پاکستانی فلموں میں متعددایسے فنکار بھی رہے ہیں کہ جو بھرپور مواقع ملنے کے باوجود ان سے فائدہ نہ اٹھا سکے ، ایسے ہی فنکاروں میں ایک نام اداکار افضل خان کا بھی تھا۔۔!
افضل خان
زندگی بھر اکمل کی نقل کرتے رہے
افضل خان کے آئیڈیل اکمل
تاج دین نے اپنا فلمی نام افضل خان صرف اس لیے رکھا تھا کیونکہ اس کا آئیڈیل ہیرو اکمل خان تھا جس سے اس کی شکل و صورت اور انداز و کلام بھی ملتے تھے۔
ساٹھ کی دھائی میں اکمل کے نام کی بڑی دھوم تھی۔ خاص طور پر فلم ملنگی (1965) نے ایسی شاندار کامیابی حاصل کی تھی کہ پنجابی فلموں کے شائقین کا ایک بڑا طبقہ ان سے بے حد متاثر ہوا تھا۔
اکمل کی بے وقت موت نے انھیں ایک ناقابل فراموش افسانوی کردار بنا دیا تھا۔ ان کے پرستار آج بھی بڑی باقاعدگی سے ان کا یوم وفات انتہائی عقیدت و احترام سے مناتے ہیں جن میں سے ایک افضل خان بھی ہیں جنھوں نے ساری عمر اکمل ہی کو نقل کیا اور کبھی اپنی الگ پہچان بنانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
افضل خان کی آمد کیسے ہوئی؟
افضل خان کو ایک انوکھے انداز میں فلموں میں متعارف کروایا گیا تھا۔ فلمساز اور ہدایتکار اسدبخاری نے اپنی مشہور زمانہ فلم دلاں دے سودے (1969) کے ایک سین میں افضل خان کو اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کا موقع دیا تھا۔ اس سین میں یہ شکایت کرنے کے بعد کہ
"فلمی دفتروں میں اکمل خان کے ڈائیلاگ سنا سنا کر تھک گیا ہوں لیکن کسی نے مجھے اپنی فلم میں کام نہیں دیا۔۔"
افضل خان نے اکمل کے فلم ہتھ جوڑی (1963) کے چند مشہور مکالمے سنائے اور ان پر ایکٹنگ بھی کی جس پر اسدبخاری خوش ہو کر کہتے ہیں کہ
"واہ بھئی افضل خان ، تم تو پورے ایکٹرہی ہو گئے ہو۔۔"
اگلے ہی سال ہدایتکار ظفرشباب کی پنجابی فلم رب دی شان (1970) میں افضل خان کو عالیہ کے ساتھ سیکنڈ ہیرو کے رول میں کاسٹ کرلیا گیا تھا لیکن ان کے اصل جوہر ، فلم یاربادشاہ (1971) میں کھلے۔
افضل خان اور مسعودرانا کی جوڑی
اس فلم میں افضل خان کو مہ پارہ نامی اداکارہ کے مقابل سیکنڈ ہیرو کا بھرپور رول ملا تھا اور ان پر دو گیت بھی فلمائے گئے تھے۔ پہلے گیت میں ان کے ساتھ مسعودرانا بھی تھے جنھوں نے اس فلم میں گلوکاری کے علاوہ اداکاری بھی کی تھی
- سن رب نے کیتا پیار ، پیار پیاربھئی پہلا پیار۔۔
ساتھی گلوکار عنایت حسین بھٹی تھے جن کے ساتھ مسعودرانا کا یہ پہلا دوگانا تھا۔
اسی فلم میں مسعودرانا کا یہ شاہکار گیت
- او میں کہیا گل سن جا ، گل اے وے کہ ، نئیں نئیں کجھ نئیں جا جا۔۔
افضل خان پر فلمایا گیا ایک سپرہٹ گیت تھا۔
یہی گیت فی میل ورژن میں تصورخانم نے بھی گایا تھا اور بتاتی ہیں کہ یہ ان کی زندگی کا مشکل ترین گیت تھا کیونکہ دھن اتنی مشکل تھی کہ وہ بار بار بھول جاتی تھیں اور بڑی مشکل سے موسیقار ماسٹر عنایت حسین کو مطمئن کر پائی تھیں۔
افضل خان کی سب سے بڑی فلم دو رنگیلے (1972)
افضل خان کے فلمی کیرئر کی کامیاب ترین فلم دورنگیلے (1972) تھی جس میں ایک بار پھر سیکنڈ ہیرو کا رول تھا۔ اداکارہ صاعقہ کے ساتھ جوڑی تھی جس پر ملکہ ترنم نورجہاں کے دو سپرہٹ گیت فلمائے گئے تھے "وے میں دل تیرے قدماں چہ رکھیا،تو پیر اتے پا تے سہی۔۔" اور "لوکو وے لوکو ، ایس منڈے نوں روکو ، ایڈی سوہنی کڑی نوں نئیں پیار کردا۔۔" یہ دونوں گیت افضل خان ہی کے لیے گائے گئے تھے۔
اس فلم کا سب سے مقبول گیت مسعودرانا کا گایا ہوا تھا "سجناں ، اے محفل اساں تیرے لئی سجائی اے ، پیار بلاوے آجا ، کاہنوں ضد لائی اے۔۔" یہ سپرہٹ گیت رنگیلا پر فلمایا گیا تھا جو اس فلم میں ہیرو اور ولن کے ڈبل رول میں
تھے۔فلم دورنگیلے (1972) ، رنگیلا کے فلمی کیرئر کی بطور ہیرو ، فلمساز اور ہدایتکار ، سب سے کامیاب نغماتی اور ڈرامائی پنجابی فلم تھی جس نے لاہور میں پلاٹینم جوبلی کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
اس فلم کی خاص بات یہ بھی تھی اس میں نامور ہدایتکار ایم جے رانا نے اداکاری کی تھی۔ ان کے کریڈٹ پر ماہی منڈا (1956) ، یکے والی (1957) اور جی دار (1965) جیسی یادگار فلمیں تھیں اور انھوں نے رنگیلا کو پہلی بار فلم جٹی (1958) میں چند مکالمے بولنے کا موقع بھی دیا تھا۔
اس فلم میں احمدرشدی کا ایک اردو گیت بھی تھا "میں شرابی تو نہیں تھا مگر اے صنم ، تو نے مجھ کو پلائی تو میں پی گیا۔۔" رنگیلا کے گائے ہوئے دو گیت بھی تھے "سن میرے ککو ، سن میرے پپو ۔۔" اور "ٹٹ گئے اج میرے دل دے تار۔۔" یہ آخری گیت ماضی کے مزاحیہ اداکار آصف جاہ کا لکھا ہوا تھا۔
اس فلم کی ایک اور بات بڑی دلچسپ تھی۔ فلم کی ریلیز کے کئی ہفتوں بعد اس میں ایک گیت کا مزید اضافہ کیا گیا تھا اور اس گیت کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ رونالیلیٰ کا یہ مشہور گیت تھا "تینوں لبھیا گوا کے جگ سارا تے چھڈ کے نہ جائیں ڈھولنا۔۔" اس گیت کی دھن رنگیلا نے خود بنائی تھی، باقی گیتوں کی دھنیں کمال احمد اور نذیرعلی نے بنائی تھیں۔
افضل خان کی ایک اور یادگار فلم
افضل خان کی ایک اور یادگار فلم اج دا مہینوال (1973) تھی جو منورظریف کی بطور ہیرو پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں افضل خان کی جوڑی سنگیتا کے ساتھ تھی اور ان پر دو خوبصورت گیت بھی فلمائے گئے تھے۔پہلا ایک دلکش ماہیا تھا جو مسعودرانا کی سریلی آواز میں کچھ اس طرح سے تھا
- دو پتر اناراں دے ، ربا ، ساڈا ماہی میل دے ، دن آگئے بہاراں دے۔۔
جبکہ دوسرا کانوں میں رس گھولنے والا ایک دوگانا تھا جس میں مسعودرانا کے ساتھ تصورخانم تھیں
- سجناں ، میل دتا اے خدا ماہیا ، ایتھوں تک میں آگئی ، اگے تو لے جا ماہیا۔۔
قیصر سینما ، گیمن کالونی کھاریاں کینٹ میں یہ فلم عید کے دن دوبارہ دکھائی گئی تھی حالانکہ چند ہفتے پہلے اسی سینما پر چل چکی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اپنے پہلے دور میں پاکستان میں یہ میری آخری عید تھی جس پر میں نے سازین سینما ، صدر بازار کھاریاں کینٹ میں پہلا شو فلم خدا تے ماں (1973) کا اور دوسرا شو گیریژن سینما کھاریاں کینٹ میں فلم بے ایمان (1973) کا دیکھا تھا۔
میرے چار سالہ فلمی دور میں یہ اکلوتی اردو فلم تھی جو کسی عید کے موقع پر کسی سینما پر دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ فلم اج دا مہینوال (1973) ، پہلے رن میں دیکھ چکا تھا۔ لاہور میں یہ فلم ، ناکام فلموں میں شمار ہوتی ہے لیکن پنجاب سرکٹ اتنا بڑا ہوتا تھا کہ جہاں لاہور کی ناکام پنجابی فلمیں بھی اتنا بزنس کر جاتی تھیں کہ فلمساز خسارے میں نہیں رہتاتھا۔
منورظریف اور سلطان راہی کی فلمیں تو ویسے بھی عوامی پسندیدگی میں ہمیشہ سے سرفہرست ہوتی تھیں اور ناکام نہیں ہوتی تھیں۔ ایسی ہی فلموں میں ایک بندے دا پتر (1974) بھی تھی جس کا ٹائٹل رول منورظریف ہی کا تھا لیکن سائیڈ ہیرو افضل خان تھے جن پر مسعودرانا کا یہ خوبصورت رومانٹک گیت فلمایا گیا تھا
- ویکھو رہندے مغرور، ایڈا کرداے غرور ، بڑا سوہنیاں نوں مان جوانی دا ، سوہنے مکھڑے تے اکھ مستانی دا۔۔
افضل خان کی سولو ہیرو کے طور پر اکلوتی فلم
افضل خان کے فلمی کیرئر کی واحد فلم سانجھی غیرت یاراں دی (1976) تھی جس میں وہ اداکارہ خانم کے ساتھ فرسٹ ہیرو تھے۔ یہ ایک سی کلاس فلم تھی جو بری طرح سے ناکام ہوئی تھی۔
افضل خان پر آخری بار مسعودرانا کا گیت فلم چمن خان (1978) میں فلمایا گیا تھا
- میرا ناں ، سوہنیو سجنوں ، اپنے ناں لگ جان دیو ، دل تک آپےاُتر جائے گا ، بُلیاں تک تے آن دیو۔۔
یہ گیت عشرت چوہدری کے لیے گاتے ہیں۔
اس گیت میں مسعودرانا کی آواز کا وہ میعار نہیں تھا جس کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ یہ فلم پاکستان کے جنگی قیدیوں کے بارے میں بنائی گئی تھی جو 1971ء کی جنگ میں بھارت کی قید میں تھے ، سلطان راہی نے ٹائٹل رول کیا تھا اور پوری فلم میں پشتو سٹائل میں اردو بولی تھی۔
اس کے بعد ایکشن فلموں کا ایک لامتناعی سلطانی دور شروع ہوگیا تھا جن میں افضل خان ، چھوٹے موٹے کرداروں میں نظر آنے لگے تھے۔ ان کی متعدد اردو فلمیں بھی تھیں لیکن کوئی قابل ذکر فلم نہیں تھی۔ اب تک کی آخری فلم ہو مان جہاں (2016) میں نام ملتا ہے۔
افضل خان ، اب ایک باریش بزرگ ہیں لیکن ہرسال بڑی باقاعدگی سے اپنے آئیڈیل ہیرو اکمل کی برسی کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔۔!
0 اردو گیت ... 8 پنجابی گیت