منیر نیازی ، اردو اور پنجابی ادب کا ایک بہت بڑا اور معتبر نام تھے۔ انھوں نے اب تک کی غیر حتمی معلومات کے مطابق ڈیڑھ درجن فلموں میں پچاس کے قریب فلمی گیت لکھے تھے۔
منیر نیازی کی پہلی فلم
منیر نیازی کی بطور گیت نگار پہلی فلم نئی لڑکی (1958) تھی جس کے سبھی گیت ان کے لکھے ہوئے تھے لیکن کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا۔ ان کی اگلی فلم آج کل (1959) کے تین گیت ان کے زور قلم کا نتیجہ تھے لیکن بغیر کسی کامیابی کے۔ یہی حال ان کی اگلی فلم لگن (1960) میں بھی تھا جس کے تمام گیت لکھنے کے باوجود نتیجہ مایوس کن تھا۔
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
1962ء کا سال منیر نیازی کے لیے ایک یادگار سال ثابت ہوا تھا جب ہدایتکار خلیل قیصر کی معرکتہ الآرا فلم شہید میں ان کا لکھا ہوا واحد گیت ایک سپر ڈپر ہٹ فلمی گیت ثابت ہوا تھا:
عظیم موسیقار رشید عطرے کی ترتیب دی گئی دھن میں نسیم بیگم کا گایا ہوا یہ شاہکار گیت مسرت نذیر پر فلمایا گیاتھا اور جو منیر نیازی کی پہچان بن گیا تھا۔
اسی سال کی فلم سسرال میں ان کا لکھا ہوا یہ گیت "جا ، اپنی حسرتوں پر ، آنسوبہا کے سو جا۔۔" ایک اور یادگار گیت تھا جو ملکہ ترنم نورجہاں کی مدھر آواز میں تھا اور جس کی دھن حسن لطیف نے بنائی تھی۔
اسی فلم کا گیت "جس نے میرے دل کو درد دیا ، اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں۔۔" وہ گیت تھا جس نے شہنشاہ غزل خانصاحب مہدی حسن کو ایک طویل جدوجہد کے بعد اپنا پہلا ہٹ فلمی گیت گانے کا موقع دیا تھا۔
اسی سال ، فلم اونچے محل کے تمام گیت بھی انھوں نے لکھے تھے لیکن ان میں کامیابی کا تناسب صفر تھا۔
منیر نیازی اور مسعودرانا کا ساتھ
1963ء میں منیر نیازی نے دو فلموں کے گیت لکھے تھے جن میں پہلی فلم شکوہ تھی جو صبیحہ خانم کی لاجواب جذباتی اداکاری کی وجہ سے مشہور تھی۔ اس فلم میں منیر نیازی نے پہلی بار مسعودرانا کے لیے یہ گیت لکھا تھا:
جبکہ احمدرشدی کا گایا ہوا یہ شاندار مزاحیہ گیت بھی نیازی صاحب کا لکھا ہوا تھا "انکل ٹام اکیلا ہے ، جولی جولی ۔۔"
ان کی دوسری فلم قتل کے بعد میں میڈم نورجہاں کا گایا ہوا یہ گیت بڑا مقبول ہوا تھا "مجھے چاند سے ڈر سا لگتا ہے۔۔" جسے نیازی صاحب نے لکھا تھا۔ ان کا اگلا ہٹ گیت فلم تیرے شہر میں (1965) تھا "کیسے کیسے لوگ ، ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں۔۔" اسے مہدی حسن نے گایا تھا اور حسن لطیف کی دھن تھی۔
1966ء میں منیر نیازی نے فلم معجزہ میں ایک ملی گیت لکھا تھا جس میں انھوں نے شعراء کرام کی روایتی مبالغہ آرائی کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے وطن سے محبت کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا:
اختر حسین کی دھن میں اس کورس گیت کو سلیم رضا ، مسعودرانا اور ساتھیوں نے کیا خوب گایا تھا۔ اس سال کی فلم تقدیر میں ان کا واحد گیت ان کی ایک مشہور زمانہ غزل تھی:
دیبو کی موسیقی میں گایا ہوا یہ مسعودرانا کا ایسا شاہکار گیت تھا کہ جس میں انھوں نے ثابت کیا تھا کہ کیوں اور کیسے وہ تاثرات کے بے تاج بادشاہ تھے۔ نشہ کی کیفیت میں گائے ہوئے مسعودرانا کے ڈیڑھ درجن فلمی گیتوں میں سے یہ میرا پسندیدہ ترین گیت رہا ہے۔
بڑے نام لیکن پھر بھی ناکام
1968ء کی فلم دھوپ اور سائے ، اپنے دامن میں چار بڑے بڑے نام سموئے ہوئے تھی۔ اس فلم کے چاروں گیت منیر نیازی نے لکھے تھے جن کے موسیقار معروف لوک فنکار طفیل نیازی تھے جن کی یہ اکلوتی فلم تھی۔ اس فلم کے فلمساز سابق صدر آصف علی زرداری کے والد اور بمبینو سینما کراچی کے مالک حاکم علی زرداری تھے۔ ان کی بھی یہ واحد فلم تھی۔ عظیم ادیب اور دانشور اشفاق احمد کی بطور ہدایتکار یہ واحد فلم تھی لیکن ان سبھی معروف ہستیوں کی اس مشترکہ کاوش کا انجام ایک سپر فلاپ فلم کی صورت میں سامنے آیا تھا۔۔!
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
منیر نیازی کا مکمل فلمی ریکارڈ تو دستیاب نہیں لیکن ان کی اب تک کی آخری کاوش فلم خریدار (1976) تھی جس میں ان کی یہ شاہکار غزل ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت تھا:
اس لازوال غزل کو بلبل پنجاب کہلانے والی حسین و جمیل گلوکار ناہیداختر نے گایا تھا جسے بیشتر لوگ سننے سے زیادہ دیکھنے کے متمنی ہوتے تھے لیکن یہ غزل سن کر اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کتنی بڑی گلوکارہ تھی اور اس نے کیوں میڈم نورجہاں جیسی گلوکارہ کو وخت پا دیا تھا۔۔!
4 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت