Pakistan Film History
A detailed Urdu/Punjabi article on the legendary playback singer Zubaida Khanum.
زبیدہ خانم ، 1950 کی دھائی میں پاکستانی اردو اور پنجابی فلموں کی مقبول اور مصروف ترین گلوکارہ تھیں جنھیں صرف آٹھ سالہ فلمی کیرئر میں مسلسل سات سال تک فلمی گائیکی پر مکمل اجارہ داری حاصل رہی۔۔!
عین عروج کے دور میں فلمی دنیا کو خیرآباد کہنے اور ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں چھ سو کے لگ بھگ گیت گانے والی اس مایہ ناز گلوکارہ کو ایک کیلنڈر ایئر میں سو سے زائد گیت گانے والی پہلی گلوکارہ ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل تھا۔
زبیدہ خانم کی آمد ایک ایسے دور میں ہوئی جب پاکستانی فلموں کی پہلی گلوکارہ ، منورسلطانہ ، ایک مقبول اور مصروف ترین پلے بیک سنگر ہوتی تھیں۔
اسی دور میں میڈم نورجہاں بھی موجود تھیں لیکن صرف انھی فلموں میں گاتی تھیں جن میں اداکاری بھی کیا کرتی تھیں ، اس لیے 1950 کی دھائی میں پلے بیک سنگرز میں شمار نہیں ہوتی تھیں۔
زبیدہ خانم کی دیگر ہم عصر اور نامور پس پردہ گلوکاراؤں میں تقسیم سے قبل لاہور کی مقبول ترین گلوکارہ زینت بیگم کے علاوہ اقبال بانو ، پکھراج پپو ، نذیر بیگم ، کوثر پروین ، ناہید نیازی ، نسیم بیگم ، آئرن پروین اور مالا کے نام ملتے ہیں۔
زبیدہ خانم کے انتہائی قابل رشک فلمی کیرئر کا آغاز مشہور نغماتی اور رومانٹک پنجابی فلم شہری بابو (1953) سے ہوا جو اس سال ان کی بطور گلوکارہ اکلوتی فلم تھی۔ یہ فلم عام طور پر پاکستان کے پہلے ممتاز گلوکار عنایت حسین بھٹی کے لافانی گیت "بھاگاں والیو ، نام جپھو مولا نام۔۔" کی وجہ سے مشہور تھی۔
فلمساز اور ہدایتکار نذیر کی یہ پہلی فلم تھی جس میں اپنی اداکارہ بیوی سورن لتا کے ساتھ خود ہیرو نہیں آئے بلکہ ٹائٹل رول سنتوش کمار کو دیا گیا تھا۔ زبیدہ خانم نے بھی ایک چھوٹا سا رول کیا تھا۔
شہری بابو (1953) ، تقسیم سے قبل سات اور پاکستان میں دو فلموں کی موسیقی دینے والے عظیم موسیقار رشید عطرے کی پہلی نغماتی فلم تھی جس میں انھوں نے زبیدہ خانم کو پہلی بار گانے کا موقع دیا اور دس میں سے آٹھ گیت گوائے تھے۔ متعدد گیت سپرہٹ ہوئے جن میں وارث لدھیانوی کا لکھا ہوا یہ المیہ گیت خاص طور پر قابل ذکر تھا:
فلم شہری بابو (1953) ، پنجابی فلموں کے معروف شاعر ، وارث لدھیانوی کی پہلی فلم تھی جس میں ان کا لکھا ہوا پہلا گیت ، زبیدہ خانم کا گایا ہوا پہلا فلمی گیت بھی تھا۔ یہ ایک بڑا شریر اور ذومعنی جملوں پر مشتمل ایک انتہائی قابل اعتراض گیت تھا جس میں ایک "بے ایمان دوپٹے" کا ذکر ہے:
زبیدہ خانم نے بھٹی صاحب کے ساتھ ہر طرح کے رومانٹک ، طربیہ ، المیہ اور مزاحیہ گیت گائے تھے۔ اس جوڑی کا آخری گیت فلم دل دریا (1968) میں تھا۔ اخترحسین کی دھن میں حزیں قادری کے بول تھے:
دلچسپ بات یہ ہے کہ دیر سے ریلیز ہونے والی فلم دل دریا (1968) میں پنجابی فلموں کی سٹینڈرڈ مردانہ آواز ، مسعودرانا کا بھی ایک گیت تھا جنھوں نے زبیدہ خانم کے ساتھ کبھی کوئی دوگانا نہیں گایا کیونکہ جب ان کی آمد ہوئی تو اس وقت تک زبیدہ خانم فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ چکی تھیں۔ اس کے باوجود ان دونوں کی چار مشترکہ فلمیں ملتی ہیں جن میں مسعودرانا کی پہلی پنجابی فلم رشتہ (1963) بھی شامل ہے۔ اتفاق سے اسی فلم میں بابا چشتی نے زبیدہ خانم سے آخری گیت "اگے تیری مرضی تے پچھے میری مرضی۔۔" گوایا تھا۔
گو 1954ء کی ساتوں فلموں میں سے کسی ایک بھی فلم میں زبیدہ خانم کا کوئی گیت نہیں ملتا لیکن اس سال اپنی اگلی فلموں کے گیتوں کے لیے وہ بڑی مصروف رہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی فلم کے بنانے میں کچھ وقت تو لگتا تھا۔
اسی سال پاکستان میں بھارتی فلموں کی آزادانہ نمائش محدود ہوئی اور فلم کے بدلے فلم کا معاہدہ ہوا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فلم ڈسٹری بیوٹرز بھی فلمسازی کے میدان کود پڑے اور دھڑا دھڑ فلمیں بننے لگیں جس سے فنکاروں کی چاندی ہوگئی اور بڑی تعداد میں گیت بھی گائے جانے لگے۔
اسی سال فلم گمنام (1954) میں گلوکارہ کوثر پروین کی آمد ہوئی جو 1950ء کی دھائی میں زبیدہ خانم کے بعد دوسری مقبول اور مصروف ترین گلوکارہ ثابت ہوئی تھیں۔
اپنے دوسرے ہی فلمی سال یعنی 1955ء میں زبیدہ خانم کی اجارہ داری کا دور شروع ہوگیا تھا جو 1961ء میں فلمی دنیا کو خیرآباد کہنے تک جاری رہا۔ ان سات برسوں میں ہر سال زبیدہ خانم کے گائے ہوئے گیتوں کی تعداد دیگر سبھی گلوکاروں سے زیادہ ہوتی تھی جو ان کی مانگ اور مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
1955ء میں ریلیز ہونے والی 19 میں سے 8 فلموں میں زبیدہ خانم کو چار درجن کے قریب گیت گانے کا موقع ملا۔ اس سال کا ہر چوتھا گیت زبیدہ خانم کا گایا ہوا تھا۔ یقیناً ان میں کئی ایک گیت مقبول عام ہوں گے لیکن یہاں صرف سپرہٹ گیتوں اور خاص خاص فلموں اور واقعات کا ذکر ہو رہا ہے۔
فلم پتن (1955) میں پہلی بار زبیدہ خانم کو عظیم موسیقار جی اے چشتی کا ساتھ ملا جو دو درجن سے زائد فلموں میں سوا سو سے زائد گیتوں تک رہا۔ پاکستان کی فلمی تاریخ میں یہ کسی بھی گلوکار اور موسیقار کی جوڑی کی پہلی سینچری پارٹنر شپ تھی۔
اسی سال اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والی سپرسٹار اداکارہ مسرت نذیر کی بطور ہیروئن ، یہ پہلی فلم تھی جس کے ہیرو سنتوش کمار تھے۔ اس فلم کے متعدد گیت سپرہٹ ہوئے جن میں اسماعیل متوالا کا لکھا ہوا اور زبیدہ خانم کا گایا ہوا یہ سولو گیت یادگار تھا:
زبیدہ خانم کی فلم پتن (1955) ، پہلی فلم تھی جو میں نے کوپن ہیگن کے ساگا سینما میں دیکھی تھی اور پرانی فلموں کا ایسا گہرا اثر ہوا کہ جس کا نتیجہ پاکستان فلم میگزین جیسی تاریخ ساز ویب سائٹ کی صورت میں سامنے آیا۔
موسیقار رشید عطرے کے بھانجے اور شاگرد موسیقار صفدر حسین نے فلم ہیر (1955) جیسی نغماتی فلم سے شاندار آغاز کیا تھا۔ ماموں کے بعد بھانجے نے بھی زبیدہ خانم سے ڈیڑھ درجن کے قریب فلموں میں چھ درجن کے قریب گیت گوائے تھے۔
ہدایتکار نذیر کی اس پنجابی فلم میں سورن لتا کے ساتھ عنایت حسین بھٹی ہیرو تھے جو اسی سال کی اردو فلم جلن (1955) میں پہلی بار ہیرو کے طور نظر آئے تھے۔ فلم ہیر (1955) کے بیشتر گیت مقبول عام ہوئے جن میں حزیں قادری کے لکھے ہوئے اور زبیدہ خانم کے گائے ہوئے یہ دو سپرہٹ گیت بھی تھے:
اسی سال کی فلم پاٹے خان (1955) میں زبیدہ خانم کو ملکہ ترنم نورجہاں کا ساتھ ملا جو فلم کی ہیروئن تھیں جبکہ زبیدہ خانم نے فلم کا ٹائٹل رول کرنے والے مزاحیہ اداکار ظریف کی ہیروئن کا کردار کیا تھا۔ اسلم پرویز کی بطور ہیرو یہ پہلی فلم تھی جبکہ مسرت نذیر نے ایک ویمپ کا رول کیا تھا۔
فلم پاٹے خان (1955) کے موسیقار اخترحسین اکھیاں کی یہ پہلی فلم تھی لیکن زبیدہ خانم سے انھوں نے کوئی قابل ذکر گیت نہیں گوایا تھا۔ فلم میں چند مقامات پر زبیدہ خانم نے گنگنایا تھا اور خاص طور پر جب میڈم نورجہاں کو زبیدہ خانم لوری دے کر سلاتی ہیں تو وہ منظر بڑا قابل دید ہوتا ہے۔
میڈم نورجہاں اور زبیدہ خانم کے صرف دو مشترکہ گیتوں کا حوالہ ملتا ہے جن میں ایک قوالی فلم جان بہار (1958) میں جبکہ ایک کورس گیت فلم نیند (1959) میں تھا۔
1956ء میں کل ریلیز شدہ فلموں میں سے آدھی فلموں میں چھ درجن کے قریب گیت زبیدہ خانم کے تھے جو کل گائے گئے فلمی گیتوں میں تقریباً ہر تیسرا گیت بنتا ہے۔
اسی سال زبیدہ خانم اور موسیقار رشید عطرے کی پہلی نغماتی اردو فلم سرفروش (1956) ریلیز ہوئی تھی۔ ہدایتکار انورکمال پاشا کی اس کامیاب فلم میں زبیدہ خانم کے گائے ہوئے تین گیت سپرہٹ ہوئے تھے:فلم سرفروش (1956) کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس فلم کے ہیرو سنتوش کمار کا یہ مکالمہ زبان زد عام ہوا تھا کہ "چوری میرا پیشہ اور نماز میرا فرض ہے۔۔" حکیم احمد شجاع کا لکھا ہوا یہ فلمی ڈائیلاگ ، بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے روایتی قومی کردار کا آئینہ دار رہا ہے۔
اس سال ، زبیدہ خانم کی دیگر اردو فلموں میں متعدد گیت بڑے مقبول ہوئے تھے:
موسیقار صفدر حسین نے فلم حاتم (1956) میں پہلی بار زبیدہ خانم سے قتیل شفائی کی لکھی ہوئی ایک بڑی پرسوز اور مشہور نعت گوائی جو فلم میں اداکارہ صبیحہ خانم پر فلمائی گئی تھی:
اس سال کی پہلی فلم انوکھی (1956) میں زبیدہ خانم کا پہلا مقبول اردو گیت "گاڑی کو چلانا ، بابو ، ذرا ہلکے ہلکے ہلکے۔۔" تھا جو ایک بھارتی اداکارہ شیلا رومانی پر فلمایا گیا اور موسیقار حسن لطیف تھے۔ اس فلم کے سبھی گیت فیاض ہاشمی نے لکھے تھے۔
اردو فلموں کے عظیم گلوکار احمدرشدی کی یہ پہلی فلم تھی جنھوں نے زبیدہ خانم کے ساتھ کل سات دوگانے گائے جن میں سے چار صرف ایک ہی فلم رات کے راہی (1960) میں تھے۔ اس جوڑی کا کوئی گیت مقبول عام نہیں ہوا۔ احمدرشدی ، زبیدہ خانم کے دور میں اپنا آپ منوانے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔
زبیدہ خانم نے فلم کنواری بیوہ (1956) میں بھی نغمہ سرائی کی جو شہنشاہ غزل مہدی حسن کی پہلی فلم تھی جس میں انھوں نے گلوکارہ کوثر پروین کے ساتھ تین دوگانے گائے تھے۔
دلچسپ اتفاق ہے کہ زبیدہ خانم نے کبھی کوئی گیت مہدی حسن کے ساتھ نہیں گایا جنھیں فلمی گلوکار بننے کے لیے خاصی جدوجہد کرنا پڑی اور فلمی کیریر کی پہلی دھائی میں بہت کم گیت ملے لیکن 1970 کی دھائی میں اردو فلموں کے سب سے مقبول اور مصروف گلوکار رہے۔
فلمساز اور ہدایتکار انور کمال پاشا کی نغماتی پنجابی فلم چن ماہی (1956) ، اداکارہ بہار کی بطور ہیروئن پہلی اور اکلوتی سپرہٹ فلم تھی جس میں ان کے سلو موشن میں رقص بڑے دلچسپ تھے۔ اسلم پرویز ہیرو تھے۔ رشید عطرے کی موسیقی میں اسماعیل متوالا اور طفیل ہوشیارپوری کے لکھے ہوئے زبیدہ خانم کے مندرجہ ذیل گیت بڑے مقبول ہوئے تھے:
سلیم رضا ، 1957ء سے 1965ء تک پاکستانی فلموں کے مقبول ترین گلوکار تھے۔ انھوں نے زبیدہ خانم کے ساتھ تین درجن سے زائد گیت گائے جن میں زیادہ تر اردو دو گانے تھے۔ چن ماہی (1956) ان کی پہلی پنجابی فلم تھی جس میں زبیدہ خانم کے ساتھ پہلا ہٹ دو گانا تھا:
زبیدہ خانم اور سلیم رضا کا پہلا دوگانا فلم مرزا صاحباں (1956) میں "یہ رنگ چمن ، یہ مست ہوا۔۔" اور آخری دوگانا "اک پل بھی نہ سوئیں اکھیاں ، تیرے ہجر میں روئیں اکھیاں۔۔" فلم عشرت (1964) میں تھا۔
اسی سال ، موسیقار جی اے چشتی نے متعدد فلموں میں زبیدہ خانم سے مندرجہ ذیل سپرہٹ گیت گوائے تھے:
1957ء میں زبیدہ خانم نے پاکستانی فلمی گائیکی پر اپنی مکمل اجارہ داری کی پہلی ہٹ ٹرک منائی اور ریکارڈز کے مطابق دوتہائی ریلیز شدہ فلموں میں 99 گیت گائے جو اپنی قریب ترین حریف کوثر پروین سے دگنے سے بھی زیادہ تھے۔
اس سال کی ایک بہت بڑی نغماتی فلم سات لاکھ (1957) میں موسیقار رشید عطرے نے وقت کے چاروں بڑے گلوکاروں سے ان کے فلمی کیرئر کے مقبول ترین اردو گیت گوائے جن میں سلیم رضا سے "یارو ، مجھے معاف رکھو ، میں نشے میں ہوں۔۔" ، منیر حسین سے "قرار لوٹنے والے ، تو قرار کو ترسے۔۔" ، کوثر پروین سے "ستم گر ، مجھے بے وفا جانتا ہے۔۔" اور زبیدہ خانم سے "گھونگھٹ اٹھا لوں کہ گھونگھٹ نکالوں۔۔" کے علاوہ یہ میگا ہٹ گیت بھی گوایا تھا:
اسی سال ، موسیقار صفدر حسین نے پاکستان کی سب سے بڑی نغماتی فلم عشق لیلیٰ (1957) میں ڈیڑھ درجن گیت کمپوز کیے جن میں سے بیشتر گیت بڑے مقبول ہوئے تھے۔
عنایت حسین بھٹی کے فلمی کیرئر کی یہ سب سے بڑی اردو فلم تھی جس میں انھیں نو گیت گانے کا موقع ملا تھا۔ زبیدہ خانم نے بھی اس فلم کے ایک تہائی گیت گائے جن میں قتیل شفائی کا لکھا ہوا ایک فارسی/اردو گیت بڑا منفرد تھا:
بلاک باسٹر پنجابی فلم یکے والی (1957) کی ریکارڈ توڑ کامیابی کی ایک بڑی وجہ اس کی سپرہٹ موسیقی تھی۔ جی اے چشتی کی موسیقی میں سبھی گیت زبیدہ خانم نے گائے جو بڑے مقبول ہوئے تھے۔ خاص طور پر احمدراہی کے لکھے ہوئے اس گیت میں اس دور کے لاہور شہر کے مختلف علاقوں کا تعارف بڑا دلچسپ تھا:
اس کے علاوہ زبیدہ خانم کے گائے ہوئے مندرجہ ذیل سپرہٹ گیتوں کی فلمبندی بھی زبردست تھی۔ مسرت نذیر کی دل موہ لینے والی ادائیں تھیں جو فلم بینوں کو یہ گیت بار بار دیکھنے اور سننے پر مجبور کرتی تھی:
زبیدہ خانم نے 1958ء کی دو تہائی فلموں میں نوے سے زائد گیت گائے جو دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ گیت گانے والی گلوکارہ کوثر پروین سے بھی تین گنا زیادہ تھے۔
اس سال ، زبیدہ خانم کا پہلا سپرہٹ گیت فلم شیخ چلی (1958) میں سننے کو ملا۔ صبیحہ خانم پر فلمایا ہوا موسیقاروں کی جوڑی سلیم اقبال کا اپنی پہلی فلم میں شاید ان کا اپنا ہی لکھا ہوا گیت تھا:
زبیدہ خانم نے فضل حسین کے ساتھ دس دوگانے گائے جو عام طور پر مزاحیہ گیت تھے۔ فضل حسین ، ایک خوبصورت آواز تھی لیکن فلمی گائیکی میں زیادہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
زبیدہ خانم نے اسی سال فلم مکھڑا (1958) میں رشید عطرے کی دھن میں وارث لدھیانوی کا لکھا ہوا یہ سپرہٹ گیت بھی گایا تھا:
فلم مکھڑا (1958) میں موسیقار رشید عطرے نے وارث لدھیانوی ہی کا لکھا ہوا ایک اور سپرہٹ گیت کمپوز کیا تھا:
زبیدہ خانم کے علاوہ منیرحسین نے بھی یہ گیت گایا تھا جو ان کے فلمی کیرئر کا مقبول ترین گیت ثابت ہوا تھا۔
1965ء تک منیرحسین ، سلیم رضا کے بعد دوسرے مقبول ترین گلوکار ہوتے تھے۔ زبیدہ خانم نے ان کے ساتھ ڈیڑھ درجن کے قریب دوگانے گائے جن میں فلم سلمیٰ (1960) کا یہ شوخ گیت بڑا مقبول ہوا تھا:
ظریف ، 1950ء کی دھائی کے مقبول ترین مزاحیہ اداکار تھے۔ وہ پارٹ ٹائم گلوکار بھی تھے اور زیادہ تر مزاحیہ گیت گاتے تھے۔ زبیدہ خانم کے ساتھ ان کے درجن بھر گیت ملتے ہیں۔ فلم چھومنتر (1958) میں رفیق علی کی موسیقی میں احمدراہی کا لکھا ہوا یہ سنجیدہ رومانٹک گیت ان کا ایک میگا ہٹ گیت تھا جس میں زبیدہ خانم نے بھی ساتھ دیا تھا:
خواجہ خورشید انور ، ایک صاحب طرز موسیقار تھے لیکن تجارتی طور پر کامیاب نہیں ہوئے ، اسی لیے بہت کم فلموں کی موسیقی دے سکے۔ ان کی زبیدہ خانم کے ساتھ پہلی فلم مرزا صاحباں (1956) تھی لیکن کوئی گیت مقبول نہیں تھا۔ اس جوڑی کے چار فلموں میں دو درجن گیت ملتے ہیں۔ پہلی نغماتی فلم زہرعشق (1958) میں زبیدہ خانم نے قتیل شفائی کی لکھی ہوئی ایک بڑی مشہور نعت گائی جو اداکارہ یاسمین پر فلمائی گئی تھی:
زبیدہ خانم کا اپنا پسندیدہ ترین گیت جی اے چشتی کی دھن میں احمدراہی نے لکھا تھا جو فلم جٹی (1958) میں مسرت نذیر پر فلمایا گیا اور بول تھے:
1959ء میں زبیدہ خانم کی مکمل اجارہ داری کا دور تھا جب انھوں نے ایک کیلنڈر ایئر میں سو سے زائد گیت گانے والی پہلی پاکستانی گلوکارہ ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
اس سال کل 38 فلموں میں کل 300 گیت گائے گئے جن میں سے ہر تیسرا گیت زبیدہ خانم کا گایا ہوا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس سال ، اس دور کی دیگر سبھی بڑی گلوکاراؤں یعنی میڈم نورجہاں ، منورسلطانہ ، کوثر پروین ، اقبال بانو ، نذیر بیگم ، نسیم بیگم ، ناہید نیازی اور آئرن پروین کے گائے ہوئے گیتوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ گیت اکیلے زبیدہ خانم نے گائے تھے۔
زبیدہ خانم کا اس سال کا سب سے مقبول گیت فلم سولہ آنے (1969) میں تھا جو قتیل شفائی کا لکھا ہوا تھا۔ اس گیت کی دھن ماسٹر فیروز نظامی نے بنائی تھی جو فلم چن وے (1951) اور دوپٹہ (1952) جیسی نغماتی فلموں کی شاہکار دھنوں کی وجہ سے جانے جاتے تھے لیکن یہ ان کا آخری سپرہٹ گیت ثابت ہوا تھا:
اس سال کی سب سے بڑی فلم کرتارسنگھ (1959) تھی۔ موسیقاروں کی جوڑی ، سلیم اقبال کی دھن میں ایک دلفریب رومانٹک گیت "گوری گوری چاننی دی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاں نی۔۔" اور نسیم بیگم کے ساتھ ایک دوگانے "نی ماہی مینوں لے جانا۔۔" کے علاوہ فلم کا یادگار گیت ایک سکھ شاعرہ امرتا پریتم سنگھ کا لکھا ہوا دلسوز "پنجاب کا نوحہ" تھا جو زبیدہ خانم نے بھرپور تاثرات کے ساتھ عنایت حسین بھٹی کے ساتھ گایا تھا:
اسی سال نسیم بیگم کے علاوہ ناہید نیازی بھی مصروف ترین گلوکارائیں بن گئی تھیں۔ میڈم نورجہاں نے بھی پلے بیک سنگر کے طور پر باقاعدگی سے فلم سلمیٰ (1960) سے آغاز کر دیا تھا۔ 1960 کی دھائی کی مقبول اور مصروف ترین گلوکارہ مالا کی آمد بھی اسی سال ہوئی تھی۔ ان کے علاوہ نذیربیگم اور آئرن پروین کو بھی مقبولیت مل رہی تھی۔ سینئر گلوکارائیں ، منورسلطانہ اور کوثر پروین بھی شادیاں کر کے فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ رہی تھیں یا کہہ چکی تھیں۔
زبیدہ خانم نے فلم ایاز (1960) میں خواجہ خورشید انور کی دھن میں تنویر نقوی کا لکھا ہوا ایک ایسا لازوال اور روح پرور کلام گایا جو بعد میں ان کے بہت کام آیا۔ فلموں سے کنارہ کشی کے بعد میلاد شریف کی نجی محفلوں میں اس نعتیہ کلام سے اپنے فن کا مظاہرہ کرتی رہیں:
اسی سال زبیدہ خانم نے اپنا آخری سپرہٹ روایتی فلمی گیت فلم رات کے راہی (1960) میں اے حمید کی دھن میں گایا جو فیاض ہاشمی کا لکھا ہوا تھا:
1961ء کا سال زبیدہ خانم کی اجارہ داری کا آخری سال تھا۔ اس سال بھی ان کے گیتوں کی تعداد دیگر سبھی گلوکاراؤں سے زیادہ تھی لیکن کوئی قابل ذکر سپرہٹ گیت نہیں ملتا۔
اس کے بعد فلموں اور گیتوں کی تعداد میں بتدریج کمی آتی چلی گئی اور 1964ء میں تسلسل ٹوٹ گیا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی زبیدہ خانم کی بیس کے قریب فلموں میں پچاس کے قریب گیت ملتے ہیں۔ غیر مستند ریکارڈز کے مطابق زبیدہ خانم کی دیر سے ریلیز ہونے والی آخری فلم جواب دو (1974) میں آخری گیت "اک برہن بیٹھی روئے رے۔۔" تھا۔ اتفاق سے یہ گیت بھی اے حمید کی دھن میں فیاض ہاشمی ہی کا لکھا ہوا تھا۔
زبیدہ خانم کی جانشین کے طور پر عام طور پر نسیم بیگم کا نام ذہن میں آتا ہے لیکن اعدادوشمار کے مطابق 1962ء میں سب سے زیادہ گیت ناہید نیازی کے تھے جبکہ آئرن پروین اور نسیم بیگم ، دوسرے اور تیسرے نمبر پر تھیں۔ 1963ء میں آئرن پروین اور 1964ء میں مالا کی اجارہ داری کا دور شروع ہوا جو 1968ء تک رہا۔
میڈم نورجہاں کی بطور پلے بیک سنگر اجارہ داری کا دور 1969ء سے شروع ہوتا ہے جو اگلی تین دھائیوں تک جاری رہا لیکن زیادہ تر پنجابی فلموں تک محدود رہیں۔ اردو فلموں میں زیادہ تر گیت ، رونا لیلیٰ ، ناہید اختر ، مہناز اور حمیرا چنا کے گائے ہوئے ہوتے تھے۔
زبیدہ خانم ایک خوش شکل خاتون تھیں اور اداکاری کا شوق بھی رکھتی تھیں لیکن فلمی گائیکی میں بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے اپنا یہ شوق جاری نہ رکھ سکیں۔
دستیاب معلومات کی حد تک فلم پاٹے خان (1955) ، واحد فلم ہے جس میں زبیدہ خانم نے مرکزی کردار کیا تھا۔ باقی آدھ درجن فلموں میں چھوٹے موٹے کرداروں میں نظر آئیں جن میں شہری بابو (1953) ، پتن (1955) ، مورنی (1956) اور ٹھنڈی سڑک (1957) کا ذکر ملتا ہے۔ زبیدہ خانم ، آخری بار فلم آبرو (1961) میں ایک شادی کی تقریب میں اپنا ہی ایک گیت سنتے ہوئے نظر آئیں۔
عام طور پر روایت ہے کہ شادی کرنے کے بعد زبیدہ خانم نے فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ دیا تھا۔ یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ان کے چار بچوں میں تیسرے بچے ، فیصل بخاری کے بارے میں وکی پیڈیا پر تاریخ پیدائش 9 اگست 1963ء درج ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان سے پہلے دو بچے پیدا ہوئے۔ اگر ان کے بچوں میں ایک ایک سال کی پیدائش کا دورانیہ بھی ہو تو زبیدہ خانم کی شادی 1959/60ء میں ہوئی ہوگی۔ گویا انھوں نے شادی اور بچوں کے بعد بھی گانا جاری رکھا اور جب دیکھا کہ ان کی جگہ دیگر گلوکارائیں لے رہی ہیں تو باعزت طور پر فلمی دنیا کو خیرآباد کہہ دیا تھا۔
عام طور پر زبیدہ خانم کو صرف پنجابی فلموں کی گلوکارہ سمجھا جاتا ہے جس کی بڑی وجہ ان کے زیادہ تر سپرہٹ پنجابی گیت ہیں لیکن ان کی اردو فلموں کی تعداد پنجابی فلموں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔
تادم تحریر ، پاکستان فلم میگزین کے غیر حتمی اعدادوشمار کے مطابق ، زبیدہ خانم نے کل 152 فلموں میں 595 گیت گائے جن میں صرف 44 پنجابی فلموں میں 216 جبکہ 108 اردو فلموں میں 379 گیت تھے۔
زبیدہ خانم کے سب سے زیادہ گیت جی اے چشتی ، رشید عطرے اور صفدر حسین نے کمپوز کیے جبکہ قتیل شفائی ، طفیل ہوشیارپوری اور احمد راہی نے سب سے زیادہ گیت لکھے تھے۔ سب سے زیادہ دوگانے عنایت حسین بھٹی ، سلیم رضا اور منیر حسین کے ساتھ گائے جبکہ مسرت نذیر ، صبیحہ خانم اور نیلو پر سب سے زیادہ گیت فلمائے گئے تھے۔
زبیدہ خانم ، گائیکی میں میڈم نورجہاں سے متاثر تھیں جبکہ اپنی جونیئر گلوکارہ نسیم بیگم کی گائیکی کی معترف بھی تھیں۔ مسرت نذیر ، ان کی بہترین سہیلی تھیں۔
زبیدہ خانم 1935ء میں امرتسر میں پیدا ہوئیں اور 2013ء میں انتقال ہوا۔ شوقیہ گاتی تھیں۔ کسی سے نہیں سیکھا۔ ریڈیو سے گانے کا آغاز کیا۔ خوش الحانی کی وجہ سے ایک آئیڈیل فلمی گلوکارہ تھیں جن کی آواز کو موسیقار ہر رنگ میں ڈھال سکتا تھا۔
نذیر اور سورن لتا نے انھیں اپنی فلم شہری بابو (1953) میں پہلی بار گوایا جنھیں وہ ماں باپ کا درجہ دیتی تھیں۔ کیمرہ مین ریاض بخاری سے شادی کی جو ہدایتکار جعفر بخاری کے بھائی تھے۔ اس طرح سے اداکارہ یاسمین ، زبیدہ خانم کی جیٹھانی تھیں۔ ایک بیٹے فیصل بخاری بھی عکاس ہونے کے علاوہ چند فلموں کے ہدایتکار بھی تھے۔
پاکستان ٹیلی ویژن پر 1982ء کے ایک مشہور زمانہ ٹی وی سیریل "ان کہی" سے بے پناہ شہرت پانے والی حسین و جمیل اداکارہ شہناز شیخ نے زبیدہ خانم کا ایک نایاب انٹرویو کیا تھا۔ 2008ء میں اس ویڈیو کا ایک حصہ یوٹیوب پر اپ لوڈ کیا لیکن دوسرا کبھی نہ ہوسکا۔ اس وقت ایک ویڈیو زیادہ سے زیادہ دس منٹ کا اپ لوڈ ہو سکتا تھا۔ اس ویڈیو میں جہاں دیگر غلطیاں ہیں ، وہاں زبیدہ خانم کی پہلی فلم بلو (1951) درج ہے جو غلط ہے ، پہلی فلم شہری بابو (1953) تھی۔
ایک بار نادانی میں اپنے والد محترم (مرحوم و مغفور) کی شان میں ایک گستاخی کی تھی جو آج بھی بے چین رکھتی ہے۔۔!
ہوا یوں کہ ایک دن والد صاحب ، اپنے دوستوں کی ایک محفل میں کہہ رہے تھے کہ "ہمارے وقتوں میں تو صرف زبیدہ خانم ہی ہوتی تھی۔۔!"
میں نے لقمہ دیا تھا کہ "نورجہاں بھی تو تھی۔۔!"
ان کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات تھے جو شاید ہی زندگی بھر بھلا سکوں۔۔!
اس وقت کم عمر ، کم علم اور کم عقل تھا لیکن جیسے جیسے عمر ، علم اور عقل میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ، یہ احساس جرم شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
زبیدہ خانم پر پہلی بار ایک تفصیلی اور تحقیقی مضمون تحریر کرتے ہوئے اپنے اس احساس جرم اور اس پر ہونے والی مستقل ندامت میں مزید اضافہ ہوا۔
دسمبر 1973ء میں جب گیارہ بارہ سال کی عمر میں پہلی بار ڈنمارک آیا تو فلمیں دیکھتے ہوئے چار سال ہو گئے تھے اور آخری دو تین برسوں کا فلمی میڈیا بھی زیر مطالعہ تھا لیکن زبیدہ خانم کے بارے میں لاعلم تھا۔
والد صاحب مرحوم و مغفور کے پاس زبیدہ خانم کے پنجابی گیتوں کی ایک آئیڈیو کیسٹ ہوتی تھی جو نہ صرف خود اور ان کے دوست و احباب بڑے اشتیاق سے سنا کرتے تھے بلکہ ان کی گوری بیگم (جو ظاہر ہے کہ میری "دوسری امی" تھی) بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا کرتی تھی۔ میں نے بھی وہ کیسٹ اتنی بار سنی تھی کہ ایک ایک گیت زبانی یاد ہو گیا تھا۔
اس کیسٹ کی دونوں سائیڈوں پر زبیدہ خانم کے درجن بھر سپرہٹ پنجابی گیت تھے۔ آخری دو گیت فلم سسرال (1962) کے بھی تھے جن میں ایک میڈم نورجہاں کا "جا ، اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا۔۔" تھا تو دوسرا اسی فلم کا مہدی حسن کا گیت "جس نے میرے دل کو درد دیا ، اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں۔۔"
اس مضمون سے قبل گیتوں کی مقبولیت کے حساب سے مجھے اندازہ تو تھا کہ زبیدہ خانم 1950 کی دھائی کی کتنی بڑی گلوکارہ تھیں لیکن انھیں ایسی مکمل اجارہ داری حاصل تھی ، اس کا گمان تک نہیں تھا۔۔!
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.