A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
یہ شاہکار گیت ایک انتہائی گمنام موسیقار ، اعظم بیگ کے فلمی کیرئر کااکلوتا سپرہٹ گیت تھا۔ ایک درجن کے قریب فلموں میں پانچ درجن سے زائد گیت کمپوز کرنے کے باوجود کامیابی سے محروم رہے۔
اس سے قبل کہ اس سدابہار گیت پر مزید بات کی جائے ، موسیقار اعظم بیگ کے فلمی کیرئر اور دیگر اہم واقعات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔۔
موسیقار مرزا اعظم بیگ ، بھارت میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم سے قبل میڈم نورجہاں کی بطور ہیروئن اور گلوکارہ مشہور فلم گاؤں کی گوری (1945) میں موسیقار شیام سندر کے معاون کے طور پر موقع ملا تھا۔ پہلی ریکارڈنگ ، ایک مزاحیہ قوالی تھی
نمایاں آوازیں جی ایم درانی ، محمدرفیع اور ساتھیوں کی تھیں۔ یہ گیت فلم کے ہیرو نذیر اور ساتھیوں پر فلمایا گیا تھا۔ سبھی گیت اس وقت کی سپرسٹار اداکارہ ممتاز شانتی کے شوہر اور یادگار فلم گڈی گڈا (1956) فیم فلمی شاعر ولی صاحب نے لکھے تھے۔ اسی فلم میں ملکہ ترنم نورجہاں کے گائے ہوئے دوگیت بڑے مقبول ہوئے تھے
اعظم بیگ کی بطور میوزک ڈائریکٹر ، بھارت میں واحدفلم شکتی (1948) تھی جس میں ان کے ساتھی موسیقار رام پرساد تھے جو ایک معروف بھارتی موسیقار لکشمی کانت کے پتا جی تھے۔ لکشمی کانت اور پیارے لال کی مشہور زمانہ موسیقار جوڑی نے اس دور میں ان کے ساتھ میوزیشن کے طور پر کام کیا تھا اور بالترتیب مینڈولین اور وائلن بجاتے تھے۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ اسی فلم کے گیتوں کی ریکارڈنگ کے دوران اعظم بیگ کے پاس ایک گلوکار ، کسی کی سفارش لے کر آیا لیکن انھوں نے اسے رد کردیا تھا کیونکہ اس وقت تک اس گلوکار کی آواز گانے کے قابل نہ تھی، وہ گلوکار کشورکمار تھا۔
اس فلم میں انھوں نے بیشتر گیت ممتاز گلوکارہ ثریا سے گوائے تھے جن میں سے یہ گیت بڑا مشہور ہوا تھا
اعظم بیگ نے بعد میں بھی کئی ایک بھارتی گلوکاروں سے پرائیویٹ البمز بھی گوائے تھے ، خاص طور پر بڑے غلام علی خان سے ایک پنجابی گیت گوایا تھا جبکہ لتا منگیشکر اور دیگر بھارتی گلوکاروں سے بھی متعدد گیت اور غزلیں گوائی تھیں۔
اعظم بیگ ، پچاس کی دھائی میں پاکستان چلے آئے تھے جہاں ان کی پہلی فلم ، ہدایتکار رحیم گل کی لگن (1960) تھی۔ ممتاز شاعر منیرنیازی کے لکھے ہوئے گیتوں کے باوجود کوئی ایک بھی گیت مقبول نہ ہوسکا تھا حالانکہ گانے والے وقت کے مقبول ترین گلوکار ، زبیدہ خانم ، اقبال بانو اور ناہیدنیازی کے علاوہ سلیم رضا بھی تھے جو اس دور کے سب سے مقبول فلمی گلوکار تھے اور جنھوں نے اعظم بیگ کے سب سے زیادہ گیت گائے تھے۔
ہدایتکار رحیم گل نے اپنی اگلی فلم ہابو (1961) کے لیے ایک بار پھر اعظم بیگ کی خدمات حاصل کی تھیں۔ یہ ایک جنگل فلم تھی جس میں ٹائٹل رول ایک ریچھ کا تھا۔ حسنہ اور حبیب مرکزی کردار تھے اور ان پر فلمایا ہوا سلیم رضا اور مالا کا الگ الگ گایا ہوا گیت
ایک مقبول گیت تھا۔
اسی سال، ہدایتکار ایم جے رانا کی فلم شیر اسلام (1961) کی موسیقی بھی اعظم بیگ نے ترتیب دی تھی۔ رتن کمار ، فلمساز اور ہیرو تھے۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پہلی مرتبہ ملکہ غزل فریدہ خانم نے نغمہ سرائی کی تھی اور تین فلمی گیت گائے تھے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ فریدہ خانم نے فلم سیلاب (1953) میں اداکاری کے علاوہ درجن بھر فلموں کے لیے گیت بھی گائے تھے لیکن کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ سب سے مقبول گیت فلم باجی (1963) میں ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ تھا
فریدہ خانم ، تیس کے عشرہ کی ممتاز اداکارہ اور گلوکارہ مختاربیگم کی بہن تھیں جو اردو کے ممتاز ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کی بیوی اور میڈم نورجہاں کی آئیڈیل فنکارہ بھی تھیں۔ اداکارہ رانی ، مختاربیگم کے ایک ڈرائیور کی بیٹی تھی جس کی پرورش اورفلموں میں بھی متعارف کرانے کا اعزاز بھی انھیں حاصل تھا۔ گلوکارہ نسیم بیگم کی استاد بھی تھیں۔
موسیقار اعظم بیگ کی دیگر فلمیں ، ڈاکٹر ، تماشا (1965) ، مثال (1966) اور چوہدویں صدی (1969) تھیں جبکہ پردیس (1972) سمیت کسی بھی فلم کا کوئی بھی گیت مقبول نہیں ہوسکا تھا۔ فلم مثال (1966) میں اعظم بیگ نےبطور گلوکار ایک گیت بھی گایا تھا
ابتداء میں انھیں گائیکی کا شوق تھا لیکن وہ موسیقار بن گئے تھے حالانکہ عظیم گائیک محمدرفیع نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ گائیکی کو ترک نہ کریں۔ اپنے اس فیصلے پر وہ بہت پچھتاتے رہے اور بڑی کسمپرسی کی حالت میں 23 فروری 2021ء کو کراچی میں انتقال ہوگیا تھا۔
موسیقار اعظم بیگ کے فلمی کیرئر کی سب سے یادگار فلم ہدایتکار سرورخیال کی فلم یہ راستے ہیں پیار کے (1970) تھی جس کی کہانی وفا جعفری کی لکھی ہوئی تھی۔ یہ فلم 1970ء میں کراچی میں اور 1975ء میں لاہور میں ریلیز ہوئی تھی اور دونوں سرکٹوں میں بری طرح سے ناکام رہی تھی۔
اس دور کی کاسٹ کریڈٹ کے مطابق یہ ایک بی کلاس اردو فلم تھی جس میں عالیہ اور سلونی جیسی ناکام ہیروئنیں تھیں۔ پنجابی فلموں کے سپرسٹارز ، اعجاز اور حبیب ، اردو فلموں میں بی کلاس اداکار شمار ہوتے تھے۔
اس ناکام ترین فلم کی صرف ایک ہی بات اہم تھی اور وہ حبیب اور عالیہ پر الگ الگ فلمایا ہوا یہ سپرہٹ گیت تھا
مشیرکاظمی کے لکھے ہوئے اس لازوال گیت کی شاعری واجبی سی تھی لیکن دھن بڑے کمال کی تھی جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے ، کم ہے۔
ان سب پر بھاری مسعودرانا کی بے مثل گائیکی تھی۔ مزے کی بات ہے کہ اس گیت کو نسیم بیگم نے بھی گایا تھا جسے کبھی 'نورجہاں ثانی ' بھی کہا جاتا تھا لیکن ان دونوں کا الگ الگ گایا ہوا یہ گیت سن کر ایک عام شخص بھی بڑا واضح فرق محسوس کر سکتا ہے کہ مسعودرانا کس اعلیٰ پائے کے گلوکار تھے۔۔!
1 | زمانے میں رہ کے ، رہے ہم اکیلے ، ہمیں راس آئے نہ دنیا کے میلے..فلم ... یہ راستے ہیں پیار کی ... اردو ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: اعظم بیگ ... شاعر: مشیر کاظمی ... اداکار: حبیب |
1. | 1970: Yeh Rastay Hayn Pyar Kay(Urdu) |
1. | Urdu filmYeh Rastay Hayn Pyar Kayfrom Friday, 20 March 1970Singer(s): Masood Rana, Music: Azam Baig, Poet: , Actor(s): Habib |
پاکستان فلم میگزین ، سال رواں یعنی 2023ء میں پاکستانی فلموں کے 75ویں سال میں مختلف فلمی موضوعات پر اردو/پنجابی میں تفصیلی مضامین پیش کر رہا ہے جن میں مکمل فلمی تاریخ کو آن لائن محفوظ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
قبل ازیں ، 2005ء میں پاکستانی فلموں کا عروج و زوال کے عنوان سے ایک معلوماتی مضمون لکھا گیا تھا۔ 2008ء میں پاکستانی فلموں کے ساٹھ سال کے عنوان سے مختلف فنکاروں اور فلموں پر مختصر مگر جامع مضامین سپردقلم کیے گئے تھے۔ ان کے علاوہ پاکستانی فلموں کے منفرد ڈیٹابیس سے اعدادوشمار پر مشتمل بہت سے صفحات ترتیب دیے گئے تھے جن میں خاص طور پر پاکستانی فلموں کی سات دھائیوں کے اعدادوشمار پر مشتمل ایک تفصیلی سلسلہ بھی موجود ہے۔
تازہ ترین
دیگر مضامین