میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا
مجھے اپنے رب سے آس کہ میرا پیار ملے گا۔۔
مسعودرانا کے گائے ہوئے اس لازوال اور شاہکار گیت کے نغمہ نگار شیون رضوی تھے۔ وہ ، برصغیر کی فلمی تاریخ کے نامور گیت نگاروں میں سب سے سینئر اور بولتی فلموں کے ابتدائی دور کے شاعر تھے۔ ان کی پہلی فلم زندہ لاش (1932) بتائی جاتی ہے جوفلمی گائیکی کی دنیا کے پہلے سپرسٹار ، کندن لال سہگل کی بطور اداکار اور گلوکار تیسری فلم تھی۔ رضوی صاحب کی اس دور کی دیگر فلموں کی تفصیل نہیں ملتی۔
شیون رضوی کی وجہ شہرت
شیون رضوی کی وجہ شہرت ، ملکہ ترنم نورجہاں کی بطور اداکارہ اور گلوکارہ شہرہ آفاق فلم زینت (1945) تھی جس میں ان کے لکھے ہوئے دو گیت سپرہٹ ہوئے تھے:
- آندھیاں غم کی یوں چلی کہ باغ سارا اجڑ گیا۔۔ اور
- بلبلو ، مت روؤ یہاں آنسو بہانا ہے منع۔۔
محمدرفیع کا گایا ہوا فلم عرب کا ستارا (1946) کا یہ گیت بھی رضوی صاحب کا لکھا ہوا تھا "ملتا ہے کیا نماز میں سجدے میں جاکے دیکھ۔۔"
تقسیم کے بعد انھوں نے بہت سی بھارتی فلموں کے لیے نغمات لکھے تھے جوعام طور پر دوسرے اور تیسرے درجہ کی مسلم سوشل فلموں کے گیت ہوتے تھے۔
ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے
ہدایتکار اکبرعلی اکو کی بھارتی فلم الہلال (1958) کی مشہورزمانہ قوالی:
- ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے ،
کالے کالے بالوں نے ، گورے گورے گالوں نے۔۔
بھی انھی کی لکھی ہوئی تھی۔ شیون رضوی نے بڑے بڑے بھارتی گلوکاروں اور موسیقاروں کے لیے گیت لکھے تھے لیکن کسی بڑی کامیابی سے محروم رہے تھے۔
دلچسپ بات تھی کہ اس دوران ایک پاکستانی فلم یہودی کی لڑکی (1963) میں ان کا لکھا ہوا ایک 'بھارتی گیت' شامل کیا گیا تھا جس کے بول تھے "کل کی امید پہ یہ وقت نہ کھو۔۔" اس گیت کو بمبئی میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ موسیقار حفیظ خان نے دھن بنائی تھی جبکہ آشا بھونسلے کی آواز میں یہ گیت رقاصہ اداکار پنا زریں پر فلمایا گیاتھا۔
شیون رضوی کی پاکستان آمد
اپنے آبائی وطن ہندوستان میں مسلسل ناکامیوں سے گبھرا کر 1968ء میں شیون رضوی ، ترک وطن کرکے پاکستان چلے آئے تھے جہاں موسیقار ناشاد نے انھیں فلم سالگرہ (1969) کے گیت لکھنے کا موقع دیا تھا۔
ناشاد صاحب بھی چند سال قبل ، شیون رضوی ہی کی طرح بھارت کو چھوڑ کر پاکستان چلے آئے تھے اور سفر وسیلہ ظفر کے مصداق ان کی بھی کایا پلٹ گئی تھی اور وہ صف اول کے موسیقار بن گئے تھے۔
اس فلم میں ملکہ ترنم نورجہاں کے دو گیت سپرہٹ ہوئے تھے ، پہلا گیت تھا:
- میری زندگی ہے نغمہ ، میری زندگی ترانہ ،
میں صدائے زندگی ہوں ، مجھے ڈھونڈ لے زمانہ۔۔
جبکہ دوسرے گیت کا تعلق میری زندگی کے ایک انتہائی اہم واقعہ سے ہے۔ 20 دسمبر 1976ء کی صبح جب ایک ماہ میں دس ملکوں کے آٹھ ہزار کلومیٹر طویل بائی روڈ سفر کے بعد ڈنمارک سے پاکستان پہنچا تھا تو اپنے آبائی شہر کے درودیوار دیکھ کر میرے لبوں پر شیون رضوی کا یہ شاہکار گیت مچل رہا تھا:
- لے آئی پھر کہاں پر ، قسمت ہمیں کہاں سے ،
یہ تو وہی جگہ ہے ، گزرے تھے ہم جہاں سے۔۔!
زندگی رہی تو اپنے اس ناقابل فراموش سفر کا تفصیلی احوال لکھوں گا ، ان شاء اللہ۔۔!
شیون رضوی اور مسعودرانا کا ساتھ
فلم چاندسورج (1970) میں شیون رضوی کا لکھا ہوا گیت "یہ زمین اور ہو ، آسمان اور ہو۔۔" مسعودرانا کے ساتھ پہلا گیت تھا۔ ساتھی گلوکارہ میڈم نورجہاں تھیں جن کا گایا ہوا یہ گیت بھی بڑا مشہور ہوا تھا "آ بھی جاؤ ساجنا ، ارمانوں کے گلزاروں میں۔۔" اسی فلم کا ایک مشہور گیت مہدی حسن اور میڈم نورجہاں نے الگ الگ گایا تھا "انھی کو ڈھونڈ رہی ہے نگاہ شوق میری ، جو محفل میں اجنبی آئے بیٹھے ہیں ، یہی تو ہیں جو میرا دل چرائے بیٹھے ہیں۔۔"
فلم رم جھم (1971) میں بھی میڈم کا یہ گیت سپرہٹ ہوا تھا "میں نے اک آشیاں بنایا تھا ، اب بھی شاید وہ جل رہا ہوگا۔۔"
فلم بہاروپھول برساؤ (1972) بھی ایک بہت بڑی نغماتی فلم تھی۔ اس فلم کا سب سے مقبول گیت مسعودرانا کا گایا ہوا یہ شاہکار گیت تھا "میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا۔۔" میڈم کے دو گیت بھی بڑے مقبول ہوئے تھے "یہ گھر میرا گلشن ہے ، گلشن کا خداحافظ۔۔" اور "چندا رے چندا ، کچھ تو ہی بتا ، میرا افسانہ۔۔" شوکت علی ، تصورخانم اور آئرن پروین کا یہ کورس گیت بھی بڑے کمال کا تھا "اے محبت تیرا جواب نہیں ہے۔۔"
فلم سہرے کے پھول (1973) میں یہ لاجواب نظم "آج تک یاد ہے وہ پیار کا منظر مجھ کو ، جس کی تصویر نگاہوں میں لیے پھرتا ہوں۔۔" اور فلم پالکی (1975) کا یہ شاہکار گیت "یہ جھکی جھکی نگاہیں ، انھیں میں سلام کرلوں ، یہیں اپنی صبح کرلوں ، یہیں اپنی شام کرلوں۔۔" خانصاحب مہدی حسن کے گائے ہوئے یہ دونوں گیت میرے پسندیدہ ترین گیتوں میں رہے ہیں۔ ان سبھی گیتوں کے موسیقار ناشاد صاحب تھے جنھوں نے رضوی صاحب کے لکھے ہوئے بیشتر گیتوں کی دھنیں بنائی تھیں۔
شیون رضوی بطور ہدایتکار
شیون رضوی کو فلم بنانے کا بھی شوق تھا۔ انھوں نے دو فلمیں بنائی تھیں جبکہ تیسری فلم 'نغمات کی رات' نامکمل رہی تھی۔
ہدایتکار ، مصنف اور نغمہ نگار کے طور پر ان کی پہلی فلم میری زندگی ہے نغمہ (1972) تھی ، فلمساز کے طور پر عذراجبیں کا نام دیا گیا تھا جو شاید ان کی بیگم تھیں۔ اس فلم میں انھوں نے مزاحیہ اداکار رنگیلا کو ہیرو لیا تھا جو اس وقت ہیرو کے طور بام عروج پر تھے ، سنگیتا ، قوی اور اسلم پرویز دیگر فنکار تھے۔
نثاربزمی کی موسیقی میں مہدی حسن کا شاہکار گیت "اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا۔۔" اس فلم کی پہچان بن گیا تھا۔ میڈم نورجہاں اور رنگیلا کا الگ الگ گایا ہوا یہ گیت بھی سپرہٹ ہوا تھا "تیرا کسی پہ آئے دل ، تیرا کوئی دکھائے دل ، تو بھی کلیجہ تھام کے ، مجھ سے کہے کہ ہائے دل۔۔" رنگیلا ہی کا گایا ہوا ایک اور گیت بھی بڑا مقبول ہوا تھا "یہاں قدرکیا دل کی ہوگی ، یہ دنیا ہے شیشہ گروں کی۔۔" یہ ایک گولڈن جوبلی سپرہٹ فلم تھی۔
شیون رضوی کی ایک فلم میں مسعودرانا کے پانچ گیت
پہلی فلم کی کامیابی سے حوصلہ پا کر شیون رضوی نے دوسری فلم بات پہنچی تیری جوانی تک (1974) بنائی تھی۔ اس فلم کے چاروں اہم شعبوں یعنی فلمساز ، ہدایتکار ، مصنف اور نغمہ نگار کے طور پر ان کا نام آتا تھا۔ اس فلم میں بھی انھوں نے رنگیلا ہی کو فرسٹ ہیرو کے طور پر منتخب کیا تھا جو اس وقت تک بطور ہیرو زوال پذیرہوچکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ایک اچھی فلم ہونے کے باوجود ناکامی ہوئی تھی۔ اس فلم میں سنگیتا ، منورظریف ، صاعقہ ، ننھا اور قوی دیگر اہم کردار تھے۔
اس فلم کا ایک سین بے چارے شاعر حضرات کی حسرتوں کی ترجمانی کرتا ہے کہ وہ اپنی شاعری کی کتابوں کو لاکھوں کی تعداد میں ہاتھوں ہاتھ بکتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ کروڑوں کی آبادی کے ملک پاکستان میں کتابیں چند ہزار کی تعداد میں چھپتی ہیں اور شاعری کی کتابیں تو عام طور پر ردی کے بھاؤ بکتی ہیں۔
اس فلم کے موسیقار بھی نثاربزمی تھے لیکن کوئی گیت ہٹ نہیں تھا۔ یہ اکلوتی فلم تھی جس میں بزمی صاحب نے مسعودرانا سے پانچ گیت گوائے تھے جن میں سے ایک سولو گیت بڑے کمال کا تھا:
- یہ دنیا سنگدل ہے اور نازک میرا دل ہے ،
نہ میں دنیا کے قابل ہوں ، نہ دنیا میرے قابل ہے۔۔
میڈم نورجہاں کے ساتھ یہ رومانٹک گیت بھی زبردست تھا:
- اس حُسن سے نہیں ہے مجھے تم سے پیار ہے ،
دو دن کی اس خوشی کا کیا اعتبار ہے۔۔
میڈم اور مہدی حسن کا الگ الگ گایا ہوا یہ گیت بھی بڑا اچھا تھا "میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ محبت نہ کرو۔۔"
تقسیم ہند پر فنکاروں کی تقسیم
شیون رضوی نے سب سے زیادہ گیت ناشاد صاحب کے لیے لکھے تھے اور عین ممکن ہے کہ انھی کی ترغیب پر پاکستان بھی آئے ہوں۔ لیکن جب انھوں نے اپنی فلمیں بنائیں تو ان کی تینوں فلموں کے موسیقار نثاربزمی تھے۔ بزمی صاحب بھی ساٹھ کی دھائی میں پاکستان چلے آئے تھے اور ان کی ہجرت کی کہانی بھی ناشاد اور شیون رضوی سے مختلف نہیں تھی۔ ذیل میں ایک غیرحتمی اور سرسری سا جائزہ پیش کیا جارہا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت جو نامور مسلمان فنکار فلموں میں کام کرتے تھے ، ان کی تقسیم کس طرح سے ہوئی تھی :
ہندوستانی فنکاروں کی فوری پاکستان آمد
ہندوستانی فنکاروں کی دیر سے پاکستان آمد
نوآموز ہندوستانی فنکاروں کی پاکستان آمد
- ایسے فنکار جو پاکستان میں پیدا نہیں ہوئے تھے اور جنھوں نے بھارت میں فلمی کیرئر کا آغاز کیا لیکن بعد میں پاکستان چلے آئے تھے ، ان میں احمدرشدی اور ادیب کے نام ملتے ہیں جبکہ درپن ، بھارت جاکر واپس آگئے تھے۔
پاکستانی فنکاروں کی وطن واپسی
پاکستانی فنکاروں کا بھارت میں قیام
- ایسے فنکار جو موجودہ پاکستان میں پیدا ہوئے یا جنھوں نے لاہور سے فلمی سفر کا آغاز کیا لیکن تقسیم کے بعد انھوں نے بھارت میں رہنا پسند کیا ، ان میں کاردار ، ثریا ، دلیپ کمار ، محمدرفیع ، شمشاد بیگم ، پران ، اوم پرکاش ، شوری ، سرداری لال ، دلسکھ پنچولی ،گلزار اور عزیز کاشمیری وغیرہ شامل تھے۔
ہندوستانی فنکاروں کی پاکستان سے واپسی
- ایسے فنکار جو تقسیم کے بعد پاکستان آئے لیکن یہاں کے حالات سے مایوس ہوکر بھارت لوٹ گئے تھے ان میں بڑے غلام علی خان ، ناصرخان ، اور محبوب خان وغیرہ کے نام ملتے ہیں۔
پاکستانی فنکار جو پاکستان ہی میں رہے
مندرجہ بالا اعدادوشمار میں غلطیوں اور خامیوں کا امکان ہے لیکن جب کبھی پوری تحقیق کے ساتھ حتمی فہرست تیارہو گی تو اصلاح بھی ہوجائے گی ، ان شاء اللہ۔۔!
7 اردو گیت ... 0 پنجابی گیت