صبیحہ خانم ایک پیدائشی فنکارہ تھی
13 جون 2020ء کو 85 سال کی عمر میں انتقال کر جانے والی عظیم اداکارہ صبیحہ خانم ایک پیدائشی فنکارہ تھی۔۔!
جذباتی اداکاری ہو یا شوخ و چنچل انداز ، وہ ہر کردار میں ایسے ڈھل جاتی تھی کہ جیسے وہ کردار اسی کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔ اس بے مثل اداکارہ نے اپنے طویل فلمی کیرئر میں ایسے ایسے لازوال کردار ادا کیے تھے کہ جن پر پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
صبیحہ خانم کے چند امر کردار
صبیحہ خانم نے پچاس کے عشرہ کی پاکستانی فلموں میں ہیروئن کے عام کرداروں میں صف اول کی اداکارہ ہونے کے علاوہ عشق و محبت کی کلاسیکل داستانوں میں جو کردار سسی ، سوہنی اور لیلیٰ کے طور پر کیے تھے ، وہ بھی امر ہو گئے تھے۔ ایسا ہی ایک کردار نوراں کا تھا جو پنجاب کے ایک افسانوی کردار دلابھٹی کی محبوبہ تھی۔ پاکستان کی اس پہلی بلاک باسٹر فلم میں صبیحہ خانم پر بابا چشتی کا یہ شاہکار گیت فلمایا گیا تھا "واسطہ ای رب دا تو جائیں وے کبوترا۔۔" طفیل ہوشیار پوری کا لکھا ہوا یہ گیت صبیحہ پر فلمائے ہوئے گیتوں میں سب سے یادگار ترین گیت تھا۔ اسی فلم میں صبیحہ کا ایک مکالمہ فلم کی جان تھا جب وہ اپنی سہیلی سے کہتی ہے کہ "لاء میرے سجے گوڈے نوں ہتھ۔۔" وہ ہاتھ لگاتی ہے تو صبیحہ کا یہ شوخ انداز ، فلم بینوں کا دل موہ لیتا ہے کہ "نی ایہہ نئیوں ، ایہہ ای۔۔"
سوشل فلموں کا بہت بڑا نام
صبیحہ خانم سوشل فلموں کا بہت بڑا نام تھیں۔ انھوں نے ہیروئن کے روایتی کرداروں کے بعد پردہ سکرین پر ایک مہذب اور باوقار گھریلو خاتون کے کردار میں مثالی شہرت حاصل کی تھی۔ ایک چوٹی کی ہیروئن بننے کے بعد ایک چوٹی کی معاون اداکارہ کا ایسا مقام حاصل کیا تھا کہ فلم میں اس کی موجودگی میں دیگر کردارمحض خانہ پری کے لیے ہوتے تھے اور فلم کی کہانی ، آغاز سے انجام تک اسی کےگرد گھومتی تھی۔
ایسی ہی فلموں میں ایک فلم کنیز (1965) تھی جس میں صبیحہ خانم نے ایک ملازمہ کی بیٹی کا رول کیا تھا جو ایک نواب کی بہو بن جاتی ہے لیکن اپنے پس منظر کی وجہ سے قبول نہیں کی جاتی۔ وہ بیوہ ہونے سے قبل دو بچوں کی ماں بن جاتی ہے لیکن پہلا بچہ اس سے چھین لیا جاتا ہے جس کے لیے وہ تڑپتی ہے اور جو آخر میں مال و زر سے زیادہ ماں کی محبت و شفقت کو ترجیح دیتا ہے۔ اس فلم کی کہانی بڑی دلگداز ہوتی ہے جسے صبیحہ خانم کی جذباتی اداکاری یادگار بنا دیتی ہے۔
ٹائٹل اور تھیم سانگ گانے میں ید طولیٰ رکھنے والے عظیم گلوکار مسعودرانا نے اس فلمی کردار کے لیے ایک بڑا ہی پر اثر پس پردہ تھیم سانگ گایا تھا:
مسعودرانا کا صبیحہ خانم کے ساتھ دوسرا ساتھ ان کی ذاتی فلم تصویر (1966) میں تھا جس میں یہ تھیم سانگ تھا:
صبیحہ خانم
کی فلم میں موجودگی سے دیگر فنکاروں کی حیثیت ثانوی ہو جاتی تھی
صبیحہ خانم کے لیے مسعودرانا کے گیت
ایسے پر اثر تھیم سانگ ، فلم ڈائریکٹر اور رائٹر کا کام بڑا آسان کر دیتے تھے کیونکہ فلم بینوں پر جو اثر ایک پر سوز گیت کرتا تھا وہ کسی تحریر ، تصویر یا سکرین پلے میں ممکن نہیں ہوتا تھا۔ مسعودرانا کی پس پردہ آواز ایک غیب کی آواز کی طرح سے ہوتی تھی جس میں فلم کی کہانی کے علاوہ فلمی کرداروں کے لیے رہنمائی اور حوصلہ افزائی بھی ہوتی تھی۔ پر سوز آواز کا سحر ایسے جذباتی مناظر کو امر کر دیتا تھا اور یہی کمال انھیں دیگر گلوکاروں میں ممتاز بھی کرتا تھا۔
اسی فلم میں مسعودرانا نے صبیحہ خانم کے پس منظر میں مولانا الطاف حسین حالی کی مشہور زمانہ نعت بھی گائی تھی:
موسیقار خلیل احمد نے بغیر کسی ساز کے ایک عمدہ دھن بنائی تھی جس میں مسعودرانا کی دلکش آواز ایک سماں سا پیدا کر دیتی تھی۔ اسی فلم کے ایک منظر میں صبیحہ خانم قرآن کریم کی قرآت کرتے ہوئے بھی نظر آتی ہیں۔
مسعودرانا نے فلم ستمگر (1967) میں "ماں کے دل کو توڑ کر ، مامتا کی جنت چھوڑ کر..۔۔" اور فلم یار دا سہرا (1976) میں "مندا ہوندا یتیماں دا حال ، شالا مرن نہ ماواں..۔۔" بھی صبیحہ خانم کے ماں کے کرداروں کے لیے پلے بیک گیت کے طور پر گائے تھے جبکہ فلم پاکدامن (1969) میں ایک سالگرہ کا گیت تھا "
گلاب کی سی پتی ، پشور کا مخانہ ، دیکھو میری جان بنی ہے موتی دانہ.." جسے فلم میں لہری صاحب پر بھی فلمایا گیا تھا۔ اسی فلم کا مشہور زمانہ گیت "ہار دینا نہ ہمت کہیں ، ایک سا وقت رہتا نہیں۔۔" بھی صبیحہ خانم ہی کے کردار کے لیے گایا جاتا ہے جو مسعودرانا اور مالا کی آوازوں میں علاؤالدین اور رخسانہ پر فلمایا جاتا ہے۔
صبیحہ خانم کا مسعودرانا کے ساتھ دوگانا
صبیحہ خانم نے اداکاری کے علاوہ چند فلمی گیت بھی گائے تھے لیکن اس شعبہ میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ میرے علم میں اب تک اس کے بطور پس پردہ گلوکارہ کے طور پر کل چھ فلمی گیت ہیں جن میں سے فلم جوش انتقام اور شاہی محل (1968) کے کورس گیت تو نہیں سنے البتہ فلم اے پگ میرے ویر دی (1975) کے دونوں گیت سنے ہوئے ہیں جبکہ ایک گیت فلم شرابی (1973) کا تھا "سوہنیا اؤئے ، مکھ تیرا چن دی سویر اے۔۔" اس گیت کو غلام علی صاحب نے بھی گایا تھا اور خاصا مقبول ہوا تھا۔ صبیحہ خانم نے جو واحد دوگانا گایا تھا وہ بھی مسعودرانا ہی کے ساتھ تھا جو فلم ظالم تے مظلوم (1974) میں ایک مزاحیہ گیت تھا:
اس گیت کی دھن وجاہت عطرے نے بنائی تھی اور فلم میں منورظریف اور صاعقہ پر فلمایا گیا تھا۔
صبیحہ خانم کا پس منظر
صبیحہ خانم کو اس کے باپ محمدعلی ماہیا نے پہلے سٹیج اور پھر فلم میں متعارف کروایا تھا۔ فلم ناجی (1959) کے ٹائٹل پر فلمساز کے طور پر "صبیحہ محمدعلی" لکھا ہوا تھا اور شاید اسی لیے سستی قسم کے فلمی صحافی جو اداکاروں کے سکینڈل اچھالنا ، اپنی پیشہ وارانہ کارکردگی سمجھتے تھے ، طنزیہ "صبیحہ ایم اے" بھی لکھا کرتے تھے۔ روایتی تعلیم سے محروم اس پر عزم اداکارہ نے شادی کے بعد بی اے کی ڈگری لے کر ایک نئی مثال قائم کی تھی۔ یار لوگوں نے اس کے معاشقوں پر بھی خاصی مغز ماری کی تھی اور کبھی اسے درپن اور کبھی مسعود کے ساتھ نتھی کرتے تھے لیکن وہ تو پہلی نظر ہی میں اپنے سنتوش کی ہو گئی تھی۔
صبیحہ خانم کی پیدائش یکم اکتوبر 1935ء بتائی جاتی ہے۔ صبیحہ کا باپ گجرات کا ایک کوچوان تھا اور خاصا خوش الحان تھا۔ پنجابی گائیکی کی ایک مشہور صنف "ماہیا" گانے کا ماہر تھا جو اس کے نام کا لاحقہ بن گیا تھا۔ ایک امیر زادی کو اپنے تانگے پر کالج چھوڑنے جاتا تھا اور اپنے گیتوں سے اس کا دل جیتنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
یہاں مجھے فلم اج دا مہینوال (1973) میں مسعودرانا کا گایا ہوا ایک ماہیا یاد آرہا ہے جو بالکل ایسی ہی ایک فلمی صورتحال کے لیے گایا گیا تھا "دو پتر اناراں دے ، ربا ساڈا ماہی میل دے ، دن آ گئے بہاراں دے۔۔"
سماجی اونچ نیچ کا نتیجہ تھا کہ اقبال نامی امیر زادی ایک دن اپنے کوچوان آشنا کے ساتھ گھر سے فرار ہو گئی تھی۔ عشق کا بھوت اترا اور تلخ زمینی حقائق سامنے آئے تو اس نااہل اور نکھٹو نے ایک شریف زادی کو گھر کی باعزت چار دیواری سے نکال کر سٹیج اور فلم کی رنگین اور بے رحم دنیا تک پہنچا دیا تھا۔
1938ء میں بننے والی فلم سسی پنوں میں بالو نامی اداکارہ اس وقت تک مختار بیگم نامی ایک بچی کی ماں بن چکی تھی اور اپنی نومولود بچی کے مستقبل کی فکر میں جوانی ہی میں دنیا سے گذر گئی تھی۔
صبیحہ خانم کا فلمی کیرئر
حریص باپ نے بیٹی کے جوان ہونے کا انتظار بڑی بے صبری سے کیا تھا اور پہلے اسے سٹیج پر اور پھر فلم نگری تک لے گیا تھا۔ مختار بیگم ، صبیحہ کے نام سے صرف پندرہ سال کی عمر میں فلم بیلی (1950) میں متعارف ہوئی تھی جس میں اس کا ساتھ اپنے مستقبل کے شوہر اداکار سنتوش کے ساتھ تھا لیکن جس کے ساتھ شادی یکم اکتوبر 1958ء تک نہ ہو سکی تھی۔ یہاں بھی ایک سنگدل اور حریص باپ ، ظالم سماج بن گیا تھا جو پیسے کمانے والی مشین بیٹی کو اتنی آسانی سے بھلا کیسے کھو سکتا تھا۔
صبیحہ خانم کی پہلی سپر ہٹ فلم دو آنسو بھی اسی سال ریلیز ہوئی تھی جو پاکستان کی دوسری لیکن پہلی سلور جوبلی اردو فلم بھی تھی۔ کارکردگی کے لحاظ سے پہلی بڑی فلم گمنام (1954) تھی جس میں ایک پگلی کے رول میں بے حد سراہا گیا تھا اور اس فلم میں فلمایا گیا اقبال بانو کا یہ گیت "پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے۔۔" پہلا سپر ہٹ گیت تھا۔ اسی سال ریلیز ہونے والی فلم سسی ، پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم تھی جس میں صبیحہ خانم کا ٹائٹل رول تھا۔ 1956ء کی فلم دلا بھٹی ، پاکستان کی پہلی بلاک باسٹر فلم تھی جس کی کمائی سے لاہور کا ایورنیو سٹوڈیو بنا تھا۔
صبیحہ خانم کی خاص خاص فلمیں
قاتل (1955) ، حمیدہ ، چھوٹی بیگم ، سرفروش اور حاتم (1956) ، داتا ، آس پاس ، عشق لیلیٰ ، وعدہ اور سات لاکھ (1957) ، شیخ چلی ، دربار ، مکھڑا (1958) ، ناجی (1959) ، ایاز (1960) ، موسیقار (1962) ، دامن (1963) اور سوال (1966) وغیرہ بطورہیروئن ، صبیحہ خانم کی بڑی بڑی فلمیں تھیں جبکہ فلم شکوہ (1963) سے صبیحہ خانم نے ینگ ٹو اولڈ کریکٹرز میں آنا شروع کیا تھا اور بے شمار فلموں میں اپنی اداکاری کی دھاک بٹھا دی تھی جن میں کنیز (1965) ، دیور بھابھی (1967) ، ناہید (1968) ، لاڈلا ، ماں بیٹا ، پاکدامن (1969) ، انجمن ، سجناں دور دیا ، مترئی ماں (1970) ، گرہستی ، تہذیب ، یار دیس پنجاب دے ، بندہ بشر ، بھین بھرا (1971) ایک رات ، انتقام (1972) ، شرابی (1973) ، دھن جگرا ماں دا ، اک گناہ اور سہی ، ماجھا ساجھا ، فرض تے اولاد ، پہچان ، دلاں وچ رب وسدا (1975) ، ابھی تو میں جوان ہوں ، دشمن کی تلاش (1978) ، عشق نچاوے گلی گلی (1984) اور پیار کرن توں نئیں ڈرنا (1991) وغیرہ شامل تھیں۔