موسیقار امجد بوبی ، ایک بھاری بھر کم خاندانی پس منظررکھتے تھے۔ رشیدعطرے جیسے عظیم موسیقار کے بھانجے تھے۔ موسیقار وجاہت عطرے ، ان کے ماموں زاد بھائی ، موسیقار صفدرحسین ، موسیقار ذوالفقارعلی اور گلوکار منیرحسین ، ان کے قریبی عزیز تھے۔ ان کے والد غلام حسین خان ، ایک کلاسیکل گائیک تھے جن سے انھوں نے موسیقی کی تربیت حاصل کی تھی۔ ایک طویل عرصہ تک رشیدعطرے ، اے حمید اور ناشاد کی معاونت کی لیکن خو دکو ایک بڑا موسیقار منوانے کے لئے خاصی جدوجہد کرنا پڑی تھی۔
موسیقار
امجد بوبی کی پہلی فلم
اک نگینہ (1969) تھی۔
احمدرشدی کے گائے ہوئے دو گیتوں "مل گئی ، مل گئی ہم کو پیار کی یہ منزل۔۔" اور "دل نہیں تو کوئی شیشہ ، کوئی پتھر ہی ملے۔۔" کے علاوہ
آئرن پروین کا گایا ہوا گیت "ساری سکھیوں کے بلم گورے ، میرا بلم کالا۔۔" بڑے خوبصورت گیت تھے۔ اسی سال کی فلم
میری بھابھی (1969) کے گیت بھی اچھے تھے ، خاص طور پر
مسعودرانا کا تھیم سانگ "نہ کوئی پٹوار نہ مانجی اور کوئی نہ ناؤ۔۔" لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی گیت سپرہٹ نہیں ہوا تھا اور
امجد بوبی ، اپنی پہچان کروانے میں ناکام رہے تھے۔
ستر کی دھائی میں وہ صرف سات فلموں کی موسیقی دے سکے تھے۔ انھیں بریک تھرو کے لئے دس سال تک انتظار کرنا پڑا۔ فلم نقش قدم (1979) میں اے نیر کا گایا ہوا گیت "کرتا رہوں گا ، یاد تجھے میں ، یونھی صبح و شام ، مٹ نہ سکے گا میرے دل سے بینا تیرا نام۔۔" پہلا سپرہٹ گیت تھا۔ اس سے قبل ڈاکو تے انسان (1973) ان کی پہلی پنجابی فلم تھی جس میں مسعودرانا سے یہ تھیم سانگ گوایا تھا "دنیا وچ ہر پاسے غم موجاں مان دا۔۔" فلم اللہ میری توبہ (1974) میں انہوں نے احمدرشدی سے پہلی اور شاید آخری بار کسی فلم میں چھ گیت گوائے تھے لیکن کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا۔ اگر مجھے صحیح یاد ہے تو ایک گیت رشدی صاحب نے مردانہ اور زنانہ آوازوں میں بھی گایا تھا۔ فلم راجہ جانی (1976) میں احمدرشدی اور ناہیداختر کا یہ مزاحیہ گیت بڑا پسند کیا گیا تھا "بڑی کہتی تھی دل نہیں دو ں گی ، کہ چوری تیری پکڑی گئی۔۔" مہدی حسن کا گیت "جب ڈولی چڑھے گی میرا بہنا۔۔" بھی اچھا گیت تھا لیکن ان سب پر بھاری مسعودرانا کا گایا ہوا یہ ذومعنی گیت تھا "اندھیر نگری ، چوپٹ راجہ ، بجائے جا پیارے ، بجائے جا باجا۔۔" اس گیت کا مکھڑا نغمہ نگار تسلیم فاضلی نے ظریف لکھنوی کی ایک غزل سے نقل کیا تھا "وحشت میں ہراک نقشہ الٹا نظر آتا ہے ، مجنوں نظر آتی ہے ، لیلیٰ نظر آتا ہے۔۔!"
امجد بوبی کو اسی کی دھائی میں بڑا عروج ملا تھا۔ اس دور کے وہ اردو فلموں کے مصروف ترین موسیقار تھے لیکن اس دور کی فلموں اور موسیقی سے میری دلچسپی اور معلومات بڑی محدود ہیں۔ جتنا کچھ میرے علم میں ہے ، وہ بیان کردیتا ہوں۔ فلم بوبی (1984) میں یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا "اک بار ملو ہم سے تو سو بار ملیں گے۔۔" یہ گیت غلام عباس کے علاوہ اس وقت کی ایک مقبول اداکارہ سلمیٰ آغا کی آواز میں بھی تھا جو زبردستی کی گلوکارہ تھی۔فلم مشکل (1995) میں مہناز اور تسکین جاوید کا الگ الگ گایا ہوا گیت "دل ہوگیا ہے تیرا دیوانہ ، اب کوئی جچتا نہیں۔۔" ایک سپرہٹ گیت تھا۔ فلم چیف صاحب (1996) میں سجادعلی کا گیت "بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب۔۔" ایک سٹریٹ سانگ تھا۔ اس فلم میں امجد بوبی نے گلوکار وارث بیگ سے نو گیت گوائے تھے۔ فلم گھونگھٹ (1997) میں ارشد محمود کے لئے انہوں نے یہ سپرہٹ دھن بنائی تھی "دیکھا جو چہرہ تیرا ، موسم بھی پیارا لگا۔۔" فلم سنگم (1998) میں سائرہ نسیم اور وارث بیگ سے الگ الگ گوائے گئے گیت "آ پیار دل میں جگا۔۔" بھی سدا بہارتھے۔ ان کے علاوہ انہوں نے بہت سے بھارتی گلوکاروں سے بھی گیت گوائے تھے۔ 1942ء میں پیدا ہونے والے امجد حسین عرف امجد بوبی کا انتقال 2005ء میں ہوا تھا۔
امجد بوبی کی فلموں سے میری واحد یاد جو وابستہ ہے وہ جاوید شیخ کی سپرہٹ فلم
یہ دل آپ کا ہوا (2002) سے ہے۔ اس سال ، پاکستان گیا تو اپنے بڑے بیٹے کی فرمائش پر یہ فلم لاہور کے
گلستان سینما میں دیکھی تھی۔ دوسرا ہفتہ تھا لیکن ہمیں گیلری کا ٹکٹ باآسانی مل گیا تھا۔ فلم اچھی تھی لیکن سینما کے اردگرد کا ماحول دیکھنے کی بے چینی تھی۔ لاہور جانے کا اتفاق کئی بار ہوا تھا لیکن کبھی کوئی فلم سٹوڈیودیکھا نہ کبھی سینماؤں کے اس گڑھ تک پہنچنے کا اتفاق ہوا تھا۔ چھ سال پہلے بھی لاہور میں دو دن قیام کیا تھا لیکن اس دورے میں اپنے خاندان کے افراد کو لاہور کے تاریخی مقامات کی سیر کروائی تھی۔ ہمارا قیام بھاٹی گیٹ میں داتا صاحبؒ کے قریب ایک ہوٹل میں تھا۔
ملک تھیٹر قریب ترین سینما تھا جہاں پنجابی فلم
کالو شاہ پوریا (1996) دیکھی جو کسی طور پر بھی میرے مزاج کے مطابق نہیں تھی لیکن فلم کے دوران شائقین نے جس طرح کھڑے ہوکر اور تالیاں بجا کرچند ماہ قبل قتل ہونے والے
سلطان راہی کا استقبال کیا ، وہ منظر ناقابل فراموش تھا۔۔!
بچپن ہی سے اخبارات اور ریڈیو پر فلمی اشتہارات سے دلچسپی کی وجہ سے لاہور اور راولپنڈی کے تمام سینماؤں سے غائبانہ تعارف ہوچکا تھا۔ لیکن یہ منظر پہلی بار دیکھ رہا تھا کہ ایبٹ روڈ پر واقع ، گلستان سینما کے عقب میں نغمہ سینما تھا جن کے سامنے میٹروپول سینما تھا۔ ہمارا قیام جس ہوٹل میں تھا ، اس کے ساتھ اوڈین سینما اور بالمقابل کیپٹل سینما تھا۔ ذرا آگے چل کر شبستان اور پرنس سینما تھے جبکہ ان کے سامنے محفل اور مبارک سینما تھے۔ دائیں طرف لکشمی چوک تھا ، جہاں جانے کا موقع تو نہ ملا لیکن تحقیق سے پتہ چلا کہ وہاں میکلورڈ روڈ کراس کرتا تھا جس پر قریب ہی صنوبر سینما تھا جس پر پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) ریلیز ہوئی تھی۔ اس سینما کا پہلا نام 'پربھات ' تھا جو بعد میں' ایمپائر' ہوا لیکن صنوبر نام بچپن سے میرے ذہن میں لاہور کے سینماؤں میں سب سے مشہور ترین نام تھا۔ رات کا منظر تھا ، سارا علاقہ کھنگالنا چاہتا تھا لیکن وقت کی کمی آڑے آئی۔ ہمیں صبح سات بجے ایئر پورٹ پہنچنا تھا جہاں سے ملتان کا سفر کرنا تھا۔ وہ سفر بھی فلمی گیتوں پر تحقیق کے ضمن میں تھا۔ ایک فلمی اخبار میں پڑھا تھا کہ وہاں ایک صاحب کے پاس پاکستان کے تمام فلمی گیتوں کے گراموفون ریکارڈز موجود ہیں۔ ان سے ملا اور جو اکلوتا سودا ہوسکا ، وہ مسعودرانا کے گیتوں کی بیس کیسٹیں تھیں جن میں تین سو کے قریب فلمی گیت تھے۔ ان میں سے آدھے گیت میں نے پہلے کبھی نہیں سنے تھے ، اس طرح اتنا سفر کرنے کا کچھ فائدہ تو ضرور ہوا تھا۔ اس وقت ایک آئیڈیو کیسٹ تیس پینتیس روپے میں مل جاتی تھی لیکن مجھے آرڈر پر بنوائی گئی فی کیسٹ پانچ سے چھ سو روپے میں پڑی تھی جس میں دیگر اخراجات شامل نہیں تھے۔۔!
2002ء کے اس آخری لیکن یادگار دورہ پاکستان کے دوران ، ایک ماہ کی مختصر چھٹی میں صرف یہی آخری تین دن ملے تھے جو ہم اپنے طور پر گزارسکے تھے۔ اس سے قبل پاکستان میں ہمارا سفر کراچی سے شروع ہوا جہاں سے ڈنمارک واپسی بھی ہوئی تھی۔ عام طور پر ہم اسلام آباد ایئر پورٹ جاتے تھے۔ کراچی ایئر پورٹ پر اترتے ہی ایسے لگا جیسے کسی تندور میں گر گئے ہوں۔ جون کا مہینہ اور گرمی اور حبس کا راج تھا۔ اوپر سے سیکورٹی حکام نے ہمارے کیمروں کی بیٹریاں نکال لیں کیونکہ نائن الیون کو ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے اور نگرانی اور پابندیاں بڑی سخت تھیں۔ اہل کراچی کو پانی کے لیے ترستے دیکھا اور شہر کے بیشتر حصے کو ایک بڑے گاؤں کی شکل میں پایا۔ کراچی میں تین دن قیام اور سیروتفریح کا بھرپور موقع ملا اور مزار قائد اعظمؒ کے علاوہ دیگر تفریحی مقامات بھی دیکھے۔ کراچی کا وہ ٹیکسی ڈرائیور نہیں بھولتا جو شاید دانستہ بڑی دیدہ دلیری سے ٹریفک قوانین کی خلاف کرتا تھا اورجس کو بار بار یاددھانی کروانا پڑتی تھی کہ یہ ہمارا آخری سفر نہیں ہے۔ کراچی کے کسی سینما میں فلم دیکھنے کی حسرت ہی رہی ۔ ہماراٹیکسی ڈرائیور جن سینماؤں تک لے کر گیا وہ یا تو بند تھے یا ان پر ایسی فلم چل رہی تھی جسے کوئی شریف آدمی اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ
کیپری سینما پر فلم
چلو عشق لڑائیں (2002) چل رہی تھی ، نام ہی انتہائی بے ہودہ تھا ، دیکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
پاکستان کے اس یادگار دورے میں کئی ایک تلخ و شیریں واقعات ہوئے جن میں کراچی سے لاہور تک کا پاکستان ریلویز کی خستہ حال ٹرین کا وہ سفر ایک ڈراؤنا خواب تھا ، اسی لیے کراچی واپسی بائی ایئر ہوئی تھی جس پر ایک نجی ائیر لائن کی لوٹ مار نہیں بھولتی۔ لاہور کا وہ بدمزاج دکاندار نہیں بھولتا جسے نجانے کیا ہوا تھا کہ اس نے مجھے ویڈیو فلمیں بیچنے سے انکار کردیا تھا۔ جب میں نے اس کے سامنے والے کی دکان سے بڑی تعداد میں ویڈیو فلمیں خریدیں تو بڑی حسرت سے دیکھ رہا تھا۔ سیالکوٹ کےوہ بددیانت تاجر بھی نہیں بھولتے جو کرکٹ کا دو ہزار کا ایک بلا چھ ہزار روپے میں دے رہے تھے جس سے ہم اتنے بددل ہوئے کہ بڑی خریداری کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ فیصل آباد کا وہ باریش گوالا بھی نہیں بھول پایا جس کے دودھ میں پانی ملانے پر ہوٹل والےکےبے عزتی کے الفاظ اور اس کی وضاحت میرے بیٹے کے حافظے میں آج بھی محفوظ ہے۔ راولپنڈی میں اپنی بھابھی کے چھوٹے بھائی کی شکل بھی نہیں بھولتی جو جڑواں شہروں میں ہماراگائیڈ تھا اور اپنے ایک دوست کی گولی کا نشانہ بن کر جوانی ہی میں داغ مفارقت دے گیا تھا ۔ ستم بالائے ستم کہ بوڑھے ماں باپ اور دو معصوم بچوں کے باپ کا قاتل بااثر ہونے کی وجہ سے قانون سے صاف بچ نکلا تھا۔ اسلام آباد کی فیصل مسجد دیکھی جہاں جنرل ضیاع مردود کی قبر پر تھوکنے کی عظیم سعادت بھی حاصل ہوئی تھی۔ مری کے دور دراز پہاڑوں پر جانے کا موقع بھی ملا جہاں بڑے پرپیچ اور خطرناک راستوں سے ہوتے ہوئے بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں ایک پیر صاحب کے عرس میں شرکت کرنا پڑی۔ چند حاسد قریبی عزیز و اقارب کا ہم تارکین وطن کو طنزیہ "باہرلے" کہنا بھی نہیں بھولا۔ آزاد کشمیر کے بارڈر پر ایک گاؤں کا پرفضا اورسہانا ماحول اور شاندار مہمان نوازی بھی نہیں بھول پائی۔ آخری تین دنوں میں کھاریاں سے لاہور گئے جہاں ایک رات قیام کے بعد بائی ایئر ملتان پہنچے۔ وہاں سے چند گھنٹوں بعد فیصل آباد کی راہ لی تھی۔ گھنٹہ گھر پر واقع ایک ہوٹل میں رات بسر کی اور دوسرے دن چنیوٹ ، سرگودھا اور منڈی بہاؤالدین سے ہوتے ہوئے واپس کھاریاں پہنچے تھے۔ کھجوروں ، آموں اور مالٹوں کے وسیع تر باغات کے علاوہ ندی نالوں اورسرسبز و شاداب پنجاب و سندھ کی سرزمین بڑی پیاری لگی لیکن تلخ و شیریں یادوں سے بھرا ہوا وہ سفر ایسا تھا کہ اب تک ویسا سفر کرنے کی دوبارہ ہمت نہیں ہوئی۔۔!
3 اردو گیت ... 3 پنجابی گیت