بعض فنکاروں نے اپنے اپنے دور میں ایسا شاندار کام کیا ہے کہ انھیں دا د نہ دینا عین بخل ہوگا۔۔!
ایسے ہی فنکاروں میں موسیقاروں کی ایک جوڑی غلام حسین شبیر کی ہے جن کی پہلی ہی فلم نے موسیقی کے حلقوں میں ہلچل مچا دی تھی۔۔!
موسیقار غلام حسین شبیر
کی فلم وریام (1969)
ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی
ہدایتکار راجہ حفیظ کی سپرہٹ پنجابی فلم وریام (1969) ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی جس کی موسیقی ترتیب دینے کا اعزاز غلام حسین شبیر کو حاصل ہوا تھا۔ اس فلم میں وہ تمام تر مسالے موجود تھے جو فلم بینوں کی تفریح طبع کے لیے ضروری ہوتے تھے۔ بیشتر فلم بینوں کے لئے تو سب سے زیادہ اہمیت ناچتی گاتی اداکاراؤں کی رہی ہے جن کے تھرکتے جسم اور ہوشربا ادائیں ، سفلی جذبات کی تسکین کا باعث ہوتی تھیں۔
فلم وریام (1969) کے سپرہٹ گیت
اداکارہ سلونی کی سولو ہیروئن کے طور پر یہ واحد کامیاب فلم تھی جس پر فلمائے ہوئے میڈم نورجہاں کے سپرہٹ گیتوں نے ایک سماں سا باندھ دیا تھا۔ اس فلم کے بیشتر گیت افتخار شاہد نے لکھے تھے جن میں
- سوہنا مکھڑا تے اکھ مستانی تے پل پل بئی جانا۔۔
- ہائے وے مینوں تیرے پین پلیکھے ، ہائے وے جند اللہ دے لیکھے ، آجا میرےڈھولنا ، تیریاں وے سوچاں سانوں ماریا۔۔
ایسے گیت تھے کہ جو اس دور میں گلی گلی گونجنے تھے۔
فلموں میں دوسرا اہم ترین شعبہ ایکشن کا ہوتا تھا جس کے لیے خون گرم رکھنے کے لیے ایک بھرپور ایکشن فلمی ہیرو کی ضرورت ہوتی تھی جو لالہ سدھیر کی صورت میں موجود تھی۔ وہ ، پاکستان کے پہلے سپرسٹار ایکشن ہیرو تھے اور لڑائی مار کٹائی سے بھرپور فلموں کے بے تاج بادشاہ ہوتے تھے۔ حبیب ، رومانوی ہیرو تھے جبکہ رنگیلا ، کامیڈی کے جادوگر تھے۔ مظہرشاہ ، فلم کے روایتی ولن تھے جو اپنی بڑھکوں کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔
سلمیٰ ممتاز ، پنجابی فلموں کی ایک روایتی ماں تھی جو اس فلم میں سدھیر اور حبیب کی ماں تھی۔ دونوں بیٹے ، اپنی ماں کو معروف لوک پنجابی شاعر اسمعٰیل متوالا کے لکھے ہوئے اور مسعودرانا اور منیر حسین کی پراثر آوازوں میں گائے ہوئے امر سنگیت کی صورت میں یہ شاندار خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
- اے ماں ، اے ماں ، ساڈی بُلیاں چوں پھُل کھڑدے نیں ، جدوں لینے آں تیرا ناں۔۔
فلم وریام (1969) کے ٹائٹل اور تھیم سانگ کے طور پر مشہورزمانہ دھمال
- لال میری پت رکھیو بلا جھولے لالن۔۔
تھی جس کو مسعودرانا نے منیر حسین کے ساتھ گایا تھا۔ ہمارے فلمی گیتوں میں شاید ہی کوئی دوسرا گیت ایسا ہو گا کہ جس میں ایک ایک لفظ کو دو گلوکار ، ہم آواز ہو کر گاتے ہوں۔
اس فلم کا مرکزی کردار فضل حق کا تھا جو اس دور کے ایک بہترین معاون اداکار تھے۔ ان کے پس منظر میں مسعودرانا کا گایا ہوا یہ سولو گیت فلم کی ہائی لائٹ تھا:
- جنیں کدے یاراں کولوں کجھ وی نہ منگیا ، او پیا جاندا ویکھو ، یاریاں دا ڈنگیا۔۔
کیا لاجواب دھن اور کیا بے مثل گائیکی تھی۔
افتخار شاہد کا لکھا ہوا یہ گیت فلم کی کہانی کا خلاصہ تھا لیکن پھر بھی سپرہٹ ہوا تھا اور اکثر ریڈیو پر سننے میں آتا تھا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں گلوکار
غلام عباس کو گاتے ہوئے سنا تھا۔ یہ ان گیتوں میں سے ایک ہے کہ جنھیں اکثر گنگناتا رہتا ہوں۔
کیوں دور دور رہندے او حضور میرے کولوں
غلام حسین شبیر کی ایک اور یادگار فلم اک ڈولی دوکہار (1972) تھی جس میں انھوں نے لوک گلوکار شوکت علی سے ان کے فلمی کیرئر کا سب سے سپرہٹ گیت گوایا تھا
- کیوں دور دور رہندے او حضور میرے کولوں ، مینوں دس دیو ہویا کی قصور میرے کولوں۔۔
شوکت علی نے فلمی گلوکار کے طور پر آغاز کیا تھا لیکن کامیاب نہیں ہوئے تھے اورموسیقار کبھی کبھار ہی انھیں یاد کیا کرتے تھے۔
اس فلم میں میڈم نورجہاں کا ایک گیت
- پیری کھُسا پشوری ، گل کڑتا لاہوری ،کرے تنگ ماہیا۔۔
بڑا مقبول ہوا تھا۔ مسعودرانا کے اس فلم میں دو گیت تھے۔ ایک تھیم سانگ تھا
- جگ اتے بندہ ، گھڑی پل دا مہمان اے۔۔
اور دوسرا ایک دوگانا تھا جو آئرن پروین کے ساتھ گایا گیا تھا
- ربا کاہدی دتی او سزا ، پیار دا سی نواں نواں چاہ۔۔
اس فلم میں بھی سدھیر مرکزی کردار میں تھے جبکہ نغمہ کی جوڑی حبیب کے ساتھ تھی۔ فلم کے انتہائی خوبصورت پوسٹر پر ساون براجمان ہیں جو اس وقت کے مقبول ترین اداکار ہوتے تھے اور ان کے نام پر فلم چلتی تھی۔
فلم اک ڈولی دو کہار (1972) کی یاد میں
فلم اک ڈولی دوکہار (1972) کو بچپن میں 'ایک ڈولی دو گھر' کے طور پر پڑھا کرتا تھا۔ پنجابی زبان میں لفظ 'گھر 'کے صحیح تلفظ کو اردو رسم الخط میں نہیں لکھا جاسکتا اور 'کہار' کا مخرج قریب تر بنتا ہے۔
اردو زبان کیسے وجود میں آئی؟
پنجابی زبان کے متعدد الفاظ ایسے ہیں کہ جنھیں اردو رسم الخط میں نہیں لکھا جاسکتا۔ حیرت ہوتی ہے کہ پنجابی زبان ، اردو زبان سے قدیم اور صدیوں پرانی ہے اور اب تک پنجابی زبان کا جو کلام محفوظ ہے وہ بارھویں صدی میں لکھا گیا بابا فریدؒ کا کلام ہے۔ اب وہ کلام ، اردو رسم الخط میں تو نہیں لکھا جا سکتا تھا کیونکہ اس وقت تک اس نام کی کوئی زبان موجود ہی نہ تھی۔
جب ہندوستان کے مقامی لوگ مسلمان ہوئے یا باہر سے آئے ہوئے مسلمان ، مستقل شہری قرار پائے تو ان کے اختلاط سے ہندی زبان میں اسلامی الفاظ کی آمیزش ہوئی جس سے ایک نئی زبان ' اردو' وجود میں آئی جس کی بنیاد آج بھی ہندی ہے لیکن رسم الخط، فارسی اور عربی سے اخذ کیا گیا ہے۔
پنجابی زبان کی تعلیم کیوں نہیں دی جاتی؟
مجھے سکول جانے سے قبل ہی ایسے موضوعات پر غوروفکر کرنے کی بری اور فضول سی عادت ہوتی تھی اور اپنے احمقانہ سوالات سے اکثر لوگوں کو تنگ کیا کرتا تھا۔ اپنے ننھیال کے گاؤں کی مسجد میں قاعدہ پڑھنے سے عربی حروف کی خوب پہچان ہوگئی تھی۔ لیکن ذہنی خلفشار بھی پیدا ہوگیا تھا کہ عربی قاعدہ اور اردو قاعدہ تو ہے پھر انگریزی قاعدہ بھی تھا لیکن پنجابی قاعدہ کیوں نہیں ہے۔۔؟
بچپن سے قرآن کریم کے بعد جو دوسری کتاب میرے ذہن پر نقش ہے وہ پنجابی زبان کے صوفی شاعر میاں محمدبخش ؒ کا عارفانہ کلام "سیف الملوک" ہے جو 1863ء میں کتابی شکل میں محفوظ کیا گیا تھا۔
میری چھوٹی خالہ جو عمر میں مجھ سے چند سال ہی بڑی تھی ، جب یہ کلام پڑھتی تھی تو ایک سماں سا باندھ دیتی تھی ۔ گاؤں کے لوگ اسے عالمہ فاضلہ سمجھتے تھے حالانکہ چند جماعتیں ہی پڑھی ہوئی تھی۔
بچپن کے میرے مشاغل میں اس کتاب کی ورق گردانی کرنا بھی شامل ہوتا تھا اور اس کتاب کے بہت سے الفاظ کی املا پر حیران ہوتا تھا۔ سب سے بڑی حیرت ، ایک پنجابی کتاب میں فارسی زبان کی شہ سرخیاں ہوتی تھیں۔
پنجاب میں اردو کب رائج ہوئی؟
1849ء میں انگریزوں نے پنجاب کوفتح کیا تو مغلوں کے دور سے مروج ، فارسی کی جگہ اردو کو پنجاب کی سرکاری زبان قرار دے دیا تھا۔ پنجابی مسلمانوں نے سکھا شاہی کے خاتمے پر شکرانے کے نوافل ادا کئے تھے اور انگریزوں کے ساتھ بھر پور تعاون کیا تھا ، یہاں تک کہ سکھوں سے نفرت اور مسلم امہ کے نشے میں اپنی مادری زبان تک کو قربان کر دیا تھا۔
سکھ ، آج بھی ہمارا مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں اقلیت میں ہیں لیکن پنجابی زبان ، ان کی پہچان ہے جس پر انھیں فخر ہے جبکہ ہم اپنے ملک میں اکثریت میں ہوکر بھی بے زبان ہیں۔ بھارت کے ہر صوبہ کی مقامی زبان ، سرکاری زبان کا درجہ رکھتی ہے لیکن پاکستان ، دنیا کا شاید واحد ملک ہے کہ جہاں مادری زبان کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔
جب میں دولہا بنا
فلم اک ڈولی دوکہار (1972) سے ایک اور دلچسپ واقعہ ' ڈولی ' سے منسوب ہے۔مجھے اپنے بچپن میں اپنی بڑی خالہ مرحومہ کی شادی پر ڈولی میں بیٹھ کر اس کے سسرال جانے کا موقع ملا تھا۔ متعدد میل کا فاصلہ کہاروں کے کندھوں پر طے ہوا تھا۔
اس سے دو دن قبل اکلوتے ماموں جان مرحوم و مغفور کی بارات میں دولھا بن کر گھوڑے پر بھی سوار تھا۔ جب اپنی پیاری سی ممانی مرحومہ کو بیاہ کر لائے تو میرا اصرار ہوتا تھا کہ یہ میری بھی بیوی ہے ، کیونکہ میں بھی دولھا بنا تھا اور اسے ' بیا ہ کر لایا تھا' ۔
جب لڑکپن میں پہلی بار ڈنمارک ریٹرن ہوا تو ایک دن اپنے ننھیال گیا جہاں ماموں جان نے اپنا احسان جتاتے ہوئے کہا
"میں نے کافی عرصہ تک تمہاری امانت کی حفاظت کی ہے ، اب تم جب چاہو ، اپنی ' امانت ' کو لے جا سکتے ہو۔۔"
میں بھلاکب چپ رہنے والا تھا ، ان کے چار بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواباً کہا کہ
"واہ ماموں جی ، کیا 'حفاظت' کی ہے میری امانت کی۔۔!"
مینوں دھرتی کلی کرا دے میں نچاں ساری رات
موسیقار غلام حسین شبیر کی ایک اور پنجابی فلم غیرت دا نشان (1973) بھی اس لحاظ سے یادگار فلم تھی کہ اس کا ایک گیت
- مینوں دھرتی کلی کرا دے ، میں نچاں ساری رات۔۔
ایک سٹریٹ سانگ ثابت ہوا تھا۔ یہ گیت ایک غیر معروف اور غیر پیشہ ور گلوکارہ ، حمیرا چوہدری نے گایا تھا جو بتایا جاتا ہے کہ معروف ٹی وی اداکار عابدعلی مرحوم کی پہلی بیوی تھی۔
فلم سانجھ ساڈے پیار دی (1974) ایک سرائیکی فلم تھی جس میں انھوں نے معروف غزل گلوکار غلام علی سے یہ خوبصورت گیت گوایا تھا
- نیناں دے بوہے بند نہ کر ، محبوب مٹھا من ٹھار سجن۔۔
اس فلم میں فرسٹ ہیروئن اداکارہ صاعقہ کے ساتھ اداکار راج ملتانی کو ہیرو لیا گیا تھا جو ایک خوبرو جوان تھے لیکن چھوٹے موٹے کرداروں سے آگے نہیں بڑھ سکے تھے۔
غلام حسین شبیر کی ایک یادگار فلم باغی تے فرنگی (1976) بھی تھی۔ اس فلم میں انھوں نے مسعودرانا اور اخلاق احمد سے ایک کورس گیت گوایا تھا
- جی کردا ، جی کردا ، سجنوں تے بیلو تے مترو۔۔
یہ اکلوتا پنجابی گیت ہے جو ان دونوں گلوکاروں نے گایا تھا۔ اسی فلم میں مسعودرانا سے شادی و بیاہ کا یہ مشہور لوک گیت بھی گوایا گیا تھا جو بیٹی کی رخصتی پر گایا جاتا ہے:
- دھیاں رانیاں ، ہائے اوئے میرے ڈاہڈیا ربا ، کناں جمیاں ، کناں نیں لے جانیاں۔۔!
'غلام حسین شبیر ' کی جوڑی نے کل نو فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی جو سبھی پنجابی زبان میں تھیں۔ آخری فلم تماش بین (1978) تھی۔
موسیقار ' کالے خان شبیر' ، موسیقار 'محمدعلی شبیر' اور موسیقار 'ایم شبیر' کے بارے میں معلوم نہیں کہ وہ ایک ہیں اور ان کا 'شبیر ' بھی ایک ہی ہے یا وہ سب الگ الگ شخصیات ہیں کیونکہ متعدد مقامات پر ان سبھی ناموں کو کوگڈمڈ کیا گیا ہے۔ البتہ ان سب میں ایک قدر مشترک تھی کہ ان کی ڈیڑھ درجن فلموں میں سے کوئی ایک بھی اردو فلم نہیں تھی ۔
0 اردو گیت ... 10 پنجابی گیت