اداکار قوی کا شمار پاکستان کے ان عظیم فنکاروں میں ہوتا ہے جو ریڈیو ، سٹیج ، ٹیلی ویژن اور فلم میں اپنے فن کا لوہا منوا چکے ہیں۔۔!
ریڈیو پاکستان پشاور سے چائلڈ سٹار کے طور پر فنی کیرئر کا آغاز کرنے والے محمدقوی خان نے لاہور سٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور بہت سے ڈراموں میں کام کیا۔ 1964ء میں پاکستان میں ٹیلی ویژن کی آمد ہوئی تو پی ٹی وی کے پہلے ڈرامے 'نذرانہ' میں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 80 کی دھائی میں پی ٹی وی کی مشہور زمانہ ڈرامہ سیریل 'اندھیرا اجالا' سے لازوال شہرت ملی اور بےشمار ٹی ڈراموں میں مختلف النوع کرداروں میں اپنی فنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھا دی تھی۔
قوی کا فلمی کیرئر
ہدایتکار دلجیت مرزا کی فلم رواج (1965) ، قوی صاحب کی پہلی فلم تھی۔ نصف صدی کے فلمی کیرئر میں دو سو کے قریب فلموں میں کام کرنے کے باوجود وہ جائز مقام کبھی نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے۔ زیادہ تر معاون کرداروں میں نظر آئے ، مثبت اور منفی کرداروں میں اولڈ ، ولن اور کامیڈین بھی رہے۔ کبھی سولو ہیرو نہیں آئے لیکن چند فلموں میں سیکنڈ ہیرو کے طور پر موقع ملاجن میں فلم مسٹربدھو (1973) میں دیبا ، فلم اجنبی (1975) میں بابرہ شریف اور فلم چوری چوری (1978) میں زیبا کے ساتھ ان کی جوڑیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
قوی بطور فلمساز
قوی نے بطور فلمساز ، درجن بھر فلمیں بنائی تھیں جن میں سے پہلی فلم ان کی مادری زبان پشتو میں مہ جبینے (1972) تھی جس میں وہ آصف خان کے مقابل سیکنڈہیرو تھے۔ مسٹربدھو ، بے ایمان (1973) ، منجی کتھے ڈاہواں ، نیلام (1974) ، روشنی (1975) ، جوانی دیوانی (1977) ، چوری چوری (1979) ، پاسبان (1982) ، گرفتاری (1986) اور ماں بنی دلہن (1988) بطور فلمساز دیگر فلمیں تھیں۔ ان میں کوئی ایک بھی فلم کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ فلم روشنی (1975) کے ہدایتکار بھی تھے ، یہ فلم کراچی میں اوسط اور باقی ملک میں ناکام ہوگئی تھی۔
قوی پر فلمائے ہوئے گیت
قوی کی بنائی ہوئی فلموں اور ان پر فلمائے ہوئے متعدد گیتوں کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔ فلم چراغ کہاں روشنی کہاں (1971) میں قوی اپنی زندگی کی بازی ہار کر کسی کے لیے قربانی دیتے ہیں اور ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے دوران پس منظر سے مسعودرانا کی آواز گونجتی ہے:
- چراغوں کی بجائے ہم نے داغ دل جلائے ہیں
ہمارے خون کے چھینٹوں سے ہوگی روشنی برسوں
لگا کے جان کی بازی بچا لی آبرو اس کی
ہماری قبر پہ رویا کرے گی دنیا برسوں
مسعودرانا ، ہماری فلمی تاریخ کے واحد گلوکار رہے ہیں کہ جن کی آواز بے شمار فلموں میں طرح طرح کے فلمی کرداروں اور فلمی مناظر کے لیے بہت بڑی معاون ہوتی تھی۔ وہ اداکاروں سے زیادہ فلم کی ضرورت ہوتے تھے۔ فلم پازیب (1973) میں اخلاق احمد کا گایا ہوا پہلا فلمی گیت "او ماما میرے ، او چاچا میرے۔۔" بھی قوی پر فلمایا گیا تھا جو اس فلم میں ایک کامیڈی رول کررہے تھے۔
قوی کی بطور فلمساز پہلی اردو فلم مسٹربدھو (1973) میں مالا کا یہ گیت اپنے وقت کا سپرہٹ گیت تھا
- ڈھولک بجا کے ، سہیلیاں بلا کے ، بنڑے کے گیت میں گاؤں گی ، اپنے بھیا کو دولہا بناؤں گی ، او بھیا ، پیارے پیار ےبھیا ، بھولے بھالے بھیا۔۔
اس فلم کے ہیرو رنگیلا تھے اور دیبا کی جوڑی قوی کے ساتھ تھی۔ دوسری فلم بے ایمان (1973) کے فلمساز بھی قوی صاحب تھے۔ رنگیلا اور آسیہ مرکزی کرداروں میں تھے۔ اس فلم کا ایک کورس گیت
- اللہ کے نام پہ جھولی بھردے ، اللہ ہی دے گا۔۔
احمدرشدی ، مسعودرانا اور روشن کی آوازوں میں تھا جو رنگیلا ، نرالا اور قوی پر فلمایا گیا تھا۔ 1996ء میں جب مسعودرانا کی تعزیت کے لیے ان کے گھر گیا تو مرحوم کی ایک ڈائری کے ایک صفحہ پر اس گیت کو بڑی تر تیب سے لکھا ہو ادیکھا تھا کہ کون سے بول کون سا گلوکار گائے گا۔
گیریژن سینما کھاریاں کی یاد میں
فلم بے ایمان (1973) ، واحد اردو فلم تھی جو میں نے اپنے پہلے چار سالہ فلمی دور میں کھاریاں کینٹ کے گیریژن سینما میں عید کے دن دیکھی تھی۔
یہ فوجی سینما دو عمارتوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ ایک عمارت ، ٹین کی چادروں میں لپٹی ہوئی ہوتی تھی جو موسم سرما میں استعمال ہوتی تھی جبکہ دوسری عمارت ایک اوپن ایئر تھیٹر تھی جو موسم گرما میں استعمال ہوتی تھی۔
فوجی بھائیوں کے لیے فلم مفت ہوتی تھی لیکن ہم سویلین کو ٹکٹ خریدنا پڑتا تھا جو دیگر دونوں سینماؤں کی نسبت سستا ہوتا تھا لیکن یہاں صرف پرانی فلمیں ریلیز ہوتی تھیں یا اردو فلمیں جو دیگر سینماؤں میں نہیں چل پاتی تھیں۔
کھاریاں کینٹ کی تاریخ
کھاریاں کینٹ ایک انتہائی جدید فوجی چھاؤنی تھی جہاں آدمی بھول جاتا تھا کہ یہ پاکستان جیسے پسماندہ اور ترقی پذیر ملک کا کوئی علاقہ ہے۔ کھلی اور کشادہ سڑکیں ، سرسبز و شاداب درختوں کی قطار در قطاریں ، بڑے بڑے خوبصورت پارک ، صاف ستھری مغربی طرز کی عمارتیں ، جدید شاپنگ سینٹر ، عالمی میعار کے سی ایم ایچ ہسپتال وغیرہ کے علاوہ کھاریاں کے تینوں سینماگھر ، قیصر ، سازین اور گیریژن بھی کینٹ کی حدود ہی میں واقع تھے جن میں بعد میں ایک اور ' 17 ڈویژن سینما' کا اضافہ بھی ہوا تھا۔ 2002ء میں آخری بار اس چھاؤنی کو بڑی خستہ حالت میں دیکھا تھا۔
1954ء میں امریکہ کے ساتھ فوجی اور اقتصادی امداد کے معاہدے کے تحت اس چھاؤنی کی تعمیر شروع ہوئی تھی جس میں ہمارے بزرگوں کا خون پسینہ بھی شامل تھا۔ پانی کی ایک بڑی ٹینکی کا نقشہ میرے دادا جان مرحوم و مغفور کا بنایا ہوا تھا۔ ان کی قابلیت کی بنا پر انھیں برطانیہ کے مستقل ویزے کی پیش کش ہوئی تھی جو انھوں نے ٹھکرا دی تھی لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ ان کی تیسری نسل کے بیشتر افرادآج ، بیرون ملک مقیم ہیں۔
بچپن میں چھاؤنی کے ایک پارک میں دس سگریٹوں کی ایک ڈبیا پھونکنے والا واقعہ بھی نہیں بھولتا۔ ایک نئے برانڈ ' شاہین سگریٹ' کی ایک ڈبیا کی قیمت دس پیسے تھے اور مشہوری کرنے والی ویگن سے اپنے بڑے کزنوں کی ترغیب پر مقابلے میں خریدی تھی جسے چھاؤنی کے ایک پارک میں بیٹھ کر دھوئیں میں اڑایا تھا۔ زندگی کی واحد فضول خرچی تھی جوکبھی سگریٹ خریدنے پر کی تھی۔
1970ء کے انتخابات کی یاد میں
کھاریاں چھاؤنی "مرالیوں کی زمین" پر بنی تھی ، یعنی کھاریاں کے قریب ایک گاؤں تھا ، مرالا ، جو ہمارے پہلے منتخب صدر فضل الہٰی چوہدری کا گاؤں تھا ، یہ ان کی زمینیں تھیں۔
1970ء کے انتخابات میں وہ ، ہمارے حلقہ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ ان کی انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک بڑا سا سفید کپڑے کا بینر ہماری دکان کے قریب سڑک پرلٹکا ہوا تھا جو پینٹر رشید نے میرے سامنے قیصر سینما کے عقبی کمرے میں لکھا تھا۔ جس طرح انھوں نے بینر پر پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان 'تلوار' بنایا تھا ، وہ ہمیشہ کے لیے ذہن پر نقش ہوگیا تھا۔
میری دادی جان مرحومہ ، ان انتخابات کے دوران اپنا ایک واقعہ بڑے مزے لے لے کر سنایا کرتی تھیں کہ جب وؤٹ ڈالنے گئیں تو کھاریاں کے نمبردار چوہدری غلام رسول نے انھیں ترغیب دی کہ
"ماسی ، بتی تے مہر لانی اے۔۔"
یہ کونسل مسلم لیگ کا انتخابی نشان تھا لیکن میری دادی نے برجستہ جواب دیا
"نہ پتر نہ ، میں تے اپنے بھٹو دی تلوار تے ای مہر لاواں گی۔۔!"
اس بے چاری نے کبھی بھٹو کو دیکھا بھی نہ تھا لیکن اس وقت بھٹو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
میں اسوقت تیسری جماعت کا طالب علم تھا اور اپنے بزرگوں کو نیوز ریڈرز کے انداز میں روزانہ کے اخبار سے خبریں پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔ اخبار بینی ، ریڈیو سننا ، ٹی وی اور فلمیں دیکھنا بڑے مشاغل ہوتے تھے۔ اس دورکے سیاسی ، سماجی اور فلمی واقعات ، اخبارات کی شہ سرخیاں اور لے آؤٹ ، سیاسی بحث و مباحثے اور فلمی گیت وغیرہ آج بھی ذہن پر نقش ہیں۔
حسن دا غرور ، میری توبہ
قوی کی بطور فلمساز پہلی پنجابی فلم منجی کتھے ڈاہواں (1974) تھی جس میں ان پر مسعودرانا کا اکلوتا سولو گیت فلمایا گیا تھا
- حُسن دا غرور میری توبہ ، آیا سرور میری توبہ۔۔
اس فلم میں بھی رنگیلا ہی ہیرو تھے جن کی جوڑی سنگیتا کے ساتھ تھی جبکہ منورظریف نے ٹائٹل رول کیا تھا اور ان پر احمدرشدی کا گایا ہوا واحد سپر ہٹ پنجابی گیت
- میں کہیڑے پاسے جاواں ، میں منجی کتھے ڈاہواں۔۔
فلمایا گیا تھا۔
ایسا ہی ایک گیت وہ فلم جی دار (1965) میں گا چکے تھے
- حال اوئے ، میں منجی کتھے ڈاہواں۔۔
رشید عطرے کی موسیقی میں یہ گیت اے شاہ پر فلمایا گیا تھا۔
اسی سال قوی کی بطور فلمساز فلم نیلام (1974) میں مسعودرانا کا ایک اور شاہکار گیت زندگی کے حقائق بیان کرتا ہے
- وقت کا پہیہ چلتا جائے ، روکے سے رکنے نہ پائے ، رک جائے یہ سارا عالم ، وقت اگر رک جائے۔۔
فلم روشنی (1975) بطور ہدایتکار ، قوی کی اکلوتی فلم تھی۔ اس فلم میں مہناز کے دو سپرہٹ گیت تھے
- کچھ بولو نہ ، بولو نہ بولو نہ۔۔
- چھاپ تلک سب چھین لی رے موسے نیناں ملائی کے۔۔
فلم پہچان (1975) میں مہدی حسن کا گیت
- تیرا پیار میرے جیون کے سنگ رہے گا۔۔
بھی قوی پر فلمایا گیا تھا۔ فلم بیگم جان (1977) میں غلام عباس کا ایک رنجیدہ گیت
- اے دوست ، تیری آنکھ اگر نم ہے تو مجھے کیا۔۔
بھی قوی پر فلمایا گیا تھا۔ اس گیت کو میڈم نورجہاں کی آواز میں گوا کر فلم وطن (1981) میں بھی شامل کیا گیا تھا۔
فلم جوانی دیوانی (1977) میں احمدرشدی کا یہ شوخ گیت بھی بڑا دلچسپ تھا
- اپنی شادی کا یہ سہرا ، آج خود ہم گائیں گے۔۔
فلم چوری چوری (1979) میں احمدرشدی اور ناہیداختر کا یہ شوخ گیت
- رفتہ رفتہ کس قدر رشتے پرانے ہوگئے۔۔
زیبا اور قوی پر فلمایا گیا ایک پیروڈی گیت تھا۔ آخری بار قوی پر مسعودرانا کی آواز فلم محبت مرنہیں سکتی (1977) میں فلمائی گئی تھی اور گیت تھا
- اے کاش کہ آجائے نظر یار کی صورت۔۔
مسعودرانا کا احمدرشدی کے ساتھ گائے ہوئے تین درجن دوگانوں میں سے یہ آخری دوگانا تھا اور اس گیت میں ساتھی اداکار ندیم تھے۔
1985ء کے غیر جماعتی انتخابات
قوی نے پاکستان ٹیلی ویژ ن کے کلاسک ڈرامے ' اندھیر اجالا' میں اپنے لازوال کردار کی مقبولیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن اداکار کمال اور گلوکار عنایت حسین بھٹی کی طرح کامیاب نہیں ہوئے تھے۔
وہ انتخابات ، پاکستان پر قابض تاریخ کے بدترین آمر جنرل ضیاع مردود نے بظاہر ایک مردہ بھٹو کے خوف سے غیرجماعتی بنیادوں پر کرائے تھے تاکہ اس وقت کی واحد ملک گیر جماعت ، پیپلز پارٹی کو جیتنے سے روکا جاسکے۔
وہ مردود اپنے سیاہ کرتوتوں سمیت مرکھپ گیا ہے اور تاریخ کے کوڑے دان میں گل سڑھ چکا ہے لیکن بھٹو ، اپنے عظیم کارناموں کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور اپنے مخالفین کے سینوں پر مونگ دلتا رہےگا ، ان شاء اللہ۔۔!
محمدقوی خان کی پیدائش 1942ء میں پشاور میں ہوئی اور 5 مارچ 2023ء کو کینیڈا میں انتقال کر گئے۔
3 اردو گیت ... 1 پنجابی گیت