Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


Pakistan Film History

Punjabi film history

An Urdu/Punjabi article on the history of Punjabi films.

پنجابی فلموں کی تاریخ

برصغیر کی
پنجابی فلموں کی
مختصر مگر جامع تاریخ

1931ء میں برصغیر کی فلموں کو زبان ملی تو اردو/ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی فلمیں بننا شروع ہوگئیں۔

لاہور میں بولتی فلموں کا آغاز ہوا تو پہلی پنجابی فلم ہیررانجھا (1932) اور دوسری پنجابی فلم گوپی چند (1933) بنائی گئیں۔ برصغیر پاک و ہند کی پہلی دونوں پنجابی فلمیں بنانے کا اعزاز ، لاہور فلم انڈسٹری کے بانی ، ممتاز فلمساز اور ہدایتکار اے آر کاردار کو حاصل ہوا۔

چند سال بعد ممبئی میں پہلی پنجابی فلم عشقِ پنجاب (1935) بنائی گئی تو سال بعد کولکتہ کی بنی ہوئی پہلی پنجابی فلم شیلا عرف پنڈ دی کڑی (1936) بھی منظر عام پر آئی۔

ان ابتدائی چاروں فلموں پر برصغیر کی پہلی پنجابی فلم کے عنوان سے تفصیل سے لکھا جا چکا ہے ، یہاں تقسیم سے قبل کی دیگر پنجابی فلموں ، گیتوں ، فنکاروں اور اہم ترین واقعات پر مختصراً بات ہوگی۔

پنجابی فلموں کے موضوعات

ابتدائی دور کی پنجابی فلمیں ہلکی پھلکی رومانٹک اور نغماتی فلمیں ہوتی تھیں جو عام طور پر پنجاب کی خالص لوک داستانوں ، ہیر رانجھا ، سوہنی مہینوال ، مرزا صاحباں ، سہتی مراد اور دلا بھٹی کے علاوہ ہندوؤں کی بے شمار دیومالائی داستانوں اور دیگر بدیسی قصے کہانیوں یعنی سسی پنوں ، گل بکاؤلی اور لیلیٰ مجنوں وغیرہ سے متاثر ہوتی تھیں۔

ان سبھی لوک داستانوں کو کہانیوں ، ڈراموں اور گیتوں کی صورت میں لوک فنکار عوامی میلوں ٹھیلوں میں پیش کیا کرتے تھے جنھیں فلموں کی صورت میں پردہ سیمیں پر پیش کیا گیا۔ بعد میں پنجاب کے سادہ دیہاتی ماحول میں بنی ہوئی سماجی موضوعات پر فلمیں بھی عام ہوئیں جن کی سب سے بڑی پہچان ان کے دلکش گیت ہوتے تھے جو عام طور پر مشہور زمانہ لوک گیتوں کی دھنوں سے متاثر ہوتے تھے۔

پہلی سپرہٹ پنجابی فلم ہیرسیال (1938)

برصغیر میں پنجابی فلموں کے عروج کا دور کولکتہ (کلکتہ) کی فلم ہیرسیال سے شروع ہوا جو 2 دسمبر 1938ء کو ریلیز ہونے والی پہلی سپرہٹ اور سلورجوبلی پنجابی فلم ثابت ہوئی تھی۔

فلم ہیرسیال (1938)
برصغیر کی پہلی سپرہٹ پنجابی فلم تھی
فلم ہیرسیال (1938)
برصغیر کی پہلی سپرہٹ پنجابی فلم تھی

پنجابی زبان کے شیکسپئر کہلائے جانے والے سید وارث شاہؒ کی لازوال داستان "ہیر" پر بنائی جانے والی کلکتہ کی ایک فلم کمپنی ، اندرا مووی ٹون کی اس پہلی پنجابی فلم کے فلمساز سیٹھ موتی لال اور ہدایتکار کے ڈی مہرہ (کشن دیو مہرہ) تھے۔

معاون ہدایتکار ہونے کے علاوہ سکرین پلے ، مکالمے اور گیت فضل دین شرف عرف ایف ڈی شرف نے لکھے جن کی یہ پہلی فلم تھی۔ پاکستان کے ابتدائی دور میں متعدد فلموں کے علاوہ میڈم نورجہاں کا گایا ہوا مشہور زمانہ گیت "وے منڈیا سیالکوٹیا۔۔" ان کی پہچان رہا ہے۔

فلم ہیرسیال (1938) کے فنکار

فلم ہیرسیال (1938) بنانے والے سبھی فنکار پنجاب سے تعلق رکھتے تھے جو بہتر سہولیات اور مواقع کی تلاش میں برصغیر کے دوسرے بڑے اور بنگالی فلموں کے سب سے بڑے فلم سینٹر کلکتہ میں مقیم تھے۔

اس فلم میں "ہیر" کا مرکزی کردار اقبال بیگم عرف بالو نے کیا جو گجرات سے اپنے ایک آشنا (محمدعلی ماہیا) کے ساتھ بھاگ کر کلکتہ جا پہنچی تھی۔ وہاں سٹیج پر اداکاری کے علاوہ اپنے خاوند کے ساتھ پنجابی لوک گیتوں کی مشہور صنف "ماہیا" گانے میں مشہور ہوئی۔ یہ شہرت اسے فلم تک لے آئی اور دو فلموں میں کام کرنے کے بعد ایک بچی (صبیحہ خانم) کو جنم دے کر جوانی ہی میں انتقال کر گئی تھی۔

"ہیر" ، "بالو" کے علاوہ "رانجھا" ، "بالی" تھے جنھوں نے "پی این بالی" کے نام سے کلکتہ کی آدھ درجن فلموں میں کام کیا۔ مصنف ایف ڈی شرف نے بھی اس فلم میں اداکاری کی تھی۔

فلم ہیرسیال (1938) کا سب سے اہم کردار ، ایم اسماعیل کا تھا جو تیسری بار کیدو بنے۔ قبل ازیں ، بمبئی کی خاموش فلم ہیررانجھا (1929) اور لاہور کی پہلی متکلم اور پنجابی فلم ہیررانجھا (1932) میں بھی یہی کردار کر چکے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد پنجابی فلم ہیرسیال (1965) میں بھی انھوں نے یہی رول کیا تھا۔

فلم ہیرسیال (1938) میں موسیقار ماسٹردھومی خان نے کچھ کم نہیں ، پورے بیس گیت کمپوز کیے۔ لوک گیتوں سے متاثر ایف ڈی شرف کے لکھے ہوئے متعدد گیت ضرب المثل بنے ، مثلاً "چناں وے تیری چاننی ، تاریا وے تیری لوہ۔۔" ، "جا چڑھ جا ڈولی۔۔" اور "اچیاں لمیاں ٹاہلیاں وے۔۔" وغیرہ شامل تھے۔ ممتاز گلوکارہ شمشاد بیگم کی یہ پہلی پنجابی فلم تھی۔

بے بی نور جہاں کا جادو

پہلی سپرہٹ پنجابی فلم ہیرسیال (1938)
کی کامیابی کی بڑی وجہ بے بی نور جہاں تھی
پہلی سپرہٹ پنجابی فلم ہیرسیال (1938)
کی کامیابی کی بڑی وجہ بے بی نور جہاں تھی

برصغیر کی پہلی سپرہٹ پنجابی فلم ہیرسیال (1938) میں بطور اداکارہ اور گلوکارہ نظر آنے والی ایک بے بی نورجہاں بھی تھی جو لاہور کے سٹیج پر زبردست کامیابی کے بعد "پنجاب میل" کے نام سے ایک میوزیکل گروپ کے ساتھ کلکتہ کے دورے پر تھی جہاں اس کی مقبولیت کو کیش کروانے کے لیے متعدد فلموں میں کاسٹ کیا گیا۔ اس کی دونوں بہنیں ، حیدرباندی اور عیدن بائی بھی اس فلم کی کاسٹ میں شامل تھیں۔

کلکتہ کی پہلی پنجابی فلم شیلا عرف پنڈ دی کڑی (1936) میں کام کرنے کے بعد فلم ہیرسیال (1938) کی کامیابی کی بڑی وجہ بھی بے بی نورجہاں ہی تھی جس کی گائیکی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور جسے پردہ سیمیں پر دیکھنے اور سننے کے لیے لوگ سینماؤں پر ٹوٹ پڑے تھے۔

فلم میں ایک ثانوی اور غیر اہم رول ہونے کے باوجود فلم کے پوسٹروں اور اخباری اشتہارات وغیرہ پر بےبی نورجہاں کو ہیروئن کے مقابلے میں نمایاں طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ اس فلم میں اداکاری کے علاوہ اس کا گایا ہوا صرف ایک ہی گیت تھا جو اسی پر فلمایا گیا ہوگا۔ گیت کے بول تھے:

  • سوہنیاں دیساں اندر ، دیس پنجاب نی سیو۔۔

پنچولی آرٹ پکچرز کا قیام

فلم ہیرسیال (1938) کی زبردست کامیابی سے ایک بہت بڑا کاروباری تنازعہ پیدا ہوا جس نے لاہور کی سب سے بڑی فلم کمپنی "پنچولی آرٹ پکچرز" کو جنم دیا تھا۔

یہ فلم میکلوڈ روڈ لاہور کے سینما پربھات (صنوبر/ایمپائر) پر ریلیز ہوئی جو ایک فلم ڈسٹری بیوٹر سیٹھ دل سکھ پنچولی کی ملکیت تھا۔ فلم کا بزنس توقع سے بڑھ کر تھا جس نے فلم بنانے اور دکھانے والوں کو مالا مال کر دیا تھا۔

فلم ہیرسیال (1938) کی کمائی سے سیٹھ پنچولی نے خود فلمسازی کا فیصلہ کیا اور لاہور کے ایک تجربہ کار ہدایتکار روشن لال شوری سے پنجاب کی ایک اور مشہور لوک داستان ، سوہنی مہینوال (1939) پر فلم بنوانے کا اعلان کیا۔

کلکتہ کی اندرا مووی ٹون کے کرتا دھرتا ، فلمساز اور ہدایتکار کے ڈی مہرہ کو یہ بات پسند نہیں آئی اور مقابلے میں انھوں نے اسی موضوع پر فلم سوہنی کمہارن (1939) بنانا شروع کر دی۔ یہ دونوں فلمیں ایک ساتھ بنیں اور ایک ہی دن یعنی 3 مارچ 1939ء کو ریلیز ہوئیں۔ لاہور کی فلم پٹ گئی لیکن کلکتہ کی فلم ہٹ ہو گئی تھی۔

سوہنی مہینوال بمقابلہ سوہنی کمہارن

پہلی بار مقابلے کی فضا میں بننے والی دونوں پنجابی فلموں ، سوہنی مہینوال اور سوہنی کمہارن (1939) کی کامیابی اور ناکامی کی اہم وجوہات میں گو معیار اور تجربہ بھی اہم تھا لیکن سب سے بڑی وجہ فلم کی کاسٹ کریڈٹ تھی کیونکہ بیشتر فلم بین ہر دور میں نامور فنکاروں کو دیکھنا زیادہ پسند کرتے رہے ہیں۔

فلم سوہنی مہینوال اور سوہنی کمہارن
مقابلے میں بننے والی پہلی پنجابی فلمیں
فلم سوہنی مہینوال اور سوہنی کمہارن
مقابلے میں بننے والی پہلی پنجابی فلمیں

بھرپور فلم پبلسٹی کے باوجود لاہور کی فلم سوہنی مہینوال (1939) کی یہی بڑی کمزوری تھی جو اس کی ناکامی کی وجہ بنی۔ گو اس فلم میں ایم اسماعیل جیسے مقبول ترین فنکار کے علاوہ اجمل جیسے مایہ ناز اداکار کی یہ پہلی فلم تھی لیکن الماس بائی اور بشیر قوال ، مرکزی کرداروں میں تھے جو عین ممکن ہے کہ اس دور کے مقبول لوک فنکار ہوں لیکن فلم بینوں نے انھیں قبول نہیں کیا تھا۔

اس فلم کی کہانی اور گیت اس دور کے ایک نامور پنجابی شاعر استاد ہمدم نے لکھے جن کی یہ اکلوتی فلم ثابت ہوئی۔ وہ ، عوامی شاعر استاد دامن کے استاد تھے۔

موسیقی البتہ اچھی تھی اور عظیم موسیقار جی اے چشتی نے اپنی پہلی ہی پنجابی فلم میں "چھبی دیا چنیاں ، میں مل مل دھونی آں۔۔" جیسا ہٹ گیت دیا تھا۔ امراؤ ضیاء بیگم نے یہ گیت گایا تھا۔

کلکتہ کی فلم سوہنی کمہارن (1939) ایک بڑی کاسٹ کریڈٹ کی فلم تھی جس میں سپرہٹ فلم ہیرسیال (1938) کے ہیرو پی این بالی کے ساتھ سینئر اداکارہ خورشید کے علاوہ ایک نئی جوڑی متعارف کروائی گئی جس میں ممتاز شانتی کے ساتھ مبارک علی خان بھی تھے جو بڑے غلام علی خان کے چھوٹے بھائی تھے۔ فلم کی کہانی اور گیت ولی صاحب نے لکھے جو متعدد فلموں میں اپنے جوہر دکھا چکے تھے لیکن یہ ان کی پہلی پنجابی فلم تھی۔ موسیقار کے طور پر شیام سندر کا نام آتا ہے جنھوں نے آگے چل کر عظیم گلوکار محمدرفیع کو متعارف کروایا تھا۔

پنچولی بمقابلہ شوری

پہلی بار مقابلے کی فضا میں بننے والی لاہور اور کلکتہ کی فلموں کی کاسٹ کریڈٹ کے اس نمایاں فرق کے علاوہ مبینہ طور پر کچھ "محلاتی سازشیں" بھی تھیں جو ہر دور میں ہوتی رہی ہیں۔

روایت ہے کہ پڑوسی ملک میں "بابائے پنجابی فلم" کے نام سے یاد رکھے جانے والے کشن دیو مہرہ (کے ڈی مہرہ) نے درپردہ سازباز سے روشن لال شوری سے سیٹھ پنچولی کی فلم کمزور بنوائی اور انعام کے طور پر اس سے اسی دوران اپنی ایک پنجابی فلم پورن بھگت (1939) بھی بنوالی۔ بعد میں مالی معاونت سے انھیں سیٹھ پنچولی کے مقابل لا کھڑا کیا۔ اس طرح سیٹھ دل سکھ پنچولی اور روشن لال شوری (مع اپنے بیٹے روپ کے شوری) کاروباری حریف بن گئے۔ فلم سوہنی مہینوال (1939) ، سیٹھ پنچولی کی شوری فیملی کے ساتھ اکلوتی فلم تھی۔

سیٹھ پنچولی نے بھی کے ڈی مہرہ کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اور اندرو مووی ٹون کے متعدد فنکاروں کو "توڑ" لیا جن میں سب سے بڑا نام بےبی نورجہاں کا تھا۔ یاد رہے کہ اس دور میں سبھی فنکار ، فلم کمپنیوں کے تنخواہ دار ملازم ہوتے تھے اور معاہدے کے مطابق انھیں کسی دوسری فلم کمپنی کے لیے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔

1940 کی دھائی میں لاہور میں دیگر چھوٹی بڑی فلم کمپنیاں اور فلم سٹوڈیوز بھی تھے لیکن فلمسازی کے میدان میں "پنچولی پکچرز" اور "شوری پکچرز" کی اجارہ داری ہوتی تھی۔

پہلی بلاک باسٹر پنجابی فلم گل بکاؤلی (1939)

کلکتہ کی اندرا مووی ٹون نے پہلا معرکہ تو جیت لیا لیکن جنگ نہ جیت سکے۔ اس سال لاہور کی پنچولی پکچرز کی پہلی پنجابی فلم گل بکاؤلی (1939) نے میدان مار لیا اور برصغیر کی پہلی بلاک باسٹر پنجابی فلم ثابت ہوئی۔ روایت ہے کہ اس فلم پر کل لاگت اس وقت کے 60 ہزار روپے آئی لیکن کمائی 15 لاکھ روپے تھی جو آج کے پندرہ ارب روپوں سے بھی زیادہ بنتے ہیں۔

فلم گل بکاؤلی (1939) ، فلم ہیرسیال (1938) سے بھی زیادہ کامیاب ہوئی۔ اس فلم کی ہوشربا کمائی سے فلمساز سیٹھ دل سکھ پنچولی نہ صرف لاہور میں مزید سینماؤں کے مالک بنے بلکہ لاہور کے پورش علاقوں ، مال روڈ اور مسلم ٹاؤن میں دو بڑے اور جدید فلم سٹوڈیوز بنانے میں بھی کامیاب ہوئے۔

فلم گل بکاؤلی (1939)
نے بے بی نورجہاں کو سپرسٹار بنا دیا تھا
فلم گل بکاؤلی (1939)
نے بے بی نورجہاں کو سپرسٹار بنا دیا تھا

فلم گل بکاؤلی (1939) ، لاہور کے علاوہ ملتان کے نیو کراؤن اور راولپنڈی کے امپیرئل سینما پر بھی 10 نومبر 1939ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ اس وقت سینما گھر چند بڑے شہروں تک محدود ہوتے تھے جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں موبائل تھیٹر ہوتے تھے جو مختلف میلوں ٹھیلوں میں خیموں میں فلمیں دکھایا کرتے تھے۔ اس کے باوجود فلم کا یہ ہوشربا بزنس ہوا جو ضروری نہیں کہ سو فیصدی درست بھی ہو۔ سبھی تاریخی واقعات من و عن درست نہیں ہوتے ، عام طور پر ان میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی اور غلط بیانی ہوتی ہے۔

فلم گل بکاؤلی (1939) کے ٹائٹل رولز تو ہیم لتا اور سلیم رضا نے کیے لیکن فلم کے پوسٹروں اور اشتہارات پر حسب معمول ایم اسماعیل اور بےبی نورجہاں نمایاں تھے۔

یہی فلم عظیم موسیقار ماسٹرغلام حیدر کی پہلی کامیاب فلم تھی جس میں انھوں نے ولی صاحب کا لکھا ہوا یہ لازوال گیت بے بی نورجہاں سے گوایا تھا:

  • شالا جوانیاں مانیں ، آکھا نہ موڑیں ، پی لے۔۔

اس گیت نے بے بی نورجہاں کو سپرسٹار بنا دیا تھا اور پھر زندگی بھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔۔!

اس کے علاوہ انھوں نے اس دور میں لاہور کی ایک مشہور گلوکارہ تمنچہ جان سے بھی ایک گیت گوایا تھا:

  • گھوک میری قسمت سو گئی ضرور اوئے ، سجناں دے باجوں سانوں مرنا ضرور اوئے۔۔

فلم سسی پنوں (1939)

فلم ہیرسیال (1938) کے بعد کلکتہ کی فلم کمپنی اندرا مووی ٹون نے ایک اور کامیاب پنجابی فلم سسی پنوں (1939) بھی بنائی جس میں اداکارہ بالو دوسری اور آخری بار ہیروئن آئی۔

بےبی نورجہاں نے بالو یا سسی کے بچپن کا ثانوی رول کیا لیکن پھر بھی فلم کے پوسٹر پر اس کی موجودگی لازمی تھی۔ اس فلم میں ہیرو ، محمد اسلم نامی ایک گمنام اداکار تھا۔ بالو کے خاوند محمدعلی ماہیا نے بھی ایک رول کیا تھا۔

فلم سسی پنوں (1939) کے ہدایتکار داؤد چاند تھے جن کی یہ پہلی پنجابی فلم تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی فلم کی کہانی پر انھوں نے پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی سپرہٹ اردو فلم سسی (1954) بھی بنائی جس میں انھوں نے اداکارہ بالو کی بیٹی صبیحہ خانم کو ٹائٹل رول میں پیش کیا تھا۔ یاد رہے کہ داؤد چاند کو پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

فلم سسی پنوں (1939) کے گیت بھی ایف ڈی شرف نے لکھے اور ماسٹر دھومی خان کی موسیقی تھی۔ بے بی نورجہاں کے کردار کے لیے بطور خاص یہ گیت تخلیق کیا گیا جو اسی نے گایا اور اسی پر فلمایا گیا تھا:

  • میرے بابل دا مکھڑا پیارا ، میری امی اے روشن تارا۔۔

1939ء کی دیگر فلمیں

پنجابی فلموں کے ابتدائی سات برسوں میں صرف پانچ فلمیں ریلیز ہوئیں لیکن 1939ء کے صرف ایک کیلنڈر ایئر میں کل سات پنجابی فلمیں سامنے آئیں جن میں کلکتہ کی 4 ، لاہور کی 2 اور بمبئی کی ایک پنجابی فلم شامل تھی۔

اس سال بمبئی کی بنائی ہوئی اکلوتی پنجابی فلم مرزا صاحباں (1939) تھی جو وہاں مقیم پنجاب کے فنکاروں نے بنائی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بمبئی کی پہلی پنجابی فلم عشقِ پنجاب (1935) بھی اسی کہانی پر بنائی گئی تھی جس کی تمام تر شوٹنگ مقامی فنکاروں کے ساتھ پنجاب میں کی گئی تھی۔

بمبئی کی پنجابی فلم مرزا صاحباں (1939) میں ہیرو کا رول کرنے والے ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے معروف اداکار ظہور راجہ کے علاوہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے نامور کامیڈین ، اے شاہ شکارپوری کی بھی پہلی پنجابی فلم تھی۔ الا دیوی نامی غیر معروف اداکارہ ہیروئن تھی۔ گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے دینا ناتھ مدھوک (ڈی این مدھوک) ، ہدایتکار ، مصنف اور گیت نگار تھے۔

کلکتہ کی فلم کمپنی اندرا مووی ٹون نے اس سال پنجابی فلم پورن بھگت (1939) کے علاوہ اپنی ایک اور ہندو دیومالائی داستان پر بنائی گئی پنجابی فلم بھگت سورداس (1939) ، لاہور کی ایک فلم کمپنی کے تعاون سے بنائی تھی۔ اس فلم میں سعیدہ بانو نامی اداکارہ کا نام ملتا ہے جو ممکن ہے کہ سورن لتا ہو؟

پنجابی فلموں کا سنہرا دور

1940ء کا سال ، پنجابی فلموں کی تاریخ میں ایک یادگار سال تھا جب ایک سال میں 9 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اس سال بھی کلکتہ کی سب سے زیادہ یعنی 5 فلمیں ریلیز ہوئیں جبکہ لاہور کی 3 اور بمبئی کی ایک فلم تھی اور وہ بھی ایک ڈبل ورژن ہندی/اردو/پنجابی فلم تھی۔

فلم دلا بھٹی (1940)

اس سال کی پہلی بڑی نغماتی اور ایکشن فلم دلا بھٹی (1940) تھی جو روشن لال شوری کے ہونہار بیٹے روپ کے شوری کی پہلی پنجابی فلم تھی۔ اس فلم نے لاہور کو اس کی پہلی سپرسٹار ہیروئن راگنی دی تھی۔ ایم ڈی کنور ، ٹائٹل رول میں تھے۔

کملا مووی ٹون کو کلکتہ کی اندرا مووی ٹون کا تعاون حاصل تھا۔ آگے چل کر یہ فلم کمپنی ، "شوری پکچرز" کے نام سے مشہور ہوئی تھی جس کے کرتا دھرتا روپ کے شوری تھے جو لاہور کے متعدد سینماؤں کے علاوہ ملتان روڈ لاہور پر واقع شوری فلم سٹوڈیو کے مالک اور معروف اداکارہ مینا شوری کے آدھ درجن شوہروں میں سے ایک تھے۔

فلم دلا بھٹی (1940) کی کامیابی میں اس فلم کی موسیقی کا بڑا دخل تھا۔ موسیقار پنڈت گوبند رام کی دھن میں عزیز کاشمیری اور ایف ڈی شرف کے گیتوں نے دھوم مچا دی تھی۔ نئی اداکارہ راگنی پر فلمائے ہوئے گیتوں کو اس دور کی ایک نامور لوک گلوکارہ ، رشیدہ بیگم نے گایا تھا:

  • ایس روگ دا ناں اے کی اڑیو ، گیا اندرو اندرے پی اڑیو۔۔
  • رب دی جناب وچوں ایخو دل منگدا۔۔
  • آکھے نہ لگدی انھی جوانی۔۔
  • بول بول نی گلیلے میرے چن دیے۔۔

فلم یملا جٹ (1940)

اسی سال کی ایک بہت بڑی فلم یملا جٹ (1940) تھی جس کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس فلم کے پوسٹرز اور اخباری اشتہارات سے نورجہاں کے نام سے "بےبی" حذف کردیا گیا تھا کیونکہ اب وہ تیرہ چودہ سال کی الھڑ دوشیزہ تھی اور پہلی بار ایک چائلڈ سٹار کی بجائے معاون اداکارہ کے طور پر سامنے آئی تھی۔

نورجہاں نے فلم یملا جٹ (1940) میں ٹائٹل رول کرنے والے ایم اسماعیل کی چھوٹی بیٹی کا کردار کیا جو اپنی بڑی لیکن گمراہ بہن انجنا کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ ، دولت کے ایک حریص ، چالباز اور شادی شدہ شہری بابو ، پران کی محبت میں گرفتار ہو کر بہن ، باپ اور منگیتر تک کو نظر انداز کر دیتی ہے لیکن آخر میں پچھتاتی ہے۔

اداکارہ پران کی یہ پہلی فلم تھی جو 1940 کی دھائی میں لاہور کی فلموں کے ایک مقبول اداکار تھے اور تقسیم کے بعد بھارتی فلموں کے چوٹی کے ولن اداکار بنے۔

اس سپرہٹ پنجابی فلم کے لیے سندھ میں پیدا ہونے والے ہدایتکار موتی بی گڈوانی کو بمبئی سے بلوایا گیا جن کے کریڈٹ پر ہندوستان کی پہلی رنگین فلم کسان کنیا (1935) بھی تھی۔ ولی صاحب کی کہانی اور گیت تھے جبکہ ایڈیٹر ، سید شوکت حسین رضوی تھے جو کلکتہ سے (شاید) نورجہاں کے عشق میں لاہور چلے آئے تھے۔

فلم یملا جٹ (1940) میں موسیقار ماسٹر غلام حیدر کے کمپوز کیے ہوئے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے۔ فلم کی ہیروئن کے لیے گیت ، شمشاد بیگم سے گوائے گئے جب کہ نورجہاں کے گائے ہوئے گیت اسی پر فلمائے گئے جن میں سے مندرجہ ذیل گیت بڑے مقبول ہوئے تھے:

1940ء کی دیگر پنجابی فلمیں

کلکتہ کی پانچوں پنجابی فلموں میں سے ہندو دیومالائی داستان پر بننے والی فلم متوالی میرا (1940) ، ممتاز اداکارہ اور گلوکارہ مختاربیگم کی پہلی پنجابی فلم تھی۔ وہ اپنے شوہر ، عظیم ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کے ساتھ کلکتہ میں مقیم تھیں اور انھی کی کوشش سے بے بی نورجہاں کو کلکتہ کی پہلی پنجابی فلم شیلا عرف پنڈ دی کڑی (1936) میں کاسٹ کیا گیا تھا۔

دیگر چاروں فلمیں اندرا مووی ٹون کی تھیں جن میں سے مشہور عربی لوک داستان لیلیٰ مجنوں (1940) میں پشپا رانی نامی اداکارہ کے ساتھ پی این بالی کو ٹائٹل رولز میں پیش کیا گیا۔ فلم مردپنجاب اور جگا ڈاکو (1940) میں گل زمان کو بھی پشپا رانی کے مقابل ہیرو اور ٹائٹل رولز میں پیش کیا گیا جبکہ فلم میرا پنجاب (1940) ، ایک گمنام فلم تھی جس میں پریم کماری نامی اداکارہ کو ہیرا لال کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔

اسی سال لاہور کی ایک پنجابی فلم اک مسافر (1940) اس لحاظ سے منفرد تھی کہ دو باپ بیٹے ، روپ کے شوری اور روشن لال شوری ، اس فلم کے ہدایتکار تھے۔ اس فلم میں منیکا نامی اداکارہ کے ساتھ مبارک علی خان ، ہیرو تھے۔

پہلی ڈبل ورژن پنجابی/ہندی/اردو فلم

اس سال بمبئی کی اکلوتی پنجابی فلم علی بابا چالیس چور (1940) ریلیز ہوئی جو برصغیر کی پہلی ڈبل ورژن تھی۔ بنیادی طور پر اس فلم کو ہندی/اردو میں بنایا گیا لیکن پنجابی زبان میں ڈب کر کے پنجاب سرکٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ اس فلم کا ٹائٹل رول اداکار غلام محمد نے کیا جن کا اپنا تعلق لاہور سے تھا لیکن بمبئی کی امپیرئل فلم کمپنی کے مقبول ترین ولن اداکار تھے۔

اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے ہدایتکار محبوب خان تھے جو مدرانڈیا (1957) جیسی تاریخ ساز فلم کے خالق تھے۔ اس فلم میں انھوں نے اپنی بیگم سردار اختر کو سریندر ناتھ نامی اداکار کے ساتھ مرکزی جوڑی کی صورت میں پیش کیا تھا۔

پنجابی فلموں کا عروج و زوال

1941ء کا سال بھی پنجابی فلموں کے انتہائی عروج کا سال تھا جو زوال کا سال بھی بن گیا کیونکہ اس کے بعد تقسیم تک ایسا عروج پھر کبھی نہ مل سکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسی سال لاہور کی ہندی/اردو فلم خزانچی (1941) نے ملک بھر میں ریکارڈ توڑ بزنس کیا جس کی وجہ سے ہر فلمساز کی خواہش ہوتی تھی کہ پنجاب کے محدود سرکٹ کی بجائے پورے ہندوستان کے لیے فلمیں بنائی جائیں جو ہندی/اردو ہی میں ہو سکتی تھیں۔

اس سال بھی 9 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں لاہور کی 3 ، بمبئی کی ایک اور کلکتہ کی آخری 5 پنجابی فلمیں ریلیز ہوئیں۔

فلم چوہدری (1941)

اس سال کی سب سے بڑی پنجابی فلم چوہدری (1941) تھی جو میڈم نورجہاں کی بطور ہیروئن پہلی فلم تھی۔۔!

پنچولی پکچرز کی کامیابیوں کی یہ ہٹ ٹرک بھی تھی۔ اس فلم کا ٹائٹل رول اداکار غلام محمد نے کیا جن کے نائب کے طور پر درگا موٹا تھے جو اس دور میں لاہور کی فلموں کے مقبول ترین مزاحیہ اداکار تھے اور 1947ء میں ایک ٹریفک حادثہ میں ہلاک ہو گئے تھے۔ نورجہاں ، ایس پال اور روپ لیکھا دیگر اہم کردار تھے۔ سید شوکت حسین رضوی کو ایڈیٹر سے فلم کے معاون ہدایتکار بننے کا موقع بھی اسی فلم سے ملا تھا۔

پاکستان کی پنجابی فلموں کے ممتاز ہدایتکار وحید ڈار کی پہلی فلم خلیفہ (1965) ، فلم چوہدری (1941) کی نقل تھی جس میں نورجہاں ، ایس پال ، غلام محمد ، درگا موٹا اور روپ لیکھا کے کردار بالترتیب نغمہ ، حبیب ، مظہرشاہ ، آصف جاہ اور ناصرہ نے ادا کیے تھے۔

نور جہاں ، بطور ہیروئن

عام طور پر ہم یہ سنتے آئے ہیں کہ میڈم نورجہاں کی بطور ہیروئن پہلی فلم خاندان (1942) تھی لیکن یہ درست نہیں ہے۔ میڈم نورجہاں کی مکمل ہیروئن کے طور پر پہلی فلم چوہدری (1941) تھی جس میں اس کے ہیرو ایس پال تھے۔

میڈم نورجہاں نے فلم چوہدری (1941) میں پہلی بار رومانٹک گیت گائے جو بطور ہیروئن اسی پر فلمائے گئے تھے۔ ایف ڈی شرف اور ناظم پانی پتی کے لکھے ہوئے اور ماسٹر غلام حیدر کی موسیقی میں اس فلم کے بیشتر گیت بڑے مقبول ہوئے جو آن لائن موجود ہیں:

اتفاق سے تقسیم سے قبل میڈم نورجہاں کی بطور ہیروئن یہ اکلوتی اور بطور اداکارہ اور گلوکارہ آخری پنجابی فلم بھی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈم نے تقسیم سے قبل لاہور کی صرف تین پنجابی فلموں میں کام کیا اور تینوں فلموں میں مختلف انداز میں نظر آئی۔ پہلی فلم گل بکاؤلی (1939) میں چائلڈ سٹار کے طور پر ، دوسری فلم یملا جٹ (1940) میں معاون اداکارہ کے طور پر اور تیسری اور آخری پنجابی فلم چوہدری (1941) میں مکمل ہیروئن کے طور پر سامنے آئی۔

1941ء کی دیگر فلمیں

1941ء میں لاہور کی پہلی سپرسٹار ہیروئن راگنی کی دو پنجابی فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں فلم میرا ماہی (1941) میں اس کے ہیرو کرن دیوان تھے جو لاہور کے ایک فلمی صحافی تھے اور ایک کامیاب ہیرو بنے۔ دوسری فلم سہتی مراد (1941) تھی جس میں ماسٹر غلام حیدر کی دھن میں شمشاد بیگم کا یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا:

  • اچی ماڑی تے دودھ پئی رڑکاں ، مینوں سارے ٹبر دیاں جھڑکاں۔۔

اس سال بمبئی کی بنائی ہوئی اکلوتی پنجابی فلم کڑمائی (1941) تھی جس کی خاص بات یہ تھی کہ عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی یہ پہلی فلم تھی۔

دوسری اہم بات یہ تھی کہ لاہور فلم انڈسٹری کے بانی ، اے آر کاردار کی بطور فلمساز یہ اکلوتی پنجابی فلم تھی جنھیں یقیناً پردیس میں اپنے دیس اور اپنی مادری زبان کی یاد ستا رہی ہوگی۔ رادھا رانی ، واسطی اور اے شاہ مرکزی کردار تھے۔

اس فلم کے متعدد گیت آن لائن موجود ہیں جو یقیناً اس دور میں بڑے مقبول ہوئے ہوں گے:

  • مائے نی بوہا کھڑکے ، دل دھڑکے۔۔ (راج کماری)
  • گوٹے دا ہار وے میں گل وچ پانی آں۔۔ (راج کماری ، جی ایم درانی)

کلکتہ کی پنجابی فلموں کا زوال

1941ء میں کلکتہ میں آخری پانچ پنجابی فلمیں بنائی گئیں جن میں اندرا مووی ٹون کے علاوہ دیگر فلم کمپنیوں کی فلمیں بھی شامل تھیں۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ پنجابی فلموں کے عظیم موسیقار جی اے چشتی ، اس برس مصروف ترین موسیقار تھے جنھوں نے پردیسی ڈھولا (1941) ، چنبے دی کلی (1941) اور مبارک (1941) نامی فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ ولی صاحب نے گیت لکھے تھے۔ ان فلموں میں رمولا ، ممتاز شانتی اور جہاں آرا کجن کو مرکزی کرداروں میں پیش کیا گیا تھا۔

کلکتہ میں بننے والی چوتھی پنجابی فلم سپاہی (1941) تھی جس کا ٹائٹل رول غلام محمد نے کیا تھا۔ ہدایتکار داؤد چاند تھے اور یہ اندرا مووی ٹون کی آخری پنجابی فلم تھی۔ اس فلم کمپنی نے ڈیڑھ درجن فلمیں بنائیں جن میں سے آدھی پنجابی فلمیں تھیں۔

اس سال کلکتہ کی پانچویں اور آخری فلم چترا بکاؤلی (1941) تھی جس میں مختار بیگم کے ساتھ پی این بالی تھے۔ اس فلم کے اس گیت کی شاعری بڑی دلچسپ تھی:

  • اے حُسن وی رب دی شان اے ، سارا جگ جس تے قربان اے۔۔ (مختار بیگم)

پہلی گولڈن جوبلی پنجابی فلم منگتی (1942)

1941ء کے بعد کلکتہ میں پنجابی فلمیں بننا بند ہوگئیں۔ بمبئی میں بھی تقسیم تک صرف دو فلمیں بنیں۔

1942ء میں صرف 5 پنجابی فلمیں سامنے آئیں جن میں ایک بمبئی کی اور باقی چاروں فلمیں لاہور کی تھیں۔

اس سال کی سب سے بڑی فلم منگتی (1942) تھی جو برصغیر پاک و ہند کی پہلی سپرہٹ گولڈن جوبلی پنجابی فلم قرار پائی۔ روایت ہے کہ یہ فلم ایک سال سے زائد عرصہ تک ایک ہی سینما پر چلتی رہی تھی۔

فلم منگتی (1942) میں ممتاز شانتی کے ہیرو مسعود پرویز تھے جو پاکستان میں فلم ہدایتکار کے طور پر مشہور ہوئے۔ انتظار (1956) ، کوئل (1959) اور ہیررانجھا (1970) ان کی کلاسک فلمیں تھیں۔

اس دور کے دیگر مشہور فنکاروں ، منورما ، مجنوں ، گل زمان ، غلام قادر اور کملا کے علاوہ امین ملک نے بھی اس فلم میں کام کیا جو پاکستان میں متعدد فلموں کے علاوہ چوڑیاں (1963) جیسی سپرہٹ فلم کے ہدایتکار تھے۔

فلم منگتی (1942) ، 1940 کی دھائی کی ممتاز گلوکارہ زینت بیگم کے فلمی کیرئر کی بہت بڑی نغماتی فلم تھی جس میں اس نے سبھی گیت گائے تھے۔ موسیقار گوبند رام اور گیت نگار ناظم پانی پتی اور نند لال نورپوری کے لکھے ہوئے بیشتر گیت سپرہٹ ہوئے جو آن لائن موجود ہیں:

  • مینوں ستیاں نیند نہ آوے ، ماہی میرا غصے غصے۔۔
  • آویں چن وے ، نہر دے کنڈے دے اتے۔۔
  • اے دنیا تاں خوش ہوندی اے ، نہ توں ہوویں ، نہ میں ہوواں۔۔
  • دن چڑھیا تے بانکیاں ناراں ، کھوہ ول چلیاں۔۔
  • ایتھوں اڈ جا بھولیا پنچھیا ، ہائے ویریا۔۔
  • سپنے وچ ماہی آیا ، ہولی ہولی۔۔
  • تیرے درس دی پیاسی تے سجن گھر آجا۔۔

کملا مووی ٹون کے بینر تلے ہدایتکار روپ کے شوری کی سپرہٹ نغماتی فلم منگتی (1942) کی کمائی سے ملتان روڈ لاہور پر شوری فلم سٹوڈیو بھی بنا جو قیام پاکستان کے بعد میڈم نورجہاں اور ان کے شوہر سید شوکت حسین رضوی کو "شاہ نور فلم سٹوڈیوز" کے نام سے الاٹ ہوا تھا۔

ممتاز شانتی

ممتاز شانتی ، ایک جوبلی ہیروئن
ممتاز شانتی، ایک جوبلی ہیروئن

کلکتہ کی پنجابی فلم سوہنی کمہارن (1939) سے فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والی اداکارہ ممتاز شانتی کو "جوبلی ہیروئن" کہا جاتا تھا کیونکہ اس کی ابتدائی چند فلموں نے ریکارڈ توڑ کامیابیاں حاصل کی تھیں۔

ممتاز شانتی نے کلکتہ کی ایک اور پنجابی فلم چنبے دی کلی (1941) میں بھی کام کیا اور پھر لاہور میں بننے والی برصغیر کی پہلی گولڈن جوبلی سپرہٹ پنجابی فلم منگتی (1942) نے اسے بام عروج پر پہنچا دیا تھا۔

اسی سال بمبئی کی ایک بلاک باسٹر ہندی/اردو فلم بسنت (1942) میں بھی ہیروئن تھی۔ اگلے سال اس کی ہندی/اردو فلم قسمت (1943) نے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا جب یہ فلم کلکتہ کے راکسی سینما پر مسلسل تین سال تک زیر نمائش رہی۔ اس فلم کے بزنس کا 32 سالہ ریکارڈ فلم شعلے (1975) نے توڑا تھا۔

ممتاز شانتی کا تعلق ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں کے ایک قصبہ ڈنگہ سے تھا جہاں 1926ء میں پیدا ہوئی۔ 1940 کی دھائی کے مقبول اور کامیاب ترین فلم رائٹر ولی صاحب سے شادی کی تھی۔ دو درجن فلموں میں کام کیا۔ تقسیم کے بعد پاکستان چلی آئی لیکن کسی پاکستانی فلم میں کام نہیں کیا البتہ ولی صاحب نے بطور ہدایتکار اور مصنف تین فلمیں ، گڈی گڈا (1956) ، لکن میٹی (1959) اور سوہنی کمہارن (1960) بنائی تھیں۔ ممتاز شانتی کا انتقال 1994ء میں ہوا تھا۔

فلم گوانڈھی (1942)

اس سال لاہور کی ایک یادگار اور نغمہ بار پنجابی فلم گوانڈھی (1942) بھی تھی جو پاکستان کی پہلی فلم ہیروئن ، آشا پوسلے کے علاوہ فلم کے ہیرو شیام کی بھی پہلی فلم تھی۔

اداکار شیام کا تعلق سیالکوٹ سے تھا اور ان کی یادگار فلم دل لگی (1949) تھی۔ ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران گھوڑے سے گر کر جواں موت ہو گئی تھی۔ انھوں نے ایک مسلمان اداکارہ زیب قریشی کے ساتھ شادی کی اور ان دونوں کی بیٹی ، ساحرہ کاظمی ، راحت کاظمی کی بیوی اور پاکستان ٹی وی کی ایک ممتاز اداکارہ اور پروڈیوسر تھی۔

فلم گوانڈھی (1942) کے آن لائن گیت سن کر حیرت ہوتی ہے کہ اس دور میں کیسے کیسے شاہکار گیت تخلیق ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر دور میں ایسا کام ہوا ہے کہ جس نے شائقین کو متاثر کیا ہے۔ پنڈت امرناتھ کی موسیقی میں مندرجہ ذیل گیت بڑے کمال کے ہیں:

  • غم دل نہ لگا رکھیے ، اے چیز بیگانی اے۔۔ (ایس ڈی باتش)
  • مکھناں دیے پلیے نی ، مٹھی مٹھی گل کر جا۔۔ (ایس ڈی باتش ، زینت بیگم)
  • بلو ، ویکھ میں کنا لما ، توں مر جائیں لالٹین جئی۔۔ (ایس ڈی باتش ، زینت بیگم)
  • پگڑی سنبھا جٹا ، تیرا لٹ لیا مال اوئے۔۔ (ایس ڈی باتش)

یہ آخری گیت ، ایک انقلابی گیت تھا جو اس دور میں ایک تحریک بنا جب انگریز حکومت کے ایک زرعی ٹیکس کے خلاف "پگڑی سنبھال جٹا۔۔" کے نام سے پنجاب کے کسانوں کی بغاوت ہوئی تھی۔ بھارتی گلوکار ایس ڈی باتش کی شاید یہ سب سے بہترین کارکردگی کی فلم تھی۔

1942ء کی دیگر پنجابی فلمیں

اسی سال لاہور کی تیسری پنجابی فلم پٹواری (1942) تھی جس میں راگنی ، نارنگ اور منورما مرکزی کرداروں میں تھے۔ اس فلم کے یہ دوگیت بڑے کمال کے ہیں جو شمشاد بیگم نے گائے تھے:

  • تسی اکھیاں دا مل کر لو ، دل وچ دل رکھ کے ماہی وے ، اک نکی جئی بھل کرلو۔۔
  • وگ وگ وے چناں دیا پانیاں ، تیرے کنڈیاں تے عاشقاں نے موجاں مانیاں۔۔

اس آخری گیت میں یہ دلچسپ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ دریائے چناب ایک رومانوی دریا ہے جس کے کنارے لوک داستانوں کے عاشقوں نے جنم لیا تھا۔ اس گیت میں صرف ہیر رانجھا اور سوہنی مہینوال کا ذکر ہے لیکن حقیقت میں پنجاب کی دیگر مقبول ترین لوک داستانوں کے کرداروں یعنی سہتی مراد ، مرزا صاحباں اور دلا بھٹی کا تعلق بھی چناب کے بہتے پانیوں ہی سے تھا۔ ولی صاحب یا عزیز کاشمیری نے یہ گیت لکھا تھا جس کی دھن شیام سندر یا پنڈت امرناتھ نے بنائی تھی۔

1940 کی دھائی میں لاہور کی فلموں کی مقبول ترین گلوکارہ زینت بیگم کی یہ پہلی فلم تھی۔

اسی سال لاہور کی چوتھی پنجابی فلم راوی پار (1942) تھی جو ایک فلمی صحافی ، سید عطا اللہ شاہ ہاشمی کی بطور فلمساز پہلی فلم تھی۔ ہدایتکار ضیاء سرحدی کے ساتھ شنکر مہتا تھے۔ راگنی اور نارنگ مرکزی کردار تھے۔ گیتوں کے بارے میں بتانا مشکل ہے جب سنے نہ ہوں۔

اس سال بمبئی کی اکلوتی پنجابی فلم پٹولا (1942) تھی جس خاص بات یہ تھی کہ اس کی فلمساز اداکارہ خورشید اور اس کے شوہر لالہ یعقوب تھے جو معاون ہدایتکار بھی تھے۔ دونوں کا تعلق بالترتیب خانیوال اور لاہور سے تھا۔ لاہور ہی کے معروف نغمہ نگار تنویر نقوی نے گیت لکھے تھے لیکن باقی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

محمد رفیع کا پہلا فلمی گیت

دستیاب معلومات کے مطابق 1943ء میں کسی پنجابی فلم کا ذکر نہیں ملتا لیکن 1944ء میں تین فلمیں ریلیز ہوئیں جو سبھی لاہور کی بنائی ہوئی تھیں۔

اس سال یوں تو فلم نکھٹو اور کوئل (1944) بھی ریلیز ہوئیں جن میں بالترتیب سلمیٰ اور گل زمان اور منورما اور ستیش مرکزی کرداروں میں تھے لیکن اس سال کی سب سے اہم فلم گل بلوچ (1944) ثابت ہوئی جو عظیم گلوکار محمدرفیع کی پہلی اور لاہور میں اکلوتی فلم تھی۔

فلم گل بلوچ (1944) میں محمدرفیع کا گایا ہوا پہلا گیت ایک رنجیدہ رومانٹک دوگانا تھا جو انھوں نے گلوکارہ زینت بیگم کے ساتھ گایا تھا۔ دھن موسیقار شیام سندر کی جبکہ بول محمد شفیع نامی شاعر نے لکھے تھے۔ فلم میں سلمیٰ اور گل زمان پر فلمایا ہوا یہ پورا گیت کچھ اس طرح سے تھا:

زینت بیگم

    پردیسی نال نہ لائیے یاری ، بھانویں لکھ سونے دا ہووے۔۔
    اک گلے پردیسی چنگا ، جد یاد کرے تد رووے۔۔
    سوہنیاں اوئے ، ہیریا اوئے ، تیری یاد نے آن ستایا ، ڈاہڈا پھایا۔۔
    نہ کجھ سنیاں تے نہ کجھ کہیاں ، گلاں دل دیاں دل وچ رہیاں۔۔
    سوہنیاں اوئے ، تقدیر نے ویر کمایا ، ہیریا اوئے۔۔

محمدرفیع

    یار جنہاں دے دور وسیندے تے کی اونہاں دا جینا۔۔
    پلک پلک پردیسیاں کارن ، ہنجوآں ہار پرونا۔۔
    سوہنیے نی ، ہیریئے نی ، تیری یاد نے آن ستایا ، ڈاہڈا پھایا۔۔
    دل کہندا سی ، پیار نہ پاویں ، مٹھا روگ نہ جندڑی نوں لاویں۔۔
    سوہنیے نی ، اساں روگ جوانی نوں لایا ، ڈاہڈا پھایا۔۔

زینت بیگم

    ڈھولا ، میرا قصور نہ کوئی ، اے تے ہونی سی جو کجھ ہوئی۔۔

محمدرفیع

    ہیریئے اوئے ، ایسے ہونی نے ویر کمایا ، ڈاہڈا پھایا۔۔

تقسیم سے قبل کی آخری پنجابی فلمیں

1945ء میں بھی کسی پنجابی فلم کا ذکر نہیں ملتا۔ 1946ء کا سال متحدہ برطانوی ہندوستان کا آخری مکمل سال تھا۔ اس سال آخری دو پنجابی فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے بمبئی کی فلم سوہنی مہینوال (1946) میں بیگم پارہ کے ہیروئن کے رول کا ذکر ملتا ہے جو پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد (1948) کے پہلے ہیرو ناصرخان کی بیوی تھی۔

اگر یہ حقیقت ہے تو ایک دلچسپ ریکارڈ سامنے آتا ہے کہ سوہنی مہینوال ، واحد موضوع ہے جو لاہور ، کلکتہ اور بمبئی کی پنجابی فلموں میں فلمایا گیا تھا۔

تقسیم سے قبل لاہور کی آخری ریلیز ہونے والی فلم کملی (1946) کا ذکر ملتا ہے جس کے فلمساز ٹھاکر ہمت سنگھ اور ہدایتکار پرکاش بخشی تھے۔ نئی اداکارہ کرن کے علاوہ آشا پوسلے ، امرناتھ اور شیخ اقبال وغیرہ اہم کردار تھے۔

اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ یہ پاکستان کے ایک اور لی جنڈ موسیقار ماسٹر عنایت حسین کی پہلی فلم تھی جنھوں نے "رنگین" نامی شاعر کے گیت کمپوز کیے تھے۔

پنجابی فلموں کی تاریخ

تقسیم سے قبل کی پنجابی فلموں کی مندرجہ بالا تاریخ دستیاب معلومات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے جو حتمی اور غیرمتنازعہ نہیں لیکن ان تمام متعلقہ فلموں اور فنکاروں کے ریکارڈز اپ ڈیٹ ہوتے رہیں گے۔

ذیل میں تقسیم سے قبل کی پنجابی فلمی تاریخ کو ایک چارٹ کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابتداء لاہور سے ہوئی لیکن 1936ء سے 1941ء تک کلکتہ کی پنجابی فلموں کو اجارہ داری حاصل رہی۔ 1942ء کے بعد لاہور ہی میں فلمیں بنیں جبکہ بمبئی میں اکا دکا پنجابی فلمیں بنیں۔

تقسیم سے قبل کی 42 پنجابی فلمیں

سال # لاہور کی 19 فلمیں # کلکتہ کی 15 فلمیں # بمبئی کی 6 فلمیں
1932 1 ہیر رانجھا        
1933 2 گوپی چند
1935     1 عشق پنجاب
1936 1 شیلا عرف پنڈی کڑی    
1938 2 ہیر سیال
1939 3 گل بکاؤلی 3 سسی پنوں 2 مرزا صاحباں
4 سوہنی مہینوال 4 سوہنی کمہارن  
5 بھکت سورداس 5 پورن بھگت
1940 6 دلا بھٹی 6 لیلیٰ مجنوں 3 علی بابا چالیس چور
7 یملا جٹ 7 مرد پنجاب  
8 اک مسافر 8 میرا پنجاب
    9 جگا ڈاکو
10 متوالی میرا
1941 9 چوہدری 11 چنبے دی کلی 4 کڑمائی
10 سہتی مراد 12 پردیسی ڈھولا    
11 میرا ماہی 13 مبارک
    14 سپاہی
15 چترا بکاؤلی
1942 12 منگتی     5 پٹولا
13 گوانڈھی  
14 پٹواری
15 راوی پار
1944 16 گل بلوچ
17 کوئل
18 نکھٹو
1946 19 کملی 6 سوہنی مہینوال

تقسیم کے بعد کی پنجابی فلمیں

پہلی دھائی کی پنجابی فلمیں

سال # بھارتی فلم # پاکستانی فلم
1948 1 چمن    
1949 2 لچھی 1 پھیرے
    2 مندری
1950 3 بھائیا جی 3 لارے
4 چھائی 4 شمی
5 مداری 5 گبھرو
6 مٹیار    
1951 7 بالو 6 چن وے
8 پھمن 7 دلبر
9 پوستی 8 بلو
10 وساکھی    
1952     9 نتھ
1953 11 جگنی 10 شہری بابو
12 کوڈے شاہ    
13 لارالپا
1954 14 اشتالی
15 ونجارا
16 شاہ جی
1955     11 پتن
12 بلبل
13 ہیر
14 پاٹے خان
1956     15 دلا بھٹی
16 ماہی منڈا
17 مورنی
18 پینگاں
19 جبرو
20 گڈی گڈا
21 چن ماہی
1957 17 ہلارے 22 یکے والی
18 مکلاوا 23 پلکاں
    24 پھولے خان
25 نوراں
26 سہتی
27 زلفاں
1958 19 نکی 28 شیخ چلی
    29 کچیاں کلیاں
30 چھو منتر
31 جٹی
32 مکھڑا
33 جگا
34 گھر جوائی
1959 20 بھنگڑا 35 بودی شاہ
    36 ناجی
37 پردیسن
38 یار بیلی
39 بچہ جمہورا
40 کرتار سنگھ
41 لکن میٹی
42 شیرا
43 سچے موتی
44 جائیداد

تقسیم سے پہلے کی مشترکہ پنجابی فلموں کے ذکر کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بڑے اختصار سے تقسیم کے بعد کی پاکستانی اور بھارتی پنجابی فلموں پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔

بائیں طرف ، تقسیم کے بعد کی پہلی دھائی کی پاکستانی اور بھارتی پنجابی فلموں کا ایک دلچسپ تقابلی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک میں پنجابی فلموں کا رحجان کیسا رہا۔

بھارتی پنجابی فلموں کی برتری

1947ء میں برطانوی ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان اور بھارت دو آزاد اور خودمختار ممالک کی صورت میں وجود میں آئے۔ تقسیم کے نتیجے میں ہونے والے فسادات میں لاہور کی فلم انڈسٹری مکمل طور پر تباہ ہوگئی تھی۔ ہندو فلمساز اپنے سازوسامان کے ساتھ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ انھوں نے اپنی نامکمل فلمیں بمبئی جاکر مکمل کیں اور بھارتی فلموں کے طور ریلیز کیں۔

تقسیم کے بعد پہلی پنجابی فلم چمن (1948) تھی جو لاہور میں "بھائیا جی" کے نام سے بن رہی تھی لیکن ایک بھارتی پنجابی فلم کے طور پر ریلیز ہوئی۔ پاکستان نے اپنی پہلی پنجابی فلم پھیرے (1949) بنائی۔

1954ء تک بھارتی پنجابی فلموں کو برتری حاصل رہی لیکن اس کے بعد پاکستانی پنجابی فلموں کی اجارہ داری قائم ہوئی۔

پاکستانی پنجابی فلموں کی برتری

1947ء میں تقسیمِ ہند کے بعد مسلسل پانچ سال تک پاکستانی سینماؤں پر بھارتی فلمیں آزادانہ ریلیز ہوتی رہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں فلمسازی کو خاصی حوصلہ شکن صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔

1954ء میں حکومتِ پاکستان نے بھارت کے ساتھ فلم کے بدلے فلم کا معاہدہ کیا جس سے پاکستان میں فلمسازی کے رحجان میں زبردست اضافہ ہوا۔ تقسیم کار اور سینما مالکان نے اپنے مفادات کے لیے پاکستانی فلموں پر سرمایہ کاری کی۔ گو بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں بہت کم فلمیں بنتی تھیں لیکن فائدہ یہ ہوتا تھا کہ سبھی پاکستانی فلمیں بھارت جا سکتی تھیں لیکن ان کے بدلے میں خاص خاص بھارتی فلمیں ہی پاکستان آ سکتی تھیں۔

پاکستانی اردو فلمیں ، بھارتی ہندی/اردو فلموں کو متاثر نہیں کرتی تھیں لیکن پاکستانی پنجابی فلموں کو اپنی ورائٹی کی وجہ سے بھارتی پنجابی فلموں پر برتری حاصل ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی 1955ء کے بعد بھارتی پنجابی فلمی سرکٹ میں بھی پاکستانی پنجابی فلموں کی اجارہ داری ہوتی تھی۔

1950 کی دھائی کی پنجابی فلمیں

1950ء کی دھائی میں پاکستانی پنجابی فلموں میں موضوعات کی فراوانی ہوتی تھی اور عام طور پر رومانوی اور نغماتی فلموں کے علاوہ طبقاتی کشمش اور سماجی ناہمواریوں کو موضوع بنایا جاتا تھا۔ اس دور میں بہت بڑی بڑی پنجابی فلمیں سامنے آئیں۔ پاکستان کے پہلے سپرسٹار سدھیر کے علاوہ صبیحہ خانم اور مسرت نذیر کی اجارہ داری ہوتی تھی جبکہ زبیدہ خانم اور عنایت حسین بھٹی کے گیت بڑے مقبول ہوتے تھے۔

بھارتی پنجابی فلموں میں ایک یکسانیت ہوتی تھی اور عام طور پر رومانوی اور نغماتی فلمیں بنتی تھیں۔ شمشاد بیگم اور محمدرفیع کے گیت فلموں کی جان ہوتے تھے۔

1960 کی دھائی کی پنجابی فلمیں

1960ء کی دھائی میں بھارتی پنجابی فلموں کا تسلسل قائم رہا لیکن پاکستانی فلموں میں لڑائی مارکٹائی کو فروغ حاصل ہوا۔ مظہرشاہ کی "بڑھک" اور علاؤالدین کی "عوامی اداکاری" اس دھائی کی پنجابی فلموں کی پہچان تھی۔ ایکشن ہیرو کے طور سدھیر کی اجارہ داری قائم رہی جبکہ اکمل ، اعجاز اور حبیب دیگر مقبول ترین ہیرو تھے۔ نیلو کے بعد نغمہ ، فردوس اور رانی چوٹی کی ہیروئنیں تھیں۔ اس دور میں اعلیٰ پائے کے فلمی نغمات سننے کو ملتے ہیں۔ ملکہ ترنم نورجہاں اور مسعودرانا کو پنجابی فلمی گائیکی پر تاحیات اجارہ داری حاصل ہوئی۔

1970 کی دھائی کی پنجابی فلمیں

1970 کی دھائی میں بھارتی فلموں میں یہ تبدیلی دیکھنے میں آئی کہ پنجابی زبان کی سٹینڈرڈ بولی "ماجھی" کی جگہ "مالوی" نے لے لی جو مشرقی پنجاب کی اکثریتی آبادی کا لہجہ رہا ہے۔ پاکستانی پنجابی فلموں میں مزاح کے بعد ایکشن اور بے ہودہ فلموں کا زور ہوا جس نے سنجیدہ فلم بینوں کو سینما سے دور کرنا شروع کردیا۔ بھٹی برادران اور منورظریف کے بعد اقبال حسن ، یوسف خان اور سلطان راہی کو عروج ملا۔ آسیہ اور ممتاز ، مقبول ترین اداکارائیں تھیں۔

1980 کی دھائی کی پنجابی فلمیں

1980 کی دھائی میں سلطان راہی کا گنڈاسا ہی پنجابی فلموں کی پہچان بن گیا اور ایسی پرتشدد فلموں کا رحجان نہ صرف پاکستان بلکہ بھارتی پنجابی فلموں میں بھی دیکھنے میں آیا۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان میں سلطان راہی اور بھارت میں دھرمیندر کا کزن ، وریند، ایکشن فلموں کی جان تھے اور دونوں گولی کا نشانہ بنے۔ مصطفیٰ قریشی اور انجمن کے علاوہ اس دھائی میں ننھا علی اعجاز کی کامیڈی فلمیں متبادل پنجابی سینما ہوتا تھا جبکہ چند ایک رومانٹک میوزیکل فلمیں بھی بڑی کامیاب رہیں۔

1990 کی دھائی کی پنجابی فلمیں

1990 کی دھائی میں سلطان راہی کے قتل نے پنجابی فلموں کے غبارے سے ہوا نکال دی اور کچھ عرصہ تک کوئی فلم نہ بن سکی۔ اس دوران شان کی ہلکی پھلکی رومانوی اور نغماتی فلمیں بڑی کامیاب رہیں۔ ریما اور صائمہ مقبول ترین اداکارائیں تھیں۔ بھارتی پنجابی فلموں میں ملے جلے رحجانات رہے۔

2000 کے بعد کی پنجابی فلمیں

2000 کے بعد سلطان راہی کو شان کے روپ میں دیکھا گیا اور متعدد ایکشن فلموں کے علاوہ چند رومانٹک اور میوزیکل فلمیں بھی بڑی کامیاب ہوئیں۔ صائمہ مقبول ترین ہیروئن رہی۔ بھارتی پنجابی فلموں میں مزاحیہ فلموں کا رحجان رہا۔

انٹرنیٹ اور سمارٹ فون کی آمد نے فلموں کی اہمیت کو ختم کردیا ہے حالانکہ اب ایک فلم پوری دنیا میں بیک وقت دکھائی جا سکتی ہے۔ متعدد فلموں نے پاکستان سے زیادہ بیرون ملک کمائی کی جن میں دی لی جنڈ آف مولا جٹ (2022) خاص طور پر قابل ذکر ہے۔



Masoom
Masoom
(1957)
BeReham
BeReham
(1967)
Noukari
Noukari
(1960)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.