Pakistan Film History
Pakistan Film Magazine presents detailed Urdu/Punjabi article on impacts of Zulfikar Ali Butto on Pakistani films.
ذوالفقار علی بھٹوؒ نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے نہ صرف پاکستانی تاریخ اور پاکستانی عوام پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے بلکہ پاکستانی فلموں اور فلمی گیتوں پر بھی اثر انداز ہوئے تھے۔
پاکستانی فلموں کے 75ویں سال کے سلسلے میں آج کی نشست میں 4 اپریل 1979ء کو پھانسی پا کر امر ہو جانے والے اس بے مثل رہنما سے متاثر شدہ فلموں اور گیتوں پر بات ہوگی۔
پاکستانی فلموں پر بھٹو صاحب کے اثرات پہلی بار 1960 کی دھائی میں جنرل ایوب خان کے دور میں ملتے ہیں جب دیگر وزارتوں کے علاوہ وزارت خارجہ کے عہدے پر اپنی حسن کارکردگی سے ایک قومی ہیرو بن چکے تھے۔
تجارتی بنیادوں پر بنائی گئی پاکستانی فلمیں عوامی تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتی تھیں جن میں عمومی جذبات ، احساسات اور رحجانات کے علاوہ معروضی حالات و واقعات کی ترجمانی بھی ہوتی تھی۔ تاریخ کے ایک طالب علم ہونے کے ناطے میرے لیے ایسی فلمیں اور گیت ناقابل فراموش ہوتے تھے۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد اس موضوع پر پاکستان میں اوپر تلے کئی ایک فلمیں بنائی گئیں جن میں سے ایک ، ہدایتکار ایم اے رشید کی فلم معجزہ (1966) بھی تھی جو فلم بینوں کو متاثر نہیں کر سکی تھی۔
کمزور کاسٹ کریڈٹ کی اس فلم کی کہانی میں کوئی جان بھی نہیں تھی ، اسی لیے طویل اور تھکا دینے والے جنگی اور ملی ترانوں سے وقت پورا کرنے کے علاوہ اس دور کے نامور اداکاروں کو پہلی بار ایک ایک سین کے کرداروں میں پیش کیا گیا تھا۔
اسد بخاری اور صابرہ سلطانہ جیسی سی کلاس جوڑی مرکزی کرداروں میں تھی جبکہ اسلم پرویز ولن تھے۔ فلم میں کشش پیدا کرنے کے لیے معروف شاعروں استاد دامن ، حبیب جالب اور منظور جھلا کو لائیو پیش کیا گیا تھا۔
فلم معجزہ (1966) کے کرداروں میں ایک سین اس وقت کے مقبول فنکاروں ، دیبا اور حبیب کا ہوتا ہے جن کا تعلق صوبہ سندھ سے ہوتا ہے اور جو پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ دیبا ، سندھ کی لازوال رومانوی داستان ، سسی پنوں کی محبت کی مثال دیتی ہے جس پر حبیب کہتے ہیں:
بھٹو صاحب کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینے کی وجہ یہ تھی کہ ایوب حکومت کے وہ سب سے کم عمر لیکن سب سے قابل اور مقبول ترین وزیر ثابت ہوئے جنھوں نے نہ صرف مختلف شعبوں میں اپنی شاندار کارکردگی سے ہر خاص و عام کو متاثر کیا بلکہ اپنی خداداد صلاحیتوں سے صدر کے بعد دوسرے بڑے عہدے ، یعنی وزارت خارجہ تک جا پہنچے تھے۔ 22 ستمبر 1965ء کو سلامتی کونسل میں کشمیر پر ایک پرمغز تقریر نے انھیں قومی ہیرو بنا دیا تھا۔
بھٹو صاحب کا مطالعہ اور مشاہدہ بے مثل تھا۔ انھیں یہ منفرد اعزاز حاصل تھا کہ دنیا کے مہذب اور اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ افراد کا کوئی فورم ہو یا بھوکے ، ننگے ، غریب اور ان پڑھ عوام کا جم غفیر ، وہ اپنی ذہانت و فطانت ، علم و شعور اور قوت گویائی سے ہر جگہ چھا جاتے تھے۔ یہ خوبی آج تک کسی دوسرے پاکستانی لیڈر کو نصیب نہیں ہوئی۔
یاد رہے کہ 21 جون 1964ء کو صدر جنرل ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹوؒ کو ان کی قومی خدمات کے اعتراف میں پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ "ہلال پاکستان" بھی دیا تھا۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ پر بنائی گئی فلموں میں ہمراہی (1966) سب سے کامیاب فلم تھی جو عام طور پر عظیم گلوکار مسعودرانا صاحب کے گائے ہوئے ریکارڈ ساز سات سپرہٹ اور متنوع گیتوں کی وجہ سے مشہور ہے۔
ہمراہی (1966) ، شاید پاکستان کی اکلوتی فلم ہے جس میں کسی قسم کا کوئی رومانٹک سین ، رومانٹک گیت ، رقص ، مجرا یا لڑائی مارکٹائی کا کوئی منظر نہیں تھا ، پھر بھی ایک سپرہٹ گولڈن جوبلی فلم قرار پائی تھی۔
اس شاہکار فلم میں بھی وقت کے متعدد مقبول اداکاروں کو چھوٹے چھوٹے کرداروں میں پیش کیا گیا تھا۔ دو نئے اداکاروں خالد اور حیدر نے مرکزی کرداروں میں بہت اچھی اداکاری کی تھی۔ محمدعلی اور ایم اسماعیل نے بھی بڑے گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔
فلم ہمراہی (1966) کی کہانی ایک بھارتی فلم دوستی (1964) کی کاپی تھی لیکن فلمساز نے کمال ہوشیاری سے فلم کے مرکزی کرداروں کو جنگ زدہ بنا کر پیش کیا اور صدر ایوب کی تاریخی تقریر کے علاوہ جنگ ستمبر کے متعدد مناظر بھی شامل کیے تھے۔
فلم ہمراہی (1966) کا آغاز ہی ایک مشہور ترانے سے ہوتا ہے:
بھٹی پکچرز اور ہدایتکار کیفی کی پہلی فلم مونہہ زور (1966) میں عوامی گلوکار عنایت حسین بھٹی نے عالم لوہار کے سٹائل میں ایک جگنی گائی تھی:
اس جگنی کے ایک انترے میں ذوالفار علی بھٹوؒ کی سلامتی کونسل میں کی گئی شاہکار تقریر کے دوران اس تاریخی جملے کو بنیاد بنایا گیا ہے جس میں انھوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے ہزار سال تک لڑنے کا کہا تھا:
(ترجمہ: سلامتی کونسل میں شیر دھاڑا اور کہا کہ ہمارا مسئلہ فوراً حل کرو ورنہ فیصلہ کن لڑائی ہم خود لڑ لیں گے!)
فلم مونہہ زور (1966) کی نمائش ، بھٹو صاحب کی ایوب حکومت سے راہیں جدا ہونے کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد ہوئی تھی۔
ظاہر ہے کہ اس کے بعد ان کا ذکر کسی فلم یا گیت میں نہیں ہو سکتا تھا۔ خاص طور پر جب بھٹو صاحب نے 1967ء میں اپنی سیاسی پارٹی بنا کر سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور 1970ء کے مقررہ صدارتی انتخابات میں جنرل ایوب خان کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا تو نہ صرف ان کی حب الوطنی مشکوک بنائی گئی بلکہ انھیں جیل کی ہوا تک کھانا پڑی۔
بھٹو صاحب ، عوام کے براہ راست وؤٹوں سے منتخب ہونے والے پہلے حکمران تھے ، اسی لیے ان کے دور حکومت کو "عوامی دور" کہا جاتا تھا۔ ان کے دور حکومت میں پہلی بار یہ دیکھنے میں آیا کہ وردی ، تھری پیس سوٹ اور شیروانی کی بجائے عوامی لباس ، شلوار قمیض میں بھی سربراہ حکومت نظر آسکتا ہے جو قومی مسائل کو بند کمروں کی بجائے عوامی جلسوں میں لے آتا ہے۔
1970 کی دھائی میں بھٹو دور حکومت ، پاکستانی فلموں کا انتہائی سنہری دور تھا جب پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اسی دور میں سرکاری سطح پر فلمی صنعت کو پذیرائی ملی۔ پہلی بار فلموں کی ترقی کے لیے ایک سرکاری ادارہ "نیف ڈیک" قائم کیا گیا جس نے سرکاری خرچہ پر بین الاقوامی میعار کی بامقصد فلمیں بنائیں ، متعدد سینما گھر تعمیر ہوئے اور پاکستانی فلموں کی ترویج کے لیے بین الاقوامی فلمی میلوں کا انعقاد ہوا جن میں متعدد فلموں اور فنکاروں کو عالمی اعزازات بھی ملے۔
تفصیلات کے مطابق بھٹو دور میں فلموں کی ترقی و ترویج کے لیے چند اہم ترین واقعات مندرجہ ذیل تھے:
بھٹو دور میں جہاں سوچ اور فکر کی آزادی تھی وہاں اظہار خیال پر کوئی پابندی نہیں تھی اور ہر کوئی اپنے ظرف کے مطابق بولتا اور لکھتا تھا۔ اس پر دلچسپ اور معنی خیز تبصرہ فلم چکر باز (1974) میں منورظریف کے ان مکالموں میں ملتا ہے:
بھٹو دور ، پاکستان کے غریب عوام ، مزدوروں اور محنت کشوں کا دور تھا جنھیں پہلی بار بنیادی حقوق ملے۔ قدرتی طور پر استحصالی طبقات یعنی سرمایہ دار ، صنعت دار اور تاجر حضرات ان حالات سے خوش نہیں تھے۔ غریبوں کو دی گئی مراعات اور سہولیات ، امیروں کے مفادات میں کبھی نہیں رہیں۔ امیر و غریب کی یہ کشمکش ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گی۔
بھٹو دور میں مزدوروں کے موضوعات پر خاص طور پر ندیم کی فلم مٹی کے پتلے (1974) اور طارق عزیز کی فلم ساجن رنگ رنگیلا (1975) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس دور میں عام روایت سے ہٹ کر اس نوعیت کے فلمی گیت بھی سننے کو ملتے ہیں:
بھٹو دور میں عوامی سوچ کا ایک انداز فلم ٹھاہ (1972) میں وارث لدھیانوی کے لکھے ہوئے ایک انقلابی گیت سے ملتا ہے:
گلوکار شوکت علی اور افشاں کی آوازوں میں یہ گیت ایک سٹیج پر رنگیلا اور غزالہ پرفارم کرتے ہیں جس میں ایک جملہ بولا جاتا ہے:
یہ جملہ فلمساز ، ہدایتکار اور اداکار دلجیت مرزا بولتے ہیں اور ایک جذباتی تقریر بھی کرتے ہیں جس میں سماج دشمن عناصر کو ڈرانے دھمکانے کے علاوہ مزدوروں کو قوانین و ضوابط کی پابندی کرنے کے لیے بھٹو صاحب کی تقاریر کا حوالہ بھی دیتے ہیں جو اپنے حقوق کی مانگ میں زیادتی کرتے ہوئے کام چوری ، ہڑتالیں ، مظاہرے اور لاک ڈاؤن وغیرہ کرنے لگے تھے۔
آن لائن فلم میں بھٹو صاحب کے بارے میں یہ جملے نہیں ملتے کیونکہ جنرل ضیاع مردود نے بھٹو دور تک بننے والی سبھی فلموں کے سنسر سرٹیفکیٹ منسوخ کر دیے تھے اور ایسے تمام مناظر اور گیتوں وغیرہ کو کاٹ دیا گیا تھا جن میں بھٹو صاحب کا ذکر ملتا تھا۔ بہت سا ٹی وی اور ریڈیو ریکارڈ بھی ضائع کر دیا گیا تھا۔
جنرل ضیاع ملعون نے اپنے گیارہ سالہ تاریک دور میں بھٹو کا نام و نشان مٹانے کی پوری کوشش کی لیکن قدرت کا انتقام دیکھئے کہ آمرمردود کے جہنم واصل ہوتے ہی بھٹو کی بیٹی ، بے نظیر بھٹو ، عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بنی۔ اس بے چاری کو بھی مار دیا گیا تو قوم نے بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کو ملک کا صدر بنادیا۔ یہیں بس نہیں ، آج بھی بھٹو کا نواسا ، پاکستان کا وزیرخارجہ بلاول زرداری ، اپنے نام کے ساتھ بھٹو کا نام استعمال کرنے پر مجبور ہے۔
اس کے برعکس ، پاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک اور وقت کا فرعون ، اپنے دور کے سیاستدانوں کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ وہ دم ہلاتے ہوئے میرے پیچھے چلے آئیں گے۔ مقام عبرت ہے کہ آج اس بدترین ڈکٹیٹر کا بیٹا ، اپنے ملعون باپ کے نام کی ٹانگہ پارٹی کو ختم کر کے ایک ایسے شخص کی پارٹی کا پٹا گلے میں ڈالنے پر مجبور ہوا ہے جسے اس کا باپ سیاست میں لانا چاہتا تھا تا کہ وہ ، بے نظیر بھٹو کی مقبولیت کا مقابلہ کر سکے۔
بھٹو دور میں سنسر پالیسی بڑی نرم تھی جس سے فلمسازوں نے بڑا ناجائز فائدہ اٹھایا اور انتہائی لچر ، بے ہودہ اور فحش فلمیں بنانے لگے جن مین بڑے بے ہودہ اور واہیات قسم کے گیت ہوتے تھے۔ ایسی قابل مذمت فلمیں ، ملک بھر میں خوب بزنس کیا کرتی تھیں۔
حکومت نے جمہوری طور طریقوں سے مذہبی اور قومی روایات اور اقدار کے مطابق فلمیں بنانے کا مشورہ دیا لیکن فلمسازوں نے ایسے مشورے رد کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ وہ بہتر جانتے ہیں کہ لوگ کیسی فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی آمد کے بعد بھی ہمارے لوگ کس قسم کی فلمیں اور ویڈیوز دیکھتے آئے ہیں ، بلاشبہ یہ ایک قومی المیہ ہے جو باعث تکلیف اور باعث شرم ہے۔
بھٹو دور ہی میں پرتشدد فلموں کا دور شروع ہوا جو عوام الناس کے نظام کے خلاف غم و غصہ کی غمازی کرتا تھا۔ وحشی جٹ (1975) پہلی پرتشدد فلم تھی جو مولا جٹ (1979) جیسی فضول قسم کی فلموں کی بنیاد بنی۔
ایسی وحشیانہ فلموں کو حق بجانب قرار دینے کے لیے مذہب اور سیاست کا سہارا لیا گیا جس کی ایک بدترین مثال ہدایتکار کیفی کی فلم جگا گجر (1976) تھی جس کے آغاز میں فلم کی بے مقصد اور پرتشدد کہانی کے لیے تمہید باندھی جاتی ہے اور ایک بہت بڑی غلط بیانی کی جاتی ہے۔
ناصر ادیب کی لکھی ہوئی 1968ء میں لاہور کے ایک بدنام زمانہ جگا بدمعاش کی کہانی سنانے کے لیے یہ غلط بیانی کی جاتی ہے کہ اب پاکستان میں عوامی حکومت کی وجہ سے ہر طرف سکون ہی سکون ہے ، خوشحالی ہے ، ہر کام قانون کے تحت ہو رہا ہے ، کوئی بدمعاشی اور بدامنی وغیرہ نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی سکون نہیں رہا۔ غیر جمہوری سوچ اور عدم سیاسی استحکام کی وجہ سے آئین و قانون کی بالا دستی قائم نہیں کی جا سکی۔ عوام کی اکثریت کو کبھی بنیادی حقوق اور ضروریات نصیب نہیں ہوئیں۔ بڑی وجہ تو یہی ہے کہ اس ملک کے وسائل کم اور مسائل بہت زیادہ رہے ہیں۔ نااہل لوگ بااختیار رہے ہیں اور ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ جو بڑے مجرم ہیں وہی محرم بنے پھرتے ہیں جنھیں کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا اور ان کا ہمیشہ سے جنگل میں منگل رہا ہے۔
پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے علاوہ دیگر سبھی سیاستدان یا حکمران متنازعہ رہے ہیں حالانکہ قیام پاکستان سے قبل وہ بھی انتہائی متنازعہ تھے اور خود کلمہ گو مسلمان بھی ان کے شدید ترین مخالفین میں شامل تھے جو انھیں کافر اعظم کہتے تھے۔ یہاں تک کہ پاکستان کا نام منتخب کرنے والے چوہدری رحمت علی ، قائد اعظمؒ کو غدار اعظم کہتے تھے۔ اگر وہ بانی پاکستان نہ ہوتے اور مزید کچھ عرصہ زندہ رہتے تو ان کا حشر بھی دیگر سیاستدانوں سے مختلف نہ ہوتا۔
پاکستان کے اکلوتے عوامی لیڈر ، جناب ذوالفقار علی بھٹوؒ کے مخالفین کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ ان کی حمایت عام طور پر غریب اور پسے ہوئے طبقات کے علاوہ پنجاب اور سندھ کے روشن خیال جمہوریت پسندوں میں ہوتی تھی۔
اسٹبلشمنٹ یعنی فوج اور بیوروکریسی ، سرمایہ دار ، صعنت کار ، تاجر ، جاگیر دار ، رجعت پسند مذہبی عناصر ، قوم پرست لسانی گروہ اور نام نہاد نظریاتی اور مفاد پرست میڈیا گروپس وغیرہ ، عموماً بھٹو صاحب کے خلاف ہوتے تھے جس کا بھرپور مظاہرہ ان کے دور میں عام طور پر اور زوال کے بعد خاص طور پر نظر آتا تھا۔
بھٹو کا تختہ الٹنے والے خبیث جنرل ضیاع مردود کے دور میں تو دو سال تک سرکاری خرچ پر اتنا غلیظ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ انسانیت کو بھی شرم آ جاتی ہے۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی کو عوام ہی کے پہلے منتخب لیڈر کے خلاف باپ کی جاگیر سمجھ کر جن جن حرامخوروں نے استعمال کیا وہ بلاشبہ قومی مجرم تھے۔
بھٹو صاحب ہی کے دور میں ان کے خلاف متعدد فلمیں اور گیت سامنے آئے جن میں سے مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں:
اردو فلموں کے ایک ممتاز ہیرو سید کمال نے فلم انسان اور گدھا (1973) بنائی جس میں رنگیلا کو ٹائٹل رول دیا گیا جو ایک گدھے سے انسان بنتا ہے لیکن انسانوں کی حیوانیت سے گبھرا کر دوبارہ گدھا بننے کی دعا کرتا ہے۔
اس فلم کا ایک منظر بہت مشہور ہوا جب رنگیلا ، گدھوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتا ہے اور ان سے ویسے ہی وعدے وعید کرتا ہے جو بھٹو صاحب اپنے مشہور زمانہ جلسوں میں عوام الناس سے کیا کرتے تھے۔ گدھے "ڈھینچوں ڈھینچوں" کرتے ہوئے "نعرے بازی" کرتے ہیں اور رنگیلا ، بھٹو کی طرح ہاتھ ہلا ہلا کر ان کا جواب دیتا ہے۔
کمال صاحب نے اپنی سوانح عمری میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس فلم پر بھٹو حکومت نے پابندی لگا دی تھی اور جنرل ضیاع مردود نے آکر نمائش کی اجازت دی تھی۔ یہ بہت بڑی غلط بیانی ہے ، یہ فلم اسی دور میں چلی لیکن کسی بڑی کامیابی سے محروم رہی تھی۔
بھٹو صاحب کے دور کی ایک یادگار فلم خوشیا (1973) بھی تھی جو اصل میں ایک بھارتی فلم انند (1971) کی کاپی تھی۔ اپنی موت سے باخبر ہونے کے باوجود ہر دم خوش رہنے والے خوشیا کی کہانی جو "گھڑی پل دی ہووے یا سو سال ، زندگی گزارو ہس کے۔۔" کی صورت میں منورظریف کی زندگی کی زندہ جاوید تصویر ثابت ہوئی تھی۔
فلم خوشیا (1973) ، دسمبر 1988ء میں عرصہ 15 سال بعد ایک نئی فلم کی طرح لاہور کے شبستان سینما سمیت گیارہ سینماؤں کے علاوہ پنجاب سرکٹ کے درجن بھر سینماؤں میں دوبارہ ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کے اخباری اشتہار پر بھٹو کو "کروڑوں دلوں کی دھڑکن" لکھا گیا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب پاکستان پر مسلط وقت کا بدترین ڈکٹیٹر ، جنرل ضیاع ملعون جہنم واصل ہو چکا تھا۔ اس کی مصنوعی قبر کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پاکستان کے غیور عوام نے ضیاع کی باقیات کی تمام تر سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود وؤٹ کی طاقت سے بھٹو کی ناتجربہ کار بیٹی کو عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنا کر اپنی محبت اور عقیدت کا قرض چکا دیا تھا۔ یہ فلم اسی خوشی کے موقع پر ریلیز ہوئی تھی۔
فلم خوشیا (1973) میں ایک مشہور زمانہ ملی ترانے:
معروف فلمی شاعر مسرور انور کے لکھے ہوئے اس مشہور زمانے ملی ترانے کی اصل دھن موسیقار سہیل رعنا نے بنائی تھی۔ اس لازوال قومی گیت کو ایک بنگالی گلوکارہ شہناز بیگم کے علاوہ دیگر بہت سے گلوکاروں نے گایا تھا اور یہ ایک قومی ترانہ بن گیا تھا جو بچے بچے کی زبان پر ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ بھٹو صاحب نے بھی ایک تقریب میں سہیل رعنا اور ان کے گروپ کے بچوں کے ساتھ ہم آواز ہو کر یہ ترانہ گایا تھا۔
پنجابی فلم خوشیا (1973) میں یہ اردو ملی ترانہ ، موسیقار وجاہت عطرے کی دھن میں ملکہ ترنم نور جہاں کی نمایاں آواز میں تھا اور مسعودرانا نے گیت کا مکھڑا گایا تھا:
1973ء میں لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں ہونے والے اس عوامی میلے میں علاقائی ثقافت ، کھیلوں کے مظاہروں اور فوجی کرتب دکھانے کے علاوہ مختلف فنکار ٹرکوں پر سٹال لگا کر نشان حیدر شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ آن لائن پرنٹ میں صرف چار شہداء ہی نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلے محمدعلی ، قومی پرچم لے کر آتے ہیں۔ ان کے بعد مختلف ٹرکوں پر مندرجہ ذیل مناظر نظر آتے ہیں:
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح وحید مراد اور کیفی کبھی کسی فلم میں ایک ساتھ نظر نہیں آئے ، ویسے ہی زیبا اور شبنم بھی کبھی کسی فلم میں ایک ساتھ نظر نہیں آئیں لیکن اس فوٹیج میں اس ترانے میں تالیاں بجاتے ہوئے ایک ساتھ کھڑی اور جھومتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ دیگر فنکاروں میں مرکزی کردار منورظریف کے علاوہ صبیحہ خانم ، سنتوش ، نیر سلطانہ ، رانی ، سنگیتا ، صوفیہ بانو ، آسیہ اور سلطان راہی وغیرہ بھی نظر آتے ہیں۔
اسی فوٹیج کی دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ ہدایتکار یا تدوین کار نے بھٹو صاحب کے ایک منظر کے فوراً بعد چڑیا گھر کے ایک ڈربے میں بند ایک بندر دکھایا جس سے بچے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح سے بھٹو صاحب کے مخالفین کو بھی خوش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
فلم نگری داتا دی (1974) کا تھیم سانگ مسعودرانا صاحب نے گایا تھا جس میں لاہور شہر کا بہترین روحانی تعارف ملتا ہے:
اس شاہکار گیت کے دوران فروری 1974ء میں لاہور میں ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس میں بھٹو صاحب کے علاوہ دیگر شرکاء کے فوٹیج ملتے ہیں جو بڑے یادگار تھے۔ شاہ فیصلؒ ، کرنل قذافی ، یاسر عرفات کے علاوہ دیگر مسلم رہنما بھی تھے جو دیکھنے والوں کے لیے دلچسپی کا حامل تھے۔
بھٹو صاحب نے اس اسلامی سربراہی کانفرنس سے جہاں عالم اسلام کی قیادت حاصل کی وہاں پاکستان کو پہلی بار سعودی عرب سے رعایتی نرخوں پر تیل ملنا شروع ہوا تھا۔ مزے کی بات ہے کہ اس امر کا انکشاف بھٹو صاحب نے ایک عوامی جلسہ میں کیا جہاں شدید مہنگائی پر قوم کو اعتماد میں بھی لیا تھا۔
یاد رہے کہ 1973ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد عربوں نے پہلی بار تیل کا ہتھیار استعمال کیا تھا جس سے دنیا بھر میں تیل کا سنگین بحران پیدا ہوا اور جس کے نتیجے میں آج کی طرح ہوشربا مہنگائی سے لوگوں کی چیخیں نکل گئی تھیں۔
پاکستان کی معاشی حالت زیادہ خراب تھی کیونکہ 1971ء میں ملک دو لخت ہونے سے وسائل بھی آدھے رہ گئے تھے ، امریکی امداد بھی بند تھی لیکن سب سے بڑے خرچے دفاع میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا تھا۔ اسی سال تباہ کن سیلاب کی وجہ سے زراعت بھی مشکلات کا شکار تھی لیکن خوش آئند بات یہ تھی کہ اسی دور میں پاکستان سے بڑی تعداد میں افرادی قوت کو مشرق وسطیٰ کے ممالک کی تعمیر و ترقی کے لیے بھیجا گیا جس سے بیرونی سرمایہ ملنا شروع ہوا اور غربت و افلاس اور بے روزگاری میں نمایاں کمی واقع ہوئی تھی۔
5 جولائی 1977ء کو جناب ذوالفقار علی بھٹوؒ کی حکومت پر شب خون مارا گیا۔ وقت کے ذلیل ترین آرمی چیف جنرل ضیاع مردود نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اپنے ہی ملک پر قبضہ کر لیا۔ ملک کی تاریخ کا طویل ترین مارشل لاء لگایا گیا جو مسلسل آٹھ سال سے زائد عرصہ تک نافذ رہا۔ دوسرے الفاظ میں تقریباً ایک دھائی تک قوم کی زبان بندی کی گئی اور جو ذہن سازی کی گئی ، وہ پاکستان کی رگوں میں اندھیرا ثابت ہوئی جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
4 اپریل 1979ء کو بھٹو کی پھانسی کے دو ماہ بعد ایک پنجابی فلم بکا راٹھ (1979) ریلیز ہوئی جس میں مسعودرانا کا گایا ہوا ایک باکمال کورس گیت تھا:
یہ ایک اشارتی گیت تھا جو بھٹو مرحوم کے جذبات کی ترجمانی کرتا تھا جنھوں نے موت کی سزا قبول کر لی لیکن ایک آمر ، جابر اور غاصب کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا تھا۔
پاکستان کی اصل مقتدر قوتوں نے اپنے مستقل مفادات کے تحفظ کے لیے بھٹو کو سیاست سے لاتعلق کرنے کے لیے ملک سے جلا وطن کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن ناکامی کے بعد ایک ایسا مقدمہ ڈھونڈا گیا جس کا کوئی سر پیر نہیں تھا۔ وعدہ معاف گواہوں سے ایک جھوٹے مقدمہ میں بھٹو کو مجرم قرار دلوا کر بے گناہ پھانسی کے پھندے تک پہنچا کر ثابت کیا کہ پاکستان جیسے بدقسمت ملک میں طاقت کا سرچشمہ عوام کبھی نہیں ہو سکتے۔
بھٹو ، پھانسی سے بچ سکتا تھا اگر سیاست سے کنارہ کش ہو جاتا یا جلا وطن ہو جاتا۔ یہاں تک کہ جب اسے پھانسی کی سزا سنا دی گئی تھی تو ترکی سمیت متعدد ممالک نے اس کی جان بخشی کی صورت میں ہمیشہ کے لیے قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بھٹو اگر اپنی جان بچا لیتا تو شاید نواز شریف کی طرح سے دوبارہ پاکستانی سیاست میں آجاتا جو پہلی بار جان بچا کر جنرل مشرف سے معاہدہ کر کے بھاگا اور دوسری بار علاج کے بہانے جنرل باجوہ کی مدد سے فرار ہوا۔ سیاست کا ایک ہی مقصد ٹھہرا ، بس جان ہے تو جہان ہے۔۔!
بھٹو ، سابق کٹھ پتلی وزیراعظم عمران خان جیسا انتہائی نااہل ، ڈرپوک اور بزدل شخص بھی نہیں تھا جو جان کے خوف میں مبتلا ہے۔ پریشر گروپس کی شہ پر خوف کے بت توڑنے کے دعوے کرنے والا سیاست کا یہ ریلو کٹا ، خود ایسے مضحکہ خیز حفاظتی خول میں قید ہوگیا ہے کہ ایک مستقل مذاق بن چکا ہے۔
جو ڈر جائے ، خوفزدہ ہو جائے یا جان بچا کر بھاگ جائے ، وہ گیدڑ تو ہو سکتا ہے ، لیڈر نہیں۔۔!
ذوالفقار علی بھٹوؒ ، پاکستان کی تاریخ کا واحد لیڈر تھا جس نے جان دے دی لیکن آن پر حرف نہیں آنے دیا اور بے گناہ پھانسی پا کر نہ صرف امر ہوا بلکہ شہادت کے اعلیٰ ترین رتبے پر بھی فائز ہوا۔ (رحمتہ اللہ علیہ ، آمین ، ثم آمین)
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.