Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


کریم شہاب الدین

تیری یاد آگئی ، غم خوشی میں ڈھل گئے ، اک چراغ کیا جلا ، سو چراغ جل گئے۔۔!

مسعودرانا کے اس لافانی گیت کی دھن ، موسیقار کریم شہاب الدین نے بنائی تھی جن کے کریڈٹ پر زیادہ فلمیں نہیں لیکن اس گیت نے انھیں ایک ناقابل فراموش موسیقار بنا دیا تھا۔

کریم شہاب الدین ، بھارتی شہر ممبئی (یا بمبئی) میں ایک کاروباری خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن ہی سے موسیقی کا شوق تھا۔ اسی شوق میں ایک گٹار خریدا اور اتنے ماہر ہوئے کہ بڑے بڑے موسیقاروں کی مشکل دھنوں کو بڑی آسانی سے بجا لیتے تھے۔ کچھ عرصہ تک بمبئی کی موسیقی کی محفلوں میں ایک گٹارسٹ کے طور پر اپنے فن کا مظاہرو کرتے رہے۔ ساٹھ کے عشرہ کے شروع میں ان کا خاندان ہجرت کر کے ڈھاکہ چلا گیا تھا۔

کریم شہاب الدین کی پہلی فلم

سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں قیام کے دوران ان کا رابطہ فلمی حلقوں سے ہوا۔ اس دور میں وہاں بنگالی فلموں کو اردو میں ڈب کرنے کا کام شروع ہوچکا تھا۔ کریم شہاب الدین کو بھی چند بنگالی فلموں میں پس پردہ موسیقی دینے کا موقع ملا۔ پہلی فلم یہ بھی ایک کہانی (1964) کی موسیقی دی۔ فلم کی طرح کوئی گیت بھی مقبول نہ ہوسکا تھا۔

کریم شہاب الدین کی شاہکار فلم چانداور چاندنی (1968)

پہلی فلم کی ناکامی کے بعد کریم شہاب الدین کو اگلی فلم کے لیے کئی سال تک انتظار کرنا پڑا۔ ان کی دوسری فلم ہدایتکار احتشام کی چاند اور چاندنی (1968) ایک بہت بڑی میوزیکل فلم ثابت ہوئی تھی جس نے موسیقی کے حلقوں کو چونکا دیا تھا۔ بلاشبہ ، یہی فلم ان کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی فلم تھی جس کے تقریباً سبھی گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔ شبانہ اور ندیم کی جوڑی کی مسلسل تیسری فلم تھی جو مشرقی پاکستان میں بنائی گئی تھی لیکن پہلی دو فلموں جیسا بزنس نہ کر سکی تھی۔

موسیقار کریم شہاب الدین نے سروربارہ بنکوی کے لکھے ہوئے نغمات کو مالا اور احمدرشدی کے علاوہ مسعودرانا سے بھی گوایا تھا جن کے ساتھ ان کی یہ اکلوتی فلم تھی۔ اس فلم میں کل سات گیت تھے اور دلچسپ بات یہ تھی کہ موسیقار نے تینوں گلوکاروں سے تین تین گیت گوائے تھے۔ فلم کا سب سے مقبول گیت

  • تیری یاد آگئی ، غم خوشی میں ڈھل گئے۔۔

تھا جو اس فلم کی پہچان بنا۔ مسعودرانا کے سپرہٹ اردو کلاسک گیتوں میں اس گیت کا شمار ہوتا ہے۔

فلم چاند اور چاندنی (1968) کے ایک گیت

  • لائی گھٹا موتیوں کا خزانہ ، آیا بہاروں کا موسم سہانا۔۔

کے علاوہ مالا کے دیگر دونوں گیت مسعودرانا کے ساتھ دوگانے تھے

  • یہ سماں ، موج کا کارواں ، آج اے ہمسفر ، لے چلا ہے کہاں۔۔

مالا کی آواز میں تھا اور مسعودرانا کا اس گیت میں صرف الاپ تھا اور کیا کمال کا الاپ تھا۔ دوسرا دوگانا

  • تجھے پیار کی قسم ہے ، میرا پیار بن کے آجا ، میری بے قراریوں کا ، تو قرار بن کے آجا۔۔

ایک انتہائی سریلا رومانٹک گیت تھا۔ پاکستانی فلموں میں بہت کم دوگانے اس میعار کے ملتے ہیں۔

یہ ایک طرح سے فلم کا تھیم سانگ بھی تھا کیونکہ فلم کی کہانی کا تانابانا اسی گیت کے گرد گھومتا تھا۔ موسیقار کریم شہاب الدین نے چند ایک بار ہیرو کے گٹار پر اور چند ایک بار پس منظر میں اس گیت کی دھن کو دھرایا تھا۔

فلم چاند اور چاندنی (1968) کے تین سولو گیت احمدرشدی کی آواز میں تھے۔ ان میں سے ایک گیت

  • لو چلی محبت میل ، مچی ہل چل ، کس کا مکھڑا دیکھ کے منوا آج ہوا پاگل ، ارے چل میری گاڑی چل۔۔

اس گیت کو رشدی صاحب نے اپنے مخصوص ہلا گلا سٹائل میں گایا تھا۔ ان کا دوسرا گیت

  • اے جہاں ، اب ہے منزل کہاں ، چھٹ گیا ہمسفر ، ہائے ، کھو گیا کارواں۔۔

فلم کے ایک دوگانے "یہ سماں ، موج کا کارواں۔۔" کی دھن میں ایک سنجیدہ ورژن تھا۔ اس فلم میں احمدرشدی کا مقبول ترین اور ایک اعلیٰ پائے کا گیت

  • جان تمنا ، خط ہے تمہارا ، پیار بھرا افسانہ ، دل لے لو نذرانہ۔۔

تھا۔ اس فلم کے سبھی گیت شبانہ اور ندیم پر فلمائے گئے تھے جو اس فلم کی روایتی جوڑی تھی۔

کریم شہاب الدین کی دیگر فلمیں

اس سال کی دوسری فلم جنگلی پھول (1968) بھی ایک ناکام اور گمنام فلم تھی جس کا کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا۔

فلم گوری (1968) بھی ایک ناکام فلم تھی جس میں کریم شہاب الدین کی موسیقی میں تو کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا لیکن ان کے ساتھی موسیقار سبل داس نے بشیراحمد سے یہ خوبصورت گیت گوایا تھا

  • پھر ایک بار وہی نغمہ گنگنا دو۔۔

اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ ہیروئن نسیمہ خان کے ساتھ ڈھاکہ فلموں کے چار بڑے ہیروز ، رحمان ، خلیل ، انورحسین اور شوکت اکبر پہلی بار ایک ساتھ نظر آئے تھے۔

کریم شہاب الدین کی مشرقی پاکستان میں آخری فلم پائل (1970) تھی۔ بنگلہ دیش کی مقبول ترین فلمی جوڑی شبانہ اور رزاق کی یہ پہلی مشترکہ اردو پاکستانی فلم تھی۔ اس فلم میں مسعودرانا کا ایک گیت بھی تھا لیکن اس کی دھن موسیقار علی حسین نے بنائی تھی۔

کریم شہاب الدین کی پاکستان آمد

بنگلہ دیش کے قیام کے بعد کریم شہاب الدین ، پاکستان چلے آئے جہاں انھیں انتہائی ناموافق حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ فلمیں نہ ملنے کی وجہ سے انھوں نے کچھ پرائیویٹ البمز کیے ، پی آئی اے کی فلائٹوں کے لیے انسٹرومینٹل میوزک کمپوز کیا۔ بعد میں وہ کراچی اور لاہور ٹی وی سٹیشنوں سے موسیقی کے پروگرام بھی ترتیب دینے لگے۔

انھیں بطور موسیقار پہلی فلم انتقام کے شعلے (1976) ملی لیکن اس ایکشن فلم کا کوئی ایک بھی گیت مقبول نہ ہو سکا تھا۔ دوسری فلم شرمیلی (1978) کے متعدد گیت مقبول ہوئے تھے۔ یونس ہمدم کے لکھے ہوئے گیتوں میں سے مہناز کا گیت

  • میں نہ جاؤں گی سسرال ، میرا میاں کمائے نہ۔۔

اور اے نیر کا سنجیدہ گیت

  • جی رہے ہیں ہم تنہا اور تیرا غم تنہا۔۔

بڑے مقبول گیت تھے۔ اسی سال کی فلم بوبی اینڈ جولی (1978) میں ناہیداختر اور عالمگیر کا دوگانا

  • دیکھا نہ تھا ، یہ سماں ، تیرے پیار کا ، سوچا نہ تھا ، کھو گئے بانھوں میں ہم۔۔

بڑا پسند کیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کی ناکام ترین فلم تھی جس کا کراچی میں صرف ایک ہی شو ہوا تھا۔

کریم شہاب الدین نے حالات سے مایوس ہوکر بھارت ، بنگلہ دیش اور پاکستان کے بعد چوتھا وطن امریکہ کو منتخب کیا تھا اور وہیں انتقال ہوا تھا۔

"تیری یاد آ گئی" کی یاد میں

مسعودرانا اور ان کے ساتھی فنکاروں کے بارے میں اس عظیم الشان سلسلے میں جہاں نایاب فلمی معلومات کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، وہاں مجھے اپنی بھولی بسری یادوں کو سپردقلم کرنے کا موقع بھی مل رہا ہے۔

فلمی گیتوں سے گہری دلچسپی کی وجہ سے بہت سے واقعات کے ساتھ کوئی نہ کوئی فلمی گیت بھی منسلک ہے۔ کریم شہاب الدین کی کمپوزیشن میں مسعودرانا کا گایا ہوا لازوال گیت "تیری یاد آگئی ، غم خوشی میں ڈھل گئے۔۔" جب بھی سنتا ہوں ، اپنے بچپن کی پہلی معصوم محبت یاد آجاتی ہے جس کا آج ذکر ہوگا۔

پہلی محبت کی یاد میں

فرضی نام 'عاشی' سے محبت کی ابتداء کب ہوئی ، یاد نہیں ، لیکن اتنا یاد ہے کہ ایک مسجد میں ناظرہ قرآن کے دوران وہ میرے دل میں سما گئی تھی۔

اس سے عشق کی انتہا 1973ء میں ہوئی جو میری زندگی کا گیارہواں اور ایک انتہائی ہنگامہ خیز سال ثابت ہوا تھا۔ عمر میں وہ ، مجھ سے چند سال بڑی تھی جو اس کی جسمانی ساخت سے بھی نظر آتا تھا۔

ہماری فلمیں ، عشق و محبت کی درسگاہیں ہوتی تھیں ، اسی لیے وقت سے پہلے ہی حسن و عشق کی پہچان ہوگئی تھی اور دل دھڑکنے کا سبب بھی سمجھ میں آجاتا تھا حالانکہ اس وقت عمر ہی کیا تھی۔۔؟

1973ء ایک یادگار سال

1973ء میں میرے روزمرہ معمولات میں یہ نمایاں فرق آیا تھا کہ سکول سے سیدھا داداجان مرحوم و مغفور کی دکان پر جانا ختم ہوگیا تھا۔ وہ ، ایک حادثے میں اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھے تھے اور پھر تامرگ بستر پر ہی رہے۔

قبل ازیں روزانہ کا معمول ہوتا تھا کہ صبح سویرے مسجد میں ناظرہ قرآن کے بعد گھر ناشتہ کیا اور پھر سکول سے چھٹی کے بعد سیدھا دکان پر پہنچتا تھا جہاں سے شام کو گھر واپس آتے تھے۔

دکان کی بندش کے بعد صبح کے بعد دوپہر کو بھی مسجد جانا شروع کر دیا تھا حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔ ختم قرآن متعدد بار کر چکا تھا اور سکول کی طرح مسجد بھی پڑھنے کم اور پڑھانے زیادہ جاتا تھا۔

مسجد جانے کی بڑی وجہ عاشی تھی جس سے کہیں اور ملاقات نہیں ہوپاتی تھی۔ وہاں اور بھی لڑکیاں تھیں لیکن عاشی ان سب میں الگ تھلگ ہوتی تھی۔ اس کے بغیر ویرانی سی محسوس ہوتی تھی لیکن اس کی موجودگی بہار کے کسی جھونکے کی طرح محسوس ہوتی تھی۔

شروع میں وہ میری تیز نظروں سے بچنے کی پوری کوشش کرتی تھی اور دانستہ اسی صف میں بیٹھتی تھی ، جہاں میں بیٹھتا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ ، میری تیر نظر کا شکار ہوئی اور کن انکھیوں سے دیکھتے ہوئے مسکراہٹ کے تبادلے کے بعد آنکھوں کی زبانی بہت کچھ کہہ جاتی تھی۔

ایک خان سے محبت کا جو پیغام ملا

1973ء ہی میں ایک تبدیلی یہ آئی کہ پرائمری سکول کا دور ختم ہوگیا تھا اور ہائی سکول میں داخلہ ہوا۔ مانیٹری کا تسلسل جاری رہا اور ذمہ داریوں میں مزید اضافہ اس طرح سے دیکھنے میں آیا کہ اپنے کلاس فیلوز کو ماسٹر صاحب کی طرف سے ڈنڈے مارنے کی "سعادت" بھی حاصل ہوئی۔ ایسے ہی ایک دن جب ایک 'خان' نامی لڑکے تک پہنچا تو اس نے اپنے حصہ کے ڈنڈے کھانے سے پہلے میرے کان میں سرگوشی کی

"اگر مجھے آہستہ سے ڈنڈے مارو گے تو میں تمہیں ، تمہاری عاشی کا ایک پیغام دوں گا۔۔!"

عاشی کا نام سن کر چونک اٹھا کیونکہ میں نے کبھی کسی غیر کے سامنے اس کا ذکر نہیں کیا تھا ، صرف میرا ایک کزن جانتا تھا جو اصل میں میرا رقیب بھی تھا۔

اس دن ، خان کو ڈنڈے مارنے میں واقعی ڈنڈی ماری تھی۔۔!

وہ ، پرائمری سکول سے میرا کلاس فیلو تھا لیکن مجھے اس کی صرف دو باتیں یاد تھیں۔ ایک اس کا جہازی سائز پراٹھا اور دوسرا متعدد بچوں کے ساتھ اس کا ایک فوجی ٹرک پر سکول آنا اور جانا۔ جب ہم چلچلاتی دھوپ میں پیدل سکول سے گھر جاتے تھے تو فوجی ٹرک ہمارے پاس سے فراٹے بھرتا ہوا گزرجاتا تھا اور ہمیں احساس کمتری کا احساس شدت سے ہونے لگتا تھا۔

اس دن چھٹی کے بعد بڑی بے تابی سے خان سے عاشی کے بارے میں پوچھا بلکہ جرح کی۔ پتہ چلا کہ عاشی ، خان کی بہن کی گہری سہیلی ہے اور اس سے رازونیاز کی باتیں بھی کرتی ہے۔ اسے جب یہ علم ہوا کہ خان میرا کلاس فیلو ہے تو وہ اس کی بہن کو مجبور کرتی کہ میرے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرے۔ شروع میں خان کو خاصا تعجب ہوا اور غصہ بھی آیا جب اس کی بہن نے میرا نام لے کر تحقیق کی۔ بقول خان کے ، اس کی بہن نے اسے بتایا تھا کہ عاشی ، مجھ سے بے حد محبت کرتی ہے اور تنہائی میں ملنے کی خواہش رکھتی ہے۔

جب خیالوں کا گھروندہ ٹوٹا

یہ سب سن کر میں خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ جو بات روبرو کہنے سننے کی کبھی نوبت نہ آئی تھی وہ ایک غیر متوقع اور غیر جانبدار ذرائع سے معلوم ہو رہی تھی۔ مجھ سے صبر نہ ہوا اور اپنا حال دل اور سلام محبت ، عاشی تک پہنچانے کے لیے خان کے ساتھ ایک وقت اور جگہ مقرر کی ۔

گھر پہنچتے ہی ایک بھرپور 'محبت نامہ' لکھا۔ اسی جنون میں ایک ورق پر ایک 'عہد نامہ' بھی لکھا جس پر اپنا اور عاشی کا نام ، ہماری ولدیت اور یہ اقرار کہ میری شادی ہوگی تو صرف عاشی کے ساتھی ہی ہوگی۔ میرا یہ 'عہدنامہ' میرے ایک محلہ دار دوست نے سنبھال کر رکھا ہوا تھا ، 1996ء میں جب اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے دکھایا تھا۔

خان مقررہ وقت پر مقررہ جگہ پر میرا منتظر تھا۔ اسے ، عاشی کے نام اپنا لو لیٹر دیا جو اس نے رات کو اپنی بہن کی معرفت عاشی تک پہنچانا تھا۔ لیکن ہوا یوں کہ جب وہ اپنی گلی تک پہنچا تو سامنے سے عاشی اپنی بہنوں اور کزن کے ساتھ کہیں جارہی تھی۔ میں دور سے دیکھ رہا تھا۔ اس بے وقوف نے وہ خط اسی وقت عاشی کو دینے کی کوشش کی۔ اس کی کزن نے غصے سے خط چھین کر وہیں پرزے پرزے کر دیا اور یقیناً اسے اور مجھے بہت سی گالیوں سے نوازا بھی ہوگا۔۔!

پل بھر میں خوابوں اور خیالوں میں بنائے ہوئے ریت کے گھروندے مسمار ہوچکے تھے۔۔!

جب عشق نے بدنام کیا

شام تک میرے عشق کی مشک ہر طرف پھیل چکی تھی۔ گھر سے خوب جھاڑیں پڑیں۔ دوسرے دن مسجد گیا تو وہاں سے بھی ڈانٹ ڈپٹ ہوئی۔ پٹائی تو نہیں ہوئی لیکن رسوائی بہت ہوئی تھی۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ عاشی کا مسجد آنا بند ہوگیا تھا لیکن اس کے گھر والوں نے میرے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا تھا۔

میرے لیے عاشی کے بغیر سارا جہاں سونا سونا سا لگتا تھا۔ ایک کزن جو میرا رقیب بھی تھا ، وہ بھی سخت برہم تھا اور عاشی پر پابندی کے بعد اس نے بھی مسجد جانا چھوڑ دیا تھا۔ شاید ایسی ہی جھنجھلاہٹ میں اس نے میری چھوٹی بہن کو مارا تو میری غیرت جاگ اٹھی اور اشتعال میں آکر پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح انتقام لیتے ہوئے اس کی پٹائی کر دی۔ اوپر سے میرے تایا جان مرحوم و مغفور آگئے۔ انھوں نے جب اپنے بیٹے کی درگت بنتے دیکھی تو میری شدید دھلائی کردی۔

میں روتا اور ہانپتا ، کانپتا ہسپتال جا پہنچا جہاں میری حالت دیکھ کر داداجان مرحوم و مغفور کسی زخمی شیرکی طرح دھاڑے لیکن ٹوٹی ہوئی ٹانگ کی وجہ سے بے بس تھے۔ اسوقت جی ٹی روڈ پر واقع کھاریاں شہر کا سول ہسپتال اچھا خاصا آباد ہوتا تھا لیکن جنرل ضیاع مردود کے دور میں جہاں دیگر ادارے تباہ ہوئے وہاں اس ہسپتال کو بھی انتہائی خستہ حالت میں دیکھا تھا۔

عاشقی سے جلا وطنی تک

عاشی سے عشق میں ناکامی اور بدنامی اور تایا جان سے پٹائی وغیرہ چند وجوہات تھیں جو اسی سال دسمبر میں میری جلاوطنی کی وجہ بنیں۔

ڈنمارک میں تین سالہ قیام کے باوجود عاشی کے سحر سے آزاد نہ ہوسکا تھا۔ البتہ اس دوران اتنا سمجھدار ہوگیا تھا کہ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا کہ ذات پات اور برادری سسٹم کی گہری جڑوں والے معاشرے میں عاشی کا حصول ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔

وطن واپسی پر حالات بدل چکے تھے اور اس سے ملاقات کا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا۔ صرف اتنا ہوا کہ مقامی مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتے ہوئے عاشی کے باپ سے دوستی ہوگئی تھی۔

وہ مجھے بہت پسند کرنے لگے تھے اور عین ممکن تھا کہ اگر میرے والدصاحب مرحوم و مغفور پاکستان ہوتے اور رشتہ کی بات کرتے تو بات بن بھی جاتی۔ دو بار ان کے گھر جانے کا موقع ملا جن میں سے صرف ایک بار عاشی کا دیدار ہوا۔ وہ بھی مجھے اپنے گھر دیکھ کر خاصی خوش ہوئی تھی لیکن ہمیں تنہائی میں ملنے کا موقع کبھی نہ مل سکا۔

وقت گزرا تو کچھ عرصہ بعد عاشی کی شادی کی خبر ملی۔ اس وقت تک میں ذہنی طور پر تیار ہوچکا تھا کہ ایسا تو ہونا ہی تھا۔۔!

وہ میرا ہو نہ سکا تو برا کیوں مانوں؟

1982ء میں ڈنمارک واپسی ہوئی تو اس دوران میری بھی شادی ہوگئی تھی۔ عرصہ چودہ سال بعد پاکستان گیا تو اتفاق سے ایک دن بازار میں عاشی کی شکل نظر آئی۔ میں اپنی بیگم اور خوشدامن کے ساتھ تھا اور وہ اپنی اسی کزن کے ساتھ تھی جس نے میرا 'محبت نامہ' بڑی بے دردی کے ساتھ پھاڑ کر پھینک دیا تھا۔

میں نے اور عاشی نے ایک دوسرے کو بھرپور نظروں سے دیکھا۔ اس نے نظریں جھکا لی تھیں لیکن نجانے اپنی خاموشی میں کیا کیا طوفان چھپائے ہوئے تھی۔

اس کی کزن نے بڑے خوشگوار موڈ میں میرا حال احوال پوچھا ، میری بیوی کے بارے میں بھی جانا۔ جب میں نے جوابی سوال کیا تو اسے علم تھا کہ میرا سوال اصل میں کس کے لیے ہے۔ اس نے عاشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی شادی ہوگئی تھی لیکن اس کا خاوند دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگیا تھا۔

اس نے خاص طور پر یہ جتلایا کہ اس کا مرحوم خاوند ، میرا ہم نام تھا۔ پھر اس کی دوسری شادی بھی کردی گئی تھی لیکن وہ بڑی بیمار رہتی تھی۔ یہ کہتے ہوئے وہ اداس ہوگئی تھی۔

عاشی سے میری یہ آخری ملاقات تھی۔ وہ ، میرے بہت قریب ہو کر بھی بہت دور تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ کبھی دل کی دنیا میں وہ صرف میری تھی لیکن عملی زندگی میں وہ کسی اور کی بیوی اور میں کسی اور کا شوہر ہوں ، اور یہی تقدیر کے کھیل ہیں۔۔!

مسعودرانا صاحب کا گایا ہوا یہ گیت میری پہلی اور ادھوری محبت کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے:

    تیری یاد آگئی ، غم خوشی میں ڈھل گئے ، اک چراغ کیا جلا ، سو چراغ جل گئے
    آج بھی نگاہ میں پھر رہا ہے وہ سماں ، شرم سے رکے رکے مل گئے تھے تم جہاں
    ایسی بجلیاں گریں ، سارے خواب جل گئے ، غم خوشی میں ڈھل گئے۔۔
    رہگذر میں پیار کی ، تم تھے میرے ہم قدم ، تم تو ہو گئے جدا اور بھٹک رہے ہیں ہم
    دیکھتے ہی دیکھتے راستے بدل گئے ، غم خوشی میں ڈھل گئے۔۔
    تیری یاد آگئی۔۔!!!

مسعودرانا اور کریم شہاب الدین کے 2 فلموں میں 3 گیت

3 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت
1

یہ سماں ، موج کا کارواں ، آج اے ہمسفر ، لے چلا ہے کہاں..

فلم ... چاند اور چاندنی ... اردو ... (1968) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ... موسیقی: کریم شہاب الدین ... شاعر: سرور بارہ بنکوی ... اداکار: شبانہ ، ندیم
2

تیری یاد آ گئی ، غم خوشی میں ڈھل گئے ، اک چراغ کیا جلا ، سو چراغ جل گئے..

فلم ... چاند اور چاندنی ... اردو ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: کریم شہاب الدین ... شاعر: سرور بارہ بنکوی ... اداکار: ندیم
3

تجھے پیار کی قسم ہے ، میرا پیار بن کے آ جا ، میری بے قراریوں کا توقرار بن کے آ جا..

فلم ... چاند اور چاندنی ... اردو ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ، مالا ... موسیقی: کریم شہاب الدین ... شاعر: سرور بارہ بنکوی ... اداکار: ندیم ، شبانہ

مسعودرانا اور کریم شہاب الدین کے 3 اردو گیت

1

تیری یاد آ گئی ، غم خوشی میں ڈھل گئے ، اک چراغ کیا جلا ، سو چراغ جل گئے ...

(فلم ... چاند اور چاندنی ... 1968)
2

یہ سماں ، موج کا کارواں ، آج اے ہمسفر ، لے چلا ہے کہاں ...

(فلم ... چاند اور چاندنی ... 1968)
3

تجھے پیار کی قسم ہے ، میرا پیار بن کے آ جا ، میری بے قراریوں کا توقرار بن کے آ جا ...

(فلم ... چاند اور چاندنی ... 1968)

مسعودرانا اور کریم شہاب الدین کے 0 پنجابی گیت


مسعودرانا اور کریم شہاب الدین کے 1سولو گیت

1

تیری یاد آ گئی ، غم خوشی میں ڈھل گئے ، اک چراغ کیا جلا ، سو چراغ جل گئے ...

(فلم ... چاند اور چاندنی ... 1968)

مسعودرانا اور کریم شہاب الدین کے 2دو گانے

1

یہ سماں ، موج کا کارواں ، آج اے ہمسفر ، لے چلا ہے کہاں ...

(فلم ... چاند اور چاندنی ... 1968)
2

تجھے پیار کی قسم ہے ، میرا پیار بن کے آ جا ، میری بے قراریوں کا توقرار بن کے آ جا ...

(فلم ... چاند اور چاندنی ... 1968)

مسعودرانا اور کریم شہاب الدین کے 0کورس گیت


Masood Rana & Karim Shahabuddin: Latest Online film

Masood Rana & Karim Shahabuddin: Film posters
Chand Aur ChandniPayel
Masood Rana & Karim Shahabuddin:

0 joint Online films

(0 Urdu and 0 Punjabi films)

Masood Rana & Karim Shahabuddin:

Total 2 joint films

(1 Urdu, 0 Punjabi films)

1.1968: Chand Aur Chandni
(Urdu)
2.1970: Payel
(Bengali/Urdu double version)


Masood Rana & Karim Shahabuddin: 3 songs in 2 films

(3 Urdu and 0 Punjabi songs)

1.
Urdu film
Chand Aur Chandni
from Friday, 12 April 1968
Singer(s): Masood Rana, Music: Karim Shahabuddin, Poet: , Actor(s): Nadeem
2.
Urdu film
Chand Aur Chandni
from Friday, 12 April 1968
Singer(s): Masood Rana, Mala, Music: Karim Shahabuddin, Poet: , Actor(s): Nadeem, Shabana
3.
Urdu film
Chand Aur Chandni
from Friday, 12 April 1968
Singer(s): Mala, Masood Rana, Music: Karim Shahabuddin, Poet: , Actor(s): Shabana, Nadeem


Mah-e-Mir
Mah-e-Mir
(2016)
Sahara
Sahara
(1959)
Daagh
Daagh
(1976)
Anhoni
Anhoni
(1993)

Koel
Koel
(1944)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.