Pakistan Film History
An Urdu/Punjabi article on the history of Pakistani cinemas.
کبھی سینما گھر ، پاکستانی عوام کی تفریح کا سب سے بڑا مرکز ہوتے تھے۔۔!
پاکستان کی 75 سالہ فلمی تاریخ کے اس عظیم سلسلے میں آج ماضی کے سنگل سکرین سینما گھروں کے علاوہ "لاہور اور کراچی کے مین تھیٹرز اور سائیڈ کے سینما" ، "مین سرکٹ" اور "اردو/پنجابی فلمی سرکٹ" وغیرہ جیسی مشہور فلمی اصطلاحات پر تفصیل سے بات ہوگی۔
پاکستانی فلموں کے انتہائی عروج کے دور یعنی 1970/80 کی دھائیوں میں ملک بھر میں عوامی تفریح کے لیے اندازاً آٹھ سے نو سو کے لگ بھگ سینما گھر موجود ہوتے تھے۔
پاکستان فلم میگزین کے سینما ڈیٹا بیس میں تادم تحریر ، 292 شہروں ، قصبوں یا مقامات وغیرہ پر 995 سینما گھروں کا غیر حتمی ریکارڈ موجود ہے جن میں سے 60 فیصد یا 620 سینما گھر صوبہ پنجاب میں اور ان میں سے ہر چھٹا سینما گھر ، صوبائی دارالحکومت لاہور میں ہوتا تھا۔
صوبہ سندھ کے 262 سینماؤں میں سے تقریباً آدھے سینما گھر صرف پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہوتے تھے۔ صوبہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کا ہر چوتھا سینما بالترتیب پشاور اور کوئٹہ جیسے مرکزی شہروں میں ہوتا تھا۔پاکستان کے چند بڑے شہروں کو "مین سرکٹ" کہا جاتا تھا جہاں سب سے زیادہ سینما گھر ہوتے تھے اور سب سے پہلے نئی فلمیں ریلیز ہوتی تھیں۔
مرکزی شہروں میں کراچی میں 126 ، لاہور میں 104 ، ملتان میں 34 ، فیصل آباد میں 33 ، راولپنڈی/اسلام آباد میں 33 ، گوجرانوالہ میں 25 ، حیدرآباد میں 23 ، سیالکوٹ میں 18 ، پشاور میں 17 ، گجرات میں 14 ، سرگودھا میں 12 ، اوکاڑہ میں 11 ، ساہیوال میں 10 اور کوئٹہ میں 7 سینما گھروں کا ذکر ملتا ہے۔
مختلف شہروں میں سینماؤں کی تعداد کا تعلق آبادی سے کم اور فلم بینی کے ذوق سے زیادہ ہوتا تھا۔ مثلاً کوئٹہ کی آبادی دگنی تھی لیکن گجرات میں دگنے سینما گھر تھے جو آبادی میں سکھر اور لاڑکانہ سے بھی چھوٹا شہر ہوتا تھا۔ پاکستان اور خصوصاً پنجاب کے صنعتی شہروں کے محنت کش اور مزدور طبقہ کے لیے فلم سب سے بڑی تفریح ہوتی تھی۔ اس کے برعکس دوردراز کے پسماندہ ، قدامت پرست اور کم آبادی والے علاقوں میں فلم بینی کا رحجان کم ہوتا تھا۔
یاد رہے کہ مندرجہ بالا سبھی سینما گھر ایک ہی وقت میں موجود نہیں ہوتے تھے بلکہ گزشتہ 75 برس کی فلمی تاریخ میں ان شہروں میں سینما گھروں کی یہ مجموعی تعداد رہی ہے۔ ان میں سے بعض غیرمستند اور متنازعہ نام بھی ہیں جو ایک ہی سینما کے مختلف نام بھی ہو سکتے ہیں۔ موجودہ ڈیجیٹل سینماؤں کی مکمل فہرست بھی اپ ڈیٹ نہیں ہے۔
پاکستان کے 995 سینما گھر ، 486 مختلف ناموں سے مشہور تھے جن میں سے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نام "محل" ہے جو 85 سینماؤں کے ناموں میں ملتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ "محل" نام کا صرف ایک ہی سینما تھا البتہ یہ نام "تاج محل" اور "شیش محل" وغیرہ جیسے ناموں کا لاحقہ ہوتا تھا۔
اگر اکلوتے نام کی بات کریں تو سب سے زیادہ سینماؤں کا نام "ناز" ہوتا تھا۔ پاکستان میں اس نام کے 35 سینما ہاؤس تھے۔
"ناز سینما" ہی واحد نام تھا جو "مین سرکٹ" کے بیشتر شہروں مثلاً لاہور ، کراچی ، راولپنڈی ، ملتان ، فیصل آباد ، سیالکوٹ ، سرگودھا ، پشاور ، گوجرانوالہ ، گجرات اور جہلم میں بھی موجود تھا۔
"ناز" کے بعد پاکستانی سینماؤں کے دیگر مقبول ترین ناموں میں "نشاط" 28 ، "شمع" 23 ، "ریکس" 19 ، "سنگیت" 17 ، "تاج محل" 14 ، "پرنس" 14 ، "سنے پیکس" 14 ، "فردوس" 13 ، " کیپری" 12 اور "شبنم" 11 شامل ہیں۔
ان سولین سینماؤں کے علاوہ چھ درجن کے قریب فوجی سینماؤں کے معروف ناموں میں آرمی کے لیے "گیریژن" 17 جبکہ فضائیہ کے لیے "شاہین" 14 اور "پی اے ایف" کے 7 سینما تھے۔ نیوی کے بھی آدھ درجن سینماؤں کا ذکر ملتا ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان سٹیل ملز اور سیمنٹ انڈسٹریز کے بھی اپنے اپنے سینما گھر ہوتے تھے۔
1891ء میں امریکہ کی ایڈیسن کمپنی نے متحرک فلم دکھانے کے لیے بائسکوپ قسم کا ایک آلہ ایجاد کیا جو ایک وقت میں صرف ایک ہی شخص دیکھ سکتا تھا۔
1895ء میں فرانس میں لومئیر برادرز نے اپنی بنائی ہوئی ایک مشین سے ایک سے زائد افراد کو Eden Theatre کی سکرین پر ایک مختصر متحرک فلم دکھائی لیکن فیچر فلموں کے لیے دنیا کا پہلا باقاعدہ سینما گھر 1905ء میں امریکہ کے شہر پٹسبرگ میں Nickelodeon کے نام سے وجود میں آیا تھا۔
برصغیر پاک و ہند میں پہلی بار 1895ء میں Lumière brothers کی مختصر فلمیں بمبئی کے ایک ہوٹل میں دکھائی گئی تھی۔
پاکستان کا پہلا سینما گھر "پاکستان ٹاکیز" ، 1908ء میں قائم ہوا تھا۔۔!
ابتدائی دور میں اس کا نام "عزیز تھیٹر" تھا اور یہاں سٹیج ڈراموں کا انعقاد ہوتا تھا۔ 1930 کی دھائی میں ملکہ ترنم نورجہاں نے "بے بی نورجہاں" کے نام سے اپنی گائیکی کا آغاز بھی یہیں سے کیا تھا۔ 1913ء میں خاموش فلموں کا دور آیا تو یہ "جوبلی سینما" بن گیا۔ 1931ء میں بولتی فلموں کے دور میں "تاج محل ٹاکیز" بھی کہلایا۔ قیام پاکستان کے بعد "پاکستان ٹاکیز" کے نام سے معروف ہوا۔
لاہور کے ایک مالدار وکیل شیخ عزیزالدین کا اندرون شہر ٹکسالی گیٹ کے شاہی محلہ میں اپنے نام پہ بنایا ہوا یہ سینما مسلسل ایک صدی تک چلنے کے بعد 2014ء میں مسمار کر دیا گیا تھا۔
پہلا باقاعدہ سینما گھر 1907ء میں "چیپلن سینما" کے نام سے کلکتہ میں قائم ہوا جو اس دور کے ایک بہت بڑے فلمی نام ، فلمساز اور تقسیم کار جے ایف مدن (جمشید فرامجی مدن) نے The Elphinstone Picture Palace کے نام سے بنایا تھا۔ یہ منروا سینما کے نام سے بھی معروف رہا لیکن 2013ء میں حکومت بنگال نے اس تاریخی سینما کو مسمار کردیا تھا۔
موجودہ پاکستان کا پہلا باقاعدہ سینما گھر ، "عزیز تھیٹر" کے نام سے 1908ء میں قائم ہوا جو 2014ء میں بند کر دیا گیا تھا۔
1930 کی دھائی سے قبل سینماؤں میں سب ٹائٹلز کے ساتھ خاموش فلمیں چلتی تھیں۔ ان فلموں کو دکھانے کے لیے جو سینما گھر استعمال ہوتے تھے ، وہ عام طور پر "تھیڑ" کہلاتے تھے جہاں پہلے سٹیج شو بھی ہوتے تھے۔ فلم کو زبان ملی تو ان تھیٹروں میں ساؤنڈ سسٹم بھی نصب کروانا پڑا۔ اس اضافی ترقی پر ایسے "تھیٹرز" ، "ٹاکیز" کہلانے لگے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دور میں عوامی زبان میں تھیٹر کو "نوٹنکی" اور سینما کو "منڈوا" کہا جاتا تھا۔
ہمارے ہاں "تھیٹر" کو عام طور پر سٹیج ڈرامہ سے نتھی کیا جاتا ہے جبکہ "سینما" کو فلم سے جبکہ امریکی انگلش میں "مووی تھیٹر" اور برطانوی انگلش میں "سینما" کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے۔
سینما انڈسٹری کو ہر دور میں نئی ایجادات کے ساتھ بدلنا پڑا۔ ایسے میں بہت سے نئے سینما گھر وجود میں آئے۔ جو وقت کا ساتھ نہ دے سکے ، بند ہو گئے۔ 35 ایم ایم کی فلم سے جب 70 ایم ایم کی سینما سکوپ فلم بننا شروع ہوئی تو کئی ایک سینما گھروں میں وائیڈ سکرین کی گنجائش ہی نہیں ہوتی تھی۔ کئی سینماؤں میں ڈولبی ساؤنڈ سسٹم بھی نہیں لگوایا جا سکا۔ ائرکنڈیشنڈ بھی ہر سینما میں نہیں ہوتا تھا۔ 1980 کی دھائی میں 3 ڈی فلموں کا مختصر سا ایک دور بھی آیا تھا۔
1999ء کے بعد ڈیجیٹل سینما متعارف ہوا جس میں ایک سنگل سلور سکرین کی جگہ ملٹی پل ڈیجیٹل سکرینوں نے لے لی۔ ایک ہی سینما پر متعدد فلمیں دیکھنے کے لیے چھوٹے چھوٹے ہال بن گئے۔ پرانے فلم پروجیکٹرز کی جگہ کمپیوٹر میموری کے ذریعے ایک فلم کو پوری دنیا میں بیک وقت دکھایا جانے لگا۔ پرانی فلم تیکنیک مہنگی اور فرسودہ ہونے لگی اور جدید تقاضوں کے مطابق بعض سنگل سکرین سینما گھر ڈھل گئے ، باقی بند ہو گئے اور جو خستہ ہال سینما گھر ابھی تک چل رہے ہیں وہ اپنی زبوں حالی کی داستان بیاں کر رہے ہیں۔
نئے ڈیجیٹل سینماؤں نے ایک بار پھر فلم کو مخصوص طبقات تک محدود کر دیا ہے۔ سینما اب صرف صاحب ثروت افراد کی تفریح کا ذریعہ بن چکا ہے جہاں عام آدمی کی پہنچ نہیں رہی۔ پاکستان کے عوام کی اکثریتی آبادی کی یہ واحد تفریح بھی اس سے چھن چکی ہے۔
پاکستان میں ناچ گانے کا سینما کلچر ، ایک مسلم معاشرے کی روایات و اقدار سے متصادم تھا لیکن اس تضاد کے باوجود موجودہ صدی کے آغاز تک پاکستان کے سبھی چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں سینماؤں کی بھر مار ہوتی تھی جن پر فلم بینوں کا جم غفیر ہوتا تھا۔
سینما ، عوام الناس کی سب سے بڑی تفریح ہوتی تھی حالانکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق بمشکل پندرہ سے بیس فیصد پاکستانی ہی سینما بینی کیا کرتے تھے اور عام طور پر فلم بینی کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا۔
2010ء تک تقریباً ہر ہفتے نئی فلمیں ریلیز ہوتی تھیں جن کی پبلسٹی اتنے شاندار اور پرکشش انداز میں ہوتی تھی کہ لوگ اپنے من پسند فنکاروں کی فلموں کا بڑی بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے۔ بیشتر فلموں کے گیت ، ریلیز سے قبل ہی ہٹ ہوجاتے تھے جنھیں سننے اور ہیروئن کے رقص دیکھنے کے شائقین سینماؤں پر ٹوٹ پڑتے تھے۔
نئی فلموں کی ریلیز پر سینماؤں کا کاروبار اپنے انتہائی عروج پر ہوتا تھا۔ سینماؤں کی عالی شان عمارتوں کو صفائی ستھرائی کے بعد رنگ برنگی جھنڈیوں سے دلہن کی طرح سجایا جاتا تھا۔ دلکش فوٹو سیٹ کے علاوہ بڑے بڑے بل بورڈ بنائے جاتے۔ گمنام مگر اعلیٰ پائے کے استاد پینٹروں کے فن پارے ڈیکوریشن کی صورت میں سینماؤں کی شان بڑھاتے۔ ریڈیو اور ٹی وی کے علاوہ اخبارات میں فلمی اشتہارات کی بھرمار ہوتی۔ فلموں کی پبلسٹی کے لیے تانگے اور گاڑیاں بھی استعمال ہوتیں جو ڈھول کی تھاپ پر جگہ جگہ فلمی سٹیکرز تقسیم کرتیں۔ بل بورڈز اور فلمی پوسٹرز کے علاوہ پبلک مقامات پر فلموں کے انتہائی دیدہ زیب کیلنڈرز بھی لٹکائے جاتے۔ خالی دیواروں کو فلمی اشتہارات سے بھر دیا جاتا تھا۔
فلموں کی تقسیم کاری کے لیے پاکستانی سینماؤں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا جنھیں "فلمی سرکٹ" کہتے تھے۔ "پنجاب/سرحد (خیبرپختونخواہ)" اور "سندھ/بلوچستان" دو فلمی سرکٹ ہوتے تھے جنھیں عرف عام میں "لاہور سرکٹ یا پنجابی سرکٹ" اور "کراچی سرکٹ یا اردو سرکٹ" بھی کہتے تھے۔
آج کی طرح اس دور میں ڈیجیٹل پرنٹ تو ہوتا نہیں تھا جو دنیا بھر میں بیک وقت دکھایا جا سکتا ہے۔ اسی لیے ماضی میں پاکستان کے تمام شہروں میں فلم دکھانے کے لیے فلمسازوں کو فلم کے الگ الگ پرنٹس بنوانا پڑتے تھے جن پر اضافی اخراجات آتے تھے۔ یہی وجہ تھی پورے ملک میں ایک ساتھ فلم دکھانا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ اکثر و بیشتر دونوں بڑے فلمی سرکٹوں میں بھی فلمیں ایک ساتھ ریلیز نہیں ہوتی تھیں اور جو فلمیں ریلیز ہوتیں وہ پہلے بڑے شہروں کے "مین سرکٹ" میں اور پھر دیگر سینماؤں میں چلائی جاتی تھیں۔
عام طور پر ایک فلم بارہ تیرہ ہزار فٹ لمبی ہوتی تھی جس کو مختلف ریلوں کی شکل میں سینماؤں تک پہنچایا جاتا تھا جہاں ہر سینما پر دو فلم پروجیکٹر ہوتے تھے جن پر یہ ریلیں باری باری چلائی جاتی تھیں اور فلم بین ایک تسلسل کے ساتھ فلم دیکھ لیتے تھے۔
"اردو فلمی سرکٹ" ، پاکستان کے چند بڑے شہروں تک محدود ہوتا تھا جہاں زیادہ تر فلم بینوں کا تعلق پڑھے لکھے مڈل کلاس یا متوسط طبقہ کے علاوہ کراچی اور حیدرآباد کی اکثریتی اردو آبادی سے ہوتا تھا۔
کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ لاہور ، راولپنڈی ، ملتان ، فیصل آباد ، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ ، گجرات ، سرگودھا ، پشاور اور کوئٹہ کے مخصوص سینما گھر، "اردو فلمی سرکٹ" کہلاتے تھے۔ ان شہروں میں اگر کوئی اردو فلم کامیاب ہوتی تھی تو ملک بھر کے باقی سینماؤں میں بھی ریلیز ہوتی تھی ورنہ ڈبوں میں بند ہو جاتی تھی۔
کراچی میں ایک اردو فلم 15 سے 20 سینماؤں میں جبکہ لاہور میں 6 سے 7 سینماؤں میں بیک وقت ریلیز ہوتی تھی۔ حیدرآباد چھوڑ کر باقی شہروں کے سینماؤں میں عام طور پر ایک اردو فلم ایک ہی سینما پر ریلیز ہوتی تھی۔ اس طرح سے ایک اردو فلم کو کم از کم 30 سے 35 کے قریب فلم پرنٹس درکار ہوتے تھے۔ لاہور اور کراچی میں تقسیم کار شو ٹائم میں تبدیلی کر کے ایک ہی پرنٹ کو تین سے چار سینماؤں میں استعمال کر لیتے تھے۔
پنجابی فلموں کے سینماؤں کا سرکٹ ، اردو فلموں کی نسبت کہیں بڑا ہوتا تھا۔ ساٹھ فیصد آبادی کی مادری زبان ہونے کی وجہ سے پنجاب سرکٹ میں پنجابی فلموں کی اہمیت زیادہ ہوتی تھی اور وہ زیادہ بزنس کیا کرتی تھیں۔ سینماؤں کی تعداد کی وجہ سے صوبہ پنجاب میں زیادہ فلمی پرنٹس کی ضرورت پڑتی تھی۔
اردو فلمی سرکٹ کے مندرجہ بالا شہروں کے علاوہ پنجاب کے دیگر بڑے شہروں مثلاً جہلم ، شیخوپورہ ، اوکاڑہ ، ساہیوال ، قصور اور بہاولپور وغیرہ کے سینماؤں میں بھی پنجابی فلمیں ایک ساتھ دکھائی جاتی تھیں۔ عیدین کے موقع پر تو پنجاب کے چھوٹے شہروں اور قصبوں کے دیگر بہت سے سینما گھر بھی "لاہور کے ساتھ ساتھ" نئی پنجابی فلمیں دکھاتے تھے۔
پنجاب سرکٹ میں عام طور پر ایک گئی گزری پنجابی فلم بھی ناکام نہیں ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ 1990 کی دھائی تک پونے چار سو سینماؤں پر پنجابی فلمیں چلتی تھیں اور بار بار ریلیز ہو کر ایک بہت بڑا منافع بخش کاروبار ثابت ہوتی تھیں۔
1980/90 کی دھائیوں میں جب کوئی فلمساز ایک ایسی پنجابی فلم بنانے کا اعلان کرتا جس میں انجمن ، سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے علاوہ میڈم نورجہاں کے گیت ہوتے تو ایسی کاسٹ کریڈٹ کی فلم کا اعلان ہوتے ہی بک جاتی تھی۔ سینما مالکان پیشگی ادائیگی کر کے اس فلم کی نمائش کے حقوق حاصل کر لیتے تھے۔ اس طرح سے فلمساز کی جیب پر زیادہ بوجھ بھی نہیں پڑتا تھا اور وہ دھڑا دھڑ فلمیں بنا لیتا تھا۔
کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ اندرون سندھ کے سینماؤں میں سندھی فلمیں چلتی تھیں جن کی تعداد بڑی محدود رہی ہے۔ پشتو فلموں کا سرکٹ ، صوبہ خیبرپختونخواہ ، کوئٹہ اور کراچی کے سینماؤں پر مشتمل ہوتا تھا اور وہ آج بھی روز اول کی طرح بہت اچھا بزنس کر رہی ہیں۔
1972ء سے قبل "ڈھاکہ فلمی سرکٹ" بھی ہوتا تھا جو پاکستانی فلموں کے لیے انتہائی غیر اہم ہوتا تھا کیونکہ وہاں پر عام طور پر مقامی طور پر بنائی ہوئی بنگالی فلمیں ہی چلتی تھیں جن سے موجودہ پاکستان میں کسی کو دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔
سابقہ مشرقی پاکستان میں اردو فلمیں ، صرف بہاری مسلمانوں اور غیر بنگالیوں تک محدود ہوتی تھیں۔ بیشتر قوم پرست بنگالی ، زبان کے مسئلہ پر بڑے متعصب اور کینہ پرور ہوتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستانی فلموں کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ اس سانحہ کے بعد پاکستانی فلموں کے اصل عروج کا دور شروع ہوا جو اگلی چار دھائیوں تک جاری رہا تھا۔
قیام پاکستان سے قبل ، لاہور ، کراچی اور دہلی کے علاقوں پر مشتمل "شمالی ہند کا فلمی سرکٹ" بھی ہوتا تھا جو باقی ہندوستان سے الگ تھلگ اور اصل میں "اردو/مسلم یا پاکستانی فلمی سرکٹ" ہوتا تھا۔ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی تھی اور فلم بینوں میں مسلم فنکاروں کو زیادہ پذیرائی ملتی تھی۔ فلموں کی پبلسٹی بھی اردو میں ہوتی تھی اور یہاں مسلم سوشل فلمیں ٹھیک ٹھاک بزنس کیا کرتی تھیں۔
نئی فلموں کی ریلیز کے لیے ملک بھر کے سینماؤں کو مختلف درجات میں تقسیم کیا جاتا تھا۔
پہلے نمبر پر "مین سرکٹ" ہوتا تھا جس میں لاہور اور کراچی کے علاوہ دونوں فلمی سرکٹوں یعنی "پنجاب/سرحد" اور "سندھ/بلوچستان" کے بڑے شہروں یعنی راولپنڈی ، ملتان ، فیصل آباد ، حیدرآباد ، گوجرانوالہ ، پشاور ، سیالکوٹ ، سرگودھا ، گجرات اور کوئٹہ کے سینما گھر آتے تھے۔
"مین سرکٹ" میں کامیابی کی صورت میں "سرکٹ کے دیگر سینماؤں" میں بھی فلم کی بکنگ اچھی ہوتی تھی۔ بصورت دیگر وہ فلم ڈبوں میں بند ہو جاتی تھی اور ایک ناکام فلم کے طور پر ریکارڈز بکس میں درج ہو جاتی تھی۔
بڑے شہروں میں کامیاب فلموں کی نمائش کا دورانیہ طویل ہوتا تو چھوٹے شہروں اور قصبوں کے فلم بینوں کو ایسی فلم کے لیے کافی انتظار کرنا پڑتا تھا۔ البتہ جنونی فلم بینوں میں اتنا صبر نہیں ہوتا تھا ، اسی لیے وہ نئی فلم یا "لاہور کے ساتھ ساتھ" فلم دیکھنے کے لیے بڑے شہروں کے سینماؤں کا رخ کیا کرتے اور اپنے اس کارنامے پر بڑی شیخی بگاڑا کرتے تھے۔
ایک "مین تھیٹر" کی اصطلاح ان مرکزی سینماؤں کے لیے استعمال ہوتی تھی جنھیں خود تقسیم کار کرایہ پر لے کر نئی فلمیں ریلیز کیا کرتے تھے۔ ایسے سینما گھر عام طور پر معیاری ، ائر کنڈیشنڈ اور شہر کے مرکزی علاقوں میں ہوتے جہاں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی رسائی ہوتی تھی۔
اخباری اشتہارات میں "مین تھیٹر" کا نام پہلے اور جلی حروف میں لکھا جاتا تھا جبکہ "سائیڈ کے سینماؤں" کے نام ذیلی طور پر لکھے جاتے تھے۔ ان کے بعد "سرکٹ کے دیگر سینماؤں" کے نام لکھے جاتے تھے۔
پاکستان کی فلمیں ، ملتان روڈ لاہور کے فلمی سٹوڈیوز میں بنتی تھیں لیکن ان کی تقسیم یا کاروبار ، میکلوڈ روڈ لاہور پر واقع لکشمی چوک کے سامنے رائل پارک میں ہوتا تھا جہاں سینکڑوں فلم ڈسٹری بیوٹرز کے دفاتر ہوتے تھے۔ اسی علاقے میں لاہور کے سبھی مرکزی سینما بھی ہوتے تھے۔
چھوٹے شہروں اور قصبوں کے سینما مالکان کو عام طور پر فلموں کے حصول کے لیے رائل پارک لاہور جانا پڑتا تھا جہاں بڑی گہما گہمی رہتی تھی اور فلموں کی مقبولیت کے حساب سے سودے طے پاتے تھے۔
عام طور پر ان "چھوٹے سٹیشنوں" پر ایک فلم ایک ہی ہفتہ تک چلتی تھی لیکن ملک بھر کے سینما گھروں کی آدھی تعداد ہونے کی وجہ سے ان کے بزنس اور بعض کامیاب فلموں کے بار بار ریلیز ہونے سے سینما مالکان کے علاوہ فلم کمپنیوں کو بھی بڑا فائدہ ہوتا تھا۔
1980 کی دھائی میں "تھرڈ پارٹی" کا رواج شروع ہوا۔ مختلف لوگ ملک کے مختلف حصوں میں سینما گھر کرائے پر لے کر پرانی فلمیں لگاتے۔ ان کی بھرپور پبلسٹی کی جاتی اور پرانی شراب کو نئی بوتل میں بند کیا جاتا۔ یہاں تک کہ اصل فلم پوسٹروں میں ردوبدل کر دیا جاتا اور ان فنکاروں کو نمایاں کیا جاتا جو عوام میں زیادہ مقبول ہوتے تھے۔ سلطان راہی اور منورظریف کی مقبولیت مسلمہ ہوتی تھی۔ جن فلموں میں وہ ثانوی اور غیر اہم کرداروں میں بھی ہوتے ، ان فلم پوسٹروں پر بھی انھیں نمایاں کر دیا جاتا اور لوگ ان کی چاہت میں ایسی فلموں پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ ایسی فلموں کی کمائی نے بہت سے لوگوں کو مالا مال کر دیا تھا۔
عام طور پر ہر سینما پر روزانہ تین شو ، اتوار اور مذہبی تہواروں پر چار شو ہوتے تھے ، اس طرح سے ہر ہفتہ کے 22 شو ہوتے تھے۔
سینما ہال میں عام طور پر فرسٹ اور سیکنڈ کلاس ہوتی جو عام پبلک کے لیے ہوتی جہاں طبقاتی فرق واضح طور پر نظر آتا تھا۔ لکڑی کے سخت بنچ ہوتے جن پر بیٹھنا مشکل ہوتا تھا۔ ہال میں جنگلے بھی لگائے جاتے تاکہ کم ٹکٹ والے قدرے بہتر فرسٹ کلاس تک نہ پہنچ سکیں۔
گیلری اور باکس ، قوت خرید رکھنے والوں کے لیے ہوتے جو عام طور پر ایڈوانس بکنگ کروا لیتے تھے۔ کسی کی سفارش پر اور "فری پاس" پانے والے مفت خورے بھی ہوتے اور چوری چھپے سینما میں داخل ہو کر گیٹ کیپروں سے آنکھ مچولی کھیلنے والوں کی کمی بھی نہ ہوتی تھی۔
سینما ہاؤس میں ائرکنڈیشند نہ ہوتا تو سیکنڈ کلاس میں گرمی میں پسینے سے شرابور ہونا عام ہوتا تھا جبکہ گیلری اور فرسٹ کلاس میں پنکھے بھی چلائے جاتے تھے۔ بعض لوگ دوپہر کی گرمی سے بچنے کے لیے سینما کے ائرکنڈیشنڈ ماحول میں قیلولہ کیا کرتے تھے لیکن یہ سہولت ہر سینما میں نہیں ہوتی تھی۔
اوپن ایئر تھیٹر یا بغیر چھت کے سینما گھروں میں موج ہوتی تھی ، بارش نہ ہوتی تو ٹھنڈی اور تازہ ہوا ملتی رہتی تھی۔ اگر سلور سکرین کے ستارے بور کر رہے ہوتے تو کھلے آسمان کے چمکتے دمکتے جگمگ جگمگ کرتے ہوئے ستارے بور نہیں کرتے تھے۔ البتہ جب ان پر ترپال ڈال کر میٹنی شو کیا کرتے تو گرمی کی حدت سے لوگوں کا سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا تھا۔
سینما کے ٹکٹ کے حصول کے لیے نہ صرف لمبی لمبی لائنیں دیکھنے کو ملتیں بلکہ دھکم پیل اور دھینگا مشتی بھی عام ہوتی تھی اور خاص طور پر عیدین کے موقع پر بعض لوگوں کے نئے کپڑے پھٹنے اور لڑائی مارکٹائی میں زخمی ہونے کے مناظر قابل دید ہوتے تھے۔ بلیک ٹکٹیں بیچنے والے آزادی سے اپنا کام کیا کرتے تھے۔ سینما کی کینٹین بھی منہ مانگے دام وصول کرتی تھی۔
عام طور پر سینما کی اپنی کینٹین ہوتی تھی جہاں سے فلم بینوں کو اشیائے خوردونوش وغیرہ دستیاب ہوتی تھیں۔ سگریٹ اور پان بھی فلم کا ایک خاص کلچر ہوتا تھا۔ بیشتر سینما گھروں میں مختلف خوانچہ فروش ہوتے۔ چائے اور مشروبات لازمی ہوتے۔ آئس کریم یا قلفی ، نان کباب ، کھیر اور حلوہ پوری وغیرہ بھی ملتےتھے۔ خشک میوہ جات کے علاوہ پھل فروٹ بھی مل جاتے تھے۔ سینما کے باہر ٹیکسی ، رکشا اور تانگے والے "شو ٹوٹنے" کے منتظر ہوتے۔ جیب کتروں ، نوسربازوں اور دیگر سماج دشمن عناصر کی کمی بھی نہ ہوتی تھی۔ سینماؤں کے اردگرد کے کاروباری ماحول کو بھی بڑا فائدہ ہوتا تھا جن میں خاص طور پر ہوٹل اور ریسٹورنٹ قابل ذکر ہوتے تھے۔
سینماؤں کے سنہرے دور میں بعض فلمیں کئی کئی ہفتے ، مہینے بلکہ سالوں تک چلتی رہتیں اور بڑی بڑی جوبلیاں مناتی تھیں۔ اکثر و بیشتر "ہاؤس فل" کے بورڈ بھی دیکھنے کو ملتے لیکن لازم نہیں ہوتا تھا کہ ہر شو ہاؤس فل ہی ہو۔ جب تک سینما کے اخراجات نکلتے رہتے تھے ، فلم چلتی رہتی تھی۔
ایسی فلموں کی "سرکٹ" کے دیگر سینماؤں میں بھی اچھی بکنگ ہوتی جو "سیکنڈ اور تھرڈ رن" میں بھی چل کر سینما مالکان ، تقسیم کاروں اور فلمسازوں کے لیے منافع بخش ثابت ہوتی تھیں۔
سینما بینی کے شائقین کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیشتر مفاد پرست سینما مالکان جہاں ائرکنڈیشنڈ کے چارچز وصول کرنے کے باوجود فلم بینوں کو اس سہولت سے محروم رکھتے وہاں اوور چارجنگ ، بلیک مارکیٹنگ اور ٹیکس چوری بھی کرتے۔ کرپٹ اعلیٰ حکام کی سرپرستی میں غیرسنسرشدہ مخرب الاخلاق فحش اور عریاں بدیسی فلمیں اور بے ہودہ ناچ گانے بھی بڑی آزادی اور دیدہ دلیری کے ساتھ دکھاتے تھے۔ سینما کے برے دنوں میں تو یہی ایک طریقہ باقی رہ گیا تھا تماشائیوں کو سینما گھروں تک لانے کا۔ ورنہ سب سے بڑا خرچہ ، یعنی بجلی کا بل ادا کرنا بھی مشکل ہو جاتا تھا۔
سینما مالکان اور فلم ڈسٹری بیوٹرز کی ہوس زر اور مفاد پرستی کا یہ عالم ہوتا تھا کہ بھارتی فلموں کی نمائش کے لیے فلمسازوں سے ٹکرا جاتے تھے اور اگر بھارتی فلمیں دستیاب ہوتیں تو پاکستانی فلموں سے سوتیلی ماں کا سا سلوک کیا کرتے تھے۔ پاکستانی فلموں کو ایسی صورت میں اپنے ہی ملک کے سینما تک دستیاب نہیں ہوتے تھے۔ ماضی میں ہماری فلموں نے جو بڑی بڑی جوبلیاں منائیں ، اگر بھارتی فلموں کی مسلسل نمائش ہوتی تو شاید کبھی نہ منا پاتیں۔
قدرتی بات ہے کہ سینما مالکان کو اپنا کاروبار عزیز تھا ، ان کی بلا سے کہ فلم پاکستانی یا بھارتی ، اردو ہے یا پنجابی/پشتو ہے ، بس جو اچھا بزنس کرتی ، ویسی ہی فلم لگانا پسند کرتے تھے۔ یہی کیفیت باقی پورے فلمی سرکٹ میں بھی ہوتی تھی۔
سینما کے عملہ میں عام طور پر ایک مینجر ہوتا تھا۔ کم از کم ایک فلم آپریٹر ہوتا جبکہ ٹکٹ گیلری ، گیٹ کیپری اور پبلسٹی کے لیے متعدد افراد ہوتے جو کم سے کم اجرت پر رکھے جاتے۔ اسی استحصال اور زیادتی کی وجہ سے بیشتر کارکن ، سینماؤں پر پارٹ ٹائم کام کیا کرتے تھے۔
قیام پاکستان کے وقت لاہور ، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور ثقافتی مرکز ہوتا تھا جہاں فلمیں بھی بنتی تھیں اور بیس کے قریب سینما گھر بھی تھے۔
تقسیم سے قبل لاہور کے مرکزی علاقے میکلوڈ روڈ پر سب سے زیادہ سینما گھر واقع تھے جن میں ریجنٹ ، پربھات (صنوبر/ایمپائر) ، رٹز ، پیلس ، امپیرئل (مون لائٹ) اور جسونت (رتن) شامل تھے۔ ان کے علاوہ لکشمی چوک پر میکلوڈ روڈ کو ملنے والے ایبٹ روڈ پر نشاط ، اوڈین اور کیپٹل بھی تھے۔
لاہور کے دیگر سینماؤں میں تقسیم سے قبل بھاٹی گیٹ میں پکچر ہاؤس (ملک تھیٹر) ، ڈائمنڈ (نگار) ، کراؤن (پیراماؤنٹ) اور منروا ، شاہی محلہ میں کنگ (ترنم) ، جوبلی (پاکستان ٹاکیز) ، ریلوے سٹیشن پر نولکھا (ریوالی) ، گوالمنڈی میں وکٹوریہ (ایروز) ، مال روڈ پر ریگل اور کوئنز روڈ پر پلازا کے علاوہ لکشمی ٹاکیز اور گولڈن ٹاکیز کے نام بھی ملتے ہیں جو غالباً فسادات کی نذر ہو گئے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد لاہور میں سینماؤں کی تعداد سو سے بھی تجاوز کر گئی تھی اور شہر کی وسعت کے ساتھ ہی سینماؤں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا جس سے شہر کے مرکزی علاقوں کے سینماؤں کو "مین تھیٹر" اور "دیگر علاقوں کے سینماؤں کو "سائیڈ کے سینما" کہا جانے لگا۔
1970/80 کی دھائی میں لاہور شہر میں ساٹھ سے ستر کے قریب سینما گھر ایک ہی وقت میں چل رہے تھے جن میں سے ایک تہائی "مین تھیٹر" کہلاتے تھے۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں ایک فلم کو ہزاروں سینماؤں میں بیک وقت ریلیز کیا جاسکتا ہے ، اس لیے "مین تھیٹر" اور "سائیڈ کے سینما" کا کوئی تصور نہیں رہا ، ویسے ہی تقسیم سے قبل بھی ہوتا تھا کیونکہ سبھی سینما گھر شہر کے گنجان آباد اور مرکزی علاقوں میں ہوتے تھے۔ ایک فلم ایک ہی سینما پر ریلیز ہوتی تھی اور سینما گھر چند بڑے شہروں تک محدود ہوتے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد سینماؤں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا تو کسی فلم کا بیک وقت زیادہ سینماؤں میں ریلیز ہونا ممکن نہیں ہوتا تھا کیونکہ ہر سینما کو فلم چلانے کے لیے ایک پرنٹ درکار ہوتا تھا۔ ایک فلم کے محدود تعداد میں پرنٹس نکلوائے جاتے تھے جو سب سے پہلے "مین تھیٹرز" پر چلائے جاتے۔ اس کے بعد سرکٹ کے باقی سینماؤں میں باری باری چلتے تھے۔
لاہور کا میکلوڈ روڈ ، فلمی بزنس کے لیے ایک استعارے کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ ریلوے سٹیشن سے جنوب کی طرف لکشمی چوک سے ہوتے ہوئے مال روڈ پر GPO تک جا کر ختم ہونے والا یہ گنجان آباد روڈ ، تقسیم سے پہلے بھی سینماؤں کا مرکز ہوتا تھا جس پر ریجنٹ ، رٹز ، رتن ، صنوبر ، پیلس اور مون لائٹ سینما تھے۔
پاکستان بننے کے بعد لاہور کے سینماؤں میں پانچ گنا اضافہ ہوا۔ میکلوڈ روڈ کی جگہ ایبٹ روڈ نے لے لی اور لکشمی چوک سے شملہ پہاڑی تک شہر کے سب سے زیادہ سینما گھر قائم ہوئے۔ پرانے سینماؤں ، نشاط ، اوڈین اور کیپٹل کے علاوہ میٹروپول ، گلستان ، نغمہ ، شبستان ، پرنس ، محفل اور مبارک کا اضافہ ہوا۔
میکلوڈ روڈ ہی کے ایک سائیڈ روڈ ، مشن روڈ پر ایک ہی احاطہ میں دو مزید سینما ، ناز کے ساتھ نگینہ بھی تھا جو لاہور کا پہلا ائر کنڈیشنڈ سینما بتایا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ سٹیشن پر ریوالی کے علاوہ الحمرا سینما بھی تھا جو دو گیلریوں کی وجہ سے لاہور کا سب سے بڑا سینما ہوتا تھا۔
یہ سبھی سینماگھر ، "مین تھیٹرز یا مرکزی سینما" کہلاتے تھے جن پر نئی فلمیں ریلیز ہوتیں جو کئی کئی ہفتے ، مہینے بلکہ سال ہا سال تک چلتی رہتی تھیں۔
لاہور کے دیگر مین تھیٹرز میں مال روڈ پر واقع الفلاح اور ریگل ، کوئنز روڈ پر پلازا اور گڑھی شاہو میں تاج اور کراؤن ، عام طور پر انگلش فلموں کے لیے مختص ہوتے تھے۔
شہر کے مرکزی علاقے میں سینما ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں ہوتا تھا کہ وہ مین تھیٹرز ہی ہوں جس کی ایک بڑی مثال بھاٹی گیٹ جیسے گنجان آباد اور مرکزی علاقے کے تینوں سینما گھر ، ملک تھیٹر ، نگار اور پیرا ماؤنٹ تھے۔ ان تینوں سینماؤں پر عام طور پر مین تھیٹرز سے اتری ہوئی فلمیں لگائی جاتی تھیں جو مزید کئی کئی ہفتے تک چلتی رہتی تھیں۔ شاذونادر ہی ان سینماؤں کا ذکر سائیڈ کے سینماؤں میں ہوتا تھا۔
یہی حال لاہور کے دوسرے گنجان آباد اور مرکزی علاقے شاہی محلہ کے تینوں سینماؤں کا بھی تھا جن میں سے پاکستان ٹاکیز ، شاید ہی کبھی سائیڈ کے سینماؤں میں شامل ہوتا تھا البتہ دیگر دونوں سینماؤں ، ترنم اور سٹی کا شمار روایتی سائیڈ کے سینماؤں میں ہوتا تھا جہاں تقریباً ہر ہفتے فلمیں بدلتی تھیں۔
"سائیڈ کے سینما گھر" عام طور پر شہر کے دیگر علاقوں میں ہوتے تھے جن پر "مین تھیٹرز" کے ساتھ نئی فلمیں ایک دو ہفتوں کے لیے لگتی تھیں۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ کوئی نئی فلم صرف سائیڈ ہی کے کسی سینما پر ریلیز کی گئی ہو۔ ان سائیڈ کے سینماؤں کو جوبلی فلموں کے لیے بڑا اہم سمجھا جاتا تھا اور فی سینما ، ایک ہفتہ شمار کیا جاتا تھا۔
لاہور کے اہم ترین علاقوں میں سائیڈ سینماؤں کا نقشہ کچھ یوں تھا:
لاہور کے متنازعہ سینماؤں میں شہر کے مضافات کے علاقوں کے کچھ سینما گھر بھی شمار کیے جاتے تھے جن میں خاص طور پر شاہدرہ کے سنگیت ، ساحل اور میرمحل سینما قابل ذکر تھے۔ ان کے علاوہ آدھ درجن غیر معروف ٹورنگ سینما بھی تھے جنھیں لاہور کے مستقل سینماؤں میں شمار کیا جاتا تھا۔
پاکستان کا پہلا دارالحکومت اور اکلوتا ساحلی شہر اور تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے کراچی نے تقسیم کے بعد بے مثال ترقی کی اور نہ صرف لاہور سے بڑا شہر بن گیا بلکہ وہاں سب سے زیادہ سینما گھر پائے جاتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق 1970 کی دھائی میں کراچی میں سو سے زائد سینما گھر بیک وقت موجود تھے۔
کراچی ، پاکستان کا منفرد شہر ہے جہاں 90 فیصد افراد غیر مقامی ہیں۔ صوبہ سندھ کا یہ سب سے بڑا شہر تقسیم کے وقت تقریباً چار لاکھ افراد کا شہر تھا جہاں سندھی ہندوؤں کی اکثریت ہوتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب آدھی آبادی اردو بولنے والے ہندوستانی مہاجروں پر مشتمل ہے۔ افغان مہاجرین سمیت پٹھانوں اور پنجابیوں کے بعد چوتھے نمبر پر مقامی سندھیوں کی آبادی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں پیپلز پارٹی کا وؤٹ بینک نہیں ہے۔ ان کے علاوہ بنگالی ، بلوچی ، مکرانی اور گجراتی بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ مختلف لسانی گروپوں کی کثیر آبادی کی وجہ سے کراچی میں اردو فلموں کے بعد پنجابی اور پشتو فلموں کے شائقین بھی بڑی تعداد میں ہوتے تھے۔
کراچی کا پہلا سینما گھر ، سٹار سینما ، خاموش فلموں کے دور میں 1920 کی دھائی کے لگ بھگ بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) پر جہاں آج کل "اللہ والا مارکیٹ" ہے ، تعمیر کیا گیا تھا۔ "رنجیت سینما" اور "میجسٹک سینما" اس کے دیگر نام تھے۔
تقسیم کے قبل کراچی میں بیس سے زائد سینما گھر موجود تھے جن میں پیراڈائز ، رٹز ، تاج محل ، ناز (رادھا) ، اوڈین ، ریو ، ریگل ، کراؤن ، پیلس ، کیپٹل ، لائٹ ہاؤس ، پکچر ہاؤس ، بلٹرز ، مے فیئر ، ریکس ، قسمت ، نگار ، کمار ، راکسی ، سپر اور نورمحل کے نام ملتے تھے۔ دو مزید سینما ، جوبلی اور نشاط (کشن) زیر تعمیر تھے جن کا افتتاح بالترتیب 18 ستمبر اور 25 دسمبر 1947ء کو ہوا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد کراچی میں ایروز سینما تعمیر ہوا جو مارسٹن روڈ (وحید مراد روڈ) پر واقع تھا۔ اس کا افتتاح 21 ستمبر 1950ء کو محترمہ فاطمہ جناح نے کیا تھا جو اس سے قبل نشاط سینما کا افتتاح بھی کر چکی تھیں۔
اگلے چند برسوں میں شہر کی وسعت کے ساتھ ہی سینماؤں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ 1965ء میں کراچی میں سٹیڈیم روڈ (راشد منہاس روڈ) پر پاکستان کا پہلا ڈرائیو اِن سینما قائم ہوا جس میں شائقین اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر فلم دیکھ سکتے تھے۔ پرانے سینماؤں کے سلسلے کا غالباً آخری سینما کراچی میں لیرک ٹو کے نام سے 1992ء میں قائم ہوا تھا جو ایک منی سینما تھا۔ 2003ء میں کراچی میں ڈیجیٹل سینماؤں کی آمد ہوئی اور کلفٹن میں "یونیورسل سنے پلیکس" کا افتتاح ہوا۔
نئے سینماؤں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ کراچی میں پرانے متعدد سینما گھر ختم بھی ہوتے رہے جن میں 1956ء میں ایم اے جناح روڈ پر واقع پکچر ہاؤس اور 1958ء میں دوسرا فاطمہ جناح روڈ پر واقع مے فیئر بھی بند کر دیا گیا تھا۔ 2012ء میں مشتعل مذہبی گروہ نے نشاط اور پرنس سینما نذر آتش کر دیے اور بمبینو اور کیپری کو بھی خاصا نقصان پہنچایا تھا۔
1970 کی دھائی پاکستانی فلمی تاریخ کے انتہائی عروج کا دور تھا۔ اس وقت کراچی کی آبادی 35 لاکھ کے قریب تھی جو اب دو کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ سینما بینی کا یہ عالم تھا کہ سو سے زائد سینما گھر کراچی میں موجود تھے جبکہ آج کل صرف بیس تیس کے قریب ہیں۔ کبھی اتنے سینما صرف کراچی صدر کے علاقے میں ہوتے تھے۔
پاکستان کے کسی بھی شہر کے کسی بھی روڈ پر اتنی بڑی تعداد میں سینما گھر نہیں تھے جتنے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی سب سے بڑی شاہراہ قائد اعظم یا ایم اے جناح روڈ (بندرروڈ) پر واقع تھے۔ ان ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ سینماؤں میں سے ناز ، نشاط ، پرنس ، کیپری ، رٹز اور تاج محل "مین تھیٹرز" تھے جبکہ دیگر لائٹ ہاؤس ، کنگ ، کوئین ، پرنسیس ، انجمن ، محفل ، میجسٹک ، لیرک 2 ، پکچر ہاؤس سائیڈ کے سینما تھے۔
اسی مرکزی شاہراہ سے منسلک صدر کے علاقہ میں گارڈن روڈ (سر آغا خان روڈ) پر بمبینو ، رینو ، لیرک اور سٹار بھی مین تھیٹر تھے جبکہ سکالا ایک منی سائیڈ سینما تھا۔ وحیدمراد روڈ (مارسٹن روڈ) کے سبھی سینما ، افشاں ، ایروز ، گوڈین ، نشیمن ، قیصر ، ریوالی اور کوہ نور ، مین تھیٹرز میں شمار ہوتے تھے جبکہ صدر ہی کے علاقہ میں جوبلی ، ریو ، اوڈین ، ریگل اور پیراڈائز سینما بھی شہر کے مرکزی سینما گھر ہوتے تھے۔ کیپٹل اور پیلس سینما صدر کے سائیڈ سینما تھے۔
کراچی کے صدر کے علاقے کے باہر کے سبھی سینما سائیڈ کے سینما کہلاتے تھے۔ ان میں وسطی اور مرکزی علاقے کی دیگر بڑی سڑکوں پر مندرجہ ذیل سینما گھر تھے:
کراچی کے دیگر مشہور علاقوں یا ٹاؤنز میں بھی سائیڈ سینماؤں کی ایک بڑی تعداد ہوتی تھی:
سول علاقوں کے علاوہ ائرفورس بیس پر متعدد سینماؤں کے علاوہ نیوی بیس پر بھی آدھ درجن سینماؤں کا ذکر ملتا ہے۔ سٹیل ملز کے دو سینماؤں کا بھی بتایا جاتا ہے۔ کراچی کے جدید ڈیجیٹل سینما گھر صدر اور ڈیفنس کے پوش علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔ 2003ء میں پہلے یونیورس سنے پلیکس کا افتتاح ہوا تھا۔
برصغیر پاک و ہند کی پہلی فلم 1913ء میں بنی۔ پہلی دھائی میں کچھ زیادہ فلمیں نہیں بنیں جس کی وجہ پہلی جنگ عظیم بھی تھی۔
فلم بینوں کی ہمیشہ سے خواہش ہوتی تھی کہ انھیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر بیٹھے فلم دیکھنے کو مل جائے اور سینما گھروں تک نہ جانا پڑے۔ اس کے لیے کبھی اس طرح کے فلم پروجیکٹرز فروخت ہوتے تھے جن کی قیمت 25 روپے ہوتی تھی اور ساتھ میں 25 فٹ کی فلم بھی مفت ملتی تھی جبکہ زائد فلم 13 پیسہ فی فٹ کے حساب سے دستیاب ہوتی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس پر پوری فلم تو نہیں چل سکتی تھی لیکن VCR کی آمد نے فلم بینوں کی دیرینہ خواہش پوری کر دی تھی۔
تقسیم کے وقت پاکستان میں پچاس کے قریب سینما گھر تھے جن میں سے لاہور اور کراچی میں بیس بیس جبکہ باقی سینما گھر دیگر بڑے شہروں تک محدود ہوتے تھے۔
تقسیم کے بعد جیسے جیسے فلموں کی تعداد میں اضافہ ہوا ، ویسے ہی سینماؤں کی گنتی بھی بڑھتی رہی۔ 1970 کی دھائی ، پاکستانی فلموں کے انتہائی عروج کا دور تھا۔ اس کے بعد 1980 اور 1990 کی دھائیوں میں سب سے زیادہ فلمیں بنیں اور انھی تینوں دھائیوں میں سب سے زیادہ سینما گھر بھی ہوتے تھے۔
گو پاکستان میں ٹیلی ویژن 1964ء میں آیا لیکن سینما کے لیے اصل خطرہ 1970 کی دھائی میں بنا۔ اس دور میں پی ٹی وی پر "وارث" ڈرامہ جب چلتا تھا تو سڑکیں اور گلیاں ویران ہو جاتی تھیں۔ طبقاتی کشمکش پر بنایا ہوا یہ کھیل ، فلم بینوں کے لیے متبادل تفریح کا باعث بنا اور پہلی بار چھوٹی سکرین ، بڑی سکرین کے مقابلے پر آ گئی تھی۔
اسی دھائی میں ٹی وی پر پہلی بار سیٹلائیٹ کی مدد سے براہ راسٹ کرکٹ ٹیسٹ میچ بھی دکھائے جانے لگے اور ٹیپ ریکارڈر بھی عام ہوئے۔ پرانے گرامو فون ریکارڈز کی جگہ چھوٹی چھوٹی آئیڈیو کیسٹوں نے لے لی اور فلمی شائقین کے لیے دلچسپی کے متبادل ذرائع بھی وجود میں آگئے تھے۔
فلم اور سینما انڈسٹری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ایک چھوٹی سی ویڈیو کیسٹ پر پوری فلم کا محفوظ ہونا تھا جو ایک پلیئر مشین پر حسب ضرورت چلا کر دیکھی جا سکتی تھی۔
1956ء میں VCR (ویڈیو کیسٹ ریکارڈر) کی ٹیکنیک ایجاد ہوئی لیکن 1971ء میں پہلی بار منظر عام پر آئی۔ 1970 کی دھائی کے وسط میں عام ہوئی جو امیروں سے ہوتے ہوئے 1980 کی دھائی میں مڈل کلاس کی دسترس میں بھی آگئی تھی۔
کہاں شائقین بعض فلمی مناظر دیکھنے کے لیے بار بار فلم دیکھنے پر مجبور ہوتے تھے اور کہاں اب ایک کیسٹ کو بار بار دیکھ کر ، روک کر ، آگے پیچھے کر کے دیکھنے کی سہولت بھی موجود تھی۔ یہاں تک کہ پوری فلم یا اس کے گیت کاپی کر کے ذاتی فلم لائبریری بھی بنائی جا سکتی تھی۔ اس خوفناک ایجاد نے پوری دنیا میں فلم اور سینما انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
وی سی آر کی آمد نے سب سے زیادہ نقصان پاکستانی اردو فلموں کو پہنچایا کیونکہ ان کا براہ راست مقابلہ بھارتی فلموں سے تھا جو گھر گھر دیکھی جانے لگی تھیں۔ یہاں تک کہ ملک بھر میں چھوٹے چھوٹے غیر قانونی سینما گھر کھل گئے۔ فلمیں بڑی سکرین سے چھوٹی سکرین تک سمٹ گئیں اور مڈل کلاس یا متوسط طبقہ کے فلم بینوں نے سینما جانا چھوڑ دیا۔ گیلریاں خالی ہو گئیں اور تھرڈ کلاس میں جنگلے لگا دیے گئے کہ غریب لوگ اپنی اوقت سے آگے نہ بڑھ سکیں۔۔!
سینما مالکان کو پنجابی اور پشتو فلموں کا سہارا لینا پڑا جنھیں بھارتی فلموں سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ان فلموں نے اگلی تین دھائیوں یعنی 2010ء تک باکس آفس پر کامیابیوں کے کئی ریکارڈز قائم کیے لیکن یہ فلمیں عوام الناس کے لیے تھیں جو عام طور پر مزدور اور دیہاڑی دار طبقہ ہوتا تھا جس کی کوئی اور تفریح نہیں ہوتی تھی۔ سینما کی زبان میں انھیں "لوئر کلاس" فلم بین کہا جاتا تھا جن سے سینما مالکان کوئی خاص منافع نہیں ہوتا تھا۔
باکس ، گیلری اور اپر کلاس کی "اشرافیہ" تو پاکستانی فلمیں دیکھتی ہیں نہیں تھی۔ ان کے لیے انگلش فلمیں ہوتی تھیں۔ مڈل کلاس ، عام طور پر پاکستانی اردو یا بھارتی فلموں کو پسند کرتی تھی۔ لیکن جب قوت خرید رکھنے والے ان طبقات نے سینما گھروں کا رخ کرنا چھوڑ دیا تو سینماؤں کا خرچہ پورا کرنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ پھر ایسے سینما گھر یا تو بند ہوئے یا ان کی جگہ پلازے بننے لگے جو زیادہ منافع بخش کاروبار تھا۔
پنجابی فلموں کا کاروبار 1990 کی دھائی میں وقتی طور پر اس وقت ٹھپ ہو گیا تھا جب سلطان راہی کا قتل ہوا لیکن اگلی ایک دھائی تک شان نے سلطان راہی بن کر پنجابی فلموں کو زندہ رکھا۔ شاہد خان اور ارباز خان نے پشتو فلموں کا چراغ جلائے رکھا۔ اسی دور میں کراچی میں ٹی وی چینلوں نے بھی فلمیں بنانا شروع کر دیں جنھیں عرف عام میں "ٹیلی فلمیں" کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بعض کا اچھا خاصا بزنس بھی ہوا لیکن بیشتر ڈبہ فلمیں ثابت ہوئیں۔
اس دوران کیبل اور ڈش بھی عام ہو چکی تھی اور دنیا بھر کی فلمیں دیکھی جانے لگی تھیں۔ جدید سینما عام ہوئے جہاں عام آدمی کی رسائی ناممکن تھی۔ گو اس دوران فلمیں بنتی رہیں ، کامیاب بھی ہوئیں لیکن وقتی بلبلہ ثابت ہوئیں اور پہلے جیسا فلمی ماحول پھر کبھی پیدا نہ ہو سکا۔
انٹرنیٹ کی آمد اور پھر سمارٹ فون پر سوشل میڈیا کے پھیلاؤ نے سینماؤں پر ایک اور کاری ضرب لگائی ہے۔ یہ ایک ایسا جان لیوا حملہ ہے جس سے پرانے سینماؤں کا جانبر ہونا محال ہے جو اب فلم بینوں کے انتظار میں اپنے آخری دن گن رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر دنیا بھر کی فلمیں ، ڈرامے ، مزاح ، رقص و نغمہ ، بے ہودگی اور بے حیائی ، دین و دنیا ، علم و ہنر ، تاریخ و جغرافیہ ، الغرض "آپ فرمائیں کیا خریدیں گے؟" ، والی بات ہے۔ یوں سمجھیں کہ ایک پوری کائنات سمٹ کر ایک ہتھیلی پر آگئی ہے۔
سوشل میڈیا جیسی عظیم ایجاد سے دور دراز کے فاصلے تو کم ہوئے لیکن نزدیکی رشتے بڑے کمزور پڑ گئے ہیں۔ ایک ساتھ بیٹھے ہوئے ایک گھر کے افراد بھی ایک ساتھ نہیں ہوتے اور اپنی اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ حقیقت میں social media نے لوگوں کو asocial کردیا ہے اور یہ وباء دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔
کبھی سنا کرتے تھے کہ جادوگر کی جان طوطے میں ہوتی تھی ، اب ہر کسی کی جان ، سمارٹ فون میں ہوتی ہے۔۔!
دیکھیں ، آنے والے وقت میں اس سے بھی خطرناک ایجاد "مصنوعی ذہانت" کیا کیا گل کھلاتی ہے۔۔؟
سینما گھروں کے عالمی زوال کی ایک داستان ، کوپن ہیگن ، ڈنمارک کا Roxy سینما بھی سنا رہا ہے جس کی اصل عمارت آج بھی سلامت ہے لیکن اس میں 1979ء سے فلم کی بجائے ایک سپرمارکیٹ چل رہی ہے۔
آج بھی دن کی روشنی میں اس کا سائن اور رات کی تاریکی اس کا نیون سائن دونوں اطراف سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے اور مجھ جیسے شخص کو ہر بار رک رک کر اور مڑ مڑ کر دیکھنا پڑتا ہے۔
راکسی سینما سے میری بڑی گہری یاد وابستہ ہے۔ 5 دسمبر 1973ء کو جب پہلی بار ڈنمارک آیا تھا تو والد صاحب مرحوم و مغفور ، ائیرپورٹ سے سیدھا کپڑے کی ایک دکان پر لے گئے تھے جہاں سے گرم کپڑے خرید کر دیے کیونکہ میرا پاکستانی لباس ماسکو ایئرپورٹ پر ہی جواب دے گیا تھا جہاں زندگی میں پہلی بار اتنی شدید برفباری دیکھی اور سخت سردی محسوس کی تھی۔
کپڑے کی وہ دکان راکسی سینما سے ملحق تھی۔ پاکستان میں اپنے بچپن کے چار سالہ فلمی دور میں ایک گھاگھ فلم بین بن چکا تھا اور صاف پہچان گیا تھا کہ یہ بھی ایک سینما ہے۔ گو اس سینما پر کبھی کوئی فلم دیکھنے کا موقع نہیں ملا ، لیکن ڈنمارک کا یہ پہلا سینما تھا جو میری نظر سے گزرا تھا۔
کوپن ہیگن شہر کی یہ واحد عمارت ہے جو سینما کی صورت آج بھی سلامت ہے۔ عام طور پر یہاں ڈنمارک میں سینما گھر ، بڑی عمارتوں کا ایک حصہ ہوتے تھے جیسے بمبینو سینما کراچی ہے۔ اب ایسی عمارتوں میں سینماؤں کی جگہ ہوٹل ، سپرمارکیٹیں ، فٹنس سینٹر یا نائٹ کلب وغیرہ بنے ہوئے ہیں۔
1970 کی دھائی کے آخر میں VCR کی آمد نے دنیا بھر کی طرح ڈنمارک میں بھی سینما انڈسٹری کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا تھا۔ جہاں کبھی ہر چوک میں کم از کم ایک آدھ سینما ہوتا تھا ، وہاں اب شہر کے مرکزی علاقے میں چند سینما گھر باقی رہ گئے ہیں۔ ان میں سے بھی سب سے بڑا سینما Palace گرائے جانے کی شنید ہے کیونکہ نیٹ فلیکس ، سٹریمنگ اور یوٹیوب کا مقابلہ کرنا مشکل ہی نہیں ، ناممکن بھی ہے۔
ڈنمارک میں اپنے تین سالہ قیام کے بعد پاکستان چلا گیا تھا۔ 1982ء میں دوبارہ آمد ہوئی تو یہاں پر سینما کلچر تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ جس Saga سینما پر میں نے بہت سی پاکستانی فلمیں دیکھی تھیں ، وہاں ایک ہوٹل بن چکا تھا۔ ایک اور یادگار سینما Mercur کی جگہ نائٹ کلب بن گیا تھا۔ یہی کچھ Rialto سینما کے ساتھ ہوا جس کا سائن آج بھی موجود ہے لیکن اس کے اندر بھی ایک بہت بڑا نائٹ کلب بنا ہوا ہے۔ کوپن ہیگن کے چند ڈیجیٹل سینماؤں کے علاوہ پرانے سینماؤں میں اب صرف Imperial سینما ہی باقی بچا ہے جس پر عام طور پریمئر شو ہوتے ہیں۔
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.