Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


مہدی حسن

مہدی حسن
مہدی حسن ، 18 جولائی 1927ء کو بھارت کے صوبہ راجستھان کے شہر جے پور کے ایک گاؤں لُونا میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نےٹھمری ، دھرپد ، خیال اور دھادرا کی گائیکی اپنے والد اور چچا سے سیکھی اور بچپن ہی میں مہاراجہ بڑودہ کے دربار میں اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا تھا۔ تقسیم کے بعد پاکستان کے شہر چیچہ وطنی میں قیام کیا لیکن بطور گلوکار کامیابی نہ ملنے پر سائیکلوں کی مرمت اور گاڑیوں کے مکینک کے طور پر کام کیا۔ اپنے بھائی کی سفارش پر کراچی ریڈیو پرغزل گائیکی کا موقع ملا اور پہلی فلم شکار کے لیے نغمہ سرائی کی لیکن کنواری بیوہ (1956ء) پہلے ریلیز ہو گئی تھی۔ فلم سسرال (1962ء) سے پہچان ہوئی تو فلم فرنگی (1964ء) سے بریک تھرو ملا تھا۔ ستر کے عشرہ میں اردو فلمی گائیکی پہ چھائے رہے تھے۔ طویل علالت کے بعد 13 جون 2013ء کو 86 برس کی عمر میں بڑی کسمپرسی کی حالت میں انتقال ہوا اور کراچی میں دفن ہوئے۔

اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ خانصاحب مہدی حسن ، ایک عہد ساز گلوکار اورشہنشاہ غزل تھے۔ موسیقی کی جتنی سوجھ بوجھ انھیں حاصل تھی ، وہ شاید ہی کبھی کسی دوسرے گلوکار کو کبھی رہی ہوگی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فلمی گائیکی میں وہ ، مسعودرانا کے معیار کے آئیڈئل گلوکار نہیں تھے اور نہ ہی ان کی آواز فلمی میعار کی تھی۔۔!

فلمی گلوکار یا پلے بیک سنگر

فلمی گلوکار ، پس پردہ گلوکار یا پلے بیک سنگرز کو ہر طرح کی فلمی صورتحال کے لیے ، ہر قسم کے گیت گانا پڑتے تھے جو ہر گانے والے کے بس کی بات نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی ہر آواز اس معیار پر پورا اترتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کی کروڑوں کی آبادی میں گنے چنے چند گلوکار ہی ایسے رہے ہیں کہ جو فلمی گائیکی کے میعار پر پورا اترتے تھے۔ بھارت کے گلوکار محمدرفیع ، فلمی گائیکی کا ایک پیمانہ تھے جبکہ پاکستان میں اس شعبے میں مسعودرانا کا کوئی ثانی نہیں تھا۔

مہدی حسن ایک غزل گلوکار تھے

مہدی حسن بنیادی طور پر ریڈیو کے گلوکار تھے جہاں ان کی وجہ شہرت غزل گائیکی تھی۔

کراچی میں فلم سازی کا آغاز ہوا تو انھیں بھی فلم میں گانے کا موقع ملا تھا لیکن ایک فلمی گلوکار بننے کے لیے انھیں خاصی جدوجہد کرنا پڑی تھی کیونکہ ان کی آواز اور انداز فلمی گائیکی کے لیے موزوں نہیں تھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ جب ان کی غزل گائیکی کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا تھا اور وہ ستر کے عشرہ کی اردو فلموں میں دیگر سبھی گلوکاروں پر چھا گئے تھے۔

فلمی موسیقار ، مہدی حسن کے مزاج اور انداز کے مطابق دھنیں بناتے اور ان کی مقبولیت کو کیش کرواتے تھے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فلموں میں آنے اور جانے کے بعد بھی ان کی پہچان ایک غزل گائیک ہی کی رہی تھی کیونکہ ان کے فلمی گیتوں پر بھی ان کی غزل گائیکی کی بڑی گہری چھاپ تھی۔

مہدی حسن
بنیادی طور پر ریڈیو کے گلوکار تھے جہاں ان کی وجہ شہرت غزل گائیکی تھی
اور ایک فلمی گلوکار بننے کے لیے انھیں خاصی جدوجہد کرنا پڑی تھی

مہدی حسن ، دھیمی سروں میں گائے گئے غزل نما رومانٹک گیتوں کے بہترین گلوکار تھےاور اس مقام پر پہنچ گئے تھے کہ جہاں وہ فلمی گلوکارکےلیبل کے محتاج نہیں رہے تھے۔

انھیں ریڈیو گلوکار ہونے کی وجہ سے سرکاری سر پرستی بھی حاصل تھی اور غزل گائیکی کی وجہ سے ادبی حلقوں میں بھی سب سے زیادہ پسند کیے جاتے تھے۔ موسیقی کی جتنی سوجھ بوجھ انھیں حاصل تھی وہ کسی دوسرے فلمی گلوکار کو نہیں تھی کیونکہ وہ اپنی سولہویں پشت سے گا رہے تھے۔

ٹیلی ویژن کے عام ہونے پر فلمی گائیکی سے کہیں زیادہ عزت و شہرت ، غزل کے مخصوص گلوکاروں کے علاوہ کلاسیکی موسیقی ، قوالی ،نعت ، صوفیانہ کلام ، لوک گیت یا پاپ میوزک گانے والوں کو ملنے لگی تھی لیکن پاکستان کے پہلے تین عشروں میں فلمی فنکاروں سے زیادہ شہرت کسی کو نہیں ملی اور یہی وجہ تھی کہ اس دور میں ہر شعبے کے فنکاروں کی خواہش ہوتی تھی کہ ایک بار وہ فلمی لیبل لگوا لیں تاکہ انھیں بھی ملک گیر شہرت حاصل ہو سکے۔

مہدی حسن کی فنی کمزوریاں

مہدی حسن ، شہنشاہ غزل تو تھے لیکن ایک ور سٹائل فلمی گلوکارنہیں تھے۔ اس کا اندازہ پہلی بار تب ہوا جب فلمی گیتوں پر تحقیق کرتے ہوئے سب سے پہلے فلم ثریا بھوپالی (1976) کی ایک قوالی میں وحیدمراد پر بیک وقت دو گلوکاروں کی آوازیں فلمبند ہوتے سنیں۔ وجہ یہ تھی کہ مہدی حسن لمبی تان نہیں لگا سکتے تھے اور ان کی اس "فنی کمزوری" کو دور کرنے کے لیے منیر حسین کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

فلم ندیا کے پار (1973) دیکھی جس میں خانصاحب کا ایک کلاسیکل گیت تھا اور جس کے آخر میں ایک لمبی تان تھی جو مہدی حسن کی بجائے شوکت علی کی آواز میں تھی۔ جب پنجابی فلم دارا (1976) میں مہدی حسن کو اونچی سروں میں ایک مکھڑا گانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے سنا تو یقین ہو گیا تھا وہ ہر طرح کا گیت نہیں گا سکتے تھے۔

فلم سسرال (1977)میں ... بھانڈے کلی کرا لو ... سنا تو ایک خوشگوار حیرت ہوئی تھی کہ خان صاحب نے اپنی ڈگر سے ہٹ کر بھی کوئی گیت گایا ہے لیکن وہ متاثر نہیں کر سکے تھے کیونکہ ان کی آواز ایسے گیتوں کے لیے موزوں نہیں تھی جس کا اعتراف انھوں نے خود بھی کیا تھا۔ اسی فلم میں شاہد پر فلمائے ہوئے دو مزاحیہ گیتوں کے لیے مہدی حسن کا ساتھ رجب علی نے دیا تھا حالانکہ یہ گیت اکیلے احمدرشدی گا سکتے تھے جو کامیڈی گیتوں کے سب سے بہترین گلوکار تھے لیکن اس وقت روبہ زوال تھے۔

جب مہدی حسن ، نثار بزمی کے معیار پر پورا نہ اتر سکے

میرے اس سوال کا جواب کہ مہدی حسن ایک ورسٹائل فلمی گلوکار نہیں تھے ، عظیم موسیقار نثار بزمی کے ایک انٹرویو میں مل گیا تھا جس میں انھوں نے اس اندازے کی تصدیق کر دی تھی کہ پاکستان کے روایتی فلمی گلوکار مسعودرانا اور احمدرشدی ہی تھے اور مہدی حسن ایک مخصوص گلوکار تھے۔

اسی انٹرویو میں دو مزید انکشافات ہوئے تھے کہ فلم شمع اور پروانہ (1970ء) کا مشہور گیت ... میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا ... پہلے مہدی حسن ہی نے گایا تھا لیکن وہ بزمی صاحب کو مطمئن نہیں کر پائے تھے ، پھر مجیب عالم جیسے کہیں کم تجربہ کار گلوکار کو موقع ملا تھا جس میں وہ بے حد کامیاب رہے تھے اور ان پر بزمی صاحب اتنے مہربان ہوئے کہ انھیں ایک ہی فلم میں چھ گیت دے دئیے تھے جو مجیب عالم کے فلمی کیرئر کا واحد موقع تھا۔ مجیب عالم کے لیے تو یہی اعزاز کیا کم تھا کہ انھوں نے وہ گیت گایا تھا جسے مہدی حسن جیسا عظیم گلوکاربھی نہیں گا سکا تھا۔

بزمی صاحب ہی نے انکشاف کیا تھا کہ ان کی کمپوز کردہ مشہور زمانہ غزل ... رنجش ہی سہی ، دل ہی دکھانے کے لیے آ ... گانے کے لیے مہدی حسن انھیں مطمئن نہیں کر پا رہے تھے لیکن سترہ بار ری ٹیک کے بعد وہ گانے میں کامیاب ہوئے تھے اور پھر کیا کمال کی ایک شاہکار غزل تخلیق ہوئی تھی۔۔!

مہدی حسن بمقابلہ مسعودرانا

مسعودرانا اور مہدی حسن
مسعودرانا اور مہدی حسن

مہدی حسن کے برعکس مسعودرانا ایک مکمل فلمی گلوکار تھے بلکہ اس دور میں کہا جاتا تھا کہ بر صغیر کی فلمی گائیکی میں دو ہی مکمل گلوکار ہیں جن میں ہندوستان میں محمدرفیع اور پاکستان میں مسعودرانا تھے اور یہ بات سو فیصدی درست تھی۔

مسعودرانا کے فلمی کیرئر کی طوالت کی بڑی وجہ بھی ان کا ہر فن مولا ہونا تھا جب کہ مہدی حسن کو ان کی زندگی ہی میں نظر انداز کر دیا گیا تھا کیونکہ ان کی غزل گائیکی کی مقبولیت کا ایک دور تھا جو اردو فلموں کے زوال کے ساتھ ہی ختم ہو گیا تھا جبکہ مسعودرانا ، تاحیات فلمی گائیکی کی ضرورت بنے رہے تھے حالانکہ آخری دو عشروں میں ان کی آواز اور گائیکی کا وہ میعار نہیں رہا تھا جو پہلے دو عشروں میں انھیں اپنے دیگر ہم عصر گلوکاروں میں ممتاز کرتا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں گلوکاروں کے سترہ سو کے قریب فلمی گیت ہیں اور نوے کے قریب مشترکہ فلمیں بھی ہیں لیکن ایک بھی مشترکہ گیت یا دو گانا نہیں ہے۔ ویسے بھی مہدی حسن کے مردانہ دو گانوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے جبکہ مسعودرانا کے مردانہ دو گانوں کی فہرست بھی بڑی طویل ہے۔

بڑی تحقیق کے بعد مجھے صرف ایک فلم ایسی ملی تھی جس میں ان دونوں گلوکاروں نے ایک ہی گیت کو الگ الگ گایا تھا اور وہ فلم تھی ، شاہ زمان (1986) ، اس فلم میں مہدی حسن کا ایک گیت افضال احمد پر فلمایا گیا تھا:

اسی گیت کو فلم کےآخر میں ہیرو پر فلمایا جاتا ہے جو اپنے بچھڑے خاندان کو اپنے باپ افضال احمد کے گائے ہوئے گیت سے اکٹھا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے اونچے سروں میں گائے گئے گیت کی ضرورت تھی جو مہدی حسن کے بس کی بات نہیں تھی ، اس کے لیے موسیقار کمال احمد کو مسعودرانا کی ضرورت پڑی تھی جو ایسے گیتوں کے ماہر تھے۔ گو اس وقت تک یہ دونوں عظیم گلوکار اپنے اپنے عروج کا دوردیکھ چکے تھے لیکن یہ ایک دلچسپ تجربہ تھا جب میں نے مہدی حسن اور مسعودرانا کو ایک ہی گیت کو اپنے اپنے انداز میں گاتے ہوئے سنا تھا۔

اس سے قبل مسعودرانا کا مالا کے ساتھ گایا ہوافلم پیار کا موسم (1975) کا ایک شوخ گیت تھا: ۔۔۔ "دیکھا جو حسن یار ، طبیعت مچل گئی ، تھا آنکھوں کا قصور ، چھری دل پہ چل گئی۔۔۔" اسی استھائی پر مہدی حسن نے فلم نظر کرم (1977) کے لیے ایک گیت گایا تھا۔ فلم تیر ی میری اک مرضی (1983) تو ناقابل فراموش تھی جس میں پہلی بار مسعودرانا کو مہدی حسن کے گیتوں کی پیروڈی گاتے ہوئے سنا گیا تھا۔ اس فلم کا جو یادگار گیت تھا وہ اے نیر ، مسعودرانا اور رجب علی کا گایا ہوا ایک مزاحیہ گیت تھا:

پہلے تو میں سمجھا تھا کہ یہ مہدی حسن کو خراج تحسین ہو گا لیکن جب فلم دیکھی تو معلوم ہوا کہ اصل میں اس گیت میں تو ان کا مذاق اڑایا گیا تھا جو قابل افسوس تھا۔ فلمی صورتحال کے مطابق رنگیلا کا ننھا اور علی اعجاز سے گائیکی کا مقابلہ ہوتا ہے ، جس میں ایک فریق کو اپنی گائیکی سے آگ لگانا ہوتی ہے جبکہ دوسرے کو آگ بجھانا ہوتی ہے اور مہدی حسن کا ذکر اس لیے ہوتا ہے کو انھوں نے ضیاءمحی الدین کے ایک ٹی وی شو میں یہ مضحکہ خیز دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے ایک تقریب میں اپنی گائیکی سے ایک گلاس توڑ دیا تھا۔ اس پر اینکر اور شائقین بڑے متجسس ہوئے تھے اور خان صاحب سے تفصیل جاننا چاہی تھی اور عملی طور پر ایسا کرنے کا وعدہ بھی لیا گیا تھا جو نجانے وفا ہوا تھا یا نہیں۔ ہمارے ہاں اس طرح کے بے سروپا اور مافوق الفطرت دعوے عام رہے ہیں کہ کوئی اپنی گائیکی یا شاعری سے آگ لگا سکتا ہے یا بارش برسا سکتا ہے ، وغیرہ۔۔۔

فن گائیکی کے بڑے بڑے نام ایک ساتھ
(دائیں سے بائیں) ، احمدرشدی ، شوکت علی ، ناہیداختر ، مہدی حسن ، مسعودرانا ، مہناز ، رجب علی ، اخلاق احمد اور پرویز مہدی

مہدی حسن سے ایک یادگار ملاقات

یہ 24 مارچ 1990ء کی ایک یادگار شام تھی جب مجھے خانصاحب مہدی حسن کو دیکھنے ، سننے اور ملنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔وہ پہلی اور آخری بار ڈنمارک تشریف لائے تھے اور ایک دن قبل ان کا جو پہلا شو ہوا تھا ، اس میں ان پر ہوٹنگ ہو گئی تھی کیونکہ ان سے فرمائش کی گئی تھی کہ استاد امانت علی خان کی مشہورزمانہ غزل ... انشاءجی ، اٹھو ، اب کوچ کرو... گائیں ، جسے گانے سے انھوں نے انکار کر دیا تھا۔ ظاہر ہے یہ ایک عظیم فنکار کی شان میں گستاخی بھی تھی جو خود شہنشاہ غزل تھا اور کسی اور کا کلام گانا اس کے شایان شان بھی نہیں تھا۔ بقول خانصاحب کے ، پاکستان میں بہت کم لوگ آداب موسیقی سے واقف ہیں اور یہ ہے بھی ایک حقیقت کہ مہدی حسن کی غزل گائیکی ، اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والے ایک محدود اور تعلیم یافتہ طبقے میں ہی پسند کی جاتی تھی جو ہمارے میڈیا یا قومی سوچ پر حاوی رہا ہے اور ان کا یہ شوق چھوٹی چھوٹی ریڈیو یا ٹی وی کی محفلوں تک تو مناسب تھا لیکن عوام الناس کےبڑے بڑے اجتماعات کے لیے کسی دلچسپی کا حامل نہیں تھا اور نہ ہی مہدی حسن کبھی ایک عوامی گلوکار رہے ہیں۔

میرے لیے تو یہ ایک بہت بڑی سعادت تھی کہ میں اتنی بڑی تاریخی ہستی کو اپنے سامنے دیکھ اور سن رہا تھا۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ میری ان کے ساتھ گفتگو بھی ہو گی لیکن جب آٹو گراف دیتے ہوئے انھوں نے میری 1984ء کی فلمی ڈائری کی ورق گردانی کی اور دیکھا کہ میں ان کے فلمی گیت بھی شمار کر رہا تھا تو بڑے متاثر ہوئے تھے ، اس طرح مجھے ان سے بات کرنے کا موقع ملا تھا۔ ان دنوں فلموں میں مردانہ گیتوں کی شدید قلت تھی جن سے میری بنیادی دلچسپی ہوتی تھی۔ اسی تناظر میں میرا پہلا سوال تھاَ:
"خانصاحب ، اب فلموں میں آپ کے گیت نہیں آ رہے۔۔۔۔" تو مہدی حسن نے بڑی بے بسی سے یہ تکلیف دہ جواب دیا تھا:
"بھئی ، اب ہمیں کون پوچھتا ہے؟۔۔۔" اس جواب پر مجھے بڑا دکھ ہوا تھا لیکن میرا اگلا سوال تھا:
"خانصاحب ، آپ تو ایک عظیم فنکار ہیں ، آپکو کون نظر انداز کر سکتا ہے ۔ فلمیں تو اب بھی بن رہی ہیں اور گیت بھی گائے جارہے ہیں لیکن آپ کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے۔۔۔"
اس پر جو جواب انھوں نے دیا تھا وہی میرے اس مضمون کا حاصل کلام ہے ، جواب تھاَ:
"بھئی ، جیسے گیت گائے جارہے ہیں ، میں تو ایسے گیت نہیں گا سکتا ، نہ ہی یہ میرا سٹائل ہے۔۔۔"
اس پر میرے برجستہ جملے پر ارد گرد کے تمام لوگ کھلکھلا کر ہنس پڑے تھے جبکہ خانصاحب نیم دلی سے مسکرا دیے تھے:
"اب آپ بھی گلوں میں رنگ بھرنے کی بجائے کلاشنکوفوں میں بارود بھرنے والے گیت گانا شروع کر دیں اور وقت کے ساتھ چلیں۔۔۔"
اسی گفتگو کے دوران انھوں نے محمود سپرا نامی صاحب کی ایک فلم کے لیے اپنی ایک نئی غزل ریکارڈ کروانے کا بھی بتایا تھا "...میں خیال ہوں کسی اور کا ، مجھے سوچتا کوئی اور ہے.." وہ فلم شاید کبھی ریلیز نہیں ہوئی تھی۔

ایک عظیم فنکار کی ناقدری

اگر اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی ہوتا کہ کبھی میں اتنی بڑی ویب سائٹ بناؤں گا تو یقیناََ خانصاحب کا ایک تفصیلی انٹرویو کرتا لیکن اس وقت پروموٹر صاحب کو شاید اپنے اتنے خاص مہمان کے ساتھ مجھ جیسے عام شخص سے باتیں کرنا پسند نہیں آرہا تھا اور اس نے انھیں فوراََ اپنے ساتھ چلنے کا کہا تھا اور جاتے جاتےمہدی حسن کا پروموٹر کے لیے یہ جملہ ۔۔۔ "اس وقت تو آسمان پر خدا اور زمین پر آپ ہی میرا سب کچھ ہیں۔۔۔" ایک اور حقیقت آشکار کر گیاتھا کہ ہمارے فنکار کس قدر عدم مالی تحفظ اور احساس کمتری کا شکار رہے ہیں۔

اس ملاقات سے چند دن قبل میں نے فلم صبح کا تارا (1974) دیکھی تھی جس میں خانصاحب مہدی حسن کا ایک گیت بڑا پسند آیا تھا جو کئی دن تک میرے لبوں پر مچلتا رہا تھا۔ ان دنوںصبح آفس جانے سے قبل میں اپنے بڑے بیٹے اظہر اقبال کو کنڈر گارٹن چھوڑنے جاتا تھا اورحسب عادت گنگناتا رہتا تھا۔ چند دن تک تو اظہر نے بڑے صبر و تحمل سے برداشت کیا تھا بالآخر ایک دن تنگ آ کربولا: "...ابو ، اب بس بھی کریں..!"
مجھے اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ میں گائیکی کے قابل نہیں ہوں اور میرے بچپن کا یہ شوق محض وقت کا ضیاع ہے۔ بچے چونکہ سچے ہوتے ہیں ، اس لیے اگر ایک معصوم بچہ میری گائیکی کو برداشت نہیں کر سکتا تو دوسرے بھلا کیسے کریں گے۔ چند دن بعد جب خانصاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے اظہر کو بتایا کہ یہ مہدی حسن ہیں اور انھیں سلام کرو۔ اظہر نے نہ صرف سلام کیا بلکہ بڑی برجستگی سے وہ گیت بھی گنگنا دیا جس پر اس نے مجھے خاموش کروادیا تھا:

ایک چار سالہ بچے سے ایسے بول سن کر مجھ سمیت سبھی حیران ہوگئے تھے۔ مہدی حسن نے بھی خوش ہو کر اظہر کے گال پر تھپکی دی اور کہا:
"واہ بیٹا ، آپ نےتو بہت اچھا گایا ہے..!"
میں جل بھن گیاتھا ... غضب خدا کا ، گائیکی کا شوق میرا اور تعریف میرے "نقاد" کی ..؟ اور وہ بھی مہدی حسن جیسی ہستی سے..!
میں آج بھی اظہر سے شکایت کیا کرتا ہوں کہ اگر اس وقت وہ اپنے ایک جملے سے میری حوصلہ شکنی نہ کرتا تو شاید آج میں بھی ایک نامی گرامی گلوکار ہوتا..!

مہدی حسن کے فلمی گیت
مہدی حسن کے فلمی گیت
مہدی حسن کے فلمی گیت
مہدی حسن کے فلمی گیت
مہدی حسن کے فلمی گیت
مہدی حسن کے فلمی گیت
مہدی حسن کے فلمی گیت
مہدی حسن کے فلمی گیت
مہدی حسن کے فلمی گیت
مہدی حسن کے فلمی گیت
مہدی حسن کے گیتوں کا شمار

Masood Rana & Mehdi Hassan: Latest Online film

Masood Rana & Mehdi Hassan: Film posters
InqilabHeer SyalTasvirBhai JanJaag Utha InsanAainaDorahaShaam SaveraDil Mera Dharkan TeriBehan BhaiSharik-e-HayyatSassi PunnuAshiqMera Ghar Meri JannatTaj MahalTumhi Ho Mehboob MerayDaaghGeet Kahin Sangeet KahinAansoo Ban Geye MotiChand SurajNeend Hamari Khab TumharayAansooMeri Mohabbat Teray HavalayMain AkelaDil Ek AainaSipah SalarNizamKhab Aur ZindagiBeImaanBanarsi ThugDaaman Aur ChingariKubra AshiqTera Gham Rahay SalamatDillagiMain Bani DulhanBaat Pohnchi Teri Javani TakSubah Ka TaraLaila MajnuNanha Farishta2 TasvirenPulekhaPaisaAjj Di GallShirin FarhadDhan Jigra Maa DaGuddiProfessorDilrubaBadal Geya InsanRaja JaniMehboob Mera MastanaSohni MehinvalWardatZebun NisaZarooratTaqdeer Kahan Lay AyiAakhri MedanMohabbat Mar Nahin SaktiAali JahTeray Bina Kya JeenaDiya Jalay Sari Raat
Masood Rana & Mehdi Hassan:

0 joint Online films

(0 Urdu and 0 Punjabi films)

Masood Rana & Mehdi Hassan:

Total 94 joint films

(67 Urdu, 26 Punjabi films)

1.1962: Inqilab
(Urdu)
2.1963: Hamen Bhi Jeenay Do
(Urdu)
3.1965: Heer Syal
(Punjabi)
4.1966: Tasvir
(Urdu)
5.1966: Sarhad
(Urdu)
6.1966: Bhai Jan
(Urdu)
7.1966: Jaag Utha Insan
(Urdu)
8.1966: Maa Bahu Aur Beta
(Urdu)
9.1966: Aaina
(Urdu)
10.1967: Doraha
(Urdu)
11.1967: Shaam Savera
(Urdu)
12.1968: Dil Mera Dharkan Teri
(Urdu)
13.1968: Behan Bhai
(Urdu)
14.1968: Sharik-e-Hayyat
(Urdu)
15.1968: Sassi Punnu
(Punjabi)
16.1968: Ashiq
(Urdu)
17.1968: Mera Ghar Meri Jannat
(Urdu)
18.1968: Chann 14vin Da
(Punjabi)
19.1968: Taj Mahal
(Urdu)
20.1969: Tumhi Ho Mehboob Meray
(Urdu)
21.1969: Daagh
(Urdu)
22.1969: Geet Kahin Sangeet Kahin
(Urdu/Bengali double version)
23.1970: Aansoo Ban Geye Moti
(Urdu)
24.1970: Hamlog
(Urdu)
25.1970: Phir Chand Niklay Ga
(Urdu)
26.1970: Tikka Mathay Da
(Punjabi)
27.1970: Chand Suraj
(Urdu)
28.1971: Neend Hamari Khab Tumharay
(Urdu)
29.1971: Sehra
(Punjabi)
30.1971: Mera Dil Meri Aarzoo
(Urdu)
31.1971: Aansoo
(Urdu)
32.1972: Meri Ghairat Teri Izzat
(Punjabi)
33.1972: Meri Mohabbat Teray Havalay
(Urdu)
34.1972: Main Akela
(Urdu)
35.1972: Dil Ek Aaina
(Urdu)
36.1972: Sipah Salar
(Urdu)
37.1972: Nizam
(Punjabi)
38.1972: Insan Ik Tamasha
(Punjabi)
39.1972: Ehsas
(Urdu)
40.1973: Khab Aur Zindagi
(Urdu)
41.1973: BeImaan
(Urdu)
42.1973: Banarsi Thug
(Punjabi)
43.1973: Daaman Aur Chingari
(Urdu)
44.1973: Kubra Ashiq
(Urdu)
45.1973: Tera Gham Rahay Salamat
(Urdu)
46.1974: Zulm Kaday Nein Phalda
(Punjabi)
47.1974: Dillagi
(Urdu)
48.1974: Main Bani Dulhan
(Urdu)
49.1974: Sikandra
(Punjabi)
50.1974: Baat Pohnchi Teri Javani Tak
(Urdu)
51.1974: Subah Ka Tara
(Urdu)
52.1974: Laila Majnu
(Urdu)
53.1974: Nanha Farishta
(Urdu)
54.1974: Khana day Khan Prohnay
(Punjabi)
55.1974: Deedar
(Urdu)
56.1974: 2 Tasviren
(Urdu)
57.1975: Pulekha
(Punjabi)
58.1975: Mera Naa Patay Khan
(Punjabi)
59.1975: Haar Geya Insan
(Urdu)
60.1975: Paisa
(Urdu)
61.1975: Ajj Di Gall
(Punjabi)
62.1975: Shirin Farhad
(Urdu)
63.1975: Dhan Jigra Maa Da
(Punjabi)
64.1975: Teray Meray Sapnay
(Urdu)
65.1975: Guddi
(Punjabi)
66.1975: Professor
(Urdu)
67.1975: Dilruba
(Urdu)
68.1975: Ganvar
(Urdu)
69.1975: Badal Geya Insan
(Urdu)
70.1976: Raja Jani
(Urdu)
71.1976: Mehboob Mera Mastana
(Urdu)
72.1976: Sohni Mehinval
(Punjabi)
73.1976: Wardat
(Punjabi)
74.1976: Zebun Nisa
(Urdu)
75.1976: Chitra Tay Shera
(Punjabi)
76.1976: Goonj Uthi Shehnai
(Urdu)
77.1976: Zaroorat
(Urdu)
78.1976: Taqdeer Kahan Lay Ayi
(Urdu)
79.1977: Aakhri Medan
(Punjabi)
80.1977: Mohabbat Mar Nahin Sakti
(Urdu)
81.1978: Aali Jah
(Punjabi)
82.1979: Mr. Ranjha
(Urdu)
83.1981: Laggan
(Urdu)
84.1982: Visa Dubai Da
(Punjabi)
85.1982: Teray Bina Kya Jeena
(Urdu)
86.1986: Shah Zaman
(Punjabi)
87.Unreleased: Gharonda
(Urdu)
88.Unreleased: Jaltay Arman Bujhtay Deep
(Urdu)
89.Unreleased: Jaabar
(Punjabi)
90.Unreleased: Khali Hath
(Punjabi)
91.Unreleased: Nei Zindagi
(Urdu)
92.Unreleased: Yeh Zindagi To Nahin
(Urdu)
93.Unreleased: Dhoop Chhaun
(Urdu)
94.Unreleased: Diya Jalay Sari Raat
(Urdu)

Masood Rana & Mehdi Hassan: 0 songs

(0 Urdu and 0 Punjabi songs)



Pani
Pani
(1964)
Akhar
Akhar
(1976)
Wrong No.
Wrong No.
(2015)

Nishani
Nishani
(1942)
Rehana
Rehana
(1946)
Patwari
Patwari
(1942)
Najma
Najma
(1943)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.