ساتھی ... موسیقی: خلیل احمد ... شاعر: حمایت علی شاعر ... اداکار: عباس نوشہ ، مینا شوری ، دیبا مع ساتھی |
2 | فلم ... مسٹر اللہ دتہ ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: منظور اشرف ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: علاؤالدین |
3 | فلم ... مسٹر اللہ دتہ ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: منظور اشرف ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: علاؤالدین |
4 | فلم ... مسٹر اللہ دتہ ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ، شوکت علی مع ساتھی ... موسیقی: منظور اشرف ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: اسد بخاری ، چوہان ، امداد حسین مع ساتھی |
5 | فلم ... نظام لوہار ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: ریاض شاہد |
6 | فلم ... لو ان یورپ ... اردو ... (1970) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: ایم اشرف ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: روزینہ ، کمال |
7 | فلم ... ریشمی رومال ... اردو ... (1984) ... گلوکار: مسعودرانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: منیر نیازی ... اداکار: (پس پردہ) |
8 | فلم ... ریشمی رومال ... پنجابی ... (1984) ... گلوکار: مسعودرانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: ؟ ... اداکار: (پس پردہ ، شاہد) |
1. | 1966: Nizam Lohar(Punjabi) |
2. | 1970: Love in Europe(Urdu) |
1. | 1965: Mujahid(Urdu) |
2. | 1966: Mr. Allah Ditta(Punjabi) |
3. | 1966: Nizam Lohar(Punjabi) |
4. | 1970: Love in Europe(Urdu) |
5. | 1984: Reshmi Rumal(Punjabi) |
1. | Urdu filmMujahidfrom Friday, 10 September 1965Singer(s): Masood Rana, Shoukat Ali, Noorjehan Begum, Roshan, Nazish, Atti & Co., Music: Khalil Ahmad, Poet: , Actor(s): Abbas Nosha, Meena Shori, Deeba & Co. |
2. | Punjabi filmMr. Allah Dittafrom Monday, 24 January 1966Singer(s): Masood Rana, Shoukat Ali & Co., Music: Manzoor Ashraf, Poet: , Actor(s): Asad Bukhari, Imdad Hussain & Co. |
3. | Punjabi filmMr. Allah Dittafrom Monday, 24 January 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Manzoor Ashraf, Poet: , Actor(s): Allauddin |
4. | Punjabi filmMr. Allah Dittafrom Monday, 24 January 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Manzoor Ashraf, Poet: , Actor(s): Allauddin |
5. | Punjabi filmNizam Loharfrom Friday, 9 September 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): Riaz Shahed |
6. | Urdu filmLove in Europefrom Friday, 26 June 1970Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: M. Ashraf, Poet: , Actor(s): Rozina, Kemal |
7. | Urdu filmReshmi Rumalfrom Friday, 21 December 1984Singer(s): Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): (Playback) |
8. | Punjabi filmReshmi Rumalfrom Friday, 21 December 1984Singer(s): Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): (Playback, Shahid) |
پاکستان فلم میگزین ، سال رواں یعنی 2023ء میں پاکستانی فلموں کے 75ویں سال میں مختلف فلمی موضوعات پر اردو/پنجابی میں تفصیلی مضامین پیش کر رہا ہے جن میں مکمل فلمی تاریخ کو آن لائن محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
قبل ازیں ، 2005ء میں پاکستانی فلموں کا عروج و زوال کے عنوان سے ایک معلوماتی مضمون لکھا گیا تھا۔ 2008ء میں پاکستانی فلموں کے ساٹھ سال کے عنوان سے مختلف فنکاروں اور فلموں پر مختصر مگر جامع مضامین سپردقلم کیے گئے تھے۔ ان کے علاوہ پاکستانی فلموں کے منفرد ڈیٹابیس سے اعدادوشمار پر مشتمل بہت سے صفحات ترتیب دیے گئے تھے جن میں خاص طور پر پاکستانی فلموں کی سات دھائیوں کے اعدادوشمار پر مشتمل ایک تفصیلی سلسلہ بھی موجود ہے۔
تازہ ترین
دیگر مضامین