A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
مسعود پرویز ، ایک انتہائی قابل احترام نام تھے جنھوں نے بطور ہدایتکار ، انتظار (1956) ، کوئل (1959) اور مرزا جٹ (1967) کے علاوہ ہیررانجھا (1970) جیسی بے مثل فلم بھی بنائی تھی۔
تقسیم سے قبل انھوں نے بطور اداکار تین فلموں میں کام کیا تھا جن میں لاہور میں بننے والی برصغیر کی پہلی گولڈن جوبلی پنجابی فلم منگتی (1942) بھی تھی۔ اس یادگار فلم نے لاہور میں 60 ہفتے چلنے کا اعزاز حاصل کیا تھا اور اس کی ہیروئن ممتاز شانتی تھی جو برصغیر کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی اردو/ہندی فلم قسمت (1943) کی ہیروئن بھی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد 21 فلموں کے ہدایتکار ، 8 فلموں کے فلمساز ، 2 فلموں کے مصنف اور ایک فلم میں دو گیت لکھنے والے شاعر بھی تھے۔ ان کی پہلی فلم بیلی (1950) اور آخری فلم مرزاجٹ (1982) تھی جو انھوں نے دو بار بنائی تھی۔ انھوں نے 13 اردو اور 8 پنجابی فلمیں بنائی تھیں۔
انھیں یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ ایک سرکاری ادارے نیف ڈیک نے سرکاری خرچے پر قومی جذبہ ابھارنے کے لیے ایک تاریخی فلم خاک و خون (1979) بنائی تھی جو معروف ادیب نسیم حجازی کے ناول سے ماخوذ تھی اور اسے بنانے کے لیے ان کا انتخاب کیا گیا تھا۔
اس عظیم فنکار پر ایک تفصیلی مضمون پاکستان فلم میگزین کے سابقہ ورژن میں لکھا جا چکا ہے ، جسے یہاں دھرانے کی ضرورت نہیں۔
مسعود پرویز کا مسعودرانا کے ساتھ پہلی بار فلم سرحد (1966) میں ہوا تھا لیکن پہلا سپرہٹ گیت فلم مرزا جٹ (1967) میں
تھا۔ یہ گیت اتنا مقبول ہوا تھا کہ مسعود پرویز نے اپنی اگلی فلم اس گیت کے بولوں نکے ہندیاں دا پیار (1969) پر بنائی تھی۔ اس فلم میں میڈم نورجہاں کے ساتھ مسعودرانا کا ایک بڑا دلکش دوگانا تھا
فلم یارتے پیار (1970) میں مسعودرانا کا ایک بڑا ہی لاجواب گیت تھا
فلم ہیررانجھا (1970) کا گیت
اور فلم پنوں دی سسی (1972) کا تھیم سانگ
بھی کیا کمال کے گیت تھے۔
مسعود پرویز کی فلم نکے ہندیاں دا پیار (1969) موسیقار وجاہت عطرے کی پہلی فلم تھی جس کے سبھی گیتوں کی موسیقی انھوں نے اکیلے ترتیب دی تھی۔ اس سے قبل انھوں نے اپنے والد رشید عطرے کی بعض ادھوری فلموں کی موسیقی مکمل کی تھی۔ اس فلم میں میڈم نورجہاں کا گایا ہوا ایک میگا ہٹ گیت تھا جو گلی گلی گونجا کرتا تھا:
یہ گیت فلمی صورتحال کے لیے اداکارہ نغمہ پر فلمایا گیا تھا جو ایک ریشمی رومال اپنے محبوب اعجاز کے لیے لاتی ہے اور اس رومانٹک موقع پر گیت نگار احمدراہی نے الفاظ کے موتیوں سے پروہیا ہوا ایک شاہکار گیت لکھا تھا جس کا ایک ایک بول دل کے تار چھیڑ دیتا ہے۔
یہ فلمی منظر میں اپنی عملی زندگی میں دیکھ چکا ہوں جب ایک حسینہ نے اپنی محبت کی یاد کے طور پر ایک بڑا خوبصورت ریشمی رومال دیا تھا جس پر اس نے مختلف رنگوں کے دھاگوں سے رومانٹک اشعار کڑھائی کیے ہوئے تھے جو انتہائی متاثر کن تھے۔
میرے پاس وہ رومال آج بھی محفوظ ہے اور جب کبھی یہ گیت سنتا ہوں تو وہ حسینہ یاد آجاتی ہے جو پانچ سال تک میری زندگی کا ایک حصہ رہی تھی۔
دور نوجوانی کی سہانی یادوں کو تازہ کرنے والی اس حسینہ کو فرضی نام نیلم سے یاد کرتے ہیں ، سکول جاتے ہوئے مجھے ملنے آتی تھی۔ اسے گانے کا بے حد شوق تھا اور ہر ملاقات میں کوئی نہ کوئی گیت سنا جاتی تھی۔ پہلا گیت جو اس نے میرے لیے گایا تھا ، وہ تھا
ایک خوش شکل لڑکی ہونے کے باوجود وہ میرا دل جیتنے میں ناکام رہی تھی اور میں اس سے صرف دل لگی کرتا رہا۔ یہ سلسلہ کئی سال تک چلتا رہا اور بات یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اس کے انتہائی مغرور ماں باپ کی آشیرباد بھی حاصل ہو گئی تھی۔ اس کا باپ جو کبھی میرے سلام کا جواب تک نہیں دیتا تھا ، وہ بھی نظریں جھکا کر اور مسکرا کر ملنے لگا تھا۔ اس کی ماں کسی کے گھر نہیں جاتی تھی لیکن ہمارے گھر آنا شروع کردیا تھا۔ خود نیلم میری غیرموجودگی میں ہمارے گھر آتی اور میری والدہ محترمہ کے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا شروع کردیتی جس پر انھیں شک گزرا کہ وہ اپنے طور پر ہمارے گھر کی مالکن بننے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ انھوں نے ان الفاظ میں پوچھا تھا:
"کتھے کتھے سائیاں لائیاں نی۔۔؟"
جس پر میرا جواب تھا کہ
"فکر نہ کریں ، ایناں تلاں وچ تیل نئیں۔۔"
یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں نیلم سے سنجیدہ نہیں تھا ، اس کی ثابت قدمی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ اکثر وہ یہ گیت میرے سامنے گنگناتی تھی
تنہائی کی ان ملاقاتوں میں ہمارا تعلق بوس و کنار تک جا پہنچا تھا لیکن میری کوشش کے باوجود وہ اس سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ مجھ سے سچی محبت کرتی ہے اور شادی کے بعد سب کچھ میرا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ آبرو باختہ لڑکیوں کی کوئی قدر نہیں کرتا اور نہ ہی ان سے کوئی شادی کرنا پسند کرتا ہے۔ اس کی پاکدامنی اور مضبوط کردار کسی شک و شہبہ سے بالا تر تھا لیکن میں کسی اور منزل کا راہی تھا۔
ایک دن آئی تو میں گھر میں اکیلا تھا۔ اس دن میرے اندر کا اسلم پرویز بے قابو ہو گیا اور اس نازک کلی کو مسل دینے کی پوری کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ جب وہ ہانپتی کانتپی بھاگی تو اردگرد کے کچھ افراد نے دیکھ لیا جن میں میرے چند دوست بھی تھے۔ جب انھیں سارے واقعہ کا علم ہوا تو انھوں نے بڑے شدید الفاظ میں میری چھترول کی تھی ، اس لیے نہیں کہ میں نے یہ حرکت کیوں کی تھی بلکہ اس لیے کہ ناکام کیوں ہوا تھا۔ ایک دوست نے تو میری مردانگی پر سوالیہ نشان تک لگا دیا تھا۔
مجھے اس واقعہ پر بڑی سخت شرمندگی تھی اور یقین ہو گیا تھا کہ وہ دوبارہ کبھی نہیں آئے گی لیکن یہ میری خام خیالی تھی۔ چند دن گزرے تو وہ ایک خوبصورت ریشمی رومال لہراتی گنگناتی آ دھمکی اور میڈم نورجہاں کا سدا بہار گیت
سارے کا سارا سنا دیا۔ اس دوران اس نے میرے ساتھ وہ ساری حرکتیں کیں جو فلم میں نغمہ نے اعجاز کے ساتھ کی تھیں۔ جب اس کا گانا ختم ہوا تو میں نے بڑی حیرت سے پوچھا:
"میں تو سمجھا تھا کہ اس سنگین واقعہ کے بعد تم پھر کبھی نہیں آؤ گی ، لیکن تم پھر آگئیں۔۔؟"
کہنے لگی: "اس واقعہ کے بعد تو میرے دل میں تمہاری محبت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔۔!"
میں نے بڑی حیرت سے پوچھا: "وہ کیسے۔۔؟" جواب ملا:
"جب تم نے مجھے اپنے مضبوط بازوؤں میں دبوچ لیا تھا تو میں مکمل طور پر بے بس ہوگئی تھی۔ اس موقع پر تمہیں اللہ اور رسول ﷺ کا واسطہ دیا تو تم بالکل ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ تم میں ایمان کی حرارت باقی ہے اور میرا انتخاب غلط نہیں ہے۔۔"
وہ بے چاری نجانے کن خوش کن خیالوں میں گم تھی لیکن حالات کے تیور بدل چکے تھے۔ ہمارے ڈنمارک آنے کی تیاری مکمل ہو چکی تھی اور والدصاحب مرحوم و مغفور کا حکم تھا کہ میں پاکستان میں سارے جذباتی تعلقات ختم کر کے آؤں کیونکہ وہ میری شادی یورپ میں مقیم اپنے ایک دوست کے ہاں کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ میں نے آداب فرزندگی بجا لاتے ہوئے نہ صرف اپنی ہونے والی بیوی کو نظر انداز کیا بلکہ آخری دن نیلم سمیت تین لڑکیاں میرے اردگرد مجھ سے یہ وعدہ لینے کی کوشش کر رہی تھیں کہ انھیں بھلاؤں گا تو نہیں۔ ان سب کے لیے میرا ایک ہی جواب تھا جو اس دن میرے لبوں پر مچل رہا تھا:
ڈنمارک آنے کے بعد اگلے چودہ سال تک میں پاکستان نہیں گیا تھا۔ چند سال بعد میری شادی ہوگئی اور اسی لڑکی سے ہوئی جسے میں چاہتا تھا۔ بڑے ڈرامائی انداز میں ہونے والی اس شادی کی ایک الگ داستان ہے۔
جب دوبارہ پاکستان گیا تو تین بچوں کا باپ بھی بن چکا تھا۔ ایک ماہ کے قیام کے دوران ایک دن ایک فوتگی والے گھر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک دروازے پر نیلم کا باپ نظر آیا جو مجھے باہر بلا رہا تھا۔ میں گیا ، اسے سلام کیا لیکن جواب دینے کے بجائے اس نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے صرف یہ جملہ کہا
"تمہیں کوئی ملنا چاہتا ہے۔۔"
دیکھا تو نیلم گود میں ایک شیرخوار بچی اٹھائے اپنی ماں کے ساتھ میری طرف بڑی مشتاق نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ ایک لمحے کے لیے تو بڑا سخت غصہ آیا کہ کتنا بے غیرت شخص ہے جو اپنی جواں سال اور شادی شدہ بیٹی کو اس کے سابقہ محبوب سے ملا رہا ہے لیکن اسے سلام کا جواب دینے کی توفیق نہیں ہے۔
خیر ، اس غیر متوقع صورتحال میں رسم دنیا نبھاتے ہوئے حال احوال پوچھا۔ ساتھ والے گھر میں خواتین جمع تھیں جن میں میری بیگم اور خوشدامن بھی تھیں۔ مجھے باہر گلی میں دیکھ کر آگئیں اور فیصلہ ہوا کہ گھر چلیں ، کافی دیر ہو گئی ہے۔
ہماری دیکھا دیکھی نیلم اور اس کی ماں بھی ہمارے ساتھ چل پڑیں۔ شہر کی چھوٹی چھوٹی گلیوں میں میں اور نیلم آگے آگے اور میری بیگم اپنی ماں اور نیلم کی ماں کے ساتھ چند قدم پیچھے پیچھے آ رہی تھیں۔
نیلم نے میرے سامنے شکایات کا دفتر ہی کھول دیا کہ
"آخر تم بے وفا ہی نکلے ، تم نے میری محبت کی قدر نہیں کی ، میں نے تمہارا بڑا انتظار کیا تھا اور تمہارے انتظار میں کئی سال تک شادی بھی نہیں کی ، وغیرہ وغیرہ۔۔"
میں نے اسے یاددہانی کروائی تھی کہ "میں نے تم سے شادی کا وعدہ کبھی نہیں کیا تھا۔۔" بس سٹینڈ تک پہنچنے تک وہ اپنی وفاؤں اور میری جفاؤں کا شکوہ کرتی رہی۔ میں اس کی توجہ اس کے بچوں کی طرف دلاتا تو وہ پھر واپس موضوع پر آجاتی ، ظاہر ہے کہ عشق میں چوٹ کھائے ہوئے تھی ، احتجاج اس کا حق تھا۔
اس نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت تک دے ڈالی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ
"میں تمہارے گھر کیسے آ سکتا ہوں۔ تمہارے سسرال میں سے کسی ایک کو بھی نہیں جانتا ، صرف تمہیں جانتا ہوں اور تم کس منہ سے میرا تعارف کراؤ گی ، آخر میں تمہارے بچوں کا ماموں بن کر تو نہیں آ سکتا۔۔"
جواب میں جل بھن کر کہنے لگی
"میرے بچوں کے ماموں ہی بن کے آجاؤ ، آؤ تو سہی۔۔"
یہ میرا اس کے ساتھ آخری مکالمہ تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میری بیگم نے بھی شادی سے قبل مجھے ایک رومال دیا تھا جو میرے پاس محفوظ ہے لیکن اس کا رومال ، نیلم کے رومال کا مقابلہ نہیں کرتا۔ اسی وجہ سے میری بیگم ، نیلم کو "رومال والی" کے نام سے یاد کرتی ہے۔
شادی کے بعد بیگم نے پہلی فرمائش جو کی تھی وہ میری ذاتی ڈائریاں پڑھنے کی کی تھی جن میں میں نے اپنے تمام تر کرتوت بڑی تفصیل سے لکھے ہوئے ہیں۔ کسی شریف شوہر کی طرح اپنا نامہ اعمال ، بیگم کے قدموں میں رکھ دیا تھا اور شادی کے بعد کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا۔ میری اسی "شفافیت" اور صاف گوئی کی وجہ سے ہم میں ذہنی ہم آہنگی اور باہمی اعتماد کی فضا قائم رہی۔ سچ تو یہ ہے کہ چار جوان بچوں اور تقریباً چار عشروں کے ساتھ کے بعد آج بھی جب بیگم ، جان کہہ کر بلاتی ہے تو جان میں جان آجاتی ہے۔۔!
1 | فلم ... سرحد ... اردو ... (1966) ... گلوکار: آئرن پروین ، مسعود رانا مع ساتھی ... موسیقی: خواجہ خورشید انور ... شاعر: تنویر نقوی ... اداکار: چھم چھم ، علاؤالدین ، اعجاز مع ساتھی |
2 | فلم ... مرزا جٹ ... پنجابی ... (1967) ... گلوکار: آئرن پروین ، مسعود رانا ... موسیقی: رشید عطرے ... شاعر: احمد راہی ... اداکار: فردوس ، اعجاز |
3 | فلم ... نکے ہندیاں دا پیار ... پنجابی ... (1969) ... گلوکار: مسعود رانا ، نورجہاں ... موسیقی: وجاہت عطرے ... شاعر: احمد راہی ... اداکار: اعجاز ، نغمہ |
4 | فلم ... یار تے پیار ... پنجابی ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: جی اے چشتی ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: اعجاز |
5 | فلم ... ہیر رانجھا ... پنجابی ... (1970) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: خواجہ خورشید انور ... شاعر: احمد راہی ... اداکار: اعجاز |
6 | فلم ... پنوں دی سسی ... پنجابی ... (1972) ... گلوکار: مسعود رانا ... موسیقی: اے حمید ... شاعر: احمد راہی ... اداکار: اعجاز |
7 | فلم ... پنوں دی سسی ... پنجابی ... (1972) ... گلوکار: رونا لیلیٰ ، مسعود رانا ... موسیقی: اے حمید ... شاعر: احمد راہی ... اداکار: سنگیتا ، اعجاز |
8 | فلم ... پنوں دی سسی ... پنجابی ... (1972) ... گلوکار: رونا لیلیٰ ، مسعود رانا ... موسیقی: اے حمید ... شاعر: احمد راہی ... اداکار: ؟؟ |
9 | فلم ... میرا ناں پاٹے خان ... پنجابی ... (1975) ... گلوکار: مسعود رانا ، مہناز ... موسیقی: بخشی وزیر ... شاعر: حزیں قادری ... اداکار: منور ظریف |
1. | 1966: Sarhad(Urdu) |
2. | 1967: Mirza Jatt(Punjabi) |
3. | 1969: Nikkay Hundian Da Pyar(Punjabi) |
4. | 1970: Yaar Tay Pyar(Punjabi) |
5. | 1970: Heer Ranjha(Punjabi) |
6. | 1972: Punnu Di Sassi(Punjabi) |
7. | 1975: Mera Naa Patay Khan(Punjabi) |
1. | Urdu filmSarhadfrom Saturday, 2 April 1966Singer(s): Irene Parveen, Masood Rana & Co., Music: Khawaja Khursheed Anwar, Poet: , Actor(s): ChhamChham, Allauddin, Ejaz & Co. |
2. | Punjabi filmMirza Jattfrom Friday, 24 November 1967Singer(s): Irene Parveen, Masood Rana, Music: Rasheed Attray, Poet: , Actor(s): Firdous, Ejaz |
3. | Punjabi filmNikkay Hundian Da Pyarfrom Friday, 14 February 1969Singer(s): Noorjahan, Masood Rana, Music: Wajahat Attray, Poet: , Actor(s): Ejaz, Naghma |
4. | Punjabi filmYaar Tay Pyarfrom Friday, 27 March 1970Singer(s): Masood Rana, Music: G.A. Chishti, Poet: , Actor(s): Ejaz |
5. | Punjabi filmHeer Ranjhafrom Friday, 19 June 1970Singer(s): Masood Rana, Music: Khawaja Khursheed Anwar, Poet: , Actor(s): Ejaz |
6. | Punjabi filmPunnu Di Sassifrom Friday, 1 September 1972Singer(s): Masood Rana, Runa Laila, Music: A. Hameed, Poet: , Actor(s): Ejaz, Sangeeta |
7. | Punjabi filmPunnu Di Sassifrom Friday, 1 September 1972Singer(s): Masood Rana, Music: A. Hameed, Poet: , Actor(s): Ejaz |
8. | Punjabi filmPunnu Di Sassifrom Friday, 1 September 1972Singer(s): Runa Laila, Masood Rana & Co., Music: A. Hameed, Poet: , Actor(s): ? |
9. | Punjabi filmMera Naa Patay Khanfrom Friday, 21 March 1975Singer(s): Masood Rana, Mehnaz, Music: Bakhshi Wazir, Poet: , Actor(s): Munawar Zarif |
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.