Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


زینت

زینت
اداکارہ زینت
نے فلمسازی اور ہدایتکاری بھی کی تھی

اداکارہ زینت ، پاکستان کے ابتدائی دو عشروں کی ایک ممتاز اداکارہ تھی جس نے دو سو کے قریب فلموں میں کام کیا تھا۔

روایتی ہیروئن نہ ہونے کے باوجود معاون اداکارہ کے طور پر مثبت ، منفی اور مزاحیہ کرداروں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرنے کے علاوہ فلمسازی اور ہدایتکاری بھی کی تھی۔

اداکارہ زینت کی ابتدا ، ہدایتکار لقمان کی تقسیم سے قبل کی ہندی اردو فلم ہمجولی (1946) سے ہوئی تھی جس میں ملکہ ترنم نورجہاں ، فرسٹ ہیروئن تھیں۔ بطور ہیروئن شاید واحد فلم گرو (1947) میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔

پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے (1949)

قیام پاکستان کے بعد زینت کو اپنی پہلی فلم پھیرے (1949) میں ایک اہم رول ملا تھا۔ اس فلم کی کہانی کے مطابق علاؤالدین کو اپنی بہن سورن لتا کا نذیر سے عشق ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ اس کی شادی ایک امیرشخص ایم اسماعیل سے کردیتا ہے۔ سورن لتا ، مختلف حیلوں بہانوں سے ایم اسماعیل کو اپنا خاوند تسلیم نہیں کرتی لیکن آخر میں یہ بتا دیتی ہے کہ ہندوآنہ رسم و رواج کے مطابق شادی کے لیے جو سات پھیرے لیے گئے تھے وہ اس کے بجائے اس کی سہیلی زینت لیتی ہے۔ فلم کا ہیپی اینڈ ہوتا ہے اور ایم اسماعیل ، سورن لتا کو نذیر کے حوالے کر کے زینت کو اپنا لیتا ہے۔

یاد رہے کہ ہماری فلموں کی ساخت روز اول سے ہندو تہذیب و تمدن کے مطابق رہی ہے اور زیادہ تر فلمیں ہندو اکثریت کی پسند و ناپسند کے مطابق بنائی جاتی تھیں ، اسی لیے مسلمانوں میں فلم دیکھنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اس موضوع پر ان شاء اللہ ، کبھی بڑی تفصیل سے بات ہوگی۔

زینت کی مصروفیات کا دور

پچاس کی دھائی میں زینت نے تین درجن کے قریب فلموں میں زیادہ تر مزاحیہ کردار کیے تھے۔ ساٹھ کے عشرہ میں زینت نے سو سے زائد فلموں میں کام کیا اور جذباتی اداکاری میں اپنی کارکردگی کی دھاک بٹھا دی تھی۔ ایسی بہت سی فلمیں تھیں جن میں زینت کے کردار یادگار رہے ہیں۔

ساٹھ کے عشرہ میں زیادہ تر سماجی موضوعات پر فلمیں بنتی تھیں۔ زینت ، عام طور پر ماں یا ساس کے مثبت اور منفی کرداروں میں خوب جچتی تھی۔

فلم ماں کے آنسو (1963) کے ٹائٹل رول میں زینت نے ایک مجبور ماں کے رول میں بڑی زبردست جذباتی کردار نگاری کی تھی۔

فلم میرا ماہی (1964) میں نذر ، رضیہ کو حاصل کرنے کے لیے اس کی ماں زینت کو بوڑھا بن کر چکر دیتا ہے اور بیک وقت ماں بیٹی سے عشق لڑاتا ہے۔ جب اس کی رضیہ سے شادی ہو جاتی ہے تو زینت سے جان چھڑانے کے لیے جوان کردار میں آتا ہے اور ان دونوں پر آئرن پروین اور احمدرشدی کا ایک بڑا زبردست مزاحیہ گیت فلمایا جاتا ہے

  • چاچی ، چاچا مر گیا ای ، تے تینوں رنڈی کر گیا ای۔۔

اس گیت میں بابا چشتی نے دونوں گلوکاروں سے خوب خوب بین کروائے تھے۔

اسی مزاحیہ سکوئنس کو پاکستان کی پہلی رنگین فلم ایک دل دو دیوانے (1964) کی مرکزی کہانی کے طور فلمایا گیا تھا جس میں زینت نے وہی کردار کیا تھا جو اس سے قبل وہ فلم میرا ماہی (1964) میں کر چکی تھی جبکہ نذر اور رضیہ کے کردار کمال اور رانی نے کیے تھے۔ یہ کہانی ایک بھارتی فلم پروفیسر (1962) سے ماخوذ تھی۔

فلم ڈولی (1965) میں زینت نے ایک چوہدرانی کا کردار کیا تھا جس کا بیٹا ، ایک خانہ بدوش لڑکی کے عشق میں عزت و راحت کی زندگی چھوڑ کر گلی گلی خجل و خوار ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔ جب وہ اپنی ماں کے در پر بھیک مانگنے آتا ہے تو وہ منظر فلم کی ہائی لائٹ ہوتا ہے جس پر مسعودرانا کا یہ سپرہٹ گیت سننے کو ملتا ہے

  • جھوٹیاں عزتاں لبھدا جہیڑا ، عاشق نئیں سودائی اے ، عشق دی سب توں وکھری عزت ، گلی گلی رسوائی اے۔۔

فلم بہو بیگم (1965) بھی ایک معاشرتی موضوع پر بنائی گئی ایک سبق آموز فلم تھی جس میں زینت کا کردار بڑا پاور فل تھا۔

فلم گونگا (1966) میں زینت کا کردار ایک سنگدل سوتیلی ماں کا ہوتا ہے جس کی مارپیٹ سے ایک بچہ گونگا ہو جاتا ہے اور جب وہ اپنی ماں کی قبر پر ایک سوالیہ نشان بن کر آتا ہے تو پس منظر سے مسعودرانا کی دلسوز آواز میں یہ بول گونجتے ہیں

  • کوئی اینی گل رب کولوں پچھ کے تے آوے ، ربا ، او کی کرے ، جدی ماں مر جائے۔۔

اے راہ حق کے شہیدو

زینت کے فلمی کیرئر کی ایک یادگار فلم مادروطن (1966) تھی جس میں وہ ایک شہید کی ماں ہوتی ہے۔ جواں سال بیٹے کی لاش جب ماں کے سامنے آتی ہے تو وہ کتنا دردناک منظر ہوتا ہے۔ پس منظر میں نسیم بیگم کا یہ لازوال جنگی ترانہ گونجتا ہے

  • اے راہ حق کے شہیدو ، وفا کی تصویرو ، تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔۔

مشیرکاظمی کے لکھے ہوئے اس ترانے کی دھن سلیم اقبال صاحبان نے بنائی تھی۔ اسی فلم میں زینت پر نسیم بیگم کا گایا ہوا یہ گیت بھی فلمایا جاتا ہے

  • جاگ میرے لال ، تجھے قوم کو جگانا ہے۔۔

یہ گیت سیف الدین سیف نے لکھا تھا۔

فلم تابعدار (1966) میں زینت نے ایک ایسی ماں کا رول کیا تھا جو اپنے بیٹے کی شادی کے لیے اپنی بہو کے باپ سے شادی کا مطالبہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اس موقع پر مسعودرانا کا ایک پس منظر میں گیت سننے کو ملتا ہے

  • پنجرہ رہ جاؤ خالی پنچھی اڈ جانا۔۔

فلم جگری یار (1967) میں زینت اور مینا شوری کا جھگڑا دو دوستوں کی پرانی دوستی کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ اس فلم میں مسعودرانا کے گائے ہوئے تھیم سانگ

  • "سوچ کے یار بناویں بندیا۔۔

میں پوری فلم کی کہانی مل جاتی ہے۔

فلم ووہٹی (1967) میں زینت اور نذر پر آئرن پروین اور مسعودرانا کا بوڑھوں کے انداز میں گایا ہوا یہ گیت فلمایا گیا تھا

  • بڈھیا وے بڈھیا ، ووہٹی بن کے جوانی یاد آگئی۔۔

فلم سنگدل (1968) میں زینت نے ٹائٹل رول کیا تھا اور ایک ایسی عورت نظر آئی جو اپنے بیٹے کے بہتر مستقبل کے لیے کسی اور کا حق مارتی ہے لیکن آخر میں اپنے ہی بے فیض خون کے ظلم و ستم کا نشانہ بن جاتی ہے۔

فلم بے قصور (1970) میں بھی زینت ایک ظالم سوتیلی ماں ہے جس پر مسعودرانا کا ایک اور شاہکار تھیم سانگ فلمایا جاتا ہے

  • یہ دنیا نہیں دل والوں کی ، ملتا ہی نہیں ہے پیار یہاں۔۔

گلوکارہ زینت بیگم

زینت پاکستان میں زینت نام کی دو فنکارائیں تھیں جن میں اداکارہ زینت کے علاوہ ایک گلوکارہ زینت بیگم بھی تھی جس کی وجہ شہرت تقسیم سے قبل لاہور میں بننے والی ایک پنجابی فلم گل بلوچ (1946) کا یہ دوگانا تھا "ہیریئے نی ، سوہنیئے نی ، تیری یاد نے ستایا۔۔" یہ گیت عظیم گلوکار محمدرفیع کا گایا ہوا پہلا فلمی گیت تھا۔ گلوکارہ زینت بیگم نے ایک درجن پاکستانی فلموں کے لیے نغمہ سرائی کی تھی اور کل تین درجن کے قریب گیت گائے تھے۔ تقسیم سے قبل زینت بیگم نے فلمی کیرئر کا آغاز لاہور میں بننے والی مشہورزمانہ پنجابی منگتی (1942) سے کیا تھا۔ مینا شوری کے خاوند روپ کے شوری کی ہدایتکاری میں بننے والی اس فلم کے سبھی گیت زینت بیگم کی آواز میں تھے۔ موسیقار پنڈت گوبند رام تھے جبکہ گیت ناظم پانی پتی اور نند لال نورپوری کے تھے۔ زینت بیگم نے تین درجن سے زائد فلموں میں ڈیڑھ سو سے زائد گیت گائے تھے جن کی مکمل فہرست فلمی ریکارڈذ کے صفحہ پر اپ ڈیٹ کر دی گئی ہے۔

زینت بطور فلمساز اور ہدایتکار

زینت نے بطور فلمساز سات فلمیں بنائی تھیں جن میں 1968ء کی پنجابی فلم بدلہ ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی۔ اس فلم میں مسعودرانا کا تھیم سانگ ایک سپرہٹ گیت تھا

  • جہیڑے توڑدے نیں دل برباد ہون گے ، اج کسے نوں رلایا ، کل آپ رون گے۔۔

اسی فلم میں ملکہ ترنم نورجہاں کے دو گیت بھی بڑے مقبول ہوئے تھے

  • چٹی گھوڑی تے کاٹھی تلے دار نی سیو۔۔
  • پھکی پے گئی چن تاریاں دی لو ، تو اجے وی نہ آئیوں سجناں۔۔

زینت کی بطور فلمساز دیگر فلمیں تھیں ، کھل جا سم سم (1959) ، البیلا (1967) ، حدبندی (1971) اور اک نکاح ہور سہی (1982)

زینت نے بطور خاتون ہدایتکارہ تین فلمیں بھی بنائی تھیں جن میں سے ان دو فلموں کی فلمساز بھی تھی۔ سپرہٹ اردو فلم بن بادل برسات (1975) میں زیبا اور محمدعلی مرکزی کردار تھے۔

اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس کی موسیقار شمیم نازلی تھی جو پاکستان کی پہلی خاتون موسیقار اور گلوکارہ مالا کی بہن تھی۔ اس نے چار فلموں میں دو درجن کے قریب گیت کمپوز کیے تھے لیکن اس فلم میں میڈم نورجہاں سے واحد گیت گوایا تھا۔

اسی فلم میں ممتاز قوال صابری بردران کی مشہور زمانہ قوالی بھی شامل کی گئی تھی

  • بھر دو جھولی میری یا محمد ﷺ ، لوٹ کر نہ میں جاؤں گا خالی۔۔

زینت کی بطور فلمساز اور ہدایتکار دوسری فلم آبشار (1978) میں مہدی حسن کا یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا

  • بہت خوبصورت ہے میرا صنم ، خدا ایسے مکھڑے بناتا ہے کم۔۔

بطور ہدایتکار تیسری اور آخری فلم آپ کی خاطر (1980) ایک گمنام فلم تھی۔

زینت نے ایک فلم مجھے جینے دو (1968) کی کہانی بھی لکھی تھی جس کے مکالمے بشیرنیاز نے لکھے تھے۔ بطور ادکارہ ، زینت کی آخری فلم لہو دے رشتے (1980) بتائی جاتی ہے۔

پیدائش 1931ء اور انتقال 2007ء میں ہوا تھا۔

مسعودرانا اور زینت کے 3 فلمی گیت

(1 اردو گیت ... 2 پنجابی گیت )
1

پنجرہ رہ جاؤ خالی ، پنچھی اڈ جانا ، جے لنگ گیا اے ویلا ، مڑ کے نئیں آنا..

فلم ... تابعدار ... پنجابی ... (1966) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: رحمان ورما ... شاعر: بابا عالم سیاہ پوش ... اداکار: ؟ (زینت)
2

نعرہ حیدری ، تلوار اٹھا لے اے مرد مومن ، خبیر شکن ، ہر صدا ہے تیری..

فلم ... سجدہ ... اردو ... (1967) ... گلوکار: مالا ، مسعود رانا ، نجمہ نیازی مع ساتھی ... موسیقی: منظور اشرف ... شاعر: قتیل شفائی ... اداکار: دیبا ، محمد علی ، لہری ، اسد جعفری ، زینت مع ساتھی
3

بڈھیا وے بڈھیا ، ووہٹی بن کے مینوں جوانی یاد آ گئی..

فلم ... ووہٹی ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: آئرن پروین ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: زینت ، نذر

مسعودرانا اور زینت کے 1 اردو گیت

1

نعرہ حیدری ، تلوار اٹھا لے اے مرد مومن ، خبیر شکن ، ہر صدا ہے تیری ...

(فلم ... سجدہ ... 1967)

مسعودرانا اور زینت کے 2 پنجابی گیت

1

پنجرہ رہ جاؤ خالی ، پنچھی اڈ جانا ، جے لنگ گیا اے ویلا ، مڑ کے نئیں آنا ...

(فلم ... تابعدار ... 1966)
2

بڈھیا وے بڈھیا ، ووہٹی بن کے مینوں جوانی یاد آ گئی ...

(فلم ... ووہٹی ... 1967)

مسعودرانا اور زینت کے 1سولو گیت

1

پنجرہ رہ جاؤ خالی ، پنچھی اڈ جانا ، جے لنگ گیا اے ویلا ، مڑ کے نئیں آنا ...

(فلم ... تابعدار ... 1966)

مسعودرانا اور زینت کے 1دوگانے

1

بڈھیا وے بڈھیا ، ووہٹی بن کے مینوں جوانی یاد آ گئی ...

(فلم ... ووہٹی ... 1967)

مسعودرانا اور زینت کے 1کورس گیت

1نعرہ حیدری ، تلوار اٹھا لے اے مرد مومن ، خبیر شکن ، ہر صدا ہے تیری ... (فلم ... سجدہ ... 1967)


Masood Rana & Zeenat: Latest Online film

Chakkarbaz

(Urdu - Color - Friday, 13 December 1974)


Masood Rana & Zeenat: Film posters
Qatal Kay BaadDachiBharjaiMera MahiLanda BazarDoliFaishonSoukanIk Si ChorMoajzaBhai JanGoongaWoh Kon ThiAainaJigri YaarBahadurKafirWohtiMelaSangdilShehanshah-e-JahangirAlif LailaSassi PunnuAshiqGhairatmandDillan day SoudayNajoKhoon-e-NahaqSheran Di JoriMeri BhabhiKoonj Wichhar GeyiWichhora2 BaghiNeend Hamari Khawab TumharayRabb RakhaZaildarSohna JaniNizamParchhaenPulekha
Masood Rana & Zeenat:

8 joint Online films

(4 Urdu and 4 Punjabi films)

1.1965: Ik Si Chor
(Punjabi)
2.1966: Bhai Jan
(Urdu)
3.1966: Tabedar
(Punjabi)
4.1968: Sangdil
(Urdu)
5.1968: Sassi Punnu
(Punjabi)
6.1970: Hamlog
(Urdu)
7.1972: Zaildar
(Punjabi)
8.1974: Chakkarbaz
(Urdu)
Masood Rana & Zeenat:

Total 50 joint films

(23 Urdu and 27 Punjabi films)

1.1963: Qatal Kay Baad
(Urdu)
2.1964: Dachi
(Punjabi)
3.1964: Bharjai
(Punjabi)
4.1964: Mera Mahi
(Punjabi)
5.1964: Landa Bazar
(Urdu)
6.1965: Doli
(Punjabi)
7.1965: Faishon
(Urdu)
8.1965: Soukan
(Punjabi)
9.1965: Ik Si Chor
(Punjabi)
10.1966: Moajza
(Urdu)
11.1966: Ruswai
(Urdu)
12.1966: Bhai Jan
(Urdu)
13.1966: Goonga
(Punjabi)
14.1966: Woh Kon Thi
(Urdu)
15.1966: Aaina
(Urdu)
16.1966: Tabedar
(Punjabi)
17.1967: Jigri Yaar
(Punjabi)
18.1967: Bahadur
(Urdu)
19.1967: Kafir
(Urdu)
20.1967: Wohti
(Punjabi)
21.1967: Mela
(Punjabi)
22.1968: Sangdil
(Urdu)
23.1968: Shehanshah-e-Jahangir
(Urdu)
24.1968: Alif Laila
(Urdu)
25.1968: Badla
(Punjabi)
26.1968: Sassi Punnu
(Punjabi)
27.1968: Ashiq
(Urdu)
28.1968: Chalbaz
(Punjabi)
29.1969: Ghairatmand
(Punjabi)
30.1969: Dillan day Souday
(Punjabi)
31.1969: Najo
(Punjabi)
32.1969: Khoon-e-Nahaq
(Urdu)
33.1969: Sheran Di Jori
(Punjabi)
34.1969: Meri Bhabhi
(Urdu)
35.1969: Koonj Wichhar Geyi
(Punjabi)
36.1970: Wichhora
(Punjabi)
37.1970: BeQasoor
(Urdu)
38.1970: Hamlog
(Urdu)
39.1970: 2 Baghi
(Urdu)
40.1970: Bholay Shah
(Punjabi)
41.1971: Neend Hamari Khawab Tumharay
(Urdu)
42.1971: Sehra
(Punjabi)
43.1971: Rabb Rakha
(Punjabi)
44.1972: Zaildar
(Punjabi)
45.1972: Sohna Jani
(Punjabi)
46.1972: Nizam
(Punjabi)
47.1974: Parchhaen
(Urdu)
48.1974: Chakkarbaz
(Urdu)
49.1975: Pulekha
(Punjabi)
50.Unreleased: Shikwa Na Kar
(Urdu)


Masood Rana & Zeenat: 3 songs

(1 Urdu and 2 Punjabi songs)

1.
Punjabi film
Tabedar
from Friday, 9 December 1966
Singer(s): Masood Rana, Music: Rehman Verma, Poet: Baba Alam Siaposh, Actor(s): ? (Zeenat)
2.
Urdu film
Sajda
from Friday, 10 February 1967
Singer(s): Mala, Masood Rana, Najma Niazi & Co., Music: Manzoor Ashraf, Poet: Qateel Shafai, Actor(s): Deeba, Mohammad Ali, Lehri, Asad Jafri, Zeenat & Co.
3.
Punjabi film
Wohti
from Friday, 6 October 1967
Singer(s): Irene Parveen, Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: Khawaja Parvez, Actor(s): Zeenat, Nazar


Sanjog
Sanjog
(1943)
Roti
Roti
(1942)
Badnami
Badnami
(1946)
Najma
Najma
(1943)

Jugnu
Jugnu
(1947)
Badnami
Badnami
(1946)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan's political, film and media history.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes, and therefor, I am not responsible for the content of any external site.