Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


نور محمد چارلی

نور محمد چارلی
برصغیر کی فلمی تاریخ کے پہلے
سپر سٹار مزاحیہ اداکار تھے
چان تارا (1945)
چن تارا (1945)
مسافر (1940)
مسافر (1940)
سنجوگ (1943)
سنجوگ (1945)

نورمحمدچارلی ، برصغیر پاک و ہند کی فلمی تاریخ کے پہلے عہد ساز اور سپر سٹار مزاحیہ اداکار تھے۔۔!

وہ تیس اور چالیس کے عشروں کے سب سے مقبول اور مصروف ترین کامیڈین تھے۔ گو اس دور میں غوری ، ڈکشٹ ، گوپ اور یعقوب وغیرہ جیسے بڑے بڑے مزاحیہ اداکار بھی تھے لیکن جو شہرت و مقبولیت چارلی صاحب کو ملی ، وہ کسی دوسرے مزاحیہ اداکار کو نہیں مل سکی تھی۔

انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پہلے مزاحیہ اداکار تھے جو ہیرو بنے اور فلموں میں مرکزی کرداروں میں کاسٹ ہوئے۔ وہی ، پہلے مزاحیہ اداکار تھے کہ جن پر کوئی فلمی گیت فلمایا گیا تھا اور پہلے ہی مزاحیہ اداکار تھے جس نے اپنے گیت خود گائے تھے۔

سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار

ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ ممتاز بھارتی مزاحیہ اداکار جانی واکر اور محمود بھی نورمحمدچارلی کے فین تھے اور انھیں کاپی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ پاکستان میں آصف جاہ ، نورمحمدچارلی کے سٹائل سے متاثر تھے۔

نور محمد ، چارلی کیسے بنے؟

اداکار ' نورمحمد ' نے 1928ء میں بننے والی خاموش فلم اپ ٹو ڈیٹ سے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔

اگلے سال کی گونگی فلم انڈین چارلی (1929) کو جب 1933ء میں بولتی فلم کے طور پر بنایا گیا تھا تو اس فلم کا ٹائٹل رول اداکار ' نورمحمد ' نے کیا تھا۔ اس فلم میں ان کا کام بے حد پسند کیا گیا تھا اور 'چارلی' کا لاحقہ ان کے نام کا حصہ بن گیا تھا اور باقی عمر وہ ' نورمحمدچارلی ' کے نام سے جانے گئے تھے۔

عروج کا دور

اس دوران وہ باکس آفس کی ضرورت بن چکے تھے۔ وہ بہت سی فلموں میں مرکزی کرداروں میں نظر آئے جن میں ہدایتکار اے آر کاردار کی تفریحی فلم سنجوگ (1943) ایک بہت بڑی مثال تھی جو نیٹ پر موجود ہے۔

اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ فلم کی ہیروئن مہتاب کے ساتھ ان کا رومانس اور گلوکارہ ثریا کے ساتھ گائے ہوئے گیت بڑے پسند کیے گئے تھے۔ خاص طور پر موسیقار نوشاد علی کی دھن میں اس وقت کا یہ مزاحیہ گیت "پلٹ تیرا دھیان کدھر ہے۔۔" ایک سٹریٹ سانگ بن گیا تھا۔

اسی فلم میں پاکستان کے عوامی اداکار علاؤالدین نے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا اور صرف ایک سین میں نظر آئے تھے۔ ممتاز مزاحیہ اداکار اے شاہ شکارپوری کو اس فلم میں ایک اہم رول دیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ چارلی نے فلم مسافر (1940) میں نامور گلوکار اور اداکارہ خورشید کے مقابل کردار نگاری کی تھی اور فلم چاند تارا (1945) میں اس کی ہیروئن سورن لتا تھی۔

نور محمد چارلی کی پاکستان آمد

قیام پاکستان کے بعد نورمحمدچارلی بھارت چھوڑ کر پاکستان چلے آئے تھے اور یہاں کل دس فلموں میں کام کیا تھا۔

پہلی فلم مندری (1949) تھی۔ اس فلم میں راگنی اور الیاس کاشمیری مرکزی کرداروں میں تھے۔ چارلی صاحب نے مزاحیہ اداکاری کے علاوہ ایک گیت بھی گایا تھا "اکڑ دکڑ بمبا بو ، میں تیرا ، تو میری ہو۔۔" موسیقار جی اے چشتی نے اس گیت کے علاوہ فلم مس 56ء میں بھی چارلی صاحب سے دو گیت مزید گوائے تھے۔

موسیقار غلام حیدر نے بھی دو فلموں بے قرار (1950ء) اور اکیلی (1951) میں بھی چار گیت گوائے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر تقسیم کے قبل کے ان دونوں عظیم فنکاروں کو پاکستان میں کوئی کامیابی نہیں ملی تھی۔

اردو اور پنجابی فلموں میں ناکامی کے بعد انھوں نے تین سندھی فلموں میں بھی کام کیا تھا لیکن ان فلموں کا سرکٹ بڑا محدود رہا ہے۔ مسلسل ناکامیوں سے گبھرا کر وہ واپس بھارت چلے گئے تھے جہاں انھیں تین فلموں میں کام ملا تھا لیکن بھارتی حکومت نے وقت کے سپرسٹار اداکار کو وہاں کی شہریت دینے سے انکار کر دیا تھا اور وہ مایوس واپس لوٹ آئے تھے۔

نور محمد چارلی ، پلپلی صاحب کے رول میں

پاکستان واپسی پر انھیں مزید دو فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ ان کی آخری فلم استادوں کا استاد (1967) کے علاوہ ایک پنجابی فلم پلپلی صاحب (1965) بھی تھی جس کا ٹائٹل رول انھوں نے کیا تھا۔

ہدایتکار اسلم ایرانی کی یہ نیم مزاحیہ فلم تھی جس میں چارلی صاحب نے ایک انگلینڈ پلٹ نوجوان کا رول کیا تھا جو اپنی خالص دیہاتی ماں اور بہن کو مجبور کرتا ہے کہ وہ گاؤں کے لوگوں سے خود کو مہذب ، اعلیٰ اور الگ تھلگ رکھنے کے لیے مغربی لباس اور طرز زندگی اپنائیں۔

نورمحمدچارلی کے لیے مسعودرانا کا گیت

اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ نورمحمدچارلی کے فلمی کیرئر کا آخری گیت جو ان پر فلمایا گیا تھا:

  • نوریا ، بھولیا بھالیا ، وے الٹیاں سمجھاں والیا۔۔

وہ مسعودرانا کا گایا ہوا تھا۔

اردو ، پنجابی اور انگلش میں مکس اس گیت کو حزیں قادری نے لکھا تھا اور مشرقی اور مغربی دھنوں کے امتزاج سے بابا جی اے چشتی نے ایک دلچسپ کامیڈی گیت کمپوز کیا تھا جو آئرن پروین اور مسعودرانا کی آوازوں میں تھا اور فلم میں چن چن اور نورمحمدچارلی پر فلمایا گیا تھا۔ چن چن پر کئی مزاحیہ گیت فلمائے گئے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا جس میں ایک ماں اور بیٹے کی تکرار ہوتی ہے اور جو دو تہذیبوں کا تصادم ہوتا ہے۔

نورمحمدچارلی کا 30 جون 1983ء کو کراچی میں انتقال ہوا تھا۔ سٹیج اور ٹی وی اداکار لطیف چارلی ان کے بیٹے تھے۔

مسعودرانا کا ایک اور منفرد اعزاز

مسعودرانا ، اکلوتے پاکستانی گلوکار ہیں کہ جنھوں نے بیس کے عشرہ میں خاموش فلموں کے دور میں فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والے برصغیر کے اس پہلے سپرسٹار کامیڈین نورمحمدچارلی کے لیے پس پردہ گائیکی کی تھی۔

مسعودرانا کا اپنا فلمی کیرئر چار عشروں یعنی ساٹھ ، ستر ، اسی اور نوے کی دھائیوں پر محیط تھا لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آٹھ عشروں پر پھیلے ہوئے فنکاروں پر فلمائے گئے جو ایک منفرد ریکارڈ ہے جس میں کوئی دوسرا گلوکار یا گلوکارہ شریک نہیں ہے۔

بیس سے نوے تک کے عشروں پر پھیلے ہوئے ان چیدہ چیدہ اداکاروں کی زیر نظر فہرست میں بریکٹس میں جو نام ہیں ، ان پر مسعودرانا کے گیت پس منظر میں گائے گئے تھے جبکہ دیگر اداکاروں پر گیت فلمائے گئے تھے:

عشرہ فلمبند پس پردہ اداکار
1920 1 1 نور محمد چارلی ، (ایم اسماعیل)
1930 1 0 اے شاہ
1940 6 3 سدھیر ، سنتوش ، علاؤالدین ، طالش ، شیخ اقبال ، نذر ، (الیاس کاشمیری ، گل زماں ، ظہور شاہ)
1950 18 6 درپن ، یوسف خان ، اکمل ، اعجاز ، حبیب ، کمال ، آصف جاہ ، زلفی ، رنگیلا ، لہری ، ساون ، ریاض شاہد ، مظہرشاہ ، سکندر ، امداد حسین ، ساقی ، دلجیت مرزا ، اسد جعفری ، (صبیحہ خانم ، نیر سلطانہ ، شمیم آراء ، یاسمین ، بہار ، فضل حق)
1960 44 10 محمدعلی ، وحیدمراد ، رحمان ، نرالا ، حنیف ، اسدبخاری ، منورظریف ، خلیفہ نذیر ، جگی ملک ، ننھا ، علی اعجاز ، قوی ، ندیم ، اقبال حسن ، کیفی ، خالد ، حیدر ، البیلا ، عرفان کھوسٹ ، مصطفیٰ قریشی ، افضال احمد ، عظیم ، حمید چوہدری ، ابو شاہ ، محبوب کاشمیری ، منیر ظریف ، افضل خان ، چنگیزی ، زبیر ، طارق عزیز ، بخشی وزیر ، چوہان ، گلریز ، محمود ، اعظم ، ارسلان ، مسعوداختر ، زاہد خان ، عباس نوشہ ، ماسٹر صدیق ، ضیاء ، اعجاز اختر ، کمال ایرانی ، (مسعودرانا ، نغمہ ، نبیلہ ، سلمی ممتاز ، طلعت صدیقی ، زینت ، ریکھا ، چترا ، شوکت اکبر ، گٹو)
1970 25 1 بدر منیر ، آصف خان ، شاہد ، اورنگزیب ، غلام محی الدین ، جاوید شیخ ، تنظیم حسن ، جمال ، جمیل فخری ، مجید ظریف ، خالد سلیم موٹا ، راحت کاظمی ، نوید ، غیور اختر ، عمر فیروز ، ناظم ، جمشید انصاری ، چکرم ، عثمان پیرزادہ ، شہباز ، جہانگیر مغل ، خالد عباس ڈار ، بانکا ، (طارق شاہ)
1980 15 0 اظہار قاضی ، فیصل ، ایاز ، شہباز اکمل ، جہانزیب، شیوا ، اسماعیل شاہ ، مسعود احسن ، بابر ، عظیم ، اسماعیل تارا ، ظہور علی ، شجاعت ہاشمی ، عابد علی ، مرزا غضنفر بیگ

1990

9 0 شان ، جان ریمبو ، عمرشریف ، عابد کشمیری ، فیصل منورظریف ، اکبر شیخ ، دلاور ، عجب گل ، حیدر سلطان

مسعودرانا اور نور محمد چارلی کے 1 فلمی گیت

(0 اردو گیت ... 1 پنجابی گیت )
1

نوریا بھولیا بھالیا ، وے الٹیاں سمجھاں والیا..

فلم ... پلپلی صاحب ... پنجابی ... (1965) ... گلوکار: آئرن پروین ، مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: چن چن، نور محمد چارلی

مسعودرانا اور نور محمد چارلی کے 0 اردو گیت


مسعودرانا اور نور محمد چارلی کے 1 پنجابی گیت

1

نوریا بھولیا بھالیا ، وے الٹیاں سمجھاں والیا ...

(فلم ... پلپلی صاحب ... 1965)

مسعودرانا اور نور محمد چارلی کے 0سولو گیت


مسعودرانا اور نور محمد چارلی کے 1دوگانے

1

نوریا بھولیا بھالیا ، وے الٹیاں سمجھاں والیا ...

(فلم ... پلپلی صاحب ... 1965)

مسعودرانا اور نور محمد چارلی کے 0کورس گیت



Masood Rana & Noor Mohammad Charlie: Latest Online film

Pilpli Sahib

(Punjabi - Black & White - Friday, 29 October 1965)


Masood Rana & Noor Mohammad Charlie: Film posters
Pilpli Sahib
Masood Rana & Noor Mohammad Charlie:

1 joint Online films

(0 Urdu and 1 Punjabi films)

1.1965: Pilpli Sahib
(Punjabi)
Masood Rana & Noor Mohammad Charlie:

Total 1 joint films

(0 Urdu and 1 Punjabi films)

1.1965: Pilpli Sahib
(Punjabi)


Masood Rana & Noor Mohammad Charlie: 1 songs

(0 Urdu and 1 Punjabi songs)

1.
Punjabi film
Pilpli Sahib
from Friday, 29 October 1965
Singer(s): Irene Parveen, Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: Hazin Qadri, Actor(s): ChunChun, Noor Mohammad Charlie


Kismat
Kismat
(1943)
Birhan
Birhan
(1947)
Pagli
Pagli
(1943)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan's political, film and media history.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes, and therefor, I am not responsible for the content of any external site.