Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


Pakistan Film History

Film awards

A detailed Urdu/Punjabi article on Pakistani film awards.

فلمی ایوارڈز

پاکستان کے  سرکاری اور نجی فلمی ایوارڈز  پر ایک نظر
پاکستان کے
سرکاری اور نجی فلمی ایوارڈز
پر ایک نظر

دنیا بھر میں فلموں اور فنکاروں کو حُسنِ کارکردگی کے اعتراف کے طور پر سرکاری اور نجی سطح پر مختلف اعزازات یا ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی یہ عمل ہوتا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے ایک مخصوص ، محدود اور متعصبانہ سوچ کی وجہ سے پاکستانی فلموں اور فنکاروں کے لیے سرکاری یا نجی اعزازات کبھی معتبر ، غیرمتنازعہ اور قابل ذکر نہیں رہے۔

ویسے بھی کوئی فلم یا فنکار کبھی کسی ایوارڈ کا محتاج نہیں رہا لیکن فلمی ایوارڈز چونکہ پاکستانی فلمی تاریخ کا ایک حصہ رہے ہیں ، اسی لیے ریکارڈز اور معلومات کے لیے ان پر بات کرنا مجبوری اور ضروری بھی ہے تاکہ حقائق کو محفوظ رکھا جا سکے۔

پاکستان کے سرکاری اعزازات

پاکستان کا سب سے بڑا سرکاری ، قومی اور فوجی اعزاز "نشانِ حیدر" ہے جس کے مساوی کوئی دوسرا اعزاز نہیں ہے۔ یہ عظیم اعزاز ، وطنِ عزیز کی حفاظت و سلامتی کے لیے انتہائی غیرمعمولی کارکردگی پر مسلح افواج سے متعلقہ افراد کو دیا جاتا ہے۔

نشانِ حیدر
نشانِ حیدر

اس کے بعد فوجی اعزازات میں "ہلال جرات" آتا ہے جو صدر جنرل ایوب خان کے پاس بھی تھا جبکہ دیگر دونوں ذیلی فوجی اعزازات "ستارہ جرات" اور "تمغہ جرات" دیگر اعلیٰ فوجی افسران کو ان کی پیشہ وارانہ خدمات کے عوض ملتے ہیں۔

ان کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ "نشانِ پاکستان" ہے جو اعلیٰ غیرملکی شخصیات کے لیے مختص ہے جبکہ پاکستان کی اعلیٰ شخصیات کے لیے "ہلالِ پاکستان" ، سب سے بڑا اعزاز ہے۔ یہ دونوں اعزازات ، دوسرے بڑے فوجی اعزاز "ہلال جرات" کے مساوی ہیں۔

21 جون 1964ء کو صدر جنرل ایوب خان نے غیرمعمولی کارکردگی کے اعتراف کے طور پر اپنے ہونہار وزیرِ خارجہ جناب ذوالفقار علی بھٹوؒ کو "ہلالِ پاکستان" کا اعزاز دیا تھا جو انھوں نے ایوب حکومت سے علیحدگی کے بعد سیاسی اختلافات ، کردارکشی اور حراست کے خلاف بطور احتجاج واپس کر دیا تھا۔

دیگر چار اقسام کے اعلیٰ سرکاری اعزازات ، "شجاعت" ، "امتیاز" ، "قائدِاعظمؒ" اور "خدمت یا حُسنِ کارکردگی" ہیں جو مزید چار چار درجات یعنی "نشان" ، "ہلال" ، "ستارہ" اور "تمغہ" میں تقسیم ہیں۔ یہ اعزازات ، سول اور ملٹری افراد کے علاوہ پاکستان کے لیے خدمات انجام دینے والے غیرملکیوں کو بھی دیے جاتے ہیں۔ ان کا سرکاری طور پر اعلان 14 اگست (یومِ آزادی) کو اور تقسیم 23 مارچ (یومِ پاکستان) کو ہوتی ہے۔ صدرمملکت اور گورنرز ، یہ خدمات سرانجام دیتے ہیں۔

تمغہ امتیار اور تمغہ حُسنِ کارکردگی

سرکاری اعزازات کے سلسلے میں چھ میں سے چوتھے نمبر پر "امتیاز" آتا ہے جو عام طور اعلیٰ خدمات کے اعتراف کے طور پر دیگر شعبہ جات کے افراد کو ملتا ہے۔

اس اعزاز کا چوتھا اور آخری درجہ "تمغہ امتیاز" ہے جو 2019ء میں صدر عارف علوی نے اداکارہ مہوش حیات کو دیا تو ایک طوفان برپا ہوگیا تھا کیونکہ یہ اعزاز اس سے قبل بڑے بڑے فنکاروں کی دسترس سے باہر ہوتا تھا جنھیں عام طور چھٹے اعزاز کا چوتھا اور آخری درجہ ، "تمغہ حُسنِ کارکردگی" ملتا تھا یعنی قومی اعزازات کے درجات میں سب سے کمتر اور آخری بڑا اعزاز۔۔!

صدر جنرل ایوب خان نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ملکہ ترنم نورجہاں کی خدمات کے عوض 18 نومبر 1965ء کو جو "تمغہ حُسنِ کارکردگی" عنایت کیا تھا ، وہ اس دور کی فلموں کے ٹائٹلز پر میڈم کے نام کے ساتھ بڑے فخر کے ساتھ لکھا جاتا تھا حالانکہ یہ اعزاز انھیں فلمی گائیکی پر نہیں بلکہ جنگی ترانے گانے پر ملا تھا۔

پاکستان میں بھٹو دورِ حکومت تک بہت کم سرکاری اعزازت دیے جاتے تھے لیکن جنرل ضیاع مردود کے منافقانہ دور سے سیاسی مفادات کے لیے ان سرکاری اعزازت کو باپ کا مال سمجھ کر ریوڑیوں کی طرح سے بانٹا گیا اور تب سے اب تک بندربانٹ کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ سرکاری (اور نجی) اعزازات بھی سرکاری کرنسی اور وقار کی طرح سستے اور کوڑیوں کے مول ہو گئے ہیں اور ان کی قدرومنزلت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

فلمی شخصیات کے لیے اعلیٰ سرکاری اعزازات

پاکستان میں عام طور پر حکومتِ وقت کی طرف سے فلمی فنکاروں کو "تمغہ حُسنِ کارکردگی" یا "پرائڈ آف پرفارمنس" دیا جاتا رہا ہے جس کی کوئی تفصیل سرکاری ویب سائٹ پر تو نہیں لیکن وکی پیڈیا پر کچھ معلومات موجود ہیں جو عام طور پر مستند نہیں ہوتیں۔ البتہ ایک لمبی فہرست ہے۔

اس فہرست کے مطابق ، میڈم نورجہاں ، "تمغہ حُسنِ کارکردگی" حاصل کرنے والی پہلی فلمی شخصیت ہیں۔ قوی ، پہلے فلمی اداکار ، صبیحہ خانم ، پہلی فلمی اداکارہ ، محمدعلی ، پہلے فلمی ہیرو ، جی اے چشتی ، پہلے فلمی موسیقار ، پرویز ملک پہلے فلم ڈائریکٹر اور علی اعجاز ، پہلے فلمی کامیڈین تھے جنھیں یہ ایوارڈز ملے۔

سرکاری اعزازات کی تقسیم میں یہ بات بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ فلم کے مقابلے میں سرکاری ریڈیو اور ٹی وی فنکاروں کو زیادہ ایوارڈز ملے جس سے سرکار کی نظر میں فلمی فنکاروں کی بے قدری اور بے توقیری کا اندازہ ہوتا ہے۔

اس فہرست میں ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی سامنے آئی کہ "تمغہ حُسنِ کارکردگی" کا اعزاز ، مصطفیٰ قریشی کو تو ملا لیکن سلطان راہی کو کبھی نہیں مل سکا۔ اسی طرح سے بہت سے دیگر بڑے بڑے فلمی فنکار ہیں جنھیں کبھی اس سرکاری اعزاز کا مستحق نہیں سمجھا گیا۔

دوسری طرف کچھ فنکار ایسے بھی ہیں جنھیں ان کی زندگی میں تو نہیں پوچھا گیا لیکن موت کے بعد یاد کیا گیا جس کی بہت بڑی مثال گلوکار احمدرشدی اور اداکار وحیدمراد کو بعد از مرگ ملنے والے سرکاری اعزازات ہیں جو کراچی کی ایک لسانی سیاسی جماعت ایم کیو ایم کی کوششوں سے دیے گئے تھے۔ ان کے علاوہ یہ کتنا بڑا مذاق ہے کہ مہدی حسن کو سرکاری اعزازات کے تناظر میں ملکہ ترنم نورجہاں سے بڑا گلوکار ثابت کیا گیا ہے۔۔!

1980 کی دھائی سے قبل بہت کم فنکاروں کو یہ اعزازت ملتے تھے لیکن اس کے بعد منظورِ نظر فنکاروں کو تھوک کے حساب سے دیے جانے لگے۔ عام طور پر جن کی لابی مضبوط ، سفارش تگڑی اور اثرورسوخ گہرا ہوتا ہے ، وہ انعام یافتہ بن جاتے ہیں۔ سیاسی ، گروہی ، لسانی اور علاقائی مفادات کے تحت بھی یہ اعزازات تقسیم ہوتے ہیں۔

ریکارڈز کے لیے وکی پیڈیا پر دستیاب غیر مصدقہ اور متضاد معلومات کی روشنی میں مندرجہ ذیل فلمی افراد کو "تمغہ حُسنِ کارکردگی" سے بھی بڑے اعلیٰ سول ایوارڈز "امتیاز" ملنے والے فنکاروں کا ذکر کیا جارہا ہے۔ (بریکٹس میں وہ سال درج ہیں جب یہ اعزازات دیے گئے تھے):

نشانِ امتیاز

ہلالِ امتیاز

ستارہ امتیاز

تمغہ امتیاز

پاکستان کے پہلے فلمی ایوارڈز

پاکستان میں پہلی بار فلمی ایوارڈز ، کسی اور نے نہیں ، خود حکومتِ پاکستان نے دیے تھے۔ 18 جنوری 1957ء کو کراچی میں پاکستان کے پہلے فلمی ایوارڈز کی تقسیم ، صدر میجر جنرل (ر) سکندر مرزا کے ہاتھوں سرانجام پائی تھی۔

پاکستان کے پہلے فلمی ایوارڈز 1956

پاکستان کی پہلی ایوارڈ یافتہ فلم انتظار (1956)
شعبہ فنکار فلم
فلم (ساز) خواجہ خورشید انور ، سلطان جیلانی انتظار
ہدایتکار مسعود پرویز انتظار
اداکار سنتوش کمار انتظار
اداکارہ صبیحہ خانم چھوٹی بیگم
معاون اداکار ایم اسماعیل قسمت
معاون اداکارہ آشا پوسلے قسمت
مصنف خواجہ خورشید انور انتظار
موسیقار خواجہ خورشید انور انتظار
آرٹ ڈائریکٹر اقبال حسین عمر ماروی
ایڈیٹر علی جبرو

معروف محقق جناب عقیل عباس جعفری کی "پاکستان کرونیکل" کے مطابق 17 سے 20 جنوری 1957ء تک کراچی میں پاکستان کا پہلا فلمی میلہ منعقد ہوا جس میں حکومت کی طرف سے قائم کی گئی جیوری (؟) نے 1956ء میں کراچی میں ریلیز ہونے والی 12 فلموں کو ایوارڈز کے لیے منتخب کیا تھا۔

ان میں سات اردو فلموں ، انتظار ، قسمت ، سرفروش ، باغی ، چھوٹی بیگم ، دربارِ حبیب اور کنواری بیوہ (1956) اور تین پنجابی فلموں ، ماہی منڈا ، جبرو (1956) اور پاٹے خان (1955) کے علاوہ اسی سال پہلی بار بننے والی بنگالی فلم مکھ و مکیش (1956) اور پہلی سندھی فلم عمر ماروی (1956) بھی شامل تھیں۔

پاکستان کے ان پہلے فلمی ایوارڈز کے نتائج کے مطابق دیے گئے کل دس ایوارڈز میں سے اردو فلم انتظار (1956) نے آدھے یا پانچ ایوارڈز اپنے نام کیے تھے۔

پاکستان واپسی پر اپنی پہلی ہی فلم میں خواجہ خورشید انور کو کل تین ایوارڈز ملے جن میں بہترین موسیقار اور مصنف کے علاوہ بہترین فلم یا فلمساز کا ایوارڈ بھی تھا جو انھوں نے سلطان جیلانی کے ساتھ شیئر کیا تھا۔

اس فلم میں مسعود پرویز کو بہترین ہدایتکار اور سنتوش کمار کو بہترین فلمی ہیرو کا ایوارڈ ملا جنھوں نے اس فلم میں ڈبل رول کیا تھا۔

بہترین فلمی ہیروئن کا ایوارڈ صبیحہ خانم کو فلم چھوٹی بیگم (1956) میں جبکہ فلم قسمت (1956) میں عمدہ اداکاری پر آشا پوسلے اور ایم اسماعیل کو معاون اداکاروں کے ایوارڈز ملے تھے۔

ان دس سرکاری فلمی ایوارڈز میں سے صرف دو ایوارڈز "پاکستان کی علاقائی فلموں" کے حصہ میں آئے جو "تخلیقی کارکردگی" کی بجائے "تیکنیکی کارکردگی" پر دیے گئے تھے۔ ان میں بہترین آرٹ ڈائریکٹر کا ایوارڈ اقبال حسین کو سندھی فلم عمر ماروی (1956) میں جبکہ بہترین ایڈیٹر کا ایوارڈ علی کو فلم پنجابی فلم جبرو (1956) میں دیا گیا تھا۔ پہلی بنگالی فلم کسی ایورڈ سے محروم رہی۔ ساؤنڈریکارڈسٹ کا اعلان شدہ ایوارڈ کوئی فلم حاصل نہ کر سکی تھی۔

گلوکاروں سے ناانصافی

پاکستان کے پہلے فلمی ایوارڈز میں بہترین موسیقار کا ایوارڈ تو تھا لیکن بہترین نغمہ نگار کے علاوہ گلوکاروں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا تھا۔ بھارتی فلم فیئر ایوارڈ سے متاثر ، ایوارڈ دہندگان کو نغماتی فلم انتظار (1956) میں خواجہ صاحب کی دھنوں اور سازوں نے تو متاثر کیا لیکن میڈم نورجہاں کی گائیکی نے قطعاً متاثر نہیں کیا تھا۔۔!

یاد رہے کہ 1954ء میں پہلی بار بھارت کے سب سے مشہور فلمی ایوارڈز Filmfare دیے گئے تو کسی گلوکار کو کوئی ایوارڈ نہیں ملا تھا حالانکہ بیجو باورا (1952) جیسی شاہکار نغماتی فلم میں موسیقار نوشاد کو ایوارڈ دیا گیا لیکن گیت نگار شکیل بدایونی کے علاوہ گلوکار محمدرفیع اور لتا منگیشکر کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ اب ظاہر ہے کہ اگر وہ دونوں عظیم گلوکار ، ایوارڈ کے قابل نہیں تھے تو پھر کوئی دوسرا کیسے ہوسکتا تھا؟

فلمی ایوارڈز میں گلوکاروں سے زیادتی نہ صرف پہلے سرکاری ایوارڈز (1956) میں ہوئی بلکہ پہلے صدارتی ایوارڈز (1960) کے علاوہ پہلے نگار ایوارڈز (1957) میں بھی کی گئی تھی حالانکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہماری فلموں میں سب سے زیادہ مقبولیت گیتوں ہی کو ملتی ہے اور ہماری فلمیں ، اپنے گیتوں ہی کی وجہ سے جانی پہچانی جاتی ہیں۔

صدارتی فلم ایورڈز

پاکستان کے پہلے فلمی ایوارڈز (1956) کے بعد "اکلوتے صدارتی فلم ایوارڈز" کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یہ ایوارڈز 1960ء میں ریلیز ہونے والی فلموں کو دیے گئے تھے۔

صدارتی فلم ایوارڈز 1960

پاکستان کی پہلی صدارتی ایوارڈ یافتہ فلم سہیلی 1ٓ(1960)
شعبہ فنکار فلم
فلم (ساز) ایس ایم یوسف ، ایف ایم سردار سہیلی
ہدایتکار ایس ایم یوسف سہیلی
اداکار ظریف بہروپیا
اداکارہ شمیم آراء سہیلی
معاون اداکار طالش سہیلی
معاون اداکارہ نیر سلطانہ سہیلی
کہانی نویس دانش ویروی اور بھی غم ہیں
مکالمہ نگار شاطر غزنوی بھابھی
موسیقار تصدق حسین روپ متی باز بہادر
گلوکارہ روشن آراء بیگم روپ متی باز بہادر
عکاس نبی احمد ایاز
بنگالی فلم   آسیہ

پروگرام کے مطابق صدارتی ایوارڈز کی تقسیم بدست صدر جنرل ایوب خان ہونا تھی جن کے نام نامی پر یہ ایوارڈز دیے جارہے تھے لیکن ان کی دیگر مصروفیات کی وجہ سے 17 مئی 1961ء کو لاہور کے باغ جناح میں وفاقی وزیر اطلاعات و تعمیر نو حبیب الرحمان نے ایوارڈز تقسیم کیے تھے۔

پاکستان کے اکلوتے صدارتی ایوارڈز بھی لسانی بنیادوں کی بجائے قومی سطح پر ریلیز ہونے والی فلموں کو دیے گئے لیکن پھر بھی انتہائی متنازعہ رہے۔ شاید ایسے ہی تنازعات سے بچنے کے لیے دوبارہ کبھی نہیں دیے جا سکے۔

یہ صدارتی فلم ایوارڈ ، بارہ مختلف شعبوں میں دیے گئے جن میں بہترین فلم کا اعزاز اردو فلم سہیلی (1960) اور "بہترین ہدایتکار" کا ایوارڈ بھارت سے آئے ہوئے ایس ایم یوسف نے حاصل کیا جن کی پاکستان میں یہ پہلی فلم تھی۔

دس ایوارڈز ، اردو فلموں کے لیے اور صرف ایک ایک ایوارڈ "علاقائی فلموں" کے لیے تھا اور وہ بھی عجیب تھا کیونکہ ایک بنگالی فلم آسیہ (1960) کو بھی "بہترین فلم" کا ایوارڈ دیا گیا۔ اس طرح سے صدارتی ایوارڈ دینے والوں نے بھی لسانیت کا مظاہرہ کیا تھا کیونکہ سال کی بہترین فلم ایک ہی ہو سکتی تھی ، چاہے وہ کسی بھی زبان میں بنی ہو۔

ایوارڈز دینے والوں کی سوچ ہی نرالی تھی جب انھوں نے بہترین موسیقار کا اعزاز ماسٹر تصدق حسین کو دیا جن کی ایک گمنام فلم روپ متی باز بہادر (1960) میں روشن آراء بیگم کو بھی "بہترین گلوکارہ" کا ایوارڈ دے کر اصل فلمی گلوکاروں کی حق تلفی کی گئی تھی۔ اس فلم کا کوئی ایک بھی گیت مقبول نہیں ہوا تھا جبکہ فلم سہیلی (1960) سال کی سب سے بڑی نغماتی فلم تھی جو نسیم بیگم کے فلمی کیرئر کی بھی سب سے بڑی فلم تھی۔

صدارتی فلم ایوارڈز میں بھی میل سنگرز کو ایوارڈ کے قابل نہیں سمجھا گیا تھا حالانکہ اسی سال سلیم رضا کو پہلے نگار ایوارڈ یافتہ گلوکار ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ ان کا فلم ہمسفر (1960) میں گایا ہوا سپرہٹ گیت "زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ۔۔" اس سال کا مقبول ترین مردانہ گیت تھا۔

بہترین اداکارہ کا تنازعہ

صدارتی ایوارڈز (1960) کی تقسیم پر سب سے بڑا اعتراض اور اختلاف "بہترین اداکارہ"کے ایوارڈ پر تھا جو اداکارہ شمیم آراء کو فلم سہیلی (1960) میں دیا گیا تھا۔ اسی فلم میں "معاون اداکارہ" کا ایوارڈ ، اداکارہ نیر سلطانہ کو دیا گیا تھا جو درست نہیں تھا۔ اس فیصلے سے دونوں اداکاراؤں میں خاصی بیان بازی ہوئی تھی کیونکہ ان دونوں کی یہ پہلی سپرہٹ فلم تھی جس کا وہ اکیلے ہی کریڈٹ لینا چاہتی تھیں۔

"صدارتی ایوارڈز" دینے والوں کی سوچ "نگار ایوارڈز" دینے والوں کی سوچ سے بالکل مختلف تھی جنھوں نے اسی فلم میں نیر سلطانہ کو "بہترین اداکارہ" اور شمیم آراء کو "بہترین معاون اداکارہ" کے ایوارڈز دیے تھے۔ درست بھی یہی تھا کیونکہ ایک عام فلم بین بھی فلم دیکھ کر فیصلہ کر سکتا ہے کہ فلم سہیلی (1960) کی فرسٹ ہیروئن نیر سلطانہ ہی تھی جس کو فلم کے پوسٹر پر بھی نمایاں دکھایا گیا تھا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی فلم پوسٹر پر شمیم آراء کا نام نیر سلطانہ سے پہلے لکھا گیا تھا۔۔!

بہترین اداکار ، ظریف؟

اس اکلوتے صدارتی فلم ایوارڈز میں ایک اور حیرت انگیز فیصلہ "بہترین اداکار" کے ایوارڈ کا تھا جو ایک پنجابی فلم بہروپیا (1960) میں ممتاز مزاحیہ اداکار ظریف کو دیا گیا تھا۔۔!

ظریف کو ملنے والا یہ ایوارڈ یقیناً ، کارکردگی سے زیادہ ازراہِ ہمدردی دیا گیا ہوگا کیونکہ اسی سال 30 اکتوبر 1960ء کو ان کا اچانک انتقال ہوگیا تھا ورنہ ایک "علاقائی فلم" پر اتنا بڑا احسان۔۔؟!؟

ڈھاکہ کا فلمی میلہ

پاکستان کی نام نہاد "قومی سوچ" اور "عوامی سوچ" میں کتنا بڑا فرق رہا ہے ، اس کا عملی مظاہرہ اگست 1965ء میں ڈھاکہ میں ہونے والے مشرقی اور مغربی پاکستانی فلموں کے اکلوتے فلمی میلے میں ہوا جس میں ڈھاکہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ایوارڈز تقسیم کیے تھے۔

اس فلمی میلے میں مغربی پاکستان (یا موجودہ پاکستان) کی نامزد چھ فلموں میں سے اکلوتی پنجابی فلم کرتارسنگھ (1959) کو سب سے بہترین فلم قرار دیا گیا تھا۔ مقابلے میں باقی پانچوں اردو فلمیں ، اولاد (1962) ، دامن ، شکوہ (1963) ، فرنگی اور ہیرا اور پتھر (1964) تھیں۔

مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) سے بھی چھ بنگالی فلمیں پیش کی گئیں جن میں تلاش (1963) اور ملن (1964) جیسی ڈبل ورژن بنگالی/اردو فلموں کے مقابلے میں ایک خالص بنگالی فلم نے "بہترین فلم" کا پہلا انعام جیتا تھا۔

نیشنل فلم ایوارڈز

پاکستان میں سرکاری طور پر فلمی ایوارڈز دینے کی تیسری اور آخری کوشش 1980 کی دھائی میں ہوئی جو "نیشنل فلم ایوارڈز" کہلاتی ہے۔

پہلے نیشنل فلم ایوارڈز 1983

پہلی نیشنل فلم ایوارڈ یافتہ فلم گمنام (1983)
شعبہ فنکار فلم
فلم انیس دوسانی گمنام
ہدایتکار محمدجاوید فاضل دہلیز
اداکار طلعت حسین گمنام
اداکارہ شبنم گمنام
مصنف پرویز ملک گمنام
موسیقار کمال احمد دہلیز
نغمہ نگار خواجہ پرویز قدرت
گلوکارہ گلنار بیگم خاندان
عکاس محمد ایوب نادانی
ایڈیٹر زلفی راکا
صدابندی ظہور احمد لو سٹوری

پاکستان پر مسلط ایک جابر و غاصب اور خودساختہ صدر جنرل ضیاء الحق ملعون نے 14 جولائی 1984ء کو فلمی نمائندوں سے نو گھنٹے تک طویل ملاقات کی تھی جس میں فلم انڈسٹری کے مسائل پر بات ہوئی تھی۔

اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ تو VCR پر گھر گھر چلنے والی بھارتی ویڈیو فلمیں تھیں جن پر پابندی کا مطالبہ تھا لیکن آمرمردود کا ظاہری نمازوں کے علاوہ اپنا زیادہ تر وقت چونکہ انھی فلموں کو دیکھ کر گزرتا تھا ، اس لیے اس ضمن میں کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہ ہو سکی تھی۔

اس ملاقات کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ فلم انڈسٹری کی اشک شوئی کے لیے نیشنل فلم ایوارڈز کا اجراء کیا گیا جس کی پہلی تقریب 28 دسمبر 1984ء کو ہوئی اور جس میں 1983ء کی فلموں کو ایوارڈز دیے گئے تھے۔

نیشنل فلم ایوارڈز بھی بظاہر غیر لسانی بنیادوں پر دیے گئے لیکن اس کے باوجود گیارہ ایوارڈز میں سے 8 ایوارڈز اردو فلموں کو جب کہ صرف دو ایوارڈز پنجابی اور ایک پشتو فلم کو دیا گیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اردو فلموں کے زوال کا دور تھا اور اس سال کل 81 ریلیز شدہ فلموں میں سے صرف 16 اردو ،39 پنجابی اور 25 پشتو فلمیں تھیں ، اس کے باوجود ایوارڈ دینے والوں کی "قومی سوچ" اور "قومی زبان" سے محبت آڑے آئی۔ اس سال پنجابی زبان کی متعدد انتہائی متاثر کن فلمیں ریلیز ہوئیں لیکن چونکہ "علاقائی فلمیں" تھیں ، اس لیے اپنے ہی ملک میں تعصب اور ناانصافی کا شکار ہوئیں۔

پہلے "نیشنل فلم ایوارڈز" میں بھی حسب معمول ڈنڈی ماری گئی جب بیک وقت دو اردو فلموں ، گمنام اور دہلیز (1983) کو بہترین فلمیں قرار دیا گیا۔ ان دونوں فلموں کے ہدایتکاروں محمدجاوید فاضل اور پرویز ملک کو بھی ایوارڈز دے کر توازن برقرار رکھا گیا تھا۔

ٹی وی اداکار طلعت حسین کو "بہترین اداکار" اور شبنم کو "بہترین اداکارہ" کے ایوارڈز ملے اور بے چارے ندیم صاحب سے سخت زیادتی کی گئی جو "نگار ایوارڈز" کی نظر میں ایک ناقابلِ معافی جرم تھا جہاں ندیم صاحب کے بغیر ایوارڈز کی تقسیم مکمل ہی نہیں ہوتی تھی۔

"بہترین گلوکارہ" کا ایوارڈ ، ایک پشتو گلوکارہ گلنار بیگم کو دیا گیا تھا۔ "بہترین گلوکار" کا "نیشنل ایوارڈ" کسی کو نہیں ملا حالانکہ اسی سال کا "نگار ایوارڈ" ، اخلاق احمد کو جبکہ "بولان ایوارڈز" ، اے نیر کو اردو اور مسعودرانا کو پنجابی فلموں میں ملے تھے۔ کمال احمد کو فلم دہلیز (1983) میں "بہترین موسیقار" اور خواجہ پرویز کو فلم قدرت (1983) کے دلکش گیتوں پر "بہترین گیت نگار" کا قومی ایوارڈ دیا گیا تھا۔

ان نام نہاد "قومی فلم ایوارڈز" کی بندربانٹ کچھ عرصہ تک جاری رہی لیکن پھر عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ سرکس بھی بند کرنا پڑی۔

پاکستانی فلموں کے دیگر اعزازات

مندرجہ بالا سرکاری فلمی ایوارڈز کے علاوہ پاکستانی فلموں کو بین الاقوامی طور پر بھی پذیرائی ملی تھی جس کے چند اہم ترین واقعات درج ذیل ہیں:

  • ہدایتکار اشفاق ملک کی فلم باغی (1956) ، پاکستان کی پہلی سپرہٹ ایکشن اردو فلم تھی جس کی کمائی سے فلمساز نے لاہور میں ایک فلم سٹوڈیو بھی بنا لیا تھا۔ یہ پہلی فلم تھی جو چین میں بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی اور بے حد پسند کی گئی تھی۔
  • جاگو ہوا سویرا (1959) ، پاکستان کی پہلی فلم تھی جس نے روس کے ایک فلمی میلے میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ مشرقی پاکستان میں بنائی جانے والی یہ پہلی فیچر فلم تھی جس کو بنانے والی ٹیم مغربی پاکستان سے تھی لیکن سبھی اداکار مقامی تھے۔
  • ہدایتکار اقبال شہزاد کی شاہکار فلم بدنام (1966) کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ فلم روس میں اتنی مقبول ہوئی کہ اس کو سترہ مختلف زبانوں میں ڈب کر کے پیش کیا گیا تھا۔
  • چین میں ایک اور پاکستانی فلم میرا نام ہے محبت (1975) بھی بے حد پسند کی گئی تھی۔ روایت ہے کہ چینیوں نے عقیدت کے طور پر اس فلم کے اداکاروں ، بابرہ شریف اور غلام محی الدین کے مجسمے تک بنا لیے تھے۔ ہدایتکار شباب کیرانوی تھے۔
  • تاشقند ہی کے ایک فلمی میلے میں پاکستان کی عظیم اداکارہ صبیحہ خانم کو فلم اک گناہ اور سہی (1975) میں بہترین اداکارہ کا ایوارڈ دیا گیا تھا۔
ان کے علاوہ پاکستان کی ایک دستاویزی فلم کو آسکر ایوارڈ بھی ملا تھا لیکن یہاں ذکر صرف فیچر فلموں کا ہو رہا ہے۔ پاکستان یا بھارت کی کسی فیچر فلم کو آج تک آسکر ایوارڈ نہیں مل سکا جو دنیا کا سب سے بڑا اور معتبر فلمی ایوارڈ ہے۔

اکیڈمی یا آسکر ایوارڈز

دنیا کا سب سے بڑا ، مشہور اور معتبر فلم ایوارڈ "اکیڈمی یا آسکرز ایوارڈز" ہے جس کی پہلی تقریبِ تقسیم تقریباً سو سال قبل 1929ء میں امریکہ میں ہوئی تھی۔ ہالی وڈ کے علاوہ دنیا بھر کے فنکاروں کی اس ایوارڈ کو حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ کسی بھی شعبہ کو ایوارڈ دینے کے لیے اسی شعبہ سے منسلک افراد کے ماہرین کا ایک گروپ بہترین فلموں اور فنکاروں کا فیصلہ کرتا ہے۔ ایک بہت بڑی تقریب میں یہ ایوارڈ تقسیم کیے جاتے ہیں جو دنیا بھر میں مستند تسلیم کیے جاتے ہیں۔

فلم فئیر ایوارڈز

ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہے جہاں مختلف زبانوں میں بڑی تعداد میں فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ بھارت میں فلموں کو دیے جانے والے مختلف سرکاری اور نجی اعزازات جیسے کہ "دادا صاحب پھالکے" اور "قومی فلم ایوارڈز" کے علاوہ انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا کا "فلم فئیر ایوارڈ" سب سے زیادہ مشہور ہے جو 1954ء سے مسلسل دیا جا رہا ہے۔ اسی ایوارڈ کی تقلید میں پاکستان میں بھی نجی فلمی ایوارڈز کا اجراء ہوا تھا۔

نگار فلم ایوارڈز

پاکستان کے نجی شعبہ میں جو فلمی ایوارڈز دیے گئے ، ان میں سب سے پہلا ، بڑا اور معروف نام "نگار ایوارڈز" کا ملتا ہے جو کراچی سے شائع ہونے والے ایک فلمی اخبار "ہفت روزہ نگار" کے مدیر الیاس رشیدی کی کاوش تھی۔

پہلے نگار فلم ایوارڈز 1957

پہلی نگار ایوارڈ یافتہ فلم سات لاکھ (1957)
شعبہ فنکار فلم
فلم (ساز) سیف الدین سیف سات لاکھ
ہدایتکار ڈبلیو زیڈ احمد وعدہ
مصنف سیف الدین سیف سات لاکھ
اداکار سنتوش کمار وعدہ
اداکارہ صبیحہ خانم سات لاکھ
معاون اداکار علاؤالدین آس پاس
معاون اداکارہ نیر سلطانہ سات لاکھ
موسیقار رشید عطرے سات لاکھ
عکاس سہیل ہاشمی بڑا آدمی
نگار فلم ایوارڈز
نگار ایوارڈز ، بھارتی فلم فیئر ایوارڈز کی تقلید میں پہلے بیس سال تک ایک عورت کی نیم برہنہ مورتی کی صورت میں تقسیم ہوتے تھے۔ 1977ء میں جنرل ضیاع مردود کے نام نہاد "اسلامی مارشل لاء" کے خوف سے ان کی ہیئت بدلی گئی اور نگار کی تحریر والا ایوارڈ متعارف کروایا گیا تھا۔

"نگار ایوارڈز" ، امریکہ کے "اکیڈمی ایوارڈز" اور بھارتی "فلم ایوارڈز" Filmfare سے متاثر تھے جنھیں کچھ لوگ "پاکستان کے آسکر ایواراڈز" بھی کہتے ہیں۔ یہ ایوارڈز ، ماہرین کی بجائے "ہفت روزہ نگار کراچی" کے قارئین کی پسندوناپسند کے مطابق دیے جاتے تھے۔

"نگار ایوارڈز" کی پہلی تقریب 17 جولائی 1958ء کو ایورنیو سٹوڈیو لاہور میں ہوئی جس میں 1957ء میں ریلیز ہونے والی فلموں کو نو مختلف شعبوں میں ایوارڈز دیے گئے تھے۔ اس پہلی تقریب کے مہمان خصوصی وزیر امداد باہمی میر علی احمد تالپور تھے۔

پہلے "نگار ایوارڈز" سے ہی تنازعات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جب بہترین فلم سات لاکھ (1957) قرار پائی لیکن اس فلم کے ہدایتکار جعفر ملک کو ایوارڈ کے قابل نہیں سمجھا گیا حالانکہ فلم کے میعار کا تمام تر کریڈٹ صرف اور صرف ہدایتکار کو جاتا ہے ، فلمساز تو محض سرمایہ کاری کرتا ہے اور فلم ڈائریکٹر کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا۔

اس ناانصافی اور بددیانتی کی وجہ بھی سامنے آگئی۔ تقسیم سے قبل کے ایک نامور ہدایتکار ڈبلیو زیڈ احمد اور ان کی لابی کو بھی خوش کرنا تھا جنھیں فلم وعدہ (1957) میں بہترین ڈائریکٹر کا ایوارڈ تو دے دیا گیا لیکن ان کی فلم "بہترین فلم" کا اعزاز حاصل نہ کر سکی۔ یعنی ایک فلم اچھی تھی لیکن اس کے بنانے والا اچھا نہیں تھا جبکہ دوسرا بنانے والا تو اچھا تھا لیکن اس کا کام اچھا نہیں تھا ، کیا کہنے۔۔!

اداکاری کے شعبہ میں عام طور غیر معمولی کارکردگی پر ایوارڈز دیے جاتے ہیں۔ صبیحہ خانم کے علاوہ علاؤالدین ہی اپنے ایوارڈ کے اصل حقدار تھے جن کی کارکردگی نے انھیں ایک ولن اداکار سے مرکزی کرداروں تک پہنچا دیا تھا جبکہ دیگر ایوارڈ یافتگان محض خانہ پری کے لیے تھے جو "نگار ایوارڈز" کی ایک مستقل روایت رہی ہے۔

یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ "نگار ایوارڈز" کی پہلی تقریب میں اداکارہ صبیحہ خانم نے اس بنا پر شرکت نہیں کی تھی کیونکہ اسے یہ یقین دھانی نہیں کروائی گئی تھی کہ "بہترین اداکارہ" کا ایوارڈ اسے ملے گا۔ پہلے نگار ایوارڈ کے جیتنے والوں کا اعلان لفافہ کھول کر کیا گیا تھا جو بعد میں دعوت ناموں میں ہی بتا دیا جاتا تھا۔ صبیحہ کا پہلا ایوارڈ سنتوش نے وصول کیا جن کی اس وقت تک شادی نہیں ہوئی تھی لیکن فلمی جوڑی بے حد مقبول تھی۔

فلمی گلوکاروں سے زیادتی

بھارتی "فلم فیئر ایوارڈ" کی اندھی تقلید میں پہلے نگار ایوارڈز میں بھی بہترین موسیقار کا ایوارڈ تو دیا گیا لیکن کسی گیت ، گیت نگار یا گلوکار کو اس کے حق سے محروم کیا گیا تھا۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ ہماری فلمیں ہمیشہ سے صرف اپنے گیتوں کی وجہ سے جانی جاتی ہیں۔

1957ء کی فلموں کو ہی لیں تو فلم سات لاکھ (1957) ، ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی جس میں زبیدہ خانم کا گیت "آئے موسم رنگیلے سہانے۔۔" اور "منیرحسین کا گیت "قرار لوٹنے والے۔۔" اگر ایوارڈ کے حقدار نہیں تھے تو پھر بہت کم گیت ایوارڈز کے حقدار بنتے ہیں۔

فلم وعدہ (1957) میں کوثر پروین کا "بار بار ترسیں مورے نین۔۔" فلم نوراسلام (1957) میں سلیم رضا کی لازوال نعت "شاہ مدینہﷺ۔۔ " اور فلم عشقِ لیلیٰ (1957) میں عنایت حسین بھٹی کے گیت "محبت کا جنازہ جا رہا ہے۔۔" کے علاوہ ایک سے بڑھ کر ایک گیت لاجواب تھا لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی گیت "نگار ایوارڈز" کے معیار پر پورا نہیں اتر سکا تھا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی نگار ایوارڈز ، انتہائی عامیانہ گیتوں کو دیے گئے جن میں بہت بڑی مثال فلم نیا راستہ (1973) میں مہدی حسن کا گیت "مجھے کر دینا نہ دیوانہ ، تیرے انداز مستانہ۔۔" اور اخلاق احمد کے فلم نادانی (1983) میں گائے ہوئے گیت "لوٹا قرار میرے دل کا ، ہائے رے ہائے مس لنکا۔۔" وغیرہ کی ہے۔

1958ء کی فلموں کے دوسرے نگار ایوارڈز میں بھی گلوکاروں کو نظرانداز کیا گیا اور سال کی سب سے بڑی نغماتی فلم انارکلی (1958) میں میڈم نورجہاں کی حق تلفی ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سال گیت نگار کا ایوارڈ بھی دیا گیا لیکن گلوکاری کا شعبہ اس نظرکرم سے محروم رہا۔ البتہ اگلے سال کی فلم کوئل (1959) میں میڈم کو پہلا نگار ایوارڈ دینا پڑا۔۔!

نگار ایوارڈز اور لسانی تعصب

نگار ایوارڈز ، ابتداء ہی سے انتہائی متنازعہ رہے ہیں کیونکہ ان میں بڑا گہرا لسانی تعصب پایا جاتا تھا۔ یہ ایوارڈز صرف اردو فلموں کے لیے ہوتے تھے جو ہر حال میں دینا ہوتے تھے ، چاہے کوئی حقدار ہو یا نہ ہو۔ یہی وجہ تھی کہ نگار ایوارڈز کی اہمیت صرف کراچی تک یا میڈیا اور اردو فلم بینوں تک محدود ہوتی تھی۔

1967ء میں پہلی بار ایک پنجابی فلم کو نگار ایوارڈ کا مستحق سمجھا گیا تھا۔ گویا اگر کوئی عقل کا اندھا ، نگار ایوارڈز کو معیار سمجھے گا تو اس کے لیے تو اس سے پہلے بننے والی کوئی ایک بھی پنجابی فلم ، فنکار یا گیت معیاری نہیں ہوگا۔

بیشتر نگار ایوارڈز محض خانہ پری کے لیے ہوتے تھے جو میرٹ کی بجائے لسانی ، گروہی اور علاقائی پسند و ناپسند ، شخصیات اور موقع و محل کے مطابق دیے جاتے تھے۔ ماہرین کی بجائے شائقین کے وؤٹوں سے انعام یافتگان کا انتخاب ہوتا تھا اور اسی لیے "اندھا بانٹے ریوڑیاں اور وہ بھی اپنوں کو" والی کہاوت پر پورا اترتے تھے۔

"ندیم ایوارڈز"

1980 کی دھائی میں "نگار ایوارڈز" اس قدر بدنام ہوچکے تھے کہ ان کا نام ہی "ندیم ایوارڈز" پڑ گیا تھا کیونکہ اردو فلموں کے زوال کے دور میں بہترین ہیرو کے طور پر ندیم صاحب اکلوتا آپشن ہوتے تھے۔

اس دور میں بددیانتی اور دیدہ دلیری کی انتہا ہوگئی تھی جب ندیم صاحب کو دو بار پنجابی فلموں کے "بہترین اداکار" کے نگار ایوارڈز بھی تھما دیے گئے تھے۔

ندیم صاحب ، بلاشبہ اردو فلموں کے سپرسٹار تھے لیکن پنجابی فلموں کے ناکام ترین اداکار تھے جو صرف تین خالص پنجابی فلموں میں کام کر سکے تھے۔ انھیں ڈبل ورژن پنجابی/اردو فلموں میں صرف اس لیے کاسٹ کیا جاتا تھا کہ وہ فلم کراچی میں بھی چل سکے ، ورنہ پنجاب سرکٹ یا پنجابی فلموں میں سلطان راہی کے مقابلے میں دیگر فنکاروں کی طرح ندیم صاحب کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی۔

نگار ایوارڈز کا زوال

1990ء کی دھائی تک نگار ایوارڈز اپنی اہمیت اور افادیت کھو چکے تھے۔ ایوارڈز دینے والے پیچھے پیچھے اور لینے والے آگے آگے بھاگتے تھے۔ مسلسل ناانصافیوں کی وجہ سے فنکاروں کی عدم دلچسپی نے ایوارڈز تقاریب کو ویران کرنا شروع کر دیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب بانی نگار الیاس رشیدی نے ایک تقریب میں انتہائی دل گرفتہ حالت میں نگار ایوارڈز کا سلسلہ بند کرنے کا اعلان کر دیا لیکن اداکار یوسف خان کی حوصلہ افزائی سے اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔

2002ء کی فلموں کو آخری بار نگار ایوارڈز دیے گئے تھے۔ 2017ء میں ایک بار پھر ایوارڈز دینے کا اعلان کیا گیا جو صرف اعلان تک محدود رہا۔ محدود وسائل اور دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ایوارڈز دینا اب ممکن بھی نہیں رہا۔

نگار ایوارڈز کے چند اہم واقعات

وکی پیڈیا پر موجود نگار ایوارڈز کی فہرست مکمل نہیں لگتی لیکن اس سے اخذ کیے گئے چند دلچسپ اعدادوشمار ملاحظہ فرمائیں:

  • 1960ء میں پہلی بار ، اردو فلموں کے علاوہ ایک بنگالی فلم آسیہ (1960) کو ایوارڈ کا حقدار سمجھا گیا تھا۔
  • علاؤالدین ، پہلے اداکار تھے جنھوں نے نگار ایوارڈز حاصل کرنے کی ہٹ ٹرک کی تھی۔
  • فلم شہید ، 1962ء میں ریلیز ہوئی لیکن اس فلم کو 1961ء کے فلمی ایوارڈز میں شامل کر کے اس سال کی دیگر فلموں کی حق تلفی کی گئی تھی۔
  • "بہترین اداکار" کا نگار ایوارڈ اصل میں "بہترین ہیرو" کا ایوارڈ ہوتا تھا لیکن فلم کنیز (1965) میں محمدعلی کو یہ ایوارڈ دیا گیا حالانکہ اصل ہیرو وحیدمراد تھے۔
  • 1965ء کی "بہترین گلوکارہ" کا ایوارڈ مالا نے فلم نائیلہ (1965) میں لیا لیکن ملکہ ترنم نورجہاں کو 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں جنگی ترانے گانے پر "خصوصی ایوارڈ" دیا گیا۔
  • مسعودرانا کو فلم مجاہد (1965) کے ایک کورس جنگی ترانے "ساتھیو ، مجاہدو ، جاگ اٹھا ہے سارا وطن۔۔" پر "بہترین گلوکار" کا ایوارڈ دیا گیا لیکن ان کے ساتھی گلوکار شوکت علی کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔
  • 1966ء کے نگار ایوارڈز کے لیے بنگالی اداکار شوکت اکبر کو فلم بھیا (1966) میں "بہترین معاون اداکار" کا ایوارڈ دیا گیا لیکن فلم بدنام (1966) میں علاؤالدین کی بے مثل کارکردگی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا تھا ، اسی لیے "توازن برقرار" رکھنے کے لیے انھیں "سپیشل ایوارڈ" دیا گیا۔ یہ مصلحت پسندانہ سلسلہ مستقل طور پر دھرایا گیا جس سے "سب کو خوش" کیا جاتا رہا۔
  • دل دا جانی (1967) پہلی پنجابی فلم تھی جس نے "بہترین پنجابی فلم" نگار ایوارڈ جیتا تھا۔
  • ہیررانجھا (1970) پہلی پنجابی فلم تھی جس کو 6 نگار ایوارڈز ملے۔ اسی فلم سے پہلی بار فی میل سنگر کو بھی ایوارڈ دیا گیا لیکن میل سنگر کو نظرانداز کر دیا گیا تھا۔
  • وحیدمراد ، پہلے فلمی ہیرو تھے جنھیں اردو کے بعد پنجابی فلم مستانہ ماہی (1971) میں "بہترین اداکار" کا ایوارڈ دیا گیا تھا۔
  • فلم محبت (1972) میں گلوکار طاہرہ سید کو "بہترین گلوکارہ" کا ایوارڈ دے کر اس دور میں نورجہاں اور رونا لیلیٰ کے درمیان میڈیا کے پیدا کیے ہوئے تناؤ کو کم کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی تھی۔
  • فلم خاک اور خون (1979) ، ایک فلاپ فلم تھی لیکن قومی جذبہ پر بنائی گئی تھی شاید اسی لیے اسے 8 نگار ایوارڈز دے کر اپنا قومی فرض پورا کیا گیا تھا۔ نسیم حجازی کو "بہترین کہانی" کے علاوہ "بہترین سکرین پلے" کے ایوارڈز بھی گئے تھے۔
  • اسی سال کی بہترین پنجابی فلم دبئی چلو (1979) قرار پائی (جو ایک بہترین فیصلہ تھا!) لیکن ریکارڈ توڑ فلم مولاجٹ (1979) کسی بھی ایوارڈ سے محروم رہی تھی۔
  • 1979ء میں پہلی بار ٹی وی اور 1982ء میں سٹیج کو بھی نگار ایوارڈز دیے جانے لگے۔
  • 1985ء میں بہترین غیرملکی فنکاروں کو بھی ایوارڈ دیے گئے۔
  • اداکار ندیم کو 1979ء سے 1991ء تک مسلسل 13 سال تک "بہترین اداکار" کا نگار ایوارڈز لینے کا ریکارڈ توڑ اعزاز حاصل ہے۔ ان میں اردو فلموں کے "بہترین اداکار" کے طور تین مسلسل ہٹ ٹرکس کے علاوہ دو پنجابی فلموں کے "بہترین اداکار" کے انتہائی متنازعہ ایوارڈز بھی شامل ہیں۔
  • غلام عباس ، پہلے گلوکار تھے جنھوں نے "بہترین پنجابی گلوکار" کا ایوارڈ ایک دو بار نہیں بلکہ مسلسل تین بار ایک ہٹ ٹرک کی صورت میں حاصل کیا تھا۔ پنجابی فلموں کے لیجنڈ گلوکار ، عنایت حسین بھٹی اور مسعودرانا ، نگار ایوارڈز کے "بہترین گلوکار" کے میعار تک کبھی پورا نہ اتر سکے تھے۔۔!
  • عمرشریف ، واحد فنکار ہیں جنھوں نے ایک ہی سال میں 5 نگار ایوارڈز حاصل کیے تھے۔
  • دستیاب معلومات کے مطابق سب سے زیادہ "نگار ایوارڈز" ، ندیم صاحب کے علاوہ ملکہ ترنم نورجہاں نے حاصل کیے جن کی فی کس تعداد 19 تھی۔ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ایوارڈز ، ریاض شاہد ، مسرور انور اور مزاحیہ اداکار لہری کو ملے جن کی فی کس تعداد 12 تھی۔ اداکارہ شبنم ، گلوکارہ مہناز اور موسیقار ایم اشرف نے فی کس 11 ایوارڈز حاصل کیے تھے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ محمدعلی اور مہدی حسن کو دس دس نگار ایوارڈز دے کر "ایوارڈز سے بالاتر" قرار دے دیا گیا تھا۔

پاکستان کے دیگر فلمی ایوارڈز

دورِ حاضر میں پاکستان میں مختلف ٹی وی چینلز خود ہی فلمیں بناتے ہیں اور اپنے ہی فنکاروں کو ایوارڈز بھی دیتے ہیں ، اس لیے وہ کسی طور پر قابل ذکر نہیں ہیں۔ البتہ ماضی میں نجی شعبہ میں دیگر فلمی ایوارڈز میں سے لاہور سے شائع ہونے والے ایک ممتاز فلمی ہفت روزہ کے اپنے نام پر "مصور ایوارڈز" بھی بڑے مشہور ہوتے تھے لیکن ان کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔

اپنے بچپن کی یاددں میں "ہفت روز مصور لاہور" میں شائع ہونے والا ایک تعارف اور تصویر چپکی ہوئی ہے جب فلم دل لگی (1974) کے گیتوں پر مسعودرانا کو بہترین گلوکار کا "مصور ایوارڈ" دیا گیا تھا جبکہ اسی سال کی فلم شرافت (1974) میں مہدی حسن کو "نگار ایوارڈ" ملا تھا جس سے لاہور اور کراچی کی سوچ میں فرق ظاہر ہوتا ہے۔

1960 کی دھائی میں "گریجویٹ فلم ایوارڈز" بھی بڑے مشہور ہوئے لیکن ان کا ریکارڈ بھی دستیاب نہیں ہے۔ 1980 کی دھائی میں "ایشین فلم ایوارڈز" کے علاوہ "بولان اکیڈمی ایوارڈز" بھی دیے جاتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستانی فلموں پر میرا تحقیقی کام شروع ہو چکا تھا اور اخبارات و جرائد سے اہم فلمی خبریں اور معلومات اپنی ڈائریوں پر نوٹ کر لیا کرتا تھا جن میں سے 1983/84ء کے "بولان ایوارڈ" پر لکھا ہوا ایک ورق مندرجہ ذیل ہے:

1983/84ء میں دیے گئے بولان فلمی ایوارڈز کی تفصیل
1983/84ء میں دیے گئے بولان فلمی ایوارڈز کی تفصیل


Maa Baap
Maa Baap
(1967)
Cake
Cake
(2018)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین