نیلو
اردو اور پنجابی فلموں کی
مقبول ترین ہیروئن تھی
نیلو ، ایک ایسی منفرد اداکارہ تھی جس نے ایک ایکسٹرا کے طور پر فلمی دنیا میں قدم رکھا ور پہلی بار 1956ء میں ریلیز ہونے والی فلم دلابھٹی میں نظر آئی تھی۔
اسی سال کی فلم ماہی منڈا میں ظریف پر فلمائے گئے عنایت حسین بھٹی کے مشہور زمانہ گیت
- رناں والیاں دے پکن پرونٹھے۔۔
کے دوران دیوار پر کھٹری دو لڑکیوں میں سے ایک نیلو بھی تھی۔
جب نیلو کو ملک گیر پہچان ملی
اگلے سال کی فلم سات لاکھ میں زبیدہ خانم کے گائے ہوئے ایک سپر ہٹ آئٹم سانگ
نے نیلو کو ملک گیر شہرت دی تھی لیکن اس کی جدوجہد کا سفر جاری رہا تھا۔
اس دوران وہ دو درجن کے قریب فلموں میں ایکسٹرا ، مثبت اور منفی کرداروں میں معاون اداکارہ ، آئٹم گرل اور مکمل فلمی ہیروئن کے علاوہ پچاس کے عشرہ کی چاروں بڑی فلم ہیروئینوں ، نورجہاں ، سورن لتا ، صبیحہ خانم اور مسرت نذیر کے مقابل ثانوی کرداروں میں بھی نظر آتی تھی۔
نیلو کو بریک تھرو ملا
1959ء کی فلم ناگن کے بعد نیلو صف اول کی ہیروئن بن گئی تھی اور ساٹھ کے عشرہ کی بیشتر معروف اداکاراؤں نے اس کے مقابل ثانوی کردار کیے تھے جن میں یاسمین ، بہار ، نیر سلطانہ ، لیلیٰ ، شیریں ، حسنہ ، رانی ، دیبا ، نغمہ ، فردوس اور سلونی وغیرہ شامل تھیں جبکہ شمیم آراء اور زیبا کے ساتھ کبھی کسی فلم میں نظر نہیں آئی کیونکہ وہ دونوں نیلو کی مدمقابل تھیں لیکن صرف اردو فلموں تک محدود تھیں جبکہ نیلو واحد اداکارہ تھی جو اردو اور پنجابی فلموں میں یکساں طور پر مقبول و مصروف تھی۔
نیلو ، ایک ڈریم گرل
نیلو اپنے وقت کی ایک ڈریم گرل اداکارہ تھی جو اپنے دلکش خدوخال ، سحر انگیز رقص ، پراثر اداکاری اور ہوش ربا اداؤں سے فلم بینوں کو سینما گھروں تک کھینچ لاتی تھی۔
1962ء کی فلم بنجارن بھی نیلو کی ایک سپر ہٹ فلم تھی جس میں اس کے ہیجان خیز رقص فلم کی کامیابی کی بڑی وجہ تھے۔ یہ فلم اتنی مقبول ہوئی تھی کہ اس کا ذکر اس دور کی ایک فلم عید مبارک میں احمدرشدی کے ایک مزاحیہ گیت
- میری گڑیا کا ہے جلوہ نرالا۔۔
میں بھی کیا گیا تھا اور جس میں اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ اس دور میں فلم بنجارن سے نیلو ، سہیلی سے شمیم آراء اور آشیانہ سے زیبا کو بے حد مقبولیت ملی تھی۔
نیلو اور مسعودرانا کا ساتھ
فلم بنجارن ہی پہلی فلم تھی جس میں مسعودرانا کے گائے ہوئے تینوں دوگانے نیلو پر فلمائے گئے تھے جبکہ چوتھا سولو گیت
- کہیں دل پہ نہ جادو کر جائے۔۔
بھی نیلو ہی کے لیے گایا گیا تھا جو کمال پر فلمایا گیاتھا۔
اس سےاگلے سال 1963ء کی فلم شکوہ میں بھی ایسا ہی ایک گیت
بھی نیلو ہی کی اداؤں کی نظر تھا جو درپن پر فلمایا گیا تھا جبکہ
اسی سال کی ایک اور فلم قتل کے بعد میں بھی نیلو ہی تھی جس کے لیے مسعودرانا کو کمال کے لیے یہ گیت گانا پڑا تھا
- او جان من ذرا رک جا ، یہ ادا نہ ہم کو دکھا۔۔
فلم بیٹی (1964) کے ایک کلاسیکل گیت کے بعد پنجابی فلم میرا ماہی میں کیا زبردست دوگانا تھا
یار مار ، ابا جی ، بدنام ، لاڈو اور چغل خور کے دلکش دوگانے بھی نیلو ہی کے لیے گائے تھے جبکہ فلم چغل خور میں مسعودرانا کا اکمل پر فلمایا ہوا سپر ہٹ گیت
- مکھ تیرا ویکھیا ضرور تھوڑا جیا نی۔۔
بھی نیلو ہی کی اداؤں کے نام تھا۔ فلم راوی پار کا یہ گیت تو دل کے تار چھیڑ دیتا ہے
- وے جا مڑ جا اڑیا ، میں نئیوں آنا تیری ہٹی۔۔
نیلو کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی فلم
نیلو کی اپنے پہلے دور کی آخری فلم زرقا (1969) تھی جو کراچی میں سو ہفتے چلنے والی پہلی فلم ثابت ہوئی تھی۔ اس دوران اس نے شادی کر کے فلمی دنیا کو خیر آباد کہہ دیا تھا لیکن یہ خوشیاں اسے راس نہیں آئی تھیں اور 1972ء میں اس کے شوہر ریاض شاہد کی اچانک موت کے بعد اپنے بچوں کی کفالت کےلیے اسے دوبارہ فلمی دنیا کا رخ کرنا پڑا تھا۔
نیلو کے دوسرے دور کا آغاز بھی کراچی ہی میں ایک سو ہفتے چلنے والی فلم خطر ناک (1974) سے ہوا تھا اور اگلے چھ برسوں میں وہ تین درجن سے زائد فلموں میں ہیروئن کے طور پر نظر آئی تھی۔
نیلو کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے بیٹے شان کے ساتھ اس کی پہلی فلم بلندی (1990) میں بھی اداکاری کرتی ہوئی نظر آئی تھی۔
نیلو کا 30 جنوری 2021ء کو انتقال ہوگیا
نیلو ، ساٹھ کے عشرہ کی ایک سپرسٹار اداکارہ تھی جس نے ایکسٹرا کے طور پر فلموں میں کام شروع کیا اور معاون اداکارہ اور آئٹم گرل کے بعد چوٹی کی فلمی ہیروئن بنی۔
وہ اپنے دور میں پاکستان کی واحد اداکارہ تھی جو بیک وقت اردو اور پنجابی فلموں میں مقبول ہوتی تھی۔
30 جنوری 2021ء کو 80 سال کی عمر میں انتقال کر جانے والی اپنے وقت کی اس عظیم اداکارہ نے ڈیڑھ سو کے قریب فلموں میں کام کیا تھا جن کا سال بہ سال مختصراً احوال کچھ اس طرح سے ہے:
نیلو کا بطور ایکسٹرا اداکار آغاز
1956ء میں نیلو کی فلمی دنیا میں آمد ایک امریکی فلم بھوانی جنکشن سے ہوئی تھی جس میں وہ کسی ایکسٹرا رول میں تھی۔
دلابھٹی اور ماہی منڈا جیسی مشہور زمانہ فلموں میں ایکسٹرا رولز میں نظر آنے کے بعد اسی سال کی فلم صابرہ (1956) میں قدرے نمایاں کردار ملا تھا۔
نیلو ، ہیر کے رول میں
1957ء کا سال نیلو کے لیے 8 فلمیں لے کر آیا تھا جن میں متعدد فلموں میں اس نے نمایاں کردار کیے تھے۔
اس سال کی سب سے بڑی فلم یکے والی (1957) میں نیلو ، مسرت نذیر پر عاشق ہوجاتی ہے جو ایک لڑکے کے روپ میں اسے ملتی ہے۔
فلم سہتی (1957) میں نیلو نے ہیر کا رول کیا تھا ، رانجھا کا کردار عنایت حسین بھٹی نے کیا تھا۔
اسی سال فلم سات لاکھ (1957) میں زبیدہ خانم کا گایا ہوا مشہور زمانہ گیت "آئے موسم رنگیلے سہانے ، جیا نہ ہی مانے۔۔" نیلو پر فلمایا گیا پہلا سپرہٹ گیت تھا جس نے اسے ملک گیر شہرت دی تھی۔
نیلو کے پہلے ہیرو ، اسلم پرویز
1958ء میں نیلو کی 9 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں پہلی بار بطور فرسٹ ہیروئن اس کی دو فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں ایک پنجابی فلم کچیاں کلیاں تھی اور دوسری اردو فلم نئی لڑکی (1958) تھیں۔ ان دونوں فلموں کے ہدایتکار امین ملک اور ہیرو اسلم پرویز تھے۔
اس سال کی سب سے بڑی فلم آخری نشان (1958) تھی جو گولڈن جوبلی ہوئی تھی اور جس میں سدھیر کی جوڑی مینا شوری کے ساتھ تھی اور نیلو سائیڈ ہیروئن تھی۔
جٹی ، دربار ، جان بہار اور زہر عشق دیگر اہم فلمیں تھیں جن میں نیلو کے ثانوی کردار تھے۔
نیلو کا فلمی سفر
1959ء میں نیلو کی 12 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ یہ سال ، اس کے لیے بریک تھرو کا سال تھا۔ اس سال اس کی بطور فرسٹ ہیروئن پہلی بڑی فلم ناگن (1959) تھی جس میں اس کا ہیرو رتن کمار اور ولن یوسف خان تھا۔ دوسری فلم ساتھی (1959) میں اس کا ہیرو درپن تھا۔
اس سال کا ایک منفرد اور دلچسپ ریکارڈ یہ بھی تھا کہ نیلو نے پچاس کے عشرہ کی پانچوں بڑی ہیروئنوں کے ساتھ سیکنڈ ہیروئن کے طور پر کام کیا تھا۔ ان میں میڈم نورجہاں کے ساتھ کوئل اور نیند (1959) ، سورن لتا کے ساتھ شمع (1959) ، صبیحہ خانم کے ساتھ نغمہ دل (1959) ، مسرت نذیر کے ساتھ سولہ آنے ، یار بیلی اور لکن میٹی (1959) اور یاسمین کے ساتھ للکار (1959) تھیں۔
1960ء میں نیلو کی 9 فلمیں نمائش پذیر ہوئی تھیں جو سبھی اردو فلمیں تھیں۔ بطور فرسٹ ہیروئن انصاف (1960) کامیاب فلم تھی جس میں پہلی بار کمال ہیرو تھا۔ ایاز اور سلطنت (1960) دیگر بڑی فلمیں تھیں جن میں وہ سائیڈ ہیروئن تھی۔
1961ء میں نیلو کی صرف 3 فلمیں ریلیز ہوئیں اور حیرت انگیز طور پر سبھی ناکام رہی تھیں۔
1962ء میں نیلو کی 8 فلمیں منظر عام پر آئیں جو سبھی اردو تھیں اور ان تمام فلموں میں وہ فرسٹ ہیروئن کے طور پر نظر آئی تھی۔ بنجارن اور عذرا سب سے کامیاب فلمیں تھیں۔
فلم عذرا میں نیلو پر میڈم نورجہاں کے متعدد گیت فلمائے گئے تھے جن میں
- کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے۔۔
سب سے مشہور تھا۔ وقت کی ایک بڑی ہیروئن لیلیٰ نے اس فلم میں نیلو کے مقابل ثانوی رول کیا تھا۔
1963ء میں بھی نیلو کی 8 ہی فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ سال کی سب سے کامیاب فلم دامن (1963) تھی جس میں نیلو نے آخری بار ویمپ کا رول کیا تھا۔
یہ فلم ماضی کی کلاسیک جوڑی صبیحہ خانم اور سنتوش کی واحد گولڈن جوبلی فلم تھی۔
شکوہ اور عشق پر زور نہیں (1963) دیگر کامیاب فلمیں تھیں۔
اس سال کی واحد پنجابی فلم موج میلہ (1963) ایک بہت بڑی فلم تھی جس نے نیلو کو پنجابی فلموں کی ضرورت بنا دیا تھا۔ اس فلم میں رانی نے نیلو کے مقابل ثانوی رول کیا تھا۔
1964ء میں بھی نیلو کی 8 ہی فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں چار اردو اور چار ہی پنجابی فلمیں تھیں۔
پنجابی فلمیں ڈاچی اور میرا ماہی (1964) بہت بڑی فلمیں تھیں جبکہ گہرا داغ اور بیٹی (1964) بھی کامیاب اردو فلمیں تھیں۔ فلم ڈاچی (1964) میں نغمہ نے نیلو کے مقابل ثانوی رول کیا تھا۔
1965ء میں حیرت انگیز طور پر نیلو کی صرف دو فلمیں ریلیز ہوئیں۔
نیلو ، رقص کی ماہر تھی اور اپنی فلموں کی کوریوگرافر بھی خود ہی ہوتی تھی جس کا مظاہرہ اس نے اس سال کی اکلوتی اردو فلم رقاصہ (1965) میں بھی کیا تھا۔
پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم
اس سال کی سب سے بڑی فلم جی دار (1965) تھی جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ لاہور کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم تھی۔ اس فلم میں وقت کی بڑی مقبول پنجابی اداکارہ شیریں نے بھی نیلو کے مقابل ثانوی رول کیا تھا۔
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
اسی سال 11 فروری 1965ء کو نیلو کو سرکاری اہل کاروں نے گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ کے ایما پر شاہی قلعہ لاہور میں شاہ ایران کے اعزاز میں دی گئی ایک سرکاری تقریب میں رقص کرنے پر مجبور کیا تھا۔
اس زیادتی پر اس نے خودکشی کی کوشش کی تھی اور اس کی اس جرات پر معروف شاعر حبیب جالب نے اپنی مشہور زمانہ نظم لکھی تھی
"رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔۔"
جسے فلم زرقا (1969) میں شامل کیا گیا تھا۔
اس واقعہ سے متاثر ہو کر 14 اکتوبر 1966ء کو معروف فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف ریاض شاہد نے نیلو سے شادی کر لی تھی۔ نیلو نے شادی کے بعد فلمی دنیا کو چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس وقت وہ چالیس سے زائد فلموں میں کام کر رہی تھی۔
1966ء میں نیلو کی 9 فلمیں منظر عام پر آئی تھیں جن میں 6 پنجابی فلموں میں سے لاڈو ، نظام لوہار اور ابا جی (1966) بہت بڑی فلمیں تھیں۔ فلم لاڈو (1966) میں میڈم نورجہاں کے سپرہٹ گیت
- شکر دوپہر پپلی دے تھلے۔۔
- ڈنگ پیار دا سینے تے کھا کے۔۔
نیلو پر ہی فلمائے گئے تھے۔
سال کی سب سے یادگار فلم بدنام (1966) تھی۔ پائل کی جھنکار (1966) ایک اور کامیاب فلم تھی جس میں دیبا نے نیلو کے مقابل ثانوی رول کیا تھا۔
اس سال کی فلم ان پڑھ (1966) میں پنجابی فلموں کی ایک اور بڑی اداکارہ فردوس نے نیلو کے مقابل ثانوی رول کیا تھا۔
1967ء کا سال نیلو کے لیے 6 فلمیں لے کر آیا تھا جن میں سے چار پنجابی فلمیں تھیں۔ دل دا جانی (1967) سال کی سب سے بڑی نغماتی فلم تھی جس میں سلونی نے نیلو کے مقابل ثانوی رول کیا تھا۔ اس فلم میں میڈم نورجہاں کا نیلو پر فلمایا ہوا گیت
ایک میگا ہٹ گیت تھا۔ یارمار (1967) ایک اور کامیاب فلم تھی جبکہ دو اردو فلموں میں سے چٹان (1967) سب سے کامیاب فلم تھی۔
1968ء میں نیلو کی صرف 3 میں سے ایک فلم جگ بیتی (1967) سال کی بہترین فلم تھی۔ اس سال فلم پرستان (1968) (1968) میں نسیم بیگم کا گایا ہوا سپرہٹ گیت
- محبت کے دم سے یہ دنیا حسین ہے۔۔
نیلو پر ہی فلمایا گیا تھا۔
1969ء میں نیلو کی صرف دو فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم زرقا (1969) ، نیلو کی آخری ریلیز شدہ فلم تھی۔
اس سال کے بعد اگلے پانچ سال تک نیلو کی کوئی فلم ریلیز نہیں ہوئی تھی۔
1972ء میں ریاض شاہد کے اچانک انتقال کے بعد نیلو کو اپنے تین بچوں کی کفالت کے لیے فلموں میں واپسی پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
نیلو کی خطرناک واپسی
1974ء میں نیلو کی فلموں میں واپسی ایک بہت بڑی پنجابی فلم خطرناک (1974) سے ہوئی تھی جس نے کراچی میں سو ہفتے چلنے والی پہلی پنجابی فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
وہ آزادی کا دور تھا جس سے فلمسازوں نے بڑا ناجائز فائدہ اٹھایا تھا اور فلموں میں لچرپن اور بے ہودگی میں اضافہ ہوگیا تھا۔
نیلو نے اپنے پہلے چودہ برسوں میں 90 فلموں میں کام کیا تھا۔ 1974ء کے بعد اس کی فلموں کی تعداد پچاس سے زائد تھی جن میں بہت کم اردو فلمیں تھیں۔
نیلو نے 1990ء میں اپنے بیٹے شان کی پہلی اردو فلم بلندی اور پہلی پنجابی فلم نگینہ میں بھی اداکاری کی تھی۔ ان تمام فلموں کی فہرست نیلو کے فلمی ریکارڈز کے صفحات پر موجود ہے۔
نیلو کی پیدائش 1940ء میں سرگودھا کے ایک قصبہ بھیرہ کے ایک مسیحی خاندان میں ہوئی۔ غربت کی وجہ سے سکول کے زمانے ہی سے فلموں میں آئی۔ ریاض شاہد سے شادی کے بعد اسلام قبول کیا اور سینتھیا ایلیگزینڈر فرنینڈس سے عابدہ ریاض کا نام لیا۔ 30 جنوری 2021ء کو 80 سال کی عمر میں لاہور میں انتقال ہوا۔ اللہ تعالیٰ ، مرحومہ کی مغفرت کرے (آمین)
مسعودرانا اور نیلو کے
16 فلمی گیت
(8 اردو گیت ... 8 پنجابی گیت )
1 | فلم ... بنجارن ... اردو ... (1962) ... گلوکار: مسعود رانا ، آئرن پروین ... موسیقی: دیبو ... شاعر: فیاض ہاشمی ... اداکار: کمال ، نیلو |
2 | فلم ... بنجارن ... اردو ... (1962) ... گلوکار: مسعود رانا ، آئرن پروین مع ساتھی ... موسیقی: دیبو ... شاعر: مسرور انور ... اداکار: نرالا ، نیلو |
3 | فلم ... بنجارن ... اردو ... (1962) ... گلوکار: مسعود رانا ، آئرن پروین مع ساتھی ... موسیقی: دیبو ... شاعر: حمایت علی شاعر ... اداکار: نرالا ، نیلو مع ساتھی |
4 | فلم ... قتل کے بعد ... اردو ... (1963) ... گلوکار: مسعود رانا ، احمد رشدی ، آئرن پروین ... موسیقی: دیبو ... شاعر: مشیر کاظمی ... اداکار: کمال ، لہری ، نیلو |
5 | فلم ... بیٹی ... اردو ... (1964) ... گلوکار: نسیم بیگم ، مسعود رانا ... موسیقی: دیبو ... شاعر: فیاض ہاشمی ... اداکار: نیلو ، امداد حسین |
6 | فلم ... میرا ماہی ... پنجابی ... (1964) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: اکمل ، نیلو |
7 | فلم ... چغل خور ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: نذیر بیگم ، مسعود رانا ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: نیلو ، اکمل |
8 | فلم ... لاڈو ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: ماسٹر عبد اللہ ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: نیلو ، حبیب |
9 | فلم ... بد نام ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ، آئرن پروین ... موسیقی: دیبو ... شاعر: مسرور انور ... اداکار: اعجاز ، نیلو |
10 | فلم ... ابا جی ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: نیلو ، سدھیر |
11 | فلم ... یار مار ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: حبیب ، نیلو |
12 | فلم ... راوی پار ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: بابا عالم سیاہ پوش ... اداکار: نیلو ، حبیب |
13 | فلم ... راوی پار ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: بابا عالم سیاہ پوش ... اداکار: نیلو ، حبیب |
14 | فلم ... شام سویرا ... اردو ... (1967) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا ... موسیقی: ماسٹر عاشق حسین ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: درپن ، نیلو |
15 | فلم ... جٹ کڑیاں توں ڈردا ... پنجابی ... (1976) ... گلوکار: نورجہاں ، مسعود رانا ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: نیلو ، کمال |
16 | فلم ... موت میری زندگی ... اردو ... (1979) ... گلوکار: مہناز ، مسعود رانا ... موسیقی: اے حمید ... شاعر: سیف الدین سیف ... اداکار: نیلو ، آصف خان |