A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
مسعودرانا کے ساتھی فنکاروں کے بارے میں معلوماتی مضامین کے اس عظیم الشان سلسلے میں جہاں پاکستان کی فلمی تاریخ کو کھنگالنے کا نادر موقع مل رہا ہے ، وہاں لاہور میں بننے والی پہلی فلم اور برصغیر کی فلمی تاریخ کا مختصراً ذکر بھی لازم ہوگیا ہے کیونکہ رانا صاحب نے اپنے بے مثل فلمی کیرئر میں پاکستان کے سینئر ترین اداکار ایم اسماعیل کے لیے بھی نغمہ سرائی کی تھی۔۔!
تقریباً سو سال پہلے ، 1924ء میں لاہور میں پہلی فلم Daughters of Today یا 'آج کی بیٹیاں' بنائی گئی تو اس کے اداکاروں میں ایم اسماعیل بھی شامل تھے۔ اس دور کی تیکنیک کے مطابق یہ آواز کے بغیر ایک خاموش ، سائلنٹ یا گونگی فلم تھی۔
لاہور میں بننے والی برصغیر کی پہلی پنجابی فلم ہیررانجھا (1932) میں انھوں نے کیدو کا رول کیا تھا۔ لاہور کی یہ پہلی متکلم ، ٹاکی یا بولتی فلم تھی جس کا ایک گیت
اتنا مقبول ہوا تھا کہ لوگ اس گیت کو وارث شاہؒ کے کلام کا حصہ سمجھنے لگے تھے۔
تقسیم سے قبل چالیس سے زائد فلموں میں کام کیا جن میں سے لاہور کی دو یادگار فلموں ، پنجابی فلم یملاجٹ (1940) اور ہندی/اردو فلم خزانچی (1941) میں ان کی کارکردگی نے دھوم مچا دی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد پونے دوسو سے زائد فلموں میں نظر آئے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق ان کی آخری فلم دلدارصدقے (1977) ہے۔ اس طرح وہ ، نصف صدی تک فلموں میں کام کرنے والے پاکستان کے پہلے اداکار تھے۔
گیارہ سال قبل ، پاکستان فلم میگزین پر ایم اسماعیل کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا جو گرافک ورژن میں ہے۔ تازہ ترین تحقیق کے مطابق اس میں کئی ایک خامیاں اور غلطیاں ہیں جنھیں یہاں درست کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ایم اسماعیل کی پیدائش 1902ء میں اندرون بھاٹی گیٹ لاہور کے ایک راجپوت گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کے خاندان کے بیشتر لوگ سونار یا زرگر تھے لیکن وہ ایک پیدائشی آرٹسٹ تھے اور ایک نامور خوشنویس اور آرٹ ڈیزائنر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کی دوستی اپنے محلے دار اور ہم خیال عبدالرشیدکاردار کے ساتھ تھی جو بنیادی طور پر ایک مصور تھے اور فلم اور آرٹ کے شعبے سے بڑی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔
کاردار ، تقسیم کے بعد بھارت کے نامور ہدایتکار بنے اور درد (1947) ، دل لگی اور دلاری (1949) جیسی بڑی بڑی فلمیں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔
1920 کے عشرہ میں ان دونوں دوستوں نے مل کر ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی ARME Artist کے نام سے قائم کی جو لاہور میں ہونے والے سٹیج ڈراموں کے علاوہ کتابوں ، اخبارات و جرائد اور دیگر کاروباری شعبوں کے لیے اشتہارات ، سرورق اور آرٹ ڈیزائننگ وغیرہ کے امور سرانجام دیتی تھی۔
لاہور ، پنجاب کا سب سے بڑا شہر ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سے ایک ثقافتی مرکز رہا ہے لیکن ایک ساحلی شہر نہ ہونے کی وجہ سے بمبئی ، کلکتہ یا مدراس کی طرح ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے تھا۔
قیام پاکستان کے بعد لاہور سب سے بڑا شہر تو تھا لیکن کراچی کی ترقی کی ایک بڑی وجہ اس کا ایک ساحلی شہر ہونا بھی تھا۔
بدیسی اثرات ، ایجادات اور درآمدات وغیرہ سب سے پہلے بڑے ساحلی شہروں میں آتی ہیں جہاں علم و آگہی ، بہتر میعار زندگی اور آمدورفت کی بہتر سہولتوں کی وجہ سے انسانی اور کاروباری ترقی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
فلم بھی اپنے دور کی ایسی ہی ایک ایجاد تھی جو سب سے پہلے بڑے ساحلی شہروں تک پہنچی تھی جہاں آبادی بھی زیادہ تھی اور باقی دنیا سے رابطہ بھی آسان تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لاہور میں فلمسازی بیس کے عشرہ سے قبل ممکن نہ ہو سکی تھی۔ اس دوران بمبئی اور کلکتہ فلم سازی کے بہت بڑے مراکز بن گئے تھے۔
ہم یہ پڑھتے آئے ہیں کہ فرانس کے لومیئربرادز نے پہلی متحرک فلم 1895ء میں بنائی تھی جو تازہ ترین تحقیق کے مطابق درست نہیں ہے۔ اس سے بھی کئی سال پہلے 14 اکتوبر 1888ء میں فرانس ہی کے Louis Le Prince کی ایک موشن فلم Roundhay Garden Scene کا ریکارڈ دریافت ہوا ہے ، جو یقیناً حتمی نہیں۔
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ 18 جولائی 1896ء سے بمبئی کے ناولٹی سینما میں باقاعدگی سے بیرون ملک سے آئی ہوئی دستاویزی فلموں کی نمائش ہونے لگی تھی۔
دنیا میں جو پہلی فیچر فلم تسلیم کی گئی ہے وہ The Story of the Kelly Gang تھی۔ 60 منٹ دورانیہ کی یہ خاموش فلم 26 دسمبر 1906ء کو آسٹریلیا کے شہر ملبورن کے ایک ہال میں دکھائی گئی تھی۔
برصغیر میں پہلی فیچر فلم 1913ء سے پہلے نہ بن سکی تھی حالانکہ اس دوران بڑی تعداد میں مقامی سینماؤں پر بدیسی فیچر فلمیں چل رہی تھیں۔ اس دوران بہت سی دستاویزی فلمیں بھی بنائی جارہی تھیں۔ ایک سٹیج ڈرامے کو فلما کر سینما میں دکھایا بھی جا چکا تھا لیکن اسے فیچر فلم نہیں مانا گیا۔
برصغیر پاک و ہند کی پہلی فیچر راجہ ہریش چندر (1913) بنانے کا اعزاز داداصاحب پھالکے کو حاصل ہوا۔ یہ خاموش فلم 3 مئی 1913ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
1910ء کے عشرہ میں زیادہ فلمیں نہیں بنیں کیونکہ پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے خام مال اور فلمسازی کا دیگر سامان جو سو سال قبل بھی مغربی ممالک ہی سے آتا تھا ، وہ دستیاب نہیں تھا۔
1920ء کا عشرہ ، برصغیر پاک و ہند میں خاموش فلموں کے انتہائی عروج کا دور تھا۔ زیادہ تر ہندوآنہ عقائد کی حامل دیومالائی قصوں اور کہانیوں پر مبنی فلمیں بنائی جاتی تھیں۔
ایسی فلمیں لاہور میں بھی ریلیز ہوتی تھیں جنھیں دیکھ کر ایم اسماعیل اور عبدالرشیدکاردار کو بھی اداکار بننے کا شوق پیدا ہوا۔
انھوں نے پہلے ایک مووی کیمرہ ادھار لے کر ایک شوقیہ فلم بنائی جس سے ان کا حوصلہ بڑھا۔ اس دوران ان کا رابطہ ایک صاحب ثروت شخص گوپال کرشن مہتہ سے ہوا جو ریلوے میں ایک آفیسر تھے اور دستاویزی فلمیں بھی بنایا کرتے تھے۔ وہ جرمنی سے عکاسی اور فلم پروسیسنگ کی باقاعدہ تربیت لے کر آئے تھے۔
انھوں نے ایم اسماعیل اور عبدالرشیدکاردار کے ساتھ مل کر ایک فلمساز کمپنی 'لاہور پریمئر فلم کلب' بنائی اور دس ہزار روپے کے سرمائے سے مال روڈ پر ایک عارضی فلم سٹوڈیو قائم کر کے وہاں پہلی فیچر فلم آج کی بیٹیاں یا Daughters of Today بنانے کا آغاز کر دیا۔
1924ء میں شروع ہونے والی یہ فلم مالی مسائل اور تیکنیکی وسائل کی کمی کی وجہ سے تین سال میں بنی اور 1927ء میں جا کر ریلیز ہوئی تھی۔
فلم ڈاٹرز آف ٹوڈے (1927) کی ہیروئن ولائت بیگم اور ہیرو ماسٹرغلام قادر تھے۔ ولن کا رول عبدالرشیدکاردار نے کیا تھا۔ ایم اسماعیل ، اپنی اس پہلی فلم میں بھی ایک بوڑھے کے رول میں تھے۔ گوپال کرشن مہتہ ، فلمساز ، ہدایتکار اور عکاس بھی تھے ، کہانی شنکردیو آریا کی لکھی ہوئی تھی۔ اس فلم کی کوئی تصویر وغیرہ دستیاب نہیں ہے۔
اس دوران لاہور میں جرمنی کے ہنرمندوں اور مقامی اداکاروں کی فلم The Light of Asia یا پریم سنیاس بنائی گئی اور 1925ء میں ریلیز بھی کر دی گئی تھی۔ یہ برصغیر کی پہلی کو پروڈکشن تھی اور پہلی ہی فلم تھی جو بیرون ملک بھی ریلیز ہوئی تھی۔
گوتم بدھ کی زندگی پر بنائی گئی اس فلم کو دنیا بھر میں زبردست پذیرائی ملی تھی۔ جرمنی کے ہدایتکار Franz Osten کے علاوہ فلم کے ہیرو ہمنسورائے ، معاون ہدایتکار بھی تھے۔
بظاہر یہ لاہور کی پہلی ریلیز شدہ فلم تھی لیکن چونکہ بدیسی ہنرمندوں نے بنائی تھی ، اس لیے بیشتر تاریخ دان اس فلم کو لاہور کی پہلی فلم نہیں مانتے اور ڈاٹرز آف ٹوڈے (1927) ہی کو پہلی فلم شمار کرتے ہیں جو خالص مقامی فلم تھی اور جس کی فلم بندی بھی پہلے شروع ہوئی تھی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے مغربی پاکستان کی ٹیم کی بنائی ہوئی فلم جاگو ہوا سویرا (1959) ڈھاکہ میں بنائی جانے والی پہلی اردو فلم تھی لیکن چونکہ مقامی افراد کی بنائی ہوئی فلم نہیں تھی ، اس لیے بیشتر لوگ فلم چندا (1962) کو مشرقی پاکستان کی پہلی فلم قرار دیتے ہیں۔
دنیا میں پہلی بولتی یا ٹاکی فلم The Jazz Singer کا ذکر ملتا ہے جو 1927ء میں امریکہ میں بنی تھی۔
برصغیر کی پہلی متکلم فلم عالم آرا ، 14 مارچ 1931ء کو بمبئی کے میجسٹک سینما میں ریلیز ہوئی تھی۔ ساڑھے دس ہزار فٹ لمبی اس فلم میں کل سات گیت تھے۔ فلمساز اور ہداتیکار اردشیرایرانی تھے۔ موسیقار فیروزشاہ تھے۔ مرکزی کردار زبیدہ اور ماسٹروٹھل کے تھے۔ یہ فلم 14 اپریل 1931ء کو لاہور کے کیپٹل سینما میں ریلیز ہوئی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد ایم اسماعیل کی پہلی فلم ہچکولے (1949) تھی جس میں ان کا مرکزی کردار تھا جو فلم کے پوسٹر سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔
اسی سال پاکستان کی پہلی سپرہٹ سلورجوبلی اور نغماتی فلم پھیرے (1949) میں بھی ان کا کردار بڑا اہم تھا جو اپنی بیوی کی شادی اس کے عاشق سے کروا دیتا ہے۔
فلم پاٹے خان (1955) میں ایک ملنگ کا رول انھوں نے بیس سال بعد فلم میرا ناں پاٹے خان (1975) میں دہرایا تھا۔
قسمت (1956) ایک اور یادگار فلم تھی جس میں انھیں بھولنے کی عادت ہوتی ہے۔ ان کے اس منفرد کردار پر انھیں اس وقت کا صدارتی ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔
فلم ڈاچی (1964) میں ان کا مرکزی کردار بڑا دلچسپ تھا جو ایک لائی لگ شخص کا رول ہوتا ہے۔
فلم ڈولی (1965) میں ایک ایسے بنجارے کا رول کیا تھا جو اپنی توہین کا بدلہ لینے کے لیے گاؤں کی چوہدرانی کے بیٹے کو اپنی ہی ماں کے در کا گدا بنا دیتا ہے۔
فلم ہیرسیال (1965) میں انھوں نے کیدو کا رول کیا تھا جو تین دھائیاں پہلے برصغیر کی پہلی پنجابی فلم ہیررانجھا (1932) میں بھی کر چکے تھے۔
فلم ہمراہی (1966) میں انھوں نے ایک سکول ٹیچر کا کردار اتنی خوبی سے کیا کہ ان سے بہتر شاید ہی کبھی کوئی اس کردار میں جچا ہوگا۔
فلم باؤجی (1968) کا رول تو ناقابل فراموش تھا کہ جس میں ان کی اپنی اولاد جھوٹی شان و شوکت کے لیے اپنے سگے باپ کو دوسروں کے سامنے اپنا خانسامہ اور نوکر ظاہر کرتی ہے۔
فلم ماں پتر (1970) میں ایک بوڑھے ، بیمار اور بے بس باپ کا کردار بھی ناقابل فراموش تھا جس کی جواں سال بیٹی اس کی جگہ کام کرتی ہے اور اپنی عزت تک داؤ پر رکھ دیتی ہے۔
ایم اسماعیل کے بے شمار فلموں میں ایسے بے شمار جذباتی کردار تھے جو فلم بینوں کو رلا دیتے تھے۔
ایم اسماعیل کے یادگار کرداروں میں ایک کردار فلم بابل دا ویڑا (1968) میں بھی تھا جو اولاد نرینہ سے محروم ایک ایسے غریب باپ کی کہانی ہے کہ جس کے ناتواں کاندھوں پر پانچ بیٹیوں کا بوجھ ہوتا ہے۔
بڑی بیٹی کی بارات جہیز کی کمی کی وجہ سے واپس چلی جاتی ہے۔ بوڑھا باپ اپنے خون پسینہ کی کمائی سے زندگی بھر کی جمع پونچی لگا کر اس کا جہیز اکٹھا کرتا ہے لیکن ایک بار پھر بارات اس لیے واپس چلی جاتی ہے کہ وہ ایک عمررسیدہ لڑکی کے ساتھ نکاح کی شرائط میں مکان بھی لکھوانا چاہتے ہیں۔
جہیز کی اس لعنت پر ایک بوڑھا باپ زندگی کی بازی تک ہار دیتا ہے۔ اس موقع پر مسعودرانا کی پرسوز آواز میں فلم کا یہ سبق آموز تھیم سانگ فلم میں مختلف ٹکڑوں کی صورت میں سنائی دیتا ہے
مندرجہ ذیل بول ایم اسماعیل کے پس منظر میں سنائی دیتے ہیں:
ہدایتکار اسلم ایرانی کی جہیز جیسی لعنت پر بنائی جانے والی شاہکار اور سبق آموز فلم بابل دا ویڑا (1968) ، حقیقت کے بہت قریب تھی۔ اس فلم میں ایم اسماعیل کا کردار جیتی جاگتی زندگی میں ہمارے ارد گرد موجود ہوتا ہے۔ واقعی ایسے لاکھوں باپ ہیں کہ جن کی بیٹیاں جہیز کی کمی کی وجہ سے گھر بیٹھے بوڑھی ہو جاتی ہیں لیکن ان کی ڈولی نہیں اٹھتی۔ ایسے میں کئی ایک سماجی المیے جنم لیتے ہیں جن کے ہم سب گواہ ہیں۔
ایسا ہی ایک دردناک واقعہ یاد آرہا ہے کہ جس کا مرکزی کردار ایک فرضی نام بابا بخشو ہے جس سے پہلا تعارف جنوری 1973ء میں ہوا تھا جب ہم اپنے نئے مکان بنارہے تھے۔ وہ ایک دیہاڑی دار مزدور کے طور پر کام کرتا تھا اور دن بھر اینٹیں اور گارا ڈھوتا رہتا تھا۔
میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا اور تمام مزدوروں اور مستریوں کا حساب و کتاب میرے ذمہ ہوتا تھا۔ اگر صحیح یاد ہے تو اس وقت ایک مزدور کو دن بھر کی اجرت تین روپے اور مستری یا ترکھان کو پانچ یا چھ روپے ملتی تھی۔
بابا بخشو نام کے دو مزدور تھے جن میں فرق کرنے کے لیے ایک کے نام کے ساتھ 'موٹا' لکھتا تھا جس کے ساتھ آگے چل کر ایک بڑا ہی تلخ اور ناقابل فراموش واقعہ وابستہ ہے جس کا ذکر پھر کبھی ہوگا۔
آج کی نشست میں صرف اس بابا بخشو کا ذکر ہوگا جو مکمل طور پر فلم بابل دا ویڑا (1968) میں ایم اسماعیل کے کردار کی جیتی جاگتی تصویر تھا۔ اس کا لاغر و نحیف جسم ، اس کی غربت و افلاس کی منہ بولتی تصویر تھا۔ پاکستان میں اپنے پہلے دور میں اس کے ساتھ بس اتنا ہی تعارف تھا۔
پاکستان میں دوسرے دور میں بابا بخشو سے روزانہ تعلق مسجد میں ہوتا تھا جہاں ہم اکٹھے باجماعت نماز ادا کرتے تھے۔
اس کی سابقہ حالت میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی تھی اور وہ بدستور ایک دیہاڑی دار مزدور کے طور پر کام کرتا تھا۔ اس کی بیوی لوگوں کے گھروں میں کام کاج سے گھر کا خرچ چلانے میں اس کا ہاتھ بٹاتی تھی۔
اس کی جوان سال بیٹیاں تھیں جن میں سے مجھے صرف دو یاد ہیں۔ بڑی بیٹی کی شادی ہمارے محلے میں ان کے عزیز و اقارب میں ہونے والی تھی لیکن اس کی غربت کی وجہ سے ایک طے شدہ رشتہ منسوخ کردیا گیا تھا جس پر اس کی بیوی کی آہ و بکا اور منت و سماجت کبھی نہیں بھلا سکا۔
اس کا بڑا بیٹا ایک انتہائی بے غیرت ، حرام خور اور ہڈحرام نوجوان تھا جو اپنے گھریلو حالات کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف آوارہ گردی کرتا تھا۔
چھوٹا بیٹا میرا ہم عمر تھا لیکن ایک حادثے میں بیچارے کے دونوں بازو ٹوٹ گئے تھے اور غریب باپ کے پاس اتنی گنجائش نہیں تھی کہ اس کا علاج کرواتا۔ اس کے لٹکے ہوئے بازو آج بھی آنکھوں کے سامنے شرمندہ کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد جب اس کے چھوٹے بیٹے کی ایک حادثے میں موت واقع ہوگئی تھی تو بابا بخشو کی آسمان کی طرف دیکھ کر گریہ و زاری کرنا ایک فلمی منظر لگتا تھا لیکن وہ حقیقی دلخراش واقعہ تھا۔
سب سے بڑا المیہ جو ہوا ، وہ اس کی جواں سال بیٹیاں تھیں جو گھر بیٹھے بوڑھی ہورہی تھیں۔ بڑی بیٹی تو بڑی شریف النفس تھی جو شاذونادر گھر سے نکلتی تھی لیکن سب سے چھوٹی بیٹی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوگئی تھی اور ہم نوجوانوں میں پسندیدہ ترین موضوع بحث بن گئی تھی۔ میرے دوستوں میں سے ایک بڑے مزے لے لے کر اس کے ساتھ اپنی خلوت کے قصے اور کہانیاں بیان کیا کرتا تھا۔
مجھے بڑا سخت صدمہ پہنچتا تھا کیونکہ ایک نیک سیرت باپ کی بیٹی گمراہ ہوگئی تھی جس کا اگر اسے علم ہوجاتا تو یقیناً وہ اسے مار دیتا یا خود کو مار لیتا۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس مجبور ، بے بس اور بدقسمت باپ کی اس المناک کہانی کا انجام کیا ہوا لیکن اپنے معاشرتی اور سماجی نظام سے کسی معجزے کی توقع نہیں ، جہاں نجانے کتنے باپ ، حالات ، رسم و رواج اور اولاد کے ہاتھوں زندہ درگور ہوجاتے ہیں۔۔!
1 | اک دھی لیکھاں ہاری ، کیوں روندی اے وچاری۔۔ دھیاں دتیاں تے کیوں نئیں دتا مال ، مالکا..فلم ... بابل دا ویہڑا ... پنجابی ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: وارث لدھیانوی ... اداکار: (پس پردہ، ایم اسماعیل ، نبیلہ ، مظہر شاہ) |
1. | 1962: Inqilab(Urdu) |
2. | 1964: Dachi(Punjabi) |
3. | 1964: Azad(Urdu) |
4. | 1965: Doli(Punjabi) |
5. | 1965: Heer Syal(Punjabi) |
6. | 1966: Aag Ka Darya(Urdu) |
7. | 1966: Chughalkhor(Punjabi) |
8. | 1966: Hamrahi(Urdu) |
9. | 1966: Bharia Mela(Punjabi) |
10. | 1967: Dil Da Jani(Punjabi) |
11. | 1967: Mera Veer(Punjabi) |
12. | 1968: Lala Rukh(Urdu) |
13. | 1968: Babul Da Vehra(Punjabi) |
14. | 1968: 2 Mutiyaran(Punjabi) |
15. | 1968: Commander(Urdu) |
16. | 1968: Bau Ji(Punjabi) |
17. | 1968: Mela 2 Din Da(Punjabi) |
18. | 1968: Dil Darya(Punjabi) |
19. | 1969: Mukhra Chann Varga(Punjabi) |
20. | 1969: Gabhru Putt Punjab Day(Punjabi) |
21. | 1970: Rangu Jatt(Punjabi) |
22. | 1970: Matrei Maa(Punjabi) |
23. | 1971: Mera Dil Meri Aarzoo(Urdu) |
24. | 1971: Yaar Badshah(Punjabi) |
25. | 1972: Yaar Nibhanday Yaarian(Punjabi) |
26. | 1972: Ishtehari Mulzim(Punjabi) |
27. | 1972: Nizam(Punjabi) |
28. | 1974: Bol Bachan(Punjabi) |
29. | 1974: Qatil(Punjabi) |
30. | 1975: Pulekha(Punjabi) |
31. | 1975: Mera Naa Patay Khan(Punjabi) |
32. | 1976: Pyar Kaday Nein Marda(Punjabi) |
33. | Unreleased: Munshi Sabrang(Punjabi) |
1. | Punjabi filmBabul Da Vehrafrom Friday, 16 February 1968Singer(s): Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: Waris Ludhyanvi, Actor(s): (Playback - M. Ismael, Nabeela, Mazhar Shah) |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.