اداکار اعجاز درانی
اپنے رانجھا اور مرزا جٹ کے کرداروں میں
ہمیشہ زندہ رہیں گے
سوموار ، یکم مارچ 2021ء کو انتقال کر جانے والے عظیم فلمی ہیرو
اعجاز نے رانجھے کا لازوال کردار ادا کر کے فلمی تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف میں لکھوایا لیا تھا۔۔!
نسل در نسل اور سینہ بہ سینہ چلنے والی لوک داستانیں ، کلاسیک ادب کا درجہ رکھتی ہیں جو کسی بھی قوم کی تہذیب و تمدن کی عکاس ہوتی ہیں۔ قصہ خوانوں اور لوک گلوکاروں سے لے کر نظم و نثر میں کتابیں لکھنے والے شاعروں اور ادیبوں تک یہ کردار لوگوں کے تصورات میں اپنے اپنے طور پر محفوظ ہوتے تھے لیکن فلم کی آمد کے بعد صدیوں پرانے کردار سلور سکرین پر زندہ جاوید کرداروں کی صورت میں نظر آنے لگے جن کی ایک بہت بڑی مثال فلم ہیررانجھا (1970) ہے۔
برصغیر کی فلمی تاریخ میں دیگر لوک کہانیوں کی طرح یہ کہانی بھی بے شمار بار فلمائی گئی ہے اور بہت سے فنکاروں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق ان کرداروں میں جان ڈالنے کی کوشش کی لیکن جو لازوال مقام فردوس اور اعجاز کو ملا ، کوئی دوسرا فنکار ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکا۔۔!
اعجاز ، پاکستان کے پہلے ڈائمنڈ جوبلی فلمی ہیرو
کسی بھی فنکار کو خراج تحسین پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ اس کے فن پاروں کا ذکر کرنا ہوتا ہے۔ اعجاز کا فلمی کیرئر بڑا متاثر کن رہا ہے۔ اپنے تیس سالہ فلمی کیرئر میں انھوں نے 130 فلموں میں کام کیا جن میں سے 70 اردو اور 60 پنجابی فلمیں تھیں۔ ان کی پہلی فلم حمیدہ (1956) اور آخری فلم جھومرچور (1986) تھی۔
اداکار اعجاز ، لوک داستانوں پر بنائی گئی رومانٹک فلموں کے سب سے آئیڈیل ہیرو تھے۔ انھیں پاکستان کا پہلا ڈائمنڈ جوبلی ہیرو ہونے کا ناقابل شکست اعزاز بھی حاصل ہے۔ پاکستانی فلمی تاریخ کے عروج کے دور میں سدھیر اور حبیب کے بعد تیسرے ہیرو تھے جو بیک وقت اردو اور پنجابی فلموں میں کامیاب ہوئے۔
اعجاز ایک کامیاب فلمساز بھی تھے ، ہیررانجھا (1970) ، دوستی (1971) ، شعلے (1984) اور مولا بخش (1989) جیسی بڑی بڑی فلمیں ان کے کریڈٹ پر تھیں۔ اعجاز کی سال بہ سال کارکردگی کا مختصراً احوال کچھ اس طرح سے ہے:
اعجاز کا فلمی کیرئر
ہدایتکار منشی دل نے اردو فلم حمیدہ (1956) میں نوجوان اداکار اعجاز کو ایک ثانوی کردار میں پیش کیا جو فلم کی ہیروئن صبیحہ خانم کا بھائی اور پاکستان کے سب سے سینئر ہیرو نذیر کا بیٹا ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی کردار اس فلم کے مقابلے میں بننے والی ہدایتکار لقمان کی فلم لخت جگر (1956) میں حبیب کر رہے تھے جن کی بھی یہ پہلی فلم تھی اور جن کے متعدد فلمی واقعات حیرت انگیز طور پر اعجاز سے مشابہہ ہیں۔
یہ دونوں فلمیں ایک بھارتی فلم وچن کی کاپی تھیں اور مقابلے میں بن رہی تھیں۔ حمیدہ (1956) ایک ہفتے پہلے ریلیز ہوئی اور کامیاب رہی لیکن لخت جگر (1956) ملکہ ترنم نورجہاں کے ہیروئن اور گلوکارہ ہونے کے باوجود ناکام رہی تھی۔ دونوں فلموں کے ہیرو سنتوش تھے۔
اسی سال اعجاز ایک فلم مرزا صاحباں (1956) میں مہمان اداکار کے طور پر بھی نظر آئے تھے۔
اعجاز کا ابتدائی دور
حبیب ، اعجاز اور کمال
1957ء میں اعجاز کی اکلوتی فلم بڑا آدمی (1957) ریلیز ہوئی جس میں ان کی پہلی ہیروئن مینا شوری تھی جو تقسیم سے قبل کی ایک معروف اداکارہ تھی لیکن پاکستان میں کامیاب نہیں ہوئی اور زیادہ تر ثانوی کرداروں میں دیکھی گئی تھی۔
یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں فلمسازی میں بے حد اضافہ دیکھنے میں آیا تھا جس کی بڑی وجہ 1955ء میں بھارتی فلموں کی آزادانہ نمائش پر پابندی تھی اور فلم کے بدلے فلم کا معاہدہ ہوا تھا۔
پاکستان میں فلمی ہیروز کی تعداد ایک درجن ہو گئی تھی۔ سینئر ہیروز میں جہاں نذیر ، سدھیر ، سنتوش ، درپن اور مسعود تھے تو نئے ہیروز میں یوسف خان ، اسلم پرویز ، عنایت حسین بھٹی ، اعجاز ، حبیب ، اکمل اور کمال متعارف ہوئے اور مقابلہ بڑا سخت تھا۔
1958ء میں اعجاز کی چاروں ریلیز شدہ فلمیں ناکام ہو گئی تھیں۔ فلم دل میں تو (1958) میں صبیحہ خانم کے ساتھ پہلی بار ہیرو آئے جو اس وقت کی سب سے مقبول ترین ہیروئن تھی۔ فلم تمنا (1958) میں یاسمین کے مقابل ہیرو تھے تو فلم ستاروں کی دنیا (1958) میں مینا شوری کے ساتھ ہیرو آئے۔ واہ رے زمانے (1958) میں پہلی بار شمیم آرا ، ہیروئن تھی جو اس وقت ایک نئی اداکارہ تھی۔
اعجاز کی پہلی پنجابی فلم
1959ء میں بھی اعجاز کی چار فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں پہلی کامیاب فلم راز (1959) تھی جس کے ہدایتکار ہمایوں مرزا تھے۔ اس فلم میں پہلی بار ان کا ساتھ وقت کی دوسری مقبول ترین ہیروئن مسرت نذیر کے ساتھ ہوا جس کے ساتھ ایک اور فلم سولہ آنے (1959) بھی تھی۔ اس فلم میں زبیدہ خانم کا یہ سپرہٹ گیت تھا "روتے ہیں چھم چھم نین ، بچھڑگیا چین رے۔۔"
پاکستان کے پچاس کے عشرہ کے کامیاب ترین فلمساز اور ہدایتکار انور کمال پاشا کی فلم گمراہ (1959) کے ہیرو بھی اعجاز تھے اور ہیروئن کے طور پر دو نئی لڑکیاں کافرہ اور ماہ رخ کو متعارف کرایا گیا تھا۔
اسی سال اعجاز کی پہلی پنجابی فلم سچے موتی (1959) ریلیز ہوئی جس کے فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف شیخ اقبال تھے جو بہت سی فلموں کے کہانی نویس اور ایک کامیاب معاون اداکار تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کی ہیروئن نیلو تھی جو اسی دن ، یعنی 11 ستمبر 1959ء کو ریلیز ہونے والی ایک اور پنجابی فلم شیرا (1959) کی ہیروئن بھی تھی اور یہ حبیب کی بھی پہلی پنجابی فلم تھی ، کیسا اتفاق تھا۔۔!
اعجاز اور میڈم نورجہاں کی شادی
اعجاز نے 19 اکتوبر 1959ء کو ملکہ ترنم نورجہاں سے شادی کی تھی
اسی سال 19 اکتوبر 1959ء کو اعجاز نے ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ شادی کر لی تھی جو میڈم کی دوسری جبکہ اعجاز کی پہلی شادی تھی۔ بارہ سالہ ازدواجی زندگی میں میڈم کے بطن سے اعجاز کی تین بیٹیاں پیدا ہوئی تھیں۔ 28 اپریل 1971ء کو ان میں طلاق ہوگئی تھی جس کی ایک وجہ تو اعجاز اور فردوس کے تعلقات تھے لیکن دوسری وجہ میڈم کے وقت کے حاکم صدر اور آرمی چیف جنرل یحییٰ خان سے مبینہ ناجائز تعلقات بھی تھے۔
اعجاز کا ایک ہی کردار ، دو فلموں میں
1960ء میں اعجاز کی پانچ فلمیں نمائش کے لیے پیش ہوئیں جن میں فلم سلمیٰ (1960) سب سے کامیاب فلم تھی۔ اس فلم کا ٹائٹل رول بہار نے کیا تھا ، اعجاز کی ہیروئن یاسمین تھی لیکن پوری فلم پر علاؤالدین چھائے ہوئے تھے جو اس وقت ایک مقبول ترین اداکار بن گئے تھے۔ یہی فلم بطور پلے بیک سنگر میڈم نورجہاں کی پہلی فلم تھی۔
ہدایتکار اشفاق ملک نے اپنی اس اردو فلم کو پنجابی زبان میں فلم بھولا سجن (1974) کی صورت میں دوبارہ بنایا تھا جس میں اعجاز نے وہی رول کیا جو وہ فلم سلمیٰ (1960) میں کرچکے تھے جبکہ علاؤالدین والا مرکزی کردار اقبال حسن نے کیا تھا۔
اسی سال اعجاز کی دوسری فلم گلبدن (1960) بھی ایک کامیاب فلم تھی جس میں ان کی ہیروئن مسرت نذیر تھی جو فلم ڈاکو کی لڑکی (1960) اور وطن (1960) میں بھی ہیروئن بنی جبکہ فلم منزل (1960) کی ہیروئن نیلو تھی۔
اعجاز کی کلاسیک فلم فرشتہ (1961)
1961ء میں اعجاز کی صرف دو فلمیں سامنے آئی تھیں جن میں فلم دوراستے (1961) میں ہیروئن نیلو تھی۔ اس فلم میں سلیم رضا کا ایک گیت بڑا مقبول ہوا تھا"بنا کے میرا نشیمن جلا دیا تو نے۔۔"
اس سال کی سب سے یادگار فلم فرشتہ (1961) تھی جو ایک روسی ناول پر بنائی گئی ایک آرٹ فلم تھی۔ میں نے جب پہلی بار اس فلم کو وی سی آر پر دیکھا تو دنگ رہ گیا تھا کہ پاکستان میں اس قدر اعلیٰ پائے کی فلمیں بھی بنی ہیں۔ فلم کا مرکزی کردار اعجاز ہے جو ایک فرشتہ بن کر ایک عصمت فروش عورت یاسمین کو سہارا دیتا ہے جو اپنے غریب خاندان کی کفالت کے لیے اس مکروہ دھندے پر مجبور ہوتی ہے۔
ہدایتکار لقمان کی یہ شاہکار فلم پاکستانی فلمی تاریخ کا فخر ہے لیکن ایسی آرٹ فلمیں باکس آفس پر کامیاب نہیں ہوتی تھیں کیونکہ فلم ایک تفریح کے طور پر لی جاتی تھی اور آرٹ فلموں میں تفریح کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔
اعجاز کی فلم شہید (1962)
1962ء کا سال اعجاز کے لیے بڑا یادگار سال تھا جب ان کی پانچ میں سے دو فلمیں کامیاب ، دو اوسط اور صرف ایک فلم ناکام تھی۔ اس سال کی سب سے بڑی فلم ہدایتکار خلیل قیصر کی شہید (1962) تھی جو ایک عالمی میعار کی فلم تھی۔ اس فلم میں رشید عطرے کی موسیقی میں فیض احمد فیض کی لکھی ہوئی یہ انقلابی نظم اعجاز صاحب پر فلمائی گئی تھی جسے منیر حسین نے گایا تھا "نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کے جہاں ، چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔۔"
اس فلم کا ٹائٹل رول مسرت نذیر نے کیا تھا جس پر نسیم بیگم کا یہ شاہکار گیت فلمایا گیا تھا "اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔۔" طالش نے اس فلم میں بین الاقوامی میعار کی اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ عرب کے صحراؤں میں انگریزوں نے کس طرح سے تیل کی دولت تلاش کی تھی ، اس موضوع پر بنائی گئی یہ ایک انتہائی متاثر کن فلم تھی۔
اسی سال کی فلم عذرا (1962) ایک اور کامیاب فلم تھی جس کا ٹائٹل رول نیلو نے کیا تھا۔ یہ ایک عربی لوک داستان تھی جس میں عذرا کے عاشق وامق کا رول اعجاز نے بخوبی کیا تھا اور ان پر سلیم رضا کا گایا ہوا ایک سپرہٹ گیت "جان بہاراں ، رشک چمن ، غنچہ دہن ، سیمیں بدن۔۔" فلمایا گیا تھا۔
فلم اجنبی (1962) جنگ و جدل والی فلم تھی جس میں اعجاز کی جوڑی بہار کے ساتھ تھی جبکہ فلم دوشیزہ اور برسات میں (1962) میں ان کی ہیروئن نیلو تھی۔
اعجاز ، بغیر مونچھوں کے
1963ء میں اعجاز کے کریڈٹ پر صرف تین فلمیں تھیں جن میں فلم باجی (1963) میں مہمان اداکار تھے جبکہ دیگر دونوں فلمیں دھوپ چھاؤں (ہیروئن بہار) اور عورت ایک کہانی (ہیروئن نیرسلطانہ) ناکام فلمیں تھیں۔
1964ء میں اعجاز نے پانچ فلموں میں کام کیا تھا جن میں سے سب سے کامیاب فلم گہرا داغ (1964) تھی۔ اس فلم میں اعجاز پر مہدی حسن کا ایک بڑا خوبصورت گیت فلمایا گیا تھا "گر تم حسین نہ ہوتے اور میں جوان نہ ہوتا۔۔" اس گیت کے دوران اعجاز بغیر مونچھوں کے نظر آئے جو بڑا عجیب سا لگتا تھا کیونکہ ان کی خوبصورت مونچھیں ان کی باوقار شخصیت کا خاصا تھیں جو اس وقت کے نوجوان طبقے میں فیشن کے طور پر مقبول تھیں۔
اس فلم کی ہیروئن نیلو تھی جو دوسری کامیاب فلم بیٹی (1964) میں بھی تھی۔ یہ اعجاز کی پہلی فلم تھی جس میں مسعودرانا کے گیت تھے لیکن ان پر کوئی گیت نہیں فلمایا گیا تھا۔
فلم دیوانہ (1964) ایک جاسوسی فلم تھی جس میں صبیحہ ہیروئن تھی۔ فلم چنگاری (1964) میں اعجاز پر مہدی حسن کا ایک اور یادگار گیت "اے روشنیوں کے شہر بتا۔۔" فلمایا گیا تھا۔
اسی سال اعجاز کی فردوس کے ساتھ پہلی فلم لائی لگ (1964) ریلیز ہوئی تھی۔ ٹائٹل رول علاؤالدین نے کیا تھا۔ وٹہ سٹہ کی شادی پر بنائی گئی یہ ایک بڑی بامقصد اور اعلیٰ پائے کی فلم تھی جس میں لوک فنکار عالم لوہار نے پہلی بار کوئی فلمی گیت گایا تھا۔
پچھلے نو برسوں میں 32 فلموں میں کام کرنے کے بعد 1965ء میں اعجاز کی کوئی ایک بھی فلم ریلیز نہیں ہوئی تھی۔ اس سال پاک بھارت جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر مکمل طور پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
اعجاز پر فلمایا ہوا مسعودرانا کا پہلا گیت
1966ء میں ایک بار پھر اعجاز کی پانچ فلمیں منظر عام پر آئی تھیں۔ اس سال کی پہلی فلم سرحد (1966) میں اعجاز پر پہلی بار مسعودرانا کا گیت "دیکھ دیکھ دیکھ ، تیری گلی میں آیا ہے کون۔۔" فلمایا گیا تھا۔
اس سال کی سب سے یادگار فلم بدنام (1966) تھی جو ایک عالمی میعار کی فلم ثابت ہوئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس فلم کو تاشقند کے فلمی میلے میں پیش کیا گیا تھا اور اتنی پسند کی گئی تھی کہ روس کی سترہ زبانوں میں ڈب کر کے مختلف ریاستوں میں پیش کی گئی تھی۔ یہ فلم کارکردگی کے لحاظ سے علاؤالدین کی فلم تھی جس کی ہیروئن نیلو تھی۔
اس فلم میں پہلی بار اعجاز پر مسعودرانا کے تین گیت فلمائے گئے تھے جن میں سب سے اعلیٰ میعار کا گیت "ابھی تو دل میں ہلکی سی خلش محسوس ہوتی ہے۔۔" تھا جبکہ ایک دوگانا "اک اور بات مانی۔۔" بھی بڑے اعلیٰ پائے کا گیت تھا۔ ان کے علاوہ ایک کورس گیت تھا "بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔۔"
اس فلم کا تھیم سانگ "ہم بھی مسافر ، تم بھی مسافر۔۔" علاؤالدین پر فلمایا گیا تھا جبکہ ایک ریڈیو گلوکارہ ثریا ملتانیکر کی غزل "بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے۔۔" اتنی مقبول ہوئی تھی کہ اس کی رائیلٹی سے فلم کے جملہ اخراجات پورے ہو گئے تھے۔
اعجاز بطور ولن
اسی سال کی فلم سوال (1966) میں اعجاز نے پہلی بار ایک ولن کا رول کیا جو سلونی کے ایک ناجائز بچے کا باپ ہوتا ہے اور فلم کے آخر میں اس کی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔
فلم جلوہ (1966) بھی ایک یادگار نغماتی فلم تھی جس میں لکھنو اور پنجابی تہذیب کو موضوع بنایا گیا تھا۔ اس فلم کے ہیرو درپن تھے اور اعجاز نے سائیڈ ہیرو کے طور پر پنجابی بولی تھی۔
اسی سال کی فلم ہمراہی (1966) میں اعجاز نے دیگر چند بڑے اداکاروں کی طرح مہمان اداکار کے طور پر کام کیا تھا۔
اعجاز کے عروج کا دور
1967ء میں اعجاز کے عروج کا دور شروع ہوا جب ان کی ایک سال میں 8 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ اس سال کی سب سے بڑی فلم لاکھوں میں ایک (1967) تھی۔ پاکستان کی ٹاپ ٹین فلموں کا جب بھی ذکر ہوگا ، اس فلم کا ذکر لازمی ہوگا۔ ہندو مسلم لو سٹوری پر بنائی گئی یہ ایک بے مثل فلم تھی جس کا ہر شعبہ لاجواب تھا۔ اعجاز کی ہیروئن شمیم آرا تھی جب کہ اس اردو فلم میں پہلی بار معروف ولن مصطفی ٰقریشی کو متعارف کرایا گیا تھا۔ اس فلم کے سپرہٹ گیتوں کی وجہ سے نثار بزمی صاحب نے اپنا نام عظیم موسیقاروں کی صف شامل کروا لیا تھا۔
اس سال کی دوسری بڑی فلم مرزاجٹ (1967) تھی جو اعجاز کی اب تک کی تیسری لیکن پہلی سپرہٹ پنجابی فلم تھی۔ اس فلم میں ان کی جوڑی فردوس کے ساتھ تھی۔ اس کلاسیک جوڑی نے 37 فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا جن میں صرف ایک اردو فلم تھی۔ اس جوڑی پر مسعودرانا اور آئرین پروین کا یہ کلاسیک گیت فلمایا گیا تھا "نکے ہندیاں دا پیار ، ویکھیں دیویں نہ وسار۔۔"
برصغیر کی فلمی تاریخ میں مرزاصاحباں کی لوک داستان پر بہت سی فلمیں بنائی گئی ہیں جن میں صرف پاکستان میں چار بار یعنی مرزا صاحباں (1956) میں مسرت نذیر اور سدھیر ، فلم جٹ مرزا (1982) میں انجمن اور یوسف خان اور فلم مرزاجٹ (1982) میں خانم اور شاہد نے مرکزی کردار کیے تھے لیکن ان میں کوئی ایک بھی فردوس اور اعجاز والی مرزاجٹ (1967) کے میعار تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈم نورجہاں نے بھی اداکار نذیر کے ساتھ اسی موضوع پر فلم مرزا صاحباں (1947) میں ٹائٹل رولز کیے تھے۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ فلم کے چند مناظر میں میڈم کئی ماہ کی حاملہ نظر آتی تھیں۔
اعجاز کے انتہائی عروج کا دور
1968ء کا سال اعجاز کے انتہائی عروج کا سال تھا جب ان کی ایک کیلنڈر ائر میں 16 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ ان میں 12 اردو اور 4 پنجابی فلمیں تھیں۔ اردو فلموں میں بہن بھائی (1968) سب سے بڑی فلم تھی جس میں انھوں نے ایک بار پھر ولن کا رول کیا تھا۔
اس سال کی ایک یادگار فلم دھوپ اور سائے (1968) تھی جو عظیم ادیب اشفاق احمد کی بطور ہدایتکار اور مصنف واحد فلم تھی۔ اس فلم کے فلمساز سابق صدر آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری تھے جبکہ بطور موسیقار لوک فنکار طفیل نیازی کی واحد فلم تھی۔ اس فلم کے نغمہ نگار منیر نیازی تھے۔ ان تمام بڑے ناموں کے باوجود یہ ایک ناکام ترین فلم ثابت ہوئی تھی۔
فلم پاکیزہ (1968) میں اعجاز کی جوڑی زیبا کی ساتھ تھی جبکہ محمدعلی نے اس فلم میں ولن کا رول کیا تھا۔ اسی طرح فلم بیٹی بیٹا (1968) ، فردوس اور اعجاز کی واحد اردو فلم تھی جس میں انھوں نے ینگ ٹو اولڈ رولز کیے تھے۔
اس سال کی چاروں پنجابی فلموں میں باؤجی (1968) سب سے بڑی فلم تھی جس میں مسعودرانا کا اعجاز پر فلمایا ہوا گیت "دل دیاں لگیاں جانے نہ۔۔" سپرہٹ ہوا تھا۔
فلم جوانی مستانی (1968) میں مسعودرانا کا ایک اور شاہکار گیت "اکھیاں ملا کے نیویں پان والیو۔۔" بھی فلمایا گیا تھا۔ اس گیت کے دوران سفید لباس میں ملبوس فردوس کوئی آسمانی حور جبکہ روایتی پنجابی لباس کرتا ، لاچا اور پگڑی میں اعجاز ایک گبھرو جوان لگتے تھے۔
اعجاز ، فلم حمیدا (1968) کے ہیرو بھی تھے جس کا ٹائٹل رول علاؤالدین کا تھا۔ وہ فلمی دور اس قدر شریفانہ تھا کہ سنسر بورڈ نے اس فلم کے اصل نام "حمیدا وارداتیا" پر اعتراض کیا تھا۔
اعجاز بطور فلمساز
اس سال کی چوتھی فلم مراد بلوچ (1968) تھی جو بطور فلمساز اعجاز کی پہلی فلم تھی جو ہدایتکار مسعود پرویز اور احمدراہی کے ساتھ اعجاز کی پہلی مشترکہ فلم تھی۔
یہ فلم ہیر وارث شاہ کی ایک ضمنی کہانی تھی جو ہیر کی نند "سہتی" اور اور اس کے عاشق "مراد" کے بارے میں تھی۔ ناہید اور اقبال حسن نے اس فلم میں ہیر اور رانجھا کے کردار کیے تھے۔ اس کہانی پر پہلے فلم سہتی (1957) بن چکی تھی جس میں مسرت نذیر اور اکمل نے ٹائٹل رولز کیے تھے جبکہ نیلو اور عنایت حسین بھٹی نے ہیر اور رانجھا کے کردار کیے تھے۔
اعجاز کی ڈائمنڈ جوبلی فلم زرقا (1969)
1969ء کا سال اعجاز کے فلمی کیرئر کا سب سے یادگار سال تھا جب مقبولیت اور مصروفیت میں انھوں نے دیگر سبھی بڑے بڑے اداکاروں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
اس سال اعجاز نے ریکارڈ توڑ 20 فلموں میں کام کیا تھا جن میں سے 6 اردو اور 14 پنجابی فلمیں تھیں۔
اردو فلموں میں ریاض شاہد کی اکلوتی کامیاب فلم زرقا (1969) سال کی سب سے بڑی فلم ثابت ہوئی تھی۔ فلسطین کے موضوع پر بنائی گئی اس فلم نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی اور کراچی میں پہلی بار سو ہفتے چلنے والی اولین ڈائمنڈ جوبلی فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ نیلو نے ٹائٹل رول کیا تھا جس کی اعجاز کے ساتھ دس فلمیں تھیں جو تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ تھیں۔ اس فلم کی ہائی لائٹ مہدی حسن کا شاہکار گیت "رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔۔" تھا جو اعجاز پر فلمایا گیا تھا۔
اعجاز کی فلم دیا اور طوفان (1969) بھی ایک گولڈن جوبلی سپرہٹ اردو فلم تھی جس میں رنگیلا کا گایا ہوا امر گیت "گا میرے منوا گاتا جارے۔۔" بھی اعجاز پر فلمایا گیا تھا۔ یہ واحد اردو فلم تھی جس میں اعجاز کی جوڑی نغمہ کے ساتھ تھی حالانکہ اس جوڑی نے کل چودہ فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا اور فردوس ، اعجاز کی جوڑی کے بعد نغمہ ، اعجاز کی جوڑی بڑی کامیاب رہی تھی۔
یادگار نغماتی فلم درد (1969) ایک اوسط درجہ کی تھی جس میں اعجاز کی ہیروئن دیبا تھی۔
اعجاز کے فلمی کیرئر کا سب سے یادگار سال
1969ء کا سال پنجابی فلموں کے حوالے سے ایک یادگار سال تھا۔ اعجاز کی 16 پنجابی فلموں میں سے دلاں دے سودے (1969) پاکستان کی پہلی پنجابی فلم تھی کہ جس نے لاہور اور کراچی میں بیک وقت گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ اس فلم میں وقت کی دو چوٹی کی ہیروئنیں نغمہ اور فردوس ، اعجاز کے مقابل تھیں جو ایک منفرد واقعہ تھا۔ اس فلم میں اعجاز پر مسعودرانا کا یہ گیت فلمایا گیا تھا "بھل جان اے سب غم دنیا دے۔۔" فلم کے ویڈیو پرنٹ میں یہ گیت موجود نہیں لیکن فلم میں مجھے اچھی طرح سے یاد کہ اعجاز نشے کی حالت میں شہر کی گلیوں میں گرتے پڑتے یہ گیت گاتے ہیں۔
فلم تیرے عشق نچایا (1969) ایک اور بہت بڑی فلم تھی جس میں مسعودرانا کے دو گیت اعجاز پر فلمائے گئے تھے "بن کے سوہنیا دی سرکار تے بھل گئے کسے غریب دا پیار۔۔" اور "چھیتی بوہڑی وے طبیبا ، نئیں تے میں مر گئی آ ، تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا۔۔" یہ گیت میڈم نورجہاں نے بھی گایا تھا۔ فلم کے کلائمکس میں ان دونوں گیتوں کو ملا کر پیش کیا گیا تھا جو فلم بینوں پر بڑا گہرا اثر کرتا تھا۔
فلم شیراں دی جوڑی (1969) بھی ایک یادگار فلم تھی جس میں مسعودرانا کے دو گیت اعجاز پر فلمائے گئے تھے جن میں "تیرے ہتھ کی بے دردے آیا ، پھلاں جیا دل توڑ کے۔۔" ایک سپرہٹ گیت تھا جبکہ رونالیلیٰ کے ساتھ یہ دوگانا بھی بڑے کمال کا تھا "متھے ہتھ رکھ کردا سلاماں ، جہیڑا ساڈا ماہی لگدا۔۔"
اسی سال کی فلم دلا حیدری (1969) بطور فلمساز ، اعجاز کی دوسری فلم تھی جس میں ان کی جوڑی فردوس کے ساتھ تھی جبکہ فلم نکے ہندیاں دا پیار (1969) پہلی فلم تھی جس میں اعجاز کی جوڑی نغمہ کے ساتھ بنی تھی۔
اسی سال ریلیز ہونے والی اعجاز کی ایک فلم لچھی (1969) تھی جو میری سینما پر دیکھی ہوئی پہلی فلم تھی۔ میری اگلی تین فلموں ، قول قرار ، عشق نہ پچھے ذات اور زرقا کے ہیرو بھی اعجاز ہی تھے۔ لطف کی بات ہے کہ میرے پہلے فلمی دور میں سب سے زیادہ فلموں کے ہیرو اعجاز تھے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کسی فلمی ہیرو کا تصور ذہن میں آتا ہے تو میرے ذہن میں سب سے پہلے اعجاز کا حلیہ سامنے آجاتا ہے۔
اعجاز کی لازوال فلم ہیر رانجھا (1970)
1970ء کا سال اعجاز کے لیے ایک اور یادگار سال تھا جب پاکستان کی فلمی تاریخ کی سب سے بڑی فلم ہیر رانجھا (1970) ریلیز ہوئی تھی۔ ہدایتکار مسعود پرویز نے عظیم صوفی شاعر وارث شاہؒ کے کلاسیک فن پارے کو احمدراہی کی فلمی تمثیل کی شکل میں سلورسکرین پر پیش کر کے امر کردیا تھا۔
پندرہ برسوں میں اس موضوع پر بنائی جانے والی یہ تیسری فلم تھی۔ ہدایتکار نذیر کی فلم ہیر (1955) اپنے نغمات کی وجہ سے یادگار تھی لیکن اس میں اداکاری کا میعار بڑا کمزور تھا۔ سورن لتا اور عنایت حسین بھٹی نے مرکزی کردار کیے تھے۔ ہدایتکار جعفر بخاری کی فلم ہیرسیال (1965) کی موسیقی اچھی تھی لیکن سپرہٹ نہیں تھی۔ فردوس نے پہلی بار اس فلم میں ہیر کا رول کیا تھا لیکن اکمل کو رانجھے کے کردار میں قبول نہیں کیا گیا تھا۔
ہیر رانجھا (1970) نے ایک ایسا میعار مقرر کر دیا تھا کہ جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ فردوس نے ہیر ، اعجاز نے رانجھے ، اجمل نے کیدو اور منورظریف نے سیدے کھیڑے کے کردار میں انمٹ نقوش مرتب کیے تھے۔ دیگر اداکار بھی اپنے اپنے کرداروں میں فٹ تھے۔ خواجہ خورشید انور کی لازوال موسیقی میں میڈم نورجہاں کی "میں تاں ہو ہو گئی قربان۔۔" نے تاریخ رقم کر دی تھی۔
اس فلم کے فلمساز اعجاز خود تھے جن کی یہ بطور فلم ساز تیسری فلم تھی ، اس سے قبل وہ ، مراد بلوچ (1968) اور دلا حیدری (1969) بنا چکے تھے۔
اعجاز کی پنجابی فلم کا کراچی میں ریکارڈ
1970ء میں کل 12 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں صرف 3 اردو اور 9 پنجابی فلمیں تھیں۔ اعجاز کی بطور ہیرو فلم انورا (1970) پہلی پنجابی فلم تھی جس نے کراچی میں پلاٹینم جوبلی کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور میں یہ فلم صرف سلورجوبلی ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ فلموں کی جوبلی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ کامیاب اور معیاری بھی ہوں ، اس موضوع پر ان شاء اللہ ، کبھی ایک تفصیلی تحقیقی مضمون ہوگا جو ایسی فلموں کی اصلیت بیان کرے گا۔
سجناں دوردیا (1970) ایک اور بہت بڑی نغماتی اور ڈرامائی فلم تھی جس میں اعجاز کی اداکاری بڑے کمال کی تھی۔
اس سال کی فلم دل دیاں لگیاں (1970) میں مسعودرانا کا سپرہٹ گیت "یا اپنا کسے نوں کر لے ، یا آپ کسے دا ہو بیلیا۔۔" اور فلم یار تے پیار (1970) میں ایک اور شاہکار گیت "اوہو بے ایمان فیر چیتے آگیا۔۔" بھی فلمایا گیا تھا۔
اعجاز اور میڈم نورجہاں کی طلاق
1971ء کا سال اعجاز کے لیے 7 فلمیں لے کر آیا تھا۔ اس سال جہاں مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کی وجہ سے فلموں کی ریلیز میں بھی کمی ہوئی تھی وہاں وہ ذاتی مسائل میں الجھے رہے۔ میڈم نورجہاں کو طلاق دینا سب سے بڑا واقعہ تھا جبکہ فردوس کے ساتھ شادی کا ایک مختصر دورانیہ بھی تھا۔ میری یادداشت کے مطابق اعجاز نے اسی سال تیسری شادی ہدایتکار شریف نیر کی لے پالک بیٹی سے کی تھی جو کامیاب رہی تھی۔
اعجاز کی دوسری ڈائمنڈ جوبلی فلم دوستی (1971)
1971ء میں اعجاز کی سب سے بڑی فلم دوستی (1971) ریلیز ہوئی جس کے وہ ، ہیرو اور فلمساز بھی تھے۔ یہ اعجاز کی پہلی اور اکلوتی اردو فلم تھی جس کے فلم ساز بھی وہ خود تھے۔ اس فلم نے کراچی میں سو ہفتے چل کر ان نے ناقدین کے منہ بند کر دیے تھے۔ اس وقت تک اعجاز ، پاکستان کے اکلوتے فلمی ہیرو تھے جن کے کریڈٹ پر دو ڈائمنڈ جوبلی فلمیں تھیں۔ اس فلم میں اعجاز کی ہیروئنیں شبنم اور حسنہ تھیں۔
یہ فلم اپنی موسیقی کی وجہ سے بھی بڑی یادگار فلم تھی۔ اے حمید کی موسیقی میں میڈم نورجہاں کے سبھی گیت سپرہٹ ہوئے جن میں "چٹھی جرا سیاں جی کے نام لکھ دے۔۔" سب سے مقبول گیت تھا۔ اس فلم کے ہدایتکار اعجاز کے سسر شریف نیر تھے۔
اس سال کی دوسری فلم آسوبلا (1971) ایک اور روایتی پنجابی فلم تھی جو سپرہٹ ہوئی تھی۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ راولپنڈی میں عام طور پر کامیاب فلمیں بھی پانچ چھ ہفتوں سے زیادہ نہیں چلتی تھیں لیکن یہ فلم ، ناولٹی سینما پر 22 ہفتے تک چلتی رہی تھی۔ اس کے برعکس فلم ہیر رانجھا (1970) جیسی شاہکار فلم ، اعجاز کے اپنے سنگیت سینما میں صرف سات ہفتے چلی تھی۔
اسی سال کی فلم بندہ بشر (1971) میں غالباً پہلی بار ایک ڈبل ورژن گیت گایا گیا تھا جس کی دھن وجاہت عطرے نے بنائی تھی اور خواجہ پرویز کے لکھے ہوئے اس گیت کو میڈم نورجہاں اور مسعودرانا نے پنجابی اور اردو میں گایا تھا "دوویں رل کے قسماں کھائیے ، دلاں نو ں گواہ رکھئے۔۔" اور "دونوں مل کر قسمیں کھائیں ، دلوں کو گواہ رکھیں۔۔"
1972ء میں اعجاز کی 10 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں 3 اردو اور 7 پنجابی تھیں۔ اس سال کی 2 فلمیں خان چاچا اور سلطان ، بطور روایتی ہیرو اعجاز کی بہت بڑی نغماتی اور ڈرامائی فلمیں تھیں۔ "دلدار صدقے ، لکھ وار صدقے۔۔" جیسا سپرہٹ گیت اعجاز ہی کے لیے گایا گیا تھا۔
اسی سال جہاں فلم بشیرا (1972) نے پنجابی فلموں کا ٹرینڈ بدل دیا تھا اور سلطان راہی کو مرکزی کرداروں میں کاسٹ کیا جانے لگا تھا وہاں روایتی ہیروز اعجاز ، حبیب اور سدھیر وغیرہ کا زوال شروع ہو گیا تھا۔
فلم سلطان (1972) کا مرکزی کردار بھی سلطان راہی نے کیا تھا جو اس سال تک چوٹی کے ولن اداکار بن چکے تھے لیکن اسی سال سے ہیرو اور مرکزی کرداروں میں بھی کاسٹ ہونے لگے تھے۔
اسی سال اعجاز نے بطور فلمساز فلم پنوں دی سسی (1972) بنائی جس میں ان کی ہیروئن سنگیتا تھی۔ اس فلم میں اعجاز پر مسعودرانا کا یہ سپرہٹ گیت فلمایا تھا "اٹھ جاگ نی سسیئے ، ستی ایں ، تیرا لٹیا ای شہر بھنبھور نی۔۔" یہ فلم ناکام رہی اور پھر کافی عرصہ تک انھوں نے کوئی فلم نہیں بنائی۔
اعجاز کے زوال کا دور
1973ء کا سال اعجاز کے عروج کا آخری سال تھا۔ اس سال ان کی آٹھوں فلمیں پنجابی زبان میں تھیں جن میں ضدی (1973) اور بنارسی ٹھگ (1973) بہت بڑی فلمیں تھیں لیکن اعجاز ان میں صرف ایک روایتی ہیرو تھے۔
ضدی (1973) کا ٹائٹل رول یوسف خان نے کیا تھا جنھیں طویل جدوجہد کے بعد اس فلم سے بریک تھرو ملا تھا اور وہ سپرسٹار بن گئے تھے۔
فلم بنارسی ٹھگ (1973) مکمل طور پر منورظریف کی فلم تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک کامیڈین سے چوٹی کے فلمی ہیرو بن گئے تھے۔
زوال کے آخری چار برسوں میں اعجاز کی 9 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ 1974ء میں چار ، 1975ء میں تین اور 1976ء میں بطور روایتی ہیرو کے آخری اور اکلوتی فلم موت کھیڈ جواناں دی (1976) ریلیز ہوئی تھیں۔ اس آخری فلم میں اعجاز پر مسعودرانا کا ایک بڑا دلکش گیت فلمایا گیا تھا "تینوں تکنا واں سوچی پے جانا واں۔۔"
اعجاز کی لندن میں قید
1977ء میں اعجاز کی اپنے پہلے دور کی آخری اور اکلوتی فلم اپریل فول (1977) ریلیز ہوئی جس میں انھوں نے ایک ولن کا رول کیا تھا۔ آسیہ کے ساتھ طارق شاہ فلم کے ہیرو تھے۔
3 مارچ 1978ء کو اعجاز کو فلم ہیررانجھا (1970) کے فلم رولز میں منشیات چھپا کر لندن ائرپورٹ پر پکڑے جانے پر پانچ سال کے لیے جیل کی سزا ہوئی جو انھوں نے 1983ء تک کاٹی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستانی ، منشیات کی سمگلنگ میں بین الاقوامی شہرت رکھتے تھے اور اس مکروہ فعل کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوتی تھی۔
جیل سے واپسی پر انھوں نے پھر فلمسازی کا آغاز کیا اور ایک سپرہٹ فلم شعلے (1984) بنائی جس میں انجمن اور سلطان راہی مرکزی کرداروں تھے جبکہ اعجاز نے اس فلم میں ایک پولیس افسر کا رول کیا تھا۔
اسی سال فلم کلیار (1984) میں اعجاز ، بطور روایتی ہیرو آخری بار انجمن کے مقابل ہیرو تھے۔ ریلیز کے اعتبار سے ان کی آخری فلم جھومر چور (1986) تھی جس میں وہ شبنم اور جاوید شیخ کے مقابل ثانوی کردار میں تھے۔ ان کے علاوہ دو فلموں مولا بخش (1989) اور بازی گر (1996) کے فلم ساز کے طور پر اعجاز کا نام ملتا ہے۔
اعجاز کا پس منظر
اعجاز ، جن کا خاندانی نام اعجاز درانی تھا ، اداکاری اور فلمسازی کے علاوہ "سنگیت پکچرز" اور "پنجاب پکچرز" کے بینر تلے فلم ڈسٹری بیوٹر بھی تھے۔ شاہدرہ (لاہور) اور راولپنڈی کے سنگیت سینماؤں کے مالک بھی تھے۔
1935ء میں ضلع گجرات میں جلال پورجٹاں کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے ، گجرات اور جہلم سے تعلیم حاصل کی۔ بی اے کی ڈگری ہونے کے باوجود اردو تلفظ کسی دیہاتی کی طرح ہوتا تھا لیکن ایک ریڈی میڈ ہیرو تھے ، اس لیے فلم کی ضرورت ہوتے تھے۔
اعدادوشمار ، حقائق کی زبان میں خود بولتے ہیں کہ کوئی کتنا کامیاب یا ناکام ہے اور جب حقائق سامنے ہوں تو کسی کی ذاتی رائے یا خیال قطعاً کوئی اہمیت نہیں رکھتا ، چاہے وہ خود کو کتنا ہی بڑا افلاطون سمجھتا ہو۔۔!
ایک گیت کی ریکارڈنگ کے دوران اعجاز ، مہناز ، مسعودرانا ، کمال احمد اور نسیم حیدر شاہ
(7 اردو گیت ... 23 پنجابی گیت )