A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
منور سلطانہ ، ایک تاریخ ساز فلمی گلوکارہ تھی جس کو پاکستان کی پہلی فلم میں گائیکی کے علاوہ اولین مقبول عام اردو اور پنجابی گیت گانے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔۔!
منور سلطانہ ہی پاکستان کی پہلی سپرہٹ اردو اور پہلی سپرہٹ پنجابی فلموں کی گلوکارہ تھی۔ ایک کیلنڈر ائیر میں ریلیز ہونے والی سبھی فلموں میں نغمہ سرائی کے منفرد ریکارڈ کے علاوہ فلمی گیتوں کی سینچری مکمل کرنے والی پہلی پلے بیک سنگر بھی تھی۔
منور سلطانہ ہی پہلی گلوکارہ تھی جس کو ریڈیو پاکستان لاہور پر پہلا قومی گیت گانے کا اعزاز حاصل ہوا جبکہ متعدد سپرہٹ اور سدا بہار لوک گیت ، غزلیں اور غیرفلمی گیت بھی اس کے کریڈٹ پر ہیں۔
تیری یاد (1948) ، پاکستان کی پہلی فلم تو تھی لیکن منورسلطانہ سمیت اس فلم کے بیشتر فنکاروں کی پہلی فلم نہ تھی۔ تقسیم سے قبل بھی لاہور میں بڑی تعداد میں فلمیں بنتی تھیں جن میں اس فلم کے زیادہ تر فنکاروں نے کام کیا تھا۔ غیر حتمی اور دستیاب معلومات کے مطابق گلوکارہ منور سلطانہ کی پہلی فلم دھمکی (1945) تھی۔ لاہور میں بننے والی اس ہندی/اردو فلم میں اس نے تین شوخ گیت گائے تھے جو یوٹیوب پر موجود ہیں اور یقیناً اس دور میں بڑے مقبول ہوئے ہوں گے:
قیام پاکستان کے قبل ، چالیس کی دھائی میں لاہور یا ناردرن انڈیا کے سب سے بڑے فلمساز ادارے اور دو بڑے فلم سٹوڈیوز کے مالک پنچولی آرٹ پکچرز کی ہندی/اردو فلم دھمکی (1945) میں لاہور کی مقبول ترین فلمی ہیروئن راگنی کے ہیرو الناصر تھے۔ کلاوتی ، ایم اسماعیل ، اجمل اور اوم پرکاش دیگر اہم فنکار تھے۔ فلمساز اور مصنف امتیاز علی تاج جبکہ ہدایتکار راوندر دیو تھے۔ پنڈت امر ناتھ ، موسیقار اور مدھوک گیت نگار تھے۔
تقسیم سے قبل کے نا مکمل ریکارڈز کے مطابق منور سلطانہ کی آدھ درجن سے زائد فلموں میں ڈیڑھ درجن کے قریب گیت ملتے ہیں جن میں لاہور ہی میں بننے والی پاکستان کے پہلے سپرسٹار سدھیر کی پہلی فلم فرض (1947) کے گیت بھی تھے۔ ایسی فلموں سے چند ایک مشہور گیت کچھ اس طرح سے تھے:
یہ آخری گیت لاہور میں بننے والی ہندی/اردو فلم پگڈنڈی (1947) میں منور سلطانہ نے خواجہ خورشید انور کی موسیقی میں گایا تھا اور کیا خوب گایا تھا۔ اس مضمون کی تیاری میں جب تقسیم سے قبل کے گیتوں کو سنا تو اس گیت نے اتنا متاثر کیا کیا کہ اب تک نجانے کتنی بار سن چکا ہوں۔ منور سلطانہ کی دلکش گائیکی میں خاص طور یہ جملہ تو جان نکال دیتا ہے کہ:
خواجہ صاحب نے پاکستان میں ایسا شوخ گیت کبھی کمپوز نہیں کیا تھا۔۔!
1947ء میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت لاہور میں آٹھ فلمی سٹوڈیوز تھے جن میں دو درجن کے قریب فلمیں زیرتکمیل تھیں۔ فسادات میں ان نگارخانوں کو تباہ و برباد نہ کردیا جاتا تو آزادی کے بعد پہلے ہی سال کئی ایک پاکستانی فلمیں ریلیز ہو جاتیں۔ اس وقت ، لاہور کی 40فیصد آبادی غیرمسلم تھی لیکن 80فیصد کاروبار پر قابض تھی جن میں لاہور کے سبھی فلم سٹوڈیوز ، ڈسٹری بیوٹرز اور سینماؤں کے علاوہ فلم سازی بھی ان کے سرمائے کی محتاج تھی۔
1947ء کے خونی فسادات میں مذہبی منافرت ، تعصب اور لوٹ مار کا شاخسانہ تھا کہ جہاں ایک طرف مشرقی پنجاب میں صدیوں سے آباد مسلمانوں کا صفایا کیا گیا تو دوسری طرف پاکستان کے پنجاب کو بھی ہندوؤں اور سکھوں سے پاک کیا گیا اور ان کی املاک ہتھیانے کے لیے انھیں ، ان کے آبائی وطن سے مار بھگایا گیا۔ بہت سے ہندو فلمساز جانیں بچاتے ہوئے اپنی فلموں کے نامکمل پرنٹ بمبئی اور کلکتہ لے گئے جہاں انھیں مکمل کر کے بھارتی فلموں کے طور پر ریلیز کیا گیا۔ ایسی فلموں میں لاہور کے فنکاروں کے نام اور گلوکاروں کے گائے ہوئے گیت بھی ملتے ہیں جن میں منور سلطانہ کے گیت بھی تھے۔ چند خاص خاص گیت کچھ اس طرح سے تھے:
منور سلطانہ کو یہ ناقابل شکست اعزاز حاصل ہے کہ اس نے پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) میں نغمہ سرائی کی تھی۔ اس فلم میں چار گیت اس کے کریڈٹ پر تھے۔ تین سولو گیتوں کے علاوہ پاکستانی فلموں کا پہلا دوگانا بھی تھا۔ ممکن ہے اس دور میں ان میں سے کوئی گیت مقبول ہوا ہو۔ ان گیتوں کے بول تھے:
موسیقار عنایت علی ناتھ کی دھنوں میں پہلے دو گیت ، سیف الدین سیف کے اور آخری دونوں گیت طفیل ہوشیارپوری کے لکھے ہوئے تھے۔ باقی گیت علی بخش ظہور کے علاوہ ناتھ صاحب کی بیٹی اور فلم کی ہیروئن آشا پوسلے نے گائے تھے جس کے ہیرو دلیپ کمار کے بھائی ناصرخان تھے۔ فلمساز دیوان سرداری لال کی اس فلم کے ہدایتکار داؤد چاند تھے۔
1949ء میں کل چھ فلمیں ریلیز ہوئیں اور چھ کی چھ فلموں میں چھ کی اوسط سے منور سلطانہ کے کل 36 گیت ملتے ہیں۔ اس طرح سے منورسلطانہ کو ایک سال میں ریلیز ہونے والی سبھی فلموں میں گائیکی کا ایک اور منفرد اعزاز حاصل ہوا۔
پاکستان کی دوسری فلم ہدایتکار لقمان کی ایک مسلم سوشل فلم شاہدہ (1949) تھی جس میں منور سلطانہ نے پاکستانی فلموں کا پہلا کورس گیت بھی گایا تھا۔ حکیم احمد شجاع کے لکھے ہوئے اس گیت میں ہجرت کا کرب بیان کیا گیا تھا۔ اس گیت کی دھن ماسٹر غلام حیدر نے بنائی اور بول تھے:
1949ء میں ریلیز ہونے والی چار اردو اور دو پنجابی فلمیں تھیں۔ ممکن ہے کہ اردو فلموں کا کوئی گیت مقبول ہوا ہو لیکن دونوں پنجابی فلموں کے متعدد گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔
منور سلطانہ کو پاکستان کی پہلی سپرہٹ فلم پھیرے (1949) کے گیت گانے کا ایک اور ناقابل شکست اعزاز بھی حاصل ہوا۔ یہ پاکستان کی پہلی پنجابی فلم تھی اور پہلی ہی میوزیکل فلم بھی ثابت ہوئی۔ اس سپرہٹ ، پنجابی اور میوزیکل فلم میں منور سلطانہ کو پاکستانی فلموں کا پہلا سپرہٹ نسوانی گیت گانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا ، بول تھے:
فلم پھیرے (1949) ہی میں منور سلطانہ کو پاکستانی فلموں کا پہلا سپرہٹ دوگانا گانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا جس میں ساتھی گلوکار عنایت حسین بھٹی تھے جن کی یہ دوسری فلم تھی:
پاکستان کی پہلی دھائی کے سب سے کامیاب ترین موسیقار بابا جی اے چشتی کو پاکستان کے پہلے سپرہٹ گیتوں کی دھنیں تیار کرنے اور گیت نگاری کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ تقسیم سے قبل کے فلمساز ، ہدایتکار اور اداکار نذیر کی بنائی ہوئی یہ پہلی پاکستانی فلم تھی جس میں ان کی جوڑی اپنی اداکارہ بیوی سورن لتا کے ساتھ تھی۔
1950ء میں کل 13 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے دس اردو اور تین پنجابی فلمیں تھیں۔ منور سلطانہ نے سات فلموں میں 34 گیت گائے تھے۔ سال کی سب سے بڑی فلم دو آنسو (1950) تھی جس کو پاکستان کی پہلی سلورجوبلی اردو فلم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس فلم میں موسیقار مبارک علی خان کی دھن میں ساغرصدیقی کا لکھا ہوا اور منور سلطانہ کا گایا ہوا یہ گیت کسی بھی اردو فلم کا پہلا مشہور گیت ثابت ہوا:
اسی فلم میں پنجابی فلموں کے عظیم نغمہ نگار حزیں قادری نے اپنے شاندار فلمی کیرئر کا آغاز کیا اور ان کا لکھا ہوا ایک پنجابی گیت منور سلطانہ نے گایا تھا جس کے بول تھے:
1950ء کی سب سے بڑی نغماتی فلم لارے (1950) تھی جس کے گیت امر سنگیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ بابا چشتی نے ایک بار پھر اپنی عظمت کی دھاک بٹھا دی تھی اور ایک سے بڑھ کر ایک سپرہٹ گیت تخلیق کیا تھا۔ سورن لتا اور نذیر کی یہ میوزیکل فلم نیٹ پر موجود ہے جو پوری ایک گیت مالا ہے۔ منور سلطانہ کے گائے ہوئے درج ذیل سدا بہار گیت سٹریٹ سانگ ثابت ہوئے تھے:
اب تک کی معلومات کے مطابق یہ آخری سپرہٹ گیت "تیرے لونگ دا پیا لشکارا۔۔" کسی پنجابی فلم میں میلے میں گایا گیا پہلا گیت تھا جو بعد میں خاص طور پر بھارتی پنجابی فلموں میں ایک ٹرینڈ بن گیا تھا اور محمدرفیع اور شمشاد بیگم نے میلے کے بہت سے گیت گائے تھے۔ منور سلطانہ نے اس گیت میں بطور خاص جس دلکش انداز میں ان الفاظ کی ادائیگی کی ، وہ سننے والے کو اس گیت کو بار بار سننے پر مجبور کر دیتے ہیں:
1951ء میں کل 8 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے حیرت انگیز طور پر منور سلطانہ کی صرف دو فلموں میں پانچ گیتوں میں سے کوئی ایک بھی مقبول گیت نہیں تھا۔ اس سال کی خاص بات یہ تھی کہ چالیس کی دھائی کی ہندوستان کی فلمی تاریخ کی سب سے کامیاب گلوکارہ اور اداکارہ ، نورجہاں نے اپنے پاکستانی کیرئر کا آغاز کیا اور واپس لاہور آکر ایک پنجابی فلم چن وے (1951) میں اداکاری کے علاوہ گیت بھی گائے جو سال کے مقبول ترین گیت ثابت ہوئے تھے۔
1952ء میں کل 6 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے ایک بار پھر منور سلطانہ کے حصے میں صرف دو فلموں کے چھ گیت تھے۔ کوئی گیت مقبول نہیں تھا۔ یہ سال بھی نورجہاں کے نام تھا جس کی شاہکار اردو نغماتی فلم دوپٹہ (1952) نے میلہ لوٹ لیا تھا۔
1953ء میں دس فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے منور سلطانہ نے 8 فلموں میں 22 گیت گائے تھے۔ اسی سال منور سلطانہ نے ، فلمی گیتوں کی سینچری مکمل کرنے والی پہلی پاکستانی گلوکارہ ہونے کا اعزاز حاصل کیا جبکہ اسی سال زبیدہ خانم کی آمد بھی ہوئی تھی جو پچاس کی دھائی کی سب سے مقبول اور مصروف گلوکارہ ثابت ہوئی۔ منور سلطانہ کے اس سال فلم برکھا (1953) اور محبوبہ (1953) میں بالترتیب موسیقار طفیل فاروقی اور ماسٹر عنایت حسین کی دھنوں میں مندرجہ ذیل دو گانے بڑے مقبول ہوئے تھے:
1954ء کی ساتوں فلموں میں سے کسی فلم میں بھی منور سلطانہ کا کوئی گیت نہیں تھا۔ اس سال اقبال بانو کے گیت "پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے۔۔" کی ہر طرف دھوم تھی۔
1955ء کا سال پاکستانی فلموں کے عروج کا سال ثابت ہوا تھا۔ بھارت کے ساتھ گزشتہ سال فلم کے بدلے فلم کے معاہدے کے بعد فلموں کی تعداد 19 تک جا پہنچی تھی اور بڑی بڑی فلمیں ریلیز ہوئیں۔ منور سلطانہ کی پانچ فلموں میں 18 گیت تھے جن میں سے بابا چشتی کی دھن میں گولڈن جوبلی فلم نوکر (1955) کی یہ لوری سال کا سپرہٹ گیت تھا جس کو منور سلطانہ اور کوثر پروین نے الگ الگ گایا تھا:
اس سال کی ایک بہت بڑی نغماتی فلم ہیر (1955) میں حزیں قادری کا لکھا ہوا اور صفدرحسین کی موسیقی میں منور سلطانہ کا یہ سپرہٹ کورس گیت بھی تھا:
1956ء میں 32 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ سال کی کامیاب ترین فلم پاکستان کی پہلی بلاک باسٹر فلم دلابھٹی (1956) تھی جس کا میگا ہٹ گیت گانے کا اعزاز بھی منور سلطانہ کے حصے میں آیا۔ بول تھے:
بابا چشتی کی دھن میں طفیل ہوشیارپوری کا یہ سپرہٹ اور سدا بہار گیت منور سلطانہ کی پہچان بن گیا تھا۔ اس گیت نے مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کیے تھے۔ فلم دلابھٹی (1956) کے بلاک باسٹر ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی گیت تھا۔ بابا چشتی کو اپنے اس گیت پر اتنا مان تھا کہ ان سے ایک جملہ منسوب کیا جاتا ہے کہ "میں نے ایسا کبوتر اڑایا ہے کہ جو کسی کے قابو میں نہیں آرہا۔۔!" اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ پنجابی فلمی موسیقی میں بابا چشتی کا کبھی کوئی ثانی نہیں رہا۔
اسی سال کی ایک اور یادگار نغماتی فلم گڈی گڈا (1956) میں منور سلطانہ کے تین گیت بڑے پسند کیے گئے تھے جن میں ایک شوخ گیت "اکھاں کھول کے پہچان ، وے میں ہوگئی آں جوان۔۔" کے علاوہ دو انتہائی دلگیر گیت بھی تھے:
یہ دل گداز گیت ولی صاحب نے لکھے تھے جو تقسیم سے قبل چالیس کی دھائی میں لاہور کی فلموں کے ممتاز نغمہ نگار تھے۔ پاکستان میں ان کی یہ پہلی فلم تھی۔ ان شاہکار گیتوں کی موسیقی بھی بابا جی اے چشتی نے دی تھی جن کی تعریف کے لیے الفاظ ناکافی ہیں۔ یہ دونوں گیت پچاس کی دھائی کی دیگر دونوں بڑی گلوکاراؤں کے ان امر گیتوں کی یاد بھی دلاتے ہیں اور حیرت کی بات نہیں کہ ان لازوال گیتوں کے موسیقار بھی بابا چشتی ہی تھے:
1957ء میں منور سلطانہ کی پانچ فلموں میں صرف سات گیت تھے جن میں اس کے فلمی کیریر کا سب سے سپرہٹ اردو گیت فلم بیداری (1957) میں تھا جو خاور زمان نے لکھا اور فتح علی خان نے اس کی دھن بنائی تھی:
اسی سال کی فلم معصوم (1957) میں زبیدہ خانم کے ساتھ منور سلطانہ کا یہ دوگانا بھی بڑے کمال کا تھا جو قتیل شفائی نے لکھا اور جس کی دلکش دھن ماسٹر عنایت حسین نے بنائی تھی:
1958ء میں منور سلطانہ کے چار فلموں میں سات اور آخری سال 1959ء میں دو فلموں میں چھ گیت تھے۔ اس طرح سے دستیاب معلومات کے مطابق منور سلطانہ نے 54 فلموں میں 181 گیت گائے تھے جن میں 135 گیت 44 اردو فلموں میں اور 46 گیت 10 پنجابی فلموں میں تھے۔ سب سے زیادہ 24 فلموں میں 73 گیت بابا چشتی نے کمپوز کیے تھے جبکہ سب سے زیادہ 14 دوگانے عنایت حسین بھٹی کے ساتھ گائے تھے۔ منور سلطانہ کے سب سے زیادہ گیت سورن لتا اور صبیحہ خانم پر فلمائے گئے تھے۔ یہ اعدادوشمار حتمی نہیں ہیں کیونکہ متعدد فلموں کا مکمل ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔
منور سلطانہ ، اصل میں ریڈیو کی گلوکارہ تھی جہاں اس نے موسیقی کی بنیادی تعلیم بھی پائی تھی۔ ریڈیو پاکستان لاہور پر اردو اور پنجابی میں بڑی تعداد میں گیت گائے تھے۔ 80 کی دھائی میں مسرت نذیر کے پنجابی لوک گیتوں سے قبل 50 کی دھائی میں پاکستان کے ابتدائی دور میں سب سے زیادہ مقبول پنجابی لوک گیت منور سلطانہ ہی کے گائے ہوئے ہوتے تھے جن میں مندرجہ ذیل چند سدا بہار لوک گیت شامل ہیں:
15 اگست 1947ء ، جمعتہ الوداع ، 27 رمضان المبارک 1366 ہجری کو پاکستان کے پہلے دن ، ریڈیو پاکستان لاہور پر نشر ہونے والا یہ پہلا قومی گیت تھا جسے گانے کا اعزاز بھی گلوکارہ منور سلطانہ کو حاصل ہے۔ اس یادگار گیت میں دوسری گلوکارہ دلشاد بیگم تھی۔ موسیقار قادری فرید کی دھن میں معروف ادیب اور شاعر شوکت تھانوی کے لکھے ہوئے بول تھے۔
منور سلطانہ ہی نے ریڈیو پر موسیقار طفیل فاروقی کی دھن میں علامہ اقبالؒ کی مشہور زمانہ بچوں کی نظم "لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری" گائی تھی جو پاکستان کے تمام سرکاری سکولوں میں صبح کی مجلس میں قومی ترانے "پاک سر زمین شاد باد" کے ساتھ گائی جاتی تھی۔ ان کے علاوہ منورسلطانہ نے کئی شاعروں کے کلام بھی گائے تھے جن میں سے اختر شیرانی کی یہ غزل تو بہت ہی مشہور تھی "میں آرزوئے جاں لکھوں یا جان آرزو۔۔"
منور سلطانہ کی آخری فلم کھل جا سم سم (1959) تھی۔ اس وقت تک مسعود رانا کی فلموں میں آمد نہیں ہوئی تھی ، اس لیے کسی دوگانے یا مشترکہ فلم کا کوئی امکان نہیں تھا۔ لیکن ان دونوں کا ایک مشترکہ گیت ملتا ہے جو اصل میں ایک ملی ترانہ تھا جو بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ کی شان میں لکھا گیا تھا:
22 سے 24 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک (اقبال پارک) میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 27ویں اجلاس میں قرارداد لاہور پاس کی گئی تھی جس میں ہندوستان کی آئینی حدود میں رہتے ہوئے مسلم اکثریت کے علاقوں پر مشتمل آزاد مسلم ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس تاریخی موقع پر میاں بشیر احمد نے یہ نظم پڑھی تھی جس کو سب سے پہلے ریڈیو پر منورسلطانہ نے ایک کورس کی شکل میں گایا تھا۔ اس تاریخی نظم کو دیگر گلوکاروں نے بھی گایا تھا۔ موسیقار خلیل احمد نے 80 کی دھائی میں اس نظم کی دھن بنائی تھی اور ٹیلی ویژن پر مسعود رانا نے گا کر امر کردیا تھا۔
میاں بشیر احمد ، برطانوی ہندوستان کے پہلے مسلمان چیف جسٹس میاں محمد شاہ دین ہمایوں کے فرزند تھے۔ ایک صحافی ، شاعر اور تحریک پاکستان کے ایک سرگرم کارکن تھے۔ ایک ادبی رسالے "ہمایوں" کے مدیر تھے جو 35 برس تک شائع ہوتا رہا۔ 1946ء کے انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ترکی میں سفیر بھی رہے۔ متعدد کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ 29 مارچ 1893ء کو لاہور میں پیدا ہوئے اور 3 مارچ 1971ء کو انتقال ہوا۔
گلوکارہ منور سلطانہ کے شوہر ایوب رومانی ، پاکستان کے نامور شاعر ، موسیقار اور براڈ کاسٹر تھے جو 1927ء میں پیدا ہوئے اور 15 جولائی 1986ء کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ وہ ، ریڈیو پاکستان لاہور کے سٹیشن ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔ گلوکارہ منور سلطانہ ، ان کی دوسری بیوی تھی اور پہلی گلوکارہ تھی جس نے شادی کے بعد فلمی گائیکی کو ترک کر دیا تھا۔
ایوب رومانی ، ایک صاحب دیوان شاعر تھے جن کے شعری مجموعے کا نام "آواز کا سفر" تھا۔ ان کی متعدد غزلیں اور اشعار بڑے مشہور ہوئے۔ گلوکار شوکت علی نے ان کی ایک غزل "جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا ، صحنِ گل چھوڑ گیا، دل میرا پاگل نکلا۔۔" گائی تھی جو بڑی مشہور ہوئی تھی۔
گلوکارہ منور سلطانہ کو عام طور پر بھارتی اداکارہ منور سلطانہ سے گڈمڈ کر دیا جاتا ہے۔ اتفاق سے یہ دونوں فنکارائیں ہم عمر اور ہم عصر تھیں۔
بھارتی اداکارہ منور سلطانہ ، پاکستانی گلوکارہ منور سلطانہ سے عمر میں ایک سال بڑی اور 1924ء میں لاہور میں پیدا ہوئی تھی۔ لاہور ہی میں بننے والی پہلی بلاک باسٹر ہندی/اردو فلم خزانچی (1941) میں پہلی بار نظر آئی۔ تقریباً ایک دھائی کے فلمی کیرئر میں دو درجن فلموں میں کام کیا۔ سب سے یادگار فلم ہدایتکار اے آر کاردار کی نغماتی فلم درد (1947) تھی جس میں اس پر ایک موٹی تازی ، کالی کلوٹی بھارتی مزاحیہ ادکارہ ٹن ٹن (اوما دیوی) کا گایا ہوا مشہور زمانہ گیت "افسانہ لکھ رہی ہوں ، دل بے قرار کا۔۔" فلمایا گیا تھا۔
اداکارہ منور سلطانہ نے ایک فلمساز سے شادی کی اور 2007ء میں انتقال ہوا جبکہ 1925ء میں لدھیانہ میں پیدا ہونے والی گلوکارہ منور سلطانہ کا 1995ء میں انتقال ہوا تھا۔
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.