A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
موسیقاروں کی جوڑی ، غلام نبی ، عبد اللطیف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 1955ء میں جب کراچی میں فلمسازی کا آغاز ہوا اور پہلی فلم ہماری زبان بنائی گئی تو اس کی موسیقی انھوں نے ترتیب دی تھی۔
اس فلم کے بیشتر گیت ریڈیو گلوکاراؤں نذیر بیگم اور خورشید بیگم نے گائے تھے۔ ہدایتکار شیخ حسن ، اپنی اس فلم کے ہیرو بھی خود تھے جبکہ ایک بینا نامی اداکارہ فرسٹ ہیروئن تھی۔ اس فلم میں پہلی بار معروف فنکارہ رخسانہ کو اس کے اصل نام رشیدہ سے متعارف کروایا گیا تھا۔
اس فلم میں ایک رول بابائے اردو مولوی عبدالحق نے بھی کیا تھا۔ حافظ عطا محمد کا لکھا ہوا ایک گیت
فلم کا بنیادی خیال بیان کرتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب اردو بولنے والوں اور بنگالیوں کے مابین زبان کے مسئلہ پر ایک گھمسان کا رن پڑا تھا۔ گو اس وقت تک سیز فائر ہو چکا تھا لیکن کشیدگی برقرار تھی۔ یہ فلم اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس کے ردعمل کے طور پر 1956ء میں ڈھاکہ میں پہلی بنگالی فلم مکھ و مکھوش بنائی گئی تھی ، جس کا ترجمہ 'روپ بہروپ' تھا اور بتایا جاتا ہے کہ وہ فلم بھی زبان کے مسئلہ پر ہی تھی۔
غلام نبی ، عبد اللطیف کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ پاکستان کی پہلی سندھی فلم عمر ماروی (1956) کی موسیقی بھی انھوں نے ترتیب دی تھی۔ یہ فلم ماروی کے نام سے اردو میں ڈب کر کے 1963ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
اس کامیاب سندھی فلم کے فلمساز فاضلانی تھے جو فلم کے ہیرو بھی تھے جبکہ ہیروئن نگہت سلطانہ تھی جو اردو فلموں میں ایک معاون اداکارہ تھی اور اس نے معروف ہدایتکار حسن طارق سے شادی بھی کی تھی۔
غلام نبی ، عبد اللطیف نے کل سولہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی جن میں سے دس اردو اور چھ سندھی فلمیں تھیں۔
ان کی سب سے بڑی اردو فلم آگ کا دریا (1966) تھی جس کا سب سے سپر ہٹ گیت مسعودرانا اور ساتھیوں کی آوازوں میں ایک لازوال ملی ترانہ تھا
تاریخ کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے میرے لیے اس ترانے کا آخری انترہ بڑا تکلیف دہ رہا ہے کہ
"ہم تجھے آگ کا دریا نہیں بننے دیں گے ، ظلم و نفرت کا تماشا نہیں بننے دیں گے۔۔"
کلاسیک شاعر جوش ملیح آبادی کی بطور فلمی نغمہ نگار یہ واحد فلم تھی جس کے سبھی گیت انھوں نے لکھے تھے۔ ان میں میڈم نورجہاں کا ایک گیت
بھی پسند کیا گیا تھا۔ جوش صاحب نے فلم قسم اس وقت کی (1969) میں بھی ایک گیت لکھا تھا "قسم اس وقت کی ، زندگی جب کروٹ لیتی ہے۔۔" یہ گیت مجیب عالم نے گایا تھا جس کی دھن سہیل رعنا نے بنائی تھی۔
فلم آگ کا دریا (1966) کے ہدایتکار ہمایوں مرزا تھے۔ ان کی بھی یہ سب سے بڑی فلم تھی۔ ان کی پہلی فلم انتخاب (1955) تھی جس میں انھوں نے جمیلہ رزاق نامی اداکارہ کو متعارف کروایا تھا۔ ان کی دیگر اہم فلموں میں راز (1959) ، دل بیتاب ، سزا (1969) اور خاک اور خون (1971) تھیں۔
اسی فلم میں اردو فلموں کے عظیم ہیرو محمدعلی کو بریک تھرو ملا تھا۔ وہ جذباتی اداکاری میں تو بے مثل تھے لیکن ڈاکو کے رول میں متاثر نہیں کرتے تھے ، اس فلم میں البتہ ان کے رول کو پسند کیا گیا تھا اور وہ سپرسٹار بن گئے تھے۔
غلام نبی ، عبداللطیف کا فلم میں کہاں منزل کہاں (1968) میں مجیب عالم کا گایا ہوا یہ گیت بھی مقبول ہوا تھا
انھیں ، اردو فلموں میں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ وہ کراچی میں رہتے تھے جبکہ فلم انڈسٹری لاہور میں تھی جہاں بڑی تعداد میں اعلیٰ پائے کے فنکار تھے۔
اس وقت کراچی کے فنکاروں کی وہی حالت تھی جو آجکل لاہور کے فنکاروں کی ہے جہاں فلم انڈسٹری پر چارقل پڑھے جاچکے ہیں اور ڈرامہ انڈسٹری ساری کراچی میں ہے۔ لاہور کے فنکار منتظر رہتے ہیں کہ نجانے کب انھیں کراچی سے کوئی بلاوا آ جائے۔
اللہ اکبر۔۔!
بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔۔!
موسیقاروں کی اس جوڑی کی ایک سندھی فلم پردیسی (1958) بھی تھی جو مصطفیٰ قریشی کی پہلی فلم تھی۔ ان کی پہلی اردو فلم لاکھوں میں ایک (1967) تھی اور ستر کے عشرہ کے بعد وہ چوٹی کے فلم ولن بنے تھے اور فلم مولا جٹ (1979) میں 'نوری نت' کا لازوال کردار کیا تھا۔
اسی جوڑی کی ایک اور سندھی فلم سورٹھ (1973) تھی جو بمبینو فلمز کے بینر تلے بنائی گئی تھی اور اس کے پیش کار حاکم علی زرداری تھے جو کراچی کے بمبینو سینما کے مالک اور سابق صدر آصف علی زرداری کے والد تھے۔
اس فلم میں مسعودرانا کے دو سندھی گیت ملتے ہیں
اس طرح اردو ، پنجابی ، سندھی ، پشتو اور عربی میں مسعودرانا کے گیت ملتے ہیں۔ ایک گیت سرائیکی میں بھی تھا جو اصل میں پنجابی زبان ہی کی ایک شاخ ، لہجہ یا بولی (dialect) ہے جیسے کہ ہندکو ، ڈوگری ، پہاڑی وغیرہ ہیں لیکن کچھ لوگ اپنی محرومیوں کا رونا رونے کے لیے نان ایشو کی سیاست کرتے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے۔
غلام نبی ، عبداللطیف کی ایک غیرریلیز شدہ فلم آنکھ مچولی بھی تھی جس میں مسعودرانا کا یہ بڑا خوبصورت گیت تھا
اس جوڑی کے بارے میں مزید معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
1 | اے وطن ، ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں ، زندگی ہوش میں ہے، جوش ہے ایمانوں میں..فلم ... آگ کا دریا ... اردو ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: غلام نبی ، عبداللطیف ... شاعر: جوش ملیح آبادی ... اداکار: (پس پردہ ، ٹائٹل سانگ ، تھیم سانگ ) |
2 | واہ واہ سوہنی صورت ، سبحان اللہ..فلم ... سورٹھ ... سندھی ... (1973) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: غلام نبی ، عبداللطیف ... شاعر: پیرل قنبر ... اداکار: ؟ |
3 | صورت سب سلطان اعلیٰ پٹ دسان..فلم ... سورٹھ ... سندھی ... (1973) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: غلام نبی ، عبداللطیف ... شاعر: پیرل قنبر ... اداکار: ؟ |
4 | ویران دل ہے میرا ، اے روشنی کہاں ہے..فلم ... آنکھ مچولی ... اردو ... (غیر ریلیز شدہ) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: غلام نبی ، عبداللطیف ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: ؟ |
1 | اے وطن ، ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں ، زندگی ہوش میں ہے، جوش ہے ایمانوں میں ...(فلم ... آگ کا دریا ... 1966) |
2 | ویران دل ہے میرا ، اے روشنی کہاں ہے ...(فلم ... آنکھ مچولی ... غیر ریلیز شدہ) |
1 | اے وطن ، ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں ، زندگی ہوش میں ہے، جوش ہے ایمانوں میں ...(فلم ... آگ کا دریا ... 1966) |
2 | صورت سب سلطان اعلیٰ پٹ دسان ...(فلم ... سورٹھ ... 1973) |
3 | واہ واہ سوہنی صورت ، سبحان اللہ ...(فلم ... سورٹھ ... 1973) |
4 | ویران دل ہے میرا ، اے روشنی کہاں ہے ...(فلم ... آنکھ مچولی ... غیر ریلیز شدہ) |
1 | اے وطن ، ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں ، زندگی ہوش میں ہے، جوش ہے ایمانوں میں ... (فلم ... آگ کا دریا ... 1966) |
1. | 1966: Aag Ka Darya(Urdu) |
2. | 1973: Soorath(Sindhi) |
3. | Unreleased: Ankh Macholi(Urdu) |
1. | Urdu filmAag Ka Daryafrom Friday, 11 March 1966Singer(s): Masood Rana, Music: Ghulam Nabi, Abdul Latif, Poet: , Actor(s): (Playback) |
2. | Sindhi filmSoorathfrom Friday, 8 June 1973Singer(s): Masood Rana, Music: Ghulam Nabi, Abdul Latif, Poet: , Actor(s): ? |
3. | Sindhi filmSoorathfrom Friday, 8 June 1973Singer(s): Masood Rana, Music: Ghulam Nabi, Abdul Latif, Poet: , Actor(s): ? |
4. | Urdu filmAnkh Macholifrom UnreleasedSinger(s): Masood Rana, Music: Ghulam Nabi, Abdul Latif, Poet: , Actor(s): ? |
پاکستان فلم میگزین ، سال رواں یعنی 2023ء میں پاکستانی فلموں کے 75ویں سال میں مختلف فلمی موضوعات پر اردو/پنجابی میں تفصیلی مضامین پیش کر رہا ہے جن میں مکمل فلمی تاریخ کو آن لائن محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
قبل ازیں ، 2005ء میں پاکستانی فلموں کا عروج و زوال کے عنوان سے ایک معلوماتی مضمون لکھا گیا تھا۔ 2008ء میں پاکستانی فلموں کے ساٹھ سال کے عنوان سے مختلف فنکاروں اور فلموں پر مختصر مگر جامع مضامین سپردقلم کیے گئے تھے۔ ان کے علاوہ پاکستانی فلموں کے منفرد ڈیٹابیس سے اعدادوشمار پر مشتمل بہت سے صفحات ترتیب دیے گئے تھے جن میں خاص طور پر پاکستانی فلموں کی سات دھائیوں کے اعدادوشمار پر مشتمل ایک تفصیلی سلسلہ بھی موجود ہے۔
تازہ ترین
دیگر مضامین