A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
ظہیر کاشمیری ، ادبی دنیا میں ایک ممتاز ترقی پسند شاعر ، صحافی اور نقاد تھے۔۔!
فلمی دنیا میں نغمہ نگار ، مصنف اور ہدایتکار کے طور پر بھی کام کیا۔ انھوں نے اپنی اکلوتی فلم تین پھول (1961) بنائی جو بے وفائی جیسے ایک بڑے ہی بولڈ موضوع پر بننے والی ایک منفرد فلم تھی۔
ہماری فلموں میں عام طور پر ہیروئن کو بڑی نیک پروین یا دیوی اور ہیرو کو گلفام یا دیوتا کے روپ میں پیش کیا جاتا رہا ہے لیکن ان کی اس فلم کی ہیروئن نیرسلطانہ ، علاؤالدین کی بیوی ہے لیکن اپنے سابقہ آشنا کے ساتھ ناجائز تعلقات بھی رکھتی ہے۔ آشنا یعنی فلم کا ہیرو اسلم پرویز ، اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہے اور بیک وقت تین عورتوں سے جھوٹی محبت کا کھیل کھیلتا ہے اور اسی لیے اس فلم کا نام تین پھول (1961) رکھا گیا تھا۔
اسلم پرویز کے ہیرو شپ کے دور کی خاص بات یہ تھی کہ وہ اپنی مشہور زمانہ فلموں پاٹے خان (1955) ، چن ماہی (1956) ، کوئل اور نیند (1959) وغیرہ میں ہرجائی ہیرو کے روپ ہی میں کامیاب ہوئے تھے۔ بعد میں اردو فلموں کے چوٹی کے ولن اداکار ثابت ہوئے تھے۔
بطور ہدایتکار اپنی اکلوتی فلم تین پھول (1961) کی کہانی ، مکالمے اور منظرنامہ بھی ظہیر کاشمیری کا اپنا لکھا ہوا تھا۔ فنی طور پر یہ ایک کمزور فلم تھی اور بری طرح سے ناکام رہی تھی۔ اس تجربے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح ہر کوئی ، شاعر یا ادیب نہیں بن سکتا ، ایسے ہی ہر کوئی فلم بھی نہیں بنا سکتا۔
عام طور پر نامور ادبی شخصیات ، فلمسازی کے میدان میں ناکام رہی ہیں جن میں امتیاز علی تاج ، شوکت ہاشمی ، اشفاق احمد اور احمدبشیر وغیرہ چند بڑی مثالیں ہیں۔
ایک فلم ، صرف الفاظ و بیاں کا کھیل نہیں ہوتی بلکہ فنون لطیفہ کے جملہ فنون کا ایک حسیں امتزاج ہوتی ہے جس کےلیے ایک ذہین ہدایتکار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک کامیاب ہدایتکار کے لیے کسی اعلیٰ تعلیمی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ شخصی قابلیت ہوتی ہے جو ایک ان پڑھ یا نیم خواندہ شخص میں بھی ہوسکتی ہے ، بھارتی ہدایتکار محبوب اور پاکستانی ہدایتکار اقبال کاشمیری اس کی بہترین مثالیں ہیں۔۔!
دستیاب معلومات کے مطابق ، ظہیر کاشمیری نے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز بطور نغمہ نگار ، تقسیم سے قبل لاہور میں بننے والی ہندی/اردو فلم راگنی (1945) سے کیا تھا۔ ان کا لکھا ہوا پہلا گیت "ہم دو جیون ساتھی ، سونے کے پنکھ لگائیں۔۔" تھا۔ زینت بیگم اور باتش نے موسیقار پنڈت امرناتھ کی دھن میں اس گیت کو گایا تھا۔ ہدایتکار شنکر مہتہ کی اس رومانٹک فلم کے ہیرو نجم الحسن تھے جو فلم ہیررانجھا (1970) میں فردوس کے باپ کے رول میں تھے۔
ظہیر کاشمیری نے گیت نگار کے طور پر فلم کہاں گئے اور آج اور کل (1947) کے علاوہ لاہور میں بننے والی ہندی/اردو فلم فرض (1947) کے جملہ گیت بھی لکھے تھے۔ موسیقار ایس کے ساگر کی دھنوں میں دو گیت ، ان کے انداز فکر کی ترجمانی کرتے ہیں ، جن میں "بتا اے کاتب قسمت ، لکھا کیا بدگمان ہوکر۔۔" اور "اس دیش کے جوانوں کو اب آزمایا جائے گا۔۔" قابل ذکر ہیں۔ اس فلم کا سکرین پلے بھی کا لکھا ہوا تھا۔
فلم فرض (1947) میں پاکستان کے پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر کو متعارف کرایا گیا تھا اور ان کی ہیروئن معروف اداکارہ راگنی تھی جو تقسیم سے قبل لاہور میں بننے والی بیشتر فلموں میں ہیروئن کے طور پر نظر آتی تھی۔
قیام پاکستان سے پہلےانھی چارریلیز شدہ فلموں کار ریکارڈ ملتا ہے جبکہ متعدد فلمیں فسادات کی نظر ہوگئی تھیں۔
تقسیم کے بعد ظہیر کاشمیری کی پہلی فلم طوفان (1955) تھی جس میں موسیقار بابا جی اے چشتی نے ان سے ایک گیت لکھوایا تھا "بوجھو رے ، میرے من کی بات کو بوجھو رے۔۔"
فلم انجام (1957) کی کہانی ، مکالمے اور سکرین پلے بھی لکھے تھے جبکہ فلم شیخ چلی (1958) کے مکالمے اور گیت لکھے تھے۔ ان کے علاوہ فلم لال رومال ، ہیرسیال (1965) ، غیرتمند ، خون ناحق (1969) اور ڈیراسجناں دا (1970) میں گیت نگاری کی تھی۔ یہ حتمی اعدادوشمار نہیں ہیں۔
ظہیر کاشمیری نے مسعودرانا کے لیے بھی دو گیت لکھے تھے جن میں سے پہلا گیت ، پنجابی فلم غیرت مند (1969) میں تھا "بھل گئیوں قول تے قرار وے ، تینوں ترس نہ آیا۔۔" بخشی وزیر کی دھن میں مسعودرانا کے ساتھ نسیم بیگم اور آئرن پروین تھیں۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ اردو فلم خون ناحق (1969) میں اسی ٹیم کا دوسرا گیت بھی ملتا ہے "درد کی تصویر بن کے رہ گئی زندگی۔۔" یہ گیت رانی اور عالیہ کے علاوہ اداکار سکندر پر بھی فلمایا گیا تھا جو ایک درازقد اداکار تھے اور ساٹھ کی فلموں میں نظر آتے تھے۔ فلم اپنا پرایا (1959) میں ان کا ایک غائب دماغ پروفیسر کا کردار یادگار تھا۔
فلم ہیرسیال (1965) میں مسعودرانا کے گائے ہوئے شاہکار گیت "لوکو ، ایویں نئیں جے یار دا نظارا لبھدا۔۔" کے بارے میں شک ہے کہ وہ بھی ظہیر کاشمیری کا لکھا ہوا ہے۔
ظہیر کاشمیری نے متعدد غیر فلمی گیت اورغزلیں بھی لکھی تھیں جن میں استاد امانت علی خان کی گائی ہوئی یہ سپرہٹ غزل ناقابل فراموش ہے "موسم بدلا ، رت گدرائی ، اہل جنوں بے باک ہوئے ، فصل بہار کے آتے آتے ، کتنے گریباں چاک ہوئے۔۔" ان کی دیگر غزلوں میں سے یہ شعر بہت سننے میں آتا ہے " ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخرِ شب ، ہمارے بعد اندھیرا نہیں ، اُجالا ہے۔۔"
ظہیر کاشمیری کا اصل نام پیرزادہ غلام دستگیر تھا اور وہ 1919ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ بہت سی کتابوں کے مصنف تھے۔ بطور صحافی متعدد اخبارات سے منسلک رہے اور 'مجنوں' کے فرضی نام سے لکھتے تھے۔ سیاسی طور پر متحرک رہے اور ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے جرم میں جنرل ضیاع مردود کے سیاہ دور میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ 1994ء میں انتقال ہوا اور بعد از مرگ ، بے نظیربھٹو کی حکومت نے تمغہ حسن کارکردگی عنایت کیا تھا جس سے ہمارے ہاں اعزازات اور ایوارڈز دینے والوں کی سیاست بھی سمجھ میں آتی ہے۔۔!
1 | بھل گئیوں قول تے قرار وے ، تینوں ترس نہ آیا..فلم ... غیرت مند ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: نسیم بیگم ، آئرن پروین ، مسعود رانا ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: ظہیر کاشمیری ... اداکار: شیریں ،؟ ، اکمل |
2 | درد کی تصویر بن کے رہ گئی زندگی..فلم ... خون ناحق ... اردو ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ، نسیم بیگم ، آئرن پروین ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: ظہیر کاشمیری ... اداکار: سکندر ، عالیہ ، رانی |
1 | درد کی تصویر بن کے رہ گئی زندگی ...(فلم ... خون ناحق ... 1969) |
1 | بھل گئیوں قول تے قرار وے ، تینوں ترس نہ آیا ...(فلم ... غیرت مند ... 1969) |
1 | بھل گئیوں قول تے قرار وے ، تینوں ترس نہ آیا ...(فلم ... غیرت مند ... 1969) |
2 | درد کی تصویر بن کے رہ گئی زندگی ...(فلم ... خون ناحق ... 1969) |
1. | 1965: Heer Syal(Punjabi) |
2. | 1969: Ghairatmand(Punjabi) |
3. | 1969: Khoon-e-Nahaq(Urdu) |
1. | Punjabi filmGhairatmandfrom Friday, 14 March 1969Singer(s): Naseem Begum, Irene Parveen, Masood Rana, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): Shirin, ?, Akmal |
2. | Urdu filmKhoon-e-Nahaqfrom Friday, 25 July 1969Singer(s): Masood Rana, Naseem Begum, Irene Parveen, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): Sikandar, Aliya, Rani |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.