Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


خواجہ سرفراز

خواجہ سرفراز
پاکستان میں فلم دیوداس
بنانے والے ہدایتکار تھے
دیوداس (1965)
پاکستانی فلم دیوداس (1965)

ایک بنگالی ناول نگار سرت چندرا چترجی (1876ء تا 1938ء) نے 1901ء میں ایک ناول 'دیوداس' لکھا تھا جو 1917ء میں پہلی بار شائع ہوا تھا۔ اس تاریخ ساز ناول کا مرکزی کردار 'دیوداس' نامی ایک نوجوان امیرزادہ ہے جو کمتر ذات کی ایک لڑکی 'پارو' سے محبت کرتا ہے۔

طبقاتی کشمکش ، سماجی ناہمورایوں اور فرسودہ رسم و رواج کی وجہ سے شادی نہیں ہوپاتی اور وہ ایک بوڑھے سے بیاہ دی جاتی ہے۔

محبت میں ناکامی کا غم ، شراب اور ایک طوائف 'چندرمکھی' کے سہارے کم کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے لیکن انجام ایک بے وقت موت ہوتا ہے۔

دیوداس پر بننے والی فلمیں

عشق و محبت کی اس روایتی کہانی میں شراب اور طوائف کے سوا کوئی نیا پن نہیں تھا۔ فلموں کے لیے اس آئیڈیل اور فارمولا ٹائپ کہانی کو بھارت کی مختلف زبانوں میں ڈیڑھ درجن بار فلمایا گیا ہے۔

سب سے پہلے 1928ء میں ایک خاموش بنی تھی۔ 1935ء میں ناول نگار کی زندگی میں بننے والی متکلم فلم 'دیوداس' کو بڑی پذیرائی ملی تھی۔ 1955ء میں دلیپ کمار کو اس فلم کے ٹائٹل رول میں سراہا گیا تھا۔ آخری بار 2002ء میں شاہ رخ خان کو بھی اس رول میں پسند کیا گیا تھا۔

پاکستان میں دیوداس پر بننے والی فلمیں

پاکستان میں بھی اس مشہور زمانہ ناول کو دو بار فلمایا گیا تھا۔ پہلی بار یہ کام فلمساز اور ہدایتکار خواجہ سرفراز نے کیا تھا۔ ان کی پہلی فلم دیوداس (1965) میں فلمساز کے طور پر ان کے ساتھ نواز نامی صاحب کا نام بھی آتا ہے۔ فلم کا منظرنامہ ان کا اپنا لکھا ہوا تھا لیکن فلمی تمثیل نسیم رضوانی کی تھی۔

ساٹھ کے عشرہ کے ممتاز ہیرو حبیب نے ٹائٹل رول کیا تھا۔ شمیم آرا اور نیرسلطانہ ، ساتھی اداکارائیں تھیں۔ فلم کے موسیقار اخترحسین اکھیاں تھے اور فلم کا مقبول ترین گیت سلیم رضا کا گایا ہوا تھا:

  • تسکین جو دے جاتے ، آرام تو مل جاتا۔۔

نغمہ نگار قتیل شفائی کے علاوہ ایک گمنام شاعر روپ بیوت بھی تھے۔

پاکستان میں آخری بار اس کہانی پر بننے والی فلم دیوداس ، 2015ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ ندیم شاہ نامی ایک صاحب نے اپنے سرمائے سے اس ناکام ترین فلم میں ٹائٹل رول بھی خود ہی کیا تھا۔ ہدایتکار اقبال کاشمیری کی زندگی کی اس آخری فلم پر کوئی مالی تنازعہ بھی تھا اور شاید اسی وجہ سے یہ فلم کراچی میں صرف دو شو ہی چل سکی تھی۔

لاہور میں اس فلم کو 'عشق نے ہم کو لوٹا' کے نام سے چلائی گئی تھی۔ زارا شیخ اور میرا دیگر اہم کردار تھے۔ موسیقار وجاہت عطرے کو فلم کے گیتوں کے لیے پاکستان سے کوئی گلوکار نہیں ملا تھا اور جملہ گیت آشا بھونسلے سمیت دیگر بھارتی گلوکاروں سے گوائے گئے تھے۔

اداکار حبیب بطور دیوداس

فلمساز اور ہدایتکار خواجہ سرفراز کی فلم دیوداس (1965) میں اپنی کردار نگاری پر اداکار حبیب کو بڑا ناز تھا۔ وہ اپنے مختلف انٹریوز میں یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ ان کے اس رول کی تعریف دلیپ کمار نے بھی کی تھی جنھوں نے خود اس فلم کا ٹائٹل رول کیا تھا۔

حبیب صاحب ، ٹرپل ایم اے تھے اور بظاہر بڑے مہذب اور شائستہ انسان تھے لیکن بدقسمتی سے اپنے انٹرویوز میں خاصی مبالغہ آرائی اور غلط بیانی کیا کرتے تھے۔ یہ ایک ناکام فلم تھی اور حبیب صاحب کی کردار نگاری کا ذکر کم ہی سننے میں آتا تھا۔ ویسے بھی ہمارے نام نہاد قومی میڈیا کو بھارتی فلموں اور فنکاروں کی مدح سرائی سے کبھی فرصت ملی ہو تو اپنے پاکستانی فنکاروں کو پوچھے۔۔؟

اس فلم کو پاکستان میں بنانے کی ضرورت بھی نہیں تھی لیکن جب ہمیں ایک احساس کمتری میں مبتلا کر دیا گیا تھا تو پھر اندھی تقلید تو کرنا ہی پڑتی ہے۔۔!

خواجہ سرفراز کی ڈراؤنی فلم زندہ لاش (1967)

خواجہ سرفراز کی دوسری فلم زندہ لاش (1967) بھی ایک یادگار فلم تھی۔ اس کے فلمساز عبدالباقی تھے جو اداکار حبیب کے بہنوئی بتائے جاتے ہیں۔

یہ ایک ہارر یا ڈراؤنی فلم تھی جو ایک برطانوی ناول نگار Bram Stoker کے 1897ء میں لکھے ہوئے عظیم ناول 'ڈریکولا' سے ماخوذ تھی۔ اس ناول پر برطانیہ میں 1958ء میں اسی نام سے جو فلم بنائی گئی تھی اس میں اداکار کرسٹوفرلی نے ٹائٹل رول کیا تھا۔ اس اداکار نے 1998ء میں بننے والی فلمساز اور ہداتیکار جمیل دہلوی کی فلم 'جناح' میں قائداعظمؒ کا رول بھی کیا تھا جو فلم بینوں نے مسترد کر دیا تھا۔ فلم بھی بری طرح سے ناکام ہوئی تھی۔

پاکستان میں اس سے قبل ایک ڈراؤنی فلم دیوانہ (1964) بنائی گئی تھی لیکن فلم زندہ لاش (1967) میں پہلی بار ڈریکولا کے کردار کو پیش کیا گیا تھا۔ اداکار ریحان نے یہ رول بڑی خوبی سے کیا تھا جو ان کی زندگی کا واحد یادگار فلمی کردار تھا۔

یہ ایک ایسے پروفیسر کا کردار تھا جو آب حیات بنانے کی کوشش کرتا ہے لیکن فارمولے میں گڑبڑ ہو جانے کے باعث اس کا مشروب اسے زندہ جاوید کرنے کے بجائے ایک بدروح میں بدل دیتا ہے اور پھر باقی فلم اسی بدروح کے کرتوتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اپنی جملہ خوبیوں کے باوجود یہ فلم بھی ناکام رہی تھی۔ یاسمین ، دیبا ، نسرین ، حبیب ، علاؤالدین اور اسدبخاری دیگر اہم کردار تھے۔

خواجہ سرفراز کی پہلی پنجابی فلم

خواجہ سرفراز کی مسعودرانا کے ساتھ پہلی فلم پنڈدی کڑی (1968) تھی جو ان کی پہلی پنجابی فلم بھی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی پہلی دو اردو فلموں کے بعد ان کی اگلی ساتوں فلمیں پنجابی زبان میں تھیں۔

اس فلم کی مرکزی جوڑی فردوس اور سدھیر کی تھی اور ولن مظہرشاہ تھے۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اداکار اقبال حسن ایکسٹرا کے طور پر اس فلم میں کام کررہے تھے۔

موسیقار بخشی وزیر کی دھن میں نذیربیگم اور آئرن پروین کا گایا ہوا یہ دوگانا اک سپرہٹ گیت تھا:

  • چلے پُرے دی ہوا ، اُتوں پوہ دا مہینہ ،
    میرے متھے تے پسینہ ، گل کھل گئی اے ،
    نی اج پنڈ دی کڑی راہواں بھل گئی اے۔۔

خواجہ پرویز کے بول تھے۔ اس فلم میں آئرن پروین کے ساتھ مسعودرانا کا ایک مزاحیہ گیت:

  • جدوں بن جاواں گی تیری تے کڈے چنگے دن ہون گے ،
    بہتا رون گے دلاں دے جانی تے ماپے تینوں گھٹ رون گے۔۔"

کے علاوہ یہ خوبصورت رومانٹک گیت بھی تھا:

  • نکی جنی گل اتوں مکھ موڑ کے ، میرا دل توڑ کے ، دلدار چلیا۔۔

یہ گیت فردوس اور سدھیر پر فلمایا گیا تھا جو ایک ایکشن ہیرو کے طور پر پنجاب سرکٹ میں سب سے مقبول فلمی ہیرو تھے اور عام طور پر رومانٹک کرداروں میں نظر نہیں آتے تھے۔ اس گیت سے پہلے وہ فردوس کو بڑی سادگی اور معصومیت سے یہ سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ وہ خودبخود مان جائے کیونکہ انھیں روٹھے ہوئے یار کو منانا نہیں آتا۔۔!

خواجہ سرفراز کی نغماتی فلم ات خدا دا ویر (1970)

خواجہ سرفراز کے فلمی کیرئر کی سب سے بڑی فلم ات خدا دا ویر (1970) تھی۔ یہ ایک یادگار نغماتی اور اصلاحی فلم تھی۔ ڈاکٹرسلیم درانی کے ناول 'فریدہ' پر بنائی جانے والی اس فلم کی جوڑی نغمہ اور حبیب کی تھی۔ اقبال حسن ، سلطان راہی اور سلمیٰ ممتاز دیگر اہم کردار تھے۔ منورظریف ، رضیہ اور ننھا کا مزاح انتہائی اعلیٰ پائے کا تھا۔

فلم کی موسیقی سپرہٹ اور لاجواب تھی۔ تنویرنقوی کے لکھے ہوئے گیتوں کی دھنیں بخشی وزیر صاحبان نے کمپوز کی تھیں۔ ملکہ ترنم نورجہاں کے گائے ہوئے تینوں گیت سپرہٹ ہوئے تھے

  • ماہی میریا روند نہ ماریں ، میں دا لایا جند جان دا۔۔
  • گندلاں دا ساگ تے مکھناں مکئی ، رن کے لیائی آں میں سجناں دے لئی۔۔

کے علاوہ

  • جدوں ہولی جئی لیناں میرا ناں ، میں تھاں مر جانی آں۔۔

جیسا شاہکار گیت بھی اسی فلم میں تھا۔ اس آخری گیت کی دھن ، گائیکی ، شاعری اور فلمبندی ، پاکستانی فلموں میں کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ میڈم نورجہاں کی مترنم آواز اور ایک ایسی لازوال دھن کہ جس سے بہتر دھن برصغیر کا کوئی دوسرا موسیقار نہیں بنا سکتا تھا۔ اس عظیم کارنامے پر بخشی وزیر صاحبان کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے ، کم ہے۔

جب مسعودرانا کے گیت کا مکھڑا بدلنا پڑا

فلم ات خدا دا ویر (1970) میں مسعودرانا کے بھی تین گیت تھے۔ ایک سولو گیت تھا جو اقبال حسن پر فلمایا گیا تھا:

  • سونہہ تیری روپ تیرا ، چن دا دیدار اے۔۔

اس گیت کے ریکارڈنگ ورژن میں 'چن' کی جگہ 'رب' تھا جو یقیناً قابل اعتراض تھا۔

دوسرا گیت آئرن پروین کے ساتھ ایک دوگانا تھا:

  • نی موتے دیر نہ لاویں۔۔ ۔ اج وی نہ آئیوں تے فیر کہیڑے ویلے آویں گی۔۔

یہ ایک انتہائی اعلیٰ پائے کا سنجیدہ گیت تھا لیکن فلم کے مزاحیہ اداکاروں رضیہ اور منورظریف پر فلمایا گیا تھا جو ایک المیہ گیت میں بھی شائقین کو محظوظ کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

اس فلم کا ایک اور گیت مسعودرانا نے رونالیلیٰ کے ساتھ گایا تھا:

  • دو جوانیاں ، ملیاں تے پیاں پکاراں پیار دیاں۔۔

پنجابی دوگانوں میں یہ ایک انتہائی دلکش دوگانا ہے جو اس دور کی مقبول ترین جوڑی نغمہ اور حبیب پر فلمایا گیا تھا جن کی یہ پہلی فلم تھی جو مجھے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ یہ فلم اتنی پسند کی گئی تھی کہ ہمارے مقامی سینما میں ریلیز کے چند ہفتے بعد دوبارہ لگائی گئی تھی۔ ان دنوں فلموں کی بھر مار ہوتی تھی اور سینما مالکان کے لیے فلموں کا انتخاب کرنا مشکل ہوجاتا تھا۔

فلم ات خدا دا ویر (1970) کو اسی سال کی ایک اردو فلم نیا سویرا (1970) کے ساتھ ایک ٹکٹ پر دو فلموں کی طور پر لگایا گیا تھا۔ میں نے یہ دونوں فلمیں ایک ہی رات میں دیکھی تھیں جو زندگی کا پہلا تجربہ تھا۔

خواجہ سرفراز کی دیگر فلمیں

ہدایتکار خواجہ سرفراز کی فلم پیار نہ منے ہار (1971) میں مہدی حسن کا گیت "اپنی کہانی یارو ، کس نوں سناواں ، جرماں توں ود مینوں ، ملیاں سزاواں۔۔" بڑا زبردست گیت تھا جو تنویرنقوی نے لکھا تھا اور دھن اخترحسین اکھیاں نے بنائی تھی۔

فلم اتھرا (1975) میں بھی مہدی حسن اور ملکہ ترنم نورجہاں کا نذیرعلی کی دھن میں یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا "میں تینوں پیار کرنی آں ، تیرا اقرار کرنی آں ، جینا نئیں جینا بن تیرے ، اج اقرار کرنی آں۔۔" یہ بھارتی فلم رام اور شیام (1967) کا چربہ تھی اور یوسف خان نے دلیپ کمار کا ڈبل رول بڑی خوبی سے کیا تھا۔

فلم رام اور شیام کی یاد میں

فلم رام اور شیام (1967) کا ذکر آیا ہے تو یادوں کے دریچوں سے بہت کچھ یاد آنے لگا ہے۔

میرا شمار ان گنے چنے افراد میں ہوتا ہے کہ جنھیں بھارتی فلموں اور فنکاروں سے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔

بچپن میں جب ڈنمارک آیا تو برطانیہ میں بھارتی فلموں کا بڑا زور ہوتا تھا جو اس دور کے ہفت روزہ اخباروطن لندن کے اشتہارات سے معلوم ہو جاتا تھا۔ یہاں کوپن ہیگن کے دو سینماؤں میں ہر اتوار کو بھارتی اور ایک سینما پر پاکستانی فلم دکھائی جاتی تھی۔ اپنے تین سالہ قیام کے دوران مجھے کبھی بھی بھارتی فلم دیکھنے کی خواہش پیدا نہیں ہوئی تھی حالانکہ ہمارے لوگ بھارتی فلموں اور گیتوں کے دیوانے ہوتے تھے۔

کیا فلم مغل اعظم دیکھنا غداری تھی؟

ایک بار ایک تاریخی فلم مغل اعظم (1960) آئی تو والدصاحب مرحوم و مغفور اپنے دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے کے لیے تیار ہوئے۔ مجھے بھی ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن میں نے صاف انکار کردیا تھا۔ وجہ پوچھی گئی تو میرا جواب تھا:

"جب آپ بھارتی فلم دیکھنے کے لیے ٹکٹ خریدیں گے تو اس رقم سے یقیناً کچھ بھارتی حکومت کے خزانے میں بھی جائے گی۔ اس رقم سے وہ اسلحہ و بارود بھی خریدیں گے جو ہمارے خلاف ہی استعمال ہوگا۔ کیا یہ اپنے ملک و قوم کے ساتھ غداری نہیں ہے۔۔؟"

ایک تیرہ چودہ سالہ بچے سے ایسا جواب سن کر والد صاحب اور ان کے دوست حیران اور لاجواب ہو گئے تھے۔

میرے اس استدلال پر اتنی کامیابی ضرور ہوئی تھی کہ انھوں نے بھی بھارتی فلم دیکھنے کا ارادہ ترک کردیا تھا۔ اس دن مجھے مرکرسینما میں پنجابی فلم بے اولاد (1975) دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ پورے ہال میں میرے علاوہ پانچ چھ افراد اور تھے ، اور ہم نے پوری فلم دیکھی تھی۔۔!

1982ء میں جب دوبارہ ڈنمارک آیا تو یہاں سینما کلچر ختم ہوچکا تھا اور اس کی جگہ وی سی آر نے لے لی تھی۔ جگہ جگہ ویڈیوسنٹر کھل گئے تھے اور گھر گھر میں بھارتی فلمیں دیکھی جارہی تھیں۔ اس دوران یار دوست اور عزیز و اقارب کے ہاں بے شمار بھارتی فلمیں دیکھنے اور گیت سننے کا موقع ملا۔ یہاں تک کہ اپنے ایک پڑوسی سے فلم کے بدلے فلم کا تبادلہ بھی ہوتا تھا ، وہ کرائے پر لائی ہوئی اپنی بھارتی فلم مجھے دیتا اور میری پاکستانی فلم لے جاتا تھا۔

امیتابھ بچن کی فلم کی بے قدری

80ء کے عشرہ میں بھارتی فلموں میں گلیمر اپنے عروج پر تھا جس کی چکا چوند روشنی میں لوگ اندھے ہو جاتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ بھارتی سپرسٹار امیتابھ بچن کی فلم قلی (1983) آئی تو لوگ دیوانہ وار اس فلم کے حصول کے لیے ویڈیو سنٹروں پر حملہ آور ہوئے تھے۔ فلم کی مانگ کے پیش نظر بلیک میلرز کی روایتی ذہنیت سامنے آئی اور پانچ کرونر کرائے والی فلم پچاس کرونر کی کر دی گئی تھی۔

مجھے بھی ایک ویڈیو سنٹر والے نے بڑا احسان جتاتے ہوئے یہ فلم پیش کی کہ بس آخری دو پیس ہی رہ گئے ہیں اور یہ فلم آپ ہی کے لیے رکھی تھی۔ میں نے بڑی بے نیازی اور سردمہری سے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا تھا اور وہ ہکا بکا رہ گیا تھا کہ ایسے پاکستانی بھی ابھی موجود ہیں کہ جو اتنی بڑی بھارتی فلموں کو اہمیت نہیں دیتے۔

اس دور میں بننے والی ہماری ایکشن پنجابی فلمیں باعث شرم ہوتی تھیں جبکہ اردو فلمیں بڑی کمزور ہوتی تھیں۔ کسی پاکستانی اداکار کی اگر کوئی فلم پسند کی جاتی تھی تو وہ صرف منورظریف کی فلمیں ہوتی تھیں۔ میں زیادہ تر پرانی پاکستانی فلمیں دیکھتا تھا اور پرانی فلموں کے گیتوں کے والیمز بھی بنایا کرتا تھا جو عام طور پر بلیک اینڈ وہائٹ ہوتے تھے۔

مزے کی بات ہے کہ میری وہ کیسٹیں جو بھی دیکھتا ، ایک بار لے جاتا تو پھر کبھی واپس نہ کرتا۔ 80 کا پورا عشرہ ایسے ہی گزر گیا تھا۔

سیٹلائٹ ٹی وی کا دور

90 کا عشرہ آیا تو وی سی آر کلچر بیک فٹ پر چلا گیا تھا اور اس کی جگہ سیٹلائٹ اور کیبل ٹی وی نے لے لی تھی۔ لندن سے ایک انڈین چینل دن میں چار چار فلمیں دکھاتا تھا۔ مجھے دلچسپی صرف پاکستانی فلموں سے ہوتی تھی لیکن اس دوران بہت سی یادگار پرانی بھارتی فلمیں دیکھنے کا موقع ملا۔

میری فلم بینی کا زاویہ عام لوگوں سے مختلف رہا ہے۔ اس دور میں دونوں ممالک کی فلموں ، فنکاروں اور گیتوں کا موازنہ کرنے کا موقع بھی ملا جس سے پاکستانی فلموں کا ریکارڈ مرتب کرنے کا جنون پیدا ہوگیا تھا اور اہم فلموں کو اپنے پاس ریکارڈ کرنا شروع کردیا تھا۔ ویڈیو کیسٹیں کم پڑ گئیں تو کسی سے بڑی تعداد میں پرانی بھارتی فلمیں ملیں۔ مفت میں ہاتھ آئی ہوئی ان بھارتی فلموں پر اپنی پاکستانی فلمیں ریکارڈ کرنے سے پہلے انھیں دیکھنے کا خیال آیا تو جو پہلی فلم میری دسترس میں آئی ، وہ رام اور شیام (1967) تھی۔

جب دلیپ کمار نے متاثر کیا

اس فلم کے ہیرو ، دلیپ کمار صاحب کو 'فن کا دیوتا' کہا جاتا ہے لیکن مجھے اداکاری سے زیادہ ان کی اس خوبی نے متاثر کیا تھا کہ اس فلم میں ایک جگہ وہ اپنے سائن کرتے ہیں جو اردو ، انگریزی اور ہندی میں ہوتے ہیں۔

اس وقت خیال آیا کہ میں بھی ان بھارتی فلموں کے ٹائٹل دیکھ کر ہندی لکھنا سیکھ سکتا ہوں ، بس پھر کیا تھا ، جو بھی بھارتی فلم دیکھتا ، اس کا ہندی ٹائٹل نوٹ کر لیتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد جب ہندی حروف تہجی ذہن نشین ہوگئے تو بڑی روانی سے لکھنے لگا لیکن پڑھنے کے لیے ہجے کرنا پڑتے تھے۔

اس کے بعد کچھ ہندی لٹریچر پڑھنے کا موقع بھی ملا اور ایمانداری کی بات ہے کہ ہندی ادب سے بے حد متاثر ہوا لیکن کبھی اتنا وقت نہ مل سکا کہ اس شوق کی تکمیل بھی کرتا۔

گو میں کسی طور پر بھی تنگ نظر یا متعصب نہیں ہوں لیکن بھارتی فلمیں دیکھنے کا شوق آج بھی نہیں ہے حالانکہ یوٹیوب پر بے شمار فلمیں بکھری پڑی ہیں۔

بھارتی فلموں میں میری دلچسپی محمدرفیع صاحب کے گیتوں تک محدود رہی اور فلمی گیتوں پر تحقیق کرتے ہوئے دیگر بھارتی گلوکاروں کو بھی سننے کا موقع ملا۔

سوچتا ہوں کہ اگر میں بھی دوسروں کی طرح بھارتی فلموں کا رسیا ہوتا تو کیا پاکستانی فلموں پر یہ منفرد اور عظیم الشان ویب سائٹ بن پاتی۔۔؟

مسعودرانا کے خواجہ سرفراز کی 3 فلموں میں 6 گیت

(0 اردو گیت ... 6 پنجابی گیت )
1
فلم ... پنڈ دی کڑی ... پنجابی ... (1968) ... گلوکار: آئرن پروین ، مسعود رانا ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: رضیہ ، اعظم
2
فلم ... پنڈ دی کڑی ... پنجابی ... (1968) ... گلوکار: مسعود رانا ، آئرن پروین ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: خواجہ پرویز ... اداکار: سدھیر ، فردوس
3
فلم ... ات خدا دا ویر ... پنجابی ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: اقبال حسن
4
فلم ... ات خدا دا ویر ... پنجابی ... (1970) ... گلوکار: آئرن پروین ، مسعود رانا ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: رضیہ ، منور ظریف
5
فلم ... ات خدا دا ویر ... پنجابی ... (1970) ... گلوکار: رونا لیلیٰ ، مسعود رانا ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: نغمہ، حبیب
6
فلم ... نڈر ... پنجابی ... (1978) ... گلوکار: افشاں ، مسعود رانا ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: احمد راہی ... اداکار: آسیہ ، اقبال حسن

Masood Rana & Khawaja Sarfaraz: Latest Online film

Nidarr

(Punjabi - Black & White - Friday, 6 January 1978)


Masood Rana & Khawaja Sarfaraz: Film posters
Pind Di KurriAtt Khuda Da Vair
Masood Rana & Khawaja Sarfaraz:

2 joint Online films

(0 Urdu and 2 Punjabi films)

1.1968: Pind Di Kurri
(Punjabi)
2.1978: Nidarr
(Punjabi)
Masood Rana & Khawaja Sarfaraz:

Total 3 joint films

(0 Urdu, 3 Punjabi films)

1.1968: Pind Di Kurri
(Punjabi)
2.1970: Att Khuda Da Vair
(Punjabi)
3.1978: Nidarr
(Punjabi)


Masood Rana & Khawaja Sarfaraz: 6 songs in 3 films

(0 Urdu and 6 Punjabi songs)

1.
Punjabi film
Pind Di Kurri
from Tuesday, 2 January 1968
Singer(s): Irene Parveen, Masood Rana, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): Razia, Azam
2.
Punjabi film
Pind Di Kurri
from Tuesday, 2 January 1968
Singer(s): Masood Rana, Irene Parveen, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): Sudhir, Firdous
3.
Punjabi film
Att Khuda Da Vair
from Friday, 9 October 1970
Singer(s): Runa Laila, Masood Rana, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): Naghma, Habib
4.
Punjabi film
Att Khuda Da Vair
from Friday, 9 October 1970
Singer(s): Irene Parveen, Masood Rana, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): Razia, Munawar Zarif
5.
Punjabi film
Att Khuda Da Vair
from Friday, 9 October 1970
Singer(s): Masood Rana, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): Iqbal Hassan
6.
Punjabi film
Nidarr
from Friday, 6 January 1978
Singer(s): Afshan, Masood Rana, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): Asiya, Iqbal Hassan




241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan's political, film and media history.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes, and therefor, I am not responsible for the content of any external site.