ندیم
اردو فلموں کے مقبول
اور کامیاب ترین اداکار تھے
اداکار ندیم ، اردو فلم بینوں کے لیے "عوامی اداکار" تھے۔۔!
اردو فلموں کے باکس آفس پر کامیاب ترین اداکار ندیم کی پیدائش 1941ء میں مدراس ، بھارت میں ہوئی تھی۔ تقسیم کے بعد ان کا خاندان پاکستان چلا آیا اور کراچی میں مقیم ہوا۔
ندیم ، ایک شوقیہ گلوکار
سکول کے زمانے ہی سے انھیں گائیکی کا شوق تھا۔ کراچی میں کالج کے بعد ایک کمپنی میں ملازمت کی۔ اس دوران اپنے فارغ اوقات میں کراچی سٹیج پر شوقیہ گاتے تھے۔ جس میوزیکل گروپ میں شامل تھے ، ویکلی نگار کراچی کے 22 اگست 1999ء کے ایک شمارے میں سینئر مضمون نگار رضوان حیدربرنی مرحوم کے مطابق اس گروپ میں مسعودرانا اور اخلاق احمد بھی شامل تھے۔ مسعودرانا کو تو جلد ہی موقع مل گیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے چوٹی کے گلوکار بن گئے تھے لیکن ندیم اور اخلاق احمد کے لیے خاصی جدوجہد باقی تھی۔
ندیم بطور پس پردہ گلوکار
اس دوران ندیم نے موسیقار نثاربزمی کے ساتھ دو فلموں 'سہرا' اور 'یہ کراچی ہے' نامی فلموں کے لیے گیت ریکارڈ کروائے تھے لیکن وہ فلمیں کبھی نہ بن سکیں۔ فلم سہرا میں ان کے جس گیت کا حوالہ ملتا ہے ، وہ تھا
یہ گیت بعد میں نثاربزمی نے مہدی حسن سے سولو اور مالا اور احمدرشدی سے دوگانے کی صورت میں فلم انیلا (1969) میں گوایا تھا اور ندیم صاحب پر ہی فلمایا گیا تھا۔
اتفاق سے ندیم کی کمپنی نے انھیں ڈھاکہ بھیج دیا تھا جہاں تعیناتی کے دوران فارغ اوقات میں گائیکی کا شوق جاری رہا اور وہ ، ریڈیو اور ٹی وی پر اردو اور بنگالی میں گاتے رہے۔
اس دوران ڈھاکہ میں بننے اور ریلیز ہونے والی فلم کیسے کہوں (1965) ، پہلی فلم تھی جس میں ندیم کو کوئی فلمی گیت گانے کا موقع ملا۔ موسیقار الطاف محمود کی دھن میں سروربارہ بنکوی کا لکھا ہوا پہلا فلمی گیت تھا
- کیسے کہوں میں ، جاناں او جاناں۔۔
یہ ایک دوگانا تھا جس میں ساتھی گلوکارہ فردوسی بیگم تھی جو سابقہ مشرقی پاکستان کی اردو فلموں کی مقبول ترین گلوکارہ تھی۔
اسی گلوکارہ کے ساتھ ندیم صاحب نے اپنا دوسرا گیت فلم بیگانہ (1966) میں گایا تھا
- میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔۔
روبن گھوش کے ساتھ یہ ان کا پہلا گیت تھا جنھوں نے اپنی اگلی فلم چکوری (1967) میں بھی ندیم اور فردوسی بیگم سے یہ دوگانا گوایا تھا
- کبھی تو تم کو یاد آئیں گی ، وہ بہاریں ، وہ سماں۔۔
اصل میں یہ گیت فلم کے پہلے ہیرو عظیم اور ہیروئن شبانہ پر فلمایا جانا تھا لیکن کسی وجہ سے ہدایتکار احتشام نے اداکار عظیم کو کٹ کر کے ندیم صاحب کو ہیرو لے لیا جنھیں گانے کا شوق تو تھا لیکن اداکاری سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس فلم میں اپنے اس اکلوتے گیت کو ندیم نے اردو کے علاوہ بنگالی زبان میں بھی گایا تھا اور اتفاق سے اپنے پہلے تینوں گیت فردوسی بیگم کے ساتھ گائے تھے۔
ندیم بطور اداکار
ہدایتکار احتشام کی شاہکار فلم چکوری کو پہلے ، 22 مارچ 1967ء کو عیدالاضحی کے دن ڈھاکہ میں بنگالی زبان میں ریلیز کیا گیا تھا۔ عین ممکن ہے کہ اس فلم کو پہلے اردو زبان میں ہی بنایا گیا ہو اور پھر بنگالی زبان میں ڈب کر لیا گیا ہو کیونکہ اس کے بنگالی ورژن میں ایک اردو گیت بھی تھا۔ "اہل زبان" کی طرح بنگالی بھی اپنی زبان کے مسئلہ پر بڑے متعصب اور تنگ نظر ہوتے تھے۔ ڈھاکہ میں بننے والی بیشتر اردو فلمیں ، اصل میں ڈبل ورژن بنگالی/اردو فلمیں ہوتی تھیں۔
فلم چکوری (1967) میں ندیم کے ساتھ اداکار شبانہ کو ٹائٹل رول میں پیش کیا گیا تھا جو قبل ازیں متعدد فلموں میں ایکسٹرا اداکارہ کے طور پر کام کر چکی تھی اور بعد ازاں ڈھاکہ فلموں کی کامیاب ترین اداکارہ ثابت ہوئی تھی۔
اس فلم میں مجیب عالم کے گائے ہوئے گیت
- وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں۔۔
کے دوران فلم کے ہدایتکار احتشام بھی مہمانوں میں نظر آتے ہیں۔ اس دوران عکاسی بڑے کمال کی تھی اور شبانہ کو کلوزاپ میں انتہائی پرکشش عکس بند کیا گیا تھا۔
چکوری (1967) ، ایک ڈبل ورژن فلم
ڈھاکہ میں زبردست کامیابی کے بعد فلم چکوری (1967) کو اردو زبان میں 19 مئی 1967ء کو کراچی میں ریلیز کیا گیا تھا۔
موسیقار روبن گھوش تھے جو ندیم صاحب کی گائیکی کی صلاحیتوں سے کچھ زیادہ متاثر دکھائی نہیں دیتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ فلم کے باقی مردانہ گیت دیگر گلوکاروں سے گوائے تھے۔ ندیم پر پہلا گیت احمدرشدی کا گایا ہوا فلمایا گیا تھا
- پیارے پیارے ، یار ہمارے ، ہاتھ دکھاتے جانا۔۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگالی ورژن میں بھی یہ اردو گیت موجود تھا۔ اس فلم کے دیگر بنگالی مرادنہ گیت بشیراحمد کی آواز میں تھے جو ڈھاکہ فلموں کے مقبول ترین گلوکار تھے۔
بنگالی ورژن کے سبھی گیت ڈھاکہ سٹوڈیوز میں مزمل نامی ساؤنڈ ریکارڈسٹ نے ریکارڈ کیے تھے جبکہ اردو ورژن کے گیت افضل حسین اور ملک منصور نے لاہور سٹوڈیوز میں ریکارڈ کیے تھے۔
اس فلم کے بنگالی ڈائیلاگ زین العابدین نے جبکہ اردو مکالمے اور گیت اختریوسف نے لکھے تھے۔ جبکہ اس فلم کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ آرٹ کا شعبہ فرزانہ احتشام کے سپرد تھا جو فلم ڈائریکٹر احتشام کی صاحبزادی تھیں اور جن کی شادی 28 ستمبر 1969ء کو ندیم صاحب کے ساتھ ہوئی تھی۔
لوکل بوائے کی کامیابی
فلم چکوری (1967) کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ کراچی میں نمائش کے بعد پہلے کچھ دن تک یہ فلم بڑی نرم جارہی تھی لیکن پھر یہ خبر عام ہوئی کہ لوکل بوائے 'مرزا نذیر بیگ' جو ایک سٹیج گلوکار کے طور پر کراچی کا ایک جانا پہچانا نام تھا ، اب ندیم کے نام سے فلم کا ہیرو ہے۔
شائقین فلم جوق در جوق سینماؤں کا رخ کرنے لگے اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ فلم چکوری (1967) نے کراچی کے پیراڈائز سینما پر مسلسل 5 ماہ یا 20 ہفتے چلتے ہوئے مجموعی طور پر 81 ہفتے چل کر کراچی کی دوسری پلاٹینم جوبلی فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
اگلے چار عشروں تک اہل کراچی کے لیے ندیم صاحب کا جادو سر چڑھ کر بولا اور ان کی کشش فلم بینوں کو سینماگھروں تک کھینچ لاتی تھی۔
ندیم کا پچاس سالہ فلمی کیرئر
پاکستان فلم میگزین پر ندیم صاحب کے انفرادی فلم ریکارڈز کو ازسرنو مرتب کیا گیا ہے اور ایک طرح سے دریا کو کوزے میں بند کردیا گیا اور چند کلکس کے نیچے ندیم صاحب کا نصف صدی کا پورا فلمی کیرئر موجود ہے۔
ندیم کی تمام فلموں کی سال بہ سال فہرست ، فلمی پوسٹرز ، بزنس ریکارڈز ، جوبلیاں ، اہم ساتھی اداکاروں اور ہدایتکاروں کے ساتھ فلموں کے ریکارڈز کے علاوہ ندیم صاحب پر فلمائے ہوئے اور ان کے اپنے گائے ہوئے گیتوں کی فہرستیں بھی مرتب کی گئی ہیں۔
اتنی ہمہ گیر معلومات کے بعد اس طویل مضمون کی ضرورت تو نہ تھی۔ لیکن مسعودرانا صاحب کے بارے میں مضامین کے اس عظیم سلسلے کو شروع کیا تھا تو خیال تھا کہ ان کے ساتھی فنکاروں کے بارے میں سرسری سی معلومات ہوں گی لیکن پھر خیال آیا کہ ایسے کام روز روز نہیں ہوتے کیوں نہ ایک ہی بار مکمل تفصیلات کو محفوظ کرلیا جائے۔
طوالت سے بچنے کے لیے ندیم صاحب کے نصف صدی کے انتہائی قابل رشک فلمی کیرئر کا تذکرہ بڑے اختصار سے کیا جارہا ہے جس میں زیادہ تر ان کے ہیرو شپ کے دور اور اہم ترین واقعات اور ریکارڈز کا ذکر کیا گیا ہے۔
1967ء میں فلم چکوری کے علاوہ ندیم کی ایک اور فلم چھوٹے صاحب (1967) بھی ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کو بھی کراچی میں گولڈن جوبلی کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان دونوں فلموں کی کامیابی سے متاثر ہو کر انھیں مغربی پاکستان کی فلموں میں بھی کاسٹ کرلیا گیا تھا۔
ندیم کی لاہور کی پہلی فلم
1968ء میں اپنے دوسرے ہی سال ندیم کی کل 7 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ ان میں سے 4 فلمیں میڈ ان لاہور تھیں جن میں سے دو سپرہٹ گولڈن جوبلی فلمیں تھیں۔ پہلی فلم ، دیبا کے ساتھ نغمہ بار فلم سنگدل (1968) تھی جس میں ندیم پر مسعودرانا کا پہلا گیت
- او میرے شوخ صنم ، ہوا دیوانہ تیرا ، جب سے تمھیں دیکھ لیا۔۔
فلمایا گیا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ اس فلم کا انھوں نے اتنا معاوضہ لیا تھا کہ جو اسوقت کے اردو فلموں کے سپرسٹارز محمدعلی اور وحیدمراد بھی نہ لیتے تھے۔
ندیم کی دوسری فلم رانی کے ساتھ بہن بھائی (1968) ، ایک ملٹی کاسٹ سپرہٹ فلم تھی۔ فلم میں کہاں منزل کہاں (1968) میں ندیم کی جوڑی اداکارہ ادا کے ساتھ تھی جو اداکارہ زمرد کی بہن تھی۔ یہ ایک اوسط درجہ کی فلم تھی جبکہ فلم پڑوسی (1968) ناکام رہی تھی۔
تیری یاد آگئی
مشرقی پاکستان کی تین فلموں میں سے پہلی چاند اور چاندنی (1968) ، ایک کمزور اور اوسط درجہ کی فلم تھی لیکن بہت بڑی میوزیکل فلم تھی۔ مسعودرانا کا شاہکار گیت
- تیری یاد آگئی ، غم خوشی میں ڈھل گئے۔۔
ندیم پر فلمایا گیا تھا۔
شبنم اور ندیم کی جوڑی
فلم تم میرے ہو (1968) ، ندیم اور شبنم کی سپرہٹ جوڑی کی پہلی مشترکہ فلم تھی لیکن اتفاق سے ریلیز کے اعتبار سے ندیم کی پہلی ناکام فلم بھی تھی۔
فلم قلی (1968) میں مسعودرانا اور احمدرشدی کا ماں کے موضوع پر گایا ہوا یہ یادگار گیت
- قدموں میں تیرے جنت میری ، میں تجھ پر قربان ، اے ماں ، پیاری ماں۔۔
فلم کا حاصل تھا۔ اسی فلم میں ندیم نے اپنا پہلا سولو گیت گایا تھا
- میرے حبیب تم ہو ، میرا نصیب تم ہو۔۔
موسیقار علی حسن تھے۔
میرا خیال ہو تم ، میری آرزو تم ہو
1969ء میں ندیم کی 6 فلمیں نمائش کے لیے پیش ہوئی تھیں۔ فلم دیا اور طوفان (1969) میں ایک سین میں نظر آنے والے مہمان اداکار تھے۔ باقی پانچوں فلموں میں فرسٹ ہیرو تھے۔
حیرت کی بات ہے کہ صرف فلم نازنین (1969) ہی سلورجوبلی کر سکی تھی جس میں مسعودرانا کے چار لاجواب گیت ندیم پر فلمائے گئے تھے جن میں
- میرا خیال ہو تم ، میری آرزو تم ہو۔۔
فلم کی ہائی لائٹ تھا۔
لاہور کی دیگر دونوں فلموں انیلا اور فسانہ دل (1969) کے علاوہ مشرقی پاکستان کی دونوں فلمیں اناڑی اور داغ (1969) بھی ناکام ہوگئی تھیں۔ فلم اناڑی (1969) میں ندیم اور فردوسی بیگم کا الگ الگ گایا ہوا گیت
- لکھے پڑھے ہوتے اگر تو تم کو خط لکھتے۔۔
بڑا مشہور ہوا تھا۔ فلم داغ (1969) میں روبن گھوش نے مسعودرانا اور آئرن پروین سے دھیمی سروں میں ایک دلکش دوگانا گوایا تھا
- آجاؤ ، ذرا مل بیٹھیں ہم ، کچھ کہہ لیں گے ، کچھ سن لیں گے۔۔
ایسے گیت سن کر مسعودرانا کی گائیکی کی صلاحیتوں پر رشک آتا تھا۔
ندیم اور وحیدمراد کا ساتھ
1970ء میں ندیم کی پانچوں فلمیں مغربی پاکستان کی بنی ہوئی تھیں۔ ان میں ایک فلم چاندسورج (1970) ایک عجیب فلم تھی جس میں دوکہانیاں تھیں۔ پہلے ہاف میں روزینہ اور وحیدمراد اور دوسرے ہاف میں شبانہ اور ندیم کی کہانیاں تھیں۔ وحیدمراد کے ساتھ ندیم کی یہ پہلی فلم تھی۔
ندیم اور محمدعلی کا ساتھ
فلم بازی (1970) میں ندیم نے پہلی بار محمدعلی کے مقابل کام کیا تھا ، اداکارہ نشو کی یہ پہلی فلم تھی۔
فلم جلے نہ کیوں پروانہ (170) میں ندیم کو کمال اور شبنم کے ساتھ بھارتی فلم انداز (1949) کی نقل میں بالترتیب دلیپ کمار، راج کپور اور نرگس کے کرداروں میں پیش کیا گیا تھا۔ اس فلم میں ناشاد کی دھن میں ندیم کا گایا ہوا گیت
- محبتوں کے قدردان ، نہ شہر میں ، نہ گاؤں میں۔۔
بڑا زبردست گیت تھا۔
فلم شمع اور پروانہ (1970) ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی اور ایسی ہی ایک نغماتی فلم سوغات (1970) بھی تھی۔ لیکن مزے کی بات ہے کہ یہ پانچوں فلمیں کسی بڑی کامیابی سے محروم رہی تھیں۔ ستر کے عشرہ میں کراچی میں سلورجوبلی کرنے والی فلمیں عام طور پر ناکام یا زیادہ سے زیادہ اوسط درجہ کی فلمیں ہوتی تھیں۔
تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں
1971ء میں ندیم کی 4 فلمیں منظرعام پر آئیں۔ فلم آنسو (1971) واحد سپرہٹ فلم تھی۔ اداکار شاہد اور اداکارہ ممتاز کی یہ پہلی پہلی فلم تھی۔ یہ فلم جہاں پنجابی فلموں کی سپرسٹار فردوس کے ینگ ٹو اولڈ رول کی وجہ سے یاد رکھی جاتی ہے وہاں مسعودرانا کے امر گیت
- تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں۔۔
کی وجہ سے بھی ایک یادگار فلم تھی۔ ندیم صاحب کی یہ اکلوتی فلم تھی جو میں نے اپنے پہلے چار سالہ فلمی دور میں دیکھی تھی۔
چراغ کہاں روشنی کہاں (1971) میں مسعودرانا کے دو دلکش گیت ندیم پر فلمائے گئے تھے
- حال دل آج ہم سنائیں گے۔۔
- میری دعا ہے کہ تو بن کے ماہتاب رہے۔۔
یہ ایک اوسط درجہ کی فلم ثابت ہوئی تھی۔
فلم پرائی آگ کے علاوہ جلتے سورج کے نیچے (1971) ناکام رہی تھیں جو مشرقی پاکستان میں بننے والی آخری فلم تھی جس کے ہدایتکار ظہیر ریحان تھے۔ فلم کے ٹائٹل سے ان کا نام حذف کردیا گیا تھا کیونکہ وہ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے ایک سرگرم کارکن تھے اور قدرتی بات ہے کہ پاکستان میں ایک غدار کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اس فلم میں ندیم نے ٹرپل رول کیا تھا اور روزینہ کے علاوہ ببیتا نامی اداکارہ بھی ان کی ہیروئن تھی۔
1972ء کی 6 فلموں میں ندیم کا نام آتا ہے۔ ان میں آؤ پیار کریں ، انگارے ، سہاگ ، من کی جیت ، پازیب اور احساس (1972) تھیں۔ ان میں کوئی ایک بھی فلم کسی بڑی کامیابی سے محروم رہی تھی۔ فلم پازیب (1972) ، ندیم کے دیرینہ دوست گلوکار اخلاق احمد کی پہلی فلم تھی۔
ندیم کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم
1973ء میں ندیم صاحب کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم نادان (1973) ریلیز ہوئی تھی جو زرقا (1969) اور دوستی (1971) کے بعد پاکستان کی تیسری ڈائمنڈ جوبلی فلم تھی۔ کراچی میں اس فلم نے 102 ہفتے چلنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ یہ بھارتی فلم گوپی (1970) کی کاپی تھی اور ندیم کو دلیپ کمار بنایا گیا تھا۔
اس سال کی 7 فلموں میں سے فلم خوشیا (1973) میں مہمان اداکار تھے جبکہ تیرا غم رہے سلامت (1973) میں شاہد کے مقابل سیکنڈ ہیرو تھے۔ سہرے کے پھول اور بادل اور بجلی (1973) اوسط درجہ کی فلمیں تھیں۔ سوسائٹی (1973) ایک کامیاب فلم تھی۔ فلم مسٹربدھو (1973) میں موسیقار کمال احمد نے ایک گیت کمپوز کیا تھا
- کتنے اشک پیے ہیں ، پھر بھی پیاسا ہوں۔۔
یہ ندیم کا گایا ہوا اکلوتا گیت ہے جو کسی دوسرے اداکار یعنی قوی پر فلمایا گیا تھا۔
اس سال کی سب سے بڑی فلم دامن اور چنگاری (1973) تھی جس میں ندیم ، محمدعلی کے مقابل ثانوی رول میں تھے لیکن پہلی بار زیبا کے ساتھ آدھے ہیرو بھی تھے۔ ان دونوں پر مسعودرانا اور ملکہ ترنم نورجہاں کا یہ دوگانا فلمایا گیا تھا
- یہ وعدہ کرو کہ محبت کریں گے ، سدا ایک دوجے کے دل میں رہیں گے۔۔
ندیم کے عروج کا دور
1974ء کا سال ندیم کے انتہائی عروج کا سال ثابت ہوا تھا جب ان کی ایک کیلنڈر ائر میں 13 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ اداکارہ شبنم کے ساتھ دل لگی (1974) ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی جس سے اس جوڑی کو عروج ملا تھا۔ فلم کے مقبول ترین گیت مسعودرانا کے گائے ہوئے تھے
- مرجھائے ہوئے پھولوں کی قسم ، اس دیس میں پھر نہ آؤںگا
- آگ لگا کر چھپنے والے ، سن میرا افسانہ
اسی سال ندیم نے بطور فلمساز اپنی پہلی فلم مٹی کے پتلے (1974) بنائی تھی جو ناکام رہی تھی۔ اس فلم کے ہدایتکار ان کے سسر احتشام تھے جو ان دنوں اپنی بیٹی کو ملنے پاکستان آئے ہوئے تھے۔
اس سال کی ایک اور بات فلم بینوں کے لیے ناقابل فراموش تھی کہ اردو فلموں کے تینوں بڑے ہیروز ، محمدعلی ، وحیدمراد اور ندیم کو دو فلموں پھول میرے گلشن کا اور شمع (1974) میں ایک ساتھ دیکھا گیا تھا۔ فلم شمع اور سماج (1974) میں ندیم نے منفی رول کیے تھے۔
سولو ہیرو کے طور پر ان کی دیگر فلموں میں بھول ، دوبدن ، مس ہپی ، شرافت اور انتظار (1974) بھی کامیاب تھیں لیکن ساون آیا تم نہیں آئے اور دو تصویریں (1974) ناکام ترین فلمیں تھیں۔ اس سال کی ایک بہت بڑی نغماتی فلم بہشت (1974) بھی کسی بڑی کامیابی سے محروم رہی تھی۔ فلم بھول (1974) میں ندیم کو زیادہ سے زیادہ یعنی تین گیت گانے کا موقع ملا تھا ، روبن گھوش موسیقار تھے۔ فلم دوبدن (1974) میں ندیم کا نیرہ نور اور احمدرشدی کے ساتھ یہ گیت سپرہٹ ہوا تھا "بجاؤ بجاؤ ، میرے سنگ تالی۔۔" ایم اشرف موسیقار تھے۔
اردو فلموں پر ندیم کی اجارہ داری کا دور
1975ء میں ندیم کی اردو فلموں پر اجارہ داری کا دور شروع ہو گیا تھا۔ ا س سال کی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ایک ہی دن یعنی یکم اگست 1975ء کو ندیم کی دو فلموں پہچان اور اناڑی (1975) نے ڈائمنڈجوبلیاں منانے کا نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ یہ ریکارڈ سلطان راہی کی تین ڈائمنڈ جوبلی فلموں شیرخان ، سالا صاحب اور چن وریام (1981) نے توڑا تھا جو 2 اگست 1981ء کو عید کے دن ریلیز ہوئی تھیں۔
اس سال کی دو فلمیں جب جب پھول کھلے اور زینت (1975) گولڈن جوبلی تھیں۔ ان کے علاوہ ساجن رنگ رنگیلا ، جاگیر ، معاشرہ ، گمراہ اور امنگ ناکام فلمیں تھیں۔ اوسط درجہ کی فلموں میں ہار گیا انسان ، دلنشین ، پالکی ، روشنی ، زنجیر کے علاوہ فرض اور مامتا بھی تھی جس میں مسعود ران کا یہ شاہکار گیت ندیم پر فلمایا گیا تھا
- آج غم دے دیا ، کل خوشی بخش دی ، حسن والوں کا کوئی بھروسہ نہیں۔۔
1976ء میں ندیم کی 9 فلمیں ، فلم بینوں کو دیکھنے کو ملی تھیں۔ ان میں فلم تلاش (1976) ڈائمنڈ جوبلی فلم تھی۔ کوشش ، سچائی اور محبت اور مہنگائی (1976) ، گولڈن جوبلی فلمیں تھیں۔ دو آنسو ، سیاں اناڑی اور انسان اور فرشتہ (1976) اوسط درجہ کی تھیں جبکہ دامن کی آگ اور جیو اور جینے دو (1976) ناکام فلمیں تھیں۔
ندیم کی ریکارڈ توڑ فلم آئینہ
1977ء کا سال ندیم کے لیے ایک یادگار سال تھا جب ان کی فلم آئینہ (1977) نے کراچی میں کل 401 ہفتے چل کر باکس آفس پر کامیابیوں کا نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ 18 مارچ 1977ء کو ریلیز ہونے والی یہ ریکارڈ توڑ فلم 14 جنوری 1982ء تک کراچی میں چلتی رہی تھی۔ یہ عرصہ 4 سال ، 9 ماہ اور 27 دن بنتا ہے۔
اس فلم نے اپنے مین تھیڑ بمبینو پر مسلسل 48 ہفتے چلنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ دلچسپ بات ہے کہ ندیم کی کسی فلم نے کبھی اپنے مین تھیٹر پر گولڈن جوبلی یا پچاس ہفتے چلنے کا اعزاز حاصل نہیں کیا تھا حالانکہ سلطان راہی کی متعدد فلمیں مین تھیٹرز پر سو سو ہفتے چلتی رہی تھیں۔
فلم آئینہ (1977) اپنی ریلیز کا زیادہ تر عرصہ ایک منی سینما سکالا میں چلتی رہی تھی جس میں صرف 144 سیٹیں تھی جبکہ ایک عام سینما میں اوسطاً چھ سے سات سو کے قریب سیٹیں ہوا کرتی تھیں۔ گویا اس حجم کے سینما میں اگر مولاجٹ (1979) یا شیرخان (1981) جیسی فلمیں چلتیں تو دس دس سال تک چلتی رہتیں۔
فلم آئینہ (1977) کی کامیابی نے دیگر 11 فلموں کو پس منظر میں دھکیل دیا تھا اور کوئی ایک بھی فلم گولڈن جوبلی نہ کرسکی تھی۔ اس دور میں کراچی میں کم از کم ایک گولڈن جوبلی کرنے والی فلم ہی کامیاب فلم کہلاتی تھی ، باقی فلمیں زیادہ سے زیادہ اوسط یا ناکام ہوتی تھیں۔ ان تمام فلموں کی فہرست ندیم صاحب کے انفرادی فلم ریکارڈز کے صفحہ پر موجودہے۔
1978ء میں ندیم کی 7 فلمیں سامنے آئیں۔ امبر اور زندگی (1978) اس سال کی سب سے بڑی فلمیں تھیں۔ پلے بوائے اور پرنس (1978) بھی کامیاب فلمیں تھیں۔ انمول محبت (1978) ایک بہت اچھی اور بامقصد فلم تھی جبکہ مٹھی بھر چاول (1978) میں ندیم نے سکھ کا رول کیا تھا لیکن یہ فلم بھی کسی بڑی کامیابی سے محروم رہی تھی۔ یہ فلم میں نے راولپنڈی کے سنگیت سینما میں دیکھی تھی اور اس فلم میں ندیم پر مسعودرانا کا یہ گیت فلمایا گیا تھا
- اک کڑی دودھ مکھناں دی پلی ، جیسے مشری کی ڈلی۔۔
ندیم ، ینگ ٹو اولڈ کردار میں
1979ء میں ندیم کی صرف 3 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ پنجابی فلم دہشت (1979) میں مہمان اداکار تھے جبکہ دوراستے (1979) ناکام رہی تھی۔ واحد کامیاب فلم پاکیزہ (1979) تھی جس میں انھوں نے شبنم کے ساتھ پہلی بار ینگ ٹو اولڈ رول کیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس فلم سے جہلم کے پرنس سینما کا افتتاح ہوا تھا اور ہم نے یہ فلم وہاں دیکھی تھی۔
لاہور کی پہلی اردو پلاٹینم جوبلی فلم
1980ء میں ندیم کی 7 فلمیں نمائش کے لیے پیش ہوئیں۔ اس سال کی فلم بندش (1980) کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ پہلی اردو فلم تھی جس نے لاہور میں پلاٹینم جوبلی کی تھی۔ فلم ہم دونوں (1980) ایک ڈائمنڈجوبلی فلم تھی۔ صائمہ اور رشتہ (1980) گولڈن جوبلی فلمیں تھیں جبکہ اس سال کی دیگر فلمیں اوسط یا سلورجوبلی تھیں۔
1981ء میں ندیم کی صرف 3 فلمیں سامنے آئیں جن میں سے دو فلموں لاجواب اور قربانی (1981) نے ڈائمنڈجوبلیاں کی تھیں جبکہ وطن (1981) ناکام تھی۔
یہ وہ دور تھا جب ایکشن پنجابی فلموں کا طوفان بدتمیزی اپنے عروج پر تھا اور مجھ جیسے بے شمار سنجیدہ فلم بین متبادل فلموں کی تلاش میں رہتے تھے۔ اس دور میں اردو فلموں کی تعداد کم ہوگئی تھی لیکن ان میں سے بیشتر فلمیں کامیاب ہوتی تھیں کیونکہ آپشن کم ہوتے تھے اور لوگ ایک ہی فلم دیکھنے پر مجبور ہوتے تھے۔
1982ء میں ندیم کی 7 فلمیں دیکھنے کو ملیں۔ سنگدل (1982) ڈائمنڈجوبلی ، میاں بیوی راضی (1982) پلاٹینم جوبلی اور مہربانی (1982) گولڈن جوبلی تھیں۔ باقی چاروں فلمیں اوسط یا سلورجوبلی تھیں۔
1983ء میں 3 فلموں میں ندیم ہیرو تھے۔ دہلیز (1983) ڈائمنڈجوبلی ، دیوانگی (1983) گولڈن جوبلی جبکہ گمنام (1983) سلورجوبلی فلمیں تھیں۔
1984ء میں ندیم کا نام 5 فلموں میں ملتا ہے۔ بسیرا اور کامیابی (1984) گولڈن جوبلی جبکہ دیگر تین فلمیں سلورجوبلی تھیں۔ فلم بسیرا (1984) میں ایک طویل عرصہ بعد ندیم کی جوڑی ایک بار پھر شبانہ کے ساتھ ہوئی تھی ، یہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی پہلی کوپروڈکشن تھی۔
فلم کامیابی (1984) میں ماسٹرخرم کا کردار حیرت انگیز طور پر میرے بچپن کا مکمل عکس تھا جو ڈنمارک آمد کے بعد مجھے اپنے ندیم ٹائپ والد صاحب مرحوم و مغفور کے ساتھ گزارنا پڑا تھا۔
1985ء میں ندیم کے حصہ میں 6 فلمیں آئیں۔ ہم سے ہے زمانہ اور زمین آسمان (1985) گولڈن جوبلی تھیں۔ باقی سبھی فلمیں سلورجوبلی یا درمیانہ درجہ کی تھیں۔
1986ء میں ندیم کو 4 فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ حساب اور فیصلہ (1986) گولڈن جوبلی جبکہ باقی فلمیں سلورجوبلی ریکارڈ ہوئیں۔
ندیم کی پہلی ڈبل ورژن پنجابی/اردو فلم
1987ء میں ایک بار پھر ندیم کی 4 ہی فلمیں تھیں جن میں چوروں کی بارات (1987) واحد گولڈن جوبلی فلم تھی۔ یہ پہلی ڈبل ورژن فلم تھی جو بنی تو پنجابی زبان میں تھی لیکن کراچی سرکٹ کے لیے اردو میں ڈب کر کے پیش کی گئی تھی۔ ایسی فلموں میں کئی ایک گیت اور مکالمے ایسے بھی ہوتے تھے کہ جو اردو ورژن میں بھی پنجابی زبان میں ہوتے تھے۔ ایسے گیت اور مکالمے 'اہل زبان' یا اردو فلم بینوں کی سماعت پر بڑے گراں گزرتے تھے۔ کراچی کے فلمی میڈیا میں تو پنجابی/اردو ڈبل ورژن فلموں کے خلاف باقاعدہ ایک مہم بھی چلائی گئی تھی۔
ندیم کی پہلی پنجابی فلم
1988ء میں ریلیز کے اعتبار سے 137ویں فلم مکھڑا (1988) ، ندیم کی پہلی خالص پنجابی فلم تھی۔ اس فلم کے فلمساز بھی وہ خود تھے جبکہ بطور ہیرو ان کی ہیروئن بابرہ شریف تھی۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ میڈیا میں آیا تھا کہ رنگیلا نے اپنی ایک گلاب نامی پنجابی فلم کے لیے ندیم کو بھاری معاوضہ پر کام کرنے کی دعوت دی تھی جو انھوں نے ٹھکرا دی تھی لیکن جب اردو فلموں پر زوال آیا تو ندیم صاحب نہ صرف ایک پنجابی فلم بنانے پر مجبور ہوگئے بلکہ پنجابی فلموں میں اداکاری بھی کرنا پڑی۔
ندیم کا پنجابی تلفظ بڑا کمزور ہوتا تھا اور وہ کسی طور بھی پنجابی فلموں کے آئیڈیل اداکار نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی خالص پنجابی فلمیں صرف چھ تھیں ، باقی سب ڈبل ورژن پنجابی/اردو فلمیں ہوتی تھیں۔
ندیم اور نورجہاں
فلم مکھڑا (1988) میں ندیم نے پہلی اور آخری بار دو پنجابی گیت گائے تھے جن میں ایک گیت تھا
- منڈیا ، دوپٹہ چھڈ میرا ، نئیں شرماں دا گھنڈ لائی دا۔۔
ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ گائے ہوئے اس دوگانے کے بارے میں وہ بڑی حیران کن بات بتاتے ہیں کہ اس دوگانے کو الگ الگ ریکارڈ کیا گیا تھا کیونکہ ندیم صاحب گاتے ہوئے میڈم کا سامنا نہیں کر سکتے تھے۔ البتہ اسی فلم کے دوسرے کورس گیت
میں گیت کا بیشتر حصہ میڈم گاتی ہیں ، آخری انترہ ندیم صاحب گاتے ہیں اور صرف آخری بول مسعودرانا کی آواز میں ہوتا ہے۔ ندیم کا مسعودرانا کے ساتھ گایا ہوا یہ اکلوتا گیت تھا۔
اس سال کی ایک اردو فلم بازارحسن (1988) ، مولاجٹ (1979) کے فلمساز محمدسروربھٹی کی آخری فلم تھی۔ ندیم صاحب کی بھی بطور سولو ہیرو یہ آخری گولڈن جوبلی فلم ثابت ہوئی تھی۔ اس سے اگلے سال یعنی 1989ء میں ندیم کی تینوں فلمیں کسی بڑی کامیابی سے محروم رہی تھیں۔
اس سال ان کی دوسری پنجابی فلم تیس مارخاں (1989) ریلیز ہوئی تھی جس میں نادرہ ہیروئن تھی۔ یہ ناکام فلم بطور اداکارہ شمیم آرا کی دوسری اور آخری پنجابی فلم تھی۔
نگار ایوارڈز کی بندر بانٹ
1990ء میں ندیم کی فلموں کی تعداد 7 ہوگئی تھی۔ انسانیت کے دشمن (1990) واحد گولڈن جوبلی فلم تھی۔ فلم بلندی (1990) میں پہلی بار نئی جوڑی ریما اور شان متعارف ہوئے تھے۔
ندیم نے اپنی تیسری اور آخری خالص پنجابی فلم گوری دیاں جھانجھراں (1990) میں ہیرو کے طور پر کام کیا تھا۔ دلچسپ بات ہے کہ اس ناکام ترین فلم میں بھی انھیں بہترین پنجابی فلم ہیرو کا نگار ایوارڈ دیا گیا تھا۔ اس سے قبل پنجابی فلم مکھڑا (1988) میں بھی بہترین پنجابی فلمی ہیرو کا نگار ایوارڈ دیا جا چکا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح پنجابی فلموں کے سپرسٹارز ، اکمل ، یوسف خان ، سلطان راہی اور اقبال حسن ، اردو فلموں کے ناکام اداکار تھے ، اسی طرح اردو فلموں کے سپرسٹارز ، محمدعلی ، وحیدمراد اور ندیم بھی پنجابی فلموں کے ناکام اداکار تھے۔
ندیم صاحب جیسے پنجابی فلموں کے ایک ناکام اداکار کو تین میں سے دو فلموں میں بہترین پنجابی اداکار کا ایوارڈ دینا ایک بہت بڑا مذاق اور بددیانتی کی انتہا تھی۔ اس طرح کی بندربانٹ 'نگار ایوارڈ' کی اصلیت بیان کرنے کے لیے کافی تھی جسے یار لوگ طنزیہ 'ندیم ایوارڈ' بھی کہتے تھے کیونکہ ندیم صاحب کو تھوک کے حساب سے نگار ایوارڈ تھمائے گئے تھے۔
نگار ایوارڈز والوں کی عجیب منطق تھی کہ بعض فنکاروں کو دس ایوارڈ دینے کے بعد ایوارڈ سے بالا تر قرار دے دیا گیا تھا جیسے کہ مہدی حسن ، لیکن ندیم صاحب کے لیے الگ پالیسی تھی۔
ویسے نگار ایوارڈ دینے والوں نے بڑی زیادتی کی تھی۔ ان کا کیا جاتا اگر وہ ندیم صاحب کو ان کی تیسری پنجابی فلم پر بھی ایوارڈ تھما دیتے تو کم از کم سو فیصدی فلموں میں ایوارڈ لینے کا وولڈ ریکارڈ تو بن جاتا۔۔!
ندیم کے زوال کا دور
1991ء میں پہلی بار ریلیز ہونے والی ندیم صاحب کی چاروں فلمیں ناکام رہیں۔ اب ان کا ہیرو شپ کا دور گزرچکا تھا۔ ایکشن پنجابی فلموں کو اردو میں ڈب کر کے کراچی میں پیش کیا جاتا تھا جن میں ندیم صاحب کو صرف اس لیے شامل کیا جاتا تھا تا کہ وہ فلم کراچی میں بھی چل سکے۔ لیکن اردو فلم بین ، سلطان راہی کو پسند نہیں کرتے تھے جو عام طور پر ایسی فلموں کا مرکزی کردار ہوتے تھے۔ فلمسازوں کا المیہ یہ ہوتا تھا کہ پاکستان کے سب سے بڑے پنجاب سرکٹ میں سلطان راہی کے بغیر فلم چل بھی نہیں سکتی تھی۔
1992ء میں بھی ایسی ہی صورتحال تھی جب ندیم کی آٹھوں فلموں میں سے کوئی ایک بھی فلم کسی قابل ذکر کامیابی سے محروم رہی تھی۔ عبداللہ دی گریٹ اور چاہت (1992) ہی کراچی میں دو سلورجوبلی کرنے والی فلمیں تھیں۔ فلم خونی شعلے (1992) میں مسعودرانا کا ایک بھاری بھر کم گیت
- سہریاں دے نال سوہنا مکھڑا سجا کے ، ووہٹی دے ہتھاں اتے مہندیاں رچا کے۔۔
ندیم پر فلمایا گیا تھا جس کی دھن ایم اشرف نے بنائی تھی۔
1993ء میں بھی 7 فلموں میں سے صرف دو خداگواہ اور انسانیت (1993) ہی سلورجوبلی کر سکی تھیں ، باقی سبھی فلمیں ناکام تھیں۔ اس سال کی فلم عروسہ (1993) میں مسعودرانا کی دل کو چھو لینے والی ایک لوری
- دل میں ہے تو ، آنکھوں میں تو ، تیرے بنا کون میرا۔۔
ندیم صاحب پر فلمائی گئی تھی۔ یہ اردو اور پنجابی میں الگ الگ گائی گئی تھی اور اس کی دھن بھی ایم اشرف نے بنائی تھی۔
ندیم کے لیے مسعودرانا کا آخری گیت
1994ء کی 4 فلموں میں سے بھی صرف دو فلمیں خاندان اور انٹرنیشنل لٹیرے (1994) ہی سلورجوبلی کر سکی تھیں۔ یہ آخری فلم بدنام زمانہ گستاخ رسول ، ملعون سلمان رشدی کے خلاف بنائی گئی تھی جس کے متعدد مناظر بین الاقوامی میڈیا میں دکھائے گئے تھے۔ اس فلم میں ندیم اور ساتھیوں پر ایک دھمال فلمائی گئی تھی
- جب بھی علیؑ کا نام لیا ، سر سے ہر بلا ٹلی ، علیؑ ، علیؑ ، علیؑ۔۔
وجاہت عطرے کی دھن میں اس دھمال کو مسعودرانا کے علاوہ سائرہ نسیم ، شجاعت بوبی اور عارف پیرزادہ نے گایا تھا۔ یہ مسعودرانا کا آخری گیت تھا جو ندیم صاحب پر فلمایا گیا تھا۔
1995ء میں ندیم کی فلموں کی تعداد 9 تک جا پہنچی تھی۔ ان میں فلم جیوا (1995) ، کراچی میں صرف سلورجوبلی ہی کر سکی تھی لیکن لاہور میں پلاٹینم جوبلی کرگئی تھی۔ جوڈرگیا ، وہ مرگیا (1995) ایک گولڈن جوبلی فلم تھی۔
فلم میڈم رانی (1995) بھی ایک گولڈن جوبلی فلم تھی۔ اس فلم کا پہلا نام 'جنرل رانی' تھا جو سنسر کی وجہ سے بدلنا پڑا تھا۔ 'جنرل رانی' اصل میں ایک جیتا جاگتا بدنام زمانہ کردار تھا جو پاکستان کے ایک سابق صدر اور آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے مشہور زمانہ حرم کی سب سے مشہور داشتہ کا عوامی نام تھا۔
1996ء میں ندیم کی صرف دو فلمیں سامنے آئیں جن میں وہ روایتی ہیرو کی بجائے معاون اداکار تھے۔ فلم ہوائیں (1996) ایک گولڈن جوبلی فلم تھی۔
1997ء میں ندیم کی 11 فلموں کا ریکارڈ ملتا ہے جن میں سے کوئی ایک بھی فلم گولڈن جوبلی نہیں تھی ، ناکامیوں کا تناسب بہت بڑھ گیا تھا۔ صرف دو سلورجوبلی فلموں کے علاوہ باقی نو فلمیں ناکام رہی تھیں۔
1998ء کی 6 فلموں میں ندیم صاحب معاون اداکار کے طور پر نظر آئے۔ سینما انڈسٹری پر زوال آچکا تھا اور فلمیں کسی بڑی کامیابی سے محروم رہتی تھیں۔
1999ء میں ندیم صاحب صرف دو فلموں میں نظر آئے تھے جن میں ایک گولڈن جوبلی فلم انتہا (1999) بھی تھی جس میں ہمایوں سعید پہلی بار بطور ہیرو نظر آئے تھے۔
2000ء میں بھی ندیم کی دونوں فلمیں ناکام رہیں۔ 2001ء میں اکلوتی فلم دل دیوانہ ہے (2001) اس لحاظ سے یادگار تھی کہ 1967ء کی فلم چکوری سے 2001ء کی فلم دل دیوانہ ہے تک ، ندیم صاحب کی 35 برسوں میں مسلسل 206 فلمیں ریلیز ہوئیں لیکن اگلے سال یعنی 2002ء میں پہلی بار ان کی کوئی فلم سلور سکرین کی زینت نہ بن سکی تھی۔ ندیم صاحب کا فلمی کیرئر صرف معاون اداکار کے طور پر باقی رہ گیا تھا۔ 2003ء کے بعد وہ دو درجن فلموں میں معاون اداکار کے طور پر نظر آئے۔ اب تک کی آخری فلم سپرسٹار (2019) تھی۔
ندیم کے فلمی اعدادوشمار
دستیاب ریکارڈز کے مطابق ندیم کی 225 فلموں میں سے 189 اردو ، 6 پنجابی اور 30 ڈبل ورژن تھیں۔ باکس آفس پر وہ اردو فلموں کے سب سے کامیاب فلمی ہیرو تھے۔ کراچی میں ان کی 10 ڈائمنڈ جوبلی ، 7 پلاٹینم جوبلی ، 34 گولڈن جوبلی اور 88 سلورجوبلی فلمیں تھیں۔
اتنی بھرپور کامیابی کے باوجود ندیم صاحب کو کبھی بھی محمدعلی اور وحیدمراد جیسے ہیوی ویٹ ہیروز پر برتری حاصل نہیں ہوتی تھی اور ان کے مقابلے میں وہ ایک لائٹ ویٹ فلمی ہیرو ہوتے تھے جنھیں کراچی کے فلم بینوں میں 'عوامی اداکار' کا درجہ حاصل تھا۔
ندیم کی شبنم کے ساتھ 50 فلمیں تھیں اور یہ ایک کامیاب ترین فلمی جوڑی تھی۔ ندیم نے دودرجن کے قریب فلمی گیت گائے تھے جبکہ دو فلموں کے فلمساز بھی تھے۔
ندیم اور ندیم بیگ
ندیم کا اصل نام 'مرزا نذیر بیگ مغل' ہے۔ وہ 19 جولائی 1941ء کو مدراس میں پیدا ہوئے تھے۔ فلم کے علاوہ ٹیلیویژن کے بہت سے ڈراموں اور ٹاک شوز میں بھی دیکھے گئے۔ ندیم صاحب کو فلموں میں کبھی بھی 'ندیم بیگ' کے نام سے یاد نہیں کیا گیا لیکن ہمارے اناڑی میڈیا میں اس عظیم فنکار کو ایک دوسرے فنکار سے گڈمڈ کیا جارہا ہے۔ ندیم بیگ نام کے دور حاضر کے ایک کامیاب ہدایتکار ہیں جن کے کریڈٹ پر پنجاب نہیں جاؤں گی (2017) جیسی سپرہٹ فلم شامل ہے اور ان صاحب یعنی ندیم بیگ کا ہمارے ندیم صاحب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ندیم کی مسعودرانا کے ساتھ دیرینہ دوستی تھی۔ وہ کراچی سٹیج پر اکٹھے پرفارم کیا کرتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ 1969ء میں ڈھاکہ میں ندیم کی شادی میں شرکت کرنے والے مسعودرانا ، مغربی پاکستان کے واحد مہمان تھے۔ مسعودرانا کے انتقال کے بعد مجھے ان کے گھر تعزیت کے لیے جانے کا موقع ملا تو مرحوم کی بیگم ، ندیم صاحب کے تعاون کی مشکور تھیں کیونکہ انھوں نے رانا صاحب کی بیٹی کو ملازمت حاصل کرنے کے لیے بڑی مدد کی تھی۔
(41 اردو گیت ... 5 پنجابی گیت )