Pakistan Film History
Pakistan Film Magazine presents detailed Urdu/Punjabi article on legandary music director Master Ghulam Haider.
ماسٹر غلام حیدر کو لاہور کی پہلی پنجابی اور پہلی ہندی/اردو بلاک باسٹر فلموں کی موسیقی ترتیب دینے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔۔!
یہ ماسٹر صاحب جیسے گوہر شناس میوزک ڈائریکٹر ہی تھے کہ جنھوں نے شمشاد بیگم اور نور جہاں جیسی اعلیٰ پائے کی گلوکاراؤں کو پنجاب کی حدود سے نکال کر پورے ہندوستان میں متعارف کروا دیا تھا اور طویل جدوجہد کرنے والی بظاہر ایک ناکام ، مسترد اور مایوس بھارتی گلوکارہ ، لتا منگیشکر کو دریافت کیا تھا۔
ماسٹر غلام حیدر ، ایک جدت پسند اور رحجان ساز موسیقار تھے جنھوں نے ہندوستانی فلمی موسیقی کو بوجھل کلاسیکل بندشوں سے آزاد کر کے عام فہم ہلکی پھلکی موسیقی کی شکل میں پنجابی ٹچ دیا تھا۔ اس انقلابی تبدیلی نے فلمی موسیقی کو مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچا دیا تھا اور خاص طور پر 1950/60 کی دھائیوں میں بے شمار لافانی گیت تخلیق ہوئے جو زبان زد عام ہوئے اور امر سنگیت کہلائے۔
ماسٹر غلام حیدر ، پیشے کے لحاظ سے ایک دندان ساز تھے۔ تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش میں اختلاف ہے۔ موسیقی کے شوق میں کلکتہ جا پہنچے جہاں ایک گراموفون کمپنی سے منسلک ہوئے۔ اسوقت کے ایک نامور موسیقار استاد جھنڈے خان کی شاگردی اختیار کی۔ ہم استاد فنکاروں میں جی اے چشتی جیسے جید موسیقار شامل تھے۔
ماسٹر غلام حیدر ، 1930 کی دھائی کے شروع میں واپس لاہور آئے اور ایک گراموفون کمپنی سے منسلک ہو گئے۔ یہاں انھوں نے لوک گیتوں وغیرہ کے علاوہ 1930/40 کی دھائی کے ایک ممتاز فلمی شاعر ولی صاحب کی لکھی ہوئی دو لازوال نعتیں کمپوز کیں۔ پہلی نعت اپنی ہونے والی بیوی ، گلوکارہ امراؤ ضیاء بیگم کی آواز میں ریکارڈ کی جس کے بول تھے:
دوسری لازوال نعت ، اپنی متعارف کردہ گلوکارہ شمشاد بیگم سے گوائی جس کے بول تھے:
لاہور میں پہلی پنجابی فلم ہیررانجھا (1932) بنائی گئی تو ماسٹر غلام حیدر کو فلم کے ہیرو اور موسیقار رفیق غزنوی کے معاون موسیقار کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ اس طرح سے انھیں ، لاہور کی پہلی بولتی اور پہلی ہی پنجابی فلم سے فلمی کیرئر کا آغاز کرنے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہوا۔
لاہور کے ایک ہندو فلمساز ، لالہ کرم چند کے سرمائے سے مشہور زمانہ ڈرامہ انارکلی کے خالق نامور ادیب ، سید امتیاز علی تاج نے ایک فلم سورگ کی سیڑھی (1934) بنائی تو موسیقار کے طور پر ماسٹر غلام حیدر کا انتخاب ہوا۔ اس فلم کے دو خالص ہندی گیت یوٹیوب پر موجود ہیں جو امراؤ ضیاء بیگم نے گائے تھے:
ماسٹر غلام حیدر کی دوسری فلم مجنوں 1935 بڑی یادگار فلم تھی۔ یہ ہندی/اردو فلم ، لاہور کے شوری فلم سٹوڈیوز اور شوری پکچرز کے مالک روپ کے شوری کی پہلی فلم تھی جس میں پنجابی فلموں کے پہلے بڑے مزاحیہ اداکار مجنوں (ہیرالڈ لیوس) کو ٹائٹل رول دیا گیا تھا۔ گلوکارہ شمشاد بیگم کی یہ پہلی فلم تھی اور پہلا فلمی گیت تھا:
اردو ڈرامہ کے شیکسپئر کہلانے والے آغا حشر کاشمیری نے ولی صاحب کے ساتھ مل کر اس فلم کے گیت لکھے تھے۔ گلوکاروں میں آغا صاحب کی بیگم گلوکارہ ، مختار بیگم کے گیت بھی تھے جن میں یہ خوبصورت غزل بھی تھی:
مختار بیگم کی گائیکی کا دلکش سٹائل مکمل طور پر اپنی بیٹی ملکہ غزل فریدہ خانم کی طرح سے تھا اور اسے سن کر حیرت نہیں ہوتی کہ وہ کیوں ملکہ ترنم نور جہاں کی آئیڈیل گلوکارہ تھی۔
ماسٹر صاحب کی اگلی تین فلموں سہاگ کا دان ، دین و دنیا (1936) اور ٹارزن کی بیٹی (1938) میں سے آخری دونوں فلمیں شوری پکچرز کی تھیں۔ ان سبھی فلموں کے گیت ولی صاحب نے لکھے تھے جو 1940کی دھائی کی ممتاز اداکارہ ممتاز شانتی کے شوہر تھے۔ پاکستان میں ان کی سب سے یادگار فلم گڈی گڈا (1956) تھی۔
ماسٹر صاحب کو اپنی پہلی پانچوں فلموں سے کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی۔ دلچسپ اتفاق ہے کہ انھیں بریک تھرو کے لیے بے بی نور جہاں کا انتظار کرنا پڑا۔
پانچ سال کی عمر سے گانے والی قصور کی اللہ وسائی نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم استاد غلام محمد سے حاصل کی۔ نو دس سال کی عمر میں عظیم موسیقار بابا جی اے چشتی نے بے بی نور جہاں کے نام سے لاہور کے سٹیج پر متعارف کروایا تھا۔ 1930 کی دھائی کی مقبول گلوکارہ اور اداکارہ مختار بیگم کی سفارش پر پہلی بار کلکتہ کی پہلی پنجابی فلم شیلا عرف پنڈ دی کڑی (1937) میں چائلڈ سٹار کے طور پر اداکاری اور گلوکاری کا موقع ملا۔ بے بی نور جہاں کا گایا ہوا پہلا فلمی گیت ایک لوک گیت تھا جس کے بول تھے:
ایک اور پنجابی فلم ہیرسیال (1938) میں کام کرنے کے بعد بے بی نور جہاں ، واپس لاہور چلی آئی جہاں پنچولی پکچرز نے فلم گل بکاؤلی (1939) میں کاسٹ کیا۔ اس فلم کی بے مثل کامیابی کی بڑی وجہ بھی بے بی نور جہاں ہی تھی جو چند سال قبل لاہور میں 1908ء میں قائم ہونے والے پہلے تھیٹر یا سینما ہال پاکستان ٹاکیز (یا عزیز/رائل تھیٹر) اور ترنم (گیتی/کنگ/ناولٹی) تھیٹروں (سینماؤں) کے سٹیج پر اپنی دلکش گائیکی سے بے پناہ شہرت حاصل کر چکی تھی۔
فلم گل بکاؤلی (1939) ، ایک یادگار سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جو ماسٹر غلام حیدر ، نور جہاں ، پنچولی پکچرز اور لاہور کی فلمی صنعت کے لیے بریک تھرو ثابت ہوئی تھی۔ اس فلم کا اہم کردار ایم اسماعیل تھے جبکہ ہیرو کا رول آغا سلیم رضا نے کیا تھا۔ بے بی نور جہاں نے ثانوی رول کیا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ اس وقت کے ساٹھ ہزار روپے سے بننے والی اس بلاک باسٹر پنجابی فلم نے پندرہ لاکھ روپے کا بزنس کیا تھا جس سے سیٹھ دل سکھ پنچولی کو لاہور میں سینماؤں کے علاوہ دو فلم سٹوڈیوز بنانے کا موقع بھی مل گیا تھا۔
ماسٹر غلام حیدر کی پہلی بلاک باسٹر پنجابی فلم گل بکاؤلی (1939) میں ولی صاحب کا لکھا ہوا یہ گیت بے بی نور جہاں کا پہلا سپرہٹ فلمی گیت بھی تھا:
پنچولی آرٹ پکچرز کے لیے بنائی گئی ہدایتکار برکت رام مہرہ کی پنجابی فلم گل بکاؤلی (1939) نے بے بی نور جہاں کو ایک سپرسٹار گلوکارہ اور اداکارہ بنا دیا تھا۔ پھر زندگی بھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ برصغیر کی فلمی تاریخ کی واحد فنکارہ تھی جو بچپن سے بڑھاپے تک سپرسٹار رہی۔ قصور سے لاہور ، لاہور سے کلکتہ ، کلکتہ سے واپس لاہور ، پھر لاہور سے بمبئی اور آخر میں بمبئی سے واپس لاہور ، سات دھائیوں کا طویل سفر ، کامیابیوں اور کامرانیوں کی ایک طویل اور ایک انتہائی قابل رشک داستان ہے۔۔!
ماسٹرصاحب نے اسی فلم میں پہلی بار اس دور میں لاہور کی ایک معروف گلوکارہ طمنچہ جان کو بھی ایک گیت گانے کا موقع دیا تھا جس کے بول تھے:
ماسٹر غلام حیدر کی دوسری پنجابی فلم یملا جٹ (1940) بھی ایک سپرہٹ فلم تھی۔ یہ بھی پنچولی آرٹ پکچرز کی بنائی ہوئی فلم تھی۔ ایم اسماعیل نے ٹائٹل رول کیا تھا اور بے بی نور جہاں نے فلم کی ہیروئن انجنا کی چھوٹی بہن کا رول کیا تھا۔ معروف بھارتی ولن اداکار پران نے اپنی اس پہلی فلم میں ولن ٹائپ ہیرو کا رول کیا تھا۔
فلم یملا جٹ (1940) کے نغمہ نگار ولی صاحب کے متعدد گیت اس دور میں بڑے مقبول ہوئے۔ بے بی نور جہاں کی متاثر کن اور انتہائی مضبوط آواز میں یہ گیت بڑے مقبول ہوئے تھے:
ماسٹر صاحب نے خود بھی اس فلم میں چار گیت گائے تھے۔ ماہیا ٹائپ یہ چاروں گیت شمشاد بیگم کے ساتھ تھے جن میں سے یہ گیت سب سے اچھا لگا:
شمشاد بیگم کا یہ خوبصورت گیت پنجاب کے قابل فخر زرعی کلچر کی نمائندگی کرتا ہے:
ناردرن انڈیا پکچرز کی ایک یادگار فلم سہتی مراد (1941) ، ماسٹر غلام حیدر کے فلمی کیرئر کی تیسری پنجابی فلم تھی۔ 1940 کی دھائی کی لاہور کی فلموں کی ممتاز ہیروئن ، اداکارہ راگنی مرکزی کردار میں تھی۔ اس نغماتی اور رومانوی فلم میں شمشاد بیگم نے ایک گیت گایا تھا:
اس گیت کی نقل یا ری میک بابا چشتی نے فلم موج میلہ (1963) میں بنایا تھا۔ ان دونوں گیتوں کو سن کر ایک عام آدمی بھی نسیم بیگم کا گایا ہوا گیت زیادہ پسند کرے گا۔ ویسے بھی بابا چشتی کو نقل کو اصل سے بدرجہا بہتر بنانے میں کمال حاصل تھا۔ پاکستان کی پہلی دونوں گولڈن جوبلی فلموں سسی (1954) اور نوکر (1955) میں دو گیت ، بالترتیب "نہ یہ چاند ہوگا۔۔" اور "راج دلارے۔۔" اس کی بہت بڑی مثالیں ہیں۔
ماسٹر غلام حیدر کی آخری اور پنچولی آرٹ پکچرز کے ساتھ تیسری پنجابی فلم چوہدری (1941) تھی جس میں ایف ڈی شرف کا لکھا ہوا دو گانا جو ماسٹر صاحب اور بے بی نور جہاں کا گایا ہوا ایک اور سپرہٹ گیت تھا:
ان فلموں میں نور جہاں کے گیت خود اسی پر فلمائے جاتے تھے جبکہ پلے بیک سنگر کے طور پر ماسٹرصاحب زیادہ تر شمشاد بیگم کی آواز میں گیت ریکارڈ کرواتے تھے جو لاہور کی پہلی بڑی پلے بیک سنگر ثابت ہوئی تھی۔
1930 کی دھائی میں لاہور سے تعلق رکھنے والے بمبئی کی فلموں کے مقبول ترین ولن اداکار غلام محمد نے اس فلم کا ٹائٹل رول کیا تھا۔ بے بی نور جہاں کے ثانوی کردار ہونے کے باوجود اسے فلم کے پوسٹروں اور اشتہارات پر دیگر فنکاروں کی نسبت زیادہ نمایاں انداز میں پیش کیا جاتا تھا جو اس کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
فلم چوہدری (1941) میں سید شوکت حسین رضوی کو پہلی بار معاون ہدایتکار بننے کا موقع ملا جو عام طور پر ان فلموں کے ایڈیٹر بھی ہوتے تھے۔
لاہور کی پہلی بلاک باسٹر ہندی/اردو فلم خزانچی (1941) نے پورے ہندوستان میں بزنس کے نئے ریکارڈز قائم کیے تھے۔ چالیس کی دھائی میں ریلیز ہونے والی ایک ہزار سے زائد ہندوستانی فلموں میں سے اس فلم کا بزنس مجموعی طور پر ساتویں نمبر پر تھا۔ اس فلم نے 1941ء کے ستر لاکھ روپے کمائے تھے جو آج کے تقریباً پچاس کروڑ بھارتی روپے اور پاکستان کے ایک ارب روپوں سے زائد بنتے ہیں۔
لاہور کی اس کامیاب ترین ہندی/اردو فلم کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اس کا لاجواب عوامی میوزک تھا۔ گیت نگار ولی صاحب کے لکھے ہوئے گیتوں کی دھنیں ماسٹر غلام حیدر نے بنائی تھیں اور بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔ خاص طور پر شمشاد بیگم ، ماسٹر غلام حیدر اور ساتھیوں کے گائے ہوئے اس کورس گیت نے سارے ہندوستان کو دیوانہ بنا دیا تھا:
یہ شوخ کورس گیت بڑے منفرد انداز میں فلمایا گیا تھا۔ فلم کی ہیروئن رمولا اور ہیرو نارنگ ، اپنی سہیلیوں اور دوستوں کے ساتھ سائیکلوں پر سوار لاہور کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے یہ گیت گاتے ہیں جو اس دور میں ایک نئی بات تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت مغربی دنیا ، دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کا شکار تھی لیکن ہندوستان میں فلمی کاروبار اپنے انتہائی عروج پر تھا۔
اس مشہور زمانہ گیت کی ایڈیٹنگ کی بھی بڑی تعریف ہوئی تھی جو سید شوکت حسین رضوی کا کارنامہ تھا جنھیں انعام کے طور پر فلمساز دل سکھ پنچولی نے اپنی اگلی فلم خاندان (1942) کا ہدایتکار بنا دیا تھا۔
فلم خزانچی (1941) کے بیشتر گیت بڑے مقبول ہوئے تھے جن میں شمشاد بیگم ہی کا گایا ہوا یہ گیت اپنی مثال آپ تھا:
اس گیت میں پہلی بار پنجابی ڈھول کا استعمال کیا گیا تھا جو بڑا مقبول ہوا تھا۔ قبل ازیں فلمی گیتوں میں طبلہ استعمال تو ہوتا تھا لیکن نمایاں نہیں ہوتا تھا۔ اسی فلم کا ایک اور دلکش گیت تھا جو ان کی بیگم ، امراؤ ضیاء بیگم نے گایا اور اداکارہ منورما پر فلمایا گیا تھا:
ان گیتوں کے علاوہ ماسٹر صاحب نے بھی فلم خزانچی (1941) کے ٹائٹل رول کرنے والے ایم اسماعیل کے پس منظر میں ایک گیت گایا تھا جو پاکستانی فلموں میں مسعودرانا صاحب کا خاصا ہوتا تھا۔ ماسٹر صاحب ، ابتدائی دور میں اپنے مردانہ گیت خود ہی گاتے تھے۔
اسی فلم سے ماسٹر غلام حیدر نے شمشاد بیگم کو بمبئی کی فلموں میں متعارف کروا دیا تھا جو مستقل طور پر وہاں چلی گئی تھی اور پھر کبھی واپس نہیں آئی۔
اس دور کے فلمی اشتہارات کے مطابق ہدایتکار موتی بی گڈوانی کی بلاک باسٹر فلم خزانچی (1941) ، ممبئی کے کرشنا سینما میں دس ماہ سے زائد عرصہ تک زیرنمائش رہی اور برصغیر کے سترہ بڑے شہروں میں ریکارڈ توڑ بزنس کیا تھا۔ ان اشتہارات میں فلمساز دلسکھ پنچولی ، اپنی اگلی فلم خاندان (1942) کی تشہیر بھی کرتے تھے جس کا پورا ہندوستان بڑی بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔
ماسٹر غلام حیدر کی اگلی فلم خاندان (1942) میں ٹین ایج کی عمر کی نور جہاں کو پہلی بار ہیروئن کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
بزنس کے لحاظ سے یہ لاہور کی دوسری کامیاب ترین فلم تھی جس نے چالیس کی دھائی کی جملہ فلموں میں 12ویں نمبر پر سب سے زیادہ بزنس کیا تھا اور جو آج کے بھارتی سکے کے مطابق چالیس کروڑ روپیہ بنتا ہے۔
ہدایتکار سید شوکت حسین رضوی کی یہ بلاک باسٹر فلم ، میڈم نور جہاں کے ساتھ ماسٹر صاحب کی پہلی ہندی/اردو اور تقسیم سے قبل کی اکلوتی فلم تھی۔ اس فلم کے ان دو گیتوں نے نور جہاں کو بمبئی کی فلموں کی ضرورت بنا دیا تھا اور وہ کلکتہ اور لاہور کے بعد بمبئی چلی گئی تھی:
دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم خاندان (1942) سے متحدہ ہندوستان نے نور جہاں کو دریافت کر لیا تھا لیکن ماسٹر غلام حیدر نے کھو دیا تھا کیونکہ ان کا اور ملکہ ترنم نور جہاں کا دوسرا اور آخری ساتھ ، قیام پاکستان کے بعد گیارہ سال بعد پاکستانی فلم گلنار (1953) میں ہوا تھا۔ یہ ماسٹر صاحب کی آخری فلم بھی تھی۔ بمبئی کے قیام کے دوران ماسٹر صاحب نے میڈم کے علاوہ اس دور کے عظیم گلوکار کندن لال سہگل سے بھی کبھی کوئی گیت نہیں گوایا تھا۔
لاہور میں مزید تین فلموں زمین دار (1942) ، پونچی (1943) اور بھائی (1944) کی موسیقی ترتیب دینے کے بعد ماسٹر غلام حیدر کو بمبئی یا بالی وڈ سے بلاوا آگیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ فلم پونچی (1943) میں ماسٹر صاحب کا کمپوز شدہ ایک کورس گیت رنگین فلمانے کا تجربہ کیا گیا تھا:
بمبئی آمد پر عظیم ہدایتکار محبوب خان نے اپنی تاریخی فلم ہمایوں (1945) کی موسیقی ترتیب دینے کے لیے ماسٹر غلام حیدر کو ریکارڈ معاوضہ دیا تھا۔ اس فلم کی ریلیز سے پہلے فلم چل چل رے نوجوان (1944) منظر عام پر آ گئی تھی۔
ہدایتکار کے آصف کی فلم پھول (1945) ، ہدایتکار ایم صادق کی فلم جگ بیتی (1946) ، ہدایتکار سبطین فضلی کی فلمیں شمع (1946) اور مہندی (1947) ، ہدایتکار سہراب مودی کی منجدھار (1947) کے علاوہ بیرم خان (1946) سمیت ان کی کل آٹھ فلمیں تھیں جو تقسیم سے قبل ریلیز ہوئیں۔
پت جھڑ اور برسات کی ایک رات (1947) ، دو ایسی فلمیں تھیں جو لاہور میں بن رہی تھیں لیکن مکمل بمبئی میں ہوئیں جبکہ بت تراش (1957) کے موسیقار کے طور پر بھی ان کا نام آتا ہے جو تقسیم سے قبل لاہور ہی میں بن کر ریلیز ہوئی تھی لیکن 1951ء میں دوبارہ پاکستان میں ریلیز کی گئی تھی۔
ان تمام فلموں میں ایک بات مشترک تھی کہ ماسٹر غلام حیدر ، پھر کسی فلم میں خزانچی (1941) اور خاندان (1942) جیسی کارکردگی نہیں دھرا سکے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے معاون کے طور پر کام کرنے والے موسیقار ، شیام سندر ، نوشاد علی اور مدن موہن بھی مقبولیت میں ان سے آگے نکل گئے تھے۔ پاکستان کے دو بڑے موسیقار ، ناشاد اور اے حمید بھی ماسٹرغلام حیدر کے شاگردوں میں سے بتائے جاتے ہیں۔
1947ء میں ہندوستان ، پاکستان اور بھارت کی دو آزاد مملکتوں میں تقسیم ہو گیا تھا جس سے بہت سے فنکار بھی تقسیم ہوئے۔ سبھی فنکار اپنی مرضی کے مطابق ان دونوں ممالک میں رہے۔ یہ سب رضاکارانہ تھا ، کسی قسم کا کوئی جبر نہیں تھا اور نہ ہی تقسیم کے کسی معاہدے یا مطالبے میں یہ درج تھا کہ برصغیر کے سبھی مسلمان ، پاکستان اور غیرمسلم ، بھارت چلے جائیں گے۔ البتہ پنجاب اور بنگال میں بدترین خونریز فسادات کی وجہ سے مذہبی بنیادوں پر تاریخ کی سب سے بڑی جبری اور خونی نقل مکانی ہوئی تھی۔
ماسٹر غلام حیدر ، بیک وقت بھارت اور پاکستان کی فلموں میں موسیقی دینے والے واحد موسیقار تھے۔ تقسیم سے قبل انھوں نے کل 25 فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تقسیم کے بعد وہ دونوں ممالک میں سات سات فلموں کے موسیقار تھے۔ بھارت میں انھوں نے پدمنی ، شہید ، مجبور (1948) ، کنیز (1949) ، پتلی ، دو سوداگر (1950) اور آبشار (1953) کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ پاکستان کی فلموں کا ذکر آخر میں آئے گا۔
بھارتی فلموں میں ماسٹر غلام حیدر کا سب سے سپرہٹ گیت فلم شہید (1948) میں تھا:
محمدرفیع ، خان مستانہ اور ساتھیوں کے علاوہ اس کورس گیت میں ایک کالی کلوٹی نازک اندام سی ایک لڑکی بھی تھی جو ماسٹر صاحب کی نظر میں آگئی۔ انھوں نے اپنی اگلی فلم کے سبھی گیت اس گمنام لڑکی سے گوانے کا فیصلہ کر لیا۔ فلمساز اور ہدایتکار نے مخالفت کی لیکن ماسٹر صاحب بضد رہے اور اسی لڑکی کو موقع دیا جو آگے چل کر بھارت کی عظیم گلوکارہ لتا منگیشکر کے طور پر دنیا کے سامنے آئی۔
لتا منگیشکر ، صرف 13 سال کی عمر میں 1942ء سے فلموں میں گانے کے علاوہ بطور اداکارہ کام بھی کررہی تھی۔ فلم بڑی ماں (1944) میں میڈم نور جہاں کے بچپن کا رول بھی کیا۔ پہلی بار 1942ء کی ایک مراٹھی فلم اور 1943ء کی ایک ہندی فلم کے لیے گیت گائے۔ باریک آواز کی وجہ سے موسیقاروں نے عدم دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ لیکن یہ ماسٹرغلام حیدر ہی تھے جنھوں نے لتا میں ایک عظیم گلوکارہ کی جملہ خوبیاں دریافت کر لی تھیں اور فلم مجبور (1948) میں اس سے چار گیت گوائے جس پر وہ زندگی بھر ممنون رہی ، باقی سب تاریخ ہے۔۔!
تقسیم کے فسادات میں لاہور کی فلم انڈسٹری تباہ و برباد ہوگئی تھی جس کی بحالی میں کچھ وقت لگا۔ ریلیز کے اعتبار سے ماسٹر غلام حیدر کی پہلی پاکستانی فلم شاہدہ (1949) تھی لیکن اس میں ان کے صرف دو گیت تھے باقی گیت بابا چشتی نے کمپوز کیے تھے۔ فلم شعلہ (1952) میں بھی ان کا صرف ایک ہی گیت تھا۔ ان کی پہلی مکمل فلم بے قرار (1950) تھی جس میں یہ دو گیت بڑے مقبول ہوئے تھے:
فلم اکیلی (1951) ، بھیگی پلکیں (1952) اور غلام (1953) کا کوئی گیت مقبول عام نہیں تھا۔ پاکستان میں ان کی 7ویں اور آخری فلم گلنار (1953) ایک یادگار نغماتی فلم ثابت ہوئی جس میں ان کا ساتھ آخری بار ، ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ ہوا۔ دیگر خوبصورت گیتوں کے علاوہ یہ گیت ان کے فلمی کیرئر کا شاید سب سے لاجواب گیت تھا:
فلم گلنار (1953) کی ریلیز کے صرف تین دن بعد فن موسیقی کا یہ چاند ہمیشہ کے لیے چھپ گیا تھا۔۔!
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.